محسن وقار علی
محفلین

اس موقعے پر عدالت کے باہر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے
آج جمعے کی صبح سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے انھیں چار روزہ ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت کے جج حبیب الرحمٰن نے ملزم پرویز مشرف کو 30 اپریل کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔
سابق صدر کے وکلا نے عدالت کے سامنے موقف پیش کیا کہ ملزم سے کوئی اسلحہ وغیرہ برآمد نہیں کروانا اس لیے انھیں جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے نہ کیا جائے۔
تاہم جج جبیب الرحمٰن نے کہا کہ یہ بے حد اہم مقدمہ ہے اس لیے ایف آئی اے کو اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے، اپنی تحقیقات مکمل کر سکتی ہے۔
پرویز مشرف کے وکلا نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایک نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے، لیکن انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج نے اسے مسترد کر دیا۔
جب سابق صدر کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اس موقعے پر سخت سکیورٹی کا اہتمام کیا گیا تھا۔
ریمانڈ کی مدت تک سابق صدر اور فوجی سربراہ پرویز مشرف اسلام آباد کے نواح میں واقع اپنے فارم ہاؤس میں رہیں گے اور ان سے وہیں پوچھ گچھ کی جائے گی۔ عدالت اس گھر کو پہلے ہی سب جیل قرار دے چکی ہے۔
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں سات افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں سے پانچ ملزمان گُزشتہ پانچ سال سے اڈیالہ جیل میں ہیں۔ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود سمیت چھ افراد کو اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔
جب پرویز مشرف عدالت میں پہنچے تو ان کے ہمراہ کئی حفاظتی گاڑیوں کا کارواں تھا۔ ان کے گھر سے عدالت تک ’روٹ‘ لگایا گیا تھا اور ان کی گاڑی کے سڑک پر آنے سے قبل سڑک کو بم ناکارہ بنانے والے عملے اور سونگھنے والے کتوں کی مدد سے چیک کیا گیا۔
ہمارے نمائندے شہزاد ملک نے کہا ہے کہ آج صدر مشرف کے ساتھ وکلا کی وردیوں میں ملبوس ’کمانڈو‘ نہیں آئے، حالانکہ وکیلوں نے ان سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے جب پرویز مشرف کو عدالت میں پیش کیا تو ان کے ساتھ درجنوں لڑاکا بھی تھے جنھوں نے وکیلوں جیسا لباس پہن رکھا تھا۔ ان کی سابق صدر مشرف کے مخالف وکیلوں کے ساتھ جھڑپ ہوئی تھی۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو