تاریخ اسلام : 1

فرید احمد

محفلین
حضرت عثمان رضی اللہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم
حضرت عثمان رض اللہ کے جمع قرآن کو متنازع کہنا سمجھ میں نہ آیا ، اگر کسی ناقابل اعتناء گروہ کے نزدیک یہ متنازع ہے بھی تو کہنے اور لکھنے کی حد تک ، عملا آج اس پر امت متفق ہے ، اور دلیل ؟ اگر یہ متنازع ہوتا، تو وجہ نزاع ہوتی ، اور وجہ نزاع کوئی ہے تو اس کا تدارک آج تک ہوا ہوتا ، جیسا کہ بہت سے متنازع چیزوں کا ہر ایک نے بزعم کود تدارک کرکے اس کو کامل کیا ہے ، قرآن صدیوں سے اسی طرح چلا آنا فیصلہ خداوندی ہے، اور اس کے صحیح ہونے کی علامت ہے ، کیا خدا آج تک اپنی کتاب کو متنازع چلاتا آرہا ہے ؟ جب کہ عملا اس کتاب کی حکمرانی بھی مقصود ہے ۔ قرآن کو متنازع سمجھنا احکام قرآنی پر دیر سویر اعتماد اٹھنے کا سبب بن سکتا ہے ۔ الحذر !!!
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اقربا پروری کا اعتراض کتنا درست ہے ؟ محل نظر ہے ؟ اگر اقرباء کو عہدے دیے تھے تو اس میں واقعتا کوئی بے دیانتی ( اقربا کے اہل نہ ہونے یا ذاتی مفاد وغیرہ کی ) تھی یا نہیں یہ تاریخ کے صفحات میں ، خصوصا ان کی سیرت کی کتابوں میں اور مہوش کی ذکر کردہ جسٹس تقی عثمانی کی کتاب میں مذکور ہے ۔ اگر اس وقت کے سیاسی حالات جیسا کہ سب کو اعتراف ہے کہ سازشیں تیز تر تھیں اگر نظام حکومت مستحکم رکھنے اور خلافت کو بچانے کی خاطر اپنے معتمدوں کو کچھ کلیدی ذمہ داریاں دی جائے تو اس میں کون سی برائی ہے ؟ ہاں اب ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ حضرت عثمان کا یہ فعل ان کے لیے سیاسی اعتبار سے مزید نقصان دہ ثابت ہوا ، اس اعتبار سے کہ اس سے سازشیوں کو ایک قوی بہانہ مل گیا ۔
تعجب ہے کہ حضرت عثمان کے قتل کے بارے میں سبائیوں اور دیگر فتنہ پروریوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور یہ بھی سب کو مسلم ہے کہ انہوں نے ان کا تختہ الٹنے کے لیے اس الزم کو بہانہ بنایا ، دوسری طرف ہم اس قتل کو اور ان کی بغاوت کا سبب اقربا پروری قرار دیتے ہیں ۔ ذرا یہ منطق دیکھیں :
یورش کا سبب اقربا پروری ۔
اقربا پروری یورش کا بہانہ ۔ کیا بہانہ اور سبب دونوں ایک چیز ہے ؟
اگر یہ کہا جائے کہ دیگر اسباب کے ساتھ یہ بھی ایک سبب ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ کون سا سبب اصل ہے ؟ اگر یہ الزام نہ ہوتا تو قتل عثمان نہ ہوتا ؟ یقینا سبائی دوسرا بہانہ تراشتے !!!
یہاں پہنچ کر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک تجزیہ چاہوں گا ۔
ہماری اب تک بحث میں اور اوپر اب تکی پوسٹس میں حضرت عثمان رضی اللہ کے دو خاص کاموں کا تذکرہ ہوا۔
(١) جمع قرآن ۔یہ کام امت کے تقریبا تمام لوگوں نے بنظر استحسان دیکھا ، سراہا ، اور اس میں بہت کم ، بلکہ اتنا بے وقعت نزاع ہے کہ اس کا اعتبار نہیں ۔ اسی متفق علیہ اور اتفاقی فعل ہونے کی وجہ سے یہ کام سب کے نزدیک قابل قبول ہے اور ہونا چاہیے ۔
(٢) دوسرا کام ( جسے میں بے جا الزام یا بہانہ کہتا ہوں ) اقربا پروری یا انہیں عہدے نوازنا تھا۔ اس الزام یا فعل کے صحیح ہونے اور نہ ہونے اور درست ہونے کی صورت میں اس میں کوئی غلطی یا بددیانتی ہونے میں بہت زیادہ نزاع ہے ، اور کئی حضرات اس کو تسلیم نہیں کرتے ، جیسا کہ اس کا مختلف فیہ اور متنازع ہونے کا تذکرہ سب ہی کرتے ہیں ۔
اب ان دو کاموں میں سے جس کام کی نسبت ان کی جانب درست مان کر اس میں سب کے اتفاق کی وجہ سے اس کو قبول کیا گیا اور سراہا گیا تو جس کام کی نسبت میں بہت زیادہ نزاع اختلاف ہے ، اسے کیوں کر حضرت عثمان کا فعل مانا جا رہا ہے ؟
ایک کام کے کسی کرنے اور درست کرنے پر سب کا اتفاق ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی اس کو مانیں اور پسند کریں ۔ اور جس کام کے کسی کے کرنے نہ کرنے کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہو تو اور بہت زیادہ اختلاف ہو تو کیوں ہم یہ مان رہے ہیں کہ یہ کام اس نے کیا ہی ہے ؟ جب کہ اس جانب میں اور جو خرابیاں ہیں ، وہ سب پر عیاں ہیں ۔
ایک دوست “ محترم وہاب صاحب “ نے یہ بھی لکھا کہ “ لیکن حضرت عثمان اس غلطی کے مرتکب ہوئے جس کا نتیجہ ان کے خلاف بغاوت کی صورت میں نکلا۔ اور اس طرح اسی حوالے سے ان کی شہادت کے بعد امت مسملہ آپس کی خانہ جنگی میں گرفتار ہوئی۔ “
میرا سوال یہ ہے کہ اقربا کو عہدے پر بٹھانہ حالات خراب ہونے کے بعد تھا یا اس سے پہلے کہ یہی چیز بغاوت کا سبب بنی ؟ جو چیز حالات کو قابو میں لانے اور مستحکم کرنے کے لیے بعد میں کی گئی تھی اسے ہم حالات کے بگاڑ کا سبب سمجھتے ہیں ۔ اگر مناسب ذمہ داریوں پر اقربا کو متعین کرنے سے حالات قابو میں آجاتے اور سازشی حضرات دن جاتے تو حضرت عثمان رضی اللہ کے اس کام کی ہم تعریف کرتے نہ تھکتے ۔
رہی بات صحابہ کے معصوم نہ ہونے کی !
جمہور مسلمانوں کے دو عقیدے ہیں :
(١) فقط انبیاء ہی معصوم عن الخطا ہوتے ہیں ۔
(٢) صحابہ نبی نہیں ،لہذا معصوم نہیں ۔ان سے گناہ کے صدور کا امکان ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کے کسی فعل کو گناہ کون قرار دے ؟ اگر ان کا فعل صریح کتاب و سنت کے خلاف ہو تو بات ظاہر ہے ۔ مگر کسی ایسے فعل کو جس کو بالدلیل صحیح کہا جا سکتا ہو، “گناہ“ اور (کم سے کم ) “غلط“ کہنے کی ضرورت ہمیں کیوں پیش آئی، اوراس فیصلہ کے لیے علمی لیاقت ہماری کتنی ہے ؟
یہاں دوسری بات یہ ہے کہ اگر صحابی سے کوئی خطا ہوئی ہو تو اللہ تعالی نے ان ہی صحابہ کے بارے میں قرآن میں یہ کہ دیا ہے کہ “رضی اللہ عنہم و رضو عنہ “ یعنی اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے، گویا یہ ان کی خطاوں کے معافی کا اعلان ہے۔
“معصوم عن الخطا “ نہ ہونے اور انسان ہونے کے عقیدہ بیان کرکے ہم جس بات کو صحابی رسول کی طرف منسوب کرتے ہیں ، کیا وہ یقینا غلطی یا گناہ ہے ؟ یہ بجائے خود ایک سوال ہے ۔

ہماری مذکورہ بالا پوستوں میں ایک دوست نے مولانا مودودی صاحب کے تجزیہ تاریخ اور تنقید اور تحقیق کو اجتہاد اور ایک جدید اور درست راہ قائم کرنے کا نام دیا ہے ، ان کے اپنے الفاظ میں “ دراصل یہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے صدیوں کی منجمد سوچ کو توڑنے کی کوشش کی۔ اور اجتہاد پر زور دیا۔ اور میرے خیال میں یہی تین لوگ تھے جو بڑھتی ہوئی مادی دنیا میں روح اور مادے دونوں کا امتزاج چاہتے تھے۔ “
گور کریں ، مولانا مودودی کو اب تک کے علماء کا نطریہ جو تعدیل صحابہ اور صحابہ کے بارے میں لب کشائی نہ کرنے پر مبنی تھا ، درست نہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس بارے میں جراءت سے کام لے کر یہ کارنامہ انجام دیا اور اس سے بہت سارے تاریخی ، تحقیقی اور سبق آموز نتائج اخذ کیے ، اگر یہ کام ہماری نطر میں اجتہاد اور جراءت ہے اور موجودہ دور کی ضرورت ہے تو کیا حضرت معاویہ اس بات کے مستحق نہیں کہ خلافت کو ترک کے ملوکیت اپنانے میں ان کو بھی مجتہد اور ضرورت اور وقت کے تقاضوں پر عمل کرنے والا ، پر عزم ، باہمت قائد قرار دیا جائے ۔ اگر اگلوں کی روش سے اختلاف کا نام اجتہاد ہے ( چاہے وہ بالدلیل ہو ) تو پھر حضرت معاویہ کا خلافت ترک کر کے ملوکیت اپنانا بہت بڑا اور مردانہ اور ہمت والا اقدام ہے ۔ اور یاد رکھیے مولانا مودودی صاحب نے اسی نقطے پر پوری کتاب “خلافت و ملوکیت “ لکھی ہے ۔ ان کی نظر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ غلط تھا، اور اب تک کے علماء کا ان کے بارے میں خاموش رہنا غلط تھا اور اپنا کام اجتہاد اور نئی راہ قائم کرنا تھا تو کیوں جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فعل کو اجتہاد اور جدت کا نام نہیں دیتے ؟
اور غور کیا ؟ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کتنے صحابہ حیات تھے ؟ اور ان میں سے کس نے اختلاف کیا ؟ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خود خلافت انہیں سونپ دی، حضرت حسین رضی اللہ زندہ تھے، انہوں نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت نہیں کی ، اور یزید کی مخالفت کی تو اس کے نا اہل ہونے کی وجہ سے ، خلافت کے ترکے کرنے اور ملوکیت اپنانے پر نہیں ۔حجاج بن یوسف سے ظالم کے سامنے آوازہ حق بلند کرنے والے صحابہ اور تابعین کا دور تو بعد میں آیا ، اس وقت تو اس سے زیادہ صحابہ موجود تھے۔ کتنوں کی مخالفت تاریخ میں درج ہے ؟ اور جناب مولانا مودودی کے اجتہاد کی کتنوں نے مخالفت کی ،اور موافقت کی ؟ تاریخ خود جواب دیتی ہے ۔ خلافت چھوڑ ملوکیت اپنانے کا امیر معاویہ رضی اللہ کا فیصلہ درست تھا یا تعدیل صحابہ کا نظریہ چھوڑ تنقید اور تجزیہ کا راستہ اپنانے کا مولانا مودودی کا فیصلہ درست ہے ؟
اس بارے میں اور کچھ خیالات ہیں وہ انشاء اللہ آئندہ کل !!!
ایک بات دوستان محفل کے نام :
کسی بات کے حق ہونے کا اس وقت آخری پیمانہ قوت دلیل ہے، میں چاہوں گا کہ کوئی دوست اپنے کم مطالعہ کے باوجود محض خود اعتمادی سے اخذ کردہ نظریہ پر اصرار نہ کرے، اسی طرح کسی سے اپنی عقیدت اور خوش اعتقادی اور اعتمادی کی بنیاد پر بھی اس کی بات پر اڑا نہ رہے ، میں نے جہاں تک ہو سکے اب تک بحث میں آنے والے واقعات کو پیش کرے اس کا تجزیہ کیا ہے ، دوستوں سے گذارش ہے کہ محض اصولی بات نہ کرے تائید میں کوئی واقعہ پیش کرے اور اسے مدلل کریں۔ یہ چیلینج نہیں ، بلکہ نتیجہ اخذ کرنے کا لازمہ ہے ۔
آئندہ بحث میں مذکورہ باتوں ہی کی روشنی میں دو چیزیں پیش کروں گا ۔
قائد کا کام اور مصنف کا کام ؟
حق کس جانب ہے ؟
فرید احمد
 
بہت خوب فرید ماشاءللہ آپ کا حسنِ استدلال اور استفہامیہ انداز قابل ستائش ہے اور یقیناّ باقی احباب بھی قوت دلیل ، مستند حوالہ جوات اور واقعات سے ہی بحث کو آگے بڑھائیں گے۔ میں خود بھی بہت سے حقائق پیش کرنے کے لیے بے تاب ہوں مگر بحث کو منطقی طور پر آگے بڑھانے کے لیے دیگر مبحثین کی پوسٹس کے انتظار میں ہوں۔ اس موضوع پر گفتگو آگے بڑھی گی اور آپ کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ اس قدر بلند پایہ مجتہدین اور مجددین اگر اس مسئلہ پر خاموش رہے یا اسے الجھانے کی بجائے سلجھانے میں کوشاں رہے تو اس وجہ سے ہی کہ وہ معاملات کو صرف درایت کے اصولوں سے ہی نہیں پرکھ رہے تھے کہ اس میں ٹھوکر کھانے کا امکان حد سے سوا ہوتا ہے اور آگے چل کر ہم دیکھیں گے کیسے اکابر مسلم فلسفی اس معاملہ میں غلطیاں کرتے نظر آئیں گے۔ میرا خیال ہے کہ واقعات کو حضرت ابو بکررضہ کے ہی دور سے شروع کرتے ہیں کیونکہ اس دور میں بہت سے اہم واقعات ہیں اور اس کے بعد حضرت عمررضہ کا ایک مثالی دور ہے جس میں ان گنت واقعات ہیں اس کے بعد ہم دوبارہ حضرت عثمان رضہ کے دور پر واپس آئیں گے اور ان کے دور کے پہلے پانچ سال کو بھی زیر بحث لائیں گے جو کہ پر امن تھے اور جس میں کئی قابل ذکر کام ہوئے۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو کسی خاص موضوع پر علیحدہ تھریڈ شروع کر دی جائے گی۔
 

فرید احمد

محفلین
عبداللہ بن سبا

مہوش صاحبہ کا سب برابر کا اعلان لگاکر قارئین کو کہاں لے جانا چاہتی ہیں، سمجھ میں آرہا ہے ، میں لگی لپٹی کا عادی نہیں، صاف کہوں گا ، سچ کہوں گا ۔
عرض ہے کہ عبداللہ بن سبا کے بارے میں طہ حسین کا قول آپ نے نقل کیا ، یہ صاحب ایک ملحد قسم کے مصنف اور رائٹر تھے، زور قلم رکھتے تھے، اور زمانہ کی ضرورت نے ، اخوانیوں اور مسلم ادباء کا زور توڑنے انہیں وزورت تعلیم سونپ دی گئی ، بالکل ویسے ہی جیسے آج کل وزارتیں دی جاتی ہیں۔ کوئی تاریخی دلیل ان کی بات میں نہیں ،
اسی طہ حیسن کے ہم عصر احمد امین نے فجر الاسلام میں عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت عثمان کے زمانہ میں اس یہودی نے اسلام ظاہر کیا اور اور اور۔۔۔یہ ابن سبا، یا ابن السوداء، اسی سال مرا ، جس سال حضرت علی مرے ، اسی کے بارے میں غلط روایت یہ ہے کہ حضرت علی نے اسے زندہ جلایا ، مگر حق یہ ہے کہ وہ اسی سال حضرت علی رضی اللہ کے بعد مرا ۔
تاریخ طبری میں سن ہجری 35 کے واقعات پر مشتمل ایک رسالہ کی لنک آپ نے شامل کی ہے ۔ اس میں جو قصے تاریخ طبری کے حوالہ سے نقل کیے ہیں ، وہ تاری طبری میں اس طرح بالکل نہیں ۔ پورا غلط مواد ہے ، آپ ذرا نیٹ سے اتر کر کتب خانہ میں جائیں ، یا نیٹ پر موجود اصل تاریخ طبری عربی کا مطالعہ کر لیں ۔
کیا انگریزی تاریخ طبری اتنی بڑی ہے کہ دور عثمان کے تذکرہ تک 16 جلدیں ہو گئیں ۔
عربی میں یہ سب دوسری تسری میں آجا تا ہے ،
اور بتاؤں تاریخ طبری میں سن ہجری 35 کے واقعات کی ابتدا عبد اللہ بن سبا کے تذکرے سے ہوتی ہے اور اس میں اس کے یہودی ہونے اور اسلام ظاہر کرنے ، فتنہ پھیلانے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دوبارہ واپس آنے اور حضرت علی کے خاتم الاوصیاء کا عقیدہ پھیلانے کا ذکر لکھا ہے ۔
دونوں جانب کی باتیں پڑھنے اور جاننے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ دوسرا بالکل کھوٹا مال لے کر آےئ تو بھی ہم اسے اپنے معدہ مال کے سامنے وزن میں برابر سمجھیں ۔؟؟؟
 

فرید احمد

محفلین
ابن سبا

مہوش کو نہ معلوم کیوں اب سبا سے محبت ہے ؟ میرے خیال میں وہ آستین میں کچھ اور چھپائے ہیں ۔
خیر ابن سبا کے بارے میں درج دو لنک دیکھ لیں ۔
دوسرے لنک پر جو صفحہ کھلے گا اس میں موجود ابن سبا کے فقرے میں ایک نہیں کئی حوالے مؤرخین کے ہیں ۔
http://www.alsaha.com/sahat/Forum2/HTML/001162.html
http://arabic.islamicweb.com/shia/history_fitna.htm
 
جواب

دوستو ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم لوگ واقعات میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ واقعات سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ میرے خیال میں خلفائے راشدین کے دور میں اور ان کے بعد جو کچھ ہوا ان کو خارجی نقطہ نظر کی بجائے داخلی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اور ان وجوہات پر بات کی جائے کہ آخر ایسا کیوں ہوا۔ میرے خیال میں سب سے بڑی وجہ عربوں کی اپنی قبائلی عصبیت تھی جس نے آقا کی وفات کے بعد سر اٹھایا۔ یوں صدیوں سے ایک دوسرے سے برسرپیکار رہنے والی قوتیں ایک بار پھر اپنی خاندانی چپقلشوں اور لڑائیوں کی طرف واپس مڑنے لگے۔ اس دور میں اقربا پروری کا رجحان بھی خالصتہ قبائلی عصبیت کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوا۔جنگ جمل جنگ صفین اور پھر واقعہ کربلا انہی قبائلی عصبیتوں یعنی بنی ہاشم اور بنی امیہ کی صدیوں پرانی دشمنی کا نتیجہ معلوم ہو تے ہیں۔ دوسرا حوالہ محکوم اقوام تھے جنہوں نے شروع میں اسلام تو قبول کر لیا لیکن عرب تہذیب کو قبول نہ کر سکے۔ یوں ان کی طرف سے ایک بار پھر اپنے کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے تگ و دو شروع ہو گئی۔اور یوں اسلام کئی فرقے وجود میں آئے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
عبداللہ بن سبا

محترم فرید صاحب،
آپ نے فرمایا:

تاریخ طبری میں سن ہجری 35 کے واقعات پر مشتمل ایک رسالہ کی لنک آپ نے شامل کی ہے ۔ اس میں جو قصے تاریخ طبری کے حوالہ سے نقل کیے ہیں ، وہ تاری طبری میں اس طرح بالکل نہیں ۔ پورا غلط مواد ہے ، آپ ذرا نیٹ سے اتر کر کتب خانہ میں جائیں ، یا نیٹ پر موجود اصل تاریخ طبری عربی کا مطالعہ کر لیں ۔
کیا انگریزی تاریخ طبری اتنی بڑی ہے کہ دور عثمان کے تذکرہ تک 16 جلدیں ہو گئیں ۔


بلا وجہ الزامات لگانے کا کیا فائدہ؟

scan11nc.jpg

scan19ki.png


میرے اس تھوڑے بہت لکھے کو بہت جانیے۔

ہم علماء کی عزت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ سب سے پہلے سیکھیے کہ اختلافِ رائے کیسے برداشت کیا جاتا ہے۔

آپ کی اس معاملے میں جو بھی رائے ہو، میرے لیے لائقِ احترام ہے۔ لیکن جب آپ اپنی رائے زبردستی دوسروں پر جمانے لگیں گے، تو یقینا یہ بہت غلط ہے، کیونکہ یہ اندھی تقلید ہے اور انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر لینے کے برابر ہے۔ اور اس اندھی تقلید کا نتیجہ صرف اس میں نکلتا ہے کہ ہمارے مدارس صرف کنویں کی مینڈک پیدا کرتے ہیں، جو وہی سب عقائد رکھتے ہیں جو اُن کے اساتذہ نے انہیں بتائے ہوتے ہیں۔


میں اس سے پہلے بھی سٹیٹ لائیبریری جا کر تاریخ طبری کا یہ پندھرواں اور سولہواں ایڈیشن چیک کر چکی ہوں۔

فرید صاحب، آپ نے فرمایا ہے کہ تمام تر ترجمہ غلط کیا گیا ہے۔
جبکہ میرا بیان ہے کہ 99 فیصدی ترجمہ مجھے صحیح لگا ہے۔ انصاف کا تقاضہ مجھ سے کہتا ہے کہ میں صحیح حقائق سامنے پیش کروں۔

اگر فرید صاحب، آپ اب بھی اپنے بیان پر اصرار کرتے ہیں، تو آپ سے گذارش ہے کہ اُن جگہون کی نشاندھی کریں جہاں ترجمہ غلط کیا گیا ہے۔ میں جوابِ غزل میں انگلش کے اُس صفحے کا پورا سکین امیج پیش کر دوں گی تاکہ احباب آپ کی یا میری صداقت کا خود ہی اندازہ کر لیں۔

بولیے کیا آپ کو منظور ہے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
فرید صاحب نے اپنی پوسٹز میں بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اگر فرید صاحب بغیر جذباتی ہوئے، کھلے دل سے گفتگو کرنا چاہیں، اور فریق مخالف کو پورا موقع عطا فرمائیں کہ وہ اپنے دلائل کو سامنے لا سکے، تو انشاء اللہ یہ گفتگو یقیناً تفرقہ کی نظر ہونے کی بجائے ہمارے لیے علم سیکھنے کا باعث بن سکتی ہے۔

میری بھرپور کوشش ہو گی کہ یہ گفتگو علم اور ادب کے دائرے میں رہے اور ہم تاریخ کے ہر پہلو سے بھرپور انصاف کریں۔ انشاء اللہ۔


محترم فرید صاحب کے الزامات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کوشش کرتی ہوں کہ ان میں سے کچھ کا احاطہ کروں۔

1۔ طہ حسین صاحب پر غیر ضروری اعتراضات۔
یہ یاد رکھئے کہ صاحبان علم کو بخوبی علم ہے کہ عبداللہ ابن سبا کا جناب عثمان ابن عفان کے خلاف شورش میں کردار کا قصہ صرف اور صرف ایک دیو مالائی قصہ ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
حتیٰ کہ مولانا مودودی نے اپنی خلافت و ملوکیت میں ایک دفعہ بھی عبداللہ ابن سبا کا ذکر نہیں کیا، کیونکہ وہ اس کی حقیقت بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ سیاسی دباؤ کی وجہ سے اگرچہ کہ کھل کر اس حقیقت کا اظہار نہیں کر سکے، مگر جو بھی ان کی کتاب پڑھے گا، وہ حیرت زدہ ہو گا کہ اس کتاب کا خاص موضوع ہے جناب عثمان ابن عفان کے خلاف شورش کا آغاز ہے، مگر اس میں کہیں عبداللہ ابن سبا کا ذکر نہیں ملتا۔

جبکہ میرے اوپر فی الحال ایسا کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے جیسا کہ مولانا مودودی پر تھا۔ اس لیے میری بھرپور کوشش ہو گی کہ کم از کم تمام تر حقائق کو کھل کر سامنا لایا جا سکے تاکہ بلا کسی اندھے پن کے انصاف قائم ہو سکے۔ انشاء اللہ۔


2۔ فرید صاحب، آپ نے عبداللہ ابن سبا کے متعلق دو عربی کے لنک پیش کیے ہیں اور چند دوسرے دعوے کیے ہیں۔

آپ سے گذارش ہے کہ مجھے اجازت دیں کہ میں فریق مخالف کا مقدمہ بھی بھرپور طریقے سے یہاں پیش کروں اور آپ سے جواب طلب کروں۔

جب تک آپ اس معاملے میں اٹھنے والے سوالات کو ہی نہ جاننا چاہیں گے، اُس وقت تک آپ ان کا جواب کیسے دیں گے؟

اس موضوع کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، میں عبداللہ ابن سبا پر ایک نیا تھریڈ کھول رہی ہوں۔ اور وہاں آپ سے جوابات طلب کروں گی۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میری تمام دوستوں اور خاص طور پر اس فورم کے ناظم سے درخواست ہے کہ وہ گفتگو کو پٹڑی سے اترنے سے بچائیں۔ مجھے اس قسم کی کوئی خوش فہمی نہیں ہے کہ جن تاریخی حقائق پر مسلمان آج تک متفق نہیں ہوئے، ہم وہاں کوئی اتفاق رائے ڈھونڈ لیں گے۔ ویسے ابھی تک آپ لوگوں کی گفتگو ماشاءاللہ بہت پر مغز چل رہی ہے اور مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میں آپ لوگوں جتنا تاریخ، مذہب اور فلسفہ کا علم نہیں رکھتا۔ میری گزارش ہے کہ تاریخ اسلام کے ان نازک موضوعات کے علاوہ بھی موضوعات پر گفتگو فرمائیں۔
 
نبیل آپ فکر نہ کریں فریقین آہستہ آہستہ اعتدال کی طرف آرہے ہیں اور میں ایک بار پھر فرید اور مہوش سے درخواست کروں گا کہ بجائے طعن و تشنیع کے ہم اس موضوع کو صرف اور صرف دلائل کی بنیاد پر آگے لے کر چلیں۔ میں خود بھی اس موضوع میں حد درجہ دلچسپی رکھتا ہوں اور کچھ وقت تحقیق کے لیے چاہتا ہوں کیونکہ بغیر مستند حوالوں کے گفتگو آگے بڑھانے کا نہ تو لطف ہے اور نہ فائدہ۔ ابن سباء پر ایک نیا تھریڈ شروع ہو چکا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اب ابنِ سباء پر بات اب وہیں ہوگی اور یہاں ہم پھر سے تاریخ اسلام کے ادوار کو لے کر مرحلہ وار چلیں گے۔ میری ایک بار پھر انتہائی ادب سے گزارش کر رہا ہوں کہ ہم صرف اس صورت میں ہی بات کو آگے بڑھا سکیں گے جب ہم ایک دوسرے کی بات کو تحمل سے سن سکیں گے اور جذباتی ہوئے بغیر صرف علمی دلائل اور مستند حوالہ جوات سے بات کریں گے۔ انشاءللہ میں خود بھی اس پر پوسٹ کروں گا مگر کچھ تحقیق کے بعد۔ یہ موضوعات ایسے ہیں کہ وقت بھی مانگتے ہیں اور تحقیق بھی اور اس راہ پر ہمیں تحمل سے چلنا ہوگا۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
بہت اچھی معلومات شیئرکیں تھی لیکن یہ سلسلہ بھی وقت نظرہوگیاکیا؟


والسلام
جاویداقبال
 

طالوت

محفلین
پہلی بار (میری رکنیت کے عرصے میں) محفل پر تاریخ کے حوالے سے اس قدر مثبت سوچ کا مظاہرہ ہو رہا ہے ۔ بلاشبہ تاریخ ، مستقبل کی سمت کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اور تاریخی معاملے میں مسلمان بڑے بدقسمت واقع ہوئے ہیں ۔ ہماری تاریخ کا اندازہ “حقائق اور افسانے“ کے مصنف کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے کہ “یورپ نے ایک صدی میں کبھی اتنے غدار پیدا نہیں کئے جتنے مسلمان ایک سال میں پیدا کرتے چلے آ رہے ہیں“ اور یہ غداری قلم سے تلوار تک چھائی ہوئی ہے ۔ اس معاملے میں قران بڑی شاندار رہنمائی کرتا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ “تم سے پہلے جو لوگ گزر چکے ان کے اعمال ان کے ساتھ ہیں اور تمھارے تمھارے ساتھ ، تم سے ان کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا“
وسلام
 
Top