تاج محل (کیفی اعظمی)

عدیل ہاشمی

محفلین
دوست! میں دیکھ چکا تاج محل
۔۔۔۔۔واپس چل
مرمریں مرمریں پھولوں سے ابلتا ہیرا
چاند کی آنچ میں دہکے ہوئے سیمیں مینار
ذہن شاعر سے یہ کرتا ہوا چشمک پیہم
ایک ملکہ کا ضیا پوش و فضا تاب مزار
خود بہ خود پھر گئے نظروں میں بہ انداز سوال
وہ جو رستوں پہ پڑے رہتے ہیں لاشوں کی طرح
خشک ہو کر جو سمٹ جاتے ہیں بے رس اعصاب
دھوپ میں کھوپڑیاں بجتی ہیں تاشوں کی طرح
دوست میں دیکھ چکا تاج محل
۔۔۔۔۔واپس چل

یہ دھڑکتا ہوا گنبد میں دل شاہجہاں
یہ در و بام پہ ہنستا ہوا ملکہ کا شباب
جگمگاتا ہے ہر اک تہ سے مذاق تفریق
اور تاریخ اڑھاتی ہے محبت کی نقاب
چاندنی اور یہ محل عالم حیرت کی قسم
دودھ کی نہر میں جس طرح ابال آ جائے
ایسے سیاح کی نظروں میں کھپے کیا یہ سماں
جس کو فرہاد کی قسمت کا خیال آ جائے
دوست میں دیکھ چکا تاج محل
۔۔۔۔۔واپس چل

یہ دمکتی ہوئی چوکھٹ یہ طلا پوش کلس
انہیں جلووں نے دیا قبر پرستی کو رواج
ماہ و انجم بھی ہوئے جاتے ہیں مجبور سجود
واہ آرام گہ ملکۂ معبود مزاج
دیدنی قصر نہیں دیدنی تقسیم ہے یہ
روئے ہستی پہ دھواں قبر پہ رقص انوار
پھیل جائے اسی روضہ کا جو سمٹا دامن
کتنے جاں دار جنازوں کو بھی مل جائے مزار
دوست میں دیکھ چکا تاج محل
۔۔۔۔۔واپس چل

کیفی اعظمی
 
Top