تاریخ کی تلاش از ڈاکٹر مبارک علی سے اقتباسات

رضوان

محفلین
پاکستان میں تاریخ نویسی کے مسائل
ماضی پر کنٹرول کرنے کا مطلب ہے کہ زمانہ حال پر اپنے ماضی کے مطابق قابو پایا جائے، کیونکہ ماضی کے تعلق سے اقتدار کو قانونی جواز دیا جاتا ھے۔ معاشرہ کے بااقتدار اور طاقتور ادارے کہ جن میں ریاست، چرچ، سیاسی جماعتیں، اور ذاتی مفادات شامل ہیں۔ یہ ذرائع ابلاغ اور ذرائع پیداوار پر اپنا تسلط رکھتے ہیں، اس لئے چاہے وہ اسکول کی نصاب کی کتابیں ہوں، یا کارٹون و فلموں کا مسودہ ہو، یا ٹیلیوژن کے پروگرام، یہ سب ین کے لئے کام آتے ہیں۔
ماضی میں تاریخ کا کام یہ تھا کہ وہ حکمران طبقوں کے کارناموں کو محفوظ کر کے، معاشرہ میں ان کی عزت و وقار میں اضافہ کرتی تھی۔ ہی لوگ رعیت کے سرپرست، راہنما، اور مسیحا ہوتے تھے کہ جو لوگوں کو مصیبت سے بچاتے اور انکا تحفظ کرتے تھے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ان ہی لوگوں پر ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ صورت حال بدل گئی ہے خاص طور سے جب نو آبادیاتی نظام ٹوٹا اور ممالک آزاد ہوئے، تو انکے ساتھ ہی راہنماؤں کا ایک طبقہ بھی وجود میں آیا۔ کیونکہ نوآبادیاتی دور میں شاہی خاندان اور پرانے حکمراں اور انکی نسلیں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی تھیں، اس لئے آزادی کے بعد ہندوستان میں مغل خاندان کے دعوےدار نہیں ابھرے، اور نہ ہی دوسرے ملکوں میں ان خاندانوں کو کوئی اہم سیاسی جگہ ملی۔ آزادی کے بعد راہنماؤں کی جو کلاس ابھری، ان کی راہنمائی کا دعوٰی اس بات پر تھا کہ انہوں نے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا ہے، قربانی دی ہے، قید و بند کی صعوبتیں اٹھائی ہیں، اس لئے ان بنیادوں پر انکا حق ہے کہ وہ سیاسی اقتدار کو سنبھالیں۔ چونکہ ان کی لیڈر شپ کی بنیاد ان کی سیاسی جدوجہد پر تھی، اس لئے “جدوجہد آزادی کی تاریخ“ کو خوب بڑھا چڑھا کر لکھا گیا۔ یہ صورت حال خاص طور سے پاکستان میں زیادہ شدت کے ساتھ ابھری، اور ان راہنماؤں کے کارناموں کو خوب اجاگر کیا گیا۔
آذادی کی تاریخ کے سلسلہ میں اہلِ برطانیہ جس نقطہ نظر کے حامی ہیں، اس کے تحت نو آبادیات میں آذادی کی کوئی جدوجہد نہیں ہوئی تھی، بلکہ مقامی رہنماؤں اور برطانوی حکمرانوں کے درمیاں انتقال اقتدار کی بات ہوئی تھی۔ اس لیے اس عمل کو وہ ٹرانسفر آف پاور یا انتقال اقتدار کہتے ہیں جو کہ پر امن طور سے ہوا۔ اگر اس نقطہ نظر کو تسلیم کر لیا جائے تو اس صورت میں ،، جدوجہد آذادی کے مجاہد،، اسکرین سے غائب ہو جاتے ہیں۔ اور آذادی کی جنگ بے معنی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ پر امن تصفیہ اور اقتدار کی منتقلی کے بعد برطانیہ خاموشی سے رخصت ہو گیا۔ اس کے ردِ عمل میں بریصغیر کے مورخ اس نقطہ نظر کو دہراتے ہیں کہ اقتدار پر امن طریقہ سے منتقل نہیں ہوا۔ بلکہ یہ عوامی دباؤ کے نتیجہ میں ہوا، اس لیے ہندوستان اور پاکستان کی آذادی کوئی تحفہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان کا حق تھا کہ جسے بزور طاقت برطانیہ سے چھینا ہے۔
نئے آذاد ہونے والے ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی یہ مسئلہ در پیش ہے کہ وہ اپنی تاریخ کی تشکیل نو کیسے کرے؟ پاکستان کی تاریخ نویسی میں دو اہم مسائل یہ ہیں کہ نوآبادیاتی دور کو کسطرح سے بیان کرے؟ اور تقسیم کو کیسے درست اور صحیح ثابت کرے؟ ان ملکوں کے لیے جو نو آبادیات رہی ہیں اور جن پر غیر ملکی قبضہ اور تسلط رہا ہے ۔ان کے لیے یہ دور باعث شرمندگی، اور قومی رسوائی کا ہے، کیونکہ اس میں انکی سیاسی شکستیں ہیں، ثقافتی کم تری ہے، معاشی بد حالی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ نو آبادیاتی دور نے نہ صرف ان کے تاریخی تسلسل کو توڑ دیا بلکہ ان کی تاریخ میں اجنبی اور غیر ملکی عناصر کو داخل کر دیا کہ جس نے ان کیروایات اور اداروں کو بکھیر کر رکھ دیا۔
پاکستان نے اس کا آسان حل یہ نکالا کہ چونکہ نوآبادیاتی دور کا ہندوستان کے ماضی سے تعلق ہے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان کا وجود نہیں تھا، لہزا اس دور کے بارے میں تحقیق کرنا اور اس کے اثرات کا تجزیہ کرنا ہندوستانی مورخوں کا کام ہے۔ لیکن نو آبادیاتی دور کے بارے میں جگہ جگہ جن خیالات کا اظہار ہوا ہے، اس میں اس دور کو منفی انداز میں نہیں دیکھا گیا۔ ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں ہندو اور مسلمان دو متضاد قومیں توازن کے ساتھ رہ رہیں تھیں۔ جب تک وہ رہے مسلمانوں کو تحفظ ملا رہا۔ دوسرا اس دور کے بارے میں پنجاب کے لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ برطانوی دور حکومت میں اس صوبے نے معاشی طور پر کافی ترقی کی۔ اور اب جب کہ ہمارے حکمراں نااہل و ناکام ثابت ہوگئے ہیں، تو ان کی روشنی میں لوگوں کو نوآبادیاتی زمانہ پر امن، خوش حال اور سکون کا نظر آرہا ہے۔
بہر حال نوآبادیاتی دور سے ہٹ کر پاکستانی مورخوں کے لیے اور بہت سے مسائل ہیں۔ پاکستانی مورخ ان مسائل کے بارے میں لکھ تو رہے ہیں، مگران کے نقطہ نظر میں حکمرانوں کے سیاسی مفادات پوری طرح سے نظر آتے ہیں کہ جن کی روشنی میں وہ تاریخ کی تشکیل کر رہے ہیں۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

رضوان

محفلین
پاکستان کی تاریخ نویسی کی تشکیل‘ نظریہ پاکستان کے دائرہ یا فریم ورک میں ہوتی ہے۔ اس کا ایک اہم اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کو بحیثیت ایک قوم ان کی علیحدگی کو جائز ثابت کیا جائے تاکہ اس کی روشنی میں تقسیم بھی درست قرار پائے۔ پاکستان کے مورخوں کو اس ،،نظریہ،، کے تحت جو ہدایات دی گئیں اس کی روشنی میں انہوں نے تاریخ لکھی تواس کی وجہ سے بہت سے تاریخی حقائق کو نظر انداز کرنا پڑا، یا پھر ان کی توجیہ پیش کرنی پڑی۔ تاریخ کو جب بھی کسی نظریہ کے آہنی فریم میں رکھا جائے گا تو اس کی معروضیت کو قربان کرنا پڑے گا۔ اس لئیے سیاسی مفادات کو درست ثابت کرنے کے لیے واقعات کو توڑا ، مروڑا اور مسخ کیا گیا۔ اس سلسلے میں ایرک ہابس باؤم نے لکھا ہے کہ ،، قوم پرست مورخ نظریات کے ملازم بن کے رہ جاتے ہیں۔،، ایک دوسری جگہ اس کا کہنا ہے کہ ،، جب بھی تاریخ کسی نظریہ سے متاثر ہوتی ہے تو اس کے اندر اتحاد پیدا کرنے کا جزبہ پیدائشی موجود ہوتا ہے، اس اندھے پن سے زیادہ خطرناک چیز اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ بد قسمتی سے اس کا اظہار جدید اقوام، قوم پرستی کے جزبے کے تحت کررہی ہیں۔،،
سیاست اور اقتدار کی جنگ میں، وہ تاریخ کہ جس کی بنیاد اور تشکیل نظریہ پر ہو، وہ اپنے دلائل اور تاریخی ثبوتوں کے ساتھ سیاسی لیڈر شپ کے لیے جواز فراہم کرتی ہے۔ مائیکل ڈبلیو ایپل نے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسو سوال کو اٹھایا ہے کہ ،، نظریہ یا آئیڈیالوجی ان لوگوں کے ساتھ کیا کرتی ہے جو اس کے ماننے والے ہوتے ہیں؟،، پھر اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ،، یہ سماجی حقیقت کی تصویر کو مسخ کرتی ہے بلکہ اس طبقے کو فائدہ پہنچاتی ہے جو صاحب اقتدار ہوتا ہے۔،،
پاکستانی مورخوں کے سامنے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بریصغیر ہنوستان کے قدیم ماضی کو کسطرح سے بیان کیا جائے۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد آٹھویں صدی میں ہوئی۔ لہزا دو قومی نقطہ نظرسے، اور مسلمانوں کی علیحدگی کے پس منظر میں قدیم ہندوستان کے ماضی سے ان کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ سی وجہ سے اس قسم کے اخباری بیانات دیے گئے کہ موئنجو ڈرو کو مسمار کر دینا چاہیے کیونکہ اس کا تعلق اسلام اور اس کی تہزیب سے نہیں ہے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

رضوان

محفلین
لہٰزا جب ہندوستان کے ماضی کو رد کردیا گیا تو پھر اس کی جگہ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ اور اس کے ماضی کو دی گئی۔ اسلامی تاریخ کو برصغیر سے ، سندھ کی فتح کے ذریعے سے آپس میں ملایا گیا، کیونکہ عربوں کی فتح سندھ کے بعد ہندوستان کے مسلمان عرب امپائر کا حصہ بن کر ان میں شامل ہو گئے۔ اس تعلق نے دمشق، بغداد، قاہرہ، قرطبہ کی شان و شوکت اور عروج کو ہندی مسلمانوں کی تاریخ کا ایک حصہ بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی چمک دمک اور شان و شوکت کے آگے دہلی، آگرہ اور فتح پور سیکری کی موجودگی ماند پڑ گئی۔
اس کے علاوہ وسط ایشیا سے سیاسی و ثقافتی تعلق کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستان کے کچھ مورخوں کی دلیل یہ ہے کہ پاکستان کا وسط ایشیا سے اس قدر گہرا تعلق ہے، کہ اس کے مقابلہ میں ہندوستان سے اس کے رشتے کچھ حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ اس نظریہ کو پاکستان کے ماہر آثار قدیمہ اور مورخ اے-ایچ-دانی نے کافی ابھارا اور مقبول بنانے کی کوشش کی ہے۔

پاکستانی تاریخ نویسی کے مسائل یہاں پر ختم نہیں ہوجاتے ہیں۔یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ قرون وسطٰی کی ہندوستانی تاریخ کو کیسے لکھا جائے؟ کیونکہ اس عہد میں جب کہ ہندوستان پر مسلمان حکمران خاندانوں کی حکومت تھی، ان کی سیاسی طاقت و اقتدار کا مرکز دہلی، اور ہندوستان کے وہ علاقے تھے جو پاکستان نہیں ہیں۔ اس عہد کی تشکیل کرتے ہوئے مورخوں نے ایک حل تو یہ نکالا ہے کہ اسے ایک نیا نام دے دیا ہے“تاریخ پاک و ہند“ تاکہ اس طرح سے تاریخی تعلق اور رابطہ کو باقی رکھا جائے۔

لیکن کچھ انتہا پسند ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اس پورے عہد کو تاریخ سے خارج کردیا جائے کیونکہ اگرچہ حکمراں تو مسلمان تھے، مگر انہوں نے شریعت اسلامی کے نفاذ کے بجائے یہاں پر سیکولر انداز میں حکومت کی اور ہندوؤں کو اپنی انتظامیہ کا حصہ بنا کر “اسلامی معاشرہ“ کو ہندوستان میں کمزور کیا۔ وہ ان تمام کوششوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ جن کے ذریعہ ہندوستان میں مشترکہ کلچر پیدا ہوا‘ اور اس نے شاہی سرپرستی میں ترقی کی۔ آئی-ایچ-قریشی جو پاکستان میں تاریخ نویسی کو نظریہ میں ڈھالنے والے ایک اہم مورخ ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ مغلوں نے راجپوتوں کو حکومت میں شامل کر کے زبردست غلطی کی، کیونکہ اس کی وجہ سے مسلمان برادری مغل ریاست سے علیحدہ ہو گئی۔ اس علیحدگی اور لاتعلقی کے نتیجہ میں جب اس پر مصیبت کا وقت آیا تو انہوں نے کوئی مدد نہیں کی۔(5)
چونکہ اکبر وہ مغل بادشاہ ہے کہ جس نے ہندوستان میں مغل ریاست کو وسیع بنیادوں پر تعمیر کیا اور مذہبی تعصب سے بلند ہو کر ہندوؤں کو اس کا ایک حصہ بنایا، اس وجہ سے پاکستان میں اس شخصیت پر اسی طرح سے زوردار تنقید ہوتی ہے،اور اس کے مذہبی خیالات پر اسی طرح سے لعن طعن ہوتی ہے‘جیسے کہ اس کے اپنے زمانے میں عبدالقادر بدایونی نے اپنی کتاب “منتخب التواریخ“ میں اس پر کی تھی۔ نتیجہ یہ کہ اکبر نظریہ پاکستان اور دو قومی تشخص کے لئے ایک خطرہ مانا جاتا ہے‘اس لئے پاکستان میں اسکول کی نصابی کتب میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔(6)
قرون وسطٰی کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے بارے میں مذہبی حلقوں کے جو تاثرات ہیں، اسکا اندازہ اس مضمون سے ہوتا ہے کہ جو سید زاہد علی واسطی نے رسالہ آواز میں بعنوان “ مسلمانوں بادشاہوں کی عیش پرستوں کی عبرت ناک داستاں: زوال آخر مقدر ہوا“ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

محمد بن قاسم کے بعد جن فاتحین نے اس ملک کی حدود میں قدم رکھا ان کے سامنے کوئی اعلٰی مقصد یعنی جہاد فی سبیل اللہ یا اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کا تصور نہیں تھا۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ چند ایک کو چھوڑ کر تمام حملے، یلغاریں، فوجی مہمات، کشت و خوں صرف جوع البطن، توسیع حکومت، زمانہ سازی، جلبِ زر کی خاطر عمل پیرا ہوئیں۔ جہاد فی سبیل للہ تو مشرکوں سے نبردآزمائی اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے مگر اس کو کیا کہیے کہ مسلمانوں نے مسلمانوں ہی کا خوں بہا کر حکومتیں حاصل کیں۔ (7)​

ان بادشاہوں کی طرزِ زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

انہوں نے اپنے لیے عظیم الشان قلعے اور محل تعمیر کرائے۔ ان محلات میں ہزار ہا کنیزیں اور لونڈیوں کی بھر مار ہوتی۔ خواجہ سراء اور غلام قطار اندر قطار کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ فراعیں مصر کی اتباع میں انہوں نے اپنے اور اپنی عورتوں کے لیے عالیشان مقبرے، محلات ایک دوسرے سے پر شکوہ بنوانے کو اپنی شان اور جبروت کے لیے مستحق جانا۔ ( 8 )​

ان کے نزدیک ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا زوال اس لیے ہوا کہ انہوں نے ہندوؤں کے ملاپ اور اشتراک سے ایک مشترکہ کلچر پیدا کیا۔ جب اکبر اور دوسرے مغل بادشاہوں نے راجپوت ہندو شہزادیوں سے شادیاں کرنی شروع کیں تو اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کا کلچر آلودہ ہونا شروع ہوگیا، اور بالا خر مغل ایمپائر زوال پزیر ہوئی۔

چنانچہ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ:

اس ذلیل ترین سیاسی چال بازیوں کی ابتداء جلال الدین اکبر نے کی جس نے سب سے پہلے 1560 ( 1562 ) میں سانبھر کے ایک راجپوت راجہ بہاری مل کی بیٹی اور بھگوان داس کی بہن جودھا بائی سے شادی کرلی۔۔۔۔۔۔ اس کو مریم زمانی کا خطاب دیا گیا لیکن وہ ہندو ہی رہی۔۔۔۔۔ جب یہ ہندو عورتیں بطور شہزادیاں مغل محلات میں آئیں تو اپنے ساتھ کثیر تعداد میں پچاسیوں ہندو کنیزیں، نوکرانیاں ساتھ لائیں۔۔۔۔ یہ عورتیں محل کے اندر چھوٹے چھوٹے مندر بناتیں، پوجا پاٹ کرتیں۔ اس کے علاوہ ہندو تہوار دیوالی، دسہرہ، رکھشا بندھن، بسنت، شیوراتری کثرت سے مناتیں۔(9)​
ان کی اس بحث سے جو نتائج نکلے وہ یہ کہ مغل بادشاہوں نے ہندوؤں سے میل ملاپ کے ساتھ اپنی اسلامی ثقافت کھو دی، ایک مشترکہ کلچر میں اسلامی روح کا نام و نشان نہیں تھا۔ مغل خاندان ہندو عورتوں سے شادی بیاہ کے نتیجہ میں نسلاً کمزور ہوتا چلا گیا۔ اس لیے یہ دور کوئی مسلمانوں کا دور نہیں کہ جس کو تسلیم کیا جائے اور جس پر فخر کیا جائے۔

جب پاکستان کے مورخ جدید تاریخ پر آتے ہیں تو اس میں “ جدوجہدِ آزادی “ سے زیادہ زور “ تحریک پاکستان اور حصولِ پاکستان “ کی تاریخ پر ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر میں کانگریس اور مسلم لیگ دو سیاسی جماعتیں اہم بن کر ابھرتی ہیں کہ جن کے درمیان تصادم اور کشمکش نظر آتی ہے۔ جب یہ تاریخ پاکستان کے قیام پر ختم ہوتی ہے تو اس میں مسلم لیگ کامیاب اور کانگریس شکست خوردہ ہو جاتی ہے۔ اس نقطہ نظر میں مسلمانوں کے سب سے بڑے مخالف انگریزوں کے بجائے ہندو ہوجاتے ہیں، اس لیے تقسیم ہند کی کامیابی ہندوؤں پر فتح ہے، انگریزوں پر نہیں -------
 

رضوان

محفلین
پاکستان کی تاریخ نویسی میں ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس علاقائی تاریخ کو کیسے لکھا جائے؟ کیونکہ علاقائی تاریخ اور نظریہ پاکستان میں تعلق پیدا کرنا، اور ان تاریخوں کو جدید نظریات سے ہم آہنگ کر کے اسے پاکستان کی تاریخ کا ایک حصہ بنانا، یہ دشوار مرحلہ ہے۔ مثلاً پنجاب میں سکھوں کے دورِ حکومت کو رد کر کے اسے بطور تحقیر “ سکھ شاہی “ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ دور بدامنی، انتشار، افراتفری، اور بے چینی کا دور تھا۔ سکھوں نے انگریزوں سے جو جنگیں لڑیں اور جس بہادری سے پنجاب کا دفاع کیا، وہ پاکستان کی تاریخ میں قابلِ فخر کارنامہ نہیں ہے۔اس لئیے یہ واقعات نصاب کی کتابوں میں داخل نہیں ہیں اور نہ ہی طالب علموں کو اس دور کے متعلق کچھ بتایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس عام طور سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ برطانوی فتح نے پنجاب کو سکھوں سے آزاد کرا کے یہاں پر امن و امان قائم کیا۔
سندھ کی تاریخ کا جب مسئلہ آتا ہے۔ تو اس میں 1843 کی انگریزوں کی فتح ہے، انہوں نے میانی کے میدان میں بڑی آسانی کے ساتھ ٹالپر میروں کو شکست دے دی تھی۔ یہی صورت دوسری جنگ میں ہوئی جو “دبہ“ کے مقام پر لڑی گئی۔ ان وقعات میں شکست تسلیم کرنے اور اندرونی کمزوریوں کا تجزیہ کرنے کے بجائے ان افراد کی بہادری اور شجاعت کی تعریف کی جاتی ہے جنہوں نے ان جنگوں میں حصہ لیا تھا۔ اس طرح وہ شکست کے داغ کو ان افراد کے ذکر اور تعریف سے دھونا یا مٹانا چاہتے ہیں۔
اگرچہ صوبہ سرحد کے لوگوں نے انگریزی حکومت کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی، لیکن اس کے راہنماؤں نے چونکہ کانگریس کا ساتھ دیا ، اس لیے ان کی نوآبادیاتی حکومت کے خلاف جدوجہد سب کو فراموش کردیا گیا اور پاکستان کی تاریخ میں انکا ذکر ہے تو بطور غدار کے ہے تحریک آزادی کے مجاہدوں کا نہیں ہے۔
بلوچستان کا ذکر آتا ہے تو اس میں اس واقعہ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ قلات کی ریاست نے پاکستان میں شامل ہونے سے انکار کردیا تھا اور اس کا الحاق زبردستی ہوا، اس کی مرضی سے نہیں ہوا۔
پاکستان کی تاریخ نویسی کا اہم موضوع یہ ہے کہ کس طرح سے پاکستان ایک کلچر کا فروغ ہو، اور یہاں پر جو علاقائی زبانیں، روایات، ادارے، مذہبی رویے اور ثقافتی بو قلمونی ہے۔ ان سب کو ملا کر اسے ایک مشترکہ کلچر کے طور پر پیش کیا جائے، تاکہ قوم میں اتحاد کا احساس ہو، اور علاقائی فرق ختم ہو۔ اشتراک کا یہ نظریہ سیاسی طور پر حکومت کی مرکزیت کو استحکام دیتا ہے۔ اس لیے علاقائی شناخت کو منفی معنوں میں استعمال کرکے، اس کی ترغیب دی جاتی ہے کہ علاقائی شناخت کو قومی شناخت میں ضم کردیا جائے۔
اس قسم کی تاریخ نویسی میں سب سے زیادہ نقصان غیر مسلم اقلیتوں کو ہوا ہے کہ جنہیں پاکستان میں “نظریہ پاکستان“ کے تحت معاشرہ کے دھارے سے نکال دیا گیا ہے۔ اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ انہوں نے تحریکِ پاکستان میں کوئی حصہ نہیں لیا ہے، اس لیے انہیں مساوی حقوق کا حق بھی نہیں ہے۔
 

رضوان

محفلین
پاکستان تقسیم کے بعد بہت سے سیاسی نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ کبھی یہاں جمہوریت رہی تو ایک طویل عرصے تک فوجی آمروں نے غاصبانہ قبضہ کر کے اس کو اپنے تسلط میں رکھا۔ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو ایک نیا پاکستان وجود میں آیا۔ جب سیاسی حکومتیں ناکام ہوئیں عوام کے مسائل بڑھتے چلے گئے، غربت و افلاس نے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو مذہبی بنیاد پرستی اور راسخ العقیدگی کو فروغ ملا۔ ہندوستان جو پہلے سے ہی “دشمن“ تھا، بگڑتے حالات میں اس کے خلاف ذرائع ابلاغ اور نصاب کی کتابوں کے ذریعے اور زیادہ نفرت کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ ان سب کے نتیجے میں پاکستان میں تاریخ کا نصاب متاثر ہوا۔ 1961 میں تاریخ کا مضمون ختم ہوا اور اس کی جگہ معاشرتی علوم نے لے لی کہ جس میں تاریخ بھی بطور ایک حصہ کے اس میں شامل ہوں۔ نصاب کی کتابیں لکھنے والوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور واقعات کا ایسا انتخاب کیا کہ جو سیاسی حالات کے مطابق ہو۔ جب بھی تاریخ کو ٹکڑے کر کے پڑھایا جائے گا اور واقعات کا انتخاب ہوگا تو اس سے تاریخی شعور مجروع ہوگا۔ مائیکل۔ ڈبلیو۔ ایپل نے لکھا ہے کہ:
“ انتخاب کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ جب ماضی و حال کے واقعات کے انبار سے اپنی پسند کی باتیں چن لی جائیں، جو واقعات پسند کے خلاف ہوں انہیں نظر انداز کر دیا جائے، یا ان واقعات کو اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ تسلط شدہ کلچر کی حمایت کرتے ہوں، تو اس صورت میں تاریخ کے اثرات منفی ہوتے ہیں۔“ (10)
نصاب کی کتابوں کے ساتھ دشواری یہ ہے کہ ان کے مضامین، واقعات، اور متن سیاسی حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ جب جمہوری حکومت آتی ہے تو فوجی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے، جب فوجی برسرِ اقتدار آتے ہیں تو ساری خرابیوں کا الزام سیاستدانوں کو دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں، اگر جمہوری دور میں دو مختلف سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں تو وہ مخالف جماعت پر الزاموں کی بوچھاڑ کردیتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہر آنے والی حکومت چاہے وہ فوجی ہو یا جمہوری وہ ماضی، یا سابقہ حکومت کو تمام بدعنوانیوں اور کرپشن کا ذمہ دار ٹھہرا کر خود پاک و صاف بن جاتی ہے۔ بقول جارج آرول کے ہر بار تاریخ کی سلیٹ کو دھو کر پاک و صاف کردیا جاتا ہے تاکہ نیا آنے والا اس پر اپنے کارنامے تحریر کرے۔
تاریخ کو جب بھی توڑا جاتا ہے ماضی کو بار بار حال کے تقاضوں کے تحٹ بااقتدار طبقوں کے مفادات کی روشنی میں بدلا جاتا ہے، تو اس صورت میں معاشرے کا تاریخی شعور پختہ نہیں ہو پاتا ہے اور تاریخ ان کے لیے رہنمائی کا باعث نہیں رہتی ہے، بلکہ ان کی سوچ اور فکر کو خراب کرتی ہے۔ کیونکہ جب تک پورے تاریخی حقائق سامنے نہ ہوں تاریخی عمل کا تجزیہ نہیں کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تاریخی شعور کی نا پختگی کے سبب قوم تاریخ کو بار بار دہراتی رہتی ہے۔
 

رضوان

محفلین
مذہب اور سیاست : امتزاج تصادم اور علیحدگی
مذہب اور سیاست دونوں اقتدار کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں۔ مذہب عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کے جزبات و احساسات کو استعمال کر کے اقتدار کے لیے راہیں ہموار کرتا ہے تو سیاست تدبیر زیرکی سازش مسلخ طاقت اور لوگوں کی رائے اور اجتماعی خواہشات کے تحت ----- اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کرتی ہے۔ لٰہذا اقتدار کے حصول میں مذہب اور سیاست دونوں کے طریقہ ہائے کار میں فرق ہوتا ہے۔ مذہب سیاست کو اپنا تابع بنا کر اس کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ الٰہی منصوبوں کی تکمیل کرے گا، لٰہذا اس کے اقتدار کی بنیاد الٰہی قوانین پر ہوتی ہے، کہ جن کے نفاذ کے بعد وہ معاشرے کی اصلاح کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سیاست کی بنیاد اس اصول پر ہوتی ہے کہ معاشروں پر حکومت کے لیے، نظامِ سیاست اور قوانین کو حالات و ماحول کے تحت بدلتے رہنا چاہیے تاکہ انسانی معاشرہ ایک جگہ ٹھہرا ہوا نہ رہے۔ اور برابر حرکت پذیر رہے یہ وہ بنیادی فرق ہے جو مذہب اور سیاست کو ایکدوسرے کے متصادم کردیتا ہے۔
مذہب اور سیاست کے تصادم اور فرق کے نتیجے میں تین ماڈلز ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اول، جب مذہب اپنی بقا کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے اتحاد بنالیتے ہیں اور ایک توازن کے ساتھ دونوں اقتدار میں باہم شریک ہوجاتے ہیں۔ اس کو ہم مذہب وسیاست کا امتزاج کہتے ہیں۔ دوم، جب سیاست مذہب کو اپنے تابع کر کے اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ تیسری صورت میں ان دونوں میں تصادم اور ٹکراؤ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مذہب و سیاست ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں اور دونوں علیحدہ علیحدہ دائرہ کار میں رہتے ہوئے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔
کسی بھی مذہب کی ابتداء اور اس کے پھیلاؤ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر مذہب ایک خاص ماحول، حالات، اور وقت میں ابھرتا اور پھیلتا ہے، اس لیے مذہب کا ردِعمل اپنے وقت کے مسائل اور حالات سے ہوتا ہے، لیکن جیسے جیسے حالات بدلتے ہیں، اسی طرح سے نئے نئے مسائل سامنے آتے ہیں، اور مذہب کے لیے یہ لازمی ہوتا ہے کہ ان مسائل کی اپنی تعلیمات سے مطابقت کرتا رہے۔ لیکن ایک مرحلہ وہ آتا ہے کہ جہاں اس کی تشکیل مکمل ہوجاتی ہے، ا کے بعد مذہب کی تعلیمات سے یہ گنجائش کم ہوجاتی ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دے سکے۔ مثلاً اسلام میں راسخ العقیدگی کی تکمیل میں ڈھائی سو سال کا عرصہ لگا جس میں اس کا فقہی نظام مکمل ہوا۔ لٰہذا جب بھی کسی مذہب میں راسخ العقیدگی ( Orthodoxy ) نظام مکمل ہوجاتا ہے تو اس کے لیے تبدیلی کا ساتھ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ سمجھا جاتاہے کہ تبدیلی اس کی مضبوط اور پائیدار بنیادوں کو کمزور کردیگی۔ اس مرحلہ پر مذہب کے سامنے تین راستے ہوتے ہیں:
1 --- تبدیلی کے عمل سے درگزر کر کے، سختی سے عقائد پر قائم رہا جائے، تبدیلی کی ہر کوشش کو جبرو تشّدد سے دبا دیا جائے یا اگر مذہبی راہنماؤں کے پاس سیاسی قوت نہ ہو تو اس صورت میں فتوؤں اور بیانوں کے ذریعہ اس کی مذمت کی جائے، اور جو لوگ تبدیلی کے خواہاں ہیں انہیں کافر، مرتد، دشمن، سازشی کہہ کر لوگوں کو مشتعل کر کے ان سے دور رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ لوگ ان کی بات نہ سنیں اور نہ ان کی تحریریں پڑھیں۔
2 --- دوسرا ردِعمل یہ ہوتا ہے کہ وقت کے تقاضوں اور لوگوں کی خواہشات کو دیکھتے ہوئے تبدیلی کو قبول کرلیا جائے اور کوشش کی جائے کہ انہیں مزہبی رنگ دے دیا جائے اور مذہب کی نئے سرے سے تاویل اور تفسیر کی جائے۔
3 --- تیسرا ردِعمل یہ ہوتا ہے کہ اگر ان تبدیلیوں سے مقابلہ نہ ہوسکے اور انہیں قبول نہ کیا جاسکے تو پھر دنیا سے علیحدگی اختیار کر کے معاشرتی سرگرمیوں سے دور ہوا جائے۔
چنانچہ پہلا ردعمل جارحانہ ہوتا ہے، دوسرا سمجھوتہ کا اور تیسرا علیحدگی کا۔
معاشرے میں
‌وہ لوگ کہ جو تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی مذہب سے دستبردار بھی نہیں‌ہونا چاہتے، یہ لوگ تبدیلی اور عقیدہ میں سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ اور مذہب کی تعلیمات کی اس طرح تاویل اور تفسیر کرتے ہیں کہ جو ان کے مقاصد کو پورا کرے۔ اس لیے مذاہب میں نئے نئے فرقے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ جب ان کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے تو یہ فرقے ختم ہوجاتے ہیں، اور ان کی جگہ نئے فرقے لے لیتے ہیں، مثلاً عیسائیت میں جب بورژوا طبقہ کو کاروبار میں سود کی حرمت کی ضرورت ہوئی تو کیلون ( Calvin ) ( وفات: 1594 ) نے اپنی تعلیمات میں اسے جائز قرار دیدیا، جس نے کاروبار میں ان کی رکاوٹوں کو دور کردیا۔ اس وجہ سے ہر مذہب میں احیاء، قدامت پرستی اور جدیدیت کی تحریکیں متحرک رہتی ہیں۔ اور کوشش کرتی ہیں کہ اپنی کامیابی کے لیے سیاسی اقتدار حاصل کیا جائے۔ کیونکہ سیاسی اقتدار کے ذریعہ یہ اپنی تعلیمات اور اپنے قوانین کو نافذ کرسکتی ہیں۔ کیونکہ اگر وعظ و تبلیغ سے دنیا تبدیل ہوسکتی تو پھر سیاسی اقتدار کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے موجودہ دور میں ہر مذہبی تحریک جمہوری روایات یا مسلح جدوجہد کے ذریعے سے حکومت پر قبضہ کر کے اپنے منصوبوں کی تکمیل چاہتی ہے۔
تاریخی عمل کا ایک اہم اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ اس میں ہر معاشرہ سادگی سے پیچیدگی کی طرف جاتا ہے لٰہذا اس صورت میں معاشرے کے اداروں، قوانین، روایات، رسوم و رواج اور رویوں میں برابر تبدیلی آتی رہتی ہے۔ سائنسی ایجادات اور ٹکنالوجی انسانوں کی زندگی میں تبدیلی لے کر آتی ہے۔ اس صورت حال میں ہر مذہب کے لیے مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ ان تبدیلیوں کا ساتھ دے سکے۔ایک مرحلے پر آکر اس کی توانائی اور تخلیقی صلاحیت جواب دے دیتی ہے یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے کہ جب مذہب معاشرے کے دوسرے شعبوں سے علیحدہ ہوکر خود کو عبادات و روحانی تربیت کے لیے مخصوص کرلیتا ہے۔
خاص طور سے موجودہ زمانے میں ‌جب تب تبدیلی کی رفتار انتہائی تیز ہے اور علم کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے، ان حالات میں سیاست، معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے امور میں پروفیشنل لوگ آگئے ہیں مذہبی علماء کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ علم کے اس پھیلاؤ پر قابو پاتے ہوئے مذہبی تعلیمات کو ان سے ہم آہنگ کریں۔ اسی وجہ سے اکثر معاشروں میں مذہب، سیاست و معیشت اور سائنس سے علیحدہ ہو گیا ہے اور اس کا وہ تسلط کہ جو قرونِ وسطٰی کے معاشرہ میں تھا وہ ٹوٹ گیا ہے۔
 

رضوان

محفلین
(1)​
اسلامی تاریخ میں مذہب وسیاست کے درمیان جو رشتہ اور تعلق رہا ہے، اس کا اظہار خصوصیت سے عباسی انقلاب کے بعد ہوا (750) کیونکہ اس نے مذہب اور سیاست کے درمیان تصادم کو ایک فیصلہ کن حیثیت دے دی۔ چونکہ سیاسی انقلاب لانے والے اور اسے کامیاب بنانے والے ایرانی تھے اس لیے نئے ریاستی انتظام اور اداروں میں ان کا غلبہ و تسلط قائم ہو گیا۔ وہ عباسی خلیفہ کو ایرانی بادشاہ کی طرز پر مطلق العنان بنانا چاہتے تھے کہ جس کی ذات میں سیاسی و مذہبی اختیارات جمع ہوجائیں۔ اس کے مقابلہ میں علماء کی جماعت تھی کہ جو خلیفہ کو شریعت کے دائرہ میں رکھتے ہوئے اور محدود اختیارات کا حکمراں بنانے کے خواہشمند تھے۔ لیکن سیاسی و فوجی اختیارات ایرانیوں کے ہاتھ میں تھے، اس لیے اس کش مکش میں علماء کو کامیابی نہیں ہوئی اور ایرانی بیوروکریسی نے خلیفہ کو مطلق العنان بنا کر اسے ایرانی بادشاہت کے قالب میں ڈھال دیا۔ لیکن اس تصادم کے نتیجہ میں یہ فیصلہ ضرور ہوا کہ خلیفہ سیاسی معاملات و ریاستی امور میں بااختیار ہوگا، مگر وہ شریعت میں دخل نہیں دے گا اور نہ ہی اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا۔(1)
اس کے نتیجے میں ایک ایسا سیاسی نظام وجود میں آیا کہ جس میں حکمراں کو لامحدود سیاسی اختیارات حاصل تھے کہ جن کا نفاذ وہ بیوروکریسی کے ذریعے کرتا تھا۔ اس میں علماء کی شرکت بطور قاضی، مفتی اور محتسب کے ہوئی کہ جس نے انہیں ریاست کا ملازم بنادیا تھا۔ ملازم ہونے کی حیثیت سے وہ سیاست کے تابع ہوگئے۔ لٰہذا ہم دیکھتے ہیں کہ علماء جو کہ ریاست کے ملازم تھے، یا ریاست کے وظیفہ خوار اور مدد معاش حاصل کرنے والے تھے وہ حکمرانوں کی خوشنودی میں مصروف رہتے تھے۔ یہ حکمران اگرچہ علماء کی قدر کرتے تھے، ان کے وعظ اور نصیحتیں سنتے تھے، اور مذہبی رسومات کی پابندی کرتے تھے، مگر دوسری طرف جب ضرورت پڑتی تھی تو ان علماء سے اپنے مقاصد کے لیے فتوے بھی حاصل کرتے تھے، لٰہذا ہم دیکھتے ہیں کہ علماء نے دربار کی ایرانی رسومات و آداب کہ جن میں پابوسی، سجدہ وغیرہ شامل تھے، ان کے بارے میں فتوے دے کر انہیں جائز قرار دے دیا۔ اس طرح نماز، روزے اور دوسرے اسلامی ارکان سے انحراف کے لیے بھی حیلے تلاش کرلیے، حکمرانوں کی جنسی تسکین کے لیے کئی شادیوں اور کنیزوں کی اجازت دے دی۔ عباسی دور میں جیسے جیسےخلیفہ کی سیاسی طاقت بڑھتی رہی، اسی طرح سے علماء کی حیثیت کمزور ہوتی چلی گئی، اور خلفاء نے مذہب کو اپنے تابع بنا لیا۔
 

رضوان

محفلین
(2)​
عباسی خلافت کی کمزوری اور زوال کے نتیجہ میں جو صوبائی خودمختار حکمراں خاندان ابھرے، انہوں نے بادشاہت کے ادارے کو روشناس کرایا۔ اس ادارے کو مسلمان فقہا اور مفکرین نے اس دلیل کی بنیاد پر تسلیم کرلیا کہ اس کی وجہ سے معاشرہ بد امنی اور لا قانونیت سے محفوظ رہے گا۔ دوسرا قدم یہ اٹھایا گیا کہ اگر کوئی طاقت اور فوج کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کرے اور غاصبانہ طور پر حکومت پر قابض ہوجائے تو کیا اسے جائز حکمراں تسلیم کیا جائے گا؟ الماوروں (وفات 1058) نے اپنی کتاب “ الاحکام السلطانیہ“ میں ایسے غاصب حکمراں کو جائز تسلیم کنے کا مشورہ دیا ہے، کیونکہ دوسری صورت میں خانہ جنگی اور ابتری کا اندیشہ ہوگا۔ (2) جب بادشاہت کے ادارے اور غاصب کو جائز حکمراں تسلیم کر لیا گیا تو اب مسلمان مفکرین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ بادشاہ کی حیثیت کا تعین کسطرح کیا جائے؟ کیا بادشاہ مذہب کے تابع ہو گا‘ یا مذہب اس کے مقاصد کی تکمیل کرے گاِ اس مقصد کے لیے جو “ادب“ تخلیق ہوا۔ اس نے اس سوال کا جواب دیا ہے۔ ان کتابوں میں کیکاؤس( وفات 1082) کی قابوس نامہ، نظام الملک (وفات:1091) کا سیاست نامہ اور غزالی (وفات؛ 1111) کی نصیحت الملوک، اور ضیاء الدین برنی کی فتاوٰی جہاں داری قابلِ ذکر ہیں ان تحریروں نے بادشاہت کے ادارے اور اس کے موروثی عنصر کو تسلیم کرتے ہوئے، بادشاہ کو “ظل اللہ“ کا درجہ دے کر اسے خودمختار اور بااختیار بنا دیا۔ جس طرح میکاولی نے یورپ کے بادشاہوں کو مذہب اور اخلاق کی قید سے آزاد کر کے مطلق العنان بنادیا تھا، اس ادب نے بھی بادشاہ کو شریعت کی پابندیوں سے آزاد کردیا، ان کا ماڈل ساسانی بادشاہ تھا کہ جس کی ذات میں سیاسی و مذہبی دونوں اختیارات تھے۔ لٰہذا بادشاہ کے اختیارات اور لامحدود طاقت کو مذہب کے بجائے اخلاق کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور اس کی سب سے بڑی خوبی عدل کو قرار دیا گیا ہے۔ جس کی سب سے بڑی علامت ایران کا بادشاہ نوشیرواں تھا۔
ہندوستان میں سلاطین نے اس ماڈل کو اختیار کیے رکھا۔ لیکن مغل حکمرانوں میں اکبر نے جس نظریہ بادشاہت کو اختیار کیا وہ اس سے مختلف تھا۔ اس نظریہ کی فلسفیانہ بنیاد ابو الفضل (وفات؛ 1602) نے فراہم کی، اس کے مطابق خدا کے نزدیک مرتبہ شاہی سے بلند اور کوئی مقام نہیں ہے، کیونکہ اس سے دنیا میں سرکشوں کو زیر کیا جاتا ہے، اور بغاوتوں کا خاتمہ کر کے انسانوں کو صراطِ مستقیم پر چلایا جاتا ہے۔ بادشاہی جاہ وجلال کا نتیجہ ہے کہ دنیا بد امنی اور فساد سے محفوظ ہے۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ بادشاہت کی روشنی خدا کی ذات سے ظہور پزیر ہوتی ہے، اسے وہ “ فرایزدی“ یا “ الوہیت کی روشنی “ کہتا ہے۔ یہ مرتبہ شاہی خدا کی جانب سے کسی برگزیدہ شخصیت کو ملتا ہے، اس پر وہ اعلٰی نور چھا جاتا ہے کہ جس سے مرعوب ہو کر نوعِ انسانی اس کے سامنے سر جھکا دیتی ہے۔(3)
ابوالفضل کے اس نظریہ بادشاہت پر تبصرہ کرتے ہوئے وانینا کا کہنا ہے کہ اگرچہ بظاہر اس نظریہ میں روایتی ایرانی اسلامی اور ہندو اثرات نظر آتے ہیں۔ مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے ابوالفضل کے مطابق عادل بادشاہ آفاقی سچائی اور نیکی کی غرض سے حکومت کرتا ہے، اس مقصد کے لیے وہ عوام کی فلاح و بہبود کی غرض سے قدیم روایات اور اداروں کو بھی تبدیل کرسکتا ہے، چونکہ بادشاہ کو الٰہی روشنی ملتی ہے، اس لیے علماء اور مجتہد اس کے درمیان دخل نہیں دے سکتے ہیں، بادشاہ کو ان کی ہدایات کی ضرورت نہیں، وہ ضرورت کے مطابق معاشرے میں تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ لٰہزا ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اکبر نے بچپن کی شادی، قریبی رشتہ داروں میں شادی، جبر کی شادی اور ستی کی مخالفت کی۔ ہندوستان میں حکمران نے پہلی مرتبہ ان معاملات میں ‌دخل دیا کہ جو اب تک روایتی طور پر برادری، ذات اور خاندان کی حدود میں تھے۔ ابوالفضل کے نظریہ بادشاہت کے مطابق بادشاہ آفاقی فلاح کے لیے الٰہی قوانین کو بھی تبدیل کرسکتا ہے۔ (4)
اکبر نے اپنے اختیارات کو اس وقت اور بھی وسیع کیا کہ جب اس کے صدر الصدور عبدلنبی نے ایک برہمن کو توہینِ رسالت کے جرم میں قتل کرادیا۔ اس موقع پر اکبر نے ابوالفضل کے والد شیخ مبارک سے کہا کہ وہ اس کی رہنمائی کریں کہ وہ ان علماء سے کیسے نجات پائے؟ اس پر شیخ مبارک نے مشورہ دیا کہ اکبر علماء کی اجازت سے مجتہد کے اختیارات حاصل کرلے۔ چنانچہ 1579 میں اکبر نے تمام علماء سے ایک محضر پر دستخط کرائے کہ جس کے بعد علماء اور مجتہد اس کے ماتحت ہوگئے، اور بادشاہ کی ذات میں دنیاوی اور مذہبی اختیارات دونوں مل گئے۔ اب اکبر اپنی تمام رعایا کا یکساں محافظ تھا کہ جس کے تحت ہندو اور مسلمان ایک تھے۔ مزید برآں اس نظریہ کے تحت وہ دنیاوی اور مذہبی قوانین سے بالا ہوگیا۔
ضیاء الدین برنی نے اپنی کتاب “ فتاوٰی جہاں داری“ میں لکھا ہے کہ بادشاہ کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ شریعت کی روشنی میں اور شرعی قوانین کے تحت حکومت کرے۔ کیونکہ آئینِ جہاں داری و جہاں بانی اور شریعت کے درمیان فرق ہے، اس لیے بادشاہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جاہ وجلال وشان و شوکت اور فخر و تکبر کو قائم رکھے۔ دربار کی رسومات کہ جس میں سجدہ کرنا اور قدم بوسی وغیرہ شامل ہیں۔ عالیشان محلات میں رہنا، خزانہ کو مال و دولت سے بھرنا اور اس کا ذاتی استعمال میں لانا، اور فضول خرچی کرنا یہ سب مجبوراً جائز ہیں کیونکہ بادشاہ کا احترام اسی وقت ہوتا ہے جب اس کے پاس دولت، شان و شوکت اور عظمت ہو۔ (5)
اس ضمن میں ضیاءالدین برنی نے “ تاریخِ فیروز شاہی“ میں علاء الدین خلجی اور قاضی مغیث کی گفتگو دی ہے کہ جس میں سیاسی معاملات میں قاضی نے علاءالدین کی پالیسیوں کو غیر شرعی بتایا۔ اس پر علاءالدین نے اسے جواب دیا کہ : “ میں نہیں جانتا کہ میرے یہ احکامات مشروع ہوتے ہیں یا نا مشروع ---- جس چیز میں‌صلاح ملک دیکھتا ہوں اور جو مجھے مصلحتِ وقت کے تحت نظر آتا ہے۔ اس کا میں حکم دے دیتا ہوں۔“ (6)
چنانچہ حکمرانوں نے سیاسی و مذہبی اختیارات کو حاصل کرنے کے بعد جن قوانین، ضوابط اور قواعد کو نافذ کیا ان کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ سیاست سے تھا۔ چونکہ بادشاہ ظل اللہ اور نائبِ خدا تھا اس لیے اس کے خلاف جو بغاوت ہوتی تھی تو باغی اس کے مجرم ہوتے تھے، اس لیے ان لوگوں کو سزا دینے کا اختیار اسے تھا۔ لٰہذا سیاسی و باغی مجرموں کو شرعی سزائیں نہیں دی جاتی تھیں، انہیں اذیتیں دینا، جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا، اور پھانسی پر لٹکانا یہ سب بادشاہ کے اختیار میں تھا۔ علاءالدین نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور نہ صرف یہ کہ باغیوں کو سزا دی، بلکہ ان کے خاندان والوں کو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے تھے، انہیں قید کر کے اذیت دی گئی، بقول برنی کہ :“ مردوں کے جرم کی پاداش میں ان کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرنے کا رواج اس تاریخ سے شروع ہوا ہے۔“ (7)
اس ماڈل کے تحت فقہاء اور مجتہد ریاست کے ملازم ہوگئے تھے، جو بظاہر ملازمت میں ‌نہیں‌تھے، انہیں ریاست کی جانب سے وظائف اور مدد معاش کے طور پر جاگیریں دی جاتی تھیں، اس لیے اب حکمراں انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اور جب چاہتا تھا کسی بھی قسم کے فتوے ان سے حاصل کرلیتا تھا۔ تاریخ میں اس قسم کے لاتعداد فتاوی موجود ہیں جو بادشاہوں نے وقتاً فوقتاً ان سے حاصل کیے۔ یہاں مغل تاریخ سے چند مثالیں دی جاتی ہیں، مثلاً جب اکبر پر یہ اعتراض ہوا کہ اس نے چار سے زیادہ شادیاں کی ہیں، لٰہذا اس کی یہ بیگمات اس کی جائز بیویاں نہیں۔ اس پر اکبر کو شدید فکر لاحق ہوئی اور اس نے عبادت خانے میں کہ جس کی بنیاد 1575 میں فتح پور سیکری میں رکھی تھی، علماء سے کہا کہ وہ اس کا حل تلاش کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علماء نے قرآن شریف کی اس آیت سے کہ جس میں دو اور تین - تین اور چار شادیاں کرو۔ اس تاویل کے مطابق
2+3+4= 9 یا
2+2+3+3+4+4=18
اس کی شادیوں کو جائز قرار دیا۔ عبدلقادر بدایونی نے یہ تجویز دی کہ مالکی فقہ میں چونکہ متعہ جائز ہے، اس لیے اگر اس مسلک کا قاضی فتوٰی دے تو یہ شادیاں جائز ہوجائیں گی۔ اکبر نے اسی وقت حنفی فقہ کے قاضی کو برطرف کرکے مالکی قاضی کا تقرّر کردیا۔ اس نے فوراً‌ہی فتوٰی دیا، جب اس فتوٰی نے یہ شادیاں‌جائز قرار دے دیں تو اکبر نے قاضی کو معطل کردیا تاکہ دوسرے لوگ اس فتوٰی سے فائدہ نہ اٹھاسکیں۔ (8)
اورنگزیب نے جب داراشکوہ اور مراد کو قتل کرایا، تو اس نے ان کے قتل کو سیاسی کے بجائے مذہبی بنایا اور اس مقصد کے لیے داراشکوہ پر الحاد اور ارتدّاد کو وجہ قرار دیا، اور مراد کو قصاص میں سزا دی گئی، اگرچہ یہ بات واضح تھی کہ وہ سیاسی طور پر اپنے بھائیوں سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا، لیکن اس نے سیاست کے بجائے مذہب کا سہارا لیا اور علماء نے اس کی مرضی کے مطابق فتوے دیدیے۔
ایک دوسرے واقعہ میں جب وہ دکن میں تھا تو ستارا کے قلعہ کے محاصرے کے دوران چار مسلمان اور نو ہندو گرفتار ہو کر آئے، اس نے ان کے بارے میں قاضی سے فتوٰی پوچھا، اس نے کہا کہ اگر ہندو مسلمان ہوجائیں تو انہیں رہا کردینا چاہیے اور مسلمانوں کو قید میں رکھنا چاہیے۔ اورنگزیب کو یہ فتوٰی پسند نہیں آیا، کیونکہ وہ ان کو سزا دینا چاہتا تھا، اس لیے اس نے قاضی پر غصے کے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حنفی فقہہ کے بجائے دوسرے فقہاء سے بھی سند لینے کی گنجائش ہونی چاہیے۔ اس پر قاضی کو معلوم ہو گیا کہ بادشاہ کی کیا مرضی ہے۔ اس لیے اس نے دوسرا فتوٰی دیا کہ قیدیوں کو عبرت کے لیے قتل کر دینا چاہیے، چونکہ یہ اس کی مرضی کے مطابق تھا، لٰہذا ہندو اور مسلم دونوں قیدیوں کو قتل کر دیا گیا۔
ایک طرف تو اورنگ ذیب نے مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ لیکن جب مذہب نے سیاست کو استعمال کرنا چاہا تو اس نے اس کی مخالفت کی۔ مثلا جب اس سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ ہندوؤں اور شیعوں کو اپنی انتظامیہ سے نکال دے تو اس کا جواب تھا کہ مذہب اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں، انہیں آپس میں نہیں ملانا چاہیے۔ اس اصول کے تحت جب کچھ علماء نے دکن کی اسلامی ریاستوں کے خلاف جنگ کو خلافِ شریعت کہا تو اس نے کوئی پرواہ نہیں کی، اور نہ جب کہ ایک عالم نے اس سے کہا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیوں نہیں کرتا ہے، کیونکہ یہ خلافِ شرع ہے، تو اس نے یہ بھی سنی ان سنی کر دی۔
بادشاہت کے اس ماڈل کے خلاف کہ جس میں اسے سیاسی اور مذہبی اختیارات حاصل تھے، اسلامی معاشرے میں وقتاً فوقتاً علماء کی جانب سے مختلف تحریکیں اٹھتیں رہیں کہ جن میں کوششیں ہوئیں کہ سیاست کو شریعت کے ماتحت کیا جائے، ان میں امام حنبل کی تحریک قابل ذکر ہے کہ جنہوں نے مامون اور معتزلہ کے نظریہ “خلق قرانی“ کی مخالفت کی اور خلیفہ کی جانب سے سزائیں برداشت کیں۔ ان کے مسلک کے ماننے والے شرعی معاملات میں بڑے سخت تھے۔ لٰہذا عباسی دور میں انہوں نے کئی مرتبہ مختلف شہروں میں شرعی نظام کو ریاست کے قوانین سے بالاتر ہو کر نافذ کرنے کی کوشش کی مثلاًََ بغداد میں یہ بازاروں میں جاتے، دکانداروں کو ڈراتے دھمکاتے، شراب کی دکانیں توڑ دیتے، رقص و موسیقی بند کرا دیتے، اپنے مخالفوں پہ حملے کرتے، خلیفہ کے خلاف مظاہرے کرتے کیونکہ وہ شرعی امور کا پابند نہیں ہوتا تھا، اور لوگوں پر جبر کرتے کہ ان کے مسلک کی پیروی کریں۔
دوسری اہم تحریک ابن تمیمہ(وفات: 1328) کی ہے، ان کا تعلق بھی حنبلی مسلک سے تھا اور یہ علماء کو شرعی و سیاسی معاملات میں بااختیار بنانا چاہتے تھے، اور اس کے حامی تھے کہ زندگی کے ہر پہلو میں شریعت کا نفاذ ہو۔ انہوں نے اس سلسلہ میں جو نیا نظریہ دیا وہ یہ تھا کہ خلیفہ یا حکمراں کے بجائے علماء کو اختیارات حاصل ہوں تاکہ وہ شرعی قوانین کو نافذ کریں۔
ہندوستان میں مہدوی تحریک اس کی مثال ہے جو کہ پندرہویں صدی میں سید محمد مہدی جونپوری نے شروع کی۔ ان کی تحریک احیاء کی تھی کہ جس میں وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور پاکیزگی کو قائم کرنا چاہتے تھے سولہویں صدی میں یہ تحریک گجرات میں مقبول ہوئی، مگر اپنی شدت اور انتہاپسندی کی وجہ سے ناکام ہوئی، اور بالآخر اپنے دائرہ میں محدود ہو کر رہ گئی۔
اس قسم کی تحریکیں جس مسلمان ملک اور مسلمان حکمراں کے خلاف چلیں، انہیں سختی سے کچل دیا گیا، کیونکہ کوئی حکمراں یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا کہ اسکی ریاست میں ایک اور اتھارٹی، یا ریاست قائم ہو جو کہ اس کے اختیارات کو چیلنج کرے۔ اس لیے ان تحریکوں نے اگرچہ سیاسی نظام اور قوانین کو چیلنج تو کیا، مگر معاشرے کی اکثریت کو اپنا ہمنوا بنانے میں ناکام ہیں۔
 

رضوان

محفلین
(3)​
ریاست کا دوسرا ماڈل وہ تھا کہ جس میں مذہب کا ریاست پر غلبہ تھا، اور مذہب سیاسی اداروں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا تھا۔اس قسم کی حکومت کی دو شکلیں ہوتی تھیں، ایک تو حکمران اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے شریعت کو لازمی سمجھتے ہوئے اسکا نفاذ کرتا تھا اس سے علماء کو ریاستی معاملات میں بالادستی مل جاتی تھی۔ دوسرا یہ کہ اقتدار پر علماء کا قبضہ ہوجاتا تھا اور وہ ریاست کے ذریعے مذہبی قوانین کا نفاذ کرتے تھے۔ اس قسم کی مذہبی حکومتیں جہاں بھی قائم ہوتیں، چاہے وہ مغرب میں ہوں یا اسلامی ملکوں میں، ان کی خاص بات یہ ہوتی تھی کہ وہ بنیادی طور پر انسانی فطرت کو بد عنوان اور شر پسند سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کی فطرت کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری سمجھتے تھے کہ جبرو تشدد ہو، سخت سزائیں ہوں جو لوگوں کی اصلاح کرسکیں اور ایک پاکیزہ صاف معاشہ کا قیام ممکن ہو۔ ان کا دوسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ چونکہ دنیاوی حکمراں بد عنوان ہوتے ہیں، اس لیے علماء ہی لوگوں کو راہِ راست پر لاسکتے ہیں۔ مغرب میں اس کی مثال عیسائی ریفارمر کیل ون ( Calvin ) (وفات: 1599) کی ہے، جس نے سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اپنی حکومت قائم کرلی۔ یہاں اس نے حکومت کا جو پروگرام بنایا وہ اس کے مذہبی نظریات پر تھا، چونکہ اسے شہری حکومت کی سیاسی طاقت و اقتدار کی حمایت حاصل تھی، اس لیے اول تو اس نے یہ اعلان کیا کہ جو لوگ اس کے مذہبی نظریات کے مخالف ہیں، وہ شہر چھوڑ دیں، اس کے بعد ان افراد کے لیے جو اس کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے تھے، ان کے لیے اس نے سخت سزائیں دیں، ان میں عیسائیت سے اخراج، جلاوطنی، قید اور موت کی سزائیں شامل تھیں، اس کی اصلاحات کے نتیجے میں شہر کے وہ تمام ہوٹل اور سرائیں بند کردی گئیں جو مسافروں کو عیاشی کے مواقع فراہم کرتی تھیں، وہ تاجر جو کم تولتے تھے یا ملاوٹ کرتے تھے انہیں سخت سزائیں دی جاتی تھیں، فحش گانوں اور تاش کے پتوں پر پابندی لگادی گئی، ہر جگہ بائبل رکھ دی گئی، وعظ کے دوران ہنسنے والوں کو سزا دی جاتی تھی، ضروری تھا کہ کھانے سے پہلے خدا کا شکر ادا کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ جنیوا کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ ہر فرد اور خاندان روحانی پولیس کی نگرانی میں رہتا تھا، اس کے احکامات پر اس قدر سختی سے عمل ہوتا تھا کہ معمولی سے انحراف پر سخت سزا دی جاتی تھی۔ ایک مرتبہ ایک بچے کا اس جرم میں سر اڑا دیا گیا کہ اس نے اپنے والدین کو مارا تھا۔ 6 سال کے عرصے میں ایک سو پچاس منحرفین کو زندہ جلا دیا گیا-
لیکن بہت جلد جنیوا کے شہری اس جبر اور تشدد سے تنگ آگئے، اور بالآخر انہوں نے کیل ون کو شہر سے نکال کر اس نظام کا خاتمہ کردیا۔
اس ماڈل کو ہم نجد اور حجاز میں اٹھتی ہوئی تحریک کی شکل میں اسلامی دنیا میں دیکھتے ہیں، یہ تحریک جو وہابی کہلاتی ہے، اس کا بانی محمد ابن عبدالوہاب (وفات 1792) تھا۔ ا سکی تعلیمات اور مذہبی خیالات سے محمد ابن سعود متاثر ہوا، جس کے نتیجے میں دونوں خاندانوں میں شادی بیاہ کے ذریعے باہمی رشتے مضبوط ہوئے، جب اس خاندان کے ایک فرد سعود (وفات 1814) نے عرب میں فتوحات حاصل کیں، اور بالا خر سعودی خاندان حجاز و نجد میں کامیاب ہوکر حکمران بنا تو انہوں نے وہابی مسلک کو ریاست کے جبرو تشدد سے اپنے ملک مین نافذ کیا، ان کے نزدیک مزارات کی زیارت، وہاں نذرو نیاز و چڑھاوے چڑھانا، یہ سب ناجائز تھا، اس لیے انہوں نے مزارات کو مسمار کر دیا، اور ان کے قیمتی سامان کو لوٹ لیا۔ یہ تمباکو اور حقہ و پائپ کے بھی مخالف تھے اور اسے مذہب کے خلاف سمجھتے تھے، سلک و ساٹن کے لباس کے استعمال کو بھی شریعت کی خلاف ورزی گردانتے تھے، نماز اور دوسرے اراکین کی پابندی تشدد سے کراتے تھے اور نماز کے وقت لوگوں کو کوڑے مار مار کر مسجد میں بھیجتے تھے۔
وہابیوں نے اسلامی معاشرے کا جو ماڈل دیا اس سے دوسرے اسلامی معاشرے بھی متاثر ہوئے، اور ان میں بھی احیائے اسلام کی تحریکیں اس مقصد کے تحت ابھریں کہ سیاسی اقتدار پر قبضہ کر کے مذہبی معاشرے کی تشکیل کی جائے۔ ہندوستان مین سید احمد شہید (وفات 1831) کی جہاد تحریک اس زمرے میں آتی ہے۔ انہوں نے ہندوستان سے ہجرت کر کے سرحد میں اسلامی حکومت کو قائم کیا اور 1827 میں اپنے خلیفہ اور امام ہونے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے اپنی حکومت میں جس پالیسی پر عمل کیا، وہ بھی جبرو تشدد پر قائم تھی۔ چنانچہ اس کے بارے میں مرزا حیرت نے “حیاتِ طیبہ“ میں جو واقعات لکھے ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک خالص و پاکیزہ معاشرے کے قیام کے لیے طاقت و زبر دستی لازمی تھی۔
“ شرعی احکام ناگوار صورت میں پبلک کے آگے پیش کیے جاتے تھے۔ سید صاحب نے صدہا غازیوں کو مختلف عہدوں پر مقرر فرمایا تھا کہ وہ شرع محمدی کے مطابق عمل در آمد کریں، مگر ان کی بے اعتدالیاں حد سے بڑھ گئیں تھیں۔ وہ بعض اوقات نوجوان خواتین کو مجبور کرتے کہ ان سے نکاح کر لیں۔ بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ دو تین دوشیزہ لڑکیاں جارہی ہیں، مجاہدین میں سے کسی شخص نے پکڑا اور مسجد میں لے جاکر نکاح پڑھایا۔۔۔۔ ایک ایک چھوٹے چھوٹے ضلع قصبہ گاؤن میں ایک ایک عمال سید صاحب کی طرف سے مقرر ہوا تھا وہ بے چارہ جہانداری کیا خاک کرسکتا تھا۔ الٹے سیدھے شریعت کی آڑ میں نئے نئے احکام بیچارے غریب کسانوں پر جاری کرتا تھا۔۔۔ کھانا پینا، بیٹھنا اٹھنا، شادی بیاہ کرنا سب ان پر حرام ہوگیا تھا۔۔۔ معمولی باتوں پر کفر کا فتوٰی کچھ بات ہی نہ تھی۔۔۔ ذرا کسی کی لبیں بڑھی ہوئی دیکھیں اس کے لب کتر دیے، ٹخنوں سے نیچے تہمد دیکھی ٹخنا اڑا دیا۔“​
اس ماڈل کا تجربہ موجودہ دور میں افغانستان نے طالبان کی قائم کردہ حکومت میں کیا۔ ایک دوسرا نمونہ ایران میں 1989 میں علما کی حکومت ہے کہ جس نے شرعی نظام کے نفاذ کے لیے ریاستی جبروتشدد کو پوری طرح استعمال کیا۔ لیکن اب ایرانی عوام اس استبدادی حکومت کے آہنی پنجوں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
۔
 
Top