قمر جلالوی بہت روئیں گے جب ظاہر فریبِ رنگ و بو ہو گا

گِلہ بزمِ عدو میں کیونکر اس کے رو برو ہو گا
خدا معلوم و کس کس سے محوِ گفتگو ہو گا
بہار اپنی سمجھ کر اور ہنس لیں یہ چمن والے
بہت روئیں گے جب ظاہر فریبِ رنگ و بو ہو گا
گرے گی برق اے صیاد یہ میں بھی سمجھتا ہوں
مگر میرا قفس کب آشیاں کے رو برو ہو گا
بڑھے اور پھر بڑھے، ضد دیکھ لینا حشر میں قاتل
خدا کے سامنے خاموش ہم ہوں گے نہ تو ہو گا
سحر کو کیوں نگاہوں سے گرانے کو بلاتے ہو
مرے سرکار آئینہ تمھارے رو برو ہو گا
لگا بیٹھے ہیں اپنے پاؤں میں وہ شام سے مہندی
انھیں معلوم کیا کس کس کا خونِ آرزو ہو گا
گریباں کو تو سی دے گا رفو گر تارِ داماں سے
مگر چاکِ دلِ مجروح پھر کیونکر رفو ہو گا
چھپے گا خونِ ناحق کس طرح پیشِ خدا قاتل
ترے دامن پہ چھینٹے، آستینوں پر لہو ہو گا
قمر سے انتظامِ روشنی کو پوچھنے والے
چراغوں کی ضرورت کیا ہے جب محفل میں تو ہوگا
 
ﮔِﻠﮧ ﺑﺰﻡِ ﻋﺪﻭ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﻭ ﺑﺮﻭ ﮨﻮ ﮔﺎ
ﺧﺪﺍ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻭہ ﮐﺲ ﮐﺲ ﺳﮯ ﻣﺤﻮِ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﻮ ﮔﺎ
 
Top