غالب بےاعتدالیوں سے سُبک سب میں ہم ہوئے (مرزا اسداللہ خاں غالب)

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
مرزا اسداللہ خاں غالب
بےاعتدالیوں سے سُبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہوگئے، اُتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دامِ سخت، قریب آشیان کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
ہستی ہماری، اپنی فنا پر دلِیل ہے
یاں تک مِٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے
سختی کشانِ عشق کی پُوچھے ہے کیا خبر
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا اَلم ہوئے
تیری وفا سے کیا ہو تلافی، کہ دہر میں
تیرے سِوا بھی، ہم پہ بہت سے سِتم ہوئے
لکھتے رہے، جنوں کی حکایاتِ خُوں چکاں
ہرچند اِس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اللہ ری تیری تُندیِ خُو! جِس کے بیم سے
اجزاے نالہ دل میں مِرے رزقِ ہم ہوئے
اہلِ ہوس کی فتح ہے، ترکِ نبردِ عشق
جو پانْو اُٹھ گئے، وہی اُن کے عَلَم ہوئے
نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کِھنچ سکے، سو وہ یاں آکے دم ہوئے
چھوڑی، اسد نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے، تو عاشقِ اہلِ کرم ہوئے
اسداللہ خاں غالب
 

عاطف بٹ

محفلین
لکھتے رہے، جنوں کی حکایاتِ خُوں چکاں
ہرچند اِس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
واہ، کیا عمدہ غزل ہے۔
شئیر کرنے کے لئے بہت شکریہ سر!
 

طارق شاہ

محفلین
لکھتے رہے، جنوں کی حکایاتِ خُوں چکاں
ہرچند اِس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
واہ، کیا عمدہ غزل ہے۔
شئیر کرنے کے لئے بہت شکریہ سر!
جناب عاطف بٹ صاحب!
اظہارِ خیال اور ستائشِ انتخاب کے لئے سپاس گزار ہوں
بہت خوشی ہوئی، جو میری منتخبہ غزل آپ کو پسند آئی
تشکّر
بہت خوش رہیں
 

الشفاء

لائبریرین
تیری وفا سے کیا ہو تلافی، کہ دہر میں
تیرے سِوا بھی، ہم پہ بہت سے سِتم ہوئے
واہ۔۔۔ بہت خوب۔۔۔
 
غزل
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے​
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے​
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ​
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے​
 
Top