بیچارہ شہزور۔ ص 236-245

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
“اوہ۔۔۔۔میں ابھی آیا۔۔۔۔!“ عمران دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
شیلا کے کمرے سے نکل کر وہ اُس جگہ پہنچا جہاں سے اسے سگنل دیا گیا تھا۔
بلیک زیرو اُس کا منتظر تھا۔!“
“کیا بات ہے۔۔۔۔!“ عمران نے اُس سے پوچھا۔
“ابھی ابھی۔۔۔۔اطلاع ملی ہے کہ یاسمین کی بہن بھی مر گئی۔!“
“اوہ۔۔۔۔!“ عمران سناٹے میں آ گیا۔
"اور یہ کل شام کا واقعہ ہے! گھر میں زینوں سے اتر رہی تھی۔ لڑکھڑائی اور نیچے چلی آئی۔ لوگ اٹھانے دوڑے۔۔۔۔لیکن وہ مر چکی تھی۔۔۔۔تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔!“
عمران چند لمحے کچھ سوچتا رہا۔ پھر اُس نے رحمان صاحب کے نمبر ڈائیل کئے تھے۔
“ہیلو۔۔۔۔!“ دوسری طرف سے رحمان صاحب کی آواز آئی۔
“میں بول رہا ہوں جناب! مجھے ابھی ابھی دوسرے حادثے کی خبر ملی ہے۔“
“تمہارا یہ طریقہ اب ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔“ رحمان صاحب کی غصیلی آواز آئی تھی۔
“میں نہیں سمجھا جناب۔۔۔۔!“
“کہاں ہو۔۔۔۔مجھ سے فوراً ملو۔۔۔۔!“
“بہت بہتر۔۔۔۔!“
“میں آفس سے سیدھا گھر جا رہا ہوں۔!“
“ابھی حاضر ہوا۔!“
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیاگیا تھا۔
عمران اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کا مقصد کیا ہے۔۔۔۔اس حادثے کے بعد ہی سے رحمان صاھب کی کوٹھی کی نگرانی ہو رہی ہو گی! یعنی اُس نے ادھر کا رخ کیا ور مارا گیا۔ لیکن اب تو جانا ہی تھا۔۔۔۔روزِ روشن میں وہ راستہ بھی نہیں استعمال کر سکتا تھا جس کے ذریعے اپنے کمرے سے غائب ہو جایا کرتا تھا۔
دفعتاً وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ بلیک زیرو اُسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ شاید پہلی بار اُس نے اُسکے چہرے پر جھنجھلاہٹ کے آثار دیکھے تھے۔​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کوئی خاص بات جناب۔!“ اُس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
“گھر جا رہا ہوں۔!“
“خطرناک۔۔۔۔!“ وہ جلدی سے بولا۔ “گھر کے آس پاس تو اُس نے درجن بھر آدمی چھپا رکھے ہوں گے۔!“
“دیکھا جائے گا۔!“
“میک اپ کے بغیر۔“
“یہی سوچا ہے۔“
وہ رانا پیلس سے نکل کھڑا ہوا تھا۔ ریڈی میڈ میک اپ بھی استعمال کرنے کی زحمت نہیں گوارا کی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی اندھی چال چلنے کا ارادہ رکھتا ہو۔!
پیدل ہی روانہ ہوا تھا۔ ایک جگہ رُک کر ٹیکسی کا انتظار کرنے لگا۔!
چہرے کے عضلات ڈھیلے پڑ گئے تھے۔ آنکھوں میں جھنجھلاہٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔
کچھ دیر بعد ٹیکسی مل گئی تھی اور اُس نے ٹیکسی کو کوٹھی کا پتا بتایا تھا۔
کوٹھی تک پہنچ بھی گیا۔ ٹیکسی کمپاؤنڈ میں داخل ہو گئی۔ سارے اندیشے غلط نکلے تھے۔ یا پھر ٹیکسی کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔
رحمان صاحب اچھے موڈ میں نہیں تھے ، عمران کو دیکھتے ہی برس پڑے۔!
“تم کیا کرتے پھر رہے ہو۔!“
“ابھی تک تو کچھ بھی نہیں کر سکا۔!“
“کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ وہی ہو گا جو پولیس پہلے کرنا چاہتی تھی۔“
“یعنی۔۔۔۔یاسمین کی سوتیلی ماں کی گرفتاری۔!“
“بالکل۔۔۔۔اُس کی بہن کی موت۔۔۔۔!“
“کیا کسی نے اُس کو زینوں سے دھکا دیتے دیکھا تھا۔!“
“وہ نیچے گرنے سے پہلے ہی مر گئی تھی۔!“
“میں نہیں سمجھا۔“
“زہر۔۔۔۔! لاش کا پوسٹ مارٹم بھی ہوا ہے۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران ہونٹ سکوڑ کر رہ گیا۔
“اور اب یہ کیس میرے محکمے کو ریفر کر دیا گیا ہے۔!“
“تو اس کا یہ مطلب ہے کہ علامہ کا پیچھا چھوڑ دیا جائے۔!“
رحمان صاحب کچھ نہ بولے۔
“آپ نے زہر کی بات کی تھی۔“ عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔
“ہاں زہر۔۔۔۔اُسے کھانسی کی شکایت ہو گئی تھی۔۔۔۔ایک کف سیرپ پی رہی تھی۔۔۔۔اُسی میں زہر کی آمیزش پائی گئی۔!“
“کف سیرپ اُس کی موت کے بعد ہی ہاتھ آیا ہو گا۔۔۔۔!“
“ہاں۔!“
“موت کے بعد پولیس تک اطلاع پہنچنے سے قبل خاصا وقت ملا ہو گا سوتیلی ماں کو۔۔۔۔!“
رحمان صاحب کچھ نہ بولے۔۔۔۔عمران کہتا رہا۔۔۔۔“پہلے ایک حادثہ ہو چکا تھا۔ اس لئے سوتیلی ماں کو اس سلسلے میں محتاط ہونا چاہئے تھا۔ پولیس کے پہنچنے سے قبل زہر آمیز کف سیرپ کو شیشی سمیت ضائع کر سکتی تھی۔!“
“میں کب کہتا ہوں کہ مجھے اُس کے مجرم ہونے پر یقین ہے۔!“
“بظاہر حادثاتی موت تھی۔ پوسٹ مارٹم کی تجویز کس کی طرف سے ہوئی۔!“
“ایس پی راشد کا علاقہ ہے۔!“
“اوہ۔۔۔۔!“
رحمان صاحب ٹٹولنے والی نظروں سے اُسے دیکھ رہے تھے۔ عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔“تو پھر آپ کا محکمہ کیا کرے گا۔!“
“بیگم تصدق کو حراست میں لینا پڑے گا۔!“
“بے حد ضروری ہے۔“ عمران بولا۔ “ورنہ شائد تیسرے شکار خود مسٹر تصدق ہوں! کیونکہ اس جرم کو بہرحال بیگم تصدق کے سر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔“
“علامہ والی بات سمجھ میں نہیں آئی۔“
دفعتاً عمران چونک پڑا تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“مسٹر تصدق کے فون نمبر ہیں آپ کے پاس!“ اُس نے رحمان صاحب سے پوچھا۔
“کیوں۔!“
“ضرورت ہے مجھے۔!“
“تم اب اس معاملے سے الگ ہو جاؤ۔!“
“اب الگ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہو سکتا ہے! واپسی میں ختم کر دیا جاؤں۔!“
“کیا مطلب۔۔۔۔! اوہ تو کیا یہ حقیقت ہے کہ علامہ کے شاگردوں کے غائب ہو جانے میں تمہارا ہی ہاتھ تھا۔!“
“جی ہاں۔!“
“شیلا اور پیٹر۔!“
“میں نہیں جانتا کہ کہاں ہیں۔!“ عمران نے کہا۔
“سنو۔! تم میری آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔“ رحمان صاحب غرائے۔!
“سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اُن دونوں کے غائب ہو جانے کے بعد ہی میں نے بقیہ لوگوں کو پکڑا تھا۔! لیکن وہ علامہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔!“
“اب مجھے آخری بات بتا دو۔۔۔۔کیا علامہ کسی طرح سر سلطان کے محکمے کی گرفت میں بھی آ سکتا ہے۔!“
“فی الحال یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔!“
“تو پھر تم کہاں سے آن ٹپکے۔!“
“ثریا نے کہا تھا بیگم تصدق اُس کی کوئی سسرالی رشتہ دار ہوتی ہیں۔!“
“مجھے معلوم ہے۔۔۔۔کیا تم صرف ثریا کے کہنے پر۔۔۔۔!“
“جی ہاں بات تو اُسی نقطے سے شروع ہوئی تھی۔۔۔۔لیکن دیکھئے اختتام کہاں ہوتا ہے! ویسے آپ کا محکمہ اپنا کام کرتا رہے اور میں اپنا دیکھوں گا۔!“
“علامہ کے خلاف کتنے ثبوت فراہم کئے ہیں۔!“
“ثبوت ہی تو فراہم نہیں کر سکا ہوں ابھی تک۔۔۔۔!“
“تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“اب تو میرا بھی یہی خیال ہے! بیگم تصدق پر الزام نہ آنے دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن وہ بہرحال دھر لی جائیں گی۔ لہٰذا میرا انٹرسٹ ختم۔۔۔۔!“
“کیا مطلب۔!“
“مطلب یہ کہ اب دوسرا قصہ شروع ہو گا۔ علامہ مجھے قتل کرا دینے کی کوشش کرے گا۔ اور مجھے اپنا بچاؤ کرنے کے سلسلے میں جو کچھ بھی کرنا پڑے گا۔ وہ آپ کے محکمے کو پسند نہیں آئے گا۔!“
“میں کہتا ہوں کہ کُھل کر بات کرو۔“ رحمان صاحب پیر پٹخ کر بولے۔
“اس کیس کے دوران میں دو بار مرتے مرتے بچا ہوں۔۔۔۔ایک بار جب جوزف کی ٹانگ ٹوٹی تھی۔۔۔۔اور دوسری بار جب موٹر ٹریننگ گراؤنڈ میں دھماکے ہوئے تھے۔!“
“ٹریننگ گراؤنڈ میں دھماکے۔۔۔۔وہاں تو خون بھی ملا تھا۔!“
“وہ سر سلطان کے محکمے کے ایک آدمی کا خون تھا۔!“
“کیا مر گیا۔!“
“نہیں زخمی ہے۔ حالت نازک ہے۔!“
“کہیں کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی گئی۔!“
“سر سلطان جانیں۔!“
رحمان صاحب نڈھال ہو کر بیٹھ گئے تھے۔
پھر اٹھے اور گھنٹی کا بٹن دبا کر دروازے کے قریب ہی کھڑے رہے تھے۔ عمران سر جھکائے بیٹھا تھا۔ گھنٹی کی آواز پر ایک ملازم دوڑا آیا تھا۔
“سارے ملازمین کو یہاں بلاؤ۔“ رحمان صاحب نے اُس سے کہا۔
عمران کے کان کھڑے ہوئے تھے اور اُس نے آنکھیں پھاڑ کر رحمان صاحب کی طرف دیکھا تھا۔ لیکن وہ سختی سے ہونٹ بھینچے خاموش کھڑے رہے۔
جب سارے ملازم وہاں اکٹھا ہو گئے تو انہوں نے عمران کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا۔ “یہ گھر سے باہر قدم نہ رکھنے پائے۔“ اور عمران پیٹ پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
ان ملازمین میں سلیمان بھی شامل تھا اور عمران کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھے جا رہا تھا۔ ادھر عمران کا یہ عالم تھا کہ ہونقوں کی طرح ایک ایک کی شکل تک رہا تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
رحمان صاحب وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔لیکن ملازمین وہیں کھڑے رہے۔ انہوں نے اُن سے پھر کچھ کہا بھی نہیں تھا۔
“چھوٹے صاحب۔!“ سب سے پرانے ملازم نے کچھ کہنا چاہا تھا۔ لیکن عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “اب تو چھوٹے میاں ہی کہو۔!“
“سرکار نے کہیں گلی ڈنڈا کھیلتے ہوئے دیکھ لیا ہو گا۔!“ سلیمان نے دوسرے ملازمین کی طرف مڑ کر کہا۔
“تیرا تو بھس کھینچ کر کھال بھر دوں گا۔۔۔۔تیری لگائی ہوئی آگ ہے۔۔۔۔نالائق۔!“ عمران اسے گھونسہ دکھا کر بولا۔ اتنے میں عمران کی کزنز بھی آ پہنچیں۔۔۔۔اُن کے پیچھے گلرخ تھی۔
“او گلرخ کی بچی۔!“ عمران نے اُسے للکارا۔ “ادھر آ۔۔۔۔!“
“جی صاحب۔۔۔۔!“ وہ سہمی ہوئی آگے بڑھی تھی۔
“یہاں منتقل ہونے کے بعد سلیمان نے ڈیڈی کو اس کی کیا وجہ بتائی تھی۔!“
“ارے بس مجھ سے نہ پوچھئے۔!“
“تیرے علاوہ اور کوئی سچ نہیں بولے گا۔!“
سلیمان نے گلرخ کی طرف دیکھا اور کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ کہنے لگا۔ “پھر کیا بتاتا۔۔۔۔مجھ سے سنیئے۔۔۔۔میں بتاتا ہوں۔!“
“جی نہیں۔۔۔۔آپ خاموش رہئے۔ گلرخ بتائے گی۔ اب بولتی کیوں نہیں۔ اگر یہ تجھے ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے گا تو انشاءاللہ زندگی بھر آنکھ ٹیڑھی ہی رہے گی۔“
ملازمین منہ پھیر کر مسکرائے تھے۔
“اے جاؤ۔۔۔۔تم سب۔۔۔۔“ عمران ہاتھ ہلا کر بولا۔ “سلیمان اور گلرخ ٹھہریں۔“
پھر اُس نے کزنز سے کہا۔ “آپ لوگ بھی چلئے۔۔۔۔ابھی حاضرِ خدمت ہوتا ہوں۔!“
وہ بھی ہنستی ہوئی چلی گئیں تھیں۔ اب عمران نے اٹھ کر سلیمان کا گریبان پکڑا۔
“ارے تو بتا بھی سے جلدی سے! دو سال پرانی قمیض ہے۔!“ سلیمان نے گلرخ سے کہا۔
“صاحب! اس نے بڑے صاحب سے کہا تھا کہ بہت بڑا خطرہ تھا۔ شائد پوری بلڈنگ ڈائنا میٹ سے اڑا دی جاتی۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کیوں بے۔!“ عمران نے گریبان کو جھٹکا دیا۔
“اور کیا کہتا کہ کسی عورت کے ڈر سے بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں۔!“
“کون سی عورت۔!“ عمران نے آنکھیں نکالیں۔
“اگر نام پتہ معلوم ہوتا تو خود ہی نہ جا کر ہاتھ پیر جوڑ لیتا۔!“
“کیا بھنگ پی رکھی ہے تُو نے۔!“
“عورتوں کے علاوہ تو اور کسی سے بھی اس طرح بھاگتے نہیں دیکھا آپ کو۔۔۔۔اور میں تو یہ سمجھتا تھا شائد نوکروں پر بھی ہاتھ چھوڑ دیتی ہے اسی لئے آپ نے ہمیں فلیٹ سے ہٹا دیا ہے۔!“
“تیرا تو میں قیمہ بناؤں گا۔!“
“آپ کے بغیر دل ہی نہیں لگ رہا تھا یہاں۔ خدا سلامت رکھے سرکار کو۔ میں خاص طور پر دیکھوں گا کہ اُن کے حکم کی تعمیل ہو رہی ہے یا نہیں۔!“
“تُو کھڑی سُن رہی ہے اس کی باتیں۔!“ عمران گل رخ کی طرف دیکھ کر غرایا۔
“کیا سچ مُچ کوئی عورت ہی ہے صاحب۔!“ گلرخ نے شرما کر پوچھا۔
“کیا تُو بھی تھپڑ کھانا چاہتی ہے۔“ عمران آنکھیں نکال کر بولا۔ “چل جلدی سے ٹیلی فون ڈائرکٹری اٹھا لا۔“
وہ دوڑتی ہوئی چلی گئی تھی۔ سلیمان خاموش کھڑا ریا۔ عمران کے انداز سے بھی ایسا لگنے لگا تھا جیسے اب اُسے وہاں سلیمان کی موجودگی کا احساس تک نہ ہو۔ پھر گلرخ کی واپسی پر ہی چونکا تھا۔
اُس کے ہاتھ سے ٹیلی فون کی ڈائرکٹری لیتا ہوا بولا۔ “اب اپنے دُم چھلے سمیت دفع ہو جاؤ یہاں سے۔!“
“صاحب آپ ناراض تو نہیں ہیں اس سے۔!“ اُس نے سلیمان کی طرف دیکھ کر کہا۔
“میں نے کہا تھا دفع ہو جاؤ۔!“ وہ ہاتھ ہلا کر بولا۔
اُن کے چلے جانے کے بعد اُس نے ٹیلی فون ڈائرکٹری کی ورق گردانی شروع کی تھی۔ مسٹر تصدق کے نمبر مل جانے پر اٹھا تھا اور اُس کمرے میں آیا تھا جہاں فون رکھا تھا۔
نمبر ڈائیل کئے۔۔۔۔دوسری طرف سے کسی عورت کی بھرائی ہوئی آواز آئی تھی۔
کیا تصدق صاحب تشریف رکھتے ہیں۔!“ عمران نے پوچھا۔​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کون صاحب ہیں۔!“
“تصدق صاحب ہی کو بتا سکوں گا۔!“
“وہ موجود نہیں ہیں۔!“
“بیگم تصدق کو بلا دیجئے۔!“
“میں ہی بول رہی ہوں۔!“
“بیگم صاحبہ! میں مسٹر رحمان کے آفس سے بول رہا ہوں۔!“
“فف۔۔۔۔فرمائیے۔!“
“کیا آپ میاں توقیر محمد جھریام کو جانتی ہیں۔!“
“کیوں! نام سنا ہے۔۔۔۔ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔!“
“نام کس سے سُنا تھا۔!“
“تصدق صاحب سے۔۔۔۔مرحومہ لڑکیوں کے خالہ زاد بھائی ہیں۔!“
“اوہ۔۔۔۔یعنی تصدق صاحب کی پہلی بیوی میاں توقیر کی خالہ تھیں۔!“
“جی ہاں۔۔۔۔!“
“سگی۔۔۔۔!“
“جی ہاں۔!“
“آپ کو اپنے کسی ملازم پر شبہ ہے۔!“
“پہلے ہی پولیس کو بتایا جا چکا ہے کہ ہماری ماما کل دوپہر سے غائب ہے۔۔۔۔!“
“یعنی حادثے سے قبل ہی غائب ہو گئی تھی۔!“
“جی ہاں۔۔۔۔کل سہ پہر کو اُسے واپس آنا تھا۔ آج تک نہیں آئی۔!“
“کہاں رہتی ہے۔!“
"تو اس کا یہ مطلب یہ ہوا کہ وہ پولیس کو اپنے گھر پر بھی نہیں ملی۔!“
عمران ان کے سوال کو نظر انداز کر کے بولا۔ “میاں توقیر کے اور کسی قریبی عزیز کا نام بتا سکیں گی۔!“
“میں اُن لوگوں سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتی! آپ تصدق صاحب سے براہِ راست معلومات حاصل کیجئے۔!“
“بہت بہتر۔۔۔۔شکریہ۔!“ عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ کر طویل سانس لی تھی۔!

 

فرحت کیانی

لائبریرین
ایئر پورٹ سے سیدھی وہ علامہ کے گھر پہنچی تھی۔ رات کے آٹھ بجے تھے۔۔۔۔جیسے ہی علامہ کے پاس اُس کا کارڈ پہنچا تھا وہ خود ہی اُس کی پذیرائی کے لئے برآمدے میں نکل آیا تھا۔
“خوش آمدید۔۔۔۔فرحانہ۔۔۔۔!“ اُس نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
“بڑی تھکن محسوس کر رہی ہوں۔ ایئرپورٹ سے سیدھی ادھر ہی چلی آئی ہوں۔!“
“چلو۔۔۔۔اندر چلو۔!“
وہ سٹنگ روم میں آئے تھے۔
“مشن کامیاب رہا ہے۔!“ وہ بیٹھتی ہوئی بولی۔
“مجھے ہمیشہ سے تمہاری صلاحیتوں پر اعتبار رہا ہے۔!“
“اُس نے شادی کی درخواست پیش کر دی ہے۔!“
“زندہ باد۔۔۔۔!“
“لیکن اب کیا ہو گا۔!“
“شادی۔۔۔۔!“ علامہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا مسکرایا۔
“جی۔۔۔۔!“ فرحانہ جاوید بوکھلا کر اٹھ گئی۔
“بیٹھو۔۔۔۔بیٹھو! اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔!“
“مم۔۔۔۔میں۔۔۔۔نہیں۔!“ وہ نڈھال ہو کر صوفے پر گر پڑی۔
“اوہ۔۔۔۔کیا ہو رہا ہے تمہیں۔۔۔۔!“ علامہ اٹھ کر اس کی طرف بڑھا۔ فرحانہ کے اعضاء میں تشنج سا ہونے لگا تھا۔ پیشانی پسینے سے بھیگ گئی تھی۔
“فرحانہ۔!“ علامہ نے جھک کر اُسے آواز دی۔
“جی۔۔۔۔!“ وہ نحیف سی آواز میں بولی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“تمہیں کیا ہو رہا ہے۔!“
“مم۔۔۔۔میں۔۔۔۔اب مر جانا چاہتی ہوں۔!“
“بیوقوفی کی باتیں مت کرو۔!“
“یقین کیجئے۔! آپ کی زبان سے یہ سننے کے بعد زندہ رہنے کی خواہش نہیں رہی۔!“
“آخر کیوں۔!“
“اس لئے کہ آپ کے علاوہ اور کسی مرد کا تصور میرے قریب بھی نہیں پھٹکا۔۔۔۔!“
“مم۔۔۔۔میرا۔۔۔۔تصور۔!“ علامہ کی زبان لڑکھڑا گئی۔۔
“جی ہاں۔!“ فرحانہ کی آواز گھٹنے لگی تھی۔
“یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔!“
“میں دل کی گہرائیوں سے کہہ رہی ہوں۔ کبھی زبان نہیں کھولی لیکن اب میری برداشت سے باہر ہے۔ یا آپ یا کوئی نہیں۔۔۔۔اُس ےس بہتر تو موت ہو گی کہ میں خود ہی اپنے جذبات کا گلا گھونٹ دوں۔!“
“میں نے تو تمہارے مستقبل کے لئے ایک خواب دیکھا تھا۔!“
“اسے خواب ہی رہنے دیجئے! اگر حقیقت بنا تو میں بے موت مر جاؤں گی۔!“
علامہ کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار تھے اور خود اُسکی پیشانی سے بھی پسینہ پھوٹ رہا تھا۔
“تت۔۔۔۔تم نے مجھے دشواری میں ڈال دیا ہے فرحانہ۔۔۔۔میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔!“
“کیا میں کسی قابل نہیں ہوں۔!“
“یہ بات نہیں ہے! تمہیں اپنا کر مجھے بے حد خوشی ہوتی۔ لیکن میں ایک بد نصیب آدمی ہوں۔!“
“میں تو ایسا نہیں سمجھتی۔!“
“کاش! تمہیں پہلے ہی سے میرے اس ذہنی مرض کا علم ہوتا۔!“
“کس ذہنی مرض کا۔!“
علامہ کوئی جواب دیئے بغیر مڑا اور تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا اُس کرسی کی طرف آیا جس پر کچھ دیر پہلے بیٹھا تھا۔ بے سُدھ ہو کر کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔


اختتام
ص 236-345
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top