بیچارہ شہزور۔ ص 206-215

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
پھر اُس کمرے کی طرف چل پڑا جہاں برنارڈ کو رکھا گیا تھا۔
تنویر کی وجہ سے سخت تشویش میں مبتلا ہو گیا تھا۔ ابھی تک اُس کی بیہوشی رفع نہیں ہوئی تھی۔ بہت زیادہ خون ضائع ہو گیا تھا۔ سائیکو مینشن کے ڈاکٹر اُس کی جان بچانے کے لئے ہر امکانی تدبیر کر رہے تھے۔
وہ برنارڈ کے کمرے میں داخل ہوا جو ابھی سویا نہیں تھا۔ اُسے دیکھتے ہی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔
عمران نے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
“میں تمہارا شکرگزار ہوں۔۔۔۔!“ برنارڈ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “یہاں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔!“
“آج اُس نے پھر میرے ایک آدمی کو شدید زخمی کر دیا ہے۔!“
“کس نے؟“
“شہزور کی بات کر رہا ہوں۔“ عمران اُسے گھورتا ہوا بولا۔
“براہِ راست ٹکراؤ۔“ برنارڈ کے لہجے میں حیرت تھی۔
عمران نے سر کو جنبش دی اور بدستور اُس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
“کہاں اور کیسے۔۔۔۔؟“
عمران نے پورا واقعہ دہرا دیا۔ برنارڈ متفکر نظر آنے لگا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ بولا۔ “مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے اُس نے خود ہی تم لوگوں کو اپنے تعاقب پر اکسایا ہو۔!“
“اب میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔“
“پورا واقعہ بتاؤ۔!“
عمران نے تھیلما کی کہانی شروع کر دی۔ برنارڈ ہمہ تن توجہ بنا سنتا رہا۔ عمران کے خاموش ہونے پر بولا تھا۔ “اگر وہ تھیلما سے کانٹی نینٹل کے اُس کمرے میں ایک ملاقات کر لینے کے بعد بھی وہیں جما رہا تھا تو یقین کرو کہ وہ تمہارا ہی منتظر رہا ہو گا۔ اچھی طرح جانتا تھا کہ تم تھیلما سے سب اگلوا لو گے اور وہ آخری جائے ملاقات کا ذکر تم سے ضرور کرے گی۔!“
“میں بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہوں۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“وہ بھیڑیا ہے۔ عمران صاحب۔!“
“کیا تم شہزاد یونٹ کے واجد نامی کسی آدمی سے واقف ہو۔؟“
“نہیں میرے لئے یہ نام نیا ہے۔ کوئی اہم آدمی نہ ہو گا۔!“
“شہزاد نے اُسے علامہ دہشت کی نگرانی پر مامور کیا تھا۔ اور ایسے مواقع فراہم کئے تھے کہ علامہ اُسے باورچی کی حیثیت سے اپنے یہاں ملازم رکھ لے۔“
“تم پہلے بھی علامہ دہشت کا ذکر کر چکے ہو۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اُس کا ان لوگوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔“
“شہزاد اُس کا شاگرد رہ چکا ہے۔“
“اور بھی زیادہ حیرت کی بات ہے کہ وہ اپنے اُستاد کی نگرانی کر رہا تھا۔“
“اس کے علاوہ واجد کی ایک ڈیوٹی اور بھی تھی۔۔۔۔وہ ہر سینچر کی شب کسی سفید فام ہپی عورت کو پھانستا تھا اور اُسی ہٹ میں پہنچا دیتا تھا جس میں تم ٹھہرائے گئے تھے۔“
“نہیں!“ برنارڈ اُچھل پڑا۔
“ میں حقیقت بیان کر رہا ہوں۔“
“اور میرے اُس ہٹ میں پہنچنے سے قبل ہی واجد تمہارے ہاتھ لگ گیا تھا۔!“
“یہ بھی حقیقت ہی ہے۔“
“خدا کی پناہ۔۔۔۔تو اُس نے تمہیں پھانسنے کے لئے مجھے چارہ بنایا تھا۔!“
“صحیح نتیجے پر پہنچے ہو تم۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔
“کیا واجد کو علم تھا کہ وہ اُن عورتوں کو کس لئے اُس ہٹ میں پہنچاتا رہا ہے۔!“
“نہیں وہ اس سے لاعلم تھا۔! اُس کا کام صرف اتنا تھا کہ عورتوں کو ہٹ تک پہنچا کر واپس ہو جائے اور یہ جاننے کی کوشش نہ کرے کہ اُس ہٹ میں کون رہتا ہے۔!“
“یہ ہدایات اُسے کس سے ملی تھیں؟“
“شہزاد سے۔۔۔۔اور وہ سینچر ہی کا دن تھا جب وہ ایک ہپی عورت پر ڈورے ڈالتا ہوا میرے ہاتھ لگا تھا۔ اس لئے اُس رات کوئی عورت اُس ہٹ میں نہیں پہنچ سکی تھی۔!“
“بس تو پھر شہزور نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ کیا ہوا ہے۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ایسا ہی کچھ ہوا ہے ورنہ وہ تمہیں اُسی ہٹ میں ٹھہرا کر مجھے تمہاری راہ پر ڈالنے کی کوشش نہ کرتا۔!“
“لیکن تم ابھی تک اُس کے ہاتھ نہیں آ سکے۔۔۔۔اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ بھی تم سے کسی قدر خائف معلوم ہوتا ہے۔ تم نے اُسے خاصی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اوہ ٹھہرو۔۔۔۔اب یاد آ رہا ہے۔۔۔۔اُس نے کسی واجد کا ذکر کیا تھا مجھ سے۔۔۔۔اور یہ بھی کہا تھا کہ واجد کو اُس رات اُس کیلئے کوئی کام کرنا تھا۔ لیکن وہ غائب ہو گیا۔ اور یہ شبہ بھی ظاہر کیا تھا کہ کہیں وہ تمہارے ہاتھ نہ لگا ہو۔ کیا وہ گرین بیچ ہوٹل میں تمہارے ہاتھ لگا تھا۔!“
“ہاں۔۔۔۔وہیں۔۔۔۔!“
“اُسے اس کا بھی علم تھا کہ واجد ساڑھے بارہ بجے گرین بیچ ہوٹل میں دیکھا گیا تھا۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔خدایا۔۔۔۔کتنا شاطر ہے وہ۔!“
عمران کچھ نہ بولا۔
“اُس کے ہتھ کنڈوں سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہو گا۔“ برنارڈ نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ “کیا خیال ہے تمہارا۔۔۔۔میں کس طرح اُس کے قابو میں آیا ہونگا۔ جبکہ میں خود بھی اپنا ذاتی ایک بڑا بزنس رکھتا تھا۔!“
“مجھے اندازہ ہے۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔ “اُسی بڑے ذاتی بزنس کی بناء پر ایک ایک بار دھر لئے گئے تھے۔ اور پھر حیرت انگیز طور پر رہا ہو گئے تھے۔ یہ بات عدالت تک نہیں پہنچ پائی تھی۔“
“اسی مردود نے گرفتار کرایا تھا۔ اور پھر رہائی بھی دلائی تھی۔ اس طرح اپنا ممنونِ احسان بنا کر اُس نے اپنے کام کرنے پر آمادہ کیا تھا۔۔۔۔! اور تمہیں حیرت ہو گی کہ انہی ذمہ دار حضرات نے مجھے گرفتار کیا تھا جنہیں میں باقاعدگی سے بڑی بڑی رقوم ادا کرتا رہتا تھا۔!“
“سب کچھ ہے میری نظر میں۔۔۔۔سب جانتا ہوں۔!“
“لیکن افسوس۔۔۔۔شاید اُس پر ہاتھ نہ ڈال سکو۔ اُس کی جڑیں بہت گہرائی تک ہیں۔!“
“دیکھا جائے گا۔!“
“عمران جسے تم اُس کی شکست سمجھ رہے ہو کہیں وہ اُس کی حکمتِ علمی نہ ہو! دیدہ و دانستہ چھوٹ دے کر نکل جاتا ہو۔ اور دراصل ہو کسی خاص موقع کے انتظار میں۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“مجھے اُس کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں۔ میں تو زیادہ تر علامہ دہشت میں الجھا رہتا ہوں۔ میری کہانی اُسی سے شروع ہوئی تھی۔ یہ شہزور نہ جانے کہاں سے آ کودا۔!“
“لیکن ہم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہمارا کوئی تعلق یونی ورسٹی کے کسی پروفیسر سے بھی ہو سکتا ہے۔! ویسے ایک بار پھر تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ شہزور کے ساتھ محتاط رہنا۔ اُسے کسی معاملے میں غافل نہ سمجھنا۔!“
“سوال تو یہ ہے کہ۔۔۔۔!“ عمران کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔
برنارڈ اُسے بغور دیکھے جا رہا تھا۔ لیکن کچھ بولا نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد عمران اٹھتا ہوا بولا۔ “دیکھا جائے گا۔!“
وہ پھر اُسی کمرے میں واپس آیا تھا۔ جو اُس کے لئے مخصوص تھا۔ پُرتفکر انداز میں فون کا ریسیور اٹھایا اور بلیک زیرو کے نمبر ڈائیل کرنے لگا۔
دوسری طرف سے ریسیور اٹھنے کی آواز سُن کر بولا۔ “ہیلو بلیک زیرو۔۔۔۔بہت احتیاط سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ ایس پی راشد اور کسٹم کے ڈی سی راجن بھی علامہ کے شاگرد رہ چکے ہیں یا نہیں۔“
“بہت بہتر جناب۔!“
“صبح تک رپورٹ دے سکتے ہو۔“ کہہ کر عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

۔۔۔۔۔

تھیلما بستر پر چت پڑی ہوئی تھی۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں لیکن کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ جاگ رہی تھی۔ پوری طرح ہوش میں تھی۔ آوازیں بھی سُن رہی تھی۔ لیکن آنکھوں کو کیا ہو گیا تھا۔
زرد رنگ کا ایک بڑا سا روشن دائرہ تھا جو مسلسل آنکھوں کے سامنے گردش کئے جا رہا تھا۔ صرف روشن دائرہ اور کچھ بھی نہیں۔ دونوں ہاتھ ادھر پھیلا کر اُس نے بستر کو ٹٹولا تھا اور زور زور سے چیخنے لگی تھی۔ پھر نادر سلمانی کا نام لے کر پکارا تھا۔
“کیا بات ہے! کیوں چیخ رہی ہو؟“ اُس نے سلمانی کی آواز سنی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“میں کہاں ہوں۔۔۔۔مجھے کیا ہو گیا ہے۔!“
“تم اپنے بستر پر لیٹی ہو۔۔۔۔لیکن میں کیا بتا سکوں گا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے۔!“
“یہ کیسا روشن دائرہ ہے۔۔۔۔تم کہاں ہو۔۔۔۔مجھے نظر کیوں نہیں آ رہے۔۔۔۔!“
نہ یہاں کوئی روشن دائرہ ہے۔۔۔۔اور نہ میں تمہاری نظروں سے اوجھل ہوں۔ تم مجھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھے جا رہی ہو۔!“
“میری بینائی۔۔۔۔میری بینائی۔!“ وہ حلق پھاڑ کر چیخی۔
“ہائیں تو کیا اندھی ہو گئی ہو۔!“
“خاموش رہو۔۔۔۔!“ وہ حلق پھاڑ کر دھاڑی تھی۔ “مجھے یاد آ گیا ہے میری گردن پر تم نے کوئی وزنی چیز ماری تھی۔!“
“اور تم فوراً بیہوش ہو گئی تھیں۔!“ سلمانی چہک کر بولا۔
“مجھے کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ میں تمہیں مار ڈالوں گی۔!“
“کوشش کرو۔۔۔۔!“ وہ پیچھے ہٹتا ہوا بولا۔ “اگر تم ہمیشہ کے لئے اندھی ہو گئی ہو تو مجھے بے حد خوشی ہو گی۔!“
“چُپ رہو درندے۔!“
“میں بیچارہ پدی۔۔۔۔تم مجھے درندہ کہہ رہی ہو۔!“
“خاموش رہو۔۔۔۔میری آنکھیں۔۔۔۔میری آنکھیں۔ میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گی۔ تمہاری ضرب سے میں اندھی ہو گئی۔!“
“نہیں چرس کے دھوئیں نے تمہارا یہ حشر کیا ہے۔ اب بلاؤ اُس منحوس ہپی کو۔۔۔۔کوبرا۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔عنقریب اُس کا بھی یہی حشر ہو گا میرے ہاتھوں۔!“
“چلے جاؤ۔۔۔۔یہاں سے۔!“
“فون نمبر بتاؤ اُس کا۔۔۔۔اُسے بھی خوش خبری سنا دوں کہ اب تم اُس کے فولادی ڈھانچے کو نہیں دیکھ سکو گی۔!“
“میں تمہیں مار ڈالوں گی۔!“ وہ چنگھاڑتی ہوئی اٹھ گئی۔
“پڑی رہو چپ چاپ ورنہ دیواروں سے ٹکرا کر مر جاؤ گی۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“سلمانی! میں تہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔“
“سلمانی تو کب کا مر چکا ڈارلنگ۔۔۔۔یہ اُس کا بھوت ہے اور کسی بھوت کو مار ڈالنا نا ممکن۔!“
“میں کہتی ہوں چلے جاؤ یہاں سے۔!“
“پھر اندھی کی لاٹھی کون بنے گا۔ وہ فولادی ڈھانچہ یا یہ حقیر پدی۔!“
“میری آنکھیں۔۔۔۔میری آنکھیں۔!“ وہ پھر ہذیانی انداز میں چیخنے لگی۔
پھر چکرا کر گری تھی اور دوبارہ بیہوش ہو گئی تھی۔
سلمانی کے دانت نکل پڑے۔ عجیب سی وحشیانہ مسرت اُسکی آنکھوں میں رقص کر رہی تھی۔
وہ بستر کے قریب ہی کھڑا اُسے دیکھے جا رہا تھا۔۔۔۔دفعتاً فون کی گھنٹی بجی تھی۔
اُس نے جھپٹ کر ریسیور اٹھا لیا۔
لیکن دوسری طرف کی آواز سن کر اُس کی آنکھوں میں مایوسی مترشح ہونے لگی تھی۔
“کون ہے؟“ اس نے بے دلی سے پوچھا۔
“کیا سلمانی صاحب ہیں؟“
“ہاں میں ہی بول رہا ہوں۔“
“میں ہوں بیچارہ ذہنی مریض۔“
“اوہ۔۔۔۔کیا بات ہے۔!“
“کیا پوری بات اب بھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئی۔“
“کیا کہنا چاہتے ہو۔“
“یہی کہ میں بھی اُسی مردود کا ستایا ہوا ہوں جس جے منحوس سائے نے آپ کی زندگی تلخ کر رکھی ہے۔“
“میں نہیں سمجھا تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔؟“
“کیا اُس کی کوئی کال آئی تھی!“
“کس کی کال۔!“
“کوبرا کی۔!“
“تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“میری مراد اُس ہپی سے ہے جسے آپ کی بیگم صاحبہ کوبرا کے نام سے جانتی ہیں۔!“
“تم ہو کون۔!“
“وہی جس کا کھیل آپ نے بگاڑ دیا تھا۔ آپ نے نہیں بلکہ آپ کی گاڑی نے۔“
“اوہ۔۔۔۔تو تم ہو۔!“
“جی ہاں۔!“
“دوپہر کو اُس کی کال آئی تھی۔!“
“کیا کہہ رہا تھا۔!“
“مجھ سے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ تھیلما سے بات کرنا چاہتا تھا۔!“
“اور وہ موجود نہیں تھیں۔!“
“یہی سمجھ لو۔!“
“کچھ اندازہ ہے کہ کال کہاں سے آئی تھی۔!“
“نہیں۔۔۔۔یہ تو معلوم ہی نہیں ہونے دیتا۔ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔“
“فی الحال ناممکن ہے۔۔۔۔وہ بھی میری طرف سے غافل نہیں ہے۔!“
“ذہنی مریض کا کیا قصہ تھا۔!“
“میرا ہی ایک آدمی تھا جو اُس کے ایک ٹھکانے کی نگرانی کر رہا تھا! توقع تھی کہ وہ خود ہی اُس کی خبر لینے ستنام ہاؤز پہنچے گا۔ لیکن اُس نے اپنا ایک آدمی بھجوا دیا تھا! بہرحال اب وہ آدمی زیرِ حراست ہے۔ لیکن وہ بھی اُس کے اصل ٹھکانے سے واقف نہیں ہے۔“
“لیکن میں ایک ایسی عورت کو جانتا ہوں جو شائد واقف ہو۔! لیکن اگر میں چاہوں کہ مجھے بتا دے تو یہ ممکن نہ ہو گا۔!“
“آ ہا۔ مجھے بتاؤ۔۔۔۔اُگلوا لینا میرا کام ہو گا۔!“
“ڈورا کرسٹی۔۔۔۔آسٹریلین بوتیک کی مالکہ۔۔! بوتیک کے اوپر والے فلیٹ میں رہتی بھی ہے۔!“
“عمارت کہاں ہے۔“ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
“عالمگیر روڈ پر شاہین بلڈنگ۔۔۔۔!
“بہت بہت شکریہ۔۔۔۔لیکن تمہیں اس کے بارے میں کیسے معلوم ہوا۔۔۔۔؟“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“تھیلما سے! کبھی کبھی وہ بہت نشے کی حالت میں اُسے گالیاں دیتی ہوئی سنی جاتی ہے۔!“
“کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔!“
“نہیں۔۔۔۔سو فیصد کوبرا۔۔۔۔صرف گالیوں ہی پر اکتفا نہیں کرتی۔۔۔۔بعض کہانیاں بھی دہراتی ہے۔!“
“اچھا۔۔۔۔شکریہ۔۔۔۔!“
“میں تم سے کہاں مل سکتا ہوں۔!“ سلمانی نے پوچھا تھا لیکن اپنا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی سلسلہ منقطع ہونے کی آواز سن لی تھی۔ ریسیور رکھ کر اُس نے طویل سانس لی اور کمرے سے نکل آیا۔ خیالات میں کھویا ہوا سٹنگ روم میں جا بیٹھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر تھیلما سچ مچ اپنی بینائی کھو بیٹھی ہے تو وہ بڑی دشواری میں پڑ جائے گا۔ وہ ضرور عدالت سے رجوع کرے گی۔
کچھ دیر بعد پھر تھیلما کی خواب گاہ میں داخل ہوا تھا لیکن تھیلما بستر پر نہ دکھائی دی۔ اُس نے باتھ روم کے دروازے کی طرف دیکھا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔! تھوڑی دیر بعد تھیلما باتھ روم سے برآمد ہوئی تھی۔ اُس کے بال بھیگے ہوئے تھے۔ شاید سر دھویا تھا۔
“مجھے آواز دے لی ہوےی۔!“ سلمانی نے مغموم لہجے میں کہا تھا۔
وہ کچھ نہ بولی۔ اندھوں کی طرح ٹٹولتی ہوئی بستر کی طرف بڑھتی رہی۔ سلمانی کرسی سے اٹھ کر اس کی جانب بڑھا تھا۔ اچانک تھیلما اُس پر ٹوٹ پڑی۔ حملہ قطعی غیر متوقع تھا۔ سلمانی گڑبڑا کر ڈھیر ہو گیا۔ وہ اسے دبوچ بیٹھی۔
“اب بتاؤ۔۔۔۔!“ وہ دانت پیس کر بولی تھی۔ “کیا میں تمہیں زندہ چھوڑ دوں گی۔!“
“ڈڈ۔۔۔۔ڈاکٹر۔۔۔۔کو فون کیا ہے میں نے۔۔۔۔ماہرِ امراضِ چشم۔!“
“دانتوں کی مرمت کرنے والے کو فون کیا ہوتا۔۔۔۔کیونکہ اب تمہاری شکل مشکل ہی سے پہچانی جا سکے گی۔“ کہتے ہوئے اُس نے اُس کے چہرے پر سچ مچ مکے مارنے شروع کر دیئے تھے۔!
سلمانی سے کہیں زیادہ طاقتور تھی۔۔۔۔لہٰذا وہ بےبسی سے پٹتا رہا۔۔۔۔پٹتا رہا اور حلق پھاڑ پھاڑ کر اپنی مادری زبان میں اُسے نوازتا بھی رہا۔
“تم سمجھے تھے شائد میں سچ مچ اندھی ہو گئی ہوں۔۔۔۔وہ وقتی اثر تھا۔ نشے اور اُس چوٹ کا جو میری گردن پر لگی تھی۔۔۔۔سر پر ٹھنڈا پانی ڈالتے ہی دیکھنے لگی ہوں۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“چھوڑو مجھے۔“ وہ اُس کی گرفت سے نکل جانے کے لئے مچلا تھا۔
“میں نے کبھی تمہیں اتنی بے دردی سے نہیں مارا تھا۔ اگر میری گردن کی ہڈی ہی ٹوٹ جاتی تو۔!“
“میں نے آہستہ سے مارا تھا۔ تم بہت زیادہ نشے میں تھیں۔!“
“مت بکواس کرو جھوٹے۔۔۔۔!“
“میں قانون داں ہوں۔۔۔۔ایسی حماقت نہیں کر سکتا۔ تم بہت زیادہ نشے میں تھیں۔!“
“کچھ بھی ہو۔۔۔۔۔! میں تمہارا چہرہ اس حد تک بگاڑ دوں گی کہ تم کئی دنوں تک گھر سے باہر نہ نکل سکو گے۔!“
“نہیں۔۔۔۔نہیں۔!“ وہ خوفزدہ سی آواز میں چیخا۔
لیکن اُس کے بڑھے ہوئے ناخن سلمانی کے چہرے پر خراشیں ڈالنے لگے تھے۔!

۔۔۔۔۔۔​


جیمسن سوئیمنگ پول کے کنارے بیٹھا ظفرالملک کو ڈائیو کرتے دیکھ رہا تھا۔ ایک لڑکی سے اُس کا مقابلہ شروع ہو گیا تھا۔ دوسرے ڈائیو کرنے والوں نے اُس شغل سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور صرف تماشائی بن گئے تھے۔
دراصل سیدھی سادی ڈائیونگ ہو رہی تھی۔ ایک سفید فام لڑکی نے قلابازی کھانے کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ دوسری بار ظفر الملک نے دو قلابازیاں کھائیں۔ لرکی نے اپنی باری میں تین قلابازیوں کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہی۔ ظفر الملک نے تین پوری کر دکھائیں۔ لڑکی نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ برابر کوشش کئے جا رہی تھی۔ آخر کار کچھ دیر بعد اُسے کامیابی ہو گئی۔ ظفر الملک نے جیمسن کو آنکھ ماری تھی اور پھر سیڑھیوں کی طرف ڈور گیا تھا۔ اس بار اُس نے چار قلابازیاں کھائیں تھیں۔۔۔اور تیرتا ہوا کنارے پر پہنچ گیا تھا۔۔۔۔! اچھل کر جیمسن کے برابر جا بیٹھا۔
“کیا فائدہ ہوا۔۔۔۔یور ہائی نس۔۔۔۔جیمسن نے خشک لہجے میں پوچھا۔
“تم پر ہر وقت فائدہ اور نقصان کیوں سوار رہتا ہے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“چوتھی اُس سے نہیں ہو سکے گی اور پانچویں کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کہیں ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ بیٹھے۔“
“لیکن۔۔۔۔وہ دیکھو۔۔۔۔وہ اوپر پہنچ گئی ہے۔“
لڑکی نے چھلانگ لگائی لیکن اس بار تین قلابازیاں بھی نہ ہو سکیں۔ دو ہی کر پائی تھی۔!“
دفعتاً کسی جانب سے ایک سفید فام غیر ملکی ان کے قریب آ دھمکا اور ظفر الملک سے بولا۔ “یہ تم نے کیا شروع کر دیا ہے۔!“
“کیا اس پر کوئی پابندی ہے۔“ ظفرالملک کا لہجہ کسی قدر تیکھا تھا۔
“اس پر رحم کرو۔۔۔۔اور یہاں سے چلے جاؤ۔!“
“بڑی عجیب فرمائش کی ہے تم نے۔!“
“میں استدعا کرتا ہوں۔!“
“ہم جا رہے ہیں۔!“ جیمسن اٹھتا ہوا بولا۔
ظفر الملک نے اُسے گھور کر دیکھا تھا لیکن پھر اُسے بھی اٹھنا ہی پڑا تھا۔ جیمسن اس طرح نہ اٹھ جاتا تو شائد اس اجنبی کی بکواس پر توجہ تک نہ دیتا۔
وہ تیزی سے اُس طرف چل پڑے تھے۔ جہاں اُنہوں نے اپنے سوٹ رکھے تھے۔ جیمسن تھا تو پیراکی کے لباس میں لیکن اُس نے پانی میں قدم تک نہیں رکھا تھا۔ اُس کا قول تھا۔ “پانی اتنا ہی ہونا چاہئیے کہ ڈاڑھی نہ بھیگنے پائے۔“ ڈاڑھی کے بھیگ جانے کو پانی سر سے گزر جانے کے مترادف سمجھتا تھا۔
“اس گدھے پن کے مظاہرے کا مطلب۔!“ ظفر الملک نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔
“اور نہیں تو کیا۔ پانی میں کودنے کے سلسلے میں اُس سے جھگڑا کرتے۔ کتنی غیر فلسفیانہ بات ہوتی یور ہائی نس۔!“
“کیا مطلب۔۔۔۔!“
“آپ خود سوچئے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ قلابازیوں پر جھگڑا۔۔۔۔!“
“بس خاموش رہو۔۔۔۔!“
“وہ تو رہتا ہی ہوں۔ لیکن آپ بولنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آج کل میں ڈیا جینز کو پڑھ۔۔۔۔

اختتام​
ص 206-215​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top