بہادر شاہ ظفر

وہ سو سو اٹھکھٹوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے
بلا سے اس کی گر اس میں کسی مضطر کا دم نکلے

کہاں آنسو کے قطرے خون دل سے ہیں بہم نکلے
یہ دل میں جمع تھے مدت سے کچھ پیکان غم نکلے

مرے مضمون سوز دل سے خط سب جل گیا میرا
قلم سے حرف جو نکلے شرر ہی یک قلم نکلے

نکال اے چارہ گر تو شوق سے لیکن سر پیکاں
ادھر نکلے جگر سے تیر ادھر قالب سے دم نکلے

تصور سے لب لعلیں کے تیرے ہم اگر رو دیں
تو جو لخت جگر آنکھوں سے نکلے اک رقم نکلے

نہیں ڈرتے اگر ہوں لاکھ زنداں یار زنداں سے
جنون اب تو مثال نالۂ زنجیر ہم نکلے

جگر پر داغ لب پر دود دل اور اشک دامن میں
تری محفل سے ہم مانند شمع صبح دم نکلے

اگر ہوتا زمانہ گیسوئے شب رنگ کا تیرے
مری شب دیز سودا کا زیادہ تر قدم نکلے

کجی جن کی طبیعت میں ہے کب ہوتی وہ سیدھی ہے
کہو شاخ گل تصویر سے کس طرح خم نکلے

شمار اک شب کیا ہم نے جو اپنے دل کے داغوں سے
تو انجم چرخ ہشتم کے بہت سے ان سے کم نکلے

خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

تمنا ہے یہ دل میں جب تلک ہے دم میں دم اپنے
ظفرؔ منہ سے ہمارے نام اس کا دم بہ دم نکلے

بہادر شاہ ظفر
 
Top