تربت امام حسین رضی اللہ عنہ کا معجزہ

عدیل منا

محفلین
میرے علم کے مطابق ہر سال 10 محرم کو یہ مٹی اپنا رنگ تبدیل کر لیتی ہے۔ اس میں کس حد تک سچائی ہے؟

turbat.jpg
 

عدیل منا

محفلین
اس معجزہ کے بارے میں معلومات درکا ر ہیں۔ آپ صاحبان اس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں تو اس پر روشنی ڈالنے کی درخواست ہے۔
یوسف ثانی @ محمود احمدغزنوی شمشاد محمداحمد باباجی فاتح برین ہیکر @نیرنگ خیال وجی @عبدالرزاق قادری @عسکری
@محمد بلال اعظم @محمدعمرفاروق @خرم شہزاد خرم شاکر القادری حسیب نذیر گل @قیصرانی نایاب @اناڑی @حسان خان
 

یوسف-2

محفلین
میری رائے:
  1. مجے نہیں معلوم اس ”خبر“ میں کس حد تک سچائی ہے۔ یہ تو آپ تحقیق کرکے بتلائیں کہ یہ خبر کس حد تک سچی ہے۔
  2. اسلامی تعلیمات کے مطابق ”معجزہ“ صرف انبیا علیہ السلام سے منسوب ہوتا ہے۔ غیر نبی سے منسوب ایسے غیر معمولی واقعات ”کرامات“ کہلاتے ہیں۔
  3. قرآن و صحیح احادیث میں مذکور ”معجزاتِ انبیاء “ پر ”ایمان“ لانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو اس کا ”انکار“ کرے یا اس میں شک و شبہ کا اظہار کرے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
  4. غیر نبی سے منسوب بہت سی ”کرامات“ کچھ حقیقی ہیں اور کچھ عقیدتمندوں کی اپنی ذہنی اختراع۔ اور جو ”حقیقی اور مصدقہ کرامات“ ہیں بھی، اُن کا دینِ اسلام سے اس اعتبارسے کوئی ”تعلق“ نہیں کہ ان پر ”ایمان لانا“ فرضِ عین ہو اور جو ایمان نہ لائے، وہ دائرہ اسلام سے خارج
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف-2

محفلین
عدیل منا بھائی!
ٹیگ لسٹ میں برادرم حسان خان اور عسکری کو دیکھ کر میں نے اسے پُرمزاح ریٹ کیا ہے۔:p حسان بھائی اپنے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ وہ ایک بے دین مسلمان ہیں۔ ان کا آبائی تعلق سنی گھرانے سے ہے جبکہ انہیں ماتم اور تعزیے پسند ہیں۔ عسکری بھائ تو کسی دین وین کو نہیں مانتے وہ ایک عرصہ تک ایتھیسٹ کے نام سے بھی خود کو پیش کرتے رہے ہیں۔ :) کیا آپ کا اُن کو یہاں ٹیگ کرنا پُر مزاح نہیں ہے :p
 

شاکرالقادری

لائبریرین
درست کہا ۔۔۔ اگر یہ بات مصدقہ بھی ہو جائے تو اسے معجزہ نہیں کہنا چاہیئے بلکہ "کرامات" کہا جانا چاہیئے ۔۔۔ اور کرامات یا خوارق عادات سے کسی کو بھی انکا نہیں ہے۔۔۔مجھے اس اطلاع کے مصدقہ یا غیر مصدقہ ہونے کا علم تو نہیں لیکن اتنا ضرور عرض کر سکتا ہوں کہ سانحہ کربلا کے وقت اور اس کے فورا بعد بہت سے ایسے واقعات رو نما ہوئے جن کا ذکر کتب تاریخ اور کتب روایات میں ملتا ہے۔میں یہاں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی مشہور عالم کتاب سرالشہادتین کی شرح تحریرالشہادتین سے کچھ ایسی روایات و واقعات نقل کر تا ہوں۔ جس سے آپ کو اندازہ ہو سکے گا کہ اس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں اور مستند روایات میں انکا ذکر موجود ہے۔

سانحہ کربلا کے بعد رونما ہونے والے عجیب واقعات
سانحۂ کربلا کے بعد مختلف واقعات و حوادث کا بیان کیا جاتا ہے۔جن میں آسمان سے خون کی بارش اور دنیا کا تاریک ہو جانا وغیرہ جیسے واقعات ہیں:
آسمان سےخون برسا
وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ وَاَبُوْ نُعَیْمٍ عَنْ بُصْرَۃَ الْاَزْدِیَّۃِ قَالَتْ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَیْنُ مَطَرَتِ السَّمَائُ دَمًا فَاَصْبَحْنَا وَحِبَابُنَا وَجَرَارُنَاوَکُلُّ شَیْئٍ لَنَا مَلْآنٌ دَمًا۔
بیہقی اور ابو نعیم نے بصرہ ازدیہ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت حسین شہید ہوئے توآسمان سےخون برسا اور صبح کے وقت ہمارے مٹکے ، گھڑے اور تمام برتن خون سے لبالب بھرے ہوئے تھے ۔(۱۲)
بیت المقدس میں ہر پتھر کے نیچے تازہ سرخ خون نکلا
وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ وَاَبُوْ نُعَیْمٍ عَنِ الزَّہْرِی قَالَ بَلَغَنِی اَنَّہُ یَوْمَ قُتِلَ الْحُسَیْنُ لَمْ یُقْلَبْ حَجَرٌ مِنْ اَحْجَارِ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ اِلَّاوُجِدَ تَحْتَہُ دَمٌ عَبِیْطٌ۔(۱۳)
بیہقی اور ابو نعیم نے زہری سے روایت کی ہے : زہری نے کہا : مجھ کو خبر پہنچی کہ جس دن حسین شہید ہوئے بیت المقدس میں جس پتھر کو اٹھا یا جاتا تھا اس کے نیچے تازہ سرخ خون نکلتا تھا ۔
تین دن تک اندھیرا چھایا رہا
وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ عَنْ اُمِ حبَّانَ قَالَتْ یَومَ قُتِلَ الْحُسَیْنُ اَظْلَمَتْ عَلَیْنَا ثَلاثًا وَلَمْ یَمَسَّ مِنَّا اَحَدٌ مِنْ زَعْفَرَانِہِمْ شَیْئًا یَجْعَلُہُ عَلَی وَجْہِہِ اِلَّااِحْتَرَقَ وَلَمْ یُقْلَبْ حَجَرُ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ اِلَّا وُجِدَ تَحْتَہُ دَمٌ عَبِیْطٌ۔(۱۴)
بیہقی نے ام حبان سے روایت کی انہوں نے کہا کہ جس دن حسین شہید ہوئےاس کے بعد تین دن تک اندھیرا چھایا رہا، جس نے منہ پر زعفران ملا اس کا منہ جل گیا اور بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیا اس کے نیچے سے تازہ سرخ خون برآمد ہوا۔
کئی دن تک آسمان روتارہا
وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ مُسْہِرٍ قَالَ حَدَّثَتْنِی جَدَّتِی قَالَتْ کُنْتُ اَیَّامَ قَتْلِ الْحُسَیْنِ جَارِیَۃً شَابَّۃً فَکَانَتِ السَّمَائُ اَیَّامًا تَبْکِی لَہُ۔
اور بیہقی نے علی بن مسھر سے روایت کی کہ اس نے کہا کہ مجھے میری دادی نے بتایاکہ جب امام حسین شہید ہوئے میں نوجوان لڑکی تھی ۔امام عالی مقام کی شہادت کے سانحہ پرکئی دن تک آسمان روتارہا۔
گریہ سماوی کے متعلق مختلف روایات
جاننا چاہیے کہ گریۂ آسمان کے متعلق سلف سے متعدد روایات منقول ہیں۔ چناں چہ ابن جوزیؒ نے ابن سیرینؒ سے روایت کی ہے کہ قتلِ حسینؑ کے دن سے تین روز تک دنیا تاریک رہی۔اس کے بعد آسمان میں سرخی ظاہر ہوئی۔
ثعلبیؒ سے منقول ہے کہ قتلِ حسین پر آسمان رویا اور آسمان کا رونا اس کی سرخی ہے۔منقول ہے کہ آسمان چھ مہینے تک سرخ رہا۔ابن سیرینؒ کہتے ہیں کہ آسمان کے کنارے پر جو سرخیِ شفق ہے یہ قتلِ حسین کے واقعہ کے بعد ظاہر ہوئی۔ اس سے قبل آسمان پر اس سرخی کا وجود نہ تھا۔
ابن سعدؒ سے بھی روایت ہے کہ شفق کی سرخی سید الشہداء کی شہادت سے قبل نظر نہ آتی تھی۔
آسمان کی سرخی غضب خداوندی کی علامت ہے
ابن جوزیؒ کہتے ہیں کہ آسمان کے سرخ ہوجانے میں یہ حکمت ہے کہ جب غصے کی وجہ سے خون جوش میں آتا ہے تو چہرے کی رنگت سرخ ہو جاتی ہے لیکن ذات باری تعالیٰ جو جسم اور دیگر لوازم سے منزہ ہے،نے اپنے غضب کے اظہار کا ذریعہ کنارۂ آسمان کی سرخی کو بنایاتاکہ شفق کی یہ سرخی قاتلانِ حسین کی انتہائے معصیت اور غضب الٰہی کی شدت پر دلیل بن جائے۔
اور بعض کا کہنا ہے کہ قتلِ حسینؑ کے بعد سات روز تک آسمان نے گریہ کیااور آسمان کا یہ رونا اس درجہ تک پہنچ گیا تھا کہ آسمان کی سرخی کے سبب تمام درو دیوار اور عمارتیں بھی زردو سرخ ہو گئیںاور آسمان سے اتنے شہاب برسے کہ ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے ۔اسی طرح قتلِ حسین کے دن آسمان سے خون برساجس کے نشانات ایک عرصے تک زمین پر باقی رہے۔اور جو کپڑا یا لباس اس خون سے رنگین ہوا اس کی سرخی کپڑے کے بوسیدہ اور پارہ پارہ ہونے تک زائل نہ ہوئی۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ قتل حسینؑ کے روز آسمان سے ایسا خون برسا کہ خراسان،شام اور کوفہ کے گلی کوچوں میں آب رواں کی صورت جاری ہو گیا۔
منقول ہے کہ جب امام عالی مقام کے سر مبارک کو دارالامارۃ کوفہ میں لایا گیا اور وہاں رکھا گیا تو دارالامارۃ کی دیواروںسے خون جاری ہوگیا۔
بیت المقدس کے پتھروں کے نیچے سے تازہ اور سرخ خون کا برآمد ہونا اور زعفران کا جلنا رسالہ سر الشہادتین کے متن میں زہری اور ام حبان کی روایات میں مذکور ہے۔
آفتاب کو ایسا گرہن لگا کہ دوپہر کے وقت ستارے ظاہر ہو گئے
روایت ہے کہ شہادت امام عالی مقام کے روز آفتاب کو ایسا گرہن لگا کہ دوپہر کے وقت ستارے ظاہر ہو گئے۔اور لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا کہ قیامت قائم ہو گئی اور علامات قیامت ظاہر ہونے لگیں۔
اونٹوں کا گوشت اندرائن کے پھل جیسا کڑوا ہوگیا
وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ عَنْ جَمِیْلِ بْنِ مُرَّۃَ قَالَ اَصَابُوْا اِبِلًا فِیْ عَسْکَرِالْحُسَیْنِ یَوْمَ قُتِلَ فَنَحَرُوْھَاوَ طَبَخُوْھَا فَصَارَتْ مِثْلَ الْعَلْقَمِ فَمَا اسْتَطَاعُوْا اَنْ یُسِیْغُوْامِنْہَا شَیْئًا۔(۱۵)
بیہقی نے جمیل بن مرہ سے روایت بیان کی ہے:
یزید کے لشکری امام عالی مقام کی شہادت کے بعد آپ کے لشکر کے اونٹ پکڑ کر لے گئے اور انہیں ذبح کر کے پکایا۔ان کا گوشت اندرائن کے پھل جیسا کڑوا تھا۔کسی کو اسے کھانے کی ہمت نہ ہوئی۔
صواعق محرقہ میں منقول ہے کہ ایک قافلہ جو یمن سے عراق کی جانب ورس(۱۶) نامی گھاس لے کر جا رہا تھاعراق کے راستے میں لشکر یزید کے ساتھ ملاتو قافلے کے اونٹوں پر لدا ہوا تمام کا تمام ورس جل کر خاکستر ہوگیا۔بعضوں کا کہنا ہے کہ وہ ورس جو قاتلانِ حسین کے لشکر میں تھا جل کر خاک ہو گیااورجن اونٹوں کو ذبح کیا گیا ان کے گوشت میں سے آگ بھڑک اٹھی۔اور اسی طرح کے دوسرے عبرت انگیز واقعات رونما ہوئے۔
گوشت میں آگ بھڑک اٹھی
اب قاتلانِ امام عالی مقام کے مبتلائے عذاب ہونے کا کچھ ذکر ہوتا ہے:
وَاَخْرَجَ الْبَیھَقِیُّ وَاَبُوْ نُعَیْمٍ عَنْ سُفْیَانَ قَالَ حَدَّثَنِی جَدَّتِیْ قَالَتْ لَقَدْ رَایْتُ الْوَرَسَ عَادَ رمَادًا وَلَقَدْ رَایْتُ اللَّحْمَ کَانَ فِیْہِ النَّارَحَیْنَ قُتِلَ الْحُسَیْنُ۔(۱۷)
بیہقی اور ابونعیم نے سفیان سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا:مجھے میری دادی نے بتایا:جس دن امام حسین شہید ہوئے ورس راکھ ہو گئی اور گوشت میں آگ بھڑک اٹھتی۔
ایک عجیب عذاب
وَاَخْرَجَ اَبُوْ نُعَیْمٍ مِنْ طَرِیْقِ سُفْیَانَ عَنْ جَدَّتِہِ قَالَ شَہِدَ رَجُلَانِ قَتْلَ الْحُسَیْنِ فَاَمَّا اَحَدُھُمَا فَطَالَ ذَکَرُہُ حَتَّی کَانَ یَلُفُّہُ وَاَمَّا الْآخَرَ فَکَانَ یَسْتَقْبِلُ الرَّاوِیَۃَ بِفِیْہِ حَتَّی یَاتِیَ عَلَی اَخِرِھَا فَمَا یَرْویْ۔
ابو نعیم روایت کرتے ہیں :سفیان نے اپنی دادی سے سنا: اس نے کہا: دوآدمی جو قتل حسین میں شریک تھے سو ایک کا آلۂ تناسل اتنا بڑھ گیا تھا کہ اپنی کمر سے باندھ لیتا تھا اور دوسرے کو اتنی پیاس تھی کہ پکھال کی پکھا ل پی جاتا اور اس کی پیاس نہ بجھتی ۔
شہادت امام ؈ پر جنات کا نوحہ
اب کچھ احوال جنات کے نوحہ کے بارے میں:
وَاَخْرَجَ اَبُوْ نُعَیْمٍ عَنْ حَبِیْبِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ الْجِنَّۃَ تَنُوْحُ عَلَی الْحُسَیْنِ وَھِیَ تَقُوْلُ:
مَسَحُ النَّبِیُّ جَبِیْنَہ
فَلَہُ بَرِیْقٌ فِی الْخُدُوْد
اَبَوَاہُ فِیْ عُلْیَا قُرَیْش
وَجَدُّہُ خَیْرُالْجَدُوْد (۱۸)
ابو نعیم نے حبیب بن ثابت سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا:میں نے ایک جنیہ (مونث جن) کو امام حسین پر نوحہ کرتے سنا وہ کہتی تھی:
مَسَحُ النَّبِیُّ جَبِیْنَہ
فَلَہُ بَرِیْقٌ فِی الْخُدُوْد
اَبَوَاہُ فِیْ عُلْیَا قُرَیْش
وَجَدُّہُ خَیْرُ الْجَدُوْد
نبی مکرم ﷺ نے ان کی جبین پرہاتھ پھیرا ۔جس سے ان کے رخساروں پر نور کی لپٹیںاٹھتی تھیں ۔ان کے والدین اشراف قریش میں سے تھے۔ اور ان کے نانا بہترین نانا تھے۔
وَاَخْرَجَ اَبُوْنُعَیْمٍ مِن طَرِیْقِ حَبِیْبِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ مَا سَمِعْتُ نَوْحَ الْجِنِّ مُنْذُ قُبِضَ النَّبِیُّ ﷺ اِلَّا اللَّیْلَۃَ وَمَا اَرَی ابْنِی اِلَّا قَدْ قُتِلَ تَعْنِی الْحُسَیْنِ فَقَالَت لجَارِیَتِھَا اخْرُجِیْ فَاسْئَلِی فَاَخْبَرَتْ اَنَّہُ قَدْ قُتِلَ وَاِذَاالْجِنَّۃُ تَنُوْحُ:
اَلَا یَاعَیْنُ فَاحتفِلِی بجَہْدِ
وَمَنْ یَبْکِی عَلَی الشُّہَدَاءِ بَعْدِی
عَلَی رَہَطٍ تَقُوْدُھُمُ الْمَنَایَا
اِلَی مُتَجَبِّرٍ فِیْ مُلْکِ عَہْدِی (۱۹)
اور ابو نعیم حبیب بن ثابت کے واسطہ سے سیدہ ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں:نبی کریم ﷺ کے انتقال سے آج رات تک میں نے جنات کا نوحہ نہیں سنا۔اور آج رات کے اس نوحے سے میں نے جان لیاکہ میرا بیٹا حسین شہید ہوگیا: پھرحضرت ام سلمہ نے اپنی لونڈی سے فرمایا: تو گھر سے نکل کر پوچھ ۔ تو معلوم ہوا کہ امام حسین شہیدہو گئے ۔ جنات یہ کہہ کر روتے تھے:
ہوسکے جتنا رولے تو اے چشم
کون روئے گا پھر شہیدوں پر
پاس ظالم کے کھینچ کر لائی
موت اے وائے ان عزیزوں کو
منقول ہے ام المومنین سیدہ ام سلمہ ؓ کو جب یہ علم ہوا تو آپ اس قدر روئیں کہ آپ پر غشی طاری ہو گئی۔
وَاَخْرَجَ اَبُوْ نُعَیْمٍ عَنْ مَزِیْدَۃَ بْنِ جَابِرِ الْحَضْرَمِیِّ عَنْ اُمِّہِ قَالَتْ سَمِعْتُ الْجِنَّ تَنُوْحُ عَلَی الْحُسَیْنِ وَھِیَ تَقُوْلُ:
اَبغی حُسَیْنٔ ھَبَلًا
کَانَ حُسَیْنٔ جَبَلًا (۲۰)
ابو نعیم مزیدہ بن جابرحضرمی کےطریق سے ان کی والدہ سے روایت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا:
میں نے جنات کو قتل حسین پر نوحہ کناں پایا وہ ان الفاظ میں نوحہ کر رہے تھے:
ہوئے شہید سناؤں تمہیں بدیدۂ تر
حسین کوہِ رضاصبر و شکر کے پیکر
جنات کے نوحےاہل بدعت کی طرح مذموم نوحے نہ تھے
جان لینا چاہیے کہ جنات کے یہ نوحے جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے اس غرض سے تھے کہ امام عالی مقام کے خصائل و اوصاف حمیدہ کا ذکر ہونہ کہ اہل بدعت کی طرح مذموم نوحے تھے جن پر احادیث صحیحہ میں وعید وارد ہوئی ہے۔
غیبی قلم نے خون سے تحریر لکھی
وَاَخْرَجَ اَبُوْ نُعَیْمٍ مِنْ طَرِیْقِ ابْنِ لھِیْعَۃَ عَنْ اَبِیْ قُنْبُلِ قَالَ لَمَّا قُتِلَ الْحُسَیْنُ اِجْتَزُّوا رَاْسَہُ وَقَعَدُوْا فِیْ اَوَّلِ مَرْحَلَۃٍ یَشْرَبُوْنَ النَّبِیْذَ فَخَرَجَ عَلَیْہِمْ قَلَمٌ مِنْ حَدِیْدٍ فَکَتَبَ سَطْرًا بِدَمٍ۔
اَتَرْجُوْا اُمَۃً قَتَلَتْ حُسَیْنًا
شَفَاعَۃَ جَدِّہِ یَوْمَ الْحِسَابِ(۲۱)
اور ابو نعیم نے ابن لہیعہ کے طریق سے ابوقنبل سے روایت کیا ہے:
جب امام حسین ؑ شہید کر دیے گئے اور قاتلین سر مبارک کو کاٹ کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔قاتلین پہلی منزل پر بیٹھ کر نبیذ پی رہے تھے کہ ان کے سامنے غیب سے ایک آہنی قلم نمودار ہوا جس نے خون سے یہ تحریر لکھی:
شبیر کے قاتل کیا فردائے قیامت میں
امید بھی رکھتے ہیں نانا کی شفاعت کی
یعنی سید الشہداء ؈ کا سر مبارک کاٹ کر دارالامارۃ شام میں یزید بن معاویہ کے پاس لے جارہے تھے۔جوں ہی پہلی منزل پر پہنچے اور شراب نوشی میں مشغول ہوئے تو دیکھا غیب سے لوہے کا ایک قلم برآمد ہوا اور ایک شعر خون سے لکھا ۔
ایک راہب کی عقیدت اور مسلمان ہونا
اور بعض روایات میں ہے کہ جب خواتینِ اہل بیت کو اونٹوں پر سوار کرایا گیا اور مظلوموں کے سروں کو نیزوں پر چڑھا کر شام کی طرف روانہ ہوئے تو ایک منزل پر کلیسا کے قریب قیام کیا تو دیکھا کہ کلیسا کی دیوار پر یہ شعر مرقوم تھا۔اس کلیسا کے راہب سے پوچھا گیا کہ یہ شعر لکھنے والاکون شخص ہے۔تو راہب نے بتایا کہ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ شعر اس دیوار پر تمہارے نبی (ﷺ) کی بعثت سے پانچ سو سال پہلے سے لکھا ہوا ہے۔(۲۲)اور بعض کہتے ہیں کہ کلیسا کی دیوار میں شگاف نمودار ہوااور ایک غیبی قلم بردار ہاتھ اس شگاف میں سے باہر آیا اور خون کے ساتھ دیوار پر یہ شعر لکھا۔
راہب نے دس ہزار درہم میں سراطہر کو حاصل کیا
کہا جاتا ہے کہ جب راہب کو اسیرانِ اہل بیت کا حال معلوم ہوا اوراس نے نیزے پر امام عالی مقام کے سرمبا رک کو ملاحظہ کیا تو اپنے آپ سے کہنے لگا:اس قوم کے لوگ کتنے برے ہیں کہ اپنے نبی کے بیٹے کو مار ڈالااور اس کے اہل بیت کو ذلیل و خوار کر دیا۔اور اشقیاء کی اس جماعت سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:مجھ سے دس ہزار درہم لے لو اور یہ سر جو تم نے نیزے پر چڑھا رکھا ہے میرے حوالے کر دو۔یزیدی جو کہ انتہاء درجہ کے حریص اور لالچی تھے انہوں نے یہ پیش کش قبول کر لی۔چناں چہ راہب نے ان سے سر مبارک کو لے لیا اور کلیسا کے اندر خلوت گاہ میں لے جا کر غسل دیااور خوشبو لگا کر اپنے زانو پر رکھا اور انوار خداوندی کے جمال کا مشاہدہ کرنے لگا۔
اور راہب کا دل نور ایمان سے بھر گیا
راہب بچشم خود ملاحظہ کر رہا تھا کہ سر مبارک سے لے کر آسمان تک انوارِتجلیات کا ایک ایسا سلسلہ تھا جس کا ذکر محال ہے۔اسی طرح تمام رات سر مبارک پر آسمان سے نور کی بارش ہوتی رہی اور راہب ملاحظہ کرتا رہا۔یہاں تک کہ مسلمان ہو گیااور اپنے دل کو نورِ ایمان سے جلا بخشتے ہوئے اپنی بقیہ زندگی احکامِ اسلام کے مطابق محبت و ولائے اہل بیت میں گزار دی۔
دس ہزار درہم خاکستر ہو گئے
راہب نے وعدے کے مطابق دس ہزار درہم ان بدبختوں کے حوالے کر دیے۔جب ان بد مآل لشکریوں نے یہ درہم آپس میں تقسیم کرنے کی غرض سے تھیلی سے نکالے تو وہ تمام کے تمام درہم خاکستر بن کر ٹھیکریوں کی شکل اختیار کر چکے تھے اور ہر درہم کے ایک رخ پریہ آیہ شریف تحریر تھی:
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ(۲۳)
اور دوسری جانب آیت کریمہ :
وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ۔تحریر تھی۔ (۲۴)
امام عالی مقام کے سر مبارک کی بزبانِ فصیح گفتگو:
احباب بصیرت اور اصحاب معرفت سے یہ امر پوشیدہ نہیں ہو گا کہ یہ تمام آثارِ عجیبہ اور شواہد غریبہ جن کا ذکر ہوا ہے واقعۂ کربلا اور شہادت سید الشہداء کی عظمت کی روشن دلیلیں ہیں۔لیکن ایک ایسی عجیب بات جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے :
وَاَخْرَجَ اِبْنُ عَسَاکِرٍ عَن الْمِنْھَالِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ اَنَا وَاﷲِ رَایْتُ رَاْسَ الْحُسَیْنَ حِیْنَ حُمِلَ وَاَنَا بِدَمِشْقَ وَبَیْنَ یَدَیِ الرَّاْسِ رَجُلٌ یَقْرَاُسُوْرَۃَ الْکَھْفِ حَتَّی بَلَغَ قَوْلَہُ تَعَالٰی اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحَابَ الْکَہْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ آیَاتِنَا عَجَبًا فَانْطَقَ اﷲُ الرَّاْسَ بِلِسَانٍ ذَرِبٍ فَقَالَ اَعْجَبَ مِنْ اَصْحَابِ الْکَھْفِ قَتْلِیْ وَحَمْلِیْ۔
ابن عساکر منہال بن عمرو سے روایت کرتے ہیں :
اللہ کی قسم میں نے شہر دمشق میں سر حسین کو دیکھا جسے نیزہ بردار لیے جا رہے تھے ۔سر مبارک کے آگے ایک شخص سورہ کہف کی تلاوت کررہا تھا جب وہ اس آیت پر پہنچا۔
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحَابَ الْکَہْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ آیَاتِنَا عَجَبًا ۔(۲۵)
تو اللہ تعالیٰ نے سر مبارک کو گویائی عطا فرمائی اور اس نے بزبان فصیح کہا:
اصحاب کہف کے قصہ سے عجیب تر میرا قتل کیا جانا اورمیرے سر کا نیزہ پر اٹھایا جانا ہے۔
سانحہ کربلااصحاب کہف کے واقعہ سے عجیب تر ہے
اصحاب کہف کا قصہ یہ ہے کہ وہ تین سو نو ۳۰۹سال تک ایک غار میں سوئے رہے ۔جب وہ بیدار ہوئے تو ان کا خیال تھا کہ وہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سوتے رہے ہیں۔یہ عجائبات قدرت میں سے ایک ہے۔جیسا کہ اس قصہ کی تفصیلات کتبِ تفسیر و احادیث اور تاریخ میں مذکور ہیں۔لیکن سید الشہداء کا قتل اور ان کے سر مبارک کا نیزہ پر اٹھا کر لے جایا جانا قصۂ اصحابِ کہف سے بھی عجیب تر ہے۔
کیا یہ بات عجیب نہیں ہے کہ یزیدی جماعت نے کلمۂ شہادت کے ذریعے اقرار ِنبوت و ختم رسالت کے باوجود اپنی دنیاوی لالچ اور جاہ و حشم کی خاطر فرزندِ رسول،جگر گوشۂ بتول کو بے سروسامانی کے عالم میں قتل کر دیا۔اور خاندانِ نبوت کو حوادث و آفات سے دوچار کیااور نوجوانانِ بہشت کے سردار کے سر مبارک کو خنجر وتیغ سے کاٹ کر نیزے پر سوار کیا۔اور سرا پردۂ نبوی ﷺ کی عفت مآب مستورات کو بے پردہ اونٹوں کی پشت پر سوار کر کے شہر بہ شہر قریہ بہ قریہ سفر کرایا۔اور جو کچھ ظلم ان ظالموں نے اہل بیتِ نبوت کے سروں پر ڈھائے ان کی ہلکی سی جھلک تحریر کی گئی ہے۔اس کے باوجود وہ اسلام کے مدعی تھے اور اپنے آپ کو مومن و مسلمان ظاہر کرتے تھے۔
فاعتبروا یا اولی الالباب(۲۶)
ان ھذا لشیء عجاب

اللھم صلی علی محمدوعلیٰ آل محمدوبارک وسلم
















حواشی و توضیحات
۱۔ طبرانی کی مکمل روایت درج ذیل ہے:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ رِشْدِينَ الْمِصْرِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: دَخَلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوحَى إِلَيْهِ، فَنَزَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنْكَبٌّ، وَلَعِبَ عَلَى ظَهْرِهِ، فَقَالَ جِبْرِيلُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتُحِبُّهُ يَا مُحَمَّدُ؟ قَالَ: «يَا جِبْرِيلُ، وَمَا لِي لَا أُحِبُّ ابْنِي» . قَالَ: فَإِنَّ أُمَّتَكَ سَتَقْتُلُهُ مِنْ بَعْدِكَ. فَمَدَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَدَهُ، فَأَتَاهُ بِتُرْبَةٍ بَيْضَاءَ، فَقَالَ: فِي هَذِهِ الْأَرْضِ يُقْتَلُ ابْنُكَ هَذَا يَا مُحَمَّدُ، وَاسْمُهَا الطَّفُّ. فَلَمَّا ذَهَبَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتُّرْبَةُ فِي يَدِهِ يَبْكِي، فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ، إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَخْبَرَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ ابْنِي مَقْتُولٌ فِي أَرْضِ الطَّفِّ، وَأَنَّ أُمَّتِي سَتُفْتَتَنُ بَعْدِي» . ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عَلِيٌّ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَحُذَيْفَةُ وَعَمَّارٌ وَأَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَهُوَ يَبْكِي، فَقَالُوا: مَا يُبْكِيكَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَقَالَ: «أَخْبَرَنِي جِبْرِيلُ أَنَّ ابْنِي الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بَعْدِي بِأَرْضِ الطَّفِّ، وَجَاءَنِي بِهَذِهِ التُّرْبَةِ، وَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهَا مَضْجَعَهُ»
طبرانی ، المعجم الکبیر، حدیث نمبر: ۲۸۱۴، ج:۳، ص: ۱۰۷،ناشر، مکتبہ ابن تیمیۃ، قاہرہ
۲۔ احمد بن حنبل ، فضائل الصحابۃ ، ۷۸۲:۲حدیث نمبر: ۱۳۹۱
طبرانی، معجم الکبیر ۱۰۸:۳ ،حدیث نمبر:: ۲۸۱۹
ھیثمی، مجمع الزوائد، ۱۸۹:۹
۳۔ حاکم ،المستدرک علی الصحیحین، ۴۴۰:۴حدیث نمبر:: ۸۲۰۲
شیبانی، الآحاد والمثانی ,۳۱۰:۱حدیث نمبر:: ۴۲۹۰
ذھبی، سیر اعلام النبلاء، ۲۸۹:۳
۴۔ الطبرانی ، المعجم الکبیر،۱۰۵:۳، حدیث نمبر: ۲۸۰۷
خطیب بغدادی ، تاریخ بغداد،۱۴۲:۱
ھیثمی، مجمع الزوائد ۱۹۰:۹
۵۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق، حدیث نمبر: ۱۱۵۸۲، مطبوعہ: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزيع
۶۔ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثنا أَبُو مُسْلِمٍ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ، ثنا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، ثنا عَامِرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " مَا كُنَّا نَشُكُّ وَأَهْلُ الْبَيْتِ مُتَوَافِرُونَ أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ يُقْتَلُ بِالطَّفِّ "۔۔ ))
حاکم: المستدرک علی الصحیحین،۳: ۱۷۹، حدیث نمبر:۴۷۷۲، مطبوعہ:دارالکتب العلمیۃ البیروت
۷۔ عبداللہ ابن عمرؓ نے امام عالی مقام کو سفر کربلا سے روکنا چاہا مگر آپ نے اپنا ارادہ ترک نہ فرمایا جس پر عبداللہ ابن عمرؓ نے فرمایا تھا: اے شہید ہونے والے تمہیں اﷲ تعالی کے سپرد کرتا ہوں۔ عبداللہ ابن عمر کا یہ کلمہ تاسف کئی وجوہات کی بنا پر تھا۔اول یہ کہ مخبر صادقؐ کی دی ہوئی خبروں کے مطابق بہت پہلے سے ہی امام عالی مقام کی شہادت کی خبر کا شہرہ ہو چکا تھا۔ دوم یہ کہ ا ہل کوفہ کی بدعہدی اور بے وفائی ضرب المثل تھی۔ سوم یہ کہ امام عالی مقام کی بے سروسامانی بھی اسی بات کی غماز تھی۔ انہی وجوہات کی بنا پر عبداللہ بن عمر؄ یہ کلمات تاسف زبان پر لائے۔ اس کے باوجود عبداللہ ابن عمرؓ کو یہ یقین نہ تھا کہ امامؑ کی شہادت اسی سفر میں واقع ہو جائے گی۔ اگر انہیں یقین ہوتا تو وہ کبھی اس سفر میں امامؑ کی رفاقت کی سعادت سے محروم نہ رہتے(حاشیۂ سرالشہادتین از مولانا سلات اللہ کشفی(
۸۔ حاشیہ:متن کے اختلاف کے ساتھ یہ روایت بہت سی کتب میں آئی ہے اور قریبا ۱۲۶ مختلف اسانید کے ساتھ ذکر کی گئی ہے۔ اس کا درجہ صحیح لغیرہ کا ہےیہاںمصنف ابن ابی شیبہ کا متن درج کیا جا رہا ہے۔ جو مذکورہ متن سے قریب ترین ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قال: حَدَّثَنِي شُرَحْبِيلُ بْنُ مُدْرِكٍ الْجُعْفِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نجيٍّ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّهُ سَافَرَ مَعَ عَلِيٍّ، وَكَانَ صَاحِبَ مَطْهَرَتِهِ، حَتَّى حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ فَنَادَى: صَبْرًا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، صَبْرًا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: مَاذَا؟ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ؟، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لِعَيْنَيْك تَفِيضَانِ؟ أَغْضَبَك أَحَدٌ؟ قَالَ: " قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ أَنْ فَاضَتَا "
مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفتن، باب: من کرہ الخروج فی الفتنۃ و تعوذ منھا، حدیث نمبر:۳۶۶۵
۹۔ "فئۃ" کی جگہ "فتیۃ" کے الفاظ ہیں۔
۱۰۔ فَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشَّافِعِيُّ مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ شَدَّادٍ الْمِسْمَعِيُّ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " أَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِنِّي قَتَلْتُ بِيَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا سَبْعِينَ أَلْفًا، وَإِنِّي قَاتِلٌ بِابْنِ ابْنَتِكَ سَبْعِينَ أَلْفًا وَسَبْعِينَ أَلْفًا "، وَقَدْ رَوَاهُ حُمَيْدُ بْنُ الرَّبِيعِ الْخَزَّازُ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ
حاکم: المستدرک علی الصحیحین،ج:۲، ص: ۵۹۰،حدیث نمبر:۴۰۸۳،دارالعلمیۃ ، بیروت
۱۱۔ مسند احمد بن حنبل کی مکمل روایت یوں ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ فِي الْمَنَامِ بِنِصْفِ النَّهَارِ، أَشْعَثَ أَغْبَر، مَعَهُ قَارُورَةٌ فِيهَا دَمٌ يَلْتَقِطُهُ، أَوْ يَتَتَبَّعُ فِيهَا شَيْئًا، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذَا؟ قَالَ: " دَمُ الْحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ، لَمْ أَزَلْ أَتَتَبَّعُهُ مُنْذُ الْيَوْمَ "، قَالَ عَمَّارٌ: فَحَفِظْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ، فَوَجَدْنَاهُ قُتِلَ ذَلِكَ الْيَوْمَ
احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل: ۲۸۳:۱، حدیث نمبر:۲۵۵۳
خطیب بغدادی ، تاریخ بغداد۱۴۲:۱
عسقلانی:تہذیب التہذیب ،۳۰۶:۲،۱۴۲:۱
ابن عبدالبر: الاستیعاب: ۳۹۶:۱
۱۲۔ اس روایت کو امام ترمذی نے اپنی کتاب میں بھی بیان کیا ہے اور اسے غریب کہا ہے۔کیوں کہ اس کی راویہ صرف ام سلمۃ ہی ہیں۔ امام حاکم کی مکمل روایت درج ذیل ہے۔
أَخْبَرَنِي أَبُو الْقَاسِمِ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّكُونِيُّ بِالْكُوفَةِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، حَدَّثَنِي زُرَيْقٌ، حَدَّثَنِي سَلْمَانُ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآَلِهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ يَبْكِي، وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا "
حاکم، المستدرک علی الصحیحین، ج: ۴، ص: ۱۹، حدیث نمبر::۶۸۰۲،مطبوعہ: دارالکتب العلمیہ ، بیروت
۱۳۔ حاشیہ: بیہقی کی مکمل روایت یوں ہے:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَتْنَا أُمُّ شَوْقٍ الْعَبْديَّةُ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي نَضْرَةُ الأَزْدِيَّةِ، قَالَتْ: " لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ مَطَرَتِ السَّمَاءُ دَمًا، فَأَصْبَحْتُ وَكُلُّ شَيْءٍ مَلآنُ دَمًا "
بیہقی: دلائل النبوۃ ، ج: ۶،ص: ۴۷۱، حدیث نمبر: ۲۸۱۲، مطبوعہ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت
۱۴۔ حاشیہ: بیہقی کی مکمل روایت یوں ہے:
وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، قَالَ: أَوَّلُ مَا عُرِفَ الزُّهْرِيُّ تَكَلَّمَ فِي مَجْلِسِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، فَقَالَ الْوَلِيدُ: أَيُّكُمْ يَعْلَمُ مَا فَعَلَتْ أَحْجَارُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ يَوْمَ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الزُّهْرِيُّ: بَلَغَنِي أَنَّهُ " لَمْ يُقْلَبْ حَجَرٌ إِلا وُجِدَ تَحْتَهُ دَمٌ عَبِيطٌ "
بیہقی: دلائل النبوۃ، ج: ۶،ص:۴۷۱، حدیث نمبر::۲۸۱۴،مطبوعہ:دارالکتب العلمیۃ ، بیروت
۱۵۔ اسی روایت کو یوسف المزی نےاپنی کتاب تہذیب الکمال میں درج کیا ہے۔روایت درج ذیل ہے:
وقال يعقوب بْن سفيان الفارسي: حدثني أيوب بْن مُحَمَّد الرقي، قال: حدثنا سلام بْن سليمان الثقفي، عن زيد بْن عمرو الكندي، قال: حدثتني أم حيان، قالت: يوم قتل الحسين أظلمت علينا ثلاثا ولم يمس أحد من زعفرانهم شيئا فجعله على وجهه إلا احترق، ولم يقلب حجرا ببيت المقدس إلا أصيب تحته دم عبيط
یوسف المزی: تہذیب الکمال، ص: ۱۰۰۲، حدیث نمبر:۵۵۶، مطبوعہ: موسسۃ الرسالۃ ، بیروت، لبنان
۱۶۔ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ مُرَّةَ، قَالَ: " أَصَابُوا إِبِلا فِي عَسْكَرِ الْحُسَيْنِ يَوْمَ قُتِلَ فَنَحَرُوهَا وَطَبَخُوهَا، قَالَ: فَصَارَتْ مِثْلَ الْعَلْقَمِ، فَمَا اسْتَطَاعُوا أَنْ يَسِيغُوا مِنْهَا شَيْئًا "
بیہقی، دلائل النبوۃ،ج:۶،ص: ۴۷۲،حدیث نمبر::۲۸۱۶، مطبوعہ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت
۱۷۔ ورس فتح اول اور سکون ثانی کے ساتھ ایک قسم کی برنگ زرد گھاس ہے۔جو یمن کے علاقہ میں بکثرت پائی جاتی ہے اور وہیں سے دوسری جگہوں پر لائی جاتی ہے۔ اس کا پودا کنجد(تل) کے پودے کی طرح ہوتا ہے۔
۱۸۔ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي، قَالَتْ: " لَقَدْ رَأَيْتُ الْوَرْسَ عَادَ رَمَادًا، وَلَقَدْ رَأَيْتُ اللَّحْمَ كَأَنَّ فِيهِ النَّارَ حِينَ قُتِلَ الْحُسَيْنُ
بیہقی، دلائل النبوۃ،ج:۶،ص: ۴۷۲،حدیث نمبر::۲۸۱۵، مطبوعہ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت
۱۹۔ یہ روایت درج ذیل ہے:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَلَاءِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ الشَّاهِ الصُّعَدِيُّ الْخَطِيبُ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ بِأَصْفَهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ حِبَّانَ، إِمْلَاءً، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مَنْدَهْ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ، قَالَتْ: أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِلَى قُرَى الْأَنْصَارِ الَّتِي حَوْلَ الْمَدِينَةِ: " مَنْ كَانَ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، وَمَنْ كَانَ مُفْطِرًا بَقِيَّةَ يَوْمِهِ "، وَكُنَّا بَعْدُ نَصُومُهُ، وَيَصُومُ الصِّبْيَانُ، وَنَذْهَبُ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَنَجْعَلُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ الصُّوفِ الْمُلَوَّنِ فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ، أَعْطَيْنَاهُ إِيَّاهُ، حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ شَاهِينَ الْوَاعِظُ، بِقِرَاءَتِي عَلَيْهِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الرُّوَاحِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو زِيَادٍ الْفُقَيْمِيُّ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ الْكَلْبِيُّ، قَالَ: كَانَ الْجَصَّاصُونَ يَنْزِلُونَ إِلَى الْجَبَّانَةِ حِينَ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، فَيَسْمَعُونَ نَوْحَ الْجِنِّ عَلَى الْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَهُمْ يَقُولُونَ:
مَسَحَ الرَّسُولُ جَبِينَهُ
فَلَهُ بَرِيقٌ فِي الْخُدُودِ
أَبَوَاهُ مِنْ عُلْيَا قُرَيْشٍ
جَدُّهُ خَيْرُ الْجُدُودِ
الشجری:یحییٰ بن الحسین الشجری الجرجانی، الامالی الخمیسیۃ للشجری،ص: ۵۹۱، حدیث نمبر: ۱۳۲۲مطبوعہ: الکتب الغلمیۃ، بیروت، لبنان
۲۰۔ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبَّادٍ الْخَطَّابِيُّ، ثنا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: " مَا سُمِعَتْ نَوْحَ الْجِنِّ مُنْذُ قُبِضَ النَّبِيُّ إِلا اللَّيْلَةَ، وَمَا أَرَى ابْنِي إِلا قَدْ قُتِلَ "، تَعْنِي الْحُسَيْنَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَقَالَتْ لِجَارِيَتِهَا: " اخْرُجِي فَسَلِي "، فَأُخْبِرَتْ أَنَّهُ قَدْ قُتِلَ، وَإِذَا جِنِّيَّةٌ تَنُوحُ:
أَلا يَا عَيْنُ فَاحْتَفِلِي بِجَهْدِ
وَمَنْ يَبْكِي عَلَى الشُهَدَاءِ بَعْدِي
عَلَى رَهْطٍ تَقُودُهُمُ الْمَنَايَا
إِلَى مُتَحَيِّرٍ فِي مُلْكِ عَبْدِ
الطبرانی:سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر،ص:۸۰۴،حدیث نمبر:۲۸۰۰،مطبوعہ: مکتبۃ العلوم والحکم ، الموصل
۲۱۔ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ السَّرَّاجُ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَفٍ، ثنا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ النُّعْمَانِ، ثنا عَبْدَ اللَّهِ بْنُ مَيْسَرَةَ أَبُو لَيْلَى، عَنْ مَزِيدَةَ بْنِ جَابِرٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: " سُمِعَتِ الْجِنُّ، تَنُوحُ عَلَى الْحُسَيْنِ، تَقُولُ:
أَبَغَى حُسَيْنٌ هَبَلا كَانَ حُسَيْنٌ جَبَلا
ابو نعیم: ابو نعیم الاصبھانی، معرفۃ الصحابۃ، ص: ۵۹۹، حدیث نمبر::۱۶۹۳، مطبوعہ:دارالکتب العلمیہ، بیروت
۲۲۔وَعَنْ أَبِي قَبِيلٍ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ احْتَزُّوا رَأْسَهُ وَقَعَدُوا فِي أَوَّلِ مَرْحَلَةِ يَشْرَبُونَ النَّبِيذَ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ قَلَمٌ مِنْ حَدِيدٍ مِنْ حَائِطٍ فَكَتَبَ بِسَطْرِ دَمٍ:
أَتَرْجُو أُمَّةٌ قَتَلَتْ حُسَيْنًا
شَفَاعَةَ جَدِّهِ يَوْمَ الْحِسَابِ
ذھبی:تاریخ الذھبی،ص:۱۰۵۹دارلنشر الکتاب العربیۃ، بیروت
۲۳۔ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ بِالْكُوفَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الثَّعْلَبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ يَمَانٍ، عَنْ إِمَامٍ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ أَشْيَاخٍ لَهُ غَزُوا بِلَادَ الرُّومِ، قَالُوا: وَجَدْنَا فِي كَنِيسَةٍ مِنْ كَنَائِسِ الرُّومِ مَكْتُوبًا:
أَيَرْجُو مَعْشَرًا قَتَلُوا حُسَيْنًا شَفَاعَةَ جَدِّهِ يَوْمَ الْحِسَابِ
قَالَ قُلْتُ لِلرُّومِ: مَتَى كُتِبَ هَذَا فِي كَنِيسَتِكُمْ؟ قَالُوا: قَبْلَ أَنْ يُبْعَثْ نَبِيِّكُمْ بِثَلاثِ مِائَةِ عَامٍ.
الشجری، الامالی الخمیسیۃ للشجری،ص:۵۹۱،حدیث نمبر:۱۳۲۲،مطبوعہ: الکتب العلمیۃ، بیروت
۲۴۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ﴿ابراهيم: ٤٢﴾
۲۵۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ ﴿الشعراء: ٢٢٧﴾
۲۶۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا ﴿الكهف: ٩﴾
 

عسکری

معطل
عدیل منا بھائی!
ٹیگ لسٹ میں برادرم حسان خان اور عسکری کو دیکھ کر میں نے اسے پُرمزاح ریٹ کیا ہے۔:p حسان بھائی اپنے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ وہ ایک بے دین مسلمان ہیں۔ ان کا آبائی تعلق سنی گھرانے سے ہے جبکہ انہیں ماتم اور تعزیے پسند ہیں۔ عسکری بھائ تو کسی دین وین کو نہیں مانتے وہ ایک عرصہ تک ایتھیسٹ کے نام سے بھی خود کو پیش کرتے رہے ہیں۔ :) کیا آپ کا اُن کو یہاں ٹیگ کرنا پُر مزاح نہیں ہے :p
تو کیا ہوا انسان تو ہیں نا :p
 

عثمان

محفلین
کیمیائی تجزیے میں یہ کیسے ثابت ہو گا کہ اس مٹی میں خون کسی نے خود شامل نہیں کیا؟
کیمیائی تجزیہ کا ایک حصہ فورینزک ٹیسٹ پر مشتمل ہوگا۔ جس سے یہ پتا لگایا جائے گا کہ آیا خون تازہ ہے ؟ کس کا ہے ؟ کب شامل ہوا؟
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بلکہ خون کا خون اور کرامت کی کرامت ہو جائے گی۔
 

فاتح

لائبریرین
کیمیائی تجزیہ کا ایک حصہ فورینزک ٹیسٹ پر مشتمل ہوگا۔ جس سے یہ پتا لگایا جائے گا کہ آیا خون تازہ ہے ؟ کس کا ہے ؟ کب شامل ہوا؟
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بلکہ خون کا خون اور کرامت کی کرامت ہو جائے گی۔
بھئی تو یہ کس نے کہا کہ باسی خون ہے یا بھیڑ بکری کا ہے یا انسان کا؟
بلکہ اوپر لکھی گئی روایات میں "تازہ" خون کا ہی ذکر ہے۔۔۔
بیت المقدس میں ہر پتھر کے نیچے تازہ سرخ خون نکلا
اب بتائیں کون سا فورینسک ٹیسٹ کروائیں گے؟ نیز یہ معلوم بھی ہو جائے کہ خون تازہ ہے ؟ کس کا ہے ؟ کب شامل ہوا؟ وغیرہ وغیرہ تب بھی کیا فرق پڑے گا "مصدقہ ایمان افروز معجزے" کی صحت پر؟ :)
 

فاتح

لائبریرین
اول تو اصل دعوے دار (یعنی جس نے یہ بے پر کی اُڑائی ہے) تک پہنچنا ہی اصل کارِ دشوار ہے اور دوم پولی گراف یا نفسیاتی تجزیے کو اندھے اعتقاد کے بل بوتے پر دھاکا دینا بہت آسان ہے۔
 

عثمان

محفلین
نیز یہ معلوم بھی ہو جائے کہ خون تازہ ہے ؟ کس کا ہے ؟ کب شامل ہوا؟ وغیرہ وغیرہ تب بھی کیا فرق پڑے گا "مصدقہ ایمان افروز معجزے" کی صحت پر؟ :)
اول تو اصل دعوے دار (یعنی جس نے یہ بے پر کی اُڑائی ہے) تک پہنچنا ہی اصل کارِ دشوار ہے اور دوم پولی گراف یا نفسیاتی تجزیے کو اندھے اعتقاد کے بل بوتے پر دھاکا دینا بہت آسان ہے۔

ہمم ، ان نکات پر تو توجہ ہی نہیں گئی۔ :)
پھر ایسا ہے کہ سائنسی تجزیہ کو ایک طرف رکھ کر محض دھکا بازی پر اکتفا کرتے ہیں۔ :)
 
میرے علم کے مطابق ہر سال 10 محرم کو یہ مٹی اپنا رنگ تبدیل کر لیتی ہے۔ اس میں کس حد تک سچائی ہے؟
عجیب کنفیوزڈ قسم کا جملہ ہے۔۔یعنی اگر آپکے علم میں ہے کہ ہر سال 10 محرم کو یہ مٹی اپنا رنگ تبدیل کرلیتی ہے، تو پھر آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں کہ اس میں کس حد تک سچائی ہے ۔ :D
مجھے پتہ نہیں کہ ایسا ہوا ہے یا نہیں لیکن ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 

عثمان

محفلین
میرے علم کے مطابق ہر سال 10 محرم کو یہ مٹی اپنا رنگ تبدیل کر لیتی ہے۔ اس میں کس حد تک سچائی ہے؟

جناب پہلے تو اپنے علم کا کچھ ماخذ و تفصیل بتائیے تاکہ کچھ بات بڑھ سکے۔ :)
اس میں کس حد تک سچائی ہے؟
آپ "سچائی" کیوں جاننا چاہتے ہیں۔ کیا جو علم آپ کو حاصل ہوا ہے اس پر اعتبار نہیں۔ کس بنیاد پر آپ اپنے معلوم دعویٰ سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ :)
 

عدیل منا

محفلین
میری رائے:
  1. مجے نہیں معلوم اس ”خبر“ میں کس حد تک سچائی ہے۔ یہ تو آپ تحقیق کرکے بتلائیں کہ یہ خبر کس حد تک سچی ہے۔
  2. اسلامی تعلیمات کے مطابق ”معجزہ“ صرف انبیا علیہ السلام سے منسوب ہوتا ہے۔ غیر نبی سے منسوب ایسے غیر معمولی واقعات ”کرامات“ کہلاتے ہیں۔
  3. قرآن و صحیح احادیث میں مذکور ”معجزاتِ انبیاء “ پر ”ایمان“ لانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو اس کا ”انکار“ کرے یا اس میں شک و شبہ کا اظہار کرے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
  4. غیر نبی سے منسوب بہت سی ”کرامات“ کچھ حقیقی ہیں اور کچھ عقیدتمندوں کی اپنی ذہنی اختراع۔ اور جو ”حقیقی اور مصدقہ کرامات“ ہیں بھی، اُن کا دینِ اسلام سے اس اعتبارسے کوئی ”تعلق“ نہیں کہ ان پر ”ایمان لانا“ فرضِ عین ہو اور جو ایمان نہ لائے، وہ دائرہ اسلام سے خارج
واللہ اعلم بالصواب
یہ بات اس سال دس محرم کے موقع پر میرے علم میں آئی ہے اور جس نے یہ بات کی میں نے اس سے اسی سے ملتے جلتے الفاظ کہے جن کا آپ نے ذکر کیاہے۔ اس پر اس نے جو جواب دیا وہ یہاں لکھنے کے قابل نہیں۔ اس کے جواب سے میں بہت اپ سٹ رہا، اس لئے اپنی تسلی حاصل کرنے کیلئے کہ شاید آپ احباب اس بارے میں کچھ جانتے ہوں تو یہاں ذکر کیا ہے۔
سانحہ کربلا سے متعلق بہت سی روایات ہیں۔ مگر سب سچ پر مبنی نہیں ہیں۔ اس کا انداذہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ یہ واقعہ 60ھ میں ہوا اس کو سب سے پہلے بیان کرنے والا "ابو مخنف لوط بن یحیٰی" ہے جو کہ امام الذھبی کے مطابق 170ھجری میں مرا۔ یعنی اس واقعہ کے 110 سال بعد۔ تو اس واقعہ کے وقت اس کی عمر کم سے کم 16، 17سال تو ہونی چاہئے تھی۔ بہرحال اس بارے میں مزید بات کرنے سے بات کہیں کی کہیں چلی جائے گی۔ اس پوسٹ میں سوال کا مقصد یہ تھا کہ یہ کوئی ایسا سنجیدہ مسئلہ تو نہیں کہ جس پر ایمان لانا ضروری ہو؟
 

عدیل منا

محفلین
عدیل منا بھائی!
ٹیگ لسٹ میں برادرم حسان خان اور عسکری کو دیکھ کر میں نے اسے پُرمزاح ریٹ کیا ہے۔:p حسان بھائی اپنے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ وہ ایک بے دین مسلمان ہیں۔ ان کا آبائی تعلق سنی گھرانے سے ہے جبکہ انہیں ماتم اور تعزیے پسند ہیں۔ عسکری بھائ تو کسی دین وین کو نہیں مانتے وہ ایک عرصہ تک ایتھیسٹ کے نام سے بھی خود کو پیش کرتے رہے ہیں۔ :) کیا آپ کا اُن کو یہاں ٹیگ کرنا پُر مزاح نہیں ہے :p
میرے لئے سب دوست برابر ہیں، ایک کہاوت مشہور ہے کہ ۔۔۔۔چلیں رہنے دیں:lol:
 

قیصرانی

لائبریرین
ایسا کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں کہ ایمان کا خطرہ لاحق ہو۔ دوسرا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایسا کوئی غیر معمولی واقعہ جیسا کہ آسمان سے خون کی بارش وغیرہ اتنے مختلف علاقوں میں ہوئی ہوتی تو تاریخ کی کتب میں ان کا حوالہ ضرور ملتا۔ یہ تو نعوذ باللہ وہی بات ہو گئی کہ اللہ تعالٰی حضرت حسین رض کو شہید ہونے سے نہ بچا سکے اور بعد از شہادت یہ سب کچھ ہوا؟ (یہ بات ایک عیسائی نے حوالتاً کہی تھی جب اس نے مجھے عیسائی بنانے کی کوشش کی اور ہمارے عقائد کے ٹکراؤ کے جواب میں اس نے یہ بات کہی تھی کہ تم لوگ کیسے مسلمان ہو)
 

عدیل منا

محفلین
یہ جارکربلا کے میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں کے مجتہد شیخ علی سستانی نے تحقیق کی ہے، وہاں کے میڈیا نے بھی یہ دیکھی ہے۔
 
Top