بے سکونی سی بے سکونی ہے۔۔۔ ۔

نایاب

لائبریرین
اگر ہم آج کے دور میں کسی کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں تو اگلا بندہ پریشان کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا اب ہمیں محبت اور خلوص راس ہی نہیں آتے یا پھر ہمیں ان کی ضرورت ہی نہیں رہی؟ کیا کسی کے ساتھ مخلص ہونے یا اپنا لگاؤ ظاہر کرنے کے لیے خونی رشتہ ہونا ضروری ہے؟
بے سکونی جب ہی جنم لیتی ہے جب انسان کا ضمیر اسے پچھتاوؤں میں الجھا دے ۔ نفسانی خواہشات تشنہ تکمیل رہ جائیں ۔ انسان کا ضمیر اسی وقت پچھتاؤؤں کا شکار ہوتا ہے جب اس کے اعمال اس کا خلوص اس کا رویہ اس کا اخلاق خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لے ۔ اور آج کے اس تیز رفتار وقت میں خواہش نفس کے اپنی تکمیل کے لیئے اوڑھےلبادے اور نقاب زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے ۔ ہمارا کسی کے ساتھ مخلص ہونا ہماری اپنی حد تک ہمارے اپنے بس میں ہے ۔ اور ہماری یہ حد ہمارے ضمیر کی عدالت میں ہر لمحہ جرح کا سامنا کرتی ہے ۔ اگر ہمارا خلوص ہماری محبت ہمارے ضمیر کی جرح کا صدق دلی سے سامنا کرتے ہمارے ضمیر کو مطمئن کر دے ۔ تو ہمیں یہ پرواہ کبھی نہیں ہوتی کہ ہمارے خلوص ہماری محبت کو زمانہ کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ خلوص محبت لگاؤ کے رشتے انسانی ہیں اور یہ کسی طور بھی خونی رشتوں کے دائروں میں قید نہیں ۔
بلا شک " اعتبار و اعتماد" کسی بھی دھوکہ کی پہلی سیڑھی کہلاتی ہے ۔ اور اس اعتبار و اعتماد کو خلوص و محبت و لگاؤ کے سہاروں سے مضبوط کیا جاتا ہے ۔ کوئی بھی تو نہیں اس زمانے میں جسے " خلوص محبت و لگاؤ " کے جذبوں کی احتیاج نہ ہو ۔ اور ان جذبوں کے بنا اس کا گزارہ ممکن ہو ۔
کسی حد تک یہ جذبے " فطرت " سے منسلک ہوتے ہیں ۔ اور سب کی ہی فطرت ڈسنے کی نہیں ہوتی ۔
 

فاتح

لائبریرین
بے سکونی جب ہی جنم لیتی ہے جب انسان کا ضمیر اسے پچھتاوؤں میں الجھا دے ۔ نفسانی خواہشات تشنہ تکمیل رہ جائیں ۔ انسان کا ضمیر اسی وقت پچھتاؤؤں کا شکار ہوتا ہے جب اس کے اعمال اس کا خلوص اس کا رویہ اس کا اخلاق خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لے ۔ اور آج کے اس تیز رفتار وقت میں خواہش نفس کے اپنی تکمیل کے لیئے اوڑھےلبادے اور نقاب زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے ۔ ہمارا کسی کے ساتھ مخلص ہونا ہماری اپنی حد تک ہمارے اپنے بس میں ہے ۔ اور ہماری یہ حد ہمارے ضمیر کی عدالت میں ہر لمحہ جرح کا سامنا کرتی ہے ۔ اگر ہمارا خلوص ہماری محبت ہمارے ضمیر کی جرح کا صدق دلی سے سامنا کرتے ہمارے ضمیر کو مطمئن کر دے ۔ تو ہمیں یہ پرواہ کبھی نہیں ہوتی کہ ہمارے خلوص ہماری محبت کو زمانہ کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ خلوص محبت لگاؤ کے رشتے انسانی ہیں اور یہ کسی طور بھی خونی رشتوں کے دائروں میں قید نہیں ۔
بلا شک " اعتبار و اعتماد" کسی بھی دھوکہ کی پہلی سیڑھی کہلاتی ہے ۔ اور اس اعتبار و اعتماد کو خلوص و محبت و لگاؤ کے سہاروں سے مضبوط کیا جاتا ہے ۔ کوئی بھی تو نہیں اس زمانے میں جسے " خلوص محبت و لگاؤ " کے جذبوں کی احتیاج نہ ہو ۔ اور ان جذبوں کے بنا اس کا گزارہ ممکن ہو ۔
کسی حد تک یہ جذبے " فطرت " سے منسلک ہوتے ہیں ۔ اور سب کی ہی فطرت ڈسنے کی نہیں ہوتی ۔
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
(جون ایلیا)
 

arifkarim

معطل
اگر ہم آج کے دور میں کسی کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں تو اگلا بندہ پریشان کیوں ہو جاتا ہے؟
کیونکہ وہ بندہ پہلے بھی کسی نام نہاد مخلص کے ہاتھوں ڈسا جا چکا ہوتا ہے! :biggrin:
یوں محتاطی بہترین حل ہے مستقبل کے جعلی مخلصوں سے بچنے کا! آج کے دور میں آپ کسی پر بھی 100 فیصد بھروسا اور اعتبار نہیں کر سکتے۔ اپنے سگے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر بھی نہیں۔ یوں تو ہم بہت دکھ کا مظاہرہ کرتے ہیں جب حضرت یوسف علیہلسلم کی ہزاروں سال پرانی کہانی ہمیں بار بار سنائی جاتی ہے کہ کیسے انکے بھائیوں نے اپنے اس پسندیدہ بھائی کو محض حسد کی بنیاد پر اپنے باپ حضرت یعقوب علیہلسلم سے دور کر دیا۔ لیکن روزانہ جو ہمارے آج کے معاشرہ میں غریب ماں باپ اپنی ہی اولاد کو امراء کے ہاتھوں فروخت کر تے ہیں اور شادی کے نام پر بڈھے بابوں کے حوالے کر دیتے ہیں، ایسے میں ہمارے مست ذہنوں میں جوں تو کیا برق رو تک نہیں رینگتی!
 
دوستوں کو یا کسی کو بھی کیا ضرورت ہے پٹی پڑھانے کی اور اسے پڑھنے کی۔۔ کیا اپنی کوئی عقل کام نہیں کرتی انسان کی؟

دوستوں سے مراد تمام جاننے والے بھی ہیں۔

اور پٹی پڑھانے کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے فرمودات پر باقی لوگ عمل کریں خاص طور پر جن تک یہ فرمودات پہنچ سکتے ہیں وہ تو ضرور کریں۔

انسان اپنی عقل استعمال کرتا ہے مگر پھر یہ طعنہ بھی سننے کو ملتا ہے

" ہر وقت اپنی عقل نہ استعمال کیا کرو "

جس کی وجہ سے کبھی کبھی دوسروں کی عقل پر بھی اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ :)
 
سارا جہان ھھھ ھھھ ھھھ ھھھ ھھ نا بھئی ہم اس سارے جہان میں نہیں محبت بھی ایک اور بکواس کہانی ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں مفت کی ٹینشن ۔ کوئی نہیں مرتا نا جیتا ۔ اس مین وعدے کیے ہی توڑنے کے لیے جاتے ہیں۔ اور یہ ان فضول لوگوں کا کام ہے جن کو کوئی اور کام نا ہو ۔

یہ لگتا ہے کہ عسکری نے فاتح کے منہ کی بات چھین کر لکھ دی ہے۔ :cool:
 
Top