تاریخ ِ عالم گواہ رہنا

تاریخ عالم گواہ ہے کہ غرورو تکبر کے نشے میں بدمست لوگوں اورہاتھیوں کا انجام، ہمیشہ ایک سا ہولناک اورعبرتناک ہوا، بت کدوں میں اذان ِ لا الہ دینے والوں کیلئے آگ کے الاؤ جلانے والا نمرود سر میں جوتیاں کھاتا ہوا مرا توخلق ِ خدا پر مسلط خدائی کا دعویدار فرعون دریائے نیل میں غرق ہو کر تا با ابد نشانِ عبرت بن گیا، عالم ِ انسان کو جادو گری اور زر و دولت کی طاقت سے تسخیر کرنے کا خواب دیکھنے والے شداد، سامری اور قارون جیسے بدبختوں کی زندگیوں کو نہ تو جادوگری دوام دے پائی اور نہ بے بہا خزانوں کا انبار انہیں بچا پایا مگر پھر بھی ہوسِ زر کا لباس پہنے ناعابقت اندیش گورے لوگ آج بھی کالی کرتوتوں کے ساتھ اُن کے گمشدہ خزانوں کی تلاش میں کہیں ملک و ملت سے غداری کا طعوق پہنے در بہ در ہیں اور کہیں صلیبی بادشاہ گروں کے کمین بن کر کاسہ و کشکول لئے تماشہء ذلت بنے پھرتے ہیں ۔ آج تاجدار ِ جبر یذید کی قبر پر فاتحہ پڑھنے والا کوئی نہیں ، انتہائےعبرت کہ بستیوں کے نام و نشان مٹا دینے والے چنگیز خان کی قبر کا کہیں نام و نشان یا کوئی اتا پتہ تک موجود نہیں، دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والا شہنشاہ ِ حرب ہٹلر قانون قدرت کے ہاتھوں شکست کھا کر پوٹاشیم سائنایڈ کا کیپسول لے کر اپنی محبوبہ ایوا براؤن کے ساتھ زندہ قبر میں اُتر گیا تو اُس کے اطالوی حلیف مسولینی کی لاش کو اُسی کی قوم نے اس وقت تک شہر کے چوراہے پر لٹکائے رکھا جب تک اس کی لاش تعفن سے پھٹ کر زمیں بوس نہ ہوئی ۔ چشم ِ عالم نے یہ نظارہ ء عبرت بھی بڑی حیرت سے دیکھا کہ شاہ ایران کی لاش کو دو گز زمین کے لئے ساری دنیا گھومنی پڑی اور سانحہ ء مشرقی پاکستان پر جشن منانے والی بدبخت اندرا گاندھی اور اُس کے بیٹے ایسے بھیانک انجام کو پہنچے کہ آج تک اُس خاندان کے کسی فرد کو کرسی ء اقتدار پر بیٹھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ سونے کے برتنوں میں کھانے والے اور ہیروں سے سجی سنہری بندوقیں چلانے والے صدام اور قذافی کو نہ تو ان کے کیمیکل ہتھیار بچا سکے اور نہ ان کے وفادار محافظ انہیں ابدی پناہ دے سکے۔ پاکستان میں سوشلزم، اسلام اور کبھی روشن خیالی کے نام پر انقلاب لا نے کے دعویداراور مفلس و مجبور قوم کو بے وقوف بنا کے خون چوسنے والے سول اور فوجی ڈکٹیٹروں میں سے کوئی عدالتوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو کوئی امریکی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں سے حادثات کا شکار، کوئی اپنے ہی پیاروں کے ہاتھوں قتل ہو کر کھربوں ڈالرز چھوڑ گیا تو کوئی خود ساختہ جلاوطنی میں دھرتی کے قتل کے سودوں اور ریمنڈ ڈیوس کی دلالی سے اربوں کما رہا ہے مگر موت کے خوف سے وطن سے دور گوری گود میں بیٹھا یہود و نصاریٰ کی دھنوں پر برہمنوں کے راگ الاپتا ہے اللہ کا نظام ہستی اور سیاست دانوں کی اپنے ہی یورپی بینکوں میں اربوں ڈالرز کی مالکہ بیگم نصرت بھٹو اپنی یاداشت کھوئے سانس کی مصنوئی مشین پرحالت کومہ میں زندگی گزار کر اگلے جہاں کوچ کر گئیں ، منافقت سی منافقت کہ ان کو مرنے کے بعد بڑے بڑے قومی اعزازات سے نوازا گیا مگر اپنوں کی بیوفائی کا عالم یہ تھا کہ ان کی زندگی کے اذینت ناک آخری ایام میں ان کے نواسے ، نواسیوں اور پیاروں کو ان کی خبر گیری اور تیمارداری کی توفیق نہ ہوئی مگر ہاں ان کی لاڈلی بیٹی کا شوہر ِ نامدار اپنی محبوب بیوی کے مقدمہ ء قتل کو طوالت دینے کے حربوں میں مصروف نا جانے کس کیلئے کھربوں ڈالرجمع کر رہا ہے، شاید اپنے اس شہزادے کیلئے جسکی ذاتی سیکورٹی ، لندن میں گوری تتلیوں کے ساتھ ہوشربا محفلوں اور رنگ رنگیلیوں کیلئے ماہانہ کروڑوں ڈالرز درکار ہیں یا شاید پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل ملز جیسے قومی اداروں کو دانستہ تباہ کرنے کے بعد متوازی منافع بخش ادارے کھولنے کیلئے مذید اربوں ڈالرز مطلوب و مقصود ہیں یا یقیناً ھر فرعون اور قارون کی طرح ان کی ہوس زر بھی اُس بامِ عروج پر پہنچ چکی ہے کہ جس کے بعد کائنات کے اصل مقتدر اعلیٰ کے آئین ِ قدرت کا وہ سپریم آرڈر ،، کُن فی یکُن،، آتا ھے جسے کسی عدالت، این آر او یا اٹھارویں ترمیم کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور پھر ہوتا وہی ہے جو میر جعفر، میر قاسم اور میر صادق کے ساتھ ہوا۔ اپنی ذاتی سرمایہ کاری کیلئے سعودیہ اور گلف کو پاکستان پر ترجیح دینے والے کھرب پتی صنعتکار میاں نواز شریف صاحب کا بیٹا لندن ہسپتال میں جان لیوا مرض اور بیگم بوجہ عارضہ قلب ندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ، بھائی صاحب طوفانی سیاسی دوروں کے دوران اچانک ہسپتال پہنچ جاتے ہیں اور کبھی موصوف کو خود کا درد دل اپنے دوستوں کے وطن ولایت کے ہسپتالوں کے سرجری بستر پر لے جاتاہے لیکن ہوسِ زر اور ہوس ِ ترامیم کا طوفان زہر کی طرح روح کی گہرائیوں تک سرایت کر چکا ہے میاں صاحب کے رائیونڈ پیلس کا ماہانہ خرچہء مہمانداری و سیاست پندرہ کروڑ روپے ہے ۔ خبریں آتی ہیں کہ نواز شریف پیلس میں دیسی گھی کی حلوہ پوریوں اور سری پایوں سے سجے ناشتوں کے پڑوس میں غریب فاقہ کش اپنے بچوں سمیت خودکشیوں پر مجبور ہیں مگر خادم اعلیٰ کی سستی روٹی سکیم سے کئی مہنگے ترین عالی شان بنگلوں کا خرچ چلتا رہاہے ۔ قاف قینچی یا قاتل لیگ کے وڈے پا جی چوہدری شجاعت حسین کو زندگی کیلئے صرف بیس روپے کی مالیت کے انسولین انجکشن چار ٹائم درکار ہیں لیکن لینڈ مافیہ اور بینک کرپشنز سے اربوں ڈالرز کما کر بھی ان کی لالچ اور طمع کا پیٹ نہیں بھر پایا ہائی بلڈ پریشراورعارضہ قلب کے مریض اور ہرسرکار کے مشیرِجمہوریت مولانا فضل الرحمن المعروف مولانا ڈیزل صاحب اربوں کما کر مزید کھربوں کمانے کو کسی بھی لوٹے اتحاد اور قتل ِ وطن کی ہر سازش میں اپنا پر اسرارمذہبی اور آئینی کردارادا کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ساری زندگی ایمانداری اور قانون کی حکمرانی کا نعرہ لگانے والے اصول پرست عمران خان نے بھی کرپشن اور لوٹا کریسی کے سب ریکارڈ توڑنے والے مشرف کے پروردا لوٹوں کو ہی ضمنی الیکشن میں پارٹی ٹکٹ دے کراپنی اننگ کے بیٹنگ پاور پلے میں جارحانہ اندازاختیار کیا ور اب بھی مشرف کی باقیات کے کئی ارب پتی عیار بہروپئے ان کے ارد گرد موجود ہیں شاید وہ سمجھ گئے ہیں کہ لینڈ مافیہ، بلیک مارکیٹرز، جاگیرداروں اورمالی لحاظ سے طاقتور امیدواروں کے بغیر الیکشن میں جیت تو درکنار الیکشن لڑنا ہی نا ممکن ہے عین سچ تو یہی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی ہو، نون لیگ اور قاف لیگ کے مفاد پرست سیاسی عناصر ہوں، صلیبوں کے آلہ کار دین فروش علماء سیاست ہوں، تشدد اور دھونس کی سیاست کو فروغ دینے والا، بھتہ خور و ٹارگٹ کلر مافیہ متحدہ قومی موومنٹ ہو یا پیر صاحب پگاڑا جیسے سامراجی کٹھ پتلی پریشر گروپس، بیوقوف قوم کو مذید بیوقوف بنانے یا سیاسی بھتوں کا ریٹ بڑھانے کیلئے ایک دن یہ سب ایک دوسرے کیساتھ دست و گریبان ہوتے ہیں مگر دوسرے دن اپنے سامراجی آقاؤں کے حکم اور خواہش کے عین مطابق امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کی ڈیل کروانے یا مفلسان ِقوم پر وار کےلئے خونخوار آلہء قتل یعنی سیاسی مصلحت اور رواداری کے پردے میں سیاسی بندر بانٹ کے عالمگیر نظریہء ضرورت کے تحت کہیں پراسرار حریف و حزب الاختلاف اور کبھی ہر دور میں اقتدار سے چمٹے کرپشن میں حصہ دارحلیف و حزب الاقتدار بن کرایک ساتھ ہوتے ہیں، اس ملک کی سیاست کی اصول پرستی کی نیرنگی کے قربان جائیں کہ جہاں پنجاب کی وزارت ِ اعلی کیلئے نون لوگ میں آنے والے شاہ محمود قریشی حصول ِ اقتدار میں ناکام ہو کر واپس پیپلز پارٹی میں پلٹ جاتے ہیں تو بھی ہیرو کہلاتے ہیں مگر جب وہ دوبارہ پیپلز پارٹی چھورتے ہیں تو بھی ہیروقرار پاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں زخم رسیدہ نون لیگ اور لوٹوں کے مخالف عمران خان بھی انہیں کیچ کرنے کیلئے بیتاب ہو جاتے ہیں ۔ انہیں قومی ہیرو اور اصول پسند سیاست دان قرار دینے والے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ موصوف وہی سیاسی شعبدہ باز سجادہ نشین ہیں جو ایک دن سر پر عزت کی پگڑی سجائے، سارے شرعی انداز اپنائے ہوئے اپنے جد امجد ولی اللہ کے مزار پر اپنے مریدوں کے ساتھ دعا میں شریک ہوتے ہیں تو دوسرے دن شراب کا جام تھامے ہوئی دشمن ِ اسلام ہیلری کلنٹن کے جسم سے جسم ٹکراتے ہوئے اپنی فحش حرکات سے قومی اور ملی غیرت کا تماشہ بنا کر شریعت کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں ۔ بھولے بھالے عوام ناجانے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایسے دوغلے کردار اور سیاسی بازیگر کیونکر کسی انقلاب کے داعی ہو سکتے ہیں۔ ہم شخصیت پسندی میں غرق لوگ ، نظریات پسندی سے کوسوں دور معصوم عوام شاید کبھی بھی اچھے اور برے سیاست دانوں میں تمیز نہ کر سکیں ۔ لیکن کچھ اہل نظر محبان وطن دعا گو ہیں کہ کاش اس قوم کو بھی ایک ایسا مہاتیر محمد مل جائے جو اس ملک و قوم کا مسیحا بن کر قوم ِمجروح کو پٹری پر چڑھائے اور اس ،، مقدس ٹاسک ،، کے بعد از خود عزت سے گھر جا بیٹھے ؟ دعا ہے اور امید بھی کہ اے کاش ملک و ملت کے یہ نام نہاد خدام اور پیشہ ور سیاسی بہروپیے تاریخ کے وہ سب صفحات پڑھ لیں جن پر ان جیسے ان گنت ابن الوقت قوم فروشوں ، بازار ِ سیاست کے بے ضمیر لوٹوں، غدارانِ ملک و ملت اور مریضانِ ہوس ِ زر کا بھیانک اور عبرت ناک انجام صاف صاف لکھا ہے ۔۔

ہر دور ِ طاغوت اور ظلمت کی تاریخ لکھی ہے قدرت نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درویش پھڑے جد رب میرا مڑ کڈھ کراکے دیندا اے
 
Top