تشکیلِ ذات

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
آپ سب کے خیال میں وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کے ذریعے سے تشکیلِ ذات ہوتی ہے۔۔۔
کوئی سی تین خصوصیات لکھئے جو آپ کے خیال میں ضرور بالضرور ہر انسان میں موجود ہونی چاہیئں۔۔۔
جن کے بغیر ہماری تشکیلِ ذات ممکن نہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
انسان کی تشکیل ذات میں
اخلاق و تواضع
عجز و انکساری
انس و محبت
کے جذبے و صفات اہم مقام رکھتے ہیں ۔
کہ ان جذبوں و صفات کے بنا " اولاد آدم " انسان کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی ۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
دردِدل (علامہ اقبال والا)
خود آگاہی ، یا عرفان ذات کہہ لیں

تیسری تک ابھی میں پہنچا نہیں شاید
جب پہنچا تو ضرور بتاؤں گا

نایاب سائیں سے بھی متفق مگر جو کچھ انہوں نے لکھا ہے یہ سب عرفانِ ذات کا ہی جزو ہیں



اور اب رہ گئی بات
کہ کونسی خصوصیات انسان میں لازمی ہونی چاہییں

سب سے پہلے تو بقول غالبؔ "انسان ہونا"
کیونکہ آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا

اور علامہ اقبال نے اسی شعر کی تضمین کی حضور نبی کریم ﷺ سے منسوب کر کے
کہ

آپ ﷺ کی محبت کی حرارت نہ ہو دل میں
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

جب انسان بن جائے

تو پھر بقول اقبالؒ

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
 
تشکیلِ ذات سے مراد کیا لی گئی ہے، اگر اسکی وضاحت ہوجاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔
اگر اس سے مراد انسان کی شخصیت کا اسکی فطرتِ سلیمہ کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانا، اور اس درجے تک پہنچ جانا جو دینِ اسلام کی رو سے پسندیدہ ہے، اور جسے سعادت شمار کیا جاسکتا ہے، تو اس حوالے سے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے افکار کی روشنی میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ :
انسان میں تین لطائف (Subtle Realities) ہیں۔
1- عقل
2-قلب
3-نفس
عقل کا کام تصدیق کرنا، مختلف امور میں پائے جانے والے باہمی ربط کو سمجھنا اور نتائج اخذ کرنا ہے۔ عقلِ سلیم وہ ہے جو ان تمام امور کی تصدیق کرتی ہے جو انبیائے کرام اور آسمانی کتب سے صادر ہوتے ہیں۔
لطیفہ ِ قلب جذبات کا مخزن ہے،یعنی محبت و نفرت، شکرگذاری، انکساری، خشوع و خضوع، توکل ، عزم و ہمت، شجاعت، رضا و تسلیم وغیرہ ایسے امور ہیں جو قلب کی سرزمین میں نشونما پاتے ہیں۔ قلبِ سلیم وہ ہے جسکے تمام جذبات و احساسات ربِّ ذوالجلال سے وابستہ ہوں۔
نفس کا تعلق حسّی لذّات اور آلام سے ہے،کھانا، پیانا، سونا، توالد و تناسل وغیرہ اسکا میدان ہے اور بنیادی طور پر اسکا مقصد جسمِ انسان کی بقا اور اصلاح ہے۔
چنانچہ انسانی شخصیت کی سعادت اور اعتدال اس میں ہے کہ اسکا نفس ،اسکے قلبِ سلیم کے تابع ہو، اور اسکا قلب، اسکی عقلِ سلیم کے تابع ہو۔
اسکے لئیے موزوں مثال یہ ہے کہ قلب کو بادشاہ سمجھیں، عقل کو وزیر، اور نفس کو حکومتی مشینری اور رعایا کے درجے میں رکھیں۔
 

نیلم

محفلین
سب سے پہلے علم اور پھر اُس پہ عمل کرنے والا ہو
ہمیشہ سچ بولنے والا ہو.کیونکہ جھوٹ ہر بُڑائی کی جڑ ہے.اور
رحم دل ہو .کیونکہ مومن کی پچان ہے کہ وہ رحم دل ہوتاہے.
 

محمد امین

لائبریرین
فلسفیانہ اور صوفیانہ باتوں سے ہٹ کر اگر عام فہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بہت ساری باتیں ہوسکی ہیں۔ کسی تین پر تکیہ کرنا ذرا مشکل ہی ہے۔ اوپر جن افراد نے جو جو بھی ذکر کیا سب کچھ ہی خوب ہے۔
 
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہی کے افکار کا دوبارہ حوالہ دونگا۔ وہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں انبیائے کرام کے ذریعے مخلوق کی راہنمائی اور مختلف زمانوں میں مختلف شریعتیں بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ بنی نوع انسان میں 4 صفات کو اجاگر کیا جائے ۔ اور یہ 4 صفات بنی نوع انسان کی فطرت کا بنیادی تقاضا ہیں اور انکے مناسب طور پر اجاگر ہوجانے میں ہی انسان کی سعادت اور اسکا کمال ہے۔ وہ 4 صفات درج ذیل ہیں:
1- طہارت (ظاہری و باطنی)
2- تمام عالم کا انتظام چلانے والی قوّت یعنی ذاتِ واحد کی جانب نفس کا رجوع (یعنی اللہ کی بارگاہ کی جانب متوجہ ہونا، تواضے اختیار کرنا اور اسکے سامنے سرِ تسلیم خم کردینا)۔
3- عدالت (یعنی ہر معاملے میں وہ پہلو اختیار کرنا جو عدل اور توازن پر مبنی ہو)
4- سماحت (یعنی نفس کی وہ حالت جس میں وہ دنیا کی کسی شئے کے ساتھ اس درجہ مشغول نہ ہو کہ وہ شئے اسکو اپنی گرفت میں لے لے، بلکہ اتنا آزاد ہو کہ ہر شئے کو ترک کردینے پر قادر ہو)
 
Top