بینک کارڈ، ڈی این اے ٹسٹ

فرید احمد

محفلین
اسلامک فقہ اکیڈمی کا حوالہ پہلے دے چکا ہوں ، ابھی اس کا پندرہواں سیمینار ہوا ، غیر ملکی مثلا سوڈان اور ایران اور امارات کے فقہائ نے بھی اس میں شرکت کی ، شاید ان کی سائٹ کا اپ ڈیٹ کا نظام فعال نہیں ۔ اس لیے حالیہ سیمینار کی تجاویز ابھی تک اس پر آئی نہیں ۔
جس مدرہ میں میں مدرس ہوں
[link=www.jamiahjambusar.com/urdu:8f9e9d1a1a](جامعہ علوم القرآن، جمبوسر ،گجرات، انڈیا)[/link:8f9e9d1a1a] وہاں کے مہتمم ( پرنسپل) مولانا مفتی احمد دیولا اکیڈًی کے رکن شوری ہے ، وہ اور ان کے صاحب زادے مفتی اسجد صاحب اس سیمینار میں شریک تھے ، جو تجاویز پاس ہو کر یہاں پہنچی وہ اس طرح ہیں :

بینک سے جاری ہونے والے کارڈ :
1۔۔۔ چونکہ معاملات میں اصل اباحت ہے ، اس لیے اے ۔ ٹی ۔ ایم ۔ A . T . M . کارڈ جس کے ذریعہ مشین سے اپنی جمع کردہ رقم نکالی جاتی ہے ، اس کے استعمال میں شرعا کوئی قباحت نہیں ۔

2۔۔۔۔ ڈبیٹ کارڈ کا استعمال اس کے ذریعہ خرید و فروخت اور ایک کھاتہ سے دوسرے کھاتہ میں رق کی منتقلی درست اور جائز ہے ۔

3 ۔۔۔۔ اے ۔ ٹی ۔ ایم ۔ کارڈ اور ڈیبیٹ کارڈ کے حصول اور استعمال کے لیے جو رقم ادا کی جاتی ہے وہ کارڈ کا معاوضہ اور سروس چارج ہے ، اس لیے اس کا ادا کرنا چائز ہے ۔


4 ۔۔۔۔ کریڈٹ کارڈ کی مروج صورت چونکہ سودی معاملہ پر مشتمل ہے ، لہذا کریڈٹ کارڈ یا اس قسم کے کسی کارڈ کا حاصل کرنا جائز نہیں ہے ۔


میڈیکل انشورنش
شریعت اسلامی میں جوئے کی کوئی بھی شکل جائز نہیں ، اس وقت میڈیکل انشورنش کی جو صورت رائج ہے ، وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے جوا میں شامل ہے ، اور اس نے علاج کو خدمت کے بجائے نفع آور تجارت بنا دیا ہے ۔ اس پس منظر میں سیمینار نے میڈیکل انشورنش کے بارے میں درج ذیل فیصلے کیے ہیں :


1 ۔۔۔۔ میڈیکل انشورنش ، انشورنش کے دوسرے تمام شعبوں کی طرح بلاشبہ مختلف قسم کے ناجائز امور پر مشتمل ہے ، لہذا عام حالات میں میڈیکل انشورنش ناجائز ہے ۔ اور اس حکم میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

2 ۔۔۔۔ اگر قانونی مجبوری کے تحت میڈیکل انشورنش لازمی ہو تو اس کی گنجائش ہے ، لیکن جمع کردہ رقم سے زائد جو علاج میں خرچ ہو ، صاحب استطاعت کے لیے اس کے بقدر بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے ۔

3 ۔۔۔۔ موجودہ مروج انشورنش کا متبادل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ممکن ہے ، اور آسان صورت یہ ہے کہ مسلمان ایسے ادارے و نظام قائم کریں ، جن کا مقصد علاج و معالجہ کے ضرورت مندوں کی ان ضرورت کے مطابق مدد کرنا ہو ۔

جنیٹک ٹسٹ ۔

۔۔۔۔ موجودہ سائنسی ترقی نے انسانیت کو بہت سے فائدے پہنچائے ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی نقطہ نظر سے اس مین بعض منفی پہلو بھی موجود ہیں ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی جنیٹک سائنس یا D.N.A. ٹسٹ ہے ، چنانچہ جنیٹک سائنس کے سلسلے میں جو تجویزیں پاس ہوئیں ، وہ اس طرح ہیں ۔

1۔۔۔۔ اگر جنیٹک ٹسٹ کے ذریعہ یہ ثابت ہوجائے کہ رحم مادر میں پرورش پانے والا بچہ ایسا ناقص العقل اور ناقص الاعضاء ہے جو ناقابل علاج ہے ، اور پیدائش کے بعد اس کی زندگی ایک بوجھ اور اس کے گھر والوں کے لیے تکلیف دہ رہے گی تو ایسی صورت میں حمل پر ایک سو بیس دن گذرنے سے پہلے پہلے والدین کے لیے اس کا اسقاط جائز ہے ۔

2۔۔۔۔ اگر جنیٹک تسٹ کے ذریعہ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی شخص کی اگلی نسل میں پیدائشی نقائص کے امکانات ہیں ، تو اس اندیشہ کے پیش نظر سلسلہ تولید روکنا قطعا ناجائز ہے ۔

3 ۔۔۔۔ اگر جنیٹک ٹسٹ کے ذریعہ کسی شخص کے بارے میں یہ اندیشہ ہو کہ وہ آئندہ مجنون یا کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے ، جو شرعا فسخ کا سبب ہے تو فسخ نکاح کے لیے محض یہ ٹسٹ کافی نہیں ۔

4۔۔۔ علاج کی غرض سے امراض کی شناخت اور تحقیق کے لیے جنیٹک ٹسٹ اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ۔



D.N.A. ٹسٹ
D.N.A. کے سلسلے میں سیمینار نے حسب ذیل فیصلے کیے ہیں ۔

1 ۔۔۔۔ جس بچے کا نسب شرعی اصول کے مطابق ثابت ہو اس کے بارے میں ڈی این اے ٹسٹ کے ذریعہ اشتباہ پیدا کرنا شرعا جائز نہیں ہے ۔

2 ۔۔۔۔ اگر کسی بچے کے بارے میں چند دعوے دار ہوں اور کسی کے پاس واضح شرعی ثبوت نہ ہو تو ایسے بچے کا نسب ڈی این اے ٹسٹ کے زریعہ متعین کیا جا سکتا ہے ۔

3 ۔۔۔۔ جو جرائم موجب ھد و قصاص ہیں ، ان کے ثبوت کے لیے منصوص طریقوں کے بجائے ڈی این اے ٹسٹ کا اعتبار نہیں ہوگا ۔

4 ۔۔۔۔ حدود و قصاص کے علاوہ دوسرے جرائم کی تفتیش میں ڈی این اے ٹسٹ سے مدد کی جا سکتی ہے ، اور قاضی ضرورت محسوس کرے تو اس پر مجبور بھی کر سکتا ہے ۔
 
Top