تبدیلی ایسے آئے گی!

جاسم محمد

محفلین
تبدیلی ایسے آئے گی!
اکرم ثاقب بدھ 1 مئ 2019
1647125-tabdeeliaisayaayigi-1556264666-787-640x480.jpg

ہم بچپن سے تبدیل ہونا شروع ہوتے ہیں اور مرتے دم تک تبدیلی ہمارا پیچھا کرتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہر طرف تبدیلی کا ذکر ہے۔ کوئی طنز سے کررہا ہے تو کوئی اسے سیاسی نعرہ بنارہا ہے۔ اور جو تبدیلی کے مخالف ہیں، شائد انہیں بھی علم ہے کہ تبدیلی تو آتی ہی رہتی ہے، کیونکہ اگر ثبات ہے تو وہ تغیر کو ہے۔

ہم بچپن سے تبدیل ہونا شروع ہوتے ہیں اور مرتے دم تک تبدیلی ہمارا پیچھا کرتی ہے۔ کبھی مالی تبدیلی تو کبھی جسمانی تبدیلی، کبھی گھر کی تو کبھی نوکری کی۔ ہم ساری زندگی تبدیل ہی ہوتے ہیں، مگر مانتے نہیں کہ تبدیلی آگئی ہے۔

قوموں کی ترقی کا انحصار محض تبدیلی پر ہی نہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں کچھ پالیسیوں کو مستقل بنیادوں پر چلانا پڑتا ہے۔

پاکستان میں آج تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، کسی نے کسی بھی اس پالیسی یا منصوبے کو استحکام نہیں بخشا جو ملکی ترقی کے لیے ناگزیر ہو۔ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ سابقہ حکومت نے ایک سڑک بنانے کا کام شروع کیا۔ حکومت کی مدت ختم ہوگئی یا کردی گئی تو وہ سڑک جیسی تھی ویسی ہی رہ گئی۔ اگرچہ سڑک پر بجری ڈال جاچکی تھی، صرف تارکول ڈالنا باقی تھا۔ وہ سڑک نئی حکومت نے وہیں چھوڑ دی اور اس کے متوازی ایک نئی سڑک بنادی، جس پر اپنے نام کی تختی بھی سجادی۔ اس ایڈہاک ازم کی وجہ سے ملک کا جتنا مالی نقصان ہوا اس کو شمار کرنا ہی مشکل ہے۔

ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ایسے جامع اور طویل مدتی منصوبے درکار ہوتے ہیں جو اس کی معاشی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ مگر ہمارے ہاں ایسے منصوبے کبھی چلنے ہی نہیں دیے جاتے۔

سابقہ حکومت سے مخاصمت کی وجہ سے اپنے ملک کا نقصان کرنا ہمارے صاحبان اقتدار کا وطیرہ رہا ہے۔ ملک کو اگر کسی نے ترقی دینے کی کوشش کی تو آنے والی حکومت نے اس کے منصوبوں کو ناقص قرار دے کر انہیں یک جنبش قلم ختم کردیا اور اپنے منصوبے دینا شروع کیے۔

ہمارے ہاں چونکہ نظام ہمیشہ یکساں نہیں رہتا اور نہ ہی جمہوری پارٹیاں حقیقی معنوں میں جمہوری ہیں۔ حکومت سے باہر ہوں تو ایسا ہی لگتا ہے جیسے وہ اس ملک کی دشمن ہیں اور یہ ملک ان کا نہیں ہے۔ کوئی ملکی ترقی کے لیے منصوبہ بندی نہیں کرتا۔ جب حکومت سر پر پڑتی ہے یا مار دی جاتی ہے تو پھر بھاگم بھاگ پچھلے منصوبوں کی قطع برید کرکے انہیں نئی پیکنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے اس منصوبے کی روح فوت ہوجاتی ہے اور جلدی کا کام شیطان کا بن جاتا ہے۔

کسی بھی حکومت کا نام لے لیں، اس نے یہی کچھ کیا ہوتا ہے۔ یا تو وہ پچھلے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگاتی ہے یا وہ ختم کرکے انہیں نئے نام اور انداز سے پیش کردیتی ہے۔

اگر ہم اپنے وطن کو پھلتا پھولتا اور آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو خواہ حکومت میں ہوں یا باہر، اسے اپنا سمجھتے ہوئے اس کے لیے کام کرتے رہیں۔ یہ کام حکومت کی طرف سے شروع کیا جانا چاہیے۔ ایک مستقل ادارہ قائم ہونا چاہیے جو سابقہ حکومت کے نامکمل منصوبوں کو مکمل کرتا رہے۔ انہیں بند نہ کیا جائے اور نہ ہی ادھورا چھوڑا جائے۔

اگر حقیقی تبدیلی لانی ہے تو حکومت اپوزیشن کو پاکستانی سمجھے اور اپوزیشن حکومت کو اپنے ملک کی ہی حکومت سمجھے۔ ذاتی بغض و عناد ہو بھی تو وہ اسمبلی اور حکومت سے باہر ہی رکھا جائے۔ یہی ایک راستہ ہے مثبت تبدیلی کا۔ سوچ اور دماغ روشن ہو اور وسیع القلبی سے سب کو قبول کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس ملک میں مثبت تبدیلی نہ آسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top