بہروپیا

نور وجدان

لائبریرین
اک بہروپیا گاؤں کے پاس رہتا تھا. اسکا کوئی مستقل گاؤں نہیں تھا ..وہ جنگل جنگل ہوتا اک گاؤں سے دوسرے تک چلتا رہتا ... ہر گاؤں میں اس کا بہروپ مختلف ہوتا تھا. پہلے پہل اس نے حکیم کا روپ دھارا اور حکمت کے بلحاظ سارا لٹریچر جنگل میں جڑی بوٹیاں دیکھتے سمجھتے گزارا کیا ... بہروپیے کی آنکھوں میں ہمیشہ سرمہ ہوتا تھا. اور لوگ جب اس کے گرد اکٹھے ہونے لگے سوالات بڑھنے لگے تو اس نے دوسرے گاؤں کا قصد کیا ... گاؤں والے جدید دنیا سے بہت پیچھے تھے. اس لیے یہاں اپر اس نے اک درویش کا روپ اختیار کیا ... اس کو اتنا کچھ ملنے لگا کہ بنا ہاتھ پار مارے کام.بننے لگا .... مگر وہ یہاں سے بھاگنے کے چکر بنا رہا تھا تو ولی صاحب کے نرعے میں پھنس گیا

اک دن دوپہر کا وقت میں چائے کی چسکیاں لیتے اور کھانے سے ہاتھ صاف کرکے لمبا سا ڈکار مار کے وہ بیٹھا ہی تھا کہ ولی صاحب نے آکے اسے گھورنا شروع کردیا ..

بہروپیا چونکہ جانتا تھا کہ ولی صاحب کی آنکھوں میں خاص چمک ہے تو اس نے اس سے بچنے کے لیے نعرہ لگایا

حق اللہ حق ھو

ولی صاحب نے کہا وہی ستارہ شعری کا رب ہے ... تو مان جا اب

بہروپیے کو جوش چڑھا اک زور دار نعرہ لگایا

حق علی حق علی

ولی صاحب نے اس کو بغور دیکھا اور ساتھ اک نعرہ لگادیا

اللہ اکبر, سچ جھوٹ کو نکل لیتا ہے

ولی صاحب نے کہا یاد کر جب عصائے موسی نے ان سانپوں کو نگل کیا تھا

بہروپیا بدل گیا. اسکا دل بدل گیا اور اس نے نعرہ لگایا

حق! وہ ستارہ شعری کا رب ہے

ولی صاحب مسکرانے لگا اور کہا کہ اب اگلے گاؤں بہروپ بدل کے جانا.

بہروپ بھر کے پھرتے ہیں دیوانے
چلتے ہیں شانے ملانے
 
Top