بے بسی

با ادب

محفلین
یہ اسلام آباد کا پوش علاقہ ہے ۔ اور وہ اسکے مہنگے ترین کیفے میں بیٹھی ہزاروں کے مجمع میں لوگوں کے لیے اچنبھے کا باعث تھی ۔
نفیس طرح دار خوبصورت شخصیت کی مالک ۔
کیفےکا خوابناک ماحول جہاں موجود افراد اسکی آمد سے پہلے ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے ۔
دھیمے سروں میں بجتی موسیقی تھم سی گئی تھی جب وہ اسکا ہاتھ پکڑے ان سبھی لوگوں کے سامنے سے چلتی اپنی میز تک آئی ۔
اور اب وہ آمنے سامنے بیٹھے لوگوں کی طنزیہ مذاق اڑاتی نظروں کا سامنا کر رہے تھے ۔
وہ اسے غور سے دیکھتی اور وہ نظر چرا لیتا کہ کہیں اسکے جھوٹ کا پول نہ کھل جائے ۔
یاد ہے تم نے اپنا کیا نام بتایا تھا؟ ؟
باجی آپ مجھے یہاں کیوں لائی ہیں وہ ہڑبڑایا ۔
چائے پلانے ۔
چائے تو باجی وہاں بھی پی جا سکتی تھی
وہاں کہاں؟ ؟ راجہ بازار کے کسی ڈھابے میں؟ ؟
اور تمھیں لگتا ہے میں وہاں تمھارے ساتھ چائے پیتی ۔
میں چاہتی تھی جہاں ہم چائے پئیں وہاں صرف ہم دونوں ہوں ۔
لیکن یہاں تو اتنی خلقت ہے باجی.
دیکھو بوبی یہ خلقت خود میں گم ہے اسے تم پہ یا مجھ پہ توجہ دینےکی نہ تو ضرورت ہے نہ اہمیت ۔
یہ فقط وہ زبان سے کہہ رہی تھی ورنہ وہ وہاں کس قدر تماشا لگ رہی تھی یہ وہی جانتی تھی ۔
سامنے بیٹھا جسکی آنکھوں کا کاجل پھیلا ہوا تھا ۔ سرخی کا رنگ تیز اور چیختا چنگھاڑتا ..گال غازے سے لبا لب بھرے ..چہرے پہ شیو کے آثار
وہ ایک خواجہ سرا تھا جو اس نفیس عورت کے ساتھ اسلام آباد کے اس پوش علاقے میں بیٹھا چائے نوش کر رہا تھا ۔
بوبی میرے نام پوچھنے پہ تم نے کیا نام بتایا تھا
بے بسی باجی .... بے بسی ....فقط بے بسی ہی تو کہا تھا ...
آپ سزا دلوانے یہاں لے آئی ہیں ..وہ بھی انتہائی غیر آرام دہ محسوس کر رہا تھا
ہال میں اب چے میگوئیاں اور قہقہے سر اٹھا رہے تھے ۔
..................................................

اس نے اسے حیرت سے دیکھا اسے لگا شاید اسے سننے میں مغالطہ ہوا ہے ۔
کس سے ملنے گئی تھی؟ ؟

خواجہ سرا سے

انکے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹا ... ہنستے ہنستے آنکھیں پانیوں سے لبا لب بھر گئیں ... اوہ میرے خدا آپ خواجہ سرا سے ملنے گئی تھیں ۔
اسے اس بار بار کی تفتیش سے خاصی کوفت ہوئی ...کیوں خواجہ سرا سے ملنا جرم ہے کیا جج صاحب؟ ؟
نہیں بھائی ...لیکن یار کبھی دیکھا نہیں عورتوں کو خواجہ سراؤں سے ملاقات کرتے ....دوبارہ ہنسی کا لاوا پھوٹ پڑا تھا ۔
وہ اچھا خاصا تپ چکی تھی ۔
آپ اتنا ہنس کیوں رہے ہیں؟ ؟ کیا خواجہ سرا انسان نہیں ہوتے؟ ؟
ارے بھئی وہ انسان ہوتے ہیں لیکن اب آپ انسان نہیں لگ رہیں ...وہی تپا دینے والی مسکراہٹ
آپ جانتے ہیں میں اس سے ملنے کیوں گئی
وہ کہتا تھا میرا نام بے بسی ہے
ارے ڈرامے کر رہا تھا تم جیسیوں کو ہی تو بے وقوف بناتے ہیں
جج صاحب عمر گزری ہے ہماری بھی اس دشت کی سیاحی اور سیاہی میں ۔
میں نے اس کی آنکھیں پڑی تھیں وہاں کوئی تحریر رقم تھی ۔
معاف کر دو یار ... مجھ سے کہتی میں گھر بھیج دیتا کسی خواجہ سرا کو کہ جائیے محترمہ کو آپ سے ملنے کا شوق ہے
واقعی؟ ؟
آپ کسی خواجہ سرا کو گھر بھیج سکتے ہیں؟ ؟
ہاں بولو کتنے چاہیئیں ... صاف مذاق اڑایا جا رہاتھا
یار تم پاگل ہو .. تمھیں خواجہ سراؤں سے کیا کام ہے؟ ؟ دنیا میں اور لوگ مر گئے ہیں کیا؟ ؟
عام لوگ بے بسی کی اس حد پہ کیسے پہنچ سکتے ہیں جہاں وہ ہیں .. آدھے ادھورے معاشرے کے لیے ناقابل قبول ...
میں یہی تو دیکھنا چاہتی ہوں جب اپنا وجود بوجھ بن جائے خود سے گھن آتی ہو اپنا آپ چلتی پھرتی شرمندگی لگے تب زندگی کیا ہوتی ہے .. کیسی لگ سکتی ہے وہ زندگی؟ ؟
تم نا عنقریب کسی پاگل خانے میں داخل ہونے والی ہو ۔
یہ انتہائی بد ترین لوگ ہوتے ہیں .. غلیظ اور گندے
اتنی صاف گوئی پہ وہ تڑپ کے رہ گٰئی
آپ اتنے ظالم کیوں ہیں
چپ کر جاؤ تم ....بے بسی ... کوئی بھی کہے کہ وہ بے بس ہے تم ایسے ری ایکٹ کر و گی ...کتنے لوگوں سے ملو گی اس طرح؟ ؟
میں اس سے ملی تو مجھے کئی راتیں نیند نہیں آئی
آپ دنیا میں ہزار لوگوں سے ملتے ہیں لیکن سب سے ملنے نہیں چل پڑتے ..نہ ہی ان ہزار لوگوں سے آپکی دوستی ہوتی ہے ۔
وہ جن چند مخصوص لوگوں سے آپکی دوستی ہوتی ہے ان میں کوئی الگ بات ہوتی ہے نا؟ ؟
بالکل ویسی ہی کچھ الگ بات بوبی میں بھی تھی ۔
ویسے کیا سوچا ہوگا لوگوں نے تمھیں اسکے ساتھ دیکھ کے ۔
اسے وہ منظر یاد آیا جب سلیو لیس ٹاپ میں ملبوس آنٹی نے اس کے پاس سے گزر کر ناک سکوڑی اور استغفر اللہ پڑھا ۔
اب کیا لڑکیوں کو بھی خواجہ سراؤں کی ضرورت پڑ گئی ۔
اگر اس میں غیرت نام کی کوئی چیز ہوتی تو وہ تبھی زمین میں گڑ گئی ہوتی لیکن وہ اس قدر غیرت مند ہوتی تو اس سے ملنے جاتی ہی کیوں؟
...............................................................

بوبی تمھاری آنکھیں اتنی خالی کیوں ہیں؟ ؟
ان میں زندگی کیوں نہیں؟
کیا کرتی ہیں باجی میری آنکھوں کے تو دیوانے ہزاروں ہیں .. وہ لوچ دار آواز میں مٹک کے گویا ہوا ۔
ہونگے بوبی ضرور ہونگے ۔ انھیں تم نے اتنا سجا سنوار کے دیوانوں کے لیے ہی تو رکھا ہے پھر کیونکر وہ فدا نہ ہونگے لیکن میں نے پوچھا ہے کہ یہ ہنستی کیوں نہیں؟ ؟ اداس کیوں ہیں ۔
باجی آپ نا مجھ سے چاہتی کیا ہیں؟ ؟
دوستی کرو گے مجھ سے؟ ؟
کیسی دوستی باجی
نہیں بوبی وہ دوستی نہیں جو تم سب سے کرتے ہو .. روح کی دوستی ۔
مجھے تمھارے وجود میں بھلا کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ۔
میں تمھاری روح کو دیکھنا محسوس کرنا چاہتی ہوں
چھڈو باجی کیا باتیں کرتی ہیں مینوں تے کجھ سمجھ نئی آؤندا ...وہ بے کل ہوا ۔
داخلی دروازے سے کالے کپڑوں میں ملبوس تیز میک اپ کیئے اس نے اس خوبصورت بلا کو اندر داخل ہوتے دیکھا ۔
اسکی نظروں کی کاٹ دور سے بھی محسوس ہوتی تھی ۔ لمبی ہیل پہنے ٹک ٹک کرتی وہ بالکل اسکے مخالف سمت میں آکے بیٹھ گئی ...ساتھ دو مرد کسی باڈی گارڈ کی شکل میں موجود تھے ۔
اسکے بیٹھتے ہی انھوں نے سگار جلا کے اسے پیش کیا ۔
بوبی کے چہرے کی رنگت واضح طور پہ اڑتی ہوئی دکھائی دی ۔
باجی مینوں اجازت دیو
کہاں جانا ہے بوبی تمھیں؟ ؟
مجھے بھی اپنے گھر لے جاؤ ۔
باجی خدا کا واسطہ کیوں میرے پیچھے پے گئے ہو ...وہ روہانسا ہوا ۔
سامنے سگار کے کش لیتی وہ حسین ترین عورت گاہے بگاہے ان پہ نظر دوڑاتی ۔ اسکی ہر نگاہ بوبی کی بے قراری میں اضافے کا سبب بن رہی تھی ۔
...............................................................

کھانا کب سے سامنے پڑے پڑے ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔ وہ اسکے پھولتے پچکتے نتھنوں کودیکھ کر دل میں آئی بات کو زبان کی نوک تک لانے سے قاصر تھی ۔
شکیل نے تمھیں وہاں دیکھا اس کھسرے کے ساتھ ۔
کھسرے کے لفظ پہ وہ تڑپ اٹھی تھی ۔
اور مجھے آ کےبتایا کہ تمھاری بیوی آج کل کسی کھسرے کے ساتھ گھومتی پھرتی ہے کچھ تو سمجھایا کرو ...
ٹھیک ہے اگر اسے ان لوگوں میں دلچسپی ہے تو ایسی باتوں کا اظہار سرے عام کون کرتا ہے ۔
دلچسپی ہے سے کیا مراد ہے آپکی؟
مجھے ایک خواجہ سرا سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ؟

میری تو کسی بھی بات سے کوئی مراد نہیں ہے ۔ اور آپ سے مطلب و مراد ملنے کی مجھے کوئی امید بھی نہیں ہے ۔
کس قسم کی باتیں کر رہے ہیں آپ ؟؟ میری سمجھ سے بالاتر ہے
بیگم صاحبہ جو لوگ معاشرے کے بد ترین لوگوں سے تعلقات استوار کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں انھیں پھر پر قسم کی باتیں سننے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔
شکیل خود وہاں کس کے ساتھ خوار ہو رہا تھا یہ وہ فقط اس وقت سوچ ہی سکتی تھی کہہ نہیں سکتی تھی کہ اگر ایک دفعہ میاں محترم چڑ جاتے تو وہ بوبی کے حوالے سے خاصی مشکل میں پڑ سکتی تھی ۔
............................................................
شدید برفباری نے وادی کو گھیر رکھا تھا ۔ زمین پہ ننگے پاؤں کھڑی وہ اس وادی کی یخ بستہ ٹھنڈک کو محسوس کر رہی تھی ....
آنکھیں موندے اس نے ایک قدم آگے بڑھایا مزید قدم لینے پہ وہ اس تازہ کھدی ہوئی قبر میں گر سکتی تھی ۔ اس نے آنکھیں کھولیں قبر میں جھانک کے دیکھا ۔ بغیر مردے کے قبر کی وحشت کا عالم ہی کچھ اور تھا ۔ گاؤں میں کسی کی فوتگی ہوئی تھی ۔ جسے دفنانا تو صبح تھا لیکن اسکی قبر سر شام کھود دی گئی تھی ۔ قبر کھودنے والے اسکے اوپر جھاڑیاں اور کانٹے رکھ کر چلے گئے تھے کہ کوئی جنگلی جانور قبر میں کھود نہ جائے ۔ اب وہ اسی قبر کے اوپر سے جھاڑیاں ہٹائے اسکے سامنے کھڑی تھی ۔
اس نے قبر میں جھانک کے دیکھا ۔
کیسا محسوس ہوتا ہے جب آپ کو یہ پتہ چلے کہ اب بس سب معاملات ختم ہو چکے ہیں اور اب آپ نے اپنے ہر عمل کے لیے جواب دہ ہونا ہے ۔
کیا ہے یہ زندگی اور اسکی حقیقتیں ۔
وہ قبر میں قدم اتار چکی تھی ۔
باہر برستی برفباری اور منجمد کر دینے والی ٹھنڈ ... اسے لگتا وہ اس گہری قبر میں صبح تک ٹھنڈ سے مر جائے گی ۔
لیکن زمین کے اندر حدت تھی ... وہ قبر میں پاؤں پسار کے لیٹ گئی ۔ شدید وحشت اور تکلیف سے اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔
خوف سے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے ۔ وہ وہاں سے اٹھ کے بھاگ جانا چاہتی تھی لیکن زمین نے اسے خود سے باندھ لیا تھا ۔
وہ اٹھنا چاہتی تھی وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی لیکن اسکی آنکھیں اسقدر بھاری ہو چکی تھیں کہ اب کھولنا ممکن نہیں تھا ۔
وہ بے بسی کے عالم میں پسینے سے شرابور درد میں ڈوبی کسی مسیحا کے انتظار میں سن ہو چکی تھی ۔
اسے لگتا اس کے جسم پہ کیڑے رینگ رہے ہیں ۔ زندہ وجود کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن رہا تھا ۔
............................................................
موبائل کی وائبریشن سے وہ نیند سے ہڑبڑا کے اٹھی ۔ نمبر دیکھ کے ہاتھ پاؤں سے جان نکل گئی ۔
بوبی .........
رات کے اس پہر ... اس نے گھڑی میں وقت دیکھا رات کے دو بج رہے تھے
پاس ہی لیٹے مراد کے ڈر سے وہ آہستہ سے اٹھ کر باہر آئی ۔
کال اٹینڈ کرنے پہ دوسری جانب سسکیوں کی آواز نے اسکے خوابیدہ ذہن کو مکمل طور پہ بیدار کر دیا ۔
ہیلو بوبی کیا ہوا
رونے میں شدت آ گئی
بوبی کچھ تو بولو ...ہوا کیا ہے
باجی ......
ہاں بوبی بولو کیوں رو رہے ہو
باجی آپ کہتی تھیں نا میری آنکھوں میں بے بسی دکھائی دیتی ہے ۔
ہاں بوبی بات تو بتاؤ
باجی میری روح تھک چکی ہے ۔
مجھ میں اب اور سکت نہیں ہر روزیہ تماشا سہنے کی
باجی ہم اتنے مجبور کیوں ہیں؟ ؟
کیوں ہمیں اپنی روح سے خود ملنے کی بھی اجازت نہیں باجی؟ ؟
کیوں لوگ ہمیں فقط جسم سمجھتے ہیں؟ ؟
بتائیں نا باجی ....
کیا ہم انسان نہیں؟ ؟
کیا ہم فقط استعمال ہونے کے لیے ہیں؟ ؟
مجھ گھن آتی ہے خود سے باجی
میں یہ سب کام نہیں کرنا چاہتا لیکن میں جانتا ہوں میں ہمیشہ یہی سب کرتا رہونگا ۔
آپ مکمل انسان بہت ادھورے ہوتے ہیں باجی بہت ادھورے ۔
دیکھو بوبی تم پلیز آنسو بند کرو ۔ اور میری بات سنو
کوئی بھی انسان آپکو آپ کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ۔
نہیں باجی خدارا نہیں ..... یہ گیان مت دیجیے وہ تڑپ ہی تو اٹھا تھا
دیکھو بوبی ............
لفظ کہیں گم ہو چکے تھے وہ نہیں جانتی تھی وہ اسے کیسے تسلی دے ۔
اسکے آنسوؤں کی شدت اسکے دل کے بوجھ کو بڑھائے جارہی تھی ۔
کس سے بات کر رہی ہو؟ ؟
اچانک آنے والی آواز سن کے وہ اچھل پڑی موبائل ہاتھ سے گر کر دور جا لگا ..
جہاں سے اب بھی بوبی کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں ۔
....................................
جاری ہے
سمیرا امام
 
Top