بیچارہ شہزور۔ ص 246-255

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
“کیسا ذہنی مرض۔۔۔۔مجھے بتائیے نا۔!“ فرحانہ اٹھتی ہوئی بولی۔
اب وہ اس کے قریب فرش پر آ بیٹھی تھی۔
“تت۔۔۔۔تم نہیں سمجھ سکتیں۔!“
“آپ بتائیے تو۔۔۔۔!“
“سس۔۔۔۔ساری دیسی عورتیں مجھے اپنی مائیں اور بہنیں لگتی ہیں۔ اُن سے شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔!“
علامہ کی شخصیت ہی بدل کر رہ گئی تھی۔ اتنی ذرا سی دیر میں برسوں کا بیمار نظر آنے لگا تھا۔ سارے کپڑے پسینے میں تر ہو گئے تھے۔
“تو پھر۔۔۔۔مجھے میاں توقیر سے شادی پر مجبور نہ کیجئے! آپ نہیں تو کوئی بھی نہیں۔۔۔۔قبل اس کے کہ کسی دوسرے کا ہاتھ۔۔۔۔!“
“خاموش رہو۔۔۔۔خدا کے لئے ذرا دیر خاموش رہو۔۔۔۔یہاں سے ہٹ جاؤ۔۔۔۔وہیں بیٹھو جہاں بیٹھی ہوئی تھیں۔!“
فرحانہ نے فوراً تعمیل کی تھی اور پُر تشویش نظروں سے اُس کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔
علامہ نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ “اگر یہ بات تھی تو تم اس کام کے لئے تیار کیوں ہو گئی تھیں۔!“
“کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کے کسی حکم کی تعمیل نہ کی ہو! لیکن تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ سچ مچ اُس سے شادی بھی کرنی پڑے گی۔!“
“سنو۔۔۔۔!“ علامہ سیدھا ہو کر بیٹھتا ہوا بولا۔ “یہ تمہاری صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ تم اُسے اپنے قریب بھی نہ آنے دو اور وہ ناگواری بھی نہ محسوس کرے۔۔۔۔صرف چند دن۔۔اور اُس کے بعد اُس کا خاتمہ۔۔۔۔پہلے تو میں نے یہی سوچا تھا کہ کوئی ٹائم بم اُسکے چیتھڑے اڑا دے گا۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اتنی بڑی جائیداد خوامخواہ ضائع جائے گی۔ کیوں نہ وہ اپنے ہی کسی آدمی کے ہاتھ لگے۔ نزدیک یا دور کا کوئی بھی ایسا عزیز نہیں ہے جسے اُس کے ترکے کا چھوٹا سا حصہ بھی پہنچ سکے۔!“
ایک ٹھنڈی سی لہر فرحانہ کے جسم میں دوڑ گئی۔
علامہ کہتا رہا۔ “سب کچھ تمہارا ہو گا۔۔۔۔صرف تمہارا۔۔۔۔میری طرف دیکھو! کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ تمہارے توسط سے میں اُس کی دولت بھی ہتھیانا چاہتا ہوں۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
وہ کچھ نہ بولی۔ علامہ نے کہا۔ “ہر گز نہیں۔۔۔۔اگر کبھی ایک حبہ بھی طلب کروں تو کتے کا پلا سمجھنا۔!“
“میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔“
“خیر۔۔۔۔ہاں تو تم نے اُس کی درخواست پر کیا کہا تھا۔!“
“اس قسم کی کوئی بات آپ ہی سے کی جائے۔!“
“گڈ۔۔۔۔!میں ایسی صورت میں یہی چاہتا۔ تم بہت ذہین ہو فرحانہ۔۔۔۔کیڑوں مکوڑوں سے بہت بلند۔۔۔۔!“
“لیکن۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔!“
“سنو۔۔۔۔“ دفعتاً وہ آہستہ سے بولا۔ “مجھ پر اعتماد کرو۔۔۔۔نکاح کے فوراً بعد ہی وہ بیمار ہو جائے گا اور تم محفوظ رہو گی۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ وہی بیماری موت کا سبب بن جائے۔!“
فرحانہ ایک بار پھر کانپ اٹھی۔
ٹھیک اُسی وقت فون کی گھنٹی بجی تھی۔ علامہ نے اٹھ کر ریسیور اٹھایا۔
“ہیلو۔!“
“علامہ دہشت۔۔۔۔!“ آواز نسوانی تھی۔
“ہاں میں ہی بول رہا ہوں۔۔۔۔کون ہے۔۔۔۔!“
“میں یاسمین کی روح بول رہی ہوں۔!“
“کیا مذاق ہے؟۔۔۔کون ہے!“
“تمہارا باپ پیر علی ایک دیندار آدمی تھا۔۔۔۔اُس کی روح تمہاری حرکات سے خوش نہیں ہے۔۔۔۔یقین کرو۔۔۔۔میں یاسمین کی روح ہوں۔ کل شام میری بہن بھی میرے پاس پہنچ گئی ہے۔۔۔۔تمہارا بہت بہت شکریہ۔!“
“بکواس بند کرو۔۔۔۔!“ علامہ حلق پھاڑ کر دہاڑا۔۔۔۔اور ریسیور کریڈل پر پٹخ دیا۔ وہ بُری طرح ہانپ رہا تھا۔
“کیا بات ہے۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔!“ فرحانہ اٹھ کر اُس کے پاس آ کھڑی ہوئی۔
“کچھ نہیں۔! کوئی شرابی تھا! یا کوئی بیہودہ اسٹوڈنٹ۔۔۔۔مجھ سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔! وہ بیہودہ کہیں کا۔۔۔۔بد تمیز۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کیا پوچھ رہا تھا۔!“
“تم کیا سمجھتی ہو۔۔۔۔میں کوئی بیہودہ بات کسی خاتون کے سامنے دہراؤں گا۔!“
“اوہ۔۔۔۔معاف کیجئے گا۔!“
“اچھا اب تم جاؤ۔۔۔۔آرام کرو۔۔۔۔لیکن ٹھہرو۔۔۔۔تم نے جس یورپین عورت کا ذکر اپنے خط میں کیا تھا۔۔۔۔وہ واپس چلی گئی یا ابھی جھریام ہی میں مقیم ہے۔!“
“وہ ابھی وہیں قیام کرے گی۔!“ فرحانہ نے بیزاری سے کہا۔
“تم نے یہ تو محسوس نہیں کیا کہ وہ تمہاری ٹوہ میں رہتی ہو۔!“
“نہیں میں نے ایسی کوئی بات محسوس نہیں کی۔!“
“خوبصورت ہے!“
“میں نے کم ہی یورپین عورتیں اتنی خوبصورت دیکھی ہوں گی۔!“
“اچھا۔۔۔۔اچھا! خدا حافظ۔۔۔۔!“ علامہ نے کہا تھا اور اُس کے ساتھ برآمدے تک آیا تھا۔
ڈرائیور کو آواز دے کر کہا تھا۔ “مس صاحب کو ان کے گھر پہنچا آؤ۔!“
اندر واپس آ رہا تھا کہ پھر فون کی گھنٹی کی آواز سنائی دی۔!
تیزی سے سٹنگ روم میں داخل ہو کر ریسیور اٹھایا تھا۔!
“یاسمین کی روح۔!“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
اس بار علامہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ اور اُس نے کہا تھا۔ “تم جو کوئی بھی ہو۔۔۔۔میں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔!“
“میں یاسمین کی روح ہوں۔۔۔۔اور یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ابھی تک وہ ماما عالمِ ارواح میں نہیں پہنچی جس نے میری بہن کو میرے پاس پہنچانے میں مدد دی تھی۔!“
“تم کس وہم میں مبتلا ہو۔ تم نے میرے دو شاگردوں کو ابھی تک روک رکھا ہے۔! یہ اچھی بات نہیں۔!“
“پیر علی کے بیٹے! تم خود کسی وہم میں مبتلا ہو۔ اور یہاں عالمِ ارواح میں افواہ گردش کر رہی ہے کہ عنقریب تم بھی یہیں پہنچنے والے ہو۔ پیر علی جیسا صابر و شاکر بندہ تمہاری وجہ سے بارگاہِ خداوندی میں سخت شرمندہ رہتا ہے۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“بکواس بند کرو۔!“ علامہ حلق پھاڑ کر دہاڑا تھا۔
لیکن دوسری طرف سے کھنکتی ہوئی سی آواز سنائی دی تھی۔!
“یہ یاسمین کی آواز نہیں ہے۔!“ علامہ نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
“عالمِ ارواح میں بہتیری تبدیلیاں ہو جاتی ہیں۔ یہاں جسم تو ہے نہیں کہ آواز کو من و عن حیثیت میں برقرار رکھ سکے۔ بہرحال تمہاری آمد آمد کا شہرہ ہے یہاں۔!“
“اُس سے پہلے تُو جائے گا بلیک میلر۔!“
“پتا نہیں تم کیا کہہ رہے ہو۔!“
“میں نے تجھے اپنا فیصلہ سنا دیا۔!“ کہہ کر علامہ نے ریسیور کریڈل پر پٹخ دیا۔
اُس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ آنکھوں سے برسوں کا بیمار لگنے لگا تھا۔!
فون کی گھنٹی پھر بجی۔۔۔۔اُس نے عجیب سی نظروں سے فون کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔ویسے ہچکچاہٹ کے آثار بھی اُس کے چہرے سے عیاں تھے۔۔۔۔ہاتھ آہستہ آہستہ ریسیور کی طرف بڑھا۔۔۔۔جھٹکے کے ساتھ اُس نے ریسیور اٹھایا تھا۔!
“ہیلو۔!“ اس بار اُس کی آواز حیرت انگیز طور پر بدلی ہوئی تھی۔!
“پروفیسر صاحب تشریف رکھتے ہیں۔!“ دوسری طرف سے مردانہ آواز آئی۔
“آپ کون صاحب ہیں۔!“
“میں نے پوچھا تھا کہ کیا پروفیسر صاحب تشریف رکھتے ہیں۔!“
“جی نہیں! آپ کا نام۔۔۔۔کوئی میسج۔۔۔۔!“
“براہِ راست گفتگو کرنی تھی۔!“
“نام جناب۔!“
لیکن جواب ملنے کی بجائے دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہونے کی آواز آئی تھی۔!
اُس نے بھی ریسیور رکھ دیا اور نڈھال سا ہو کر آرام کرسی پر نیم دراز ہو گیا۔!
آنکھیں بند تھیں اور وہ گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اُس نے آنکھیں کھولی تھیں اور آہستہ سے بڑبڑایا تھا۔ “پیر علی کے بیٹے! پپ پیر علی کے بیٹے۔۔۔۔کون جانتا ہے۔ کیا وہ بلیک میلر۔۔۔۔پیس کر رکھ دوں گا۔!“
دفعتاً اُس کی آنکھیں شعلوں کی طرح دہکنے لگی تھیں۔۔۔۔پیشانی کی رگیں ابھر آئیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے اپنی راہ میں حائل ہونے والے پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کر کے رکھ دے گا۔!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران فون کا ریسیور رکھ کر مڑا تھا۔ پیچھے بلیک زیرو کھڑا نظر آیا۔
“کوئی خاص بات۔!“
“جی ہاں! خاور کی اب تک کی رپورٹ کا ماحصل یہ ہے کہ وہ شخص خواہ کہیں بھی جائے اُس کی واپسی ستنام ہاؤز ہوتی ہے! اور اس وقت بھی ظفر الملک کے بنگلے کے قریب موجود ہے۔ ڈورا کرسٹی اور مائیکل کا تعاقب کرتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔!“
“اوہ۔۔۔۔تو وہ خود ہی پہنچ گئی تھی ظفر کے پاس۔!“
“جی ہاں۔۔۔۔!“
“خیر دیکھوں گا۔!“ عمران نے کہا۔
“کیا یہ ممکن ہے کہ میاں توقیر کچھ دنوں کے لئے غائب ہو جائیں۔!“
“میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔!“
“رانا پیلس میں بڑی سمائی(؟) ہے۔!“
عمران کچھ نہ بولا۔۔۔۔رحمان صاحب نے اُس پر کوٹھی ہی تک محدود رہنے کی پابندی لگائی تھی۔ لیکن سرِ شام ہی کسی نہ کسی طرح ملازموں کو ڈوج دے کر نکل بھاگا تھا۔ اور اس وقت بھی اسے اپنے آس پاس کوئی ایسا آدمی نہیں دکھائی دیا تھا جس پر تعاقب کرنے والے کا شبہ کیا جا سکتا۔!“
“پیٹر کا کیا حال ہے۔!“ اُس نے پوچھا۔
“فی الحال تو پُرسکون نظر آ رہا ہے۔ چپ چاپ پڑا رہتا ہے۔ کھانا پینا قطعی ترک کر دیا ہے۔!“
“خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہے! خیال رکھنا اور اب خاور سے کہہ دو کہ اگر اس آدمی کی واپسی ستنام ہاؤز میں ہوتی ہے تو اب اس کی نگرانی کی ضرورت نہیں۔۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کیوں۔۔۔۔؟ میں نہیں سمجھا جناب۔!“
“جس کے لئے کام کر رہا ہے اُس تک اُس کی پہنچ نہیں معلوم ہوتی۔ لہٰذا اُس پر وقت صرف کرنا بیکار ہے۔! وہ ستنام ہاؤز ہی میں کسی کو رپورٹ دیتا ہے اور وہ اس رپورٹ کو آگے بڑھا دیتا ہو گا۔ لہٰذا ہپی شہزور تک رسائی اُس کے توسط سے ممکن نہیں۔!“
“اگر ہپی شہزور اتنا محتاط نہ ہوتا تو کبھی نہ کبھی ہمیں اس کی ہوا لگی ہی ہوتی۔!“ بلیک زیرو نے کہا۔
عمران کچھ نہ بولا! وہ پھر کسی کے نمبر ڈائیل کر رہا تھا۔ بلیک زیرو کمرے سے چلا گیا تھا۔
“ہیلو۔۔۔۔! کون صاحب ہیں۔!“ عمران نے ماؤتھ پیس میں کہا۔
“سلمانی۔۔۔۔!“
“میں ذہنی مریض ہوں۔۔۔۔!“ عمران بولا۔
“اوہ۔۔۔۔میرے دوست۔۔۔۔! کیا کوئی اچھی خبر سناؤ گے۔!“
“ہم کہاں مل سکیں گے۔!“
“کہیں بھی نہیں! فی الحال میں کسی کو شکل نہیں دکھا سکتا۔!“
“کیوں؟ خیریت تو ہے۔!“
“میرے چہرے پر لمبی لمبی خراشیں ہیں۔۔۔۔! وہ پاگل ہوتی جا رہی ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔!“
“کیا کوئی نیا مہمان وارد ہوا ہے۔!“
“نہیں تو۔۔۔۔“ سلمانی کی آواز آئی۔ “اُس مردود کا کہیں پتا نہیں۔۔۔۔شائد اسی لئے ایک خونخوار بلی بن گئی ہے۔!“
“لیکن میرا خیال ہے کہ ایک نیا آدمی تمہاری کوٹھی میں دیکھا جا رہا ہے۔!“
“کون ہے۔۔۔۔!“
“وہ جس کے دائیں گال پر لمبا سا چوٹ کا نشان ہے۔!“
“اوہ۔۔۔۔وہ تو میرا پی اے ساجد ہے۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“تمہارا پی اے۔۔۔۔!“
“ہاں۔۔۔۔ساجد۔۔۔۔قریباً دس سال سے میرے پاس ہے۔۔۔۔! ستنام ہاؤز ہی کے حصے میں اُسے جگہ بھی دے رکھی ہے۔!“
“کیا آجکل اُس سے کسی کی نگرانی کرا رہے ہو۔!“
“نہیں تو۔۔۔۔سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔کیا مجھے پیری میسن سمجھ رکھا ہے تم نے۔!“
“تو پھر میرے آدمی کو غلط فہمی ہوئی ہو گی۔!“ عمران طویل سانس لے کر بولا۔
“تو پھر میرے آدمی کو غلط فہمی ہوئی ہو گی۔!“ عمران طویل سانس لے کر بولا۔
“وہ میرا ایک قابلِ اعتماد ملازم ہے۔!“
“اچھا شکریہ۔۔۔۔!“ کہہ کر عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
وہ فکر مند نظر آنے لگا تھا۔۔۔۔! دو ہی صورتیں ہو سکتی تھیں یا تو ساجد تھیلما کو رپورٹ دیتا تھا یا براہِ راست ملوث تھا۔ اس طرح کہ سلمانی کو آج تک اس کی خبر ہی نہ ہو سکی ہو۔!
اُس نے پر تفکر انداز میں دوبارہ فون کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا اور اس بار گھر کے نمبر ڈائیل کئے تھے۔ گھنٹی بجتی رہی۔ کوئی ریسیور اٹھانے والا نہیں تھا اور کم از کم یہ رحمان صاحب کی کوٹھی کے لئے ناممکنات میں سے تھا۔
“ہیلو۔!“
عمران آواز نہیں پہچان سکا تھا! کچھ اسی طرح کی لرزش تھی آواز میں۔!
“کون ہے۔!“ عمران نے پوچھا۔
“اوہ صاحب جی! غضب ہو گیا! میں گلرخ ہوں۔!“
“کیا غضب ہو گیا بتاتی کیوں نہیں۔!“
“چوکیدار کی کوٹھی میں زبردست دھماکہ ہوا ہے۔ پتا نہیں بیچارہ زندہ ہے یا مر گیا! سب ادھر ہی دوڑ گئے ہیں۔!“
“ڈیڈی کہاں ہیں۔۔۔۔!“
“وہیں ہیں۔۔۔۔سب ادھر ہی گئے ہیں۔۔۔۔میں اور اماں بی ادھر ہیں۔ اماں بی کی حالت خراب ہو گئی ہے۔!“
“میں ابھی آیا۔۔۔۔!“ عمران ریسیور رکھ کر دروازے کی طرف جھپٹا تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت جلدی میں بلیک زیرو کو کچھ ہدایات دی تھیں اور رانا پیلس سے گھر کے لئے روانہ ہو گیا تھا۔ کار کی بجائے گیراج سے موٹر سائیکل نکالی تھی۔ اس وقت اسے میک اپ کا خیال آیا تھا اور نہ عاقبت اندیش ہی کا ہوش تھا۔ بس جلدی گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔!
کوٹھی کے سامنے ایک جمِ غفیر نظر آیا۔ مسلح پولیس کے جوانوں نے دور تک سڑک کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ بدقت تمام پھاٹک تک پہنچ سکا! رحمان صاحب وہیں موجود تھے۔
اُسے دیکھتے ہی مضطربانہ انداز میں بولے۔ “چلے گئے تھے تو پھر واپس آنے کی کیا ضرورت تھی! جاؤ۔!“
“ذرا اندر چلئے۔!“ عمران بولا۔
وہ تیزی سے عمارت کی طرف مڑے تھے۔ عمران اُن کے پیچھے چل رہا تھا۔!“
دونوں اندر آئے۔!“
“چوکیدار کا کیا حشر ہوا۔۔۔۔!“ عمران نے پوچھا۔
“خوش قسمت تھا کہ دھماکے سے ذرا ہی دیر پہلے کچن کی طرف چلا گیا تھا۔!“
“اب کہاں ہے۔!“
“پوچھ گچھ کے لئے علیحدہ لے جایا گیا تھا۔!“
“کیا کوٹھری مقفل کر کے کچن کی طرف گیا تھا۔!“
“نہیں۔“
“ٹائم بم۔“
“ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔“ رحمان صاحب اُسے بغور دیکھتے ہوئے بولے۔ “کیا تم مجھ سے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔!“
“شہزور نامی کسی ہپی کا کوئی ریکارڈ ہے آپ کے محکمے کی تحویل میں۔!“
“میں نہیں جانتا۔!“
“یہ بات مجھے کس سے معلوم ہو سکے گی۔!“
“فیاض سے۔۔۔۔لیکن یہاں کسی ہپی کا کیا ذکر۔!“
“وہ علامہ کے غائب ہونے والے شاگردوں میں دلچسپی لے رہا ہے ! اور اُسے میری تلاش ہے! اس رات موٹر ٹریننگ گراؤنڈ میں اُسی سے ٹکراؤ ہوا تھا۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“علامہ۔۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے۔!“
“بیگم تصدق کی ماما کا سراغ ملا یا نہیں۔!“
“نہیں۔!“
“بیگم تصدق کو حراست میں لے لیجئے۔!“
“کیوں۔۔۔۔؟ جب تک ماما کا سراغ نہ ملے ضروری نہیں سمجھتا۔“
“معقول رقم دے اُسے روپوشی پر آمادہ کر لیا گیا ہو گا۔!“
“تو اب تم بھی یہی کہہ رہے ہو حالانکہ آج ہی بیگم تصدق کی موافقت میں بولتے رہے تھے۔!“
“ضابطے کی کاروائی نہ کی گئی تو علامہ کی طرف سے توجہ پٹانے کے لئے اُس کا ہمدرد شہزور۔۔۔۔ نہ جانے کیا کیا کر گزرے گا۔!“
“تو تم اس دھماکے کو بھی اُسی سے متعلق سمجھ رہے ہو۔!“
“جی ہاں۔۔۔۔! وہ چاہتا ہے کہ میں کسی طرح سامنے آؤں! ورنہ آپ اپنے چالیس سالہ ملازم چوکیدار کو کوئی ایسا تخریب کار سمجھ لیجئے جس نے کسی خاص مقصد کے تحت اپنی کوٹھری میں آتش گیر مادہ چھپا رکھا تھا۔!“
“میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔!“ رحمان صاحب نے کہا۔ پھر چونک کر اُسے گھورتے ہوئے بولے۔ “تمہیں یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔“
“میری موٹر سائیکل باہر کھڑی ہے۔۔۔۔اُسے کمپاؤنڈ میں منگوا لیجئے گا۔۔۔۔نمبر ایکس وائی تین سو بارہ ہے۔!“
“اور تم۔۔۔۔!“
“کسی طرح نکل جاؤں گا۔۔۔۔موٹر سائیکل یہیں رہے گی۔!“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

ڈورا کرسٹی اور مائیکل ظفر الملک کے بنگلے سے برآمد ہوئے تھے۔۔۔۔اور اُن کا تعاقب شروع ہو گیا تھا! تعاقب کرنے والے نے اُن کی گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی اپنی موٹر سائیکل سنبھال لی تھی۔۔۔۔لیکن جیسے ہی اُسے اسٹارٹ کر کے آگے بڑھنا چاہا تھا کسی نے ڈڈونیا کی باڑھ کے پیچھے سے اُس پر چھلانگ لگائی تھی اور کیریئر پر بیٹھا ہوا بولا تھا۔ “چلتے رہو۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کک۔۔۔۔کون ہو تم۔۔۔۔!“
“دوست۔۔۔۔! چلو کہیں وہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہو جائیں۔!“
ہچکچاہٹ کے ساتھ اُس نے موٹر سائیکل آگے بڑھائی تھی۔۔۔۔ تعاقب جاری رہا۔!
اور بالآخر اگلی گاڑی اُسی عمارت کے سامنے جا رُکی تھی جہاں ڈورا کرسٹی کا قیام تھا۔!
“اب جدھر میں کہوں گا اُدھر چلو۔“ تعاقب کرنے والے کے پیچھے بیٹھے ہوئے اجنبی نے کہا۔
“کیا میں تمہیں جانتا ہوں۔!“ تعاقب کرنے والے نے پوچھا۔
“نہیں! تم مجھے نہیں جانتے۔!“
“تو پھر۔۔۔۔!“
“تو پھر کیا! مجھ سے جو کچھ کہا گیا ہے میں کر رہا ہوں۔“ اجنبی نے جواب دیا۔
“کس نے کہا ہے۔!“
“بحث کرو گے مجھ سے۔!“
تعاقب کرنے والے نے موٹر سائیکل سڑک کے نیچے اتار کر روک دی۔۔۔۔! یہاں اندھیرا اور سناٹا تھا۔!
“یہ کیا کر رہے ہو۔!“ اجنبی نے پوچھا۔
“تمہاری شکل دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔!“ اجنبی(؟) نے کہا۔۔۔۔لیکن دوسرے ہی لمحے کوئی سخت سی چیز اُس کے داہنے پہلو سے چبھنے لگی تھی اور اجنبی بولا تھا۔ “غالباً میں نے کہا تھا کہ جدھر میں کہوں ادھر چلو۔۔۔۔!“
“کک۔۔۔۔کیا مطلب۔۔۔۔!“
“یہ میری انگلی نہیں ریوالور کی نال ہے۔!“
“اوہ۔۔۔۔لیکن کیوں۔۔۔۔!“
“جہاں لے چلوں چپ چاپ چلتے رہو۔ وجہ بھی بتا دی جائے گی۔۔۔۔! کیا تم ایڈوکیٹ سلمانی کے پی اے نہیں ہو۔!“


اختتام

ص 246-255
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top