تحریک انصاف کو کس منہ سے ووٹ دیں؟

جو اپ کو اگ لگ رہی ہے وہ باغ ہے
اور جو روشن باغ لگ رہا ہے وہ اصل میں اگ ہے
یہی قادری دکھارتھا یہ عمران
یہ دجالی فریب کی ایک جھلک ہے
 
06_04.gif
 

زبیر مرزا

محفلین
عمران خان نا کوئی فرشتہ ہیں نا ہی کوئی عظیم انقلاب لاسکتے ہیں - ان سے ایک سیاستدان سمجھ کر اُمیدیں لگائی جائیں تو بہتر ہوگا
یعنی کچھ کام وہ کرسکیں گے قوم کی بہتری کے لیے اور کوئی مثبت تبدیلی لاسکیں گے اس سے زیادہ میں نہیں سمجھتا ان سے توقعات
وابستہ کی جانی چاہیں - بحثیت لیڈر ان کو ابھی مزید میچورٹی اور وقت درکار ہوگا- اپنے فیصلوں اور جذباتی تقریروں سے نکلنے کے لیے
فی الوقت تو ان پر کچھ بھروسہ اور باقی اللہ کے کرم پر توقع کرکے ووٹ تحریک انصاف کو دے کر ان کو موقع دینا چاہیے
 

زرقا مفتی

محفلین
پتہ نہیں اپ ذاتیات پر حملے کیوں کرتی ہیں

ہم وہ نہیں کہ انکھیں بند کرکے حمایت کریں۔ اگر حمایت کرنے کی وجہ ختم ہوجائے گی تو حمایت بھی ختم ہوجائے گی۔ نقطہ صرف یہ رہے کہ پاکستان اور اسلام کی ترقی ہو۔
نواز اور ن میں لاکھ برائیاں ہونگی تسلیم
مگر نقطہ یہ ہے کہ ان کی یہ برائیاں ان برائیوں سے کچھ بھی زیادہ نہیں جو فوجی جرنیلز اور ان کے ایجینٹز کرتے رہے۔ اس اسٹیبلشمنت کی کرپشن نہ صرف حجم میں زیادہ ہےبلکہ وہ اتنے بے رحم ہیں کہ ملک میں ان کی طرف کوئی انگلی بھی نہیں اٹھاسکتا۔ ان کے یہی گماشتے عمران کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عمران صرف استعمال ہورہاہے۔ پتہ نہیں دانستہ یا نادانستہ۔

ٹریک ریکارڈ کی بات کرنا ذاتی حملے میں کیسے شمار ہو گیا

اور میری بات کی تصدیق تو آپ کے اس جملے سے ہی ہو گئی

نواز اور ن میں لاکھ برائیاں ہونگی تسلیم
 

زرقا مفتی

محفلین
عمران خان نا کوئی فرشتہ ہیں نا ہی کوئی عظیم انقلاب لاسکتے ہیں - ان سے ایک سیاستدان سمجھ کر اُمیدیں لگائی جائیں تو بہتر ہوگا
یعنی کچھ کام وہ کرسکیں گے قوم کی بہتری کے لیے اور کوئی مثبت تبدیلی لاسکیں گے اس سے زیادہ میں نہیں سمجھتا ان سے توقعات
وابستہ کی جانی چاہیں - بحثیت لیڈر ان کو ابھی مزید میچورٹی اور وقت درکار ہوگا- اپنے فیصلوں اور جذباتی تقریروں سے نکلنے کے لیے
فی الوقت تو ان پر کچھ بھروسہ اور باقی اللہ کے کرم پر توقع کرکے ووٹ تحریک انصاف کو دے کر ان کو موقع دینا چاہیے

آپ نے بجا فرمایا عمران خان نے بھی فرشتہ یا مسیحا ہونے کا دعوی نہیں کیا
سچ بولنے کا وعدہ کیا ہے
قوم کا پیسہ ایمانداری سے خرچ کرنے کا وعدہ کیا ہے

اور ہم نے اُس کے وعدوں پر اعتبار کیا ہے

جذبے اور خلوصِ نیت کے بغیر تبدیلی نہیں آ سکتی۔ یہ جذبہ ذاتی مفاد و اقتدار کے لئے کام کرنے والوں میں مفقود ہے ۔ یہی فرق ہے جو مایوس اکثریت کو عمران کی جانب مائل کرتا ہے
 
ٹریک ریکارڈ کی بات کرنا ذاتی حملے میں کیسے شمار ہو گیا

اور میری بات کی تصدیق تو آپ کے اس جملے سے ہی ہو گئی

نواز اور ن میں لاکھ برائیاں ہونگی تسلیم

یااللہ ۔ مجھے تو حیرت ہے اپ کیا سمجھ رہی ہیں
یہ وہ تسلیم نہیں۔ یہ گفتگو کا ایک انداز ہے۔ مطلب یہ کہ فرض بھی کرلیں۔
خیر جانے دیں۔ اپ لاہور کی ہیں۔
 
لو جی سنا ہے کہ میرے حلقے میں محمد منشا سندھو صاحب آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں یعنی پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی اور بندہ آئیگا
 

اشفاق احمد

محفلین
بھائی، خلافت کا آٹھ نو دہائی قبل خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب اس کا دوبارہ احیاء کسی بھی طرح سے ممکن نہیں۔ پاکستانی عوام خلافت کے احیاء لیے اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے اگر اپنے ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لیے کوششیں کرے تو ملک کے لیے زیادہ اچھا ہو گا۔

حسان بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس خلافت کا خاتمہ ہو گیا اس کی بات نہیں ہو رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے تو خلیفۃ اللہ کی بات کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے تو اُسے زمین پر خلافت ارضی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ بدیسی جمہوریت انسان کو زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کی وسعت دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جمہوریت جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔۔۔جس میں پارلیمان کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔چاہے ناانصافی پر مبنی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمہوریت جو ہر اونچی کرسی اور پہنچ والے کو استثنیٰ کا مقدس رتبہ فراہم کرتی ہے۔۔۔۔۔۔جمہوریت جس کی رو سے صرف چند لوگ بلا کسی روک ٹوک کے اپنی مراعات میں اضافہ کرلیتے ہیں اور کسی عام آدمی کو ان سے جواب طلبی کی گنجائش نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا سوچئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اشفاق احمد

محفلین
کہیں الیکشن کے نام پر لڑائی نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے ووٹ ایک امانت ہے
اس میں خیانت کا مرتکب ہونا اہل ایمان کی نشانی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا کیا جائے ہماری قوم خائن ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھائیوں کے ساتھ برائیاں بھی اپنا لینا وطیرہ بن چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے اکٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین مانیئے سسر ایک حلقے میں شیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہا ہے ایک اور حلقے میں داماد تیر کے نشان کے ساتھ جیتنے کی امید میں ہے اور داماد کا چچا زاد بیٹ کا نشان لیے گھوم رہا ہے۔۔۔۔۔۔
کونسا سٹیٹس کو اور کس قسم کے الیکشن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خواری تو پھر عام آدمی کا مقدر بنے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیر جیتا تو بھی ان کے ہی خاندان کا مزہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیر جیتا تو بھی انہی کی واہ واہ اور بیٹ نے کوئی جاندار سٹروک کھیل دیا تو بھی ان کے پوبارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یقین نہ آئے تو نام لکھ دوں
عبیداللہ خان شادی خیل امیدوار برائے قومی اسمبلی حلقہ این اے 71انتخابی نشان شیر۔۔۔۔۔(سسر)
خواجہ شیراز محمود امیدوار براے قومی اسمبلی حلقہ این اے 171انتخابی نشان تیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔(داماد)
خواجہ مدثر محمود امیدوار برائے قومی اسمبلی حلقہ این اے 171 انتخابی نشان بلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(داماد کا کزن)
 
کہیں الیکشن کے نام پر لڑائی نہ ہو جائے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ویسے ووٹ ایک امانت ہے
اس میں خیانت کا مرتکب ہونا اہل ایمان کی نشانی نہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
لیکن کیا کیا جائے ہماری قوم خائن ہو چکی ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
اچھائیوں کے ساتھ برائیاں بھی اپنا لینا وطیرہ بن چکا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے اکٹھے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
یقین مانیئے سسر ایک حلقے میں شیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہا ہے ایک اور حلقے میں داماد تیر کے نشان کے ساتھ جیتنے کی امید میں ہے اور داماد کا چچا زاد بیٹ کا نشان لیے گھوم رہا ہے۔۔۔ ۔۔۔
کونسا سٹیٹس کو اور کس قسم کے الیکشن ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔خواری تو پھر عام آدمی کا مقدر بنے گی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
شیر جیتا تو بھی ان کے ہی خاندان کا مزہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ تیر جیتا تو بھی انہی کی واہ واہ اور بیٹ نے کوئی جاندار سٹروک کھیل دیا تو بھی ان کے پوبارہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اگر یقین نہ آئے تو نام لکھ دوں
عبیداللہ خان شادی خیل امیدوار برائے قومی اسمبلی حلقہ این اے 71انتخابی نشان شیر۔۔۔ ۔۔(سسر)
خواجہ شیراز محمود امیدوار براے قومی اسمبلی حلقہ این اے 171انتخابی نشان تیر۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ (داماد)
خواجہ مدثر محمود امیدوار برائے قومی اسمبلی حلقہ این اے 171 انتخابی نشان بلا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔(داماد کا کزن)

سسر کو ووٹ ڈال دیں ۔ داماد اور اسکے کزن کو قابو میں رکھے گا
 
لو جی سنا ہے کہ میرے حلقے میں محمد منشا سندھو صاحب آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں یعنی پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی اور بندہ آئیگا

یہاں سے ٹی ائی کا امیدوار منشا سندھو ہی ہے

اور چوپو عمران کو۔
 
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے حقیقی نظام (نظامِ خلافت) کو بھول چکے۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہی ایک قابلَ اعتماد نظام تھا، جو (ہماری ملی بدقسمتی) کہ فی زمانہ نہیں بھی نہیں۔ دنیا میں اس وقت مروج ’’جمہوری نظام‘‘ کا بغور مطالعہ کر لیجئے، جا بجا اسلام سے ٹکراؤ ملتا ہے۔ سب سے پہلا اور بنیادی ٹکراؤ تو یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے حاکمیت اللہ کی ہے، یہ نظام کہتا ہے حاکمیت عوام کی ہے۔ قرآن کہتا ہے قانون اللہ کا چلے گا، یہ نظام کہتا ہے کہ لوگ اپنا قانون خود بنائیں گے۔ مدینہ کی نو زائدہ ریاست نے مہاجرین سے کیسا رویہ کیا، اور آج افغان مہاجرین، برما کے مہاجرین، چیچنیا، بوسینیا کے مہاجرین کے ساتھ نام نہاد اسلامی ممالک کا کیا رویہ ہے!
ادھر ملت کا یہ حال ہے کہ نمازی تک بھی خال خال ملتے ہیں، قرآن شریف کی تلاوت محض ثواب تک محدود ہو گئی ہے، اور وہ بھی کسی کے مر جانے پر ایک رسمی صورت میں۔ پہلے وہ لوگ روزے نہیں رکھتے تھے وہ رمضان کا اتنا احترام تو ضرور کرتے تھے کہ کھلے عام کھاتے پیتے نہیں تھے، اب یہی عمل محض تکلف کہلاتا ہے۔ تعلیم کو دیکھ لیجئے، قرآن اور حدیث تو پہلے ہی آؤٹ آف کورس تھے، اب نصاب ترتیب دینے والوں کو صحابہ کرام کا ذکر بھی قابلَ برداشت نہیں رہا، اور صحابہ کبار کا تو بالکل نہیں، انہیں تو گالیاں دی جاتی ہیں۔
سود کو ہم نے جائز بلکہ لازم قرار دے دیا ہے، وراثت کا الوہی قانون کسی کو یاد ہو تو ہو۔ ایک بھرے پرے شہر میں ایک سیر خالص دودھ (جیسا گائے بھینس کے تھن سے نکلا تھا) دستیاب نہیں، بازار سے کوئی چیز خرید کے لائیے اس کے خالص ہونے کا یقین نہیں ہوتا۔
معاشرتی معمولات کی صورت مزید تکلیف دہ ہے۔ جہیز کی لعنت پتہ نہیں کہاں سے آ کر ہم سے چمٹ گئی ہے، اور بیٹی کو جہیز نہ دینے والا مطعون ہوتا ہے ادھر بیٹی کا جو اصل حق ہے (وراثت) وہ اُس کا مطالبہ کرے تو مطعون! خون کے رشتے جن میں محبت اور مؤدت نسبتاً زیادہ ہونی چاہئے وہاں مخاصمت زیادہ ہے یہاں تک کہ ایک دادا کی اولاد کو ’’شریکا‘‘ کہا جانے لگا ہے اور شریکے کو نیچا دکھانا ہماری زندگی کا اہم ترین مقصد رہ گیا ہے۔
عقائد کو دیکھ لیجئے۔ آج کوئی شخص مسلمان بعد میں ہے اور شیعہ، سنی، وہابی، بریلوی، دیوبندی، مالکی، شافعی، حنبلی، حنفی پہلے ہے۔ اسلام نے عورت کو مستور قرار دیا، یہاں عورت دکھاوے کی شے بنا دی گئی۔ فطری طور پر انسان کی ضرورتیں محدود اور قدرتی وسائل لامحدود ہیں، آج اسی بات کو غلط کہا جا رہا ہے۔
رشوت کا یہ عالم ہے کہ آپ اپنے جائز حق کے لئے عدالت میں بھی کیس رجسٹر نہیں کرا سکتے جب تک متعلقہ اہلکار کی مٹھی گرم نہ کریں۔ بجلی کا میٹر لگوانا ہو، گیس کا میٹر لگوانا ہو، کوئی پرمٹ یا لائسنس بنوانا ہو، پاسپورٹ بنوانا ہو۔ اور تو اور حج کے لئے پاسپورٹ بنوانے کو بھی رشوت دینی پڑتی ہے، خاکم بدہن وہ حج کیا ہوا؟ ہر کام کے لئے ایجنٹ؛ ایجنٹ کا کام کسے نہیں پتہ؟!
مظفر آباد کے زلزلے سے ہم نے کیا سیکھا ہے؟ اور زلزلے کے فوراً بعد وہاں کس انداز کی لوٹ کھسوٹ چلی ہے! کوئی ذی شعور شخص اس کو فراموش نہیں کر سکتا۔ بہت دکھ ہیں، ایک نہیں! ہم اخلاقی سطح پر قومِ لوط سے کم نہیں، ناپ تول اور تجارت میں اہلِ ایکہ سے بڑھ کر ہیں، تکبر و نخوت میں آلِ ثمود بھی کیا رہے ہوں گے!
پھر تو یہی ہو گا کہ: ’’تمہارے رذیل تم پر حاکم ہوں گے‘‘۔ جب رذیل حاکم ہوں تو معاشرت کیسی ہو گی، کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
 
Top