تاریخ بروالہ سیدان صفحہ 7 تا 16

(۷)
پیش لفظ
بروالہ سیدان کا قصبہ ہریانہ کے علاقہ میں واقع تھا اور یہ علاقہ تقسیم برصغیر کے وقت تک انتہائی پسماندہ اور غیر ترقی علاقوں میں شمار ہوتا تھا۔ اگرچہ اس علاقہ کی زمین سونا اگلنے کی طاقت رکھتی تھی، اور یہاں کے باشندے ہر طرح کی زہنی وجسمانی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ مگر زمین کے امکانات آبپاشی کے بغیر کام میں نہیں لائے جا سکتے اور آدمی کی صلاحیتوں کی نشو نما تعلیم کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اور یہ دونوں نعمتیں اس علاقہ کو میسر نہیں تھیں۔ آبپاشی کا زریعہ صرف ایک نہر جمن غربی تھی جو علاقہ کے قریباً درمیان سے گزرتی تھی۔ مگر علاقہ کی قابل کاشت زمین کا صرف چار فیصد اس سے سیراب ہو سکتا تھا۔ کنوئیں بہت زیادہ گہرے ہونے کے باعث آبپاشی کے کام نہیں آ سکتے تھے اور بارش کبھی کبھار ہوتی تھی۔ اسی طرح پورے علاقہ میں تعلیمی سہولتیں واجبی سی تھیں۔ پوری حصار تحصیل میں ہائی سکول صرف ایک تھا۔ اور یہی ضلع بھر کا اعلٰی تعلیمی ادارہ تھا۔ مڈل اور پرائمری سکول دور دور کے مقامات پر تھے اور بہت زیادہ اچھی حالت میں نہیں تھے۔ ان سے فیض حاصل کرنے والے بھی آبادی کے چار فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے۔
جہالت، پسماندگی اور غربت کے اس ماحول میں بروالہ سیدان کے سید ممتاز حسن بہت غنیمت ہستی تھے جن کا گھر علم و ادب اور تعلیم و تعلم کا گہوارہ تھا۔ وہ خود نہایت پاکیزہ اور اعلٰی علمی وادبی زوق کے مالک تھے، وسیع المطالعہ تھے، صاحب قلم تھے اور ایک اعلٰی درجہ کی لائبریری کے مالک تھے۔ ان کی رفیق زندگی سیدہ کرم دولت وہ باہمت اور راسخ العزم خاتون تھیں، جنہوں نے ہر قسم کی مخالفت، مشکلات اور رکاوٹوں کے علی الرغم بروالہ سیدان کی مسلمان لڑکیوں کے لیے تعلیم کا راستہ ہموار کیا۔ اور جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو سخت معیوب خیال کیا جاتا تھا وہاں ان کے لیے سکول قائم کر کے علم کی شمع روشن کی۔
اس گھر میں دو ایسے لڑکوں نے جنم لیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت عمدہ زہنی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں۔ سید ممتاز حسن کا بڑا بیٹا جمیل حسین نقوی حقیقتاً غیر معمولی طور پر زہین اور بڑی قابلیتوں کا مالک تھا۔ تعلیم کے میدان میں اس کی کارکردگی ایسی تھی کہ اس کی زات سے بزرگوں کو بڑی توقعات وابستہ تھیں۔ بروالہ کے سادات میں سے وہ پہلا لڑکا تھا جس نے اعلٰی تعلیم حاصل کی۔ مگر صورتحال کچھ ایسی پیش آئی کہ جب وہ بی ۔ اے کے آخری سال میں تھا تو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے ساتھ ہی ہریانہ کے مسلمانوں کو بھی آگ اور خون کے اس سیلاب سے گزرنا پڑا جو مشرقی پنجاب اور دوسرے علاقوں کے مسلمانوں کا مقدر بن چکا تھا۔ ہجرت کے بعد پاکستان آ جانے کے بعد بھی مدتوں زندگی کا نظام درہم برہم رہا۔ اس طرح اس کی تعلیم میں رخنہ پڑ گیا اور بعد میں حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے ایک ایسے محکمہ میں ملازمت
 
(۸)
اختیار کرنی پڑی جو اس کی تمام صلاحیتوں کو برباد کر گیا۔
اس سے چھوٹا لڑکا سید جلیل نقوی اپنے زوق کی پاکیزگی، علم و ادب کے ساتھ گہری وابستگی، قرطاس وقلم سے تعلق اور کتابوں کی محبت کے سلسلہ میں حقیقتاً اپنے والد کے صحیح ورثہ کا حامل بنا ہے۔ اسے بہت کم عمری میں بروالہ چھوڑنا پڑ گیا تھا۔ اس کے ایک تایا اپنی نوجوانی میں پیران کلیر شریف چلے گئے تھے اور درویشی اختیار کرکے وہیں رہ پڑے تھے۔ اپنی جانشینی کے لیے خاندان کے کسی بچہ کو گود لینے کی خاطر بروالہ تشریف لائے تو ان کے وسیع خاندان کے تمام افراد نے اپنے بچے پیش کر دیئے، مگر نظر انتخاب جلیل حسین نقوی پر پڑی اور وہ صرف پانچ سال کی عمر میں اپنے ماں باب، بہن بھائیوں گھر بار اور خاندان سے دور دراز کے فاصلہ پر ایک درویش خانہ میں جا کر رہنے لگا۔ اس کی پرورش اسی ماحول میں ہوئی اور سارا بچپن وہیں گزرا۔ اس ماحول میں رچی بسی درویشی، استغنا، صبر، توکل، سیر چشمی، روحانیت اور سخت کوشی جیسی صفات نے اس کی شخصیت میں بڑا اثر کیا ہے۔ قیام پاکستان تک بھی یہ اسی جگہ تھا۔ بروالہ سیدان کے سادات تو تبادلہ آبادی کے باعث ہجرت کر کے ۱۹۴۷ء میں پاکستان آگئے تھے۔ یہ اس کے ایک سال بعد ۱۹۸۴۸ء میں پاکستان آسکا۔
ان دنوں حالات کچھ ایسے وگرگوں تھے کہ سادات بروالہ کے تمام گھرانے ہجرت کے مابعد مسائل، مشکلات اور دقتوں سے دوچار تھے۔ زندگی کا کوئی معمول اپنی جگہ پر نہیں رہا تھا۔ کسی کو مستقل ٹھکانے یا مستقبل کے رخ کا واضع اندازہ نہیں تھا۔ سب لوگ ایک نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنے میں کوشاں تھے۔ سب کچھ غیر یقینی سا تھا۔ ان حالات میں جلیل حسن کی دستگیری محض علم کے ساتھ اس کی پختہ وابستگی اور حصول تعلیم کے لیے اس کے گہرے شوق نے ہی کی۔ چنانچہ اس نے جو کچھ حاصل کیاہے وہ محض تعالٰی کے فضل و کرم اور اس کی زاتی محنت کے باعث ممکن ہو سکا ہے۔ اس کی نیک اور پارسا والدہ کی دعائیں البتہ ہر قدم پر اس کے ساتھ رہی ہیں۔ ورنہ اسے اپنی زندگی بنانے میں کسی جانب سے کوئی مدد یا سہارا کبھی نہیں ملا۔ اس کے شوق، محنت اور کوشش کا اللہ تعالٰی نے یہ صلہ عطا فرمایا کہ سادات بروالہ میں وہ پہلا لڑکا تھا جس نے ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ اور آج تو میں بلا جھجک کہہ سکتا ہوں کہ سادات بروالہ میں علم و دانش کے لحاظ سے سب سے ممتاز شخص وہی ہے۔
بروالہ سیدان میں سادات گھرانے ساڑھے سات سو سال تک آباد رہے۔ وہاں ہریانہ میں ایسے بزرگ موجود ہوتے تھے کو نسب ناموں کی حفاظت کی زمہ داری ازخود پوری کرتے رہتے تھے۔ مگر نسب ناموں کو طبع کرانے کی ضرورت کبھی اس لیے محسوس نہیں کی گئی کہ حسب نسب کے حوالہ کے لیے ہمیشہ صرف بروالہ سیدان کا نام کافی ثابت ہوتا تھا۔ اس امتیاز پر سادات بروالہ اس قدر نازاں رہے ہیں کہ اب تک بھی وہ نسب ناموں کی طباعت کو ضروری خیال نہیں کرتے۔ مگر اب صورت یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ صدیوں یکجا بسنے والے گھرانے دور دور بکھر کر آباد ہونے پر مجبور ہو گئے۔ ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کی پہلی سی شکل باقی نہیں رہی۔ مختلف خاندانوں میں محفوظ پرانے کاغذات، دستاویزات اور کتابیں، سب ہجرت کے وقت بروالہ میں رہ گئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بزرگ ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہو گئے کو پرانے حالات اور نسب ناموں کے سلسلہ میں کطھ رہنمائی کر سکتے تھے۔ اس صورت حال نے کئی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ سادات بروالہ کے نسب ناموں کی حفاظت کا جلد کوئی بندوبست کیا جانا ضروری ہے۔ اگر تھوڑا سا عرصہ اور اسی طرح گزر گیا تو یہ کام ممکن نہیں رہے گا۔
اس خدشہ کی بنیاد یہ حقیقت بنی کہ پاکستان آباد ہونے کے بعد سادات بروالہ کے گھرانوں میں جس نسل نے پرورش پائی وہ اپنے نئے ماحول
 
(۹)
میں اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ بروالہ کے نام کے سوا اس قصبہ کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں ہے۔ بجا طور پر یہ خدشہ ہوا کہ اسی طرح ایک آدھ نسل اور گزر جانے کے بعد بروالہ کا نام بھی فراموش ہو جائیگا۔ یہ صورتحال قدرتی عمل کا حصہ ہے اور نئے مقامات پر آباد ہونے کے بعد نئی نسل کی پہچان اپنے نئے ٹھکانے سے ہی ہوا کرتی ہے۔ مگر ماضی کے ساتھ اگر وابستگی باقی رکھی جائے تو آدمی کو اپنی پہچان میں سہولت رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد پاکستان میں آ کر آباد ہونے والے ہر مقام اور ہر قبیلہ کے افراد نے اپنے ماضی، اپنے بزرگوں اور اپنے نسب ناموں کو کتابوں کی شکل میں محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ ان کی پہچان اور حوالہ پائم رہے۔ یہی پہچان اور حوالہ وہ چیز ہے جس کے بغیر آدمی کے تشخص کا ایک بنیادی پہلو گم ہو جاتا ہے۔
بروالہ سیدان کے حوالہ کو زندہ رکھنے اور وہاں کے سادات کے نسب ناموں کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کی تدبیر بھی صرف یہی ہو سکتی تھی کہ ان دونوں ورثوں کو ایک کتاب کی شکل میں مرتب کر لیا جائے۔ لیکن اس قدر کٹھن کام کا بیڑا کون اٹھاتا۔ ایک طرف تو یہ کام اس قدر مشکل، اس حد تک محنت طلب اور اتنا طویل تھا کہ اس کے لیے غیر معمولی قابلیت اور بہت بلند ہمت شخص کی ضرورت تھی۔ دوسری جانب سادات بروالہ میں علم و آگہی کی اب تک اس قدر کمی ہے کہ اس خالصتاً علمی اور تحقیقی کام کو انجام دینے کی اہلیت کا حامل شخص ملنا محال۔ یہ صرف جلیل حسین نقوی ہی ہے جو یہ کام کر سکتا تھا۔ یہ سادات بروالہ کی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کے دل میں اس کام پر متوجہ ہونے کا خیال پیدا کیا۔ اس زمہ داری کو قبول کرنے کے بعد اسے سالہا سال جس قدر محنت اور عرق ریزی کرنی پڑی اس کا مجھے زاتی طور پر علم ہے۔ مگر اس کام کی تکمیل کی سعادت اللہ تعالٰی نے اس کے لیے مقدر کی ہوئی تھی۔ سادات بروالہ میں اس کام کا اہل اور کوئی شخص نہیں ہے اور اگر وہ اس وقت اس کو پورا نہ کرتا تو آئندہ کبھی یہ کام صورت پذیر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس طرح سادات بروالہ پر سید جلیل حسین نقوی کا ہمیشہ کے لیے احسان ہے کہ اس نے ان کی تاریخ اور نسب ناموں کو مستقبل کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چائیے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی اسے جزائے خیر عطا فرمائے، اس کے علم اور عمر میں برکت عطا فرمائے اور اس کے گھرانے کو علم، حکمت اور خیر کی نعمتوں سے بھر دے۔
سید محمد شفیع نقوی
سابق ہیڈ ماسٹر مڈل سکول بروالہ سیدان ضلع حصار (ہندوستان)۔
حال آباد غلہ منڈی ۔ بورے والہ ضلع وہاڑی
 
(۱۰)
دیباچہ
دنیا کے ہر معاشرہ میں ہمیشہ سے یہ دستور چلا آتا ہے کہ ہر شخص کی پہچان اور تشخص کے لیے اس کے خاندانی پس منظر کا حوالہ ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اکثر وبیشتر مقاصد کے لیے کسی بھی شخص کا نام اس وقت تک مکمل خیال نہیں کیا جاتا جب تک اسے ولدیت سمیت نہ لکھا جائے۔ اس سے بھی آگے بڑھنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے خاندانی حالات کی تفصیلی دریافت کی جاتی ہے۔ گویا کسی شخص کی پہچان کا بنیادی زریعہ اس کا خاندان اور اس کا حسب نسب ہے۔ یہ معیار قدیم زمانہ سے قائم چلا آتا ہے اور صدیاں بیت جانے پر بھی اس کے اندر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ ایسی تبدیلی شاید ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اس معیار کا بدل اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اور اسے نظر انداز کر دیا جائے تو معاشرہ کے افراد کی شناخت کا تعین ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے پہچان اور شناخت کے اس معیار کو قرآن اور حدیث سے بھی سند حاصل ہوئی ہے قرآن پاک میں ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے۔
“اور وہی (اللہ) ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا اور پھر اس کے لیے رشتہ نسب اور رشتہ سسرال قائم کیا“۔ (۲۵۔۵۴)
گویا رشتوں کا یہ سلسلہ اللہ تعالٰی کی جانب سے قائم کیا گیا ہے، اور ان کا قیام اللہ تعالٰی کی جانب سے انسان کے لیے ایک عنایت اور رحمت ہے۔ اگر رشتوں کا یہ سلسلہ موجود نہ ہوتا تو انسان کے پاس اپنی شناخت کا کوئی حوالہ نہ ہوتا۔ اس صورت میں معاشرہ میں زندگی کی ترتیب وجود میں نہ آ سکتی اور زندگی کا تانا بانا کسی طور پر قابو میں نہیں آ سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن پاک میں آگے چل کر ان رشتوں کے قیام کی غرض وغایت کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔
“اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔ پھر تم میں قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو“(۴۹۔۱۳)
یعنی آدمی کی پہچان کا بنیادی حوالہ اس کی قوم، برادری اور خاندان ہیں۔ اس لیے اس حوالہ کا علم بھی حاصل کرنا چاہیے اور اس کے تحفظ کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
تَعلَمُوااَنسَابکُم لتَصلُوااَرحَامَکُم؛ اپنے اپنے نسب کو جانو تا کہ تم صلہ رحمی کر سکو۔
اس سلسلہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مشہور ارشاد گرامی بھی سند کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے جب آپ نے فرمایا تھا کہ؛۔
اَنانَبِیُّ لا کذِب اَنَا ابنُ عَبدَالمُظَّلبِ؛ میں نبی ہوں، اس میں کچھ جھوٹ نہیں ہے۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔
قرآن پاک اور حدیث مبارک کے ان حوالوں سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ نسب ناموں کا تحفظ اور انساب کا حوالہ نہ صرف یہ کہ معیوب نہیں بلکہ لازمی اور ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالہ کے بغیر آدمی کی شخصیت کے کئی پہلو تشنہ رہتے ہیں جو زندگی کے اکثر مقامات پر اس کے لیے بہت سی الجھنوں اور مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔
 
(۱۱)
علمائے عمرانیات نے طویل عرصہ کی تحقیقات اور تجزیوں کے بعد یہ حقیقت معلوم کی ہے کہ جو شخص اپنے خاندان سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت نفسیاتی اور جذباتی لحاظ سے اس قدر مضبوط اور قابل اعتماد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کا ایک مفید رکن ثابت ہوتا ہے اور بے شمار زاتی اور اجتماعی مسائل کے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں کو شخص اپنے خاندان سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی زندگی کو ہموار طریقہ سے گزارنے میں دقت محسوس کرتا ہے بلکہ معاشرہ کے لیے بھی ان گنت مسائل پیدا کردیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت جذباتی اور نفسیاتی الجھنوں اور کمزوریوں کا شکار رہتا ہے۔ مثال کے طور پر جدید دور کے معاشرتی اور انفرادی مسائل کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ آج کے دور میں خاندانی رشتے اور روابط جس قدر کمزور پڑ گئے ہیں معاشرتی اور نفسیاتی مسائل میں بھی اسی قدر اضافہ ہو گیا ہے۔
آدمی کا خاندان اور سلسلہء نسب دراصل اس کے ماضی کی روایت اور وراثت کی زنجیر ہے، جو صدیوں کا فاصلہ طے کر کے اس تک پہنچی ہے۔ اس زنجیرکی ایک کڑی کی حیثیت اختیار کر کے ہی وہ خود کو کسی اہمیت اور مقصدیت کا حامل تصور کر سکتا ہے۔ ورنہ زنجیر سے علیحدہ ہو جانے والی کسی کڑی کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہوتی۔ اپنے ماضی کو محفوظ رکھنے کی فطری خواہش بھی شاید انسان کے اندر اسی جذبہ کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ یہ فطری خواہش اپنی تکمیل کی خاطر بڑے وقیع اور گراں قدر راستے تلاش کرتی ہے۔ تاریخی تحقیق، تاریخ نویسی، آثار قدیمہ کی حفاظت، قدیم نوادرات کی پرواخت، بزرگوں کے آثار کا تحفظ اور اسی قسم کی تمام کوششیں انسان کی اسی فطری خواہش کا اظہار ہیں۔ دراصل انسان ہمہ وقت کسی نہ کسی صورت میں اپنے ماضی سے وابستہ رہنے اور ماضی کی روایات وخصوصیات کا حامل بننے کی جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ ماضی کے ساتھ اس کا یہ رشتہ نہ صرف اس کے مقام اور مرتبہ کا تعین کرتا ہے بلکہ اس کی شخصیت کو بھروسہ، اعتماد اور توانائی عطا کرتا ہے۔ اسی طریقہ سے اس کی شخصیت تکمیل کے مراحل طے کرتی ہے۔
نسب ناموں کی ترتیب اور تحفظ کی کوششیں بھی انسان کی اسی فطری خواہش کے تحت عمل میں آتی رہی ہیں۔ اس عمل کا سلسلہ دنیا بھر میں قدیم ترین زمانوں سے لے کر موجودہ زمانے تک پورے تسلسل کے ساتھ موجود ہے۔ یونانیوں، رومیوں اور مصریوں کے آثار قدیمہ کی دریافت نے حکمران خاندانوں کے شجرہ ہائے نسب کا انکشاف کیا ہے۔ ہندوں کی چند ربسنی اور سوج بنسی نسلیں مشہور ہیں۔ ہندوستان میں یونان کی طرح اپنا شجرہ نسب دیوتاؤں کے ساتھ وابستہ کرنے کا رواج تھا۔ عربوں میں تو اس علم کا زوق سب سے زیادہ گہرا تھا۔ وہ اپنے نسب کی حفاظت پر قبل اسلام بھی بہت زور دیتے تھے۔ اس کا اظہار ان کی اس رسم سے بھی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو بلانے کے لیے نام کے بجائے کنیت کے استعمال کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ اب تک بھی ہر شخص کا نام اس کے والد کے نام سمیت پکارا یا لکھا جاتا ہے۔ اسلامی دور میں ان کے اسی زوق نے علم الانساب اور اسماء الرجال جیسے مہتم بالشان علوم کو جنم دیا۔ ان علوم پر بڑی دقیع کرب مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ قریباً تمام مشہور شخصیات کے نسب نامے بھی مرتب کئے گئے۔ بلکہ ہر قبیلہ اور ہر خاندان کا نسب نامہ انتہائی درست طور پر مرتب کر لیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں “دیوان فاروقی“ دنیا کا اولین اجتماعی نسب نامہ ہے جو بہت احتیاط کے ساتھ بالکل سائنسی اصولوں پر مرتب کیا گیا تھا۔ اس کی ابتداء حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ میں اس وقت ہوئی جب حکومت کی جانب سے وظائف کے اجراء کی خاطر اس کی ضرورت پڑی۔ اس کی ابتدائی شکل تو معلوم نہیں کیا تھی، مگر آخر کار اس میں تمام آبادی کے ہر قبیلہ اور ہر خاندان کے افراد کے ناموں کا اندراج ان کی شاخوں سمیت موجود تھا۔ اور ہر پیدا ہونے والے بچے کا نام اس کے والدین کے ساتھ ہوتا رہتا تھا، تا کہ اس کے لیے وظیفہ کا اجراء ہو سکے۔ یہ سلسلہ بعد میں طویل عرصہ تک جاری رہا۔ اس طرح کم از کم عرب کے ہر خاندان کا شجرہ نسب ضرور ضبط تحریر میں آ گیا ہو گا۔ گویا شجرہ نسب کی ترتیب کے
 
(۱۲)
جدید اصول عربوں نے مرتب کیے اور آج تک کانہی اصولوں کی پیروی کی جاتی ہے۔
مگر ان جدید اصولوں کی ترویج جب دوسری اقوام تک نہیں ہوئی، وہ اپنے طور پر شجرہ نسب کی حفاظت کا کوئی نہ کوئی طریقہ اختیار کرتی تھیں۔ اس مقام پر تعجب خیز امر یہ ہے کہ یہ طریقہ قریباً تمام قدیم اقوام میں حیرت انگیز طور پر یکساں رہا ہے۔ اس سلسلہ میں سرسید احمد خان لکھتے ہیں۔
“ہندؤں کے ہاں مہا بھارت کے بعد کوئی تصنیف نہیں ہوئی۔ اور اسی سبب سے اگلے راجاؤں کا حال نہیں پایا جاتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں یہ رواج تھا کہ ہر ایک خاندان کا ایک بھاٹ اور جگا ہوتا تھا۔ اور وہی اس خاندان کے حال اور نسب سے واقفیت رکھتا تھا اور اس خاندان کا حال اپنی پوتھیوں میں لکھ رکھتا تھا۔ اور کو کچھ حادثات ہوتے وہ بھی اس پوتھی میں داخل ہوتے تھے۔ یہ دستور اب تک قائم ہے۔ ہندوستان کے جتنے قدیم زمیندار اور راجا ہیں۔ سب کے خاندان کے بھاٹ اور جگے اب تک موجود ہیں۔ اور یہی دستور ملک فارس میں تھا۔ کیونکہ شاہنامہ میں جہاں مذکور آتا ہء کہ دہقان کہن سال نے یہ بات کہی، اس سے وہی بھاٹ اور جگے مراد ہیں۔ یہ دستور کچھ ایشیا تک محدود نہ تھا۔ بلکہ یورپ میں بھی یہی رواج تھاکہ کوئی مکمل تاریخ نہ تھی۔ بلکہ ہر خاندان کا ایک بھاٹ ہوتا تھا۔ جس کو انگریزی میں بارڈ (bard) کہتے تھے۔ یہ بارڈ شادی اور موت کے موقعوں پر آتا تھا اور خاندانی گیت گاتا تھا۔ جن کو لیز (laiys) کہتے تھے۔ چنانچہ پرانے رومی زمانہ کے یہ لیز اب بھی موجود ہیں جن کو لارڈ میکوسے(Macxulay) نے جمع کیا ہے۔ اس سے اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ دنیا بھر میں ایک ہی طریقہ رائج تھا" (۱)
اس اقتباس سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ تحفظ النساب کی فطری خواہش تو دنیا کی ہر قوم میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ مگر نسب ناموں کو مرتب اور تحریری شکل میں محفوظ کرنے کی ابتداء سب سے پہلے مسلمانوں نے کی۔ بعد میں ان کی پیروی میں ہی دیگر اقوام نے بھی اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ بلکہ مسلمانوں نے تو نسب ناموں کی تحقیق اور ترتیب کو ایک باقاعدہ علم کی شکل میں نشونما دی۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود بھاٹ اور جگے ایک ادارہ کی شکل میں بیسویں صدی تک موجود رہے۔ شاید اب تک بھی کچھ علاقوں میں ان کا وجود برقرار ہو۔
نسب ناموں کی ترتیب اور تحفظ کے ان مباحث سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ ہر زمانہ، ہر مقام اور ہر سطح پر ان کے لیے کام تو کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ جاری رہا ہے۔ مگر تاریخ کے کسی انقلابی عمل کیبعد جب بھی کسی علاقہ کی اتھل پتھل کا شکار ہوئی ہے، وہاں اس کام کی اہمیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا رہا ہے۔ چنانچہ ایسے زمانہ میں اس کام کی جانب توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اس قسم کی صورت حال پیش آئی۔ برصغیر ایک زبردست انقلابی عمل سے گزرا اور تبادلہء آبادی کی وہ صورت پیش آئی جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ کروڑوں لوگوں کو صدیوں کے جمے جمائے معاشرے اور ٹکے ٹکائے گھروں کو ترک کر کے نئے مقام پر، نئے ماحول میں، نئے لوگوں کے ساتھ رس بس جانے کا مرحلہ پیش آیا تو اپنی پہچان اور تشخص کی حفاظت کی فکر لاحق ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد نسب ناموں کے سلسلہ کی ان گنت کتابیں لکھی گئیں
۔۔۔
(۱): سرسید احمد خان۔ سلسلۃ الملوک۔ بحوالہ واقعات قوم قائم خانی۔ دہلی ۱۹۳۱ء۔ ص ۲۰
 
(۱۳)
ان میں سے اکثر ان خاندانوں سے متعلق تھیں کو ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔
بروالہ سیدان کے سادات کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس قصبہ میں سادات آٹھ سو سال سے آباد تھے۔ سادات کی آبادی کے باعث ہی یہ دور ونزدیک مشہور تھا۔ وہاں کسی فرد کے لیے اپنی پہچان کی خاطر اس قصبہ کا حوالہ کافی تھا۔ شاید اسی لیے وہاں بسنے کی اتنی صدیوں کے دوران کسی نے اس بات کو ضروری خیال نہیں کیا کہ پوری بستی کی سطح پر ایک نسب نامہ مرتب ہونا چاہیے۔ ہر خاندان میں البتہ کوئی نہ کوئی بزرگ اپنے طور پر نسب نامہ کے تحفظ کا کام کرلیتا تھا۔ ایک دو کوششیں ایسی بھی ہوئیں کہ محلہ کی سطح پر نسب نامہ مرتب کیا گیا۔ اس قسم کی کوشش کے نتیجہ میں کالاپانہ کا نسب نامہ سیدمحمد حسین مرحوم کے پاس مکمل شکل میں موجود تھا۔ گوراپانہ کا پورا نسب نامہ اسی محلہ کے ایک بزرگ سید محمد شفیع نے ۱۸۹۹ء میں مرتب کیا تھا۔ اس نسب نامہ کو بوسیدہ کاغذات سے سید حافظ امجد علی نے ۱۹۳۳ء میں نقل کیا اور نقل کے وقت تک کی نسل کے نام شامل کر کے اسے مکمل کیا۔ اسی طرح اسماعیل پانہ میں بھی ایک دو بزرگ ایسے گزرے ہیں جن کے پاس اپنے محلہ کا پورا نسب نامہ محفوظ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ سادات بروالہ کو بھی بھاٹ اور جگوں کی سہولت حاصل تھی۔ ان کے بھاٹ ان کے میراثی تھے جو شادی غمی کے موقعوں پر مجلس میں کھڑے ہو کر بآواز بلند ان کا نسب نامہ پڑھا کرتے تھے۔ ان کے جگے حسینی برہمن تھے جو ان کے نوائیذادہ بچوں کے نام اپنی پوتھیوں میں درج کرنے کے لیے ہر سال بروالہ کا چکر لگایا کرتے تھے۔
مگر ہجرت کے باعث سادات بروالہ کے پاکستان آجانے کے بعد وہی صورتحال پیدا ہوئی جس کا اوپر زکر کیا جا چکا ہے کہ تاریخ کے انقلابی عمل اور آبادی کے اتھل پتھل کے باعث پیدا ہوا کرتی ہے۔ نسب ناموں پر مشتمل کاغذات میں سے اکثر دیگر قیمتی سازوسامان کے ساتھ بروالہ میں رہ گئے۔ بروالہ اور سادات بروالہ کے متعلق کچھ علم اور معلومات رکھنے والے بزرگ ایک ایک کر کے رخصت ہوتے گئے۔ میراثیوں کی پرانی نسل ختم ہو گئی اور نئی نسل شجرہ خوانی کے کام کو جاری نہ رکھ سکی اور نہ سادات بروالہ کے ساتھ پہلے کی طرح وابستہ رہی۔ حسینی برہمن ہندوستان میں رہ گئے اور سادات بروالہ کے ساتھ ان کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ نئے معاشرے اور نئے ماحول میں پرورش پانے کے باعث نئی نسل اپنے اجداد کے بارے میں اس علم سے محروم رہی جو ان کے بزرگوں کو حاصل تھا۔ خاص طور پر پاکستان میں پیدا ہونے والی نسل کو زیادہ سے زیادہ بروالہ کے نام کا پتہ تھا۔ اس سے زیادہ اس حوالہ کی شناخت انہیں حاصل نہیں تھی۔ ان سب باتوں پر مستزاد یہ کہ سادات بروالہ کے گھرانے پاکستان میں مختلف مقامات پر الگ الگ شہروں اور دیہات میں آباد ہوئے چنانچہ رفتہ رفتہ ایسی صورت حال پیدا ہونی شروع ہوئی کہ اپنی پہچان اور شناخت کے ساتھ ساتھ آپس کے رابطہ کے لیے بھی کسی معتبر زریعہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس زریعہ کی عدم موجودگی میں بجا طور پر یہ خدشہ پیدا ہوا کہ ایک آدھ نسل مزید گزر جانے کے بعد ایک طرف تو مختلف مقامات پر آباد افراد ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو کر رہ جائیں گے اور دوسری جانب اپنی شناخت اور تشخص سے اس طرح محروم ہو جائیں گے جس طرح اپنے خاندان سے کٹ جانے والا شخص ہوتا ہے۔
اس صورتحال کا علاج صرف ایک تھا کہ ایک کتاب لکھی جائے جو ایک جانب تو بروالہ سیدان کی پوری تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہو تا کہ نئی نسل اس قصبہ کے متعلق پوری طرح جان سکے اور دوسری جانب تمام نسب نامے اس کے زریعہ محفوظ کر دئیے گئے ہوں۔ میں نے ایک خدمت اور اچھے کام کے طور پر اس کتاب کی ترتیب کا آغاز کیا۔ مگر آگے بڑھنے اور وقت گذرنے کے ساتھ جن مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ان کا پہلے سے قطعاً اندازہ نہیں تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس قدر اہم اور ضروری کام کی اہمیت اور شدت کو سادات بروالہ کے تمام افراد محسوس کرتے ہوں
 
(۱۴)
گے اس لیے ان کے تعاون سے میرے لیے اس کام میں آسانی اور سہولت پیدا ہو جائے گی۔ اور بزرگوں کی رہنمائی سے سب کچھ بغیر کسی خاص دقت کے انجام پا جائے گا۔ مگر پتہ یہ چلا کہ سادات بروالہ میں سوائے چند افراد کے اس کام کی اہمیت کا احساس تک موجود نہیں ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں جن حضرات کو خطوط لکھے ان میں سے اکثر نے جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ ایک سوالنامہ مرتب کر کے متعدد بزرگوں کو بھیجا، مگر ایک دو جگہ سے نامکمل جوابات کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ جس جگہ سے کچھ معلومات حاصل ہونے کی توقع ہوئی، وہاں خود چل کر پہنچا۔ مگر اکثر وبیشتر سردمہری اور لاتعلقی کے رویہ سے سابقہ پڑا۔ ان حالات نے کئی بار مجھے اس قدر بددل کیا کہ اس کام کو ترک کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ مگر ہر بار ایک خاص قسم کے احساس خدمت اور ایک دو بزرگوں کی حوصلہ افزائی نے پھر سے کام کو جاری رکھنے پر مجبور کر دیا۔
مزکورہ بالا حالات سے ظاہر ہے کہ یہ کام مجھے کسی خام مواد کے بغیر ہی شروع کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ بروالہ کے کسی فرد سے اس قصبہ کی تاریخ کے متعلق کوئی کام کی بات معلوم نہیں ہوئی۔ مواد اکٹھا کرنے کے لیے ایک طویل عرصہ تک لائبریریوں کی خاک چھاننا پڑی۔ تب جا کر اتنا ہو سکا کہ تاریخ کا حصہ مرتب کرنے کے قابل ہو سکوں۔ نسب نامہ کے حصہ کے لیے البتہ کچھ بزرگوں اور عزیزوں کا تعاون میسر آ گیا تھا۔ جن کا شکریہ آگے چل کر ان کے ناموں کے اندراج کے ساتھ کروں گا۔ اس طویل محنت اور جستجو کے زریعہ میں نے اپنے طور پر اس کتاب کو ایسی شکل دینے کی کوشش کی ہے کہ سادات بروالہ کے ہر گھرانے کے لیے اس کا حصول ناگزیر ہو جائے۔ ہر فرد اسے اپنے گھر میں رکھنا لازمی خیال کرے اور یہ قصبہ کی شناخت کا مستقل زریعہ قرار پائے۔ پجھے پوری امید ہے کہ میں اپنی اس کوشش میں کامیاب رہا ہوں۔
اس کتاب کی ترتیب کے دوران جہاں مجھے یہ خیال رہا ہے کہ اس طریقہ سے بروالہ اور سادات بروالہ کی شناخت اور تشخص پوری کرنے کا اہم فرض ادا ہو سکے گا وہاں میرے زہن میں سعدی کا یہ شعر بھی رہا ہے:۔
نام نیک رفتگاں ضائع مکن
تابماندنام نیکت برقرار
اس سلسلہ میں یہ بتانا شاید بیجا نہیں ہو گا کہ نئی نسل کے بہت سے افراد اپنے بزرگوں کے بارے میں اس کتاب کے زریعہ وہ باتیں جان سکیں گے جو اب تک ان کے علم میں نہیں تھیں۔ اور بہت سے ایسے واقعات کو اس کتاب میں محفوظ کر لیا گیا ہے جو شاید بہت جلد زہنوں سے اتر کر ہمیشہ کے لیے فراموش ہو جانے والے تھے۔ یہ کتاب آئندہ نسلوں کے لیے اپنے آباؤاجداد کو پہچاننے کا غالباً واحد زریعہ قرار پائے گی۔
لیکن اس موقعہ پر یہ وضاحت شاید ضروری ہے کہ بزرگوں کے تزکروں تک میری رسائی زیادہ سے زیادہ ماضی قریب تک محدود رہی ہے۔ بروالہ سیدان ایک قدیم بستی تھی اور سادات وہاں تقریباً آٹھ سو سال تک آباد رہے۔ اس قدر طویل عرصہ وہاں بڑی بلند مرتبت ہستیاں پیدا ہوئی ہوں گی۔ میرا تو یہ بھی قیاس ہے کہ بروالہ کے اردگرد برگزیدہ ہستیوں کے جو مزارات موجود تھے وہ بھی سادات بروالہ کے بزرگوں کے ہی ہوں گے۔ ورنہ دوسرے مقامات سے بروالہ آکر کسی بزرگ کو اپنا مزار بنوانے کی کیا ضرورت پیش آئی ہو گی؟ بروالہ کے شاندار ماضی کا کسی قدر اظہار اس کے قدیم آثار کی عظمتوں سے بھی ہوتا تھا۔ اور قدیم تواریخ میں اس کے تذکرے بھی اس کا اظہار کرتے ہیں کہ کسی زمانہ میں یہ بستی بڑی پررونق اور شان وشوکت کی حامل تھی۔ اب تک بھی سادات کی پرشکوہ حویلیاں، وسیع احاطے، بلند وبالا دروازے اور دیگر عمارات ان کے شاندار ماضی کی داستانیں
 
(۱۵)
سناتی تھیں۔ اس ماضی کی عظمتوں کا اظہار کچھ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات سے بھی ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک روایت کے مطابق مغلوں کے عہد میں بروالہ کے سادات کے کوئی بزرگ اس قدر اعلٰی مراتب تک پہنچے کہ متھرا کے گورنر بنائے گئے۔ اسی طرح کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدان باوشہ گر کے خاندان کی ایک لڑکی بہو بن کر بروالہ آئی تھی۔ اس طرح خی اور روایات بھی موجود تھیں مگر ان کے تاریخی شواہد مہیا نہ ہونے کے باعث انہیں اس کتاب میں شامل نہیں کیا جاسکا۔ مگر ان روایات سے بروالہ کے شاندار ماضی کا ایک عکس ضرور نظر آ جاتا ہے۔
قدیم بزرگوں کے تذکروں کا کتاب میں شامل نہ ہونا بھی اسی سبب سے ہے کہ ان کے بارے میں مصدقہ معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔ اس سلسلہ کے ماضی قریب تک محدود رہنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مجھے ذاتی کوشش اور اپنے زرائع سے جو کچھ حاصل ہو سکا وہی کتاب میں شامل ہے۔ ورنہ ماضی کا زمانہ تو ایک طرف رہا موجودہ دور کے بہت سے ایسے افراد کے تذکرے اور تصویریں کتاب میں موجود نہیں ہیں۔ جنھیں شامل کرنے کی خواہش تھی اور جن کے لیے میں کوشش کرتا رہا۔ اس میں کوتاہی ان بزرگوں اور عزیزوں کی ہے جنھیں میں برسوں تک اس سلسلہ میں درخواستیں پیش کرتا رہا اور یاددہانیاں کراتا رہا۔ مگر انہوں نے اس جانب توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ چنانچہ اس کتاب کے مطالعہ کے وقت کسی صاحب کو اگر کسی بزرگ کے تذکرہ کی کمی محسوس ہو یا اس میں کسی ایسے فرد کی تصویر موجود نہ پائیں جسے دیکھنے کی وہ توقع رکھتے ہوں تو اس کی زمہ داری میرے بجائے ان اصحاب پر رکھیں جنھیں یہ تذکرے اور تصویریں مہیا کرنی چاہیے تھیں۔
اس کتاب کو میں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ بروالہ سیدان کی تاریخ اور معاشرت کے بیان کے لیے مخصوص ہے۔ اس میں ایک قدیم ترین زمانہ سے لے کر اس وقت تک کی عہدبعہد تاریخ بیان کی گئی ہے جب تک سادات وہاں آباد رہے۔ دوسرے معاشرتی حالات رسم ورواج، زبان اور دیگر کوائف کے بیان کے زریعہ کوشش کی گئی ہے کہ اس قصبہ کے معاشرہ اور ماحول کی پوری عکاسی ہو سکے۔ کتاب کا دوسرا حصہ نسب ناموں اور بزرگوں کے تذکروں پر مشتمل ہے۔ نسب ناموں کو محلہ اور ٹھلہ کے حساب سے تقسیم کر کے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر شخص آسانی سے اپنے خاندان کا نسب نامہ تلاش کر سکے۔ کچھ عرصہ قبل تک نسب ناموں کو ایک طویل وعریض تقشہ کی صورت میں ترتیب دیا جاتا تھا جسے تہہ کر کے قابو کرنا پڑتا تھا۔ اس کا یہ فائدہ تو تھا کہ پشتہاپشت کا شاخ در شاخ شجرہ ایک ہی کاغذ پر سامنے آجاتا تھا۔ مگر اس کی حفاظت انتہائی دشوار ہوتی تھی اور کاغذ بار بار کھولنے اور تہہ کیے جانے کے باعث جلد بوسیدہ ہو جاتا تھا اور پھٹ جاتا تھا۔ چنانچہ آج کل نسب ناموں کی ترتیب کا یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جو اس کتاب میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس طریقہ سے نسب نامے دیر تک محفوظ رہتے ہیں۔
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ نسب ناموں کے حصہ میں صرف ان شاخوں اور خاندان کا اندراج کیا گیا ہے جو تقوی بخاری سادات سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کا سلسلہ نسب مربوط ہے۔ یہ سادات یک جدی ہیں اور ان کے جد امجد سید امیر حسین ہیں۔ انہی کی اولاد کے نسب نامے اس کتاب میں درج ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور خاندان بھی بروالہ سیدان سے تعلق رکھتے ہیں اور سید کہلاتے ہیں۔ مگر ان کو اس کتاب میں درج ذیل وجوہات کی بنا پر جگہ نہیں دی جا سکی۔
 
(۱۶)
(۱) چند گھرانے ایسے ہیں جو سید امیر حسین کی اولاد ہونے کے دعویدار ہیں۔ مگر ان کا سلسلہ نسب اصل شجرہ کے ساتھ مربوط نہیں ہے۔ وہ صرف تین چار پشتوں کے نام بتا سکتے ہیں۔ اس سے آگے کا انھیں کچھ پتہ نہیں ہے۔ اس لیے انہیں اس کتاب میں جگہ نہیں دی جاسکی۔
(۲) کچھ گھرانے ایسے ہیں جو سید کہلاتے ہیں اور سید امیر حسین کی بجائے کسی اور بزرگ کی اولاد ہونے کے دعویدار ہیں لیکن شجرہ نسب قسم کی کوئی چیز ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ اس لیے انھیں اس کتاب میں شامل نہیں کیا گیا۔
(۳) کئی خاندان گیلانی سادات سے تعلق رکھنے والے بھی بروالہ میں آباد تھے۔ ان کے بزرگوں سے میں نے بارہا درخواست کی کہ وہ اپنا شجرہ مجھے مہیا کر دیں تا کہ اس کتاب میں شامل ہو سکے۔ یہ بزرگ ہر بار اس شجرہ کی موجودگی کا اقرار اور مہیا کرنے کا پختہ وعدہ کرتے رہے۔ مگر یہ شجرہ مہیا نہ ہو سکا اس لیے کتاب میں شامل نہیں۔
اس کتاب کی ترتیب وتصنیف کے دوران سادات بروالہ کا مجموعی رویہ، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ سردمہری بلکہ بعض اوقات استہزا کا بھی رہا جو کافی تکلیف دہ اور حوصلہ شکن تھا۔ مگر چند افراد ایسے بھی ہیں جنھوں نے ہر طرح سے اس کام میں تعاون کیا۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے تعاون کے بغیر یہ کام تکمیل پذیر نہیں ہو سکتا تھا۔ ان میں سے خاص طور پر قابل ذکر کالاپانہ سے سید واجد علی مرحوم، سید جمیل حسین نقوی مرحوم اور سید مقبول حسین نقوی ہیں۔ سید مقبول حسین نقوی نے اس پانہ کا شجرہ مکمل کرنے میں بیش قدر مدد کی۔ گورا پانہ سے محترم ماموں سید محمد شفیع نقوی صاحب کی سرپرستی، رہنمائی اور حوصلہ افزائی تو گویا ہمہ وقت میرے ساتھ رہی۔ اس کتاب کو مکمل کرانے میں سب سے بڑا حصہ انہی کا ہے۔ اس پانہ کے میلسی میں رہائش پذیر نوجوان افراد بھی اس کتاب کے سلسلہ میں بہت دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ اسماعیل پانہ سے ماسٹر سید صغیر حسین نے بڑی حد تک تعاون کیا۔ میں ان تمام بزرگوں اور بھائیوں کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کے علاوہ بھی کچھ بھائی اور عزیز اس کام میں دلچسپی کا اظہار کرتے رہے ہیں، میں ان کا بھی شکر گذار ہوں۔
کتاب کی اشاعت کے لیے مالی اعانت صرف محترم چچا سید مہدی حسن مرحوم کے گھرانے نے کی۔ چچا مرحوم نے اپنی زندگی میں اس کام کے لیے پانچ ہزار روپے عنایت کرنے کا وعدہ فرمایا تھا ان کے بعد اس وعدہ کو ان کے صاحبزادگان نے ایفا کیا۔ اس کے لیے اس گھرانے کا شکریہ واجب ہے کہ اس اعانت نے کتاب کی اشاعت میں بڑی سہولت پیدا کی۔
کتاب کی ترتیب کے دوران میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ہر واقعہ اور ہر ذکر درست طور پر بیان ہو سکے۔ مگر انسان سے غلطی کا ہر وقت امکان ہے۔ ہو سکتا ہے مجھ سے کوئی سہو یا تسامح ہو گیا ہو۔ جو بزرگ اور عزیز ایسا محسوس کریں وہ مہربانی فرما کر مجھے اس کی اطلاع ضرور دیں تا کہ آئندہ کے لیے اس غلطی کی تصیح اور خامی کی تکمیل کی جاسکے۔
جلیل نقوی
 
Top