تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کی بے مثال حمایت حاصل ہے: وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا اعتراف

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن نے براہِ راست نام لے وہ واویلا مچایا کہ ہاتھ جوڑلیے۔
ہاہاہا۔ انہوں نے تو شیخ مجیب الرحمان کو آئینی و قانونی طور پر اقتدار سونپنے کی بجائے ملک توڑنے کو ترجیح دی تھی۔ وہ کونسا لندن سے ہونے والی چند جمہوری انقلابی تقاریر سے ڈرنے والے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں شکست کی اور وجوہات ہیں۔ وگرنہ انہوں نے جہاں اپنی پسندیدہ جماعت کو جتوانا ہوتا ہے وہاں دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ گلگت بلتستان اور چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کا حال آپ کے سامنے ہے۔ پی ڈی ایم کی ۱۱ جماعتیں ملکر بھی وہاں اسٹیبلشمنٹ کا بال بیکا نہیں کر سکیں۔
 
خلائی مخلوق ضمنی الیکشن میں اپنی توانائی خرچ نہیں کرتی۔ یہ صرف بڑے میچز جیسے عام انتخابات یا سینیٹ انتخابات میں کھل کر کھیلتی ہے۔
آئیندہ سوچ سمجھ کر گھوڑوں پر پیسے لگائے گی۔ گدھوں پر پیسے لگانے سے پچھتائے۔ ستر سال میں پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ مایوس ہوئی ہے۔
 
خلائی مخلوق ضمنی الیکشن میں اپنی توانائی خرچ نہیں کرتی۔ یہ صرف بڑے میچز جیسے عام انتخابات یا سینیٹ انتخابات میں کھل کر کھیلتی ہے۔
بھٹو جیسا ٹکرجائے تو اس کے آگے ناک بھی رگڑنی پڑتی ہے۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔

ویسے تو زرداری ہی کافی ہے۔ سندھ اس سے لے پائیں تو ہم جانیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جی ہاں۔ ہر پانچ دس سال میں اس کا ایک نیا ورژن آتا ہے۔
اس میں سارا قصور عوام کا ہے۔ پی پی ۱۹۷۰ اور ن لیگ ۱۹۹۳ سے الیکشن جیت رہی ہے۔ جب پی پی کی حکومت ناکام ہوتی ہے تو ن لیگ جیت جاتی ہے۔ اور ن لیگ کی ناکامی پر پی پی۔ الیکشن میں صرف یہ طے ہوتا ہے کہ اب کی بار کس نے حکومت کرنی ہے۔ باقی ملک کے مسائل آج بھی وہی ہیں جو ۱۹۷۰ میں تھے یا ۱۹۹۳ میں تھے۔ آئن اسٹائن کہا کرتا تھا کہ بار بار ایک ہی عمل دہرا کر مختلف نتائج کی توقع کرنا پاگل پن ہے۔ اور پاکستانی قوم اجتماعی طور پر ۱۹۷۰ سے اسی پاگل پن کا شکار ہے۔ تحریک انصاف نے ڈلیور نہیں کیا تو اسے اگلے الیکشن میں فارغ کریں۔ اور نئی جماعتوں کو موقع دیں۔ یہ کیا کہ جو سیاسی جماعتیں ۱۹۷۰ سے باری باری اقتدار میں ہیں دوبارہ انہی کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ اور جب اگلی حکومت میں وہ ناکام ہوں گے جیسا کہ ان کی تاریخ ہے۔ تو اس سے اگلے الیکشن یعنی ۲۰۲۸ میں عوام دوبارہ تحریک انصاف کو ووٹ ڈال رہی ہوگی جو بقول ناقدین کے اس وقت ناکام ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر فائز عیسیٰ معتوب، دھمکیوں کا بھانڈا پھوڑنے پر شوکت صدیقی فارغ۔ نواز شریف فیصلے کا بھانڈا پھوڑنے پر زاہد ملک بدنام ، فارغ۔ فارن فنڈنگ کا کیس لینے پر الیکشن کمشنر بدنام۔ جو آئے آئے کہ ہم میمز کا کارخانہ رکھتے ہیں۔
یعنی اسٹیبلشمنٹ خود دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ ایک جسٹس فائز عیسی گروپ ہے جو نواز شریف کو سپورٹ کر رہا ہے۔ دوسرا جنرل فیض گروپ ہے جو عمران خان کی حمایت کر رہا ہے۔ جسٹس فائز عیسی نے ستمبر ۲۰۲۳ میں چیف جسٹس پاکستان بننا ہے۔ وہ پوری کوشش کریں گے کہ اکتوبر ۲۰۲۳ میں ہونے والے عام انتخابات تک نواز شریف کو کرپشن کیسز میں کلین چٹ دے دیں جیسا کہ انہوں نے حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس میں کیا تھا۔ یوں نواز شریف دوبارہ الیکشن لڑنے کے اہل ہو جائیں گے۔
دوسری طرف جنرل فیض گروپ پوری طرح متحرک ہوگا کہ وہ کسی طرح جسٹس فائز عیسی کو چیف جسٹس پاکستان بننے سے روکے۔ ۲۰۲۳ میں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے جو صرف سیاسی ہی نہیں غیر سیاسی بھی ہوگا۔
 
اس میں سارا قصور عوام کا ہے۔ پی پی ۱۹۷۰ اور ن لیگ ۱۹۹۳ سے الیکشن جیت رہی ہے۔ جب پی پی کی حکومت ناکام ہوتی ہے تو ن لیگ جیت جاتی ہے۔
ہم تو کہتے ہیں عوام کو ہی منتخب کرنے دیں۔ جمہوریت سے بہتر نظام اس دنیا کی تاریخ میں نہیں۔

اسٹیبلشمنٹ پسند کرتی ہے تو کبھی کبھی نظام سقہ بھی آجاتا ہے۔ نری بدنامی
 

جاسم محمد

محفلین
معیشت کے اعدادو شمار مستحکم ہوئے ہوتے تو اسد عمر اور دوسرے پھنے خان کو نکالا نہ جاتا۔
عمران خان کو ویسے ہی اپنی ٹیم بار بار بدلنے کا بہت شوق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ معیشت مستحکم نہیں ہے۔ مختلف عالمی مالیاتی ادارے پاکستانی معیشت کو پچھلے سال ہی مستحکم قرار دے چکے ہیں۔
Pakistan’s long-term outlook ‘stable’: Standard & Poor’s - Newspaper - DAWN.COM
Pakistan’s economy is stable: Moody’s – SAMAA
 
عمران خان کو ویسے ہی اپنی ٹیم بار بار بدلنے کا بہت شوق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ معیشت مستحکم نہیں ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستانی معیشت کو مستحکم قرار دے چکے ہیں
اس بے بنیاد جواب کے ساتھ انصاف میڈیا سیل کے بنائے گراف تو نتھی کریں!
 

جاسم محمد

محفلین
اب بھی ایک پیج پر ہیں یا صفحہ پھٹ گیا، ڈانٹ پڑنی شروع۔

بڑے طمطراق سے لائے تھے ان کو۔ یاد ہے، 2018 تبدیلی کا سال؟
اختلافات تو ہمیشہ ہوتے ہیں۔ مریم نواز کو باہر جانے کی اجازت نہ دینے پر، بھارت سے تجارت نہ کھولنے پر، اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر سول ملٹری قیادت میں اختلافات ہیں۔ مگر یہ اختلافات پی پی یا ن لیگ دور جتنے سنگین نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے دکھاتے حکومتیں ہی گرا دیں یا جرنیلوں سے زور زبردستی استعفے لے لیں۔
 
اختلافات تو ہمیشہ ہوتے ہیں۔ مریم نواز کو باہر جانے کی اجازت نہ دینے پر، بھارت سے تجارت نہ کھولنے پر، اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر سول ملٹری قیادت میں اختلافات ہیں۔ مگر یہ اختلافات پی پی یا ن لیگ دور جتنے سنگین نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے دکھاتے حکومتیں ہی گرا دیں یا جرنیلوں سے زبردستی استعفے لے لیں۔
آگے آگے دیکھیے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ستر سال میں پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ مایوس ہوئی ہے۔
غلط سمجھے۔ پی پی اور ن لیگ کی موجودہ قیادت سے مایوس ہو کر ہی تحریک انصاف کو ایک موقع دیا گیا تھا۔ اب وہاں بھی کام نہیں چل رہا تو پی پی اور ن لیگ میں سے جمہوری انقلابیوں کو مائنس کر کے بوٹ پالشوں کیساتھ اگلی حکومت بنانے پر کام ہو رہا ہے۔ شہباز شریف یا بلاول خود کو اگلا وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ نواز شریف اور مریم نواز کو فیض گروپ اقتدار سے مائنس کر چکا ہے۔ جبکہ فائز عیسی گروپ چاہتا کہ یہی نظام ستمبر ۲۰۲۳ تک چلے اور پھر نواز شریف یا مریم نواز کی اقتدار کیلئے راہ ہموار کی جا سکے۔
 
غلط سمجھے۔ پی پی اور ن لیگ کی موجودہ قیادت سے مایوس ہو کر ہی تحریک انصاف کو ایک موقع دیا گیا تھا۔ اب وہاں بھی کام نہیں چل رہا تو پی پی اور ن لیگ میں سے جمہوری انقلابیوں کو مائنس کر کے بوٹ پالشوں کیساتھ اگلی حکومت بنانے پر کام ہو رہا ہے۔ شہباز شریف یا بلاول خود کو اگلا وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ نواز شریف اور مریم نواز کو فیض گروپ اقتدار سے مائنس کر چکا ہے۔ جبکہ فائز عیسی گروپ چاہتا کہ یہی نظام ستمبر ۲۰۲۳ تک چلے اور پھر نواز شریف یا مریم نواز کی اقتدار کیلئے راہ ہموار کی جا سکے۔
چلیے آپ نے مانا کہ 2018 کے فیصلے پر نادم ہیں اور دوبارہ انہی دونوں جماعتوں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے تو زرداری ہی کافی ہے۔ سندھ اس سے لے پائیں تو ہم جانیں۔
اندرون سندھ میں جتنی جہالت اور غلامانہ کلچر ہے۔ اگلے سو سال بھی یہ صوبہ زرداری خاندان کے پاس ہی رہے گا۔ وہاں سے پی پی کو صرف اسی صورت شکست دی جا سکتی ہے اگر تمام وڈیرے و جاگیردار متحد ہو کر کسی اور جماعت کے حق میں کھڑے ہو جائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس بے بنیاد جواب کے ساتھ انصاف میڈیا سیل کے بنائے گراف تو نتھی کریں!
یہ مختلف عالمی مالیاتی اداروں کی پاکستانی معیشت کے حوالہ سے خبریں نتھی کی ہیں۔ پڑھ لیں۔ آپ کے پسندیدہ ترین اخبار نے ہی چھاپی ہیں۔
Pakistan’s long-term outlook ‘stable’: Standard & Poor’s - Newspaper - DAWN.COM
Moody’s upgrades Pakistan’s outlook to ‘stable’
 

جاسم محمد

محفلین
چلیے آپ نے مانا کہ 2018 کے فیصلے پر نادم ہیں اور دوبارہ انہی دونوں جماعتوں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
کسی حد تک۔ جنرل باجوہ نے نواز شریف کا پاناما کیس میں ساتھ اس لئے نہیں دیا کیونکہ وہ ۲۰۱۸ کا الیکشن جیت کر دوبارہ اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا دیتے۔ اور جو معیشت کی بینڈ انہوں نے ۲۰۱۵ سے بجائی تھی اس کا سلسلہ جاری رہتا۔ دوسرا مریم نواز ڈان لیکس میں براہ راست ملوث تھی اور اپنے سوشل میڈیا سیل کو فوج کے خلاف استعمال کرتی تھی۔ اس لئے یہ بھی کسی صورت بطور وزیر اعظم قبول نہیں۔ یوں آ جا کر بوٹ پالش شہباز شریف ہی بچتے ہیں جن کا اگلے الیکشن کیلئے ن لیگ سے قرعہ نکل سکتا ہے۔ بلاول کا چونکہ پنجاب میں کوئی ووٹ بینک نہیں تو اس کا اگلی حکومت بنانا کافی مشکل کام ہے۔ اب وہ فرمائشیں کر رہے ہیں کہ ان کو پنجاب میں دوبارہ جگہ دی جائے یعنی اگلے الیکشن میں ان کے حق میں دھاندلی ہو سکتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نہیں صاحب سراسر اسٹیبلشمنٹ کا قصور ہے۔ اس مرتبہ نظرِ کرم ہوئی بھی تو ایک نکھٹو پر۔ تین سال کی کارکردگی صفر۔ کیسا شرمندہ کردیا سیلیکٹرز کو مگر مجال جو خود کو شرم آئی ہو۔
آپ کی بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا خلیل صاحب، لیکن شاید آپ کو بھی ماننا پڑے کہ اس بار اگر نکھٹو پر نظر کرم ہوئی ہے تو اس سے پہلے ہمیشہ حرام خوروں اور چوروں پر نظر کرم ہوئی، ہمارے اختیار میں صرف اتنا ہے کہ"نکھٹو، حرام خوراور چور" ان میں سے اپنی مرضی سے جس کو چاہیئں چن لیں، کیسی شاندار جمہوریت ہے!
 
Top