بے انت (افسانہ) خاورچودھری

خاورچودھری

محفلین
خاورچودھری

توت کی مخروطی اُنگلیوں پرجگہ جگہ ااُبھارظاہرہورہے تھے…کہیں کہیں یہ انگلیاں زمرد سار ہونے لگی تھیں…بارش کے ننھے منھے قطرے ان اُبھرتے اورظاہرہوجانے والے حصوں پرسے یوں پھسل رہے تھے جیسے توت کوبارکے لطف سے آشناکرکے رُخصت ہورہے ہوں…ہمیشہ کے لیے، کبھی نہ پلٹنے کے لیے۔صحن کی کچی مٹی بارش کے پانی سے گارے میں بدل چکی تھی…تب اچانک اس کے دھیان میں چاک آگیااورایک کمہارکمال ہنرمندی سے اپنے سامنے پھیلے ہوئے چاک کے اُوپر اس گارے کوچڑھانے لگاجواس کے صحن کی مٹی سے بارش نے خودبہ خودبنادیاتھا۔ہنرمندہاتھ اپنی فنکارانہ اداوٴں اورسبک مزاجی سے چاک پرچڑھی مٹی کے گردطواف کررہے تھے…اوریہ مٹی بہ یک وقت کئی صورتوں میں ڈھل گئی،کئی شکلیں تخلیق ہوئیں۔پھران ہاتھوں نے ایک انسانی چہرہ تخلیق کیا… وہ چہرہ جوایک زمانے سے اس کے دل ودماغ میں اپنی جگہ بناچکاتھا۔خوب صورت،معصوم اور کھلکھلاتا چہرہ…دفعتاًاُسے اپنی گودمیں گرمی محسوس ہوئی۔اس کے پہلوگرمی کی شدت ،نٹ کھٹ اورشریربچے کے لمس سے چٹخنے لگے…یوں جیسے اس کی جھولی میں کسی نے سُرخ انگارے انڈیل دیے ہوں۔وہ بے تابی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اوراپنادامن جھاڑکرکچی مٹی سے بنے ہوئے باورچی خانے میں جا بیٹھی ۔ مٹی کی ہانڈی ٹھنڈی ہوگئی تھی۔اس نے جلدی سے خاشاک کے تنکے بجھے ہوئے چولھے میں رکھے اور پھر دائیں گھٹنے پرہاتھ رکھ کرقدرے جھکی اورپھربجھتی ہوئی راکھ میں چنگاریاں تلاش کرنے لگی…ابھی چند لمحے پہلے جس قدر اُس کی جھولی سلگ رہی تھی اس سے کہیں زیادہ یہ چولھاسردہوچکا تھا۔ پھونکیں مارمارکراُس نے خودکونڈھال کرلیامگرکوئی چنگاری سُلگ کرہی نہ دی…اپنے پھیلے ہوئے پینڈے کواُس نے سمیٹااور دونوں ہاتھ گھٹنوں پررکھ کراپنی کمرسیدھی کی۔باورچی خانے کی پست چھت کے ٹیڑھے شہتیرمیں ٹکی ہوئی دیاسلائی کی ڈبیااس نے کھینچی اورکچے فرش پر گرا دی… اورپھرسے اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پررکھ کرزمین پرڈھیرہوگئی۔اُس کے سسرکامعمول ہے کہ وہ ظہرکی نمازپڑھنے سے دوگھنٹے پہلے دوپہرکاکھاناکھاچکتاہے اوراگرذراسی بھی دیرہوجائے تووہ ساری متانت، پرہیز گاری اور اخلاص ایک طرف رکھ کراس کے خاندان کے بخیے اُدھیڑدیتاہے۔اپنے پرکھوں کی قبریں کُھدنے کے خوف سے وہ اپنی ساری قوتیں جمع کرکے چولھے میںآ گ سلگانے کی کوشش کرتی ہے…دھریک کی خشک ٹہنی سے اُپلوں کے ڈھیرمیں سے کچھ اُپلے اپنی طرف لڑھکاتی ہے اورپھراپنے کھردرے ہاتھوں میں ایک اُپلاپکڑکراسے دوٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے۔ چولھے میں ایک ٹکڑادائیں اورایک بائیں رکھ کرخاشاک کے تنکوں کوان سے اُوپراٹھاتی اورپھراپنی قمیص کے پلوسے ہوادینے لگتی ہے۔ آگ سے پہلے دھواں اٹھتاہے اورکچھ ہیولے سے بن جاتے ہیں…اُس کے تصورمیں وہی موہنی صورت پھرجاگ اٹھتی ہے۔وہ دیکھتی ہے کہ من موہ لینے والایہ خوش شکل چہرہ اس کی چھاتیوں سے ٹکراتا ہے اوروہ اُس کا مانوس لمس جب اپنے سینے پرمحسوس کرتی ہے توایک دم سے پھربدک کرچولھے میں آگ ٹھیک کرنے لگتی ہے…یہ اس کامعمول ہے جب بھی کبھی وہ کام سے فارغ ہوتی ہے یاپھرزیادہ اُلجھ جاتی ہے تویہ چہرہ اوراس کالمس اسے ستانے لگتے ہیں۔
بارش تھم چکی ہے مگرتوت کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی اُنگلیاں ابھی تک اس کے اثر میں ہیں… ان انگلیوں سے قطرہ قطرہ پانی صحن میں ٹپکتاہے۔بیٹھک سے اس کے سسرکے کھانسنے کی آوازآتی ہے تو یہ سلورکی تھالی میں سالن ڈال کرچنگیرمیں روٹیاں رکھتی ہے اورپھراس کے منوں بھاری قدم بیٹھک کی طرف اُٹھنے لگتے ہیں۔چارپائی پربیٹھے بوڑھے سسر کے سامنے کھانارکھ کرپانی لینے کے لیے واپس پلٹنے لگتی ہے توگرج دارآوازتحکمانہ اندازمیں گونجتی ہے:
”کبھی سلیقے سے بھی پکالیاکرو،غلہ ضائع کرتی رہتی ہو۔“
وہ خاموشی سے نکل کرٹپائی پرپڑے ہوئے کائی زدہ گھڑے سے مٹی کے بٹھل میں پانی ڈالتی ہے اور اسی خاموشی کے ساتھ جاکرسسرکے سامنے رکھ دیتی ہے۔بیٹھک کے کچے فرش پراپنے ٹوٹتے وجود کو احتیاط کے ساتھ رکھتی ہے…مباداکہیں کوئی جوڑالگ ہوکرزمین پرآن ہی پڑے!
”طفیل کافون آیاتھا؟“وہی گرج دارآوازدوبارہ گونجتی ہے۔
”نہیں بابا…“
”یہ موبیل بھی شیطانی کاآلہ ہے…ہروقت عزت لٹنے کادھڑکالگارہتاہے۔طفیل کاخیال نہ ہوتواسے پتھر کے اُوپررکھ کرپیس دوں۔“بوڑھایہ کہہ کرہاتھوں کے اشارے سے کھانے کے برتن اُٹھانے کاحکم دیتا ہے۔
ایک گرم انگارہ اس کے کانوں کوچیرتاہوادماغ تک پہنچ جاتاہے مگروہ اپنے چہرے سے کوئی تاثر ظاہر نہیں کرتی…جس احتیاط سے بیٹھی تھی اسی احتیاط سے اُٹھ کربرتن سمیٹتی اورباورچی خانہ میں گھس جاتی ہے۔اسی تھالی میں اپنے لیے سالن ڈالتی ہے اوروہیں ننگی زمین پرکھانے کے لیے بیٹھ جاتی ہے… جوں ہی پہلالقمہ اس کے حلق سے اُترتااورہاتھ دوسرے نوالے کی طرف بڑھتاہے ،وہی خوش شکل اور معصوم چہرہ اس کی آنکھوں میں اُترآتاہے…وہ بے دھیانی میں گم ہوجاتی ہے اورنوالہ اپنے منہ میں ڈالنے کی بجائے ہاتھ سامنے کی طرف بڑھادیتی ہے۔پھرکتنے ہی نوالے اُس نے من موہنی صورت والے معصوم کے منہ میں ڈالے اوراپنی بھوک بھول گئی…
”چاچی!مرغیوں کوسالن کے ساتھ کھاناکھلاناکب سے شروع کیاہے؟“اس کے دیورکے منجھلے بیٹے نے چہکتے ہوئے پوچھا
”ہوں…نہیں تو“وہ کچھ سٹپٹاسی گئی۔جب اپنے سامنے بکھرے ہوئے نوالوں پرمرغیوں کوٹوٹ پڑتے دیکھاتوحیرت سے اس کامنہ کھلے کاکھلارہ گیا۔اُس کے میل چڑھتے رُخساروں پردوگرم آنسوبہہ نکلے تھے۔اپنی قمیص کی میلی اوردھوئیں میں رچی ہوئی آستین سے اپنے چہرے اورآنکھوں کوصاف کرتی ہے اورپھرسے لقمے اپنے منہ میں ڈالنے لگتی ہے۔
###
صحن کے کچے فرش پرآٹے اورچوکھرکی خالی بوریاں بچھی ہوئی ہیں اوران پرمحلے کے بچے قبلہ رُخ بیٹھے قرآن شریف پڑھناسیکھ رہے ہیں…وہ جب سے یہاں بیاہ کر آئی ہے،اسی معمول سے بچے آرہے ہیں۔بارہ سال…!بارہ سال بہت ہوتے ہیں۔کئی بچوں نے قرآن پاک ختم کرلیاہے اور کئی لڑکیاں توشادی کرکے اپنے گھروں کی بھی ہوگئی ہیں، بل کہ ان میں سے اکثرکے ہاں دودوایک ایک بچہ بھی پیداہوچکاہے…اوراب اس کے سامنے بیٹھی عاصمہ بھی قرآن مجیدختم کرنے والی ہے ، ٹھیک دوماہ بعداس کی بھی شادی ہوجانی ہے اور پھراس کے ہاں بھی خوب صورت چہرے اُتریں گے… احسن التقویم کہے گئے ننھے منھے انسان…وہ بھی انھی بوریوں پربیٹھ کراس سے اپناپہلاسبق لیں گے۔
محلے کی بوڑھی پھپھاکٹنی زہرہ ماسی کوآتے دیکھ کروہ اورزیادہ محویت سے بچوں کوپڑھانے لگتی ہے تاکہ زہرہ ماسی اسے مصروف جان کراُس کی دیورانی کے کمرے میں چلی جائے۔ وہ محلے کی ایسی بوڑھیوں سے ہمیشہ چڑکھاتی ہے…یہ بوڑھیاں جب بھی آتی ہیں اس کے غم میں اضافہ کرجاتی ہیں اور پھرخوش شکل چہرہ اوراس کالمس اسے ستانے لگتے ہیں۔ زہرہ ماسی اپنے چہرے پرمصنوعی مسکراہٹ پھیلائے اسی کے پاس آبیٹھتی ہے اورآتے ہی پہلاتیراس کے سینے میں پیوست کردیتی ہے۔
”اری…کیوں ان پرجان گالتی ہے؟یہ کم بخت مارے کون ساتیرے بطن جنے ہیں…کچھ اپنی فکر کر ۔ کب تک دوسروں کے بچوں کے لیے مشقت اٹھائے گی۔میں توکہتی ہوں اس بار طفیل چھٹی آئے تو اس کے ساتھ کسی سیانے ڈاکٹرکے پاس چلی جا…بھرلے جھولی اپنی۔“
زہرہ ماسی کاسبق طول پکڑنے لگاتواس نے بات کاٹتے ہوئے کہا
”ماسی یہ سب بچے میرے ہی توہیں…میں بھی جَن لوں گی ،کون سابوڑھی ہوگئی ہوں۔توجااند ر شیداں بیٹھی ہے،اس سے گل کتھ کرمیں ذراسبق پڑھالوں۔“
ماسی توتیرپھینک کرچلی گئی مگرآنے والی ساری گھڑیاں اسے بے تاب کررہی تھیں…آنکھوں کابندنہ توڑ سکنے والے خون کے قطرے اس کے حلق کے راستے سے دل میں اُترگئے۔
”لوگوں کودوسروں کی فکرکیوں ہوتی ہے؟کیوں یہ لوگ مجھے آرام سے جینے نہیں دیتے… کیوں یہ مجھے بانجھ ہونے کااحساس دلاتے رہتے ہیں؟“وہ سوچتی ہے اورپھر مسلسل کرب کی آندھیوں کی لپیٹ میںآ جاتی ہے… تب اچانک اس کی دیورانی شیداں اس کے سامنے آلتی پالتی مارکربیٹھ جاتی ہے۔شیداں پھرامیدسے ہے اوراس کے ہاں یہ ساتواں بچہ ہوگا۔نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی نظریں شیداں کی چھاتیوں اورپیٹ کاطواف کرنے لگتی ہیں…سینے کے اُبھاربھرے ہوئے ہیں اورا ن کے سرے بھیگ چکے ہیں۔دوایک روز میں شیداں پھرماں بن جائے گی…وہ سوچتی ہے وہ کیوں نہیں بن سکتی ماں؟اس کی چھاتیاں کیوں دودھ سے نہیں بھرتیں،اس کی چوٹی کوئی بچہ کیوں نہیں کھینچتا؟ … وہ یوں محسوس کرتی ہے جیسے غم سے اس کاسینہ پھٹ جائے گااوروہ وجودجوایک عرصہ سے اس نے سنبھال کررکھاہے لیرلیرہوجائے گا۔اس کا جسم چھیتڑوں میں بدل جائے گا…شیداں کی آوازکسی اندھے کنویں سے آرہی تھی:
”ماسی ٹھیک کہتی ہے؛طفیل آجائے تواپناچیک اَپ کراہی لے…صادق بھائی کے ہاں بھی تو اولاد نہیں ہو رہی تھی،انھوں نے علاج کرایاتواب ماشاء اللہ ان کی پیاری سی بیٹی ہے“
”شیداں!بس کر…“
یہ کہہ کروہ اپنی جگہ سے اُٹھتی ہے اوراپنے خستہ اورکچے کمرے میں پڑی بان کی چارپائی پرآکرڈھیرہوجاتی ہے۔اس کے دماغ پرمختلف تصویریں رقص کررہی ہیں…اپنے سسرکی کڑوی کسیلی تو وہ برداشت کرہی رہی تھی اب پورے گاوٴں کے منہ پرہاتھ کون رکھے…ہرکوئی اس کے خالی آنگن میں جھانکتااوراسے مشورے دیتاہے۔اب توطفیل کے لیے دوسری لڑکی تلاش کی جا رہی ہے تاکہ اس کے لوٹتے ہی دوبول پڑھالیے جائیں…باباکہتاہے :
”بانجھ شجرسے امیدلگاناکم عقلی اورنادانی ہے…طفیل ماشاء اللہ وجیہ ہے،گبرواورجوان ہے۔کب تک اس شنڈعورت کاانتظارکرے گا…پانی سرسے گزرجائے گاتوہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔“
اسے یوں محسوس ہورہاہے جیسے اس کے دماغ کی رگیں چٹخ رہی ہوں،آنکھوں سے آنسووٴں کی جگہ خون جاری ہواوردل کی جگہ پارہ پڑاہو…اچانک سیلولرفون کی گھنٹی بجتی ہے اور وہ اپنے اوسان بہ حال کر کے کارنس سے فون اٹھاکررندھی ہوئی آوازمیں”ہیلو“کہتی ہے۔دوسری طرف طفیل ہے…اس کا مجازی خدا؛جولوگوں کی نظرمیں روزی کمانے کے لیے عرب ممالک کی خاک چھان رہا ہے۔وہ اپنی بیوی کو تنہا چھوڑکرنہیں جاناچاہتاتھا…مگر…اس کے گاوٴں کے لڑکوں اوربوڑھیوں نے اس کاجینادوبھر کر رکھا تھا۔ ہرکوئی اس کی مردانگی پرشک کرتا تھا یا پھراسے دوسری شادی کے لیے اُکساتاتھا۔وہ لفظوں کی تلواروں سے بچنے کے لیے اپنی پیاری محبوبہ بیوی کے ہجرکی سزاکاٹ رہاتھا…دس دن بعدوہ اپنے گھرلوٹ آئے گا۔
وہ اپنے سن ہوتے وجودمیں زندگی کی حرارت محسوس کرتی ہے…غم اورخوشی نے مل کرایک ایسی گھڑی تشکیل دی ہے جواس سے پہلے اس پرنہیں اُتری تھی۔طفیل کے آنے کی خوشی ہے تو اس کے چھن جانے کاخوف بھی موجودہے۔اگرطفیل نے دوسری شادی کرلی تواس کی زندگی بالکل ہی بے رنگ ہو جائے گی،بے لطف وغارت…
اس نے اپنے منہ پرہاتھ پھیراتویوں محسوس ہواجیسے کسی کھردری اورسخت لکڑی سے ہاتھ چھواہو…یہ احساس اسے پہلے توکبھی نہیں ہواتھایاپھرشایداُس نے کبھی اپنے رخسارچھوئے ہی نہیں تھے اورچھوتی بھی کس لیے …جب سراہنے والاہی موجودنہیں تھا۔اب جووہ آرہاہے تواسے اپنے سراپے کی فکر ہوئی۔
اُسے اپنے کالج کے دن یادآنے لگے جب وہ بن سنورکراپنی سکھیوں کے ہم راہ اپنے قصبے کے کالج جایاکرتی…کالج کے راستوں پرلڑکے تاکنے کے لیے بیٹھے ہوتے اور یہ اپنی ہمجولیوں کی بھیڑمیں سب سے نمایاں ہوتی۔طفیل سے اس کی مڈبھیڑاسی زمانہ میں ہوئی تھی۔مارچ کااخیرتھااوریہ کسی عزیزکے ہاں شادی پرموجودتھی… تب طفیل سے اس کی آنکھیں چارہوئیں اوردونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔بہت منت سماجت کے بعداس کے گھروالوں نے رشتہ دینے پررضامندی ظاہرکی تھی۔اگرچہ دونوں خان دانوں میں پہلے سے رشتہ داریاں موجودتھیں لیکن اُس کاخان دان طفیل کے خان دان کی نسبت نہ صرف خوش حال تھابل کہ زیادہ ترلوگ پڑھے لکھے تھے۔شادی کادن مقرر ہوا اور یہ طفیل کے خستہ اورکچے مکان میں اُترآئی جواس کے لیے جنت سے کم نہیں تھا…جب ہم سفرچاہنے والا اور جان چھڑکنے والاہوتوپھرسفرکی صعوبتیں کہاں نظرآتی ہیں؟وہ ایک دوسرے کی رفاقت میں چلتے رہے چلتے رہے ،چلتے رہے…ایک سال،دوسال،تین ،چار…چھ اورپھرآٹھ سال گزرگئے۔بہ ظاہر دونوں میں کوئی نقص نہیں تھامگرپھربھی اس کی گودخالی تھی۔پہلے توطفیل اسے تسلیاں دیتا ، اس کا دل بہلاتا پھروہ خودبھی مایوس ہوگیا…اگرکبھی وہ کسی ڈاکٹرکے پاس جانے کی بات کرتی تووہ ٹال جاتا۔ یوں اس کی خواہش اس کے اندرہی ٹوٹتی بنتی رہتی۔اب توطفیل بھی چار سال ہوئے اُس سے دُوررہنے لگا تھا…سارے غم،طعنے اورجھڑکیں اس اکیلی جان کے لیے رہ گئے تھے مگروہ ثابت قدم رہی ۔اس لیے کہ اس کاخاوندآج بھی اس سے بے پناہ محبت کرتاہے…لا محدوداورناقابل یقین حدتک۔یادوں کے جھروکوں میں جھانکنے سے اسے نظرآیاکہ طفیل جب پچھلی بارچھٹی آیاتھاتواس نے اپنے باباکے سامنے دوسری شادی سے صاف انکارکرتے ہوئے کہاتھا:
”لائبہ سے شادی میں نے اولادکی خاطرنہیں کی…کیاہوااگراولادنہیں ہوئی تو،میں دوسری شادی نہیں کروں گا۔“
طفیل کے اس کورے جواب سے وہ کس قدرسرشارونہال ہوئی تھی…اس کے دل کی دھڑکن سانس کی لے پرمسلسل رقص کرتی رہی اوروہ اپنے آپ میں سمٹتی اورپھیلتی رہی۔اسے یقین تھا کہ اس کے گھرمیں نقب کوئی نہیں لگاسکتا…لیکن اب ایک بارپھرگھرمیں طفیل کی دوسری شادی کی باتیں پھیلی ہوئی ہیں۔
###
بہت خوشامدکرکے وہ طفیل کوڈاکٹرکے پاس جانے کے لیے رضامندکرچکی ہے…دونوں ڈاکٹر کے پاس جائیں گے اوراپناعلاج شروع کروائیں گے۔ان کے ہاں بھی بچہ پیداہوگا…مٹی کے کچے صحن میں جب وہ چوکڑیاں بھرے گاتویہ خوشی سے نہال ہوجائیں گے…اماں باواکی صدائیں جب باباسنیں گے تووہ بھی لائبہ کوجھڑکناچھوڑدیں گے اوریہ کچاا ور خستہ مکان ایک بارپھرگھربن جائے گا … ڈاکٹرنے دوائیں لکھ دی ہیں اورطفیل رپورٹس بھی لے آیاہے۔خوشی خوشی دوائیں کھائی جارہی ہیں اور دونوں ایک دوسرے پرجان چھڑک رہے ہیں…لیکن طفیل نے توواپس جاناہے۔
لائبہ ایک بارپھرتنہاہے اورکمرے کاسناٹااسے کاٹ کھانے کودوڑتاہے،طبیعت میں اضطراب اوربے کلی بھی سواہوگئی ہے۔جوخوشی اورراحت تھی وہ توجانے والے کے ساتھ چلی گئی…اب وہی دن رات ہیں کہ جوتھے ۔گھرمیں بھی چہ میگوئیاں جاری ہیں…آنے والے مہمان کی باتیں ہورہی ہیں۔باباکارویہ پہلے سے بہترہے…دیورانی کے لہجے میں بھی تلخی نہیں ہے اورزہرہ ماسی اپنے مشورے کے بارآورہونے پرچھاتی پھیلائے پھرتی اورکہتی ہے:
”میں نہ کہتی تھی،علاج کراوٴعلاج!جھولی بھرجائے گی…دیکھناکہیں اس خوشی کے موقع پرمجھے بھول نہ جانا۔“
دن گزرتے جاتے ہیں اورگھروالوں میں انتظارکی طاقت بھی کم پڑتی جارہی ہے…باباچاہتاہے طفیل کو جلدخوش خبری سنائی جائے …مگروقت ہے کہ بھاری سل تلے آیاہواہے۔
###
لائبہ اپنے میکے میں موجودہے…اس کی بہن عارفہ جوپہلے ہی دوبچوں کی ماں ہے ایک اور بچے کوجنم دینے جارہی ہے۔اتفاق ہی نہیں بہت بڑااتفاق ہے کہ ایک ہی شب کو دونوں بہنوں کے ہاں بچے پیداہوئے اوردونوں مرد۔بابایہ خبرسن کربہت خوش ہوئے ہیں…اب لائبہ اپنے طفیل کے سامنے سرخ روہوجائے گی۔اب مکان گھرمیں بدل جائے گا، خوشیاں لوٹ آئیں گی۔نیامہمان صحن میں دوڑتاپھرے گاتوکچی مٹی کی سوندھی خوش بوسانسوں کومعطرکرجایاکرے گی…شادی کا تیرہواں سال گزرگیاتواس کی گودگرم ہوئی ۔ گاوٴں بھر میں قدرت کی اس مہربانی کاتذکرہ جاری ہے… مٹھائیاں بٹ رہی ہیں،مبارک باددیں جاری ہیں…لائبہ کے لیے پریشانی یہ ہے کہ ننھامہمان اس کا دودھ نہیں پیتااس لیے مجبوراً اسے کچا دودھ پلاناپڑرہاہے…خیرکیاہوا؟بہت سی مائیں اپنے شیرخوار بچوں کوگایوں اوربھینسوں کادودھ پلاتی ہیں۔یہ کوئی اَن ہونی نہیں۔
اب وہ خستہ اورکچے گھرمیں اپنے بیٹے سہیل کوگودمیں لیے ہوئے ہے۔بابانے اپنے پوتے کا نام سہیل رکھتے ہوئے فخرسے کہاتھا:
”اب میں دوبارہ جوان ہواہوں…سہیل ہوبہ ہوطفیل کی مانندہے۔“
سیلولر فون کی گھنٹی بجتی ہے…لائبہ خوش ہے کہ وہ طفیل کو مردثابت کرچکی ہے۔اب کوئی اسے شنڈاوراس کے خاوندکوبانجھ نہیں کہہ سکتااورنہ ہی کوئی طفیل کودوسری شادی کامشورہ دے سکتا ہے۔سہیل جب دنیا میں آیااُسی وقت طفیل کوبتادیاگیاتھا…مگرلائبہ کے ماں بننے کے بعداس کی پہلی گفتگوہونے والی تھی۔ مٹی کی کارنس سے فون اُٹھاکرلائبہ نے اپنے کان سے لگایا۔ آج اس کے لہجے میں سارے جہان کی شیرنیاں اُترآئی تھیں…وہ چاہتی تھی کہ ساری مٹھاس طفیل کے کانوں میں گھول دے۔اُس نے ایسا ہی کیا،بہت اہتمام سے نپے تلے انداز میں جملے اداکیے مگرطفیل کالہجہ آگ برسارہاتھا۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی گرم سیسہ لائبہ کے کانوں میں انڈیل رہاہے اوروہ گرم سیسہ اس کے دماغ کوبے کارکرکے چھوڑے گا:
”میں نے کہاتھانالائبہ!تمھیں اولادجننے کی مشین سمجھ کرمیں نہیں لایاتھا…میں نے تم سے محبت کی تھی ، تمھیں پوجاتھا۔کیاہوتااگرتمھارے ہاں اولادنہ ہوتی۔میں سہیل کواپنابیٹاکیسے مان لوں جب کہ ڈاکٹرز نے مجھے بتایاتھاکہ میں ساری عمرباپ نہیں بن سکتا…پھرتم مجھے کیوں کردھوکادے سکتی ہو؟اپنی حرام اولاد میرے سرمت تھوپو…اورمیری زندگی سے نکل جاوٴ۔ میں تمھیں طلاق دیتاہوں… طلاق… طلاق …“
”طفیل…طفیل…یہ کیاکیاتم نے،مجھے جیتے جی ماردیا…میری بات توسنتے۔“
بندسیلولرپروہ چیخی اورپھراُسے زمین پرپٹخ دیا۔
”طفیل…تم نے مجھ سے چھپایاکہ تم باپ نہیں بن سکتے لیکن میں نے رپورٹ پڑھ لی تھی…میں نے گلہ کیانہ ہی رنجیدہ ہوئی کیوں کہ میں نے بھی تمھاری پوجاکی ہے،تمھیں اپنی ذات سے زیادہ چاہا ہے…میں جانتی تھی کہ تم کبھی باپ نہیں بن سکوگے لیکن میں تمھارے ہجرکی سولی پرچڑھی رہی، تمھیں سوچتی اوریادکرتی رہی۔لیکن تم نے مجھے حرام کارکہہ کرمیری توہین کی ہے،مجھے زمانے میں رسوا کر دیاہے۔تم کیاجانومحبت کیاشے ہے…اورپوجاکسے کہتے ہیں۔“
توت کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی مخروطی انگلیاں بانجھ ہوچکی ہیں اوراُن پراٹھنے والے ابھار ظاہر ہونابھول گئے ہیں۔دھوئیں میں سے خوش شکل معصوم کاچہرہ معدوم ہو گیا ہے۔ سہیل کی موجودگی میں بھی لائبہ کی گودبرف سے ٹھنڈی ہے اوراس کالمس ہراحساس سے عاری ۔جس کے لیے اس نے یہ سب کچھ کیاوہ اسے طلاق دے چکاہے…اب وہ میکے میں ہے اور بان کی کھری چارپائی پرسرکھولے رو رہی ہے۔اس کی بہن عارفہ چارپائی کی پائنتی پر بیٹھی اُسے دلاسے دے رہی ہے اورعارفہ کی جھولی میں سہیل مضطرب پڑاہے۔اُس کااپناسہیل جو اس نے لائبہ کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے اُس کی گودمیں ڈالاتھا۔
###
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ خاور چوہدری اور محفل فورم پر خوش آمدید۔
میں معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کو یہاں اپنا افسانہ پوسٹ کرنے میں دقت پیش آئی۔ میں نے اس کی سیٹنگ میں کچھ تبدیلی کی ہے۔ اگر اب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے تو مجھے اطلاع کریں۔
 

خاورچودھری

محفلین
محترم آپ کا بھی شکریہ جلدرابطہ کرنے پر
اگرچہ میرا افسانہ شائع تو ہوا ہے لیکن مکمل نہیں‌ہے۔۔۔۔کچھ حصہ چھپنے سے رہ گیا ہے
 
بہت عمدہ اور افسانہ ہے خاور چودھری صاحب۔ کچھ افسانوں میں جادوگری ہوتی ہے جو قاری کو غیر محسوس طریقے سے کچھ ہی پلوں میں چند آشنا اور نا آشنا جہانوں کی سیر کرا دیتی ہے۔ کچھ ایسا ہی سحر اس میں ملا۔

بہت خوب۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
 

خاورچودھری

محفلین
بقیہ حصہ افسانہ بے انت

بہت سی مائیں اپنے شیرخوار بچوں کوگایوں اوربھینسوں کادودھ پلاتی ہیں۔یہ کوئی اَن ہونی نہیں۔
اب وہ خستہ اورکچے گھرمیں اپنے بیٹے سہیل کوگودمیں لیے ہوئے ہے۔بابانے اپنے پوتے کا نام سہیل رکھتے ہوئے فخرسے کہاتھا:
”اب میں دوبارہ جوان ہواہوں…سہیل ہوبہ ہوطفیل کی مانندہے۔“
سیلولر فون کی گھنٹی بجتی ہے…لائبہ خوش ہے کہ وہ طفیل کو مردثابت کرچکی ہے۔اب کوئی اسے شنڈاوراس کے خاوندکوبانجھ نہیں کہہ سکتااورنہ ہی کوئی طفیل کودوسری شادی کامشورہ دے سکتا ہے۔سہیل جب دنیا میں آیااُسی وقت طفیل کوبتادیاگیاتھا…مگرلائبہ کے ماں بننے کے بعداس کی پہلی گفتگوہونے والی تھی۔ مٹی کی کارنس سے فون اُٹھاکرلائبہ نے اپنے کان سے لگایا۔ آج اس کے لہجے میں سارے جہان کی شیرنیاں اُترآئی تھیں…وہ چاہتی تھی کہ ساری مٹھاس طفیل کے کانوں میں گھول دے۔اُس نے ایسا ہی کیا،بہت اہتمام سے نپے تلے انداز میں جملے اداکیے مگرطفیل کالہجہ آگ برسارہاتھا۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی گرم سیسہ لائبہ کے کانوں میں انڈیل رہاہے اوروہ گرم سیسہ اس کے دماغ کوبے کارکرکے چھوڑے گا:
”میں نے کہاتھانالائبہ!تمھیں اولادجننے کی مشین سمجھ کرمیں نہیں لایاتھا…میں نے تم سے محبت کی تھی ، تمھیں پوجاتھا۔کیاہوتااگرتمھارے ہاں اولادنہ ہوتی۔میں سہیل کواپنابیٹاکیسے مان لوں جب کہ ڈاکٹرز نے مجھے بتایاتھاکہ میں ساری عمرباپ نہیں بن سکتا…پھرتم مجھے کیوں کردھوکادے سکتی ہو؟اپنی حرام اولاد میرے سرمت تھوپو…اورمیری زندگی سے نکل جاوٴ۔ میں تمھیں طلاق دیتاہوں… طلاق… طلاق …“
”طفیل…طفیل…یہ کیاکیاتم نے،مجھے جیتے جی ماردیا…میری بات توسنتے۔“
بندسیلولرپروہ چیخی اورپھراُسے زمین پرپٹخ دیا۔
”طفیل…تم نے مجھ سے چھپایاکہ تم باپ نہیں بن سکتے لیکن میں نے رپورٹ پڑھ لی تھی…میں نے گلہ کیانہ ہی رنجیدہ ہوئی کیوں کہ میں نے بھی تمھاری پوجاکی ہے،تمھیں اپنی ذات سے زیادہ چاہا ہے…میں جانتی تھی کہ تم کبھی باپ نہیں بن سکوگے لیکن میں تمھارے ہجرکی سولی پرچڑھی رہی، تمھیں سوچتی اوریادکرتی رہی۔لیکن تم نے مجھے حرام کارکہہ کرمیری توہین کی ہے،مجھے زمانے میں رسوا کر دیاہے۔تم کیاجانومحبت کیاشے ہے…اورپوجاکسے کہتے ہیں۔“
توت کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی مخروطی انگلیاں بانجھ ہوچکی ہیں اوراُن پراٹھنے والے ابھار ظاہر ہونابھول گئے ہیں۔دھوئیں میں سے خوش شکل معصوم کاچہرہ معدوم ہو گیا ہے۔ سہیل کی موجودگی میں بھی لائبہ کی گودبرف سے ٹھنڈی ہے اوراس کالمس ہراحساس سے عاری ۔جس کے لیے اس نے یہ سب کچھ کیاوہ اسے طلاق دے چکاہے…اب وہ میکے میں ہے اور بان کی کھری چارپائی پرسرکھولے رو رہی ہے۔اس کی بہن عارفہ چارپائی کی پائنتی پر بیٹھی اُسے دلاسے دے رہی ہے اورعارفہ کی جھولی میں سہیل مضطرب پڑاہے۔اُس کااپناسہیل جو اس نے لائبہ کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے اُس کی گودمیں ڈالاتھا۔
###
 
Top