امجد اسلام امجد بہت خوش بخت ہیں آنکھیں جنہوں نے ان کو دیکھا ہے۔

ام اویس

محفلین
بہت خوش بخت ہیں آنکھیں جنہوں نے ان کو دیکھا ہے
بہت خوش صوت ہیں وہ لفظ
جو ان کے قلم کی نوک پر چمکے، سخن کے آسمانوں پر
ستاروں کی طرح دمکے
بہت خوش رنگ ہیں وہ پھول جو ان کے جہانِ فکر میں مہکے
اور ان کی موہنی خوشبو ہمارے صحن تک آئی
صبا کے ہاتھ پر رکھ کر
سحر کے آخری تارے کی وہ قاصد ضیا لائی
کہ جس کو روکنا دیوارِ زنداں کے نہ تھا بس میں
قفس میں جو انہیں آباد اور شاداب رکھتی تھی
اسیرِ چشمئہ مہتاب رکھتی تھی

وہ کہتے تھے بہار آئی بولو اے چمن والوں
تمہارے در پہ آیا ہے لبِ آزاد کا موسم
نہیں صیاد کا موسم
چہکنے کا سماں آیا، گیا فریاد کا موسم

ابھی تک یاد ہیں مجھ کو
وہ ان کی سوچتی آنکھیں، وہ ان کا ٹوٹتا لہجہ
وہ ان کا دل جو ہر مظلوم کے غم میں تڑپتا تھا
وہ ان کے خواب جن کی روشنی گہنا نہیں پائے
کسی بھی رات کے سائے!
سحر ہو شب گزیدہ تو میں ان کو یاد کرتا ہوں
نظر ہو آبدیدہ تو میں ان کو یاد کرتا ہوں

مری مٹی کی خوشبو بولتی ہے ان کے شعروں میں
وہ شاعر تھے
محبت کے سمندر کے، تمنا کے سرابوں کے
ہمارے آپ کے پورے ادھورے چاند خوابوں کے
قلم نے ان کے جو لکھا، جو دیکھا ان کی آنکھوں نے
وہی تو گوشوارہ ہے، اندھیرں اور اجالوں کا
وہی تو استعارہ ہے
ہمارے عہد کے زندہ سوالوں اور جوابوں کا

بہت خوش بخت ہیں وہ لوگ جو اپنے
کسی محسن کو مل کر یاد کرتے ہیں
اگر وہ سن رہے ہیں تو
(یقینناً سن رہے ہوں گے)
مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ فیض ہے جاری
ہم ان کو یاد کرتے ہیں اور اکثر یاد کر تے ہیں !!
 
Top