تجھے فرصت ہو جو منزل پہ سوالوں سے کبھی ٭ راحیلؔ فاروق

تجھے فرصت ہو جو منزل پہ سوالوں سے کبھی
راستہ پوچھ مرے پاؤں کے چھالوں سے کبھی

نکل آگے بھی کتابوں کے حوالوں سے کبھی
آج کے عہد میں مل سوچنے والوں سے کبھی

شیخ نکلا نہیں جنت کے خیالوں سے کبھی
بات آگے نہ گئی چند مثالوں سے کبھی

پیاس بجھتی ہے امنگوں کے پیالوں سے کبھی
مشک ملتا ہے امیدوں کے غزالوں سے کبھی

میری تلوار تو ٹوٹی ہے تجھے یاد رہے
وقت رکتا نہیں فولاد کی ڈھالوں سے کبھی

سر پہ حق بیٹھ گیا وقت نے در چیر دیا
کچھ ہوا سوچ پہ ڈالے ہوئے تالوں سے کبھی

تنگ آئے ہو اناڑی کے اناڑی پن سے
عاجز آ جاؤ نہ تقدیر کی چالوں سے کبھی

ہم تفکر کے تو منکر نہیں لیکن راحیلؔ
کچھ سلجھتا بھی ہے الجھے ہوئے بالوں سے کبھی

راحیلؔ فاروق​
 
Top