تاریخ بروالہ سیداں : صفحہ 20

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
2cptd91.jpg
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تاریخ بروالہ سیداں : صفحہ 20

تقسیمِ برِصغیر کے بعد اس اسٹیشن کا نام صرف "بروالہ" رہ گیا ہے۔ تقسیم سے قبل کوئی پکی سڑک اس علاقہ میں موجود نہیں تھی۔ البتہ ایک کچی سڑک تھی جو ہانسی سے بروالہ سیدان ہوتی ہوئی اکلانہ منڈی تک جاتی تھی۔ اس سڑک پر بعض اوقات لاریاں بھی چلتی تھیں۔ تقسیم کے بعد اس علاقہ کو بہت ترقی حاصل ہوئی ہے۔ اب یہاں سے حصار ، ہانسی اور دیگر کئی اطراف کو پکی سڑکیں نکلتی ہیں اور اس قصبہ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔

بروالہ سیدان کی قدامت
بروالہ سیدان کے بارے میں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ یہ ایک بہت قدیم آبادی کا قصبہ ہے۔ اس کی قدامت کا اندازہ اس کی وضع قطع کو ایک نظر دیکھ کر ہی ہو جاتا ہے۔ یہ سارا قصبہ اونچے اونچے ٹیلوں پر آباد ہے۔ یہ ٹیلے اپنے اردگرد کی زمین سے پچیس تیس فٹ تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بلند ہیں۔ قصبہ کے چاروں جانب اور قصبہ کے درمیان بھی جا بجا کھنڈرات بکھرے ہوئے تھے۔ جو تقسیمِ برِصغیر کے بعد آبادی کے پھیلاؤ کے باعث باقی نہیں رہے ہیں۔ ان ٹیلوں اور کھنڈرات کو جب کسی غرض سے کھودنے کی ضرورت پیش آتی تھی تو ان کے اندر سے قدیم اشیاء برآمد ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر مٹی کے نقشین برتنوں کے ٹکڑے، قدیم سکے اور مٹی کے کھلونے وغیرہ اکثر ملا کرتے تھے۔ ایک دفعہ سرکاری طور پر بھی قصبہ کے شمال میں ایک ٹیلہ کے تھوڑے سے حصے کی کھدائی کی گئی تھی۔ جس کے نتیجہ میں ایک عمارت کے آثار برآمد ہوئے تھے۔ اس کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ مسجد ہے۔ مگر اس کے بعد نامعلوم وجوہ کی بنا پر مزید کھدائی نہیں کی گئی۔ کھدائی نہ ہو سکنے کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قدیم ٹیلے جہاں کھدائی کی ضرورت تھی وہ تمام کے تمام آبادی میں گھرے ہوئے تھے اور ان کے اوپر رہائشی مکانات بنے ہوئے تھے۔ دوسرے یہ بات بھی ہو گی کہ اس قدر دور افتادہ مقام کو حکومت کی جانب سے اتنی اہمیت نہیں دی گئی کہ اس کی کھدائی کے اخراجات برداشت کئے جاتے۔ جہاں تک وہاں کی آبادی کا تعلق ہے تو وہاں کے باشندوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ اپنے قصبہ کے تاریخی رشتوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان کے لئے یہ اعزاز ہی بہت کافی تھا کہ ایک بہت قدیم ، تاریخی اور مشہور قصبہ کے باشندے تھے۔
البتہ کبھی کبھار اتفاقاً بھی ایسے آثار ظاہر ہو جاتے تھے جو بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ 1936ء میں قصبہ کے مغرب کی جانب قصبہ سے بالکل متصل ایک تالاب کو صاف اور وسیع کرنے کے لیے اس کی کھدائی کی گئی تو قدیم طرزِ تعمیر کی سیڑھیاں، نالیاں اور شیشہ سے ڈھکی ہوئی روشیں برآمد ہوئی تھیں۔ اس تالاب کا نام "سیہانی" تھا اور قصبہ کے آس پاس واقع تمام تالابوں سے بڑا اور قدیم تالاب یہی تھا۔ اس تالاب کے شمالی کنارے پر ایک سفید گنبد بنا ہوا تھا ، جس کا دروازہ جنوب کی جانب عین تالاب پر کھلتا تھا۔ 1939ء میں کالا پانہ کے سیدوں نے اس گنبد کی تاریخی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے اس کی مرمت کرا دی تھی۔
ان تمام ظاہری آثار و شواہد سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بروالہ سیدان ایک بہت قدیم اور بہت اہم تاریخی مقام تھا اور تاریخ کے کسی موڑ پر لازماً خصوصی امتیاز کا حامل رہا ہو گا۔ چنانچہ اس کی اس اہمیت کو تمام مؤرخ تسلیم کرتے ہیں۔ تاریخ مخزن پنجاب میں لکھا ہے۔
 
Top