بی پاکستانی

الف نظامی

لائبریرین
cartoon.gif
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب

میرے خیال میں تو رشوت کو اب پاکستان میں قانونی حیثیت دے دینی چاہیے۔ کہ لوگ تو ویسے بھی کھلے عام لیتے اور دیتے ہیں۔
 

پاکستانی

محفلین
بلکل بجا فرمایا شمشاد آپ نے
پاکستان میں کون ہے جو کرپٹ نہیں؟
جس کا جتنا بس چلتا ہے، اتنا ہی دوسرے کو لوٹ لیتا ہے۔
پنکچر لگانے والا سواری کے مالک کو غافل پا کر ٹیوب میں دوچار اور سوراخ کر دیتا ہے۔
دکاندار کم تولتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ واقف کار کی کھال زیادہ اتارتا ہے کیونکہ وہ اس پر اعتبار کرتا ہے۔
کوئی سرکاری دفتر ایسا ہے جہاں سرعام رشوت نہ چلتی ہو، چپڑاسی سے لیکر افسر تک سبھی نے اپنے ریٹ مقرر کئے ہوئے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
جب ایسے حالات ہوں تو اس قوم کو انتظار کرنا چاہیے کہ اللہ کی طرف سے عذاب آئے۔

ایک تو ماضی قریب میں دیکھ ہی چکے ہیں زلزلے کی شکل میں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
جب ایسے حالات ہوں تو اس قوم کو انتظار کرنا چاہیے کہ اللہ کی طرف سے عذاب آئے۔

ایک تو ماضی قریب میں دیکھ ہی چکے ہیں زلزلے کی شکل میں۔
اس قوم کو اب اس کو کسی مثبت کام پر لگائیں۔ جب تک قوم بیدار نہیں ہوگی حالات نہیں تبدیل ہونے والے۔
 

پاکستانی

محفلین
بلکل بجا ارشاد فرمایا آپ نے شمشاد بھائی!
پچھلے دنوں میں نے اپنے بلاگ پر ‘بنام اردو بلاگرز‘ کے نام سے ایک تحریر شائع کی تھی آپ کےمطالعے کے لئے میں اسے یہاں نقل کر رہا ہوں۔

بنام اردو بلاگرز
میں کیا کہنا چاہتا ہوں؟ ۔۔۔ لکھنے کے بعد میں مسلسل سوچتا رہا ہوں کہ آخر میں کہنا کیا چاہتا ہوں؟، کس سے، کیوں اور کس لئے کہنا چاہتا ہوں؟ سوچتا ہوں کہ لکھنا تو ایک بہانہ ہے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا، مگر پھر ایک سوال میرے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ کیا تمام دوسرے بلاگرز بھی صرف اس لئے لکھتے ہیں؟ صرف دل کی بھڑاس کے لئے یا اس کے پیچھے کچھ اور بھی مقاصد ہوتے ہیں؟
ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مجھے بلاگ شروع کئے ہوئے، مگر میں آج تک ایک بات نہیں سمجھ پایا کہ ہم لوگ اپنی تحریروں میں کس قوم، کن عوام اور کون سے لوگوں کی باتیں کرتے رہتے ہیں؟ کن کی محرمیوں، ذلتوں اور حقوق پر کڑھتے رہتے ہیں؟ انہی لوگوں میں رہتے ہوئے، ان کی نفسیات جانتے ہوئے انجان بن جانتے ہیں۔ ہم لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ عوام نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ یہ تو ایک بے سمت ہجوم ہے، ایک بھیڑ ہے جس میں ہم لوگ بلاوجہ چلا چلا کر گلا پھاڑ رہے ہیں۔ ہم دیوانے بھی کن لوگوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں؟ کسے پکار رہے ہیں؟ کسے جگانے اور جھنجھوڑنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں؟ یہ لیڈر ان کو لوٹ رہے ہیں تو ٹھیک کر رہے ہیں، دال، چینی سستی کر کے یوٹیلٹی سٹورز کے باہر لمبی لائنیں لگوا کر ان کو بے عزت کر رہے ہیں تو ٹھیک کر رہے ہیں۔
جن لیڈروں کے ہاتھوں یہ پٹ رہے ہیں، لٹ رہے ہیں، مر رہے ہوتے ہیں،اجڑ رہے ہوتے ہیں انہی لیڈروں کے جلسوں کو بھی بھر رہے ہوتے ہیں۔ بےنظیر ہو یا نوازشریف، قاضی حسین احمد ہو یا فضل الرحٰمن، پرویزمشرف یا شوکت عزیز یہی عوام ان کے جلسوں میں جھنڈے اٹھائے حلق پھاڑ پھاڑ نعرے لگا رہے ہوتے ہیں کہ ان کا ہر جلسہ ‘ہاؤس فل‘ جاتا ہے۔
یہ سب کچھ اس لئے لکھا جا رہا ہے کہ اپنی بربادی کا رونا رونے والے عوام اپنا اصلی چہرہ بھی دیکھ سکیں۔
کون ہے جو کرپٹ نہیں؟
جس کا جتنا بس چلتا ہے، اتنا ہی دوسرے کو لوٹ لیتا ہے۔
پنکچر لگانے والا سواری کے مالک کو غافل پا کر ٹیوب میں دوچار اور سوراخ کر دیتا ہے۔
دکاندار کم تولتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ واقف کار کی کھال زیادہ اتارتا ہے کیونکہ وہ اس پر اعتبار کرتا ہے۔
کوئی سرکاری دفتر ایسا ہے جہاں سرعام رشوت نہ چلتی ہو، چپڑاسی سے لیکر افسر تک سبھی نے اپنے ریٹ مقرر کئے ہوئے ہیں۔
عوام عوام کو نوچ کھانے کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی آنکھوں سے بھوک اور منہ سے رال ٹپکتی نظر آتی ہے، چیلوں کی طرح ایک دوسرے کی کھال نوچتے ہیں۔
خواص ہی نہیں ۔۔۔ عوام عوام کے دشمن ہیں، اپنی ذات کے بدذات کو ووٹ دیں گے چاہے وہ بےغیرت اور بدمعاش ہی کیوں نہ ہو۔ چند کلو چینی،دال، گھی اور چند تھیلے آٹے کے لئے تو یہ ضمیر بیچ دیتے ہیں۔
اردو بلاگرو!
اللہ نے آپ کو بہت جاندار قلم دیا ہے، اپنی جان ہلکان نہ کریں، اسے کسی اور کام لگائیں، کچھ اور لکھیں جس سے نام بھی زیادہ، دام بھی زیادہ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پاکستانی نے کہا:
بلکل بجا ارشاد فرمایا آپ نے شمشاد بھائی!
پچھلے دنوں میں نے اپنے بلاگ پر ‘بنام اردو بلاگرز‘ کے نام سے ایک تحریر شائع کی تھی آپ کےمطالعے کے لئے میں اسے یہاں نقل کر رہا ہوں۔

بنام اردو بلاگرز
میں کیا کہنا چاہتا ہوں؟ ۔۔۔ لکھنے کے بعد میں مسلسل سوچتا رہا ہوں کہ آخر میں کہنا کیا چاہتا ہوں؟، کس سے، کیوں اور کس لئے کہنا چاہتا ہوں؟ سوچتا ہوں کہ لکھنا تو ایک بہانہ ہے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا، مگر پھر ایک سوال میرے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ کیا تمام دوسرے بلاگرز بھی صرف اس لئے لکھتے ہیں؟ صرف دل کی بھڑاس کے لئے یا اس کے پیچھے کچھ اور بھی مقاصد ہوتے ہیں؟
ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مجھے بلاگ شروع کئے ہوئے، مگر میں آج تک ایک بات نہیں سمجھ پایا کہ ہم لوگ اپنی تحریروں میں کس قوم، کن عوام اور کون سے لوگوں کی باتیں کرتے رہتے ہیں؟ کن کی محرمیوں، ذلتوں اور حقوق پر کڑھتے رہتے ہیں؟ انہی لوگوں میں رہتے ہوئے، ان کی نفسیات جانتے ہوئے انجان بن جانتے ہیں۔ ہم لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ عوام نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ یہ تو ایک بے سمت ہجوم ہے، ایک بھیڑ ہے جس میں ہم لوگ بلاوجہ چلا چلا کر گلا پھاڑ رہے ہیں۔ ہم دیوانے بھی کن لوگوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں؟ کسے پکار رہے ہیں؟ کسے جگانے اور جھنجھوڑنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں؟ یہ لیڈر ان کو لوٹ رہے ہیں تو ٹھیک کر رہے ہیں، دال، چینی سستی کر کے یوٹیلٹی سٹورز کے باہر لمبی لائنیں لگوا کر ان کو بے عزت کر رہے ہیں تو ٹھیک کر رہے ہیں۔
جن لیڈروں کے ہاتھوں یہ پٹ رہے ہیں، لٹ رہے ہیں، مر رہے ہوتے ہیں،اجڑ رہے ہوتے ہیں انہی لیڈروں کے جلسوں کو بھی بھر رہے ہوتے ہیں۔ بےنظیر ہو یا نوازشریف، قاضی حسین احمد ہو یا فضل الرحٰمن، پرویزمشرف یا شوکت عزیز یہی عوام ان کے جلسوں میں جھنڈے اٹھائے حلق پھاڑ پھاڑ نعرے لگا رہے ہوتے ہیں کہ ان کا ہر جلسہ ‘ہاؤس فل‘ جاتا ہے۔
یہ سب کچھ اس لئے لکھا جا رہا ہے کہ اپنی بربادی کا رونا رونے والے عوام اپنا اصلی چہرہ بھی دیکھ سکیں۔
کون ہے جو کرپٹ نہیں؟
جس کا جتنا بس چلتا ہے، اتنا ہی دوسرے کو لوٹ لیتا ہے۔
پنکچر لگانے والا سواری کے مالک کو غافل پا کر ٹیوب میں دوچار اور سوراخ کر دیتا ہے۔
دکاندار کم تولتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ واقف کار کی کھال زیادہ اتارتا ہے کیونکہ وہ اس پر اعتبار کرتا ہے۔
کوئی سرکاری دفتر ایسا ہے جہاں سرعام رشوت نہ چلتی ہو، چپڑاسی سے لیکر افسر تک سبھی نے اپنے ریٹ مقرر کئے ہوئے ہیں۔
عوام عوام کو نوچ کھانے کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی آنکھوں سے بھوک اور منہ سے رال ٹپکتی نظر آتی ہے، چیلوں کی طرح ایک دوسرے کی کھال نوچتے ہیں۔
خواص ہی نہیں ۔۔۔ عوام عوام کے دشمن ہیں، اپنی ذات کے بدذات کو ووٹ دیں گے چاہے وہ بےغیرت اور بدمعاش ہی کیوں نہ ہو۔ چند کلو چینی،دال، گھی اور چند تھیلے آٹے کے لئے تو یہ ضمیر بیچ دیتے ہیں۔
اردو بلاگرو!
اللہ نے آپ کو بہت جاندار قلم دیا ہے، اپنی جان ہلکان نہ کریں، اسے کسی اور کام لگائیں، کچھ اور لکھیں جس سے نام بھی زیادہ، دام بھی زیادہ۔
عوام کو سمجھانا بند نہیں کرنا۔ جس دن انہیں شعور آگیا اس دن سے ملک کی قسمت بدل جائے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
جنہوں کو لگانا چاہیے ان کے آپس میں ہی اتنے اختلاف ہیں ان کا ہی متحد ہونا ناممکن ہے۔
 
Top