تخلیق، آئیڈیالوجی اور تنقید

عمران شاہد بھنڈر
آئیڈیالوجی کو خیالات کی سائنس کہا گیا ہے مگر اس کی حقیقت کو تاریخ اور تعقل سے منقطع کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ آئیڈیالوجی اس حوالے سے حقیقت ہے کہ یہ انسانی تجربات سے ذہن میں منعکس ہوتی ہوئی تجربات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کی جڑیں انسانوں کے مابین مادی تعلقات، پیداواری عمل اور طبقات کے کردار میں پیوست ہوتی ہیں۔ آئیڈیالوجی خواہ کتنی ہی قدیم کیوں نہ ہو، وہ متحرک سماجی عمل سے تضاد میں آ کر خود کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوتی ہے، بصورتِ دیگر تضادات کی شدت جنگوں اور دہشت گردی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ آئیڈیالوجی انسانوں کے مابین حقیقی اور مادی تعلقات کا اظہار ہوتی ہے۔ سیکولر ازم، عقلیت پسندی، ہیومن ازم، تصوف اور مذہب وغیرہ کو آئیڈیالوجی کی مثالوں کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ لبرل حضرات مذہب کو تو آئیڈیالوجی تصور کرتے ہیں اور اسے سماجی عمل سے متصادم بھی سمجھتے ہیں، تاہم اپنے نظریات کو آئیڈیالوجی کی بجائے سائنس گردانتے ہیں، جو کہ ایک باطل تصور ہے۔ آئیڈیالوجی ان خیالات پر مشتمل ہوتی ہے جن کے تحت اس کے ماننے والے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ اگر خیالات کا مربوط اور منطقی نظام نہ ہو تو اپنے سے مخالف نظریہ رکھنے والوں کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی شخص مذہب پر یقین رکھتا ہے تو وہ مسجد ، مندر یا چرچ میں جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص متصوفانہ فکر کے تحت ’’حقیقتِ عظمیٰ‘‘ کا قائل ہے تو وہ صوفیا کی تعلیمات پر توجہ دیتا ہے یا خانقاہوں کا رخ کرتا ہے۔اگر کوئی فن کار ہے تو اپنی اسی آئیڈیالوجی کو اپنے فن کا حصہ بناتا ہے۔

وہ ان خیالات کو اپنی آئیڈیالوجی سمجھنے کی بجائے فن کی خصوصیت سمجھنے لگتا ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔ اگرچہ فن و ادب اور آئیڈیالوجی کے درمیان انتہائی پیچیدہ اور گنجلک رشتہ پایا جاتا ہے، تاہم اس کے باوجود جمالیات، علمیات اور سائنس کے مابین امتیاز قائم کرنا ضروری ہے۔ فرانسیسی فلسفی لوئی التھیوسے کے مطابق آرٹ ایک مخصوص ہیئت میں ’’ایک مخصوص طریقے سے ہمیں دکھاتا ہے، ادراک کراتا ہے اور محسوس کراتا ہے۔‘‘ تاہم یہ اشیاء کا اس طرح علم فراہم نہیں کرتا جیسا کہ سائنس مہیا کرتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سائنس کا ’’معروض‘‘ اس ’’معروض‘‘ سے الگ ہوتا ہے، جو آرٹ کا موضوع ہوتا ہے۔ اپنی کتاب ’’لینن اور فلسفہ‘‘ میں التھیوسے وضاحت کرتا ہے کہ ’’آئیڈیالوجی تمام انسانی سرگرمی میں رچی ہوئی ہے، یہ انسانی وجود کے بسر کیے ہوئے تجربات کے مشابہ ہے۔ یہ بسر کیے ہوئے تجربات پہلے ہی سے حقیقتِ محض سے دیے ہوئے نہیں ہوتے، بلکہ حقیقی کے ساتھ آئیڈیالوجی کے بے ساختہ بسر کیے ہوئے تجربات سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی آرٹ صرف اس علاقے ہی سے تعلق نہیں رکھتا جہاں آرٹ کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آرٹ اور سائنس ایک ہی معروض سے تعلق رکھتے ہیں۔ سائنس اس ہیئت سے تعلق رکھتی ہے جس میں علم کا امکان پیدا ہوتا ہے، جب کہ آرٹ ایک مختلف ہیئت میں اسی معروض کو موضوع بناتا ہے۔ ان نکات کی وضاحت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ متخیلہ کا حقیقی سے ارتباط، یعنی بسر کیے ہوئے تعلقات کے ساتھ ربط ہی سے فن پارہ وجود میں آتا ہے، جب کہ فن پارے میں مضمر جمالیاتی اثر ہی سے آئیڈیالوجی کے ساتھ ایک فاصلہ قائم رہتا ہے۔

یہ ایک ایسا فلسفہ ہے کہ جس سے باطنیت کے تصور کو زک پہنچتی ہے۔ باطن میں کوئی ایسی باطنیت نہیں ہوتی کہ جس پر منعکس کر کے کسی ایسے معنی کو وجود میں لایا جا سکے کہ جو سماج میں موجود لوگوں کے لیے بامعنی ہو۔ نہ ہی باطنیت کوئی ایسی ’شے فی الذات‘ ہے جو خود میں خود کے ذریعے تکمیل کی سطح پر پہنچتی ہے۔ معنی کی تخلیق کے حوالے سے باطنیت کی حتمیت کو تسلیم کرنے کا مطلب آئیڈیالوجی کی دنیا میں داخل ہونا ہے۔ باطن کی خود انعکاسی کا تصور معروض سے ارتباط کے تصور کو مخفی رکھتا ہے۔ یہ باطنیت پسندوں کی ایسی آئیڈیالوجی ہے جو معروض سے ارتباط کے اس تضاد کو ظاہر تسلیم کرنے سے گریزاں ہے کہ جس کے بغیر معنی کے مفہوم کی تشکیل نہیں کی جا سکتی۔ فن کاروں کا خود کو ’خالق‘ کہلوانے کا تصور مذہب سے مستعار ہے۔ یہ تصور حقیقت میں فنکاروں کی آئیڈیالوجی ہے، جو کسی بھی فن پارے میں موجود تضادات کو مخفی رکھنے کے لیے تراشی جاتی ہے۔ یہاں تک کے وہ نقاد کو بھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اسے صرف فن کار کی منشا کو دریافت کرے، یعنی نقاد خود کو ’تخلیق کار‘ میں ’مدغم‘ کر کے ادب میں وحدت الوجود کو پروان چڑھائے۔ فن کے خود مختارانہ اور خود کفیل کردار کو سامنے رکھا جائے تو اس دعوے میں کوئی سچائی دکھائی نہیں دیتی ۔ ’خود کفالت سے میری مراد ساختیات کے فنی تصور سے نہیں، بلکہ فن کے مارکسی تصور سے ہے۔ کوئی بھی فن کار جب خود کو ’تخلیق کار‘ کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کر رہا ہوتا ہے۔

حقیقت میں ایسا دعویٰ کر کے وہ اپنی ’آئیڈیالوجی‘ کا اظہار کرتا ہے۔ اس کا ناقد کو فن پارے میں مضمر تضادات، شگافوں اور روزنوں کو عیاں کرنے کے رجحان کو ترک کرنے کا مشورہ دینا، صرف اس لیے کہ وحدت الوجود کا قضیہ حل ہو جائے، اس کی نظریاتی خواہش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ’تخلیق‘ یا ’تخلیق کار‘ جیسی اصطلاحات حقیقت میں ’ہیومنسٹ‘ فلسفوں کی عطا ہیں، جب کہ ہیومن ازم ہمیشہ ہی سے بورژوازی کی آئیڈیالوجی رہی ہے، جس کی حقیقت کو عیاں کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس کی کوئی صورت باقی رہے تو ہر صورت میں فن کی خود مختارانہ حیثیت کو چیلنج درپیش رہتا ہے۔ ناقد کی جداگانہ شناخت کا تصور فنی و ادبی متون کی خود کفالت کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہیومنسٹ نقطۂ نظر کے تحت آرٹ کی جانچ پرکھ ہوتی ہے تو ’’جمالیاتی بے ساختگی‘‘ کے تعقلات لازمی طور پر آرٹ کی آئیڈیالوجی سے الگ شناخت قائم نہیں ہونے دیتے، کیونکہ جس علم کی تشکیل ہوتی ہے وہ انھی تعقلات کے احاطے میں آتا ہے، جو آئیڈیالوجی کی وضاحت کرتے ہیں۔ اُردو میں روایتی ناقد ’تخلیق‘ کے ان متعین تاریخی جمالیاتی پیرائیوں سے انحراف کرتے ہیں، جن کے بغیر فن کی ’تخلیق‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب کہ ادب و شاعری میں کوئی بھی رجحان ہمیشہ ادب و شاعری کی تاریخ جو کہ سماجی عمل سے انتہائی پیچیدگی میں جڑی ہوتی ہے، کہ جبر سے الگ ہو کر وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ ہر نوع کی فنی ہیئت ازل سے موجود نہیں ہے، بلکہ ادبی و سماجی ارتقا کا نتیجہ ہے۔ روایتی ناقد فن کی ’تخلیق‘ کے تصور کے تحت نہ صرف فن کی روایتی انداز میں تشریح کرتے ہیں بلکہ وہ تنقید کے حقیقی کردار سے بھی انحراف کرتے ہیں۔ اس فکر کے حامل لوگ بعد ازاں فن پارے کو ’کھولنے‘ کے عمل میں بھی آئیڈیالوجی کے غالب کردار سے نجات حاصل نہیں کر پائے۔ فن پارے کو ’کھولنے‘ کا عمل اگر تنقید کے روایتی تصور کے تابع ہو، جس کے تحت ناقد کا واحد مقصد مصنف یا ’’خالق‘‘ کی منشا کو دریافت کر کے اس سے ہم آہنگ ہونا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناقد اسی آئیڈیالوجی کے تابع ہو رہا ہے، جو پہلے ہی سے مصنف کی منشا میں شامل ہے۔ اس سے جو علم وجود میں آتا ہے وہ فن پارے میں تضادات، روزنوں اور شگافوں کو نشان زد کرنے والا اور فن پارے کی آزادانہ حیثیت کی تصدیق کرنے والا نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں اس آئیڈیالوجی کا اظہار ہے جو فن پارے کی آزادانہ حیثیت پر یلغار کرتی ہے۔ شعری یا ادبی متن ایک سماج کی مانند تشکیل پاتا ہے۔ سماج کی تشکیل میں جتنا کردار ایک فرد کا ہوتا ہے، اتنا ہی شعری یا ادبی متن کی تشکیل میں شاعر یا ادیب کا ہوتا ہے۔
ماخوز از :http://www.express.pk/story/237385/
 
تخلیق، آئیڈیالوجی اور تنقید (آخری حصہ)
عمران شاہد بھنڈر

سماج کی تشکیل میں افراد باہم مل کر وہ اوزار تیار کرتے ہیں کہ جس سے سماج کی تشکیل کا عمل جاری رہتا ہے۔ شعروادب بھی سماجی پیداوارکے مماثل ہے، ان کی پیداوار میں استعال ہونیوالے اوزار بھی پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ ناقد کا کام کسی بھی فن پارے کے اعلیٰ یا ادنیٰ ہونے کا فتویٰ دینا نہیں ہوتا، اس کا کام فن پارے میں شاعر و ادیب کے اِس کردار کو سامنے لانے کے علاوہ اس میں معنویت اورجمالیاتی تاثیر کو سامنے رکھتے ہوئے تنقید کو تخلیقی سطح پر استوار کرنا ہوتا ہے، جو اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ فن کارکی منشا و مرضی کو دکھا کر اس کی حدود کا تعین کرے اور فن پارے کے اندر جو کچھ فن کارکی نظروں سے اوجھل رہا ہو اسے اپنی تنقید سے ’خلق‘ کرے۔ فن پارے میں موجودحقیقی تضاد، روزن اور شگاف کی سطحیں فن کارکی منشا و مرضی کا اظہار نہیں ہوتیں۔ فن پارہ تو ربط وآہنگ ، تسلسل اور وحدت کے تصور پر استوار ہوتا ہے، جب کہ تضاد اور شگاف فن کارکی آئیڈیالوجی کی حقیقت کو سامنے لاتے ہیں ، وہ فن کار کو اس سمت میں ہرگز نہیں جانے دیتا، جس سمت میں وہ جانا چاہتا ہے۔

مارکس نے اپنی کتاب ’’اٹھارویں برومیئر آف لوئی بوناپارٹ‘‘ میں لکھا تھا انسان حالات کو بدلتا تو ہے مگر ایسے نہیں کہ جیسے وہ چاہتا ہے۔ وہ ان حالات کو بدلتا ہے جو اسے تاریخی طور پر دیے گئے ہوتے ہیں۔یہی اصول نہ صرف فن کار بلکہ ناقد پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ شعری و ادبی متن کے تضادات سماجی تضادات کا عکس ہوتے ہیں۔ زبان چونکہ ایک سماجی تشکیل ہے، اس لیے زبان کے اندر کے تضادات سماجی تضادات کے عکس کے طور پر ہی متشکل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی نظام جس قدر تضادات کا اظہار کرتا ہے اس کی شکست و ریخت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی فن پارے ناپختہ علم کی بنیاد پر ’خلق‘ کیا جائے، اس کے بکھرنے کی امید بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔اگر کوئی ناقد فن کار کی سطح پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور اسے آخری منزل قرار دے کر ’تقلیب‘ کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ ناقد نہیں محض ایک شارح ہے، جس کی حیثیت ہمیشہ ثانوی رہتی ہے ، اس کی جداگانہ شناخت کبھی نہیں بن پاتی ۔ ایسے ناقدین کو اردو میں موجود شرحیں پڑھنے کی بجائے ارسطو سے لے کر ژاک دریدا کے خیالات تک براہِ راست رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

تعبیر، تشریح اور تفہیم کا عمل تنقید کا آغاز ہوتا ہے، جب کہ فنی و ادبی متن سے فن کار کی منشا و مرضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس سے ماورا ہوجانا تنقید کی انتہا ہوتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں تنقید کا تخلیقی کردار سامنے آتا ہے۔تنقید، شاعرانہ نہیں،منطقی ہوتی ہے، جو اپنی سرشت میں فنونِ لطیفہ کی تمام اشکال سے ’مختلف‘ ہوتی ہے۔ اس کا فنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف سے ’مختلف‘ ہونا اس کے آزادانہ وجود کو ثابت کرتا ہے۔ فن پارہ اپنی تفہیم و تشریح کے لیے تنقید کا محتاج ہوتا ہے۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ ایک اعلیٰ تنقیدی طریقۂ کار برس ہا برس کی محنت کا شاخسانہ ہوتا ہے اوروجود میں آنے کے بعد فن پارے سے کہیں زیادہ وسعت کا حامل ہوجاتا ہے ۔ اسے کسی ایک فن پارے تک محدود نہیں رکھا جاسکتا، بلکہ اس کے اطلاق سے نئے اور پرانے فن پاروں کی تفہیم کا کام لیا جاتا ہے۔جدلیات، لاتشکیل اور مابعد ساختیات کی دیگر اشکال ایسے ہی تنقیدی رجحانات ہیں جن کا دائرہ صرف فن و ادب تک محدود نہیں، بلکہ علم البشریات، سائنس، طبیعات، کیمیا، حیاتیات، نفسیات، تعمیرات وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔

تنقید کو فن کا تابع تصور کرنا تنقید کے علمی و منطقی کردار اور اس کی تاریخ سے نابلد ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے۔تنقید کے کردار سے نابلد اور اس کی جداگانہ حیثیت کا انکار کرنے والے لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب کوئی ناقد کسی شعر کی تنقید پیش کرتا ہے تو اس سے کہنا چاہیے کہ وہ اس سے بہتر شعر لکھ دے۔اگرچہ اس قسم کے دلائل صرف اردو میں ہی استعمال کیے جاتے ہیں، جب کہ دنیا کے دیگر ادب و فن میں ان سوالات کو بہت پہلے حل کرلیا گیا تھا۔دیکھا جائے تو یہی سوال ناقد بھی اٹھا سکتا ہے کہ تنقید شعر و ادب سے الگ ’ڈسپلن‘ ہے، شاعر یا ادیب تنقید سے پہلے تنقیدی نظریات کی تفہیم کا ثبوت فراہم کرے۔تاکہ اندازہ ہو کہ وہ تنقید کے بارے میں کیا جانتا ہے؟ تنقید کے لیے شاعر نہیں ناقد ہونا ضروری ہے۔ بیسویں صدی کی تاریخ اس خیال کی درستی کی تصدیق کرتی ہے اور اس کی حمایت میں کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ہے۔ اگر تو مارکسی تنقید کی جانب دیکھیں تو جارج لوکاش، تھیوڈور اڈورنو، ہربرٹ مارکوزے، لوسین گولڈ مان، والٹر بینجمن، پیئر ماشیرے ، باختن،فرانک لنٹریکیا، فریڈرک جیمی سن اور ٹیری ایگلٹن جیسے ناقدین میں سے کوئی بھی شاعر یا ادیب نہیں تھا، مگر اپنی تنقید کے ذریعے انھوں نے لوگوں کے زاویۂ نظر کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔

ساختیاتی اور مابعد ساختیاتی تنقید میں نارتھروپ فرائی، جوناتھن کلر، ژاک دریدا، رولاں بارتھ، پال دی مان، لیوائی سٹراس وغیرہ سمیت اور بہت سے اہم نام ہیں جو شاعر اور ادیب تونہ تھے ، تاہم شعر و ادب پر ان کے افکار کے فیصلہ کن اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ہیئت پسندی سے تعلق رکھنے والے بڑے ناقدین میں رومن جیکبسن، وکٹر شلووسکی،یوری تنیانوو، بورس ایچنبام کا تعلق بھی خالص تنقید کے مکتبۂ فکر سے تھا۔ ناقد اور ’خالق‘ کے وجود میں اس طرح کی ہم آہنگی کہ جس سے ناقد اپنے وجود کو ’خالق‘ کے تصور میں گُم کردے، یہ بعض ماورائیت پسندوں کی آئیڈیالوجی کے اہم اجزا تو ہوسکتے ہیں، تاہم فلسفیانہ سطح پر آئیڈیالوجی کا یہ تصور قابل مدافعت نہیں ہے۔اس قسم کی آئیڈیالوجی کے حصار میں مقید اذہان کسی بھی صورت میں ’خالق‘ کے تصور سے نجات حاصل نہیں کر پاتے ۔ اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسی دلیل ہوتی ہے کہ جس سے وہ اپنے اس مؤقف کو تقویت دے سکیں۔ تنقید ایک ایسا مضبوط مکتبۂ فکر بن چکا ہے کہ جسے مغربی جامعات میں بہت تکریم سے دیکھا جاتا ہے۔ناقدین کے خیالات انتہائی خطرناک ثابت ہوتے رہے ہیں۔ایسے خیالات کی ترویج سے خوف کی فضا بھی جنم لے سکتی ہے۔

فلسفیوں اور ناقدوں کے اذہان میں جنم لینے والے خیالات بعد ازاں عوامی شعور میں سرایت کرکے انقلابات کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ مغربی معاشروں سے ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں دریدا کو مسیحی پادریوں نے’ جہنمی‘ قرار دے دیا تھا، کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ جو کچھ ان کے پاس بچ گیا ہے، ڈی کنسٹرکشن کے بعد اس جانب تشکیک کے رجحان میں شدت آئے گی۔ تنقید اور ’تخلیق‘ ایک دوسرے سے اس طرح الگ نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کے اثرات سے متاثر نہ ہوسکیں۔جہاں ’تخلیق‘ تنقید سے اثرات قبول کرکے توسیع پذیر رہتی ہے تو وہاں تنقید بھی ’تخلیق‘ پیرائیوں سے ہمکنار ہوکر خود کو وسعت دیتی رہتی ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہے کہ جس میں نہ کوئی ’پہلا‘ ہے اور نہ ’دوسرا‘ ہے۔ مغرب میں مابعد جدید شاعری ’التوا‘ کے اس تصور پر استوار ہے کہ جسے ڈی کنسٹرکشن نے ’متعین‘ کیا ہے۔ ہر قسم کے اصول و قواعد سے انحراف کو ’تخلیق‘ کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ ’تخلیق‘ اور تنقید کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر ہی شعور و آگہی کے عمل کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔
http://www.express.pk/story/237751/
 

راشد حسین

محفلین
تخلیق، آئیڈیالوجی اور تنقید (آخری حصہ)
عمران شاہد بھنڈر

سماج کی تشکیل میں افراد باہم مل کر وہ اوزار تیار کرتے ہیں کہ جس سے سماج کی تشکیل کا عمل جاری رہتا ہے۔ شعروادب بھی سماجی پیداوارکے مماثل ہے، ان کی پیداوار میں استعال ہونیوالے اوزار بھی پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ ناقد کا کام کسی بھی فن پارے کے اعلیٰ یا ادنیٰ ہونے کا فتویٰ دینا نہیں ہوتا، اس کا کام فن پارے میں شاعر و ادیب کے اِس کردار کو سامنے لانے کے علاوہ اس میں معنویت اورجمالیاتی تاثیر کو سامنے رکھتے ہوئے تنقید کو تخلیقی سطح پر استوار کرنا ہوتا ہے، جو اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ فن کارکی منشا و مرضی کو دکھا کر اس کی حدود کا تعین کرے اور فن پارے کے اندر جو کچھ فن کارکی نظروں سے اوجھل رہا ہو اسے اپنی تنقید سے ’خلق‘ کرے۔ فن پارے میں موجودحقیقی تضاد، روزن اور شگاف کی سطحیں فن کارکی منشا و مرضی کا اظہار نہیں ہوتیں۔ فن پارہ تو ربط وآہنگ ، تسلسل اور وحدت کے تصور پر استوار ہوتا ہے، جب کہ تضاد اور شگاف فن کارکی آئیڈیالوجی کی حقیقت کو سامنے لاتے ہیں ، وہ فن کار کو اس سمت میں ہرگز نہیں جانے دیتا، جس سمت میں وہ جانا چاہتا ہے۔

مارکس نے اپنی کتاب ’’اٹھارویں برومیئر آف لوئی بوناپارٹ‘‘ میں لکھا تھا انسان حالات کو بدلتا تو ہے مگر ایسے نہیں کہ جیسے وہ چاہتا ہے۔ وہ ان حالات کو بدلتا ہے جو اسے تاریخی طور پر دیے گئے ہوتے ہیں۔یہی اصول نہ صرف فن کار بلکہ ناقد پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ شعری و ادبی متن کے تضادات سماجی تضادات کا عکس ہوتے ہیں۔ زبان چونکہ ایک سماجی تشکیل ہے، اس لیے زبان کے اندر کے تضادات سماجی تضادات کے عکس کے طور پر ہی متشکل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی نظام جس قدر تضادات کا اظہار کرتا ہے اس کی شکست و ریخت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی فن پارے ناپختہ علم کی بنیاد پر ’خلق‘ کیا جائے، اس کے بکھرنے کی امید بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔اگر کوئی ناقد فن کار کی سطح پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور اسے آخری منزل قرار دے کر ’تقلیب‘ کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ ناقد نہیں محض ایک شارح ہے، جس کی حیثیت ہمیشہ ثانوی رہتی ہے ، اس کی جداگانہ شناخت کبھی نہیں بن پاتی ۔ ایسے ناقدین کو اردو میں موجود شرحیں پڑھنے کی بجائے ارسطو سے لے کر ژاک دریدا کے خیالات تک براہِ راست رسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

تعبیر، تشریح اور تفہیم کا عمل تنقید کا آغاز ہوتا ہے، جب کہ فنی و ادبی متن سے فن کار کی منشا و مرضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس سے ماورا ہوجانا تنقید کی انتہا ہوتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں تنقید کا تخلیقی کردار سامنے آتا ہے۔تنقید، شاعرانہ نہیں،منطقی ہوتی ہے، جو اپنی سرشت میں فنونِ لطیفہ کی تمام اشکال سے ’مختلف‘ ہوتی ہے۔ اس کا فنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف سے ’مختلف‘ ہونا اس کے آزادانہ وجود کو ثابت کرتا ہے۔ فن پارہ اپنی تفہیم و تشریح کے لیے تنقید کا محتاج ہوتا ہے۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ ایک اعلیٰ تنقیدی طریقۂ کار برس ہا برس کی محنت کا شاخسانہ ہوتا ہے اوروجود میں آنے کے بعد فن پارے سے کہیں زیادہ وسعت کا حامل ہوجاتا ہے ۔ اسے کسی ایک فن پارے تک محدود نہیں رکھا جاسکتا، بلکہ اس کے اطلاق سے نئے اور پرانے فن پاروں کی تفہیم کا کام لیا جاتا ہے۔جدلیات، لاتشکیل اور مابعد ساختیات کی دیگر اشکال ایسے ہی تنقیدی رجحانات ہیں جن کا دائرہ صرف فن و ادب تک محدود نہیں، بلکہ علم البشریات، سائنس، طبیعات، کیمیا، حیاتیات، نفسیات، تعمیرات وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔

تنقید کو فن کا تابع تصور کرنا تنقید کے علمی و منطقی کردار اور اس کی تاریخ سے نابلد ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے۔تنقید کے کردار سے نابلد اور اس کی جداگانہ حیثیت کا انکار کرنے والے لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب کوئی ناقد کسی شعر کی تنقید پیش کرتا ہے تو اس سے کہنا چاہیے کہ وہ اس سے بہتر شعر لکھ دے۔اگرچہ اس قسم کے دلائل صرف اردو میں ہی استعمال کیے جاتے ہیں، جب کہ دنیا کے دیگر ادب و فن میں ان سوالات کو بہت پہلے حل کرلیا گیا تھا۔دیکھا جائے تو یہی سوال ناقد بھی اٹھا سکتا ہے کہ تنقید شعر و ادب سے الگ ’ڈسپلن‘ ہے، شاعر یا ادیب تنقید سے پہلے تنقیدی نظریات کی تفہیم کا ثبوت فراہم کرے۔تاکہ اندازہ ہو کہ وہ تنقید کے بارے میں کیا جانتا ہے؟ تنقید کے لیے شاعر نہیں ناقد ہونا ضروری ہے۔ بیسویں صدی کی تاریخ اس خیال کی درستی کی تصدیق کرتی ہے اور اس کی حمایت میں کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ہے۔ اگر تو مارکسی تنقید کی جانب دیکھیں تو جارج لوکاش، تھیوڈور اڈورنو، ہربرٹ مارکوزے، لوسین گولڈ مان، والٹر بینجمن، پیئر ماشیرے ، باختن،فرانک لنٹریکیا، فریڈرک جیمی سن اور ٹیری ایگلٹن جیسے ناقدین میں سے کوئی بھی شاعر یا ادیب نہیں تھا، مگر اپنی تنقید کے ذریعے انھوں نے لوگوں کے زاویۂ نظر کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔

ساختیاتی اور مابعد ساختیاتی تنقید میں نارتھروپ فرائی، جوناتھن کلر، ژاک دریدا، رولاں بارتھ، پال دی مان، لیوائی سٹراس وغیرہ سمیت اور بہت سے اہم نام ہیں جو شاعر اور ادیب تونہ تھے ، تاہم شعر و ادب پر ان کے افکار کے فیصلہ کن اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ہیئت پسندی سے تعلق رکھنے والے بڑے ناقدین میں رومن جیکبسن، وکٹر شلووسکی،یوری تنیانوو، بورس ایچنبام کا تعلق بھی خالص تنقید کے مکتبۂ فکر سے تھا۔ ناقد اور ’خالق‘ کے وجود میں اس طرح کی ہم آہنگی کہ جس سے ناقد اپنے وجود کو ’خالق‘ کے تصور میں گُم کردے، یہ بعض ماورائیت پسندوں کی آئیڈیالوجی کے اہم اجزا تو ہوسکتے ہیں، تاہم فلسفیانہ سطح پر آئیڈیالوجی کا یہ تصور قابل مدافعت نہیں ہے۔اس قسم کی آئیڈیالوجی کے حصار میں مقید اذہان کسی بھی صورت میں ’خالق‘ کے تصور سے نجات حاصل نہیں کر پاتے ۔ اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسی دلیل ہوتی ہے کہ جس سے وہ اپنے اس مؤقف کو تقویت دے سکیں۔ تنقید ایک ایسا مضبوط مکتبۂ فکر بن چکا ہے کہ جسے مغربی جامعات میں بہت تکریم سے دیکھا جاتا ہے۔ناقدین کے خیالات انتہائی خطرناک ثابت ہوتے رہے ہیں۔ایسے خیالات کی ترویج سے خوف کی فضا بھی جنم لے سکتی ہے۔

فلسفیوں اور ناقدوں کے اذہان میں جنم لینے والے خیالات بعد ازاں عوامی شعور میں سرایت کرکے انقلابات کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ مغربی معاشروں سے ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں دریدا کو مسیحی پادریوں نے’ جہنمی‘ قرار دے دیا تھا، کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ جو کچھ ان کے پاس بچ گیا ہے، ڈی کنسٹرکشن کے بعد اس جانب تشکیک کے رجحان میں شدت آئے گی۔ تنقید اور ’تخلیق‘ ایک دوسرے سے اس طرح الگ نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کے اثرات سے متاثر نہ ہوسکیں۔جہاں ’تخلیق‘ تنقید سے اثرات قبول کرکے توسیع پذیر رہتی ہے تو وہاں تنقید بھی ’تخلیق‘ پیرائیوں سے ہمکنار ہوکر خود کو وسعت دیتی رہتی ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہے کہ جس میں نہ کوئی ’پہلا‘ ہے اور نہ ’دوسرا‘ ہے۔ مغرب میں مابعد جدید شاعری ’التوا‘ کے اس تصور پر استوار ہے کہ جسے ڈی کنسٹرکشن نے ’متعین‘ کیا ہے۔ ہر قسم کے اصول و قواعد سے انحراف کو ’تخلیق‘ کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ ’تخلیق‘ اور تنقید کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر ہی شعور و آگہی کے عمل کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔
تخلیق، آئیڈیالوجی اور تنقید (آخری حصہ) - ایکسپریس اردو
جناب کوئی آئیڈیالوجیکل ایشو پر اُردو میں آرٹیکل ہے تو پلیز شیئر کریں۔
 
Top