بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے۔ پرنم الہ بادی

بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے
یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے

ساتھ اس کے جو ہے رقیب تو کیا
پھولوں کے ساتھ خار ہوتا ہے

جب وہ ہوتے ہیں صحن گلشن میں
موسم نو بہار ہوتا ہے

کاش ہوتے ہم اس کے پھولوں میں
اس گلے کا جو ہار ہوتا ہے

دوست سے کیوں بھلا نہ کھاتے فریب
دوست پہ اعتبار ہوتا ہے

جب وہ آتے نہیں شب وعدہ
موت کا انتظار ہوتا ہے

وصل میں بھی خیال ہجر سے دل
بے سکون بے قرار ہوتا ہے

ہم بڑے خوش نصیب ہیں ورنہ
آپ کو کس سے پیار ہوتا ہے

تیر وہ تیر نیم کش تو نہیں
دل کے جو آر پار ہوتا ہے

حسن اخلاق عروس حیات
سب سے اچھا سنگار ہوتا ہے

عشق کی کائنات کا پرنمؔ
حسن پروردگار ہوتا ہے

پرنم الہ بادی
 
Top