بھولی بسری یادیں،!!!!!!

بھولی بسری یادیں-61- محبت کی جدائی میں پاگل دیوانہ دل،!!!!!

اب تو لگتا تھا کہ اب تمام ھی راستے بند ھوگئے ھیں، اسی طرح جب سے نئے گھر میں شفٹ ھوئے، ایک تو اتنا دور ھے کہ پہنچتے پہنچتے شام ھوجاتی ھے اور دوسرے سارے کام بھی ادھورے ھی رہ جاتے ھیں، اب دماغ میں کچھ سوچنے کی صلاحیت بھی ختم ھوچکی تھی، نئی جگہ نئے لوگ، اور کچھ نئے دوست بھی بن گئے، اچھا صاف ستھرا ماحول تھا، علاقہ بھی اچھا تھا، لیکن میرا دل اور دماغ پر تو کچھ اور ھی چھایا ھوا تھا، اتنی بےعزتی کے باوجود بھی دل ادھر ھی اٹکا ھوا تھا !!!!!!!!!!!!!!

اِدھر گریجویشن کو بھی مکمل کرنا تھا اُدھر دوسری طرف میری جان کہیں اور اٹکی ھوئی تھی، کالج بھی نیا اور دوست بھی نئے، دل بالکل بھی نہیں لگ رھا تھا، اکثر میں نے کئی دفعہ کوشش بھی کی، اس ماڈرن علاقے میں جاکر کافی دور سے کھڑے ھوکر اسی کھڑکی کی طرف دیکھنا بھی چاھا لیکن کوئی کامیابی نہیں ھوئی، لیکن کچھ دنوں بعد ایک موچی کے ایک کارنر سے اندازہ لگالیا کہ یہاں بیٹھ کر کچھ کامیابی کی امید ھوسکتی ھے،

ان کی گلی کے کچھ آگے اگلی گلی کے موڑ پر ھی ایک موچی بیٹھتا تھا، اس کے پاس ھی میں جاکر اپنا جوتا پالش کرانے کے بہانے بیٹھ جایا کرتا اور ساتھ ھی میری نظر ان کے گھر کی سیڑھیوں اور اوپر کھڑکی پر ھی ٹکی رھتی، اور میں اس موچی کے ایک لکڑی کے بکس جو ایک سیمنٹ کے پلر کے ساتھ رکھا تھا، اس پر اس طرح پلر کی آڑ میں بیٹھا کرتا کہ میں تو اچھی طرح دیکھ سکتا تھا لیکن وہاں‌ سے مجھے دیکھنا مشکل تھا، کبھی کبھی تو موچی کے پاس اچھی خاصی دیر تک بیٹھا رھتا اور اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا بھی رھتا، اور اسے کچھ پیسے میں زیادہ بھی دے دیتا تھا وہ بھی خوش، مگر اس کو پتہ نہیں تھا کہ میرا وھاں بیٹھنے کا اصل مقصد کیا تھا،

میں اکثر ھر تیسرے چوتھے روز شام کے وقت کالج کے بہانے گھر سے نکلتا اور اس موچی کے پاس بیٹھ جاتا اور کبھی کبھی تو جوتے کی پالش کے ساتھ وہیں بیٹھے بیٹھے چائے بھی بمعہ بسکٹ کے منگوالیتا اور ھم دونوں مل کر چائے اور بسکٹ نوش کرتے اور خوب باتیں بھی کرتے، اور ساتھ ساتھ میری نظریں کسی اور ظرف جمی ھوتیں، اس موچی نے کئی دفعہ پوچھا بھی میں کیا کرتا ھوں اور کدھر رھتا ھوں میں نے بھی اسے گول مال جواب دے دیا وہ ویسے ھی شریف آدمی تھا اور پھر میرے جانے سے ایک آدھ روپے کی آمدنی بھی ھوجاتی اور ساتھ چائے بسکٹ کے مزے بھی آجاتے تھے، صرف ایک ہفتہ میں دو دفعہ ھی آجا سکتا تھا، کیونکہ ایک تو کالج کو بھی وقت دینا پڑتا تھا اور والد صاحب بھی سعودیہ میں ھی تھے، انہیں بھی تقریباً سال ھونے والا تھا، اس لئے مجھے اپنے گھر کا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا،

اب تو انکے پاس ایک کار بھی آگئی تھی، جسے انکے والد ھی چلاتے تھے، اور میں نے انکی والدہ اور دونوں بہنوں کو ان کے ساتھ کار میں دیکھا بھی تھا، والدہ آگے اور پیچھے دونوں اب تو وہ دونوں بہت ھی خوبصورت لباس کے ساتھ اور بھی بہت ھی زیادہ حسین لگ رھی ھوتی تھیں، میرے پاس تو کوئی سواری نھیں تھی اور نہ ھی اتنے پیسے ھوتے تھے کہ کسی ٹیکسی یا آٹو رکشہ میں ان کا پیچھا کروں، کہ یہ لوگ کہاں جاتے ھیں،

ایک دن میں نے ننھے کی ذریعے یہ معلوم کرا ھی لیا کہ ان کے والد اب ایک اچھا بزنس کررھے ھیں اور ان کا آفس بھی نزدیک ھی ھے، وھاں بھی جاکر میں نے دیکھا اب تو انکے بڑے ٹھاٹھ ھیں، ایک دن ھمت کرکے میں ان کے آفس پہنچ گیا ان کا ایک اپنا سیکنڈ ھینڈ کاروں کا ایک شوروم تھا، ڈرتے ڈرتے ان کے ایک بڑے شیشے کے کمرے کے دروازے کے پاس جاکر باھر سے ھی انہیں سلام کیا، انھوں نے اپنے چشمے میں سے جھانکتے ھوئے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا، میں نے دل میں کہا کہ بیٹا اب تو تیری خیر نہیں، کیونکہ وہ کچھ ٹھیک موڈ میں نہیں لگ رھے تھے، انہوں نے مجھے سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا، اور خیر خیریت پوچھی میں نے بھی رسماً ٹھیک ٹھاک کہہ دیا، پھر انہوں نے اپنے چپراسی کو اندر بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ چائے پیو گے یا ٹھنڈا، میں نے پہلے تو انکار کیا لیکن انہوں نے زبردستی کی تو میں نے کہا کہ چائے کے لئے ھاں کردی، ان کا آفس تو بہت شاندار تھا اور شوروم میں بھی پانچ چھ اچھی کاروں کی ایک لائن تھی، اور انکے پاس چھ یا سات اسٹاف ممبر بھی تھے جو بہت ھی نفیس لباس میں ‌سوٹ اور ٹائی لگائے گاھکوں کو گاڑیاں دکھا رھے تھے اور خالو بھی زبردست قسم کا سفاری سوٹ پہنے ھوئے تھے، اور بس ایک دو بات کرکے اپنے کام میں لگ گئے، اور میں بس آگے پیچھے لگی ھوئی مختلف گاڑیوں کی تصویریں ھی دیکھتا رھا، کئی دفعہ وہ نیچے بھی گئے، لیکن مجھ سے کچھ نہیں کہا، جب کافی دیر ھوگئی تو میں نے ان سے اجازت مانگی اور انہوں نے مجھے بغیر دیکھے ھی اچھا کہا اور ایک ڈرایئور کو بلایا اور مجھ سے کہا کہ جہاں جانا ھو یہ ڈرائیور تمھیں چھوڑ دے گا، ان کا انداز مجھے ایسا لگا جیسے کہ وہ اپنی شان و شوکت دکھا رھے ھوں، نہ ھی انھوں نے اپنے گھر کے بارے میں کسی کا بھی ذکر کیا اور نہ ھی مجھ سے کوئی تفصیل پوچھی، بس ایک اجنبی کی طرح ایک چائے پلائی، اور بس میرے سامنے چپراسی کو کئی دفعہ بلا کر زور سے ڈانٹا بھی اور منہ میں انکے اب سگریٹ کے بجائے ایک پائپ چپکا ھوا دیکھا، جسے انہوں نے دانتوں میں دبایا ھوا تھا، وہ واقعی مجھ پر اپنی امارت کا رعب ڈالنا چاھتے تھے،

میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور بس یہی کہا کہ خالو میں نزدیک ھی بس اسٹاپ سے بس پکڑ لونگا، اور یہ کہتا ھوا میں باھر نکل گیا میری آنکھوں میں آنسو بھی تھے شاید انھوں نے بھی دیکھا ھوگا، لیکن ان کی یہ بےرخی دیکھ کر میں تو حیران ھوگیا کہاں یہ شخص مجھے بہت چاھتا تھا اور آج ان کا اس طرح کا رویہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ھوا، میں تیزی سے قدم بڑھاتا ھوا بس اسٹاپ کی طرف جارھا تھا اور اپنی اس بےعزتی کے برتاؤ کی وجہ سے میرا دماغ خراب ھورھا تھا، اسی وقت میں نے یہ فیصلہ بھی کرلیا تھا کہ آج کے بعد اب کبھی بھی اس خاندان کی شکل نہیں دیکھوں گا !!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-62-اور بھی غم ھیں زمانے میں محبت کے سوا،!!!!!

میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور بس یہی کہا کہ خالو میں نزدیک ھی بس اسٹاپ سے بس پکڑ لونگا، اور یہ کہتا ھوا میں باھر نکل گیا میری آنکھوں میں آنسو بھی تھے شاید انھوں نے بھی دیکھا ھوگا، لیکن ان کی یہ بےرخی دیکھ کر میں تو حیران ھوگیا کہاں یہ شخص مجھے بہت چاھتا تھا اور آج ان کا اس طرح کا رویہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ھوا، میں تیزی سے قدم بڑھاتا ھوا بس اسٹاپ کی طرف جارھا تھا اور اپنی اس بےعزتی کے برتاؤ کی وجہ سے میرا دماغ خراب ھورھا تھا، اسی وقت میں نے یہ فیصلہ بھی کرلیا تھا کہ آج کے بعد اب کبھی بھی اس خاندان کی شکل نہیں دیکھوں گا !!!!!!!!!

میں بہت مایوسی کے عالم میں واپس کالج پہنچا اور بس اب یہی سوچ لیا تھا کہ اب صرف اور صرف پڑھائی کی طرف ھی توجہ دینی ھے، اور اس دفعہ والدیں کو ناراض بھی نہیں کرنا ھے، مجھے نئے علاقے میں نئے دوست بھی مل گئے، کچھ تو میرے ساتھ ھی کالج میں گریجیویشن کررھے تھے اور ساتھ ھی سروس بھی، اور کچھ تو میری ھی طرح کے پرانے شوق رکھتے تھے، ایک دوست “حسنی“ جو پینٹنگ اور مصوری سے منسلک تھے اور ساتھ ھی ایک اسکول میں ٹیچر بھی تھے، ایک دوست مشتاق جو ایک پرائمری اسکول کے ھیڈماسٹر تھے اور ساتھ ھمارے ایک بہت بڑے قدرداں بھی تھے، ایک اور دوست محسن ظفر اور قاضی انیس جو گورنمنٹ ملازم بھی تھے اور ھمارے ساتھ ھر سوشل ورک اور ھمارے آپس کے پروگرام میں ھمارا بہت ساتھ دیتے تھے،

ھم یہ چار پانچ دوست کافی عرصہ تک ساتھ رھے، بعد میں کالج سے گریجیویشن کے بعد، کچھ زیادہ ھی مصروفیات کی وجہ سے آہستہ آہستہ دوریاں بڑھتی گئیں، میں نے اور میرے دوست نے مل کر اپنے ھی علاقے میں ایک مصروف شارع پر ایک پینٹنگ کی دکان کھولی، جس کا نام “حسنی آرٹس“ تھا، دن بھر دونوں ساتھ ھی اس دکان پر کام کرتے اور شام کو کالج چلے جاتے، اور واپسی پر گھر سے کھانا کھا کر پھر دکان سنبھال لیتے، اور کچھ دوستوں کی ایک ادبی محفل بھی وھیں لگا لیتے، جہاں ھمیں اور کچھ دوست جن کا اردو ادب اور آرٹس ڈرامہ نگاری اور موسیقی سے بھی تعلق تھا، وہ بھی ھمارے ساتھ ھی مل گئے اور ھماری محفل کی رونقوں میں کچھ اضافہ بھی ھوگیا،

میں اور میرے دوست حسنی، نے ملکر خوب محنت سے کام کیا اور تمام آمدنی کا ایمانداری سے تمام اخراجات نکال کر آپس میں آدھا آدھا بانٹ لیتے تھے، ھم نے ساتھ ھی چار نزدیکی سینماوں سے معاھدہ بھی کیا ھوا تھا انکے ھم تمام پبلسٹی کے سائن بورڈ اور میں بڑا بورڈ جو سینما پر لگتا تھا اور باقی چھوٹے بورڈ جو مختلف جگہوں پر پبلسٹی کے لگائے جاتے تھے، وہ ھم دونوں ملکر لکھتے تھے، اور تقریباً ھر ھفتہ ھی ھمیں تمام بورڈ تبدیل کرنے پڑتے تھے، اس کے علاوہ دکاتوں کے سائن بورڈ کی انگلش اور اردو میں لکھائی تصویروں اور مونوگرام کے ساتھ بھی ھم بناتے تھے، لکھائی زیادہ تر حسنی ھی کرتا تھا اور تصویریں اور مونوگرام بنانے کی ذمہ داری میری ھی تھی، اس کے علاوہ کپڑے کے بینرز اور سینما پبلسٹی سلائڈز میں بھی ھم لوگ کافی مشہور ھوگئے تھے اور دور دور سے لوگ ھمارے پاس آرڈر دینے آتے تھے مگر ھم اتنا ھی آرڈر لیتے تھے کہ جس کو وقت پر مکمل کرسکیں اور الیکشن کے زمانے میں تو ھماری چاندی ھوتی تھی،ھاتھ سے تصویریں بنانے میں اب تو کافی مہارت حاصل کرچکا تھا، ایک بات مجھ میں ضرور تھی کہ جب تک ایک تصویر مکمل کر نہیں لیتا تھا دوسری تصویر کا کام ھاتھ میں نہیں لیتا تھا، اور ھر تصویر پر اپنے شوق سے کافی محنت کرتا تھا، چاھے کتنا ھی کیوں نہ وقت لگ جائے، اور کبھی معاوضے پر دھیان ھی نہیں دیا کیونکہ سارے معاملات میرا دوست ھی طے کرتا تھا،

اسی دکان پر پینٹنگ کے علاوہ ھم نے ایک اپنی میوزیکل اینڈ ڈرامیٹک سوسائٹی کی بنیاد بھی رکھی، کیونکہ مجھے اس سے بھی بچپن سے لگاؤ رھا تھا، اور ھمارے دوستوں میں بھی انہی شعبے سے متعلق شوق رکھنے والے تقریباً سب موجود تھے، میں نے ڈائلاگ اور اسکرپٹ رائٹنگ جسے مکالمہ نگاری اور منظرنامہ کہتے ھیں، کی ذمہ داری لی ھوئی تھی، جس میں میرے مددگار حسنی ھی تھے، موسیقی کی تمام تر ذمہ داری طارق کے پاس تھی جو موسیقی کے ساتھ گلوکاری کا بھی شوق رکھتا تھا، ڈائریکٹر کے طور پر لیاقت ایک ھمارے درمیان منجھے ھوئے فنکار تھے،

ھم تقریباً آٹھ دس دوست ملکر صرف شوقیہ ھی پروگرام ترتیب دیتے تھے اور اسے کبھی ذریعہ معاش نہیں بنایا، مختلف دوستوں کی کسی بھی خوشی کے موقع پر ھم لوگ ملکر مزاحیہ اسٹیج خاکوں اور موسیقی کے پروگرم شاندار ظریقے سے ترتیب دیتے تھے، اور اس دوران رات گئے آتے تھے اور گھر پر ڈانٹ بھی کھانے کو ملتی تھی، ایک خاص بات تھی کہ کبھی کسی سے آنے جانے کی سواری کے انتظام اور کھانے پینے کے علاؤہ ھم نے کوئی معاوضہ نہیں طلب کیا، بعض اوقات وہ بھی ھم آپس میں ملکر ھی خرچ کرلیتے تھے،

اب تو میں نے اپنا دل اپنے شوق سے ھی لگا لیا تھا اور مجھے اب تمام ھر سہولت بھی مل چکی تھی، کالج سے پہلے اور کالج کے بعد بھی میں پینٹنگ کی دکان پر ھی مصروف رھتا، اور مختلف آرڈر کی تصویریں بناتا رھتا کبھی کبھی تو موقع پر جانا بھی پڑتا وھاں پر سیڑھی لگا کر دکانوں پر شاراھوں پر لگے ھوئے بورڈز پر بھی لکھنا پڑتا تھا اور ساتھ تصویریں بھی آرڈر کے مطابق بنانی پڑتی تھیں، اور اس میں ھمیں اچھی خاصی کمائی بھی ھوجاتی تھی، اور سینماوں سے تو ایک مستقل ھی آمدنی تھی، مگر ایک مشکل تھی کہ ھماری حالت بھی بہت خراب رھتی ھر وقت رنگ برنگے داغ دھبوں میں رنگے ھوئے ھوتے، کبھی کبھی تو پہچاننا بھی مشکل ھوجاتا، بعض لوگ تو مجھ سے ھی پوچھتے تھے کہ یہاں “سیٌد صاحب“ کو آپنے کہیں دیکھا ھے، میں کہتا ارے بھئ پہچانو میں ھی سیٌد صاحب ھوں،

زادیہ کو دل سے بھلا تو نہیں سکتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اپنے دکھ درد اور زخموں کو ان شوق کے مرھم نے انھیں کافی حد تک ختم کردیا تھا، اس کے بعد مجھے کئی لڑکیاں بھی ملیں، محلے میں اور رشتہ داروں کے یہاں بھی، کئی رقعہ اور محبت نامے بھی ملے، مگر میرا دل کسی کے لئے بھی نہیں مانا، دوستوں نے بھی چاھا کہ میں کسی لڑکی کے ساتھ عشق اور محبت کا شکار ھوجاؤں، لیکن میں نے اپنے آپ کو اس چکر سے بالکل دور ھی رکھا کیونکہ اب میں کوئی اور روگ نہیں پالنا چاھتا تھا، دکان پر بہت سی کالج اور اسکول کی لڑکیاں آتی تھیں اور بڑے بڑے چارٹ اسکول اور کالج کےلئے بنواتی بھی تھیں، اس کے علاوہ دکان میں لگی ھوئی میرے ھاتھ کی تصویریں دیکھ کر خوش بھی ھوتی اور مزید تصویروں کا آردر بھی دیتی تھیں، اور کئی تو میرے ساتھ بیٹھ کر مجھے تصویریں بناتا ھوا دیکھتی بھی تھیں، لیکن میں نے کبھی بھی کسی بھی نظر سے ان کو نہیں دیکھا تھا،

جبکہ میرے تمام دوست مجھے کہتے بھی تھے کہ یار تم تو بہت قسمت والے ھو، ھر لڑکی تمھاری دیوانی ھے، میں کہتا کہ بھائی صاحب وہ میری بنائی ھوئی تصویروں کو پسند کرتی ھیں، مجھے نہیں اور مجھے کوئی ضرورت بھی نہیں ھے، کیونکہ میرے دل میں کوئی اور ھی ھے، یہ کہہ کر میں بات کو ٹال دیتا، کئی دوست یہ بھی کہتے کہ یار کسی سے ھماری بھی دوستی کرادو یا ھمیں کوئی ایسی ترکیب بتادو جس سے کوئی ھمیں چاھنے لگے، میں اکثر ان سے ناراض بھی ھوجاتا اور کہتا کہ بیٹا دل لگانے کیلئے دل کو تڑپانا بھی پڑتا ھے ایسے ھی کسی سے محبت نہیں ھوجاتی، انہوں نے کئی دفعہ پوچھا کہ میرے دل میں کون ھے مگر میں نے وھاں پر کسی کو اپنی پچھلی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا،

ایک دفعہ میری دکان پر ایک بزرگ آئے اور کہا کہ میرے ساتھ میرے گھر چلو وھاں پر کچھ تم سے بنوانا ھے،!!!! انہیں میرے ایک دوست نے بھیجا تھا اس لئے کام زیادہ ھونے کے باوجود میں انکار نہ کرسکا اور میں اپنے دوست پارٹنر “حسنی“ کو دکان پر چھوڑ کر ان بزرگ کے ساتھ چل دیا، گھر پر جانے کا بعد انہوں نے کہا کہ مجھے اس سامنے والی دیوار پر مکٌہ اور مدینہ شریف کی تصویریں بنا دو، اور مجھے ایک اخبار دکھایا جس میں گنبد خضرا روضہ مبارک(ص) اور خانہ کعبہ کی تصویریں تھیں،

میں نے اس سے پہلے اسلامی تصویریں نہیں بنائی تھیں، یہ میرا پہلا موقعہ تھا، بہرحال میں واپس دکان پر گیا اور دو تین برش اور مختلف رنگوں کا ڈبہ لے آیا اور پھر شروع ھوگیا، کچھ وقت تو زیادہ لگ گیا لیکن میں خود حیران ھوگیا کہ وہ مکہ اور مدینہ شریف کی تصویریں تو اخبار میں چھپی ھوئی تصویروں سے بھی بہت اچھی اور نمایاں نظر آرھی تھیں، وہ بزرگ تو بہت خوش ھوئے، خوب دعائیں دیں اور انہوں نے مجھ سے معاوضے کا پوچھا تو میں نے انکار کردیا، انکی دعاء ھی میرے لئے بہت بڑا انعام تھا،!!!!!!!!!

بی، کام پارٹ1 کے امتحان ھوچکے تھے اور صرف ایک پیپر میں رہ گیا تھا، غالباً 1969 کے سال کا آخر چل رھا تھا، والد صاحب بھی سعودیہ میں سال بھی پورا نہ کرسکے تھے ان کا بھی واپس کراچی میں ھی تبادلہ ھوچکا تھا، مگر وہاں رھنے سے کچھ فائدے بھی ھوئے، ایک تو انہوں نے حج کرلیا تھا اسکے علاؤہ جو قرض یہ نیا مکان کےلئے لیا تھا اس سے بھی بری ذمہ ھوگئے تھے، اس کے علاؤہ ایک بیٹی کی شادی کی ذمہ داری سے بھی فارغ ھوچکے، اور میں نے بھی انکی غیرحاضری سے اپنے پرانے شوق کو بھی کچھ حد تک پورا بھی کیا، مگر ان کے آنے کے بعد بہت سی مصروفیات کو کم کردیا، اور پڑھائی اور ساتھ ھی پینٹنگ کی دکان پر اپنا کچھ وقت گزارنے لگا !!!!

والد صاحب کو یہ پینٹنگ مصوری بالکل پسند نہ تھی، اس لئے مجھے انہوں نے اپنی ھی کمپنی میں ایک اکاونٹس کلرک کی ملازمت دلادی تاکہ میں ان کی نظر میں ان خرافات سے بچا رھوں، اور وہ بھی بہت دور جہاں پہنچنے کیلئے مجھے کم سے کم ڈیڑھ دو گھنٹہ لگتے تھے اور واپسی بھی اسی طرح ھوتی تھی اور شام کو واپسی پر مجھے ھمیشہ کالج پہنچتے پہنچتے دیر ھوجاتی تھی اور تھک بھی جاتا تھا، اور اس وقت تنخواہ بھی 90 روپئے ماہانہ تھی، جو میں پوری کی پوری تنخواہ اپنی والدہ کے ھاتھ میں دیتا تھا، جبکہ پینٹنگ کی دکان سے میں تقریباً تمام اخراجات نکالنے کے بعد میرے حصہ میں 500 روپئے تک کی آمدنی ھو جاتی تھی، بہرحال والدصاحب کو ناراض بھی نہیں کرسکتے تھے،

دفتر آنے جانے میں اور پھر رات کو کالج سے واپسی تک حالت غیر ھوجاتی تھی، روزانہ مجھے ایک روپیہ گھر سے بس کا کرایہ مل جاتا تھا اور ساتھ ایک ٹفن کیرئیر میں دوپہر کےلئے والدہ کھانا پیک کرکے دیتی بھی تھیں، میں روز صبح 6 بجے گھر سے نکلتا اور ایک لوکل ٹرین پکڑ کر ایک گھنٹے کے سفر کے بعد پھر دوبارہ بس میں بیٹھ کر آفس تقریباً 8 بجے تک پہنچ ھی جاتا تھا، اور واپسی بھی اسی طرح ھوتی تھی، گھر پہنچتے ھی کچھ ھاتھ منہ دھو کر ہلکا سا کچھ کھا کر فوراً کالج کی طرف دوڑ جاتا، وہاں بھی ایک بس کے ذریئے جو نزدیک ھی تھا،

اسی طرح دوڑ بھاگ کر 1970 میں داخل ھوچکے تھے، عمر 20ویں سال کے بہار کے موسم میں داخل ھوچکی تھی اور اپنی پچھلی یادوں کے دکھوں کو کسی حد تک بھول چکا تھا لیکن کبھی کبھی بہت یاد ستاتی تھی، کئی دفعہ سوچا بھی کہ ایک دفعہ پھر اسی موچی کے پاس جاؤں اور کچھ حال چال کا اتہ پتہ کروں مگر ھمت نہیں ھوئی، اور ذہن کو میں نے جھٹک دیا،

اسی سال میں مجھے نوکری چھوڑنی پڑی کیونکہ جہاں کام کررھا تھا وھاں پر کنسٹرکشن کا کام ختم ھوچکا تھا، میری جان میں جاں آئی، لیکن اس کا نقصان مجھے یہ ھوا اس سال میں فائنل میں پاس نہیں ھوسکا!!!!!!!

اس ملازمت کی وجہ سے میں اپنی پڑھائی کو صحیح وقت نہ دے سکا، اگر چاھتا تو سپلیمنٹری امتحانات میں بیٹھ سکتا تھا، لیکں میں سپلیمنٹری کی مہر نہیں لگانا چاھتا تھا، اس لئے فیصلہ کیا کہ ریگولر اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے ھی اگلے سال دوبارہ امتحان دونگا، اب ملازمت تو ختم ھوگئی دوبارہ میں نے ایک دوست کے ذریئے ایک بالکل نئے سینما گھر میں بکنگ کلرک کی ملازمت کرلی اور ساتھ ھی اس سینما کے پبلسٹی چھوٹے بڑے اور مین بورڈ کی لکھائی اور پینٹنگ کی ذمہ داری بھی لے لی، کل ملا کر تقریباً 150 روپے تنخواہ ملتی تھی ساتھ میں میں نے اپنے دوستوں کو بھی وہاں رکھوادیا، جو میرے ساتھ ھی پڑھتے تھے، اور کالج میں صبح کی شفٹ میں ٹرانسفر کرالیا، کیونکہ سینما کا وقت دوپہر سے شروع ھوتا تھا،

میرا ایک اور شوق جو بچپن میں چھوٹے سے پیمانے میں ٹیبل کے نیچے سینما گھر کا چلانے کا تھا، وہ آج واقعی اصل میں اس کی تعبیر مل رھی تھی، روز کالج سے سیدھا گھر جاتا اور دوپہر کا کھانا کھا کر دوپہر کے تقریباً دو بجے سیدھا سینما گھر پہنچ جاتا، اور ڈھائی بجے دوپہر کو تمام ٹکٹ کی کھڑکیاں کھل جاتی تھیں، میرے پاس سب سے پیچھے کی ٹکٹ بیچنے کی ذمہ داری تھی اور میرے ساتھ ھی ھیڈ بکنگ کلرک کی کھڑکی تھی اور اس کے پاس گیلری کے ٹکٹ کی ذمہ داری اور تمام بکنگ کلرکوں کی ذمہ داری بھی تھی، شروع شروع میں تو مجھے کچھ پریشانی ھوئی لیکن میرے ساتھ جو ھیڈ بکنگ کلرک تھے انہوں نے مجھے کافی ھمت اور حوصلہ افزائی کی، جس کی وجہ سے میں کچھ دنوں میں ایکسپرٹ ھوگیا،

اس سینما میں ھر ھفتہ نئی فلم لگتی تھی، اور جمعہ ھفتہ اتوار کو تو اچھا خاصا رش ھوتا تھا اور وھاں سے میری ایک نئی بےایمانی کا آغاز ھوگیا، ٹکٹ کی کھڑکی سے ھی ڈیڑھ روپے کا ٹکٹ دو روپئے میں نکلتا تھا جس میں سے چار آنے مالک کے کھاتے میں اور چار آنے میرے کھاتے میں آتے تھے، اسی طرح ھر کھڑکی سے ٹکٹ کی مقرر کردہ قیمت سے زائد رقم وصول کی جاتی تھی، جس کا آدھا حصہ سینما کے مالک کو جاتا تھا، اس کے علاوہ اگر کوئی نئی اچھی فلم جو اچھے اسٹارز اور اچھے ڈائرئکٹر کی ھو تو کھڑکی سے ھم دس ٹکٹ سے زیادہ نہیں بیچ سکتے تھے، اگر ایک سو ٹکٹ کی گنجائیش ھو تو 90 ٹکٹ ھمیں وھاں کے بڑے انچارج لائن مین کو مجبوراً بلیک میں بیچنے کے لئے دینا پڑتے تھے، جس کے وہ بعد میں ھمیں 90 ٹکٹ کی قیمت کے ساتھ اوپر سے فی ٹکٹ کا 10٪ دیتے تھے، مگر ایمانداری سے، اور ھمیں بھی کچھ محنت نہیں کرنی پڑتی تھی، 10 ٹکٹ کھڑکی سے بیچے اور بس سولڈ آؤٹ کا بورڈ لگا دیا، باھر کھڑا لائن مین ھی ھمیں پبلک سے بچاتا بھی تھا ورنہ تو پبلک ھمارا کباڑا کردے !!!!

یہاں پر تو تنخواہ 150 روپے ماھانہ اور روزانہ اُوپر کی آمدنی 200 روپے تقریباً ھوجاتی تھی، میں گھر پر تو ھر مہینے اصل تنخواہ 150 روپئے ھی دیتا تھا باقی اُوپر کی آمدنی سے رات کو دوستوں کے ساتھ ملکر روزانہ فائو اسٹار ھوٹل میں ڈنر کرنا اور ٹیکسی سے آنا جانا، خوب گھومنا پھرنا، اور رات کو دو ڈھائی بجے تک واپس آنا، ایک سگریٹ کی عادت بھی ساتھ ڈال لی تھی وہ بھی سب سے مہنگی، سگریٹ کے علاوہ ھم دوستوں میں یہ اچھی بات تھی کہ کسی اور بری عادت کو نہیں اپنایا، ورنہ کوئی بعید نہیں تھا کیونکہ اس وقت تمام عیاشی کے اڈے بالکل سرعام تھے، شراب خانے، نائٹ کلب اور جوئے خانے، ریس کورس اور فائیو اسٹار کیسینو وغیرہ اور ھمارے پاس اچھی خاصی رقم بھی ھوتی تھی، لیکن اس مالک کا شکر ھے کہ ھم سب دوست جو کہ زیادہ تر اسٹوڈنٹ ھی تھے اور کافی سلجھے ھوئے تھے، اگر چاھتے تو بگڑسکتے تھےلیکن بس قدرتی ھی ان خرافات سے بچ ھی رھے،

ھم لوگ بس بڑے اور اچھے رسٹورانٹ میں ڈنر کرتے، ٹیکسیوں میں گھومتے پھرتے اور ایک سے ایک مہنگے والے کپڑے بنواتے اور پہنتے، اور ٹپ بخشش بھی اچھی خاصی دیتے تھے، اور لوگوں کی مدد بھی خوب کرتے تھے، کبھی کبھی ایسا بھی ھوتا تھا کہ اچھی فلم نہ ھونے کی وجہ سے آمدنی زیادہ نہیں ھوتی تو بس میں ھی چلے جاتے تھے اور کچھ ذرا سستے ھوٹل کا بھی رخ کرلیتے تھے، مگر باھر جانے کی روایات کو قائم رکھا، اور گھر پر وھی رات کو دیر سے آنا جو والد صاحب کو بہت برا لگتا تھا لیکن وہ بھی مجبور تھے کیونکہ 150 روپئے ماھانہ ملتے تھے، مگر میں نے یہ دیکھا تھا کہ وہ ھر رات کو گھر کے باھر مین گیٹ کے پاس میرا انتظار کررھے ھوتے تھے !!!!!!

والد صاحب یہی سمجھتے تھے کہ میں سیدھا سینما سے آرھا ھوں کیونکہ آخری شو رات کو تقریباً بارہ بجے ختم ھوتا تھا اور ھم چار پانچ دوست آخری رات کا شو جو 9 بجے شروع ھوتا تھا اور ھم فلم کے اسٹارٹ ھوتے ھی ٹکٹ کی کھڑکی بندکی، حساب کتاب کیا، بڑے ھیڈ بکنگ کلرک کو کیش پکڑایا اور اپنا اپنا حصہ جیب میں ڈالا، ٹیکسی پکڑی اور یہ جا اور وہ جا !!!!!!!

پھر صبح سے وھی روز کا معمول کالج جانا دوپہر میں واپسی گھر پر کھانا کھانا اور دو بجے تک سینما پہنچ جانا، اور وہاں کے تینوں شوز کے تکٹ بیچنا اور شام کو پھر عیاشی ٹیکسی میں روانہ ھوجانا کوئی بھی کراچی کا بڑے سے بڑا ھوٹل ھم نے نہیں چھوڑا تھا، ھر جگہ کہ کھانوں کا ذائقہ چکھا ھوا تھا، کچھ دنوں بعد ھیڈ بکنگ کلرک نے نوکری چھوڑ دی اور سینما کے منیجر نے مجھے اسکی جگہ پر بغیر تنخواہ بڑھائے ترقی دے دی، اب کچھ مزید ذمہ داریاں اور بڑھ گئی تھی کہ ھر شو کا کیش چیک کرکے سب کاونٹرز سے لینا اور بنک میں دوسرے دن گزشتہ روز کا کیش جمع کرانا ھوتا تھا، جو کہ میں کالج جانے سے پہلے ہر روز پہلا یہی کام کرتا تھا،

اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے اسسٹنٹ منیجر کی پوسٹ دے دی گئی کیونکہ منیجر کی بھی سینما کے مالک نے چھٹی دے دی تھی اور اسکی جگہ وہ خود بیٹھنے لگا تھا اور منیجر کا سارا کام بجھ سے ھی کراتا تھا، دو گورنمنٹ کے اکسائز ٹیکس کے کھاتے رجسٹر میں سارے دن کی آمدنی، ہر شو اور ہر کلاس کی تفصیل کے ساتھ لکھنی ھوتی، انکو بھرنا پڑتا تھا اور اسی کے مطابق بنک میں دو جگہ الگ الگ اکاونٹ میں جمع کرانی پڑتی تھی، ایک گورنمنٹ کے کھاتے میں ٹیکس جمع ھوتا تھا اور دوسرا اکاونٹ سینما کے مالک کا، اس کے علاؤہ فلموں کے نمائش کندگان کے پاس جاکر اگلے ھفتہ کیلئے اچھی فلم کا سیلیکشن بھی کرنا اب میری ایک اور مزید ذمہ داریوں میں شامل ھوگیا تھا،

بچپن میں جو ایک میں نے ایک سینما کا چھوٹا سا پروجیکٹ کھولا تھا وہ آج قدرتی میرے سامنے ایک بڑی حقیقت بن کر سامنے آرھا تھا، میں خود اب حیران بھی تھا اور اس کے ساتھ ساتھ سینما کے پبلسٹی بورڈز کے ساتھ ساتھ مین بورڈ پر ایک استاد کے ساتھ ملکر تصویریں بھی پینٹ بھی کرتا تھا، اور اسی طرح میرے تمام بچپن کے شوق دوبارہ میری زندگی میں ایک پروفیشنل کے روپ میں آگئے،!!!!!

اب تو میں پورے ایک سینما کے آپریشن کا شروع سے آخر تک کا سسٹم پتہ چل چکا تھا، فلم کے حقوق ایک مدت کے لئے خریدنے سے لے کر سینماؤں تک کس طرح کرائے پر دیتے ہیں اور سینماؤں میں فلموں کا ایک ذمہ داری سے وقت پر پہنچانا بھی اچھی طرح جان چکا تھا، اور سینما میں فلم مشین روم میں پروجیکٹر سے سامنے حال کے پردے پر کس طرح کاربن کی روشنی کے ذریعے سے پہنچتی ھے اور سارا ایڈمنسٹریشن آپریشن کو کس طرح چلانا ھے سب کچھ میں سمجھ چکا تھا، کیونکہ اب میں ھی اکیلا ھی پوری سینما کی ٹیم کو لیکر پورے سینما کو چلا رھا تھا اب تو سینما کے سیٹھ صاحب بھی بہت کم نظر آتے تھے، کیونکہ انہوں نے مجھ پر اتنا اعتماد جو کرلیا تھا،!!!!!!

20 سال کی عمر اور اتنی بڑی ذمہ داری تھی کہ شاید ھی کبھی مجھے اتنی مشکل کبھی پیش آئی ھوگی، مگر ایک بات تھی کہ سب اسٹاف کے لوگ میری بہت عزت کرتے تھے اور ساتھ کافی ھر معاملے میں مدد بھی کرتے تھے، میں منیجر بھی تھا اور گیلری کے ٹکٹ کی کھڑکی پر بیٹھتا بھی تھا، سینما کے مالک نے مجھے رکھ کر تین چار آدمیوں کی تنخواہ بچا رھا تھا، ایک سینما کا منیجر ، فلم کرایہ پر لینے سے لیکر سینما کا سارا مینیجمنٹ کو سنبھالنا پبلک کو بھی سنبھالنا، دوسرے اکاونٹنٹ اور سارا حساب کتاب اکیلے دیکھنا، سب کی تنخواہیں بانٹنا، سارے اخراجات کو سنبھالنا، تمام کاونٹر سے تمام شوز کا کیش وصول کرنا، دوسرے دن بنک میں جمع بھی کرانا اور کھاتوں میں تمام تفصیل کے ساتھ اندراج بھی کرنا، اس کے علاوہ تمام پبلسٹی کے چھوٹے بڑے بورڈ لکھنا اور بڑا سامنے کا بورڈ بھی سیڑھی پر چڑھ کر لکھنا اور تصویریں بھی بنانا، ساتھ مددگار بھی ھوتے تھے، اس کے علاؤہ میں اپنے دوستوں سے بھی مدد لیتا تھا،

سب سے پہلے تو مجھے منیجر کی حیثیت سے یہ خیال رکھنا پڑتا تھا کہ آس پاس کے سینماؤں میں کون کون سی فلمیں لگنی والی ھیں اور اپنے سینما میں کونسی فلم لگائی جائے کہ وہ دوسرے سینماؤں سے زیادہ بزنس کرسکے، مارکیٹ میں کون کون سی نئی فلمیں ریلیز ھونے والی ھیں اور اس کے حقوق کس تقسیم کنندگان کے پاس ھیں اور کیا ریٹ ھے، اور پھر سینما کے سیٹھ سے مشورہ کرکے فلم کو ایک ھفتہ کیلئے مختلف شروط پر اپنے سینما پر نمائیش کے لئے خریدنا، اب تو میں اس میں ماسٹر ھوچکا تھا، سینما بھی نیا ھی تھا اور فلمیں بھی اچھی مل جاتی تھیں اور بزنس بھی اچھا ھورھا تھا، اور تمام بکنگ کلرک سے لے گیٹ کیپر اور ھال چیکر تک، زیادہ تر اپنے ھی محلے کے لڑکے اور دوست ھی رکھے ھوئے تھے اور سب میرا کافی ساتھ دیتے ، اور سینما بھی میرے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا،

اس سینما میں تمام پاکستان کی زبانوں کی فلمیں لگتی تھیں زیادہ تر اردو، پنجابی، پشتو ھی لگتی تھیں، اور ھر علاقہ کے رھنے والے میرے دوست بھی تھے، اب تو ایک اچھی خاصی تعداد صرف مجھ سے سفارش کراکے ٹکٹ کا پہلے ھی سے بندوبست کرلیتے تھے اور اگر ھاؤس فل نہ ھو تو مفت پاس سے ان کو فلم دکھانی پڑتی تھی، اور جبکہ میں نے خود اس سینما میں کبھی بھی بیٹھ کر پوری فلم نہیں دیکھی، اور کئی فیملیز نے تو خوامخواہ ھی رشتہ داریاں بھی بڑھالی تھیں، اور کچھ تو بہت زیادہ ھی نزدیک آنے کی کوشش کرتیں تاکہ اسی بہانے مفت میں فلمیں دیکھ سکیں اور نئی فلم ھو تو بغیر لائن میں لگے ھوئے اور بغیر بلیک کے ٹکٹ لے لیں!!!!!!!!!!!

فلموں کے حوالے سے کچھ اور اس سے پہلے کا واقعہ مجھے یاد آگیا، جو میں پہلے تسلسل کے ساتھ بیان نہیں کرسکا تھا اور اس سینما کو جوائن کرنے سے پہلے کا قصٌہ ھے، لیکن صحیح وقت کا اندازہ نہیں ھے، شاید ایک یا دو سال پہلے کی بات ھوگی، جب میرے سر پر فلموں کے کسی نہ کسی شعبہ میں کام کرنے کا بھوت سوار ھوا، ھیرو تو بن ‌نہیں سکتا تھا، کیونکہ باڈی اسٹرکچر اس قابل نہیں تھا، سائڈ رول کے لئے بھی میں فلموں کی ایک روایاتی انداز کے قابل نہیں تھا، ایک شوق تھا جو میں وہاں پر پورا کرسکتا تھا وہ صرف اسکرپٹ رائیٹر کا کیونکہ اردو لکھنے اور ڈرامہ نگاری نگاری کا تو بچپن سے شوق رھا ھے اور ریڈیو پاکستان میں بھی اسکرپٹ دیکھنے کو ملا،

اس وقت کراچی میں بھی اچھی خاصی فلمیں بنا کرتیں تھیں اور بہت اچھے ڈائریکٹر بھی موجود تھے اور اب تک رنگین فلموں کا دور نہیں آیا تھا، ایسٹرن اسٹوڈیوز اور ایک نیشنل اسٹوڈیوز ھی میں ھی زیادہ تر فلموں کی تیاری ھوا کرتی تھی، مگر وہاں داخل ھونا ایک بڑا مشکل کام تھا، میں نے کئی دفعہ کوشش بھی کی لیکن ناکام رھا، ایک دوست کے دوست کے اثر رسوق کو استعمال کیا اور ایک دن پہنچ گئے ایسٹرن اسٹوڈیو میں، ایک عجیب ھی دنیا دیکھنے کو ملی، ان صاحب نے ایک اسٹوری رائٹر کو ملایا، جو شاید اِدھر اُدھر کی کہانیاں جمع کرکے کچھ انگلش اور انڈین فلموں کی مکسچر سے کوئی کہانی تخلیق کرتے تھے، اور جو فلم بن رھی تھی اس کے ڈائریکٹر بھی تھے اور انھوں نے ایک موٹی آسامی کو فلم بنانے کے لئے پھانسا ھوا تھا، اور اتفاق سے وہ فلم کے ھیرو بھی تھے،

میں بھی کس شخص کے پاس پھنس گیا تھا، اس نے اپنی کہانی کو مجھ سے منظرنامہ اور مکالمہ نگاری کے حساب سے لکھوانا شروع کیا، جس میں سین نمبر اور شاٹ نمبر، کے علاوہ اس سین مین آوٹ ڈور یا ان ڈور ھے اور بیک گراونڈ میں کیا کیا چیزیں ھیں، کرداروں کے لباس کی تفصیل بمعہ جوتوں کے ساتھ وغیرہ وغیرہ فرش کیسا ھے کارپٹ یا ٹائیلز سارا منظرنامہ مکالموں اور کرداروں کے ساتھ، سب کچھ ھاتھ سے لکھنا تھا، مجھے کچھ پہلے سے اس کے بارے میں معلومات تھیں اور پہلے بھی اسٹیج شوز کے لئے اسکرپٹ لکھے تھے، اور ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ پڑھے بھی تھے، بس فرق منطرنامہ کا تھا جو اسٹیج شوز میں ضرورت نہیں پڑتی تھی، اور نہ ھی ریڈیو پاکستان کے ڈراموں کے اسکرپٹ میں،

اب تو پھنس ھی گئے تھے، کیونکہ ان کی اسٹوری کا کوئی سر پیر ھی نہیں تھا، کوئی صفحہ نمبر نہیں تھا کوئی ترتیب نہیں تھی، ایک صفحہ کہیں تو دوسرا کہیں، کوئی بھی کسی کا ربط یا تعلق نظر نہیں آتا تھا، پوچھنے پر وہ کہتے کہ بھی تمھیں کس لئے رکھا ھے، خود ڈھونڈ لو اور خود ھی ترتیب دے کر شروع ھوجاؤ، ارے بھئی کیا مشکل ھے !!!!!!، میں دل میں سوچتا کہ چلو کچھ تجربہ ھی ھوجائے گا اس لئے شروع تو کردیا لیکن اس رائیٹر ڈائریکٹر ایک تو آفس میں اکثر نظر نہیں آتا تھا اور آگر آفس میں بیٹھتا تو ھمیشہ مجھ سے چائے اور بسکٹ ھی منگاتا رھتا اور وہ بھی میرے ھی پیسوں سے بلکہ ایک دو نہیں بعض اوقات دوسروں کے لئے بھی مجھ ھی سے اور میرے ھی پیسوں سے چائے منگاتا اور ساتھ یہ بھی کہتا کہ ابھی فلمساز صاحب آئیں گے تو ڈبل پیسے دلوادونگا، اور وہ شخص سب کے سامنے مجھے خوب مکھن لگاتا کہ دوستو دیکھنا یہ لڑکا مستقبل میں ایک دن بہت بڑا اسکرپٹ رائیٹر اور فلم کا ڈائریکٹر بنے گا، اس میں بہت ٹیلنٹ ھے وغیرہ وغیرہ، وہان پر سارے ھی مفت خورے ھی نظر آئے ھر کوئی ایک دوسرے کی جیب پر نظر رکھتا تھا!!!

میں تو اپنی ڈھیر ساری تعریفوں کی وجہ سے اور اکڑ جاتا اور اپنی ھی جیب سے چائے اور ساتھ بسکٹ ساتھ سموسے بھی لے آتا وھاں پر کچھ مشہور اداکار بھی آتے اور کچھ نئے شوقین سفارشی اداکار بھی چکر لگاتے رھتے تھے، میں ان کو ھی دیکھ دیکھ کر خوش ھوتا تھا کہ یہ سینماؤں کی بڑی اسکرین کے فنکار اپنے سامنے دیکھ رھا ھوں اور اپنے ھی ھاتھ سے انہیں چائے بھی پلا رھا ھوں، اسکرپٹ تو کم لکھتا تھا مگر وہاں مجھے لگتا تھا کہ میں آفس بوائے کا کام زیادہ کرتا ھوں، آخر کو ایک دن ایک سیٹ پر جانا پڑا جہاں شوٹنگ ھورھی تھی، وھاں پر مجھے کلیپ بوائے کی ڈیوٹی دے دی اور جہاں مجھے ہر شاٹ پر کیمرے کے سامنے کلیپ کو دکھانا تھا جس پر چاک سے ہر شاٹ کا نمبر سین نمبر اور فلم کا نام پروڈکشن نمبر لکھا ھوتا تھا، کبھی کبھی تو میں نے کیمرے کی ٹرالی کو پٹری کے اوپر دھکا دے کر چلایا بھی، اور کبھی تو اوپر سیڑھی پر چڑھ کر اسپاٹ لائٹ سے خوبصورٹ چہروں پر لائٹ بھی ڈالی،

میں یہاں کیا کرنے آیا تھا اور کیا کررھا تھا، اور اپنی ھی جیب سے پیسے خرچ کئے جارھا تھا، ایک دن جناب سیدکمال صاحب ٹکرا گئے اور انہوں نے مجھے ایک نصیحت ضرور کی بیٹا ابھی تمھاری عمر پڑھائی کرنے کی ھے پڑھائی مکمل کرو اور ان کے چکرؤں میں مت پھرو یہ لوگ تمھیں بیچ کھائیں گے، انھوں نے مجھے اس کے آفس میں کئی بار دیکھا بھی تھا، بہت ھی میرے پسندیدہ آرٹسٹ ھیں، ان کی کامیڈی میں کبھی نہیں بھولتا، ان کی یہ بات میرے دل کو لگی تھی، اور کسی طرح بھی میں اب اس جگہ سے جان چھڑانا چاھتا تھا، مگر پہلے تنخواہ تو لےلوں یہ سوچ کر ان صاحب سے روز مطالبہ کرتا لیکن وہ ھمیشہ کل کا بہانہ کرکے ٹال دیتے، میں نے ایک دفعہ ان فلمساز سے بھی شکایت کی مگر انہوں نے یہی کہا کہ میرا پیسے کے لین دین سے کوئی تعلق نہیں ھے،

میں تو بہت مشکل میں تھا کافی پیسے اس ڈائریکٹر کو چائے بسکٹ میں کھلا چکا تھا، مگر کمبخت کوئی پیسوں کی بات ھی نہیں کرتا تھا بلکہ کئی دفعہ تو یہ کہتا کہ میں تو تمہیں ایک بڑے مقام پر لے جا رھا ھوں اور تم مجھ سے ھی الٹا پیسے مانگتے ھو، مجھے کمال صاحب کی بات یاد آگئی اور اس دن کے بعد سے میں نے وھاں کا رخ نہیں کیا، مگر وھاں رہتے ھوئے فلم کی شوٹنگ کے طریقہ کار کے بارے میں مکمل معلومات ھوچکی تھیں، اگر کوئی مجھے ایک مشہور اور اچھا ڈائریکٹر مل جاتا تو شاید جلدی اس لائن میں کوئی مقام حاصل کر سکتا تھا، ھر شوٹنگ کے دوران مختلف زاویوں سے کیمرے کو چلانا، اسکرپٹ کے حساب سے سیٹ اور کیمرے کو ترتیب دینا، ساونڈ کی دوبارہ ڈبنگ وغیرہ بھی بہت کچھ سیکھ چکا تھا!!!!!

مگر میں نے یہی محسوس کیا کہ ھر جگہ پر آپکی خواھش کامیاب نہیں ھوسکتی، اور اسی میں اُوپر والے کی کوئی نہ کوئی مصلحت ھوتی ھے، کئی اچھے خاندان کے لڑکے لڑکیاں اپنے اس فلمی شوق کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنی اچھی خاصی زندگیاں برباد کرلیتے ھیں، گھر واپس جانے کی ان میں ھمت نہیں ھوتی، میں نے خود وہاں کئی نئی شوقین لڑکیوں کو دیکھا جو اپنے شوق کی خاطر اپنے ماں باپ کی عزت کو داؤ پر لگائی ھوئی تھیں، وھاں پر اکثر لڑکوں کو دیکھا جو لڑکیوں کو اپنے جھوٹی محبت کی جال میں پھنسا کر لے کر آتے اور خود بھی برباد اور لڑکیوں کی زندگیوں کو اس طرح برباد کرکے دوسروں کے حوالے کرکے یا بیچ کر بھاگ جاتے تھے کہ لڑکیاں اپنے گھر واپس جانے کے قابل بھی نہیں رھتی تھیں !!!!!!

وھاں پر تو وھی کامیاب ھوسکتا تھا کہ یا تو جس کے پاس یا تو دولت وافر مقدار میں ھو یا کوئی خوبصورت سی لڑکی ساتھ ھو، میں نے تو اس طرح بھی دیکھا کہ جس لڑکے کے ساتھ کوئی خوبصورت لڑکی ھوتی تھی اسے کوئی بھی گیٹ پر نہیں روکتا تھا اور اندر جاتے ھی اسکی بڑی آؤ بھگت ھوتی تھی، ھر کوئی کھڑا ھوکر استقبال کرتا اور بڑی خاطر مدارات کرتا اور پھر بس ھیروین کا چانس کا لالچ دے کر نہ جانے کہاں کہاں آوٹ ڈور شوٹنگ کے بہانے جعلی ڈائریکٹر اور فلمساز بن کر اپنے ساز وسامان کے ساتھ آؤٹ ڈور لوکیشن پر لے جاتے اور پھر نہ جانے کیا کیا گل کھلاتے تھے، بعد میں دیکھو تو جو لڑکا ساتھ آیا تھا وہ تو غائب لیکن وھی لڑکی کسی اور مالدار آسامی کے ساتھ پھر رھی ھوتی تھی، نہ جانے کب تک ؟؟؟؟؟؟

اللٌہ تعالیٰ ھر ایک کی عزت و آبرو محفوظ رکھے، آمین!!!!!!

میں نے بس وھاں کی حالت زار دیکھ کر، وھاں سے بھاگنے کی ھی سوچی، اگر والد صاحب کو پتہ چلا تو وہ تو اس دفعہ بالکل بھی معاف نہیں کریں گے، میں تو انکی چوری سے کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے جاتا تھا، اچھا ھوا کہ جان خلاصی ھوگئی، میرا کوئی اتنا نقصان تو نہیں ھوا بس روزانہ چائے پانی پلانے میں جو خرچ ھوتے تھے اسی پر ھی اس قصہ کا تمام ھوگیا، اگر کوئی دولت بھی ھوتی شاید وہاں کے لئے کم تھی، بڑے بڑے بھوکے ننگے کنگلے لوگ وہاں دیکھے!!!!!!!!!!

چلئے واپس پھر اپنے سینما حال کی طرف آتے ھیں، جہاں ھم ایک اپنی اجارہ داری بنائے ھوئے تھے، اب تو سمجھئے ھر کوئی کسی نہ کسی لالچ کی وجہ سے خوب میرے اگے پیچھے گھومتے تھے، کبھی تو پرانی فلموں کے مالکان بھی مجبوری میں اپنی فلموں کی پروفائیل اٹھائے اٹھائے پہنچ جاتے اور کافی لالچ دیتے کہ ھماری فلم ایک ھفتہ کیلئے لگوادو، اس کے علاؤہ رش کے وقت لوگوں کی سفارشات، سینما کی کینٹین یا کیفیٹیریا، جو پبلک کو انٹرویل میں گھٹیا سے گھٹیا چیزیں بیچتے تھے، مگر مجھے اور میرے مہمانوں کو اسپشل چائے اور اچھی کوالیٹی کے بسکٹ اور اسپیشل سموسے بنوا کر بغیر کسی قیمت ٹرے میں خوبصورت طریقے سے سجا کر بھیجتے تھے، اسکی وجہ صرف یہ تھی کہ انٹرویل کا وقت 15 منٹ مزید بڑھا دیا جائے، ساتھ ھی وہ ایک ٹرے مشین کنٹرول روم میں فلم چلانے والے استاد جی اور انکے چیلوں کو بھی بھیجی جاتی تھی،

میری تو اس وقت چاندی ھی چاندی تھی، مگر میں زیادہ تر ھر ایک کی مدد کیا کرتا، وھاں پر کئی لڑکے بہت غریب خاندان کے بھی تھے جو انٹرویل میں چائے اور مختلف چیزیں سینما کے اندر پبلک میں بیچتے تھے، اکثر ان سے کوئی تھنڈی بوتل، گلاس یا کپ ٹوٹ جاتا‌ تو انکے پیسے کوشش کرتا کہ کینٹین والا معاف کردے اگر نہیں کرتا تو میں ان کا جرمانہ بھرتا تھا، اسکے علاوہ وہ یا کوئی بھی اسٹاف کا بندہ میرے پاس اپنی ضرورت لے کر آتا تو میں ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کرتا،!!!!

اور وہ لوگ سب میرا بہت خیال رکھتے تھے، اور سینما کی صفائی اور دوسرے کاموں میں میری بہت مدد بھی کرتے تھے، کبھی کبھی میں مشکلوں کا بھی شکار ھوا پبلک سے جوتے کھاتے کھاتے بچا کیونکہ ھر نئی فلم میں بلیک کے بغیر دوسروں کا گزارا نہیں ‌ھوتا تھا، کھڑکی سے ٹکٹ بہت ھی کم بانٹتے تھے، مجبوری تھی ورنہ وھاں کے مقرر کردہ علاقے کے ایریا ایجنٹ کے آدمیوں کے ساتھ اپنے سینما کے بدمعاش جو سیٹھ نے پالے ھوئے تھے، ان کا کوٹہ ھوتا تھا بلیک کرنے کا کیونکہ وہ پبلک سے ھماری جان اور سینما کی ٹوڑ پھوڑ کو بچانے میں مدد کرتے تھے، ورنہ تو نہ سیٹھ کی خیر اور نہ ھماری خیر!!!! اور کینٹین تو سیٹھ نے مجبوراً ان ھی لوگوں کے قبضے میں دی ھوتی تھی، جس کا کہ وہ کوئی کرایہ نہیں ‌دیتے تھے !!!! اگر وہ خوش تو سارا سینما خوش باش، کوئی پولیس انکی وجہ سے اندر آ نہیں سکتی تھی، اور واقعی پولیس بھی ان سے زیادہ ڈرتی تھی !!!!!!

اب تو میں دوستوں کے ساتھ باھر کم ھی جانے لگا کیونکہ سینما کے مسئلے مسائل ھی اتنے تھے کہ ان کو بھگتانے سے ھی فرصت نہین ملتی تھی، میرے ساتھ اب ھمیشہ کوئی نہ کوئی حفاظت کیلئے ان کا مقرر کردہ بندہ بھی ھوتا تھا کہ کوئی مجھے نقصان نہ پہنچائے، ان لوگوں کے بہت اُوپر تک تعلقات تھے، کوئی بھی کام کرانا ھو انکے بائیں ھاتھ کا کھیل تھا، مگر میں نے ان لوگوں سے کوئی بھی اپنا ذاتی کام نہیں کرایا، اور نہ ھی والد صاحب اس کی اجازت دیتے، والد صاحب نے کئی دفعہ مجھے منع کیا کہ یہ سینما کی نوکری چھوڑ دے، لیکن میں نہیں چھوڑتا تھا،کیونکہ اس میں ایک میرا رعب تھا اور لوگ بھی کافی آگے پیچھے پھرتے تھے، !!!!!

اکثر باھر سے دوست اپنی فیملیوں کو فلم دکھانے لے آتے تھے، میں انکو بغیر ٹکٹ ھی فلم دیکھنے کیلئے سینما مین بٹھا دیتا تھا اور سب کو پتہ ھوتا تھا کہ یہ میری فیملی ھے، سب انکے لئے ایٹرویل میں اسپشل چائے اور تھنڈی بوتلیں اور کھانے پینے کی چیزیں بھجواتے، اگر ھاؤس فل ھوتا تو اکسٹرا کرسیوں کا بھی بندوبست ھوجاتا، سب لوگ میری وہاں بہت عزت کرتے تھے اور سینما کا مالک تو بھی میری کارکردگی سے بہت خوش تھا !!!!!

ایک دن ایک لڑکا پرانے محلے کا جو اُس وقت بہت چھوٹا تھا اور زادیہ سے ٹیوشن پڑھتا تھا، بہت ھی اپنے وقت میں شریر بھی تھا میں اپنے سینما کے آفس میں بیٹھا ھوا تھا، دروازے پر کھڑے ھوکر دستک دی اور مسکراتے ھوئے اندر آنے کی اجازت مانگی، میں نے گردن ہلا کر آنے کیلئے کہا مگر میں نے اسے پہچانا نہیں، اس نے مجھ سے کہا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں نے دماغ پر زور دیا، کیونکہ اب وہ کافی بڑا ھوگیا تھا، کچھ ذہن پر زور ڈالا تو مجھے یاد آگیا، اور پھر میں نے اسے گلے لگالیا، اور سامنے بٹھایا، بہت سی پرانی بھولی بسری یادیں پھر سے تازہ ھوگئیں،

میں انے اپنا کام وغیرہ دوسرے بکنگ کلرک کے حوالے کیا اور اتنے میں چائے وغیرہ آگئی اور میں نے اسکے گھر والوں کی خیریت معلوم کی اور پوچھا کہ فلم دیکھو گے تو اس نے منع کردیا، بس اتنا ھی کہا کہ مجھے آپ سے ایک کام تھا، میں نے پوچھا کیا کام ھے جلدی بتاؤ !!!!! اس نے جواب دیا کہ مجھے زادیہ باجی نے بھیجا ھے، اور !!!!!!!!!!!!! آگے اس نے کیا کہا مجھے سنائی نہیں دیا، کیونکہ فوراً ھی انٹرویل کی گھنٹی بجی اور تمام دروازے کھل گئے اور پبلک کا شور اور میوزک اپنی تیز آواز میں شروع ھوگئی، اور چائے کے اسٹال پر بیچنے والوں کی آوازیں چائےگرم تھنڈی بوتل نے تو روز کی معمول کی طرح ھنگامہ شروع ھوگیا، مین نے اسے کچھ خاموش رھنے کا اشارا کیا اور آفس کا دروازہ بند کروادیا لیکن بار بار کوئی نہ کوئی کسی کام سے اندر آجاتا کوئی شکایت لے کر چلا آرھا ھے کبھی کچھ اور دروازہ کھلتے ھی باھر کا شور اندر آجاتا تھا !!!!!!!

میں یہ سوچ رھا تھا کہ کب یہ انٹرویل ختم ھو اور میں اسکی بات سنوں، مگر لگتا تھا کہ آج انٹرویل کا ٹائم ختم ھی نہیں ھوگا، میں نے زور سے ڈانٹ کر کہا کہ یہ انٹرویل کب ختم ھوگا ایک نے میرے کان میں کہا کہ صاحب آج نئی فلم ھے اور شو ھاؤس فل ھے اج تو 40 منٹ کا وقفہ ھے اور ابھی تو 15 منٹ ھی ھوئے ھیں، میرے لئے تو ایک ایک منٹ اس وقت ایک ایک گھنٹے کا لگ رھا تھا، میں زادیہ کا پیغام سننے کیلئے بے چین تھا اور یہ وقفہ مجھے بہت پریشان کررھا تھا!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-63- یہ عشق بھی کیا عشق جو، دیوانہ ھی بنا دیتا ھے !!!!!

میں یہ سوچ رھا تھا کہ کب یہ انٹرویل ختم ھو اور میں اسکی بات سنوں، مگر لگتا تھا کہ آج انٹرویل کا ٹائم ختم ھی نہیں ھوگا، میں نے زور سے ڈانٹ کر کہا کہ یہ انٹرویل کب ختم ھوگا ایک نے میرے کان میں کہا کہ صاحب آج نئی فلم ھے اور شو ھاؤس فل ھے اج تو 40 منٹ کا وقفہ ھے اور ابھی تو 15 منٹ ھی ھوئے ھیں، میرے لئے تو ایک ایک منٹ اس وقت ایک ایک گھنٹے کا لگ رھا تھا، میں زادیہ کا پیغام سننے کیلئے بے چین تھا اور یہ وقفہ مجھے بہت پریشان کررھا تھا!!!!!!!!!

ایسا لگتا تھا کہ بڑی مشکل سے انٹرویل ختم ھوا ھے، میں نے اس سے کہا کہ ھاں اب بتاؤ کہ کیا بات ھے، اس نے جواب دیا کہ ایک دن اتفاق سے مجھے وہ راستہ میں ملی تھیں جب وہ کالج سے واپس آرھی تھیں، اور وہ پھر مجھے گھر لے گئیں اور صرف یہ مجھ سے کہا کہ میں آپ کا اتا پتہ ڈھونڈ کر لاؤں!!! میں نے پوچھا کہ تمھیں یہاں کا پتہ کس نے بتایا!!! اس نے جواب دیا کہ پہلے تو میں پرانے محلے گیا، وھاں سے آپ کے گھر کا پتہ لیا اور وہاں سے پتہ چلا کہ آپ اس سینما میں کام کرتے ھیں، تو میں یہاں ھی سیدھا چلا آیا اور آج صبح سے آپکی تلاش میں ھوں اور اب شام کو آپ کے پاس پہنچا ھوں،!!!! میں نے زادیہ کی خیریت پوچھی کہ وہ کیسی ھے اور کچھ مزید کیا کہا،!!!! اس نے جواب دیا کہ بھائی جان !!!زادیہ باجی اب کچھ پہلے سے بہت زیادہ کمزور نظر آرھی تھیں اور بہت اداس بھی لگتی تھیں، اور بس انہوں نے آپ کا پتہ معلوم کرنے کو کہا تھا !!!!!! میں نے کہا کہ تم ابھی اندر ھال میں جاکر فلم دیکھو، میں جب تک ایک خط لکھتا ھوں اور تم نے یہ خط صرف اسی کے ھاتھ میں دینا ھے اور اسکا جواب بھی لے کر آنا ھے!!!!!

اس لڑکے نے تو سینما میں فلم دیکھنے سے منع کردیا لیکن کہا کہ وہ کل ضرور آئے گا اور یہ خط لے جائے گا، میں نے کہا نہیں میں ابھی یہیں تمھیں خط لکھ کردیتا ھوں تم اس کا جواب کل ضرور لے کر آنا، میں نے جلدی جلدی کچھ ھمت کرکے ایک پرچے پر اپنی طرف سے مختصراً اظہارِ محبت کرکے زادیہ سے اسکی رائے پوچھی کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتی ھے، بس اتنا سا کچھ الفاظوں کو خوبصورت انداز میں ڈھال کر ایک لفافے میں بند کیا اور اس لڑکے کو تھما دیا اور اس کے ھاتھ میں کچھ روپے رکھنے کی کوشش کی لیکن اس نے لینے سے منع کردیا اور کہا کہ آپ دونوں تو میرے استاد ھیں، میں یہ نہیں کرسکتا ھاں اگر کبھی کچھ ضرورت محسوس ھوئی تو ضرور لوں گا، اور اس نے یہ جاتے جاتے ضرور کہا کہ زادیہ باجی آپ کو دل سے بہت زیادہ چاھتی ھیں،!!! میں نے پھر اسکا بازو پکڑ کر کہا کہ کیا اس نے تمھیں یہ کہا ھے !! اس نے جواب دیا کہ کہا تو نہیں مگر میں نے ان کی باتوں سے اندازہ لگایا ھے!!! اور یہ بھی کہا کہ وہ بہت پریشان ھیں آپ ان سے ضرور ملئے گا، !!! اتنا کہ کر کل کے آنے کا وعدہ کرکے وہ واپس چلا گیا !!!!!

کل تک کا انتظار میرے لئے واقعی ایک بہت ھی بڑا کٹھن مقام تھا، میں اسی چکر میں رات بھر نہیں سو سکا، اور اپنی تمام پرانی ان یادوں کے وہ خوشگوار لمحات کے ایک ایک پل کو یاد کرتا رھا جو میں نے زادیہ کے ساتھ گزارے تھے، اس کا غصہ ھونا اپنی ضد پر اڑ جانا اور اپنی بات منواکر رھنا، اسکی یہ خاص عادتیں مجھے بہت پسند تھیں اور ایک ایک کرکے مجھے سب کچھ یاد آرھا تھا، اس کا روٹھ جانا اور میرا باجی سے سفارش کرکے اسے منانا اور پھر اسکا غصہ سے یہ کہنا کہ تمھیں تو منانا بھی نہیں آتا ھے، دوسروں سے سفارش کرواتے ھو، اور واقعی میں اس معاملے میں بالکل کورا تھا، نہ اب تک اس سے ڈر کے مارے اظہار محبت کیا اور نہ ھی کوئی خط لکھا تھا، نہ جانے آج کیسی ھمت کرلی اور اب ڈر بھی رھا تھا کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے کہیں اس کے اباجی نے پڑھ لیا تو مصیبت آجائے گی نہ جانے کیا کیا برے خیالات ذہن میں آرھے تھے ایک طرف جواب کے انتظار کی بے چینی اور ساتھ ایک عجیب سی خوشی بھی اور دوسری طرف ڈر اور خوف بھی تھا،

صبح صبح ھی تیار ھوکر سینما کی طرف چل دیا، ابھی بنک کے کھلنے میں بھی دو گھنٹے باقی تھے، سینما پہنچ کر روز کی معمول کی طرح تجوری کھولی اور کل کا کیش نکالا جو پہلے ھی سی کاونٹ کیا ھوا پیک رکھا تھا مکمل ڈپازٹ سلپ کے ساتھ، ساتھ چوکیدار کو لیا اور سامنے بنک کی ظرف چل دیا، چوکیدار نے کہا صاب جی ابھی تو بنک کھلنے میں ڈیڑھ گھنٹہ باقی ھے، آپ اتنی جلدی میں کیوں ھے، میں بھی بےوقوف تھا فوراً واپس ھوا اور پھر تجوری کھول کر واپس پیسے اس میں ڈال دئے اور میز پر سر کر سو گیا کیونکہ رات بھر کا جاگا ھوا تھا، کچھ دیر بعد مجھے چوکیدار نے اُٹھایا او کہا کہ چلئے بنک کے لئے، میں نے سارے پیسے اُٹھائے اور سامنے کے بنک پہنچ کر سارے پیسے جمع کرادئے، روز کے معمول کے مطابق ایک حصہ گورنمنٹ کے کھاتے میں اور دوسرا سیٹھ کے کھاتے میں، اور پھر واپس سینما کی ظرف واپس ھولیا،

اور آج تو کالج کی طرف بھی جانے کو دل نہیں کررھا تھا، سیدھے سینما کی تمام صفائی کی کاروائی دیکھی، سب صفائی کے لوگ اور ان کا انچارج کام میں لگے ھوئے تھے دوپہر کے ابھی 10 ھی بجے ھونگے، وقت بالکل تھم سا گیا تھا، میں بس اِدھر اُدھر سینما کا جائزہ لے رھا تھا، ایڈوانس بکنگ پر کچھ رش سا تھا کیونکہ نئ فلم لگی ھوئی تھی شاید ھفتہ کا دن تھا میں بھی ایڈوانس بکنگ کے کمرے میں جاکر بکنگ کلرک کے پاس بیٹھ گیا اور کچھ مدد کرنے لگا تاکہ کچھ ٹائم پاس ھوجائے، لیکن وقت گزرنے کا نام ھی نہیں لے رھا تھا، آج کسی کا پیغام آنے والا تھا اور نہ جانے اس میں کیا لکھا ھوگا، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اپنے ابا جی کے ساتھ آرھی ھوگی اور یہ سوچ کر میرا اور بھی دل دہل جاتا اور کبھی دل یہ کہتا کے محبت کا جواب محبت سے ھی آئے گا،

بڑی مشکل سے پہلے شو کا ٹائم نزدیک آرھا تھا، اور پبلک بھی آہستہ آہستہ جمع ھورھی تھی، گیلری اور فرسٹ کلاس کی تو پہلے ھی سے ایڈوانس بکنگ ھوچکی تھی، اور بلیک کے لئے بھی ٹکٹ پہلے سے الگ کئے جاچکے تھے، آگے کی تین کلاسس کی ٹکٹوں کی کھڑکیاں کھل چکی تھیں اور کچھ ٹکٹ بانٹنے کے بعد وہاں بھی سولڈآؤٹ کے بورڈز لگ چکے تھے، اور باھر اور اندر ٹکٹوں کی بلیک کھلم کھلا ھورھی تھی، باھر پولیس والے بھی ٹہل رھے تھے، وہ بھی اپنا حصہ لینے آئے ھوئے تھے تاکہ کھل کے بلیک ھو، اور خاص لوگ بھی آرام سے آتے تھے کیونکہ وہ بھی بلیک سے ٹکٹ خریدنے کے عادی ھوچکے تھے، منیجر کے کمرے میں سارے بکنگ کلرک جمع ھوکر اپنا اپنا کیش گن رھے تھے اور میں باھر ٹہل رھا تھا، اور ساتھ کسی کا انتظار کررھا تھا، سارا کام تو اپنا اسٹاف کرلیتا تھا، اور مجھے ان پر اعتماد ھی تھا اور ھاؤس فل کی ٹوٹل آمدنی کا فگر تو زبانی یاد تھا، اس کا چالان اور رجسٹر میں نے پہلے ھی سے بھر لئے تھے، بس بکنگ کلرکس مجھے پیسہ جمع کرکے دیں گے جو صبح ھی بنک میں پہنچ جائے گا،

فلم بھی شروع ھوچکی تھی اور مین باھر کھڑا روڈ پر اپنی نظریں جمائے ھوئے تھا، جن لوگوں کو ٹکٹ نہیں ملے تھے وہ مجھے آکر پکڑ لیتے اور میں بڑی مشکل سے اں سے جان چھڑا رھا تھا، اسی دوران مجھے وہ لڑکا نظر آگیا اور فوراً میں اس کی طرف لپکا، اور آتے ھی اس نے ایک چھوٹا سا لفافہ مجھے تھمایا اور شاید وہ کچھ جلدی میں تھا، اس لئے بعد میں آنے کا وعدہ کرکے فوراً ھی چلا گیا، اور میری تو دل کی دھڑکنیں تیز سے تیز تر ھوتی چلی جارھی تھیں، اس لفافے کو کھولتے ھوئے میرے ھاتھ کانپ سے رھے تھے، بڑی مشکل سے اس لفافہ میں سے پرچہ نکالا اور ایک چھوٹی سی پرچی سی تھی اور اس میں چار یا پانچ لائنوں میں مختصر سا کچھ انگلش میں یوں لکھا تھا!!!!!!

ڈیر ارمان !!!!! (اس وقت میرا نک نام اور تخلص بھی تھا )
تمھاری یاد دھانی کا بہت بہت شکریہ،
میں بھی تمھیں اپنے دل کی گہرائیوں سے چاھتی ھوں،
اور میں تمھارا اتوار کو شام کے پانچ بجے گھر پر انتظار کرونگی،
فقط،
صرف تمھاری اور صرف تمھاری
،،،،Z،،،
یہ پڑھ کر تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں ھوا میں اُڑ رھا ھوں، اور ایک پاگلوں کی سی کیفیت میں گرفتار، کچھ سمجھ میں نہیں آرھا تھا، کیا کروں، آج ھفتے کا دن تھا اور کل اتوار تھا اور کل کے آنے میں ابھی 24 گھنٹے باقی تھے اور یہ وقت پھر ایک مشکل آن پڑی تھی کہ کیسے گزاروں، دل تو چاھا کہ آج ھی کیوں نہ چلا جاؤں، مگر ایسا کیسے ھوسکتا ھے وعدہ کی لاج بھی تو رکھنی تھی، بار بار اس پرچے کو پیار کررھا تھا اور اپنی آنکھوں سے لگا بھی رھا تھا، اور باربار پڑھتا بھی جا رھا تھا اور اپنی آنکھوں پر مجھے یقین بھی نہیں آرھا تھا!!!!!!!!

یہ عشق بھی کیا عشق جو، دیوانہ ھی بنا دیتا ھے
جلتی شمع میں جل جائے جو، پروانہ ھی بنا دیتا ھے


آج وہ مجھے خزانہ حیات مل گیا جو میں کئی سالوں سے اس کیلئے ترستا رھا، چلو، اچھا ھی ھوا جو کچھ ھم نہ کہہ سکے ان کی تحریر نے ھی برسوں بعد ھمارے دل کی ترجمانی کردی!!!!!

اپنی زباں سے جو ھم نہ کر سکے اظہارِ محبت
دیکھو ان کی تحریر ھی لے گئی اس بار سبقت

دل میں بھی یہ سوچتا رھا کہ وہ بھی کیا سوچے گی کہ میں کتنا بزدل یا ڈرپوک تھا یا شرم حضوری میں ھی مارا گیا، کچھ بھی نہ کہہ سکا اور کہتے کہتے رہ بھی گیا، بڑی مشکل سے رات سارے ماضی کے خوابوں کے جھروکوں میں ھی گزرگئی، ھر ایک وہ لمحہ بار بار مجھے جھنجھوڑ دیتا، جو میں نے زادیہ کے ساتھ جو ایک ایک پل گزارے تھے، اس کا وہ بارشوں میں درختوں پر ڈالے ھوئے رسی کے جھولے پر جھولنا اور مجھے ھی ساتھ لئے اس کا گھومنا اسے بارش بہت پسند تھی، اور وہ جب بھی باہر نکلتی مجھے کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کر لے آتی اور میرے ساتھ ھی بارشوں میں خوب کھیلتی اور جھولا جھولتی، اور میں درخت کے نیچے بارش میں بھیگتا ھوا اسے جھولے جھولتے ھوئے دیکھتا، کبھی کبھی امرودوں کے باغوں میں خوب بچوں کی طرح مچلتی اور مجھے اس کے لئے امرود توڑنے پڑتے تو کبھی بیروں کے درختوں سے میٹھے بیر، اور میرا ھاتھ پکڑ کر بھاگتی پھرتی میں تھک جاتا مگر وہ نہیں تھکتی تھی، اگر میں کسی بات سے انکار کردیتا تو وہ ناراض ھوجاتی، اور میں اسے کبھی ناراض نہیں دیکھ سکتا تھا!!!!

وہ اپنے آپ کو میرے ساتھ خود کو بہت محفوظ سمجھتی تھی، جبکہ دوسرے لڑکے اس کی تیزتراری سے بہت ڈرتے تھے، وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتی تھی، اور وہ صرف میرے ساتھ ھی خوش رھتی اور اسکے گھر والے بھی اسے صرف میرے ھی ساتھ باہر جانے کی اجازت دیتے تھے اور یہ سلسلہ تو بچپن سے ھی تھا، اور پتہ ھی نہیں چلا کہ ھم دونوں نے جوانی میں کب قدم رکھا اور کبھی کچھ محسوس ھی نہیں کیا اور نہ کسی برے خیال کو ذہن میں آنے دیا، مگر دنیا والوں نے ھمیں احساس دلا ھی دیا اور ھم لوگوں کے درمیان رنجشوں کی ایک دیوار کھڑی کردی!!!!

یہی سوچتے سوچتے رات بہت مشکل سے آنکھوں ھی آنکھوں میں ھی کٹ گی، آج پھر میں کتنے عرصے بعد اسکی من موھنی صورت دیکھنے کو ملے گی، اور میں یہ بھی سوچ سوچ کر پریشان تھا کہ اسکا میں سامنا کیسے کرونگا، خود نے تو آج تک یہ کہنے کی ھمت کی نہیں، آج اس نے جب تحریراً اقرار کیا تو اسکے سامنے جاتے ھوئے گھبرا بھی رھا تھا، صبح تو ھوگئی اب شام کیسے ھو، یہ بڑی مشکل تھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے پھر وقت ٹھر گیا ھو، گھڑی کی سوئی آگے بڑھ کے نہیں دے رھی تھی، ناشتہ بھی حلق سے نیچے اتر نہیں رھا تھا، جانے آج مجھے کیا ھوگیا، نہ جانے یہ کیسی خوشی تھی کہ آنکھوں میں آنسوؤں کا گماں ھوتا تھا!!!!!!!!

آج کی میں نے چھٹی ھی کرلی تھی اور پہلے ھی سے اپنے اسسٹنٹ کو کہہ دیا تھا کہ سارا کام سنبھال لینا، کوئی مشکل ھونے نہ پائے، کیونکہ مجھے یہ پتہ تھا کہ آج کے دن میں کوئی بھی کام صحیح ظرح انجام نہیں دے پاؤنگا اور نہ ھی کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے کی ذرا بھی ھمت نہیں رکھ سکتا تھا، گھر سے ایسا بن ٹھن کے نکلا جیسے آج ھی میری شادی ھورھی ھو اور کیوں نہ ھو آج کا دن تو میرے لئے کسی شادی سے کم بھی نہیں تھا، نکلتے نکلتے بھی کئی دفعہ اپنی شکل اور بالوں میں کنگھی کرکے بار بار آئینے کو بھی شرمندہ کیا، اور آئینے کو بھی شاید پہلی بار sorry کہا، گھر پر شاید بہن نے پوچھا بھی کہ خیر تو ھے آج کیا کہیں خاص پارٹی میں جارھے ھیں، میں نے پوچھا بھی کہ میں کیسا لگ رھا ھوں، اس نے کہا کہ آج تو آپ بہت اچھے لگ رھے ھیں، میرے بھائی کو آج کسی کی نظر نہ لگ جائے!!!!!!

باھر نکلا تو جو بھی جاننے والا مجھے ملتا تو دو چار سوال کر ھی دیتا تھا اور کچھ مذاق بھی کرتے گزر جاتے، اور پھر سیدھا ٹیکسی میں سینما گیا، تمام پچھلے دن کا کیش بنک میں جمع کرایا اور اپنے دراز میں سے اپنا جمع کیا ھوا کیش نکالا، کچھ دیر تک وقت پاس کرنے کیلئے آج کے پہلے شو کے ھر کلاس کے ٹکٹ کے سیریل نمبر چیک کئے اور ھاؤس فل پر آخری ٹکٹ پر نشانی لگائی، تاکہ گنجائیش سے زیادہ ٹکٹ نہ نکل جائیں، اس طرح تو ھم روز ھی ھر شو اسٹارٹ ھونے سے پہلے ھر بکنگ کلرک کو تکٹ کی بک دینے تھے، چاھے ھاؤس فل ھو یا نہ ھو، یہ تو روز کا ھی معمول تھا، لیکن میں کچھ زیادہ ھی احتیاط سے کررھا تھا، کیونکہ ایک تو دماغ آج اپنے بس میں نہیں تھا، اور اس کے علاؤہ وقت بھی تو گزارنا تھا، !!!!!!!

بڑی مشکل سے وقت کی گھڑی نے دو بجائے اور پبلک کا رش آھستہ آھستہ بڑھنے لگا، دیکھا تو سینما کا سیٹھ آن پہنچا اور نیچے ھال میں ھی پبلک کو دیکھ کر خوش ھورھا تھا، کیونکہ زندگی میں پہلی بار اس کے خاندان میں یہ سینما بنا تھا، میرے لئے تو آج کے دن تو یہ کیا مصیبت سامنے آگئی، آخر مجبوراً مجھے ڈیوٹی دینی ھی پڑی جب کہ اسسٹنٹ نے مجھے کہا بھی کہ چپکے سے کھسک لو میں بعد میں سنبھال لونگا، لیکن میں ایسا نہیں کرسکتا تھا، کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ میرے نہ ھونے پر بعد میں وہ بہت شور کرے گا، وہ میرے ساتھ ساتھ پھر رھا تھا اور مجھ پر خوب رعب بھی جھاڑ رھا تھا کیونکہ وہ پبلک پر بھی اپنا ایک مالک کا تاثر چھوڑنا چاھتا تھا، اس دن اس نے مجھے کہا کہ خیال رکھنا آج کسی وقت بھی اس فلم کے ڈائریکٹر، ھیرو اور ھیروئن بھی آسکتے ھیں، ان کے لئے خاص خاظر مدارات کا انتظام بھی کرنا ھے اور سیکوریٹی کا بھی اچھا انتظام ھونا چاھئے،!!! ایک اور نئی مشکل آن پڑی!!!!!

میں نے دل میں یہ سوچا کہ بھئی آج کے دن تو میں خود ھی ھیرو ھوں، کیوں دوسرے کو تکلیف دیتے ھو، پندرہ منٹ میں ھاؤس فل کا بورڈ لگا دیا گیا اور فلم کے شروع ھونے کی گھنٹی بھی بج گئی اور باھر پبلک کا شور جنکو ٹکٹ نہیں ملے اور بلیک کرنے والون کے پیچھے دوڑ بھاگ رھے تھے،
سیٹھ نے مجھے کہا “تُو یہ ٹکٹ کیوں بلیک کراتا ھے، حشر میں کون جواب دے ھوئیں گا“ میں نے کہا کہ “تم جواب دہ ھو گے،یہ میرے حکم سے بلیک نہیں ھوتا ھے یہ تو تمھارا ھی آرڈر ھے“ اس نے کہا کہ کبھی میرا نام مت لینا کبھی اگر مسلئہ کھڑا ھوجاوئے تو اپنا نام لے لینا میں تیرے کو چھڑالے گا اگر تو پکڑا گیا جبھی“!!!!!!

وقت اب تیزی سے گزر رھا تھا اور یہ سیٹھ کا بچہ میری جان نہیں چھوڑ رھا تھا، اچانک ھی ٹیلیفون آگیا، شکر ھے کہ اسی نے ھی اٹھایا اور جو مہمان آنے والے تھے انہوں نے معذرت کرلی تھی، اور مجھے کہا کہ وہ سب جو آرڈر دیا وہ کینسل،!!! میں نے کہا وہ تو میں نے آرڈر دے دیا ھے فائیو اسٹار ھوٹل سے منگوایا ھے،اور میں نے کہا کہ اگر کینسل کرانا ھو تو مجھے ھی خود جانا پڑے گا اگر اپکی اجازت ھو،!!! اس نے فوراً اجازت دے دی اور بولا کہ اگر بل آیا تو تمھاری تنخواہ سے کاٹے گا!!!، میں نے دل میں سوچا کہ ویسے بھی تمھاری تنخواہ کی فکر کون کرتا ھے، تمھاری ایک مہینے کی تنخواہ تو ھم تمھارے ھی سینما سے روزانہ بلیک کی کمائی سے نکالتے ھیں، اور میں نے کوئی بھی فائیو اسٹار ھوٹل میں کوئی بھی آرڈر نہیں دیا تھا وہ تو میں نے اس سے اپنی جان چھڑانے کا ایک بہانہ بنایا تھا، مگر جاتے جاتے کہہ گیا کہ کینسل کرانے کا کچھ جرمانہ بھرنا پڑے گا، اس نے فوراً حامی بھر لی اور مجھے کہا کہ میرے ڈرائیور کو لے جاؤ، میں نے کہا چلو ٹھیک ھے گاڑی میں ایک اپنا رعب بھی رھے گا اور پیسے بھی بچیں گے، اور اگر موقعہ ملا تو آج ان سب کو فائیو اسٹار ھوٹل میں سیٹھ کی کار میں لے بھی جاؤنگا، اور وھاں سے ڈرائیور کو واپس بھیج دونگا ویسے بھی ڈرائیور بھی اپنا ھی تابعیدار بندہ تھا وہ میری زیادہ اور سیٹھ کی کم ھی سنتا تھا کیونکہ ایسے موقعوں پر تو میں اسکی تنخواہ سے زیادہ تو اسکو بخشش دیتا تھا!!!!!!

راستے میں ڈرائیور کے سامنے کے شیشے میں اپنے بال اور چہرے کو کچھ درست کیا اور ایک گفٹ شاپ پر اسے رکنے کیلئے کہا اور وھاں جاکر ایک چھوٹا خوبصورت سا مگر ذرا کچھ مہنگا سا نیکلس لیا، جوکہ یہ میں اپنی زندگی میں پہلی بار کسی کیلئے لے رھا تھا، دکان والے نے اسے بہت ھی خوبصورت پیکنگ کے چھوٹے سے ڈبے میں ڈال کر مجھے دے دیا اور میں نے طے شدہ قیمت دے کر دکان سے باھر نکلا اور ساتھ ھی پھولوں کے گلدستے کی دکان تھی، وھاں سے ایک چھوٹا سا خوبصورت گلدستہ بھی خرید لیا، ڈرائیور بھی سمجھ گیا کہنے لگا آج لگتا ھے کسی خاص کے پاس آپ جاتا ھے، میں نے کہا کہ ھاں وہ بہت ھی زیادہ خاص ھے، اور اسے پھر راستہ بتانے لگا،

انکے گھر کے قریب ھی گاڑی کو رکوایا اور ٹھیک شام کے پانچ بجنے والے تھے، شکر ھے کہ صحیح وقت پر پہنچ گیا میں نے کار کی کھڑکی کے شیشے میں سے ھی اُوپر کی منزل کا پردہ ھلتے ھوئے دیکھ لیا تھا، اور ڈرائیور نے ھی دروازہ کھولا، ھاتھ میں گلدستہ تھا، جیب میں وہ قیمتی تحفہ بھی میں نے چیک کرلیا اور پھر بڑی احتیاط سے کار سے نیچے اترا اور آھستہ آھستہ سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھانے لگا، لیکن میرا دل زور زور سے دھڑک رھا تھا، لگتا تھا کہ اچھل کر باھر آجائے گا!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-64- ابھی تو عشق میں امتحاں اور بھی ھیں!!!!!

انکے گھر کے قریب ھی گاڑی کو رکوایا اور ٹھیک شام کے پانچ بجنے والے تھے، شکر ھے کہ صحیح وقت پر پہنچ گیا میں نے کار کی کھڑکی کے شیشے میں سے ھی اُوپر کی منزل کا پردہ ھلتے ھوئے دیکھ لیا تھا، اور ڈرائیور نے ھی دروازہ کھولا، ھاتھ میں گلدستہ تھا، جیب میں وہ قیمتی تحفہ بھی میں نے چیک کرلیا اور پھر بڑی احتیاط سے کار سے نیچے اترا اور آھستہ آھستہ سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھانے لگا، لیکن میرا دل زور زور سے دھڑک رھا تھا، لگتا تھا کہ اچھل کر باھر آجائے گا!!!!!!!!

ایک ایک سیڑھی چڑھنا میرے لئے ایک قیامت کا سماں تھا، میرے قدم خود میرا ساتھ نہیں دے رھے تھے، ھاتھ میں بھی ایک کپکپاھٹ طاری تھی، اور یوں لگتا تھا کہ سردی دے کر بخار چڑھ گیا ھو، ایک دفعہ تو دل چاھا کہ بھاگ چلوں، کیونکہ جو میری حالت تھی شاید ھی کبھی ایسی ھوئی ھوگی، سردیوں کا شروع تھا اور موسم بہت ھی خوشگوار ھی تھا، اس کے باوجود مجھے تو پسینے چُھوٹ رھے تھے، بار بار رومال سے پسینہ پوچھ رھا تھا، جیسے ھی دروازے پر پہنچا تو ایک منٹ کا میں نے وقفہ لیا تاکہ کچھ حواس درست ھوجائیں پھر آہستہ سے دروازے پر لگی ھوئی گھنٹی دبادی، ایسا لگتا تھا کہ پہلے ھی سے کوئی دروازے پر منتظر تھا، گھنٹی کے بجنے کے ساتھ ھی فوراً دروازہ بھی کھل گیا سامنے ملکہ باجی کھڑی تھیں !!!!!!

نہ وہ مجھے کچھ کہہ رھی تھیں اور نہ اندر آنے کو کہا بس وہ تو مجھے بس غصہ سے پتہ نہیں، شاید مجھے ھی یہ محسوس ھورھا ھو، وہ مجھے گھورے ھی جارھی تھیں، میں نے فوراً ھمت کرکے کہا،!!! کیا بات ھے باجی کیا اندر آنے کے لئے نہیں کہو گی، یا آج بھی کرفیو لگا ھوا ھے،
وہ فوراً ھی سٹپٹا سی گئیں، نہ جانے کیا بات ھے کیا ان کو میرے آج یہاں آنے کی خبر زادیہ نے دی بھی ھے یا نہیں، میں نے وہ پھولوں کا گلدستہ اپنے بائیں ھاتھ میں پکڑے پیچھے کمر کی طرف چھپایا ھوا تھا، اور جیسے ھی باجی نے مجھے اندر آنے کیلئے راستہ دیا، میں داخل ھوا اور وہ جیسے ھی دروازہ بند کرنے کیلئے مُڑیں، میں نے جلدی سے دروازے کے ساتھ ھی برآمدے میں ایک شلف کے اوپر وہ گلدستہ رکھ دیا، جو اچھا خاصہ اونچا تھا، اور ھاتھ سے دھکا دے کراور پیچھے کو بھی کردیا، اور یہ اتنی جلدی آناً فاناً ھوا کہ میں خود بھی حیران تھا،

اوپر شیلف کی طرف ایک نظر دوڑائی کہ کہیں کچھ گلدستہ کا کوئی حصہ دِکھ تو نہیں رھا، یہ اطمنان کرکے باجی کے پیچھے بیٹھک میں چلتا چلا گیا، وھاں ان کی والدہ برجمان تھیں اور شاید چشمہ لگا کر کوئی سوئیٹر بن رھی تھیں، ان کو جھک کر سلام کیا، انہوں نے بھی اپنے اسی انداز میں ماتھے پر پیار کرکے بہت پیار سے جواب دیا، مگر مجھے باجی کی طرف سے کوئی بھی مثبت تاثر نہیں مل رھا تھا، میں خالہ کے ساتھ رسماً گفتگو میں شریک ھوگیا انہوں نے ھمارے گھر کی خیریت معلوم کی اور میں نے وھی معمول کی طرح سب ٹھیک ٹھاک ھی کہا، میں باتیں تو ان سے کررھا تھا، لیکن میری نظریں تو کسی اور کو ڈھونڈ رھی تھی جس کے بلاؤے پر میں یہاں وارد ھوا تھا،!!!!!

میں نے ڈرتے ڈرتے اور زبردستی منہ پر مسکراہٹ بکھیرتے ھوئے آخر پوچھ ھی لیا کہ زادیہ نظر نہیں آرھی،!!!! انہوں اپنے چشمے میں سے جھانکتے ھوئے کہا کہ وہ شاید کچن میں مصروف ھے، مگر انکا جواب ایسا تھا جیسے میں نے کوئی مزاج کے خلاف ھی بات کہہ دی ھو، ادھر باجی بھی دوچار باتیں کرکے ایک کونے میں کوئی رسالہ دیکھنے میں مصروف ھوگئیں، اور میں بھی ایسے ھی ایک اخبار سامنے کی ٹیبل سے اٹھایا اور صفحوں کو خوامخواہ ھی پلٹنے لگا، میری سمجھ میں یہ بالکل نہیں آرھا تھا کہ ماجرا کیا ھے، میں نے کہیں یہاں آکر کوئی غلطی تو نہیں کی، میں نے ذرا ایک جنبش لی اور کھڑا ھوکر اِدھر اُدھر دیکھتے ھوئے کچن کی طرف چل دیا، کچن کے دروازے پاس جاکر میں نے زادیہ کو آواز دی، وہ شاید سنک کے پاس کھڑی کچھ برتن کھنگال رھی تھی فوراً ھی اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا تو وہ مجھے کچھ بدلی بدلی سی نظر آئی، اسکی آنکھوں میں مجھے نمی سی نظر آئی اور کچھ کچھ سرخ بھی تھیں، جیسے اکثر زکام کے وقت آنکھوں کی حالت ھوتی ھے، اور آواز بھی بھرائی ھوئی تھی، میں نے پوچھا کہ طبعیت تو ٹھیک ھے،!!!! اس نے جواب دیا ھاں ٹھیک ھے، بس ایسے ھی نزلہ زکام سا ھوگیا ھے، تم سناؤ کیسے ھو !!! میں نے بھی جواباً کہا کہ ھاں بس گزررھی ھے، اور میں کچھ کہنے ھی والا تھا کہ انکی امٌی آگئیں اور شاید چائے کے لئے کہہ رھی تھیں یا کچھ اور کہا، مگر کسی اچھے موڈ میں نہیں کہا، اور مجھے کہا ارے تم ڈراینگ روم میں بیٹھو میں ابھی چائے لاتی ھوں،!!!!!!

اور باجی بھی کچھ اداس اور موڈ بھی خراب لگ رھا تھا، میں نے بھی زیادہ کچھ پوچھا نہیں، کچھ سمجھ میں بھی نہیں آرھا تھا، کہ کس موضوں پر بات کروں، میں ابھی سوچوں میں ھی گم تھا کہ خالہ جان چائے لے کر آگیئں اور پیچھے پیچھے افسردہ سی زادیہ بھی آگئی اور ھم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دونوں ھی ایک دوسرے کے لئے سوالیہ نشان لگ رھے تھے، میں اب کیا بات کروں کوئی بھی وھاں سے ھل بھی نہیں رھا تھا اور ان کے سامنے کیا بات کرسکتا تھا ایک عجیب سی کیفیت کا عالم تھا، کچھ خاموشی اور کچھ اداسی کا ماحول مجھ سے اب بالکل برداشت نہیں ھو رھا تھا، خالہ نے کہا کہ بیٹا چائے پیو نہیں تو ٹھنڈی ھو جائے گی، مجھے ایسا لگا کہ جیسے کہہ رھی ھوں کہ چائے پیو اور یہاں سے کھسکو،!!!!

ابھی میں نے چائے کی پیالی اُٹھائی ھی تھی کہ دروازے کی گھنٹی کی آواز سنائی دی، اور زادیہ دروازے پر گئی اور مجھے لگا کہ خالو تھے، کیونکہ انہیں بات کرتے سنا کہ کون آیا ھے،!!! میری تو جان ھی نکل گئی، اور باجی تو فوراً اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئیں اور خالہ نے تو اپنا ھاتھ ماتھے پر زور سے ھاتھ مارا اور چہرے پر گھبراھٹ طاری کرتے ھوئے کہا کہ آج تو مصیبت آھی گئی !!!!!!!!!

میری تو ایک سانس آرھی تھی اور دوسری سانس پتہ نہیں کہ آ بھی رھی تھی کہ واپس جارھی تھی معلوم نہیں، میں بھی ایک مشکل حالات سے دوچار کروں تو کیا کروں، کوئی اور دوسرا دروازہ بھی نہیں‌ تھا کہ راستہ ناپ لیتا، وھیں آرام کرسی پر ھی بیٹھا رھا، اور خالو غصہ میں اندر آئے اور میں نے سلام کرنا بھی چاھا لیکن ‌موقعہ ھی نہیں دیا غصٌہ میں شاید باجی کو ڈھونڈتے ھوئے دوسرے کمرے میں چلے گئے، اور انکے اندر جاتے ھی ایک زور دار تھپڑ لگنے کی آواز آئی، اور اندر اس کمرے میں تو باجی تھیں، انکی والدہ یہ سن کر وہ بھی اسی کمرے میں دوڑی چلی گئیں اور جاتے جاتے مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہتی ھوئی گئیں کہ تم یہاں سے اب فوراً چلے جاؤ تو بہتر ھوگا،!!!!

میں فوراً اٹھا لیکن میں کیسے چلا جاتا ادھر باجی کو جو میری وجہ سے ھی تھپڑ پڑا تھا اور ساتھ یہ بھی خالو کی آواز آرھی تھی کہ تمھیں شرم نہیں آتی اس لڑکے کو پھر اپنے گھر پر بلایا ھے، جس کی وجہ سے ھم بہت ذلیل ھوئے تھے اور تمھیں شاید نہیں کہ ان کے والدین نے تمھیں اور ھمیں کتنا برا بھلا کہا تھا، کیا مجھے ان کو دھرانے کی ضرورت ھے، جتنا اس لڑکے کا خیال رکھا اور بچپن سے لےکر بڑے ھونے تک اپنے سینے سے لگائے رکھا، اسکا تمھیں اور ھمیں کیا صلہ ملا تھا، کچھ یاد ھے یا سب تم بھول چکی ھو اور انکی خالہ نے مداخلت کرنے کی کوشش بھی کی لیکن تو انہوں نے ان کو بھی باتیں سناتے ھوئے کہا کہ یہ سب کچھ تمھارے ھی لاڈ پیار کی وجہ سے ھوا ھے !!!!!!!

اور نہ جانے کیا کچھ کہتے رھے اور میں وھاں یہ کھڑے کھڑے سنتا رھا اور میری آنکھوں میں آنسو آگئے، ایسا میں ‌نے سوچا تک نہیں تھا کہ ایسا بھی ھوسکتا ھے، زادیہ میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا کہ تم خدارا اس وقت واپس چلے جاؤ، میں بعد میں تم سے رابطہ کرونگی مگر تم اس وقت یہاں سے چلے جاؤ پلیز !!!!

میں اس ماحول کی بدمزگی کی وجہ سے بالکل اپ سٹ ھوگیا تھا اور میں جو کچھ زادیہ سے کہنا چاھتا تھا وہ بھی بھول چکا تھا، یہاں تک کہ جو میں اس کے لئے تحفہ لایا تھا وہ بھی اسے دینا بھول گیا، اتنا تو وقت میرے پاس تھا کہ اسکو وہ گفٹ پکڑا سکتا تھا لیکن میرا بھی دماغ خراب ھی تھا ایک اچھا چانس تھا وہ بھی کھو دیا اور کچھ بھی بول نہ سکا، اور جاتے جاتے وہ گلدستہ کو بھی اوپر سے اتار کر نہ دے سکا ایک تو شیلف کے بہت اوپر اور شیلف پر اچھل کر بھی ھاتھ لگانا بھی مشکل نظر آتا تھا، کیونکہ وہ گلدستہ بالکل پیچھے کی ظرف چلا گیا تھا، اور موقعہ کی نزاکت بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی،!!!!!

اور میں بھی اس وقت بالکل مجنوں کی طرح مسکین صورت بنائے زادیہ کے ساتھ ساتھ دروازے کی طرف جارھا تھا، اور جیسے ھی دروازے سے پیر باھر نکالے، زادیہ نے کچھ مجھ سے کہا لیکن میں جلدی میں کچھ بھی سمجھ نہیں سکا مگر میں نے اس کے ایک ھاتھ کے اشارے کو دیکھ لیا تھا جو مجھے دوسرے ھاتھ سے دروازہ بند کرتے کرتے الوداع کہہ رھے تھے!!!!!!!!

بڑے بےآبرو ھو کر تیرے کوچے سے ھم نکلے !!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-66- عشق میں ناکامی کے بعد زندگی کا ایک نیا سفر،!!!!!

اور میں بھی اس وقت بالکل مجنوں کی طرح مسکین صورت بنائے زادیہ کے ساتھ ساتھ دروازے کی طرف جارھا تھا، اور جیسے ھی دروازے سے پیر باھر نکالے، زادیہ نے کچھ مجھ سے کہا لیکن میں جلدی میں کچھ بھی سمجھ نہیں سکا مگر میں نے اس کے ایک ھاتھ کے اشارے کو دیکھ لیا تھا جو مجھے دوسرے ھاتھ سے دروازہ بند کرتے کرتے الوداع کہہ رھے تھے!!!!!!!!

بڑے بےآبرو ھو کر تیرے کوچے سے ھم نکلے !!!!!!!


میرے ساتھ ھی یہ ھمیشہ کیوں مسئلہ ھوتا ھے کہ جیسے ھی کوئی کام ھونے والا ھوتا ھے یا کسی کامیابی کی طرف بہت تیزی سے آخری منزل کی طرف پہنچنے والا ھوتا ھوں تو فوراً ایسا لگتا ھے کہ کسی نے نیچے سے ھی اچانک سیڑھی کھینچ لی ھے یا اُوپر سے کسی نے دھکا دے دیا ھے!!!!!!

اسکے علاؤہ جو بھی بچپن میں شوق رکھے، چاھے وہ اچھے تھے یا برے، بڑے ھوکر وہی شوق دوبارہ میری زندگی میں ایک کیرئیر کے روپ میں میرے سامنے آئے، پینٹنگ اور مصوری کا، اسکرپٹ اور ڈرامہ نگاری کا، افسانہ نگاری، اسٹیج شوز اور سب سے اھم سینما کا پروجیکٹ، جو اس وقت اپنی کہانی کے موڑ میں بحیثیت ایک کیرئیر کے کامیابی سے چل رھا ھے، یہ سب میں نے اپنے بچپن میں چھوٹے پیمانے پر ایک شوق کی حیثیت سے ایک حد تک کامیابی بھی حاصل کی تھی!!!!

اور ایک چیز اور ھے جو شاید سب کے ساتھ بھی ھوتا ھوگا کہ کوئی ایسا منظر حقیقت کی زندگی میں اس طرح دوبارہ ایک دم سامنے آجاتا ھے جیسے محسوس ھوتا ھے کہ یہی ھُوبہو اسی تسلسل کے ساتھ پہلے بھی یہی منظر حقیقیت میں جیتے جاگتے یا کبھی خواب میں دیکھ چکا ھوں، ایسا میرے ساتھ اکثر ھوتا ھے، اور ایک وقت ایسا آیا جب ایک اسی ظرح کی حقیقت میں مجھے ایسا لگا کہ میں یہ سب کچھ پہلے بھی خواب میں بار بار دیکھ چکا ھوں، اور وہ ایک پورا سال میں نے جو ترکمنستاں کے ایک شہر اشک آباد میں 1998 اور 1999 میں گزارا تھا، مجھے خود تعجب ھوتا تھا کہ اس سال کا ھر لمحہ اور ھر قدم پر بالکل ایسا لگتا تھا کہ یہ منظر پہلے بھی دیکھ چکا ھوں،!!! جو بعد میں ایک اسی کہانی کے ایک تسلسل کے ساتھ بیان کرونگا، میں اس چیز پر یقین تو نہیں رھتا لیکن میرے ساتھ ایسا ھوا ھے، یہ بھی ھوسکتا ھے کہ یہ صرف ایک اتفاق ھی ھو !!!!!!!!!!


ھاں تو میں کہہ رھا تھا کہ زادیہ سے دروازے پر الواداع کہتے ھوئے، بہت ھی مایوسی اور پریشانی کے عالم میں واپس نیچے اترا اور واپس اسی کار میں واپس آگیا، اور سیٹھ نے دیر سے آنے کی وجہ سے کچھ ناراضگی کا بھی اظہار کیا اور میں بھی کچھ اس کے ساتھ زیادہ ھی بول گیا اور اتنی منہ ماری ھوئی کہ میں نے اس کے پاس کام کرنے سے منع کردیا، اس نے بھی بہت ھی میرے ساتھ بہت غلط رویہ رکھا تھا اس لئے ایک ھفتے کے بعد ھی میں نے وہ سینما کی نوکری چھوڑ دی، اور پھر والد صاحب نے اپنے ھی دفتر میں اکاونٹس اسسٹنٹ کی نوکری دوبارہ دلادی اور میری اس طرح اس سینما سے جان چھوٹ گئی، اور میں بھی اب بہت سکون محسوس کررھا تھا، والد صاحب بھی میرے اس سینما کی نوکری سے پریشان تھے !!!!!!

اب تو میں کافی سنجیدہ ھوگیا تھا سب کچھ اپنے شوق کو بھی خیرباد کہ چکا تھا، کہیں بھی بالکل دل نہیں لگتا تھا، اور صرف اپنے دفتر میں بہت اچھی طرح سے اکاؤنٹس کا کام اپنے استادوں سے سیکھ رھا تھا اور انہی اپنے مخلص استادوں ھی کی وجہ سے آج ایک اچھی پوزیشن میں ھوں اور عزٌت کے ساتھ سروس بھی کررھا ھوں، اور بس اب آخری ھی دور چل رھا ھے، کہ کب اور کسی وقت بھی یہاں کی سروس سے ریٹائر ھوسکتا ھوں، یہ اللٌہ کا شکر ھے کہ میرے ساتھ تمام پاکستانی ھیں، اور سب ایک یکجہتی اور خلوص دل سے کام کرتے ھیں، اور مجھے ایک اپنے استاد کا درجہ بہت عزت اور احترام سے دیتے ھیں، یہ اللٌہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ھے،!!!!!!

سینما سے کافی لوگ گھر پر سفارش اور درخواست کرنے بھی آئے کہ میں دوبارہ سے سینما کو جوائن کرلوں مگر میں نے بالکل ھی انکار کردیا، یہاں نئی جگہ پر میں بہت ھی پرسکون تھا اور ساتھ ھی گریجویشن کا امتحان بھی دے رھا تھا، گریجیوشن بھی اسی دوران کامیابی سے سیکنڈ ڈویژن میں مکمل کیا، لیکن کچھ تنخواہ میں کوئی خاص اضافہ نہیں ھوا تھا، مگر یہاں بھی کافی عزت ملی اور کافی دل لگا کر کام کیا، تقریباً 15 سال تک، !!!!!

پھر ایک بار جنگ شروع شروع ھوگئی، اور فوراً والد صاحب کا ایک بار پھر بلاواہ آگیا اور وہ پہلے کی ظرح پھر وہ خوشی سے اپنے ملٹری کے یونیفارم کو نکالا، استری کی، جوتے، اور بیلٹ کو کو چمکایا اور تمام ضرورت کی چیزیں لیں اور جوش و خروش سے انہیں ان کے دوستوں اور گھر والوں نے رخصت کیا، مگر ان کے چہرے پر خوشی دیکھی ان کی آنکھوں میں ایک بھی آنسو کا قطرہ نہیں تھا اور ھم سب اسٹیشن گئے اور اس دوران جنگ بھی جاری تھی، وہ اپنی ملٹری کی یونیفارم میں مجھے بہت اچھے لگتے تھے ایک بارعب شخصیت کی طرح اور وہ اپنے پاکستان اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے سچے محب وطن سپاھی کی طرح تھے، مجھے ان پر بہت فخر ھے، وہ آج ھمارے ساتھ نہیں ‌ھیں، لیکن ھمارے دلوں میں وہ زندہ ھیں،!!!!!!!!

اب میں نے یہی تہیہ کرلیا تھا کہ میں صرف اپنے کیرئیر کی ھی طرف توجہ دوں گا اور والد صاحب کے سہانے خوابوں کو پورا کرونگا، وہ چاھتے تھے کہ میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنوں اور میں نے یہی سوچ لیا تھا کہ والدین ھی کی رضامندی سے ھی ھر کام کرونگا، اور کوئی بھی کسی قسم کی ان کی حکم عدولی نہیں کرونگا، ان کے واگہہ بارڈر لاھور تک پہنچتے ھی جنگ بند ھوگئی اور وہاں پر انہیں فوراً ھی رلیز کردیا گیا اور ان کی تمام خدمات کے سلسلے میں ان کے تمام پرانے ساتھیوں نے ایک انہیں الوداعی پارٹی دی، اور انھیں مکمل طور سے عمر کا لحاظ کرتے ھوئے ریٹائر بھی کردیا گیا، جسکا کہ انہیں بہت افسوس ھوا، انھوں نے وھاں یہ بھی کہا کہ میں ریٹائر نہیں ھونا چاھتا، میں مرتے دم تک اپنے پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنی قوم اور ملک کی خدمت کرنا چاھتا ھوں، لیکن مجبوری تھی کیونکہ وہ اب میڈیکل بورڈ کے فیصلے میں کوئی ردوبدل نہیں کرسکتے تھے، اور وہ واپس گھر آگئے، ان کی پنشن میں ایک مزید اضافہ بھی ھو گیا تھا!!!!!!!!

انہوں نے واپس آکر اپنی پرانی سروس کو دوبارہ جوائن بھی کرلیا اور وھیں پر میں بھی اپنی ڈیوٹی انجام دے رھا تھا، لیکن میں ابھی مستقل ملازمین کی فہرست میں شامل نہیں ھوا تھا، مگر مجھے ایک ھی دفتر میں ان کے ھی اکاؤنٹس سیکشن میں کام کرتے ھوئے بہت جھجک محسوس ھوتی تھی، لیکن کیا کرتا مجبوری تھی، آتے جاتے وہ ھمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے اور میں ان سے پیچھے کی طرف چار یا پانچ میزیں چھوڑکر اپنے استاد کے سامنے بیٹھتا تھا، اور اب تک کافی کام سیکھ چکا تھا اور مجھے ایک مستقل ذمہ داری بھی سونپ دی گئی، روزانہ مجھے انہی کے ساتھ گھر سے صبح صبح ڈیڑھ گھنٹے پہلے یعنی تقریباً ساڑے چھ بجے نکلنا پڑتا تھا، ان کے ھاتھ والدہ ایک ٹفن دوپہر کے کھانے کیلئے تیار کرکے دیتی تھیں، میں نے کئی دفعہ یہ کہا کہ مجھے یہ ٹفن کھانے کا ڈبہ مجھے پکڑا دیں، لیکن وہ منع کردیتے، وہ یہی کہتے کہ میں تجھے ایک بہت بڑا چیف اکاؤنٹنٹ کے روپ میں دیکھنا چاھتا ھوں اور اسی لئے ایک افسر ھی ظرح میں چاھتا ھوں کہ ابھی سے تم اسکی ٹریننگ کرو، مین‌نہیں چاھتا کہ تم چال ڈھال میں کوئی موالی کی طرح لگو اور تم اپنی ایک پر وقار شخصیت کو اپنے اندر سے باھر نکال کر اسے نکھارنے کی کوشش ابھی سے کرو اور ساتھ ھی اپنی اعلیٰ تعلیم کی تیاری کیلئے بھی ھمیشہ کوشاں رھو، میری بعض اوقات ان کی باتیں اس وقت سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اور بس ھاں میں ھاں ملاتا ھوا ان کے پیچھے پیچھے چلتا رھتا تھا،

اب تو میرے روز کے معمول بالکل پلٹا کھا چکے تھے، جب سے اس دن زادیہ کے گھر پر جو واقعہ پیش آیا، میرا ھر چیز سے دل اٹھ گیا تھا، گھر واپس آکر سب سے پہلے میں نے سینما کی نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انکی وجہ سے میرا وہاں کے مالک سے جھگڑا ھوا تھا، اور گھر آتے ھی میں نے اپنی تمام تصویریں، پینٹنگ، اور دوسرے اخباروں اور رسالوں کی کٹنگ جن میں میری کچھ تھوڑی بہت لکھی ھوئی تحریریں تھیں، اور ایک میں نے ایک بہت بڑی البم بنائی تھی، جس میں اپنے ھی ھاتھوں سے بنائی ھوئی خوبصورت اور چیدہ چیدہ خاص تصویریں، قومی ھیروز کی اور فلم اسٹاروں کی،دنیا کے مشہور سات عجوبوں اور مختلف مشہور عمارتوں کی، اس کے علاؤہ ھوائی جہازوں اور بحری جہازوں کی، سیاروں اور نہ جانے کیا کیا بہت ھی خوبصورت میری پسندیدہ تصویروں کے ساتھ وہ البم جو میری اس وقت تک کی انتھک محنت کا نتیجہ تھیں وہ سب کو اکھٹا کیا اور ایک چادر میں باندھ کر سب کو باھر لے گیا اور ایک میدان میں آگ لگادی، اور اپنے تمام شوق کی محنت سے بنائی ھوئی چیزوں کو اپنے سامنے جلتا ھوا دیکھ رھا تھا اور آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک دریا سا بہہ رھا تھا!!!!
اور یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ آنسو زادیہ سے جدا ھونے کیلئے بہہ رھے تھے یا پھر اپنی زندگی کی تمام محنت کے جل جانے پر امڈ رھے تھے!!!!!!!

وہ بہت بڑا رجسٹر البم جسے اُٹھانا بھی بہت مشکل ھوتا تھا، مجھے اس سے عشق تھا اسے میں نے بہت پہلے ایک اچھے پرنٹنگ پریس سے خاص طور بنوایا تھا اور اپنی ھی بنائی ھوئی مخصوص تصویریں اس میں چپکائی تھیں، اور وہ بہت کم لوگوں کو دکھاتا تھا جن سے مجھے امید ھوتی تھی کہ وہ اس کی حوصلہ افزائی کریں گے، ان کے سامنے بالکل نہیں رکھتا تھا، جو بدذوق یا مزاق اڑانے والے نظر آتے تھے، ایک صاحب نے تو وعدہ بھی کیا تھا کہ ان تصویروں کو وہ آرٹس کونسل کی گیلری میں فریم کرواکر رکھوائیں گے اور مجھے وہاں پر اسی کے توسط سے داخلہ بھی دلوائیں گے، تاکہ میں ایک مصوری اور آرٹس میں اپنا ایک مقام حاصل کرسکوں، لیکن افسوس میں وہ کچھ حاصل نہ کرسکا جسکی میرے دل میں خواھش تھی،

جب دل ھی ٹوٹ گیا تو کسی اور چیز سے دل لگانے کا کیا فائدہ، اپنی وہ ھر چیز جس کا کہ میرے کسی بھی شوق سے تعلق تھا سب کچھ میں نے ختم کردیا تھا اور میں ایک بہت ھی والدین کا فرمانبردار اور بہن بھائیوں کی محبت کے رنگ میں رنگ گیا تھا اور اس طرح اب میری زندگی میں بہت ھی سکون او ایک ٹھراؤ ساآ گیا تھا، جس سے مجھے خود ایک راحت ملی تھی، اور اب گھر پر سب مجھے پہلے سے زیادہ پیار کرنے لگے تھے، اپنے گھر کی خوشی کا اپنا الگ ھی مزا ھے !!!!!

کہاں وہ سینما میں ایک اپنی اجارہ داری تھی، اور اب یہاں دیکھو تو ایک اباجی کے ایک فرمانبردار بیٹے کی طرح ان کا ھر ایک کہنا مان رھا تھا، اور ویسے بھی ان کے سامنے تو میں نے کبھی بھی جواب نہیں دیا تھا، چاھے کتنی بھی غلطی کروں لیکن ان کے سامنے اپنی سزا کے لئے ھمیشہ سر جھکائے کھڑا ھوتا تھا، اور پھر اپنا جو بھی وقت بچتا تھا میں بہن بھائیوں کو اپنے ساتھ باھر گھمانے لے جاتا تھا اور ان کی من پسند چیزیں خرید کردیتا تھا اور کیمرے سے اں کی تصویریں کھینچتا بھی تھا، اور اچھی اچھی کھانے پینے کی چیزیں جو وہ چاھتے تھے بازار سے لاتا بھی تھا، بہت ھی اچھی اور خوشگوار زندگی گزر رھی تھی،!!!!!

صبح صبح ھم دونوں باپ بیٹا گھر سے نکلتے اور بیس منٹ تک ریلوئے اسٹیشن پر لوکل ٹرین کے آنے سے پہلے ھی پہنچ جاتے، جیسے ھی ٹرین اسٹیشن پر آکر رکتی، تو فوراً ھی ھم دونوں جو بھی سامنے بوگی آتی اس میں چڑھ جاتے، اور تقریباً ایک گھنٹے سے پہلے ھی دفتر کے نزدیک ھی سٹی اسٹیشن پر پہنچ کر سیدھا وقت سے پانچ منٹ پہلے ھی پہنچ جاتے، اگر ٹرین لیٹ نہ ھوئی ھو تو، ورنہ کبھی کبھی تاخیر بھی ھو جاتی تھی، دوپہر کو نماز سے فارغ ھو کر تمام دفتر والوں کے ساتھ مل کر ڈایننگ ھال میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے گھر سے لائے ھوئے کھانے میز پر لگا کر کھانے کی تعریف کرتے ھوئے خوب مزے لے کر کھاتے، میں بھی کھانے کا بہت شوقین ھوں، ھر ایک کے کھانے خوب مزے لے کر کھاتا تھا، وھاں دفتر کا ماحول بہت اچھا تھا اور سب ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے،

کراچی میں یہاں پر اس کنسٹرکشن کمپنی کا ھیڈ آفس تھا، اور پورے ملک میں تقریباً ھر شہر میں بہت زور شور سے ھر جگہ کوئی نہ کوئی پروجیکٹ چل رھا تھا، اور اس کمپنی کی اس وقت بہت بڑی اپنی جگہ ایک ساکھ تھی، اچانک انتظامیہ نے ھیڈ آفس کو راولپنڈی میں منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ وھاں پر انکی اپنی ایک بلڈنگ تیار ھوچکی تھی، یہ سن کر سب حیران ھو گئے اور ان کے لئے مشکل بھی تھا کہ سب کچھ سمیٹ کر ایک دم شفٹ ھونا، کیونکہ ایک عرصہ سے لوگ وہیں رھائش پزیر تھے،

لیکن میں بہت خوش تھا، کیونکہ راولپنڈی میرے پیدائیش کا شہر تھا اور میرا معصوم بچپن سات سال کی عمر تک وھیں پر گزرا بھی تھا، ساتھ ھی پرائمری اسکول کی تعلیم چوتھی جماعت تک وہیں مکمل بھی کی تھی اور میں دوبارہ سے اپنی انہیں جگہوں کو ایک بار پھر سے والدیں کے ساتھ رھ کر اپنی بچپن کی یادؤں کو تازہ کرنا چاھتا تھا، میرے چہرے پر ایک بار پھر خوشیوں کے چراغ جل اٹھے !!!!!!!!!!

اس 1971 کے سال میں بہت سی تبدیلیاں واقعہ ھوئیں ایک ھمارے ملک کو ایک جنگ کا سامنا کرنا پڑا، دوسرے ھمارا ایک بازو ھم سے علیحدہ ھوگیا، اور ملک کی سیاسی صورت حال نے ایک بہت بڑی کروٹ لی، اور ایک نئی جمہوری حکومت کی قیادت اُس وقت کی ایک نئی مقبول سیاسی جماعت نے سنبھال لی تھی، اور ساتھ ھی میری زندگی کے بارے میں اللٌہ تعالیٰ نے بہت سے اھم فیصلے کئے اور کئی تبدیلیاں پیش آئیں، جیساکہ میں پہلے ذکر کرچکا ھوں، پھر بھی ایک بار مزید دھرا دیتا ھوں!!!!!

اسی سال گریجیوشن کامرس میں والد صاحب کی خواھش کے مطابق مکمل کیا مگر کوئی اتنے خاص نمبر تو نہیں ملے لیکن کھینچ تان کر سیکنڈ ڈویژن مل ھی گئی، اگر آج کا دور ھوتا تو شاید "C" گریڈ ھوتا!!!!
دوسری بات یہ کہ اپنی چاھت کے اطہار کو پھر سے ایک بدترین ناکامی کا منہ دیکھنا کرنا پڑا، جو میری زندگی میں ایک اھم موڑ لے کر آیا، میں نے اپنی وہ سینما کی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا جس کی وجہ سے میں ایک دلدل میں گھستا چلا جارھا تھا، اللٌہ کا شکر ھوا کہ میں کئی برائیوں کے شکار ھونے سے بچ گیا،

ایک اور بات جو کہ پتہ نہیں اچھا ھوا یا برا، کہ میں نے اپنے تمام شوق کے سارے نشانات اور اثاثہ جات کو آگ لگا کر اپنی زندگی سے دور نکال پھینکا تھا، تاکہ میں پھر اس طرف کا رخ نہ کرسکوں، اس کے علاؤہ یہ سب سے اچھی بات یہ ھوئی کہ میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے بالکل نزدیک ھوگیا اور انہیں اپنا زیادہ تر وقت دینے لگا تھا، اور دفتر بذریعہ لوکل ٹرین کے والد صاحب کے ساتھ ھی آنا اور جانا رھا اور اسکے علاؤہ اپنی تمام دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ کی مصروفیات کو تقریباً بالکل ختم کردیا تھا، اور اسی سال ھمارے دفتر کا ھیڈ آفس جس میں ھم باپ بیٹا کام کرتے تھے وہ راولپنڈی منتقل ھوگیا،!!!!!

اور پھر والد صاحب نے راولپنڈی جانے کی تیاری کرلی تھی، مگر والد صاحب نے وقتی طور پر مجھے روک دیا کہ تم بعد میں آجانا جب تمھیں اپنی نوکری کا کنفرمیشن لیٹر مل جائے، اور ساتھ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر آجانا جب تک میں وہاں پر ایک مکان کا بندوبست کرلونگا، والد صاحب تو ایک ھفتے کے اندر اندر نکل گئے اور تمام گھر کی ذمہ داری مجھ پر چھوڑ گئے !!!!

اب نیا سال 1972 بھی شروع ھوچکا تھا، مگر میری سروس کا کنفرمیشن لیٹر ابھی تک مجھے نہیں ملا تھا، مجھے بہت دکھ بھی ھورھا تھا، کیونکہ اب میں بالکل اس شہر میں رھنا نہیں چاھتا تھا، اسکی اصل وجہ کیا تھی اسکا میں کچھ بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا، شاید اسکی وجہ اپنی چاھت کی ناکامی یا پھر اس شہر میں جو میں نے اپنے شوق کو پالے تھے، ان کا اختتام ایک دم اور اچانک ایک ڈرامائی انداز میں ھوگیا تھا !!!!!!!!!

ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ

میں ‌تو بڑی بے چینی سے اپنی سروس کے کنفرمیشن لیٹر کا انتظار کررھا تھا، لیکن ابھی تک کوئی آثار تو نہیں نظر آرھے تھے اور میں تو اب زیادہ تر وقت گھر پر ھی گزار رھا تھا یا سب گھر والوں کے لے کر باھر گھومنے یا کسی کے گھر ملنے چلا جاتا تھا، اسی دوران وہاں کی ایک کرکٹ ٹیم کے سربراہ نے مجھ سے ایک درخواست کی، جو ھماری گلی ھی میں رھتے تھے اور بہت اچھے اثر و رسوخ والے تھے، انہوں نے کہا کہ میں ان کی کرکٹ ٹیم کا صدر بن جاؤں، اور سارے انتظامی امور سنبھال لوں، میں نے بھی سوچا کہ چلو کوئی حرج نہیں ھے، ویسے بھی آج کل فارغ ھوں چلو ان کے ساتھ کچھ وقت ھی اچھا گزر جائے گا، اور ویسے بھی مجھے کرکٹ دیکھنے کی حد تک ھی شوق تھا، اسکول کے وقت میں بہت شوق سے کھیلا کرتا تھا، لیکن اسکے بعد اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے اس طرف کچھ زیادہ دھیان نہیں دیا اور اسے صرف دیکھنے تک ھی محدود رکھا !!!!!!

کرکٹ کے میچ کھیلنے کے تمام مراحل کی تیاری کرکٹ ٹیم کے کپتان ھی کرتے تھے، میں تو بس ان کی ٹیم کے تمام مسئلے مسائل حل کرانے اور اسٹیڈیم میں مہمان خصوصی کے ساتھ بیٹھنے اور اسی سے منسلک ٹیم کے انعامات اور ٹرافی دئیے جانے کی تقریبوں میں شرکت کرکے مہمان خصوصی اور دوسرے مہمانوں کے ساتھ گپ شپ اور کھانے پینے کی پارٹیوں میں ان سب کے ساتھ رھتا تھا، اور شاید یہ تیں مہینے تک ھی سلسلہ جاری رھا اور اس کے بعد مجھے پذریعہ ڈاک براہ راست راولپنڈی کے ھیڈ آفس سے سروس کے کنفرمیشن کا لیٹر مل گیا اور میری تو خوشی کی کوئی انتہا ھی نہیں رھی،

میں سب کو اپنا یہ لیٹر دکھا دکھا کر خوش ھورھا تھا، کیونکہ کمپنی کے ڈائریکٹر نے مجھے “ڈیر سر“ کہہ کر خطاب کیا تھا اور انگلش میں لکھا تھا کہ ھمیں یہ کہتے ھوئے خوشی محسوس ھورھی ھے کہ دوران عارضی ملازمت آپکی قابلیت اور اچھی کارکردگی کو دیکھتے ھوئے ھم آپکی ملازمت کو مندرجہ ذیل شرائط پر کنفرم کرتے ھیں اور اگر آپکو یہ تمام شرائط قبول ھیں تو ھم یہ درخواست کرتے ھیں کہ آپ جلد سے جلد ھمارے ھیڈ آفس راولپنڈی میں اکاونٹس ڈپارٹمنٹ کے فائنانس کنٹرولر کو رپورٹ کریں، ھم آپکی آمد کے منتظر، ڈائریکٹر اینڈ کمپٹرولر،

واہ کیا بات تھی کہ زندگی میں مجھے یہ سروس کی کنفرمیشن کا پہلا لیٹر ملا تھا، کچھ تو بہت خوش ھوئے اور کچھ نے حسد سے اسے بہتر نہیں سمجھا، بہرحال مجھے کیا میں بس یہاں سے جانے میں ھی خوش تھا، میں نہیں چاھتا تھا کہ پھر کوئی میرے ساتھ اس طرح کا حادثہ نہ ھوجائے، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود میں زادیہ کو نہیں بھولا تھا اس کی اکثر بہت یاد آتی تھی، مگر میں کوشش کرتا کہ اسے بھُلانے کی کوشش کروں، لیکن اسے بھولنا میرے بس میں نہیں تھا، اکثر رات کو مجھے اس کی یاد بہت تڑپاتی تھی،!!!!!!!

آکر وہ دن آھی گیا جس دن مجھے راولپنڈی اپنی ملازمت کے سلسلے میں جانا تھا، گھر والوں کو ساتھ نہیں لے جاسکتا تھا کیونکہ بھن بھائیوں کے ششماھی امتحانات ھورھے تھے اور والد صاحب کا یہی آرڈر تھا کہ تمام باقی لوگ سالانہ امتحان کے بعد ھی نتیجہ نکلتے کے بعد ھی پنڈی چلے آئیں گے، میں نے اپنی سیٹ اسی تیزگام سے کرائی تھی جو مجھے بچپن سے ھی اسکا سفر بہت ھی پسند تھا، سب سے رخصت ھوکر شام کو اپنے ایک دوست کے ساتھ کراچی کے کینٹ اسٹیشن پہنچا اور اس نے مجھے تیزگام میں بٹھایا اور سامان اٹھانے میں بھی مدد کی،!!!!!!

وہیں ریلوے اسٹیشن پر مجھے اور بھی اپنے پرانے دوست ملے، جو میرے جانے کی اظلاع ملتے ھی فوراً اسٹیشن پہنچ گئے تھے اور ساتھ ھی شکوہ بھی کررھے تھے کہ میں نے انہیں کوئی بھی جانے کی اطلاع نہیں دی، کم از کم ایک آخری پارٹی ھی کردیتے، میں نے انہیں یہی کہا کہ بس کچھ دل ھی کچھ اداس اور پریشان تھا، اسلئے میں اطلاع دینے سے قاصر تھا، اور پھر میں نے سب سے معذرت کی، اور اس طرح جن جن کو پتہ چلتا گیا وہ ایک دوسرے کو کسی ظرح بھی اظلاع دیتے بھی گئے اور ساتھ ھی اسٹیشن بھی پہنچتے گئے، اب تو تقریباً میرے پرانے تمام ساتھی ھی اسٹیشن پہنچ چکے تھے، اور سب ھی مجھ سے شکوہ شکایت ھی کررھے تھے، اور ان کی شکایت ایک طرح سے ٹھیک بھی تھی،

جیسے ھی تیزگام نے اپنی اسی مخصوص آواز سے سیٹی بجائی تو مجھے اپنے پرانے تمام سفر یاد آگئے، اور ساتھ ھی گارڈ نے بھی اپنی سیٹی بجاتے ھوئے ھری جھنڈی ایک ھاتھ سے لہرانے لگا، اور میں فوراً ھی ٹرین کی اپنی بوگی کے دروازے پر چڑھ گیا اور میرے تمام دوست مجھے ھاتھ ھلا ھلا کر الوداع کہ رھے تھے اور اچانک کیا دیکھا کہ میری کرکٹ ٹیم کے کچھ اور لڑکے بھی بھاگ بھاگ کر مجھے آوازیں دے کر الوداع کہ رھے تھے انھیں پہنچنے میں کچھ دیر ھوگئی تھی ایک لڑکے نے بھی دوڑتے دوڑتے ایک بڑا تھیلا سا مجھے ٹریں کے دروازے پر پکڑا دیا تھا، اور اگر ذرا سی دیر ھوجاتی تو ان سے ملاقات نہیں ھوسکتی تھی، اور یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اور بھی دوست احباب ٹرین کے نکلنے کے بعد پہنچے تھے اور سب ھی کوئی نہ کوئی تحفے اور کھانے پینے کا سامان اور پھل خشک میوہ وغیرہ لے کر پہنچے تھے، کافی میرے پاس اور مزید کھانے پینے کا اور تحفے تحائف کا سامان جمع ھوگیا تھا اور وہ سب میں نے اُوپر والی برتھ پر رکھ دیا تھا، واقعی میرے سارے پرانے نئے تمام دوست مجھے بہت چاھتے بھی تھے، لیکن میں نے سب سے ان دنوں کنارا کشی اختیار کی ھوئی تھی اپنی ھر مصروفیات کو خاموش کیا ھوا تھا،!!!!!!!!

تمام دوست مجھے الوداع کہہ رھے تھے اور ساتھ ھی تیزگام بھی آہستہ آہستہ اپنے پلیٹ فارم کو چھوڑ رھی تھی، اور کچھ آگے چلتی ھوئی میرے اس پرانے محلے کی ظرف سے گزری تو بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے، وہ دن یاد آگئے جب میں نے زادیہ کے ساتھ اپنے خوشگوار دنوں کو گزارا تھا اور اس جگہ سے میری بہت سی یادیں وابستہ تھیں، اور میں کھڑکی میں اپنی سیٹ پر بیٹھا اس محلے کو دور سے اپنی نطروں کے سامنے گزرتے ھوئے پرنم آنکھوں سے دیکھ رھا تھا،!!!!!!!!!

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀؀ٔٔٔٔٔٔ

1972 کا سال تھا، میں اپنی زندگی کی 22ویں بہار کے موسم میں جانے کیلئے بیتاب تھا، آج ایک بار پھر میں راولپنڈی جارھا تھا اور وہ بھی تیزگام سے، جو میری پسندیدہ محبوب ٹرین ھے، کئی دفعہ تیزگام میں سفر کیا اور ھر مختلف کلاس میں کبھی فرسٹ کلاس اور کبھی ائرکنڈیشنڈ سلیپر، کبھی فرسٹ کلاس پارلر ائرکنڈیشنڈ اور کبھی نارمل سلیپر کلاس، ھر کلاس کا اپنا ایک الگ مزا تھا، اور اگر آپ تیزگام کی ڈایننگ کار میں بیٹھ کر کھانا کھائیں یا چائے پییئں تو کچھ اور ھی لطف آتا ھے، میں اسے ملٹری ٹرین کے نام سے بھی یاد کرتا تھا کیونکہ اس وقت تمام ملٹری کے لوگ ھی زیادہ سفر کرتے تھے اور یہ صرف مخصوص بڑے بڑے جنکشن اور اسٹیشن پر ھی رکا کرتی تھی، اور تمام ٹرینوں میں سب سے زیادہ فاسٹ ٹرین کہلاتی تھی، مگر اب تو لوگوں کے پاس اتنا پیسہ آگیا ھے اور ٹائم بھی نہیں ھے، اس لئے اب لوگ زیادہ تر ھوائی جہاز سے ھی سفر کرنا پسند کرتے ھیں اور شاید اس لئے بھی کہ اب تیزگام کی وہ کارکردگی نہیں رھی جو کبھی پہلے تھی،

اپنی ساری اچھی بری تمام گزشتہ یادوں کو پیچھے چھوڑتا ھوا تیزگام کی پرشور آوازوں کھٹ کھٹا کھٹ کے ساتھ سفر کررھا تھا، مجھے ٹرین کے سفر میں باھر کے بھاگتے ھوئے مناظر کے علاؤہ کچھ ایسی مخصوص آوازیں بہت ھی زیادہ پسند تھیں، جیسے چلتے میں انجن کی ایک مخصوص سیٹی کی آواز جب کھٹ کھٹا کھٹ کے ساتھ مل جاتی تھی تو ایک سرور انگیز آواز کی طرح ایک الگ ھی لطف ملتا تھا، اور اسٹیشن سے چلنے سے پہلے اسکے انجن کی سیٹی کی آواز اور گارڈ کا سبز جھنڈی کو ھلا کر انجن ڈرائیور اور پبلک کو ٹرین کے چلنے کا اشارہ دینا، مجھے یہ سب کچھ سننا اور دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا، اور میں سب کچھ اگلی پچھلی باتیں بھول جاتا تھا، انہیں آوازوں میں ھی مگن رھتا تھا،

میں بھی ھر اسٹیشن پر ٹرین کے چلنے سے پہلے بار بار سگنل کی طرف دیکھتا کہ کب ڈاؤن ھوگا اور جیسے ھی سگنل ڈاون ھوتا تو پھر میرے کان انجن کی طرف اور میری نگاھیں گارڈ کی طرف ھوتی تھیں تاکہ انجں کی سیٹی کے ساتھ ساتھ گارڈ کی سیٹی کی آواز سنوں اور سبز جھنڈی کو لہلہاتے ھوئے دیکھوں، ایک دفعہ بچپن کے دور میں اسی طرح ایک اسٹیشن پر تیزگام کافی دیر سے کھڑی تھی اور مجھے بھی بے چینی ھورھی تھی کہ کیا وجہ ھے اور میں کھڑکی سے سر باھر نکالے ادھر ادھر دیکھ رھا تھا، سگنل واقعی ڈاؤن نہیں ھوا تھا، اور میری نظریں بار بار کبھی سگنل کی طرف اور کبھی گارڈ کی طرف، گارڈ صاحب بھی اپنے دونوں ھاتھوں میں جھنڈیاں سرخ اور سبز اپنے پیچھے کمر کی طرف لگائے ھوئے پلیٹ فارم پر گھوم رھے تھے، جب وہ میری کھڑکی کے نزدیک سے گزرے تو میں نے پوچھ ھی لیا کہ انکل آپ سیٹی کیوں نہیں بجا رھے اور ھری جھنڈی ڈرائیور کو کیوں نہیں دکھا رھے،!!!!! انہوں نے مجھے صرف اشارے سے سگنل کی ظرف دیکھنے کو کہا، یہ تو مجھے بھی پتہ تھا میں نے خوامخواہ ھی بے تکا سوال پوچھ ڈالا، جبکہ مجھے یہ پوچھنا چاھئے تھا کہ انکل یہاں پر جانے کیلئے سگنل اب تک ڈاؤن کیوں نہیں ھوا،

نہ جانے مجھے کیوں شروع سے ھی ھر طرف کی فکر لگی رھتی تھی اور میں کھڑکی میں ھی جھانک کر ریلوئے کے قلیوں سے گارڈ سے ٹکٹ چیکر سے اکثر کوئی نہ کوئی سوال ضرور کرتا تھا، ھاں پھر سگنل کے ڈاون ھوتے ھی میں نے فوراً میرے کھڑکی کے پاس سے گزرتے ھوئے انہیں گارڈ انکل کو یاد دلایا جو پوری ٹرین کا چکر لگا کر اپنے ڈبے کی طرف واپس جارھے تھے، کہ انکل اب تو سگنل ڈاؤن ھوگیا ھے اور انجن بھی سیٹی بجا رھا ھے، آپ اب کیوں سیٹی نہیں ‌بجا رھے،!!!!! انہوں نے مسکراتے ھوئے کہا ارے بیٹا مجھے اپنے ڈبے کی طرف جانے تو دو،!!!!! میں پھر بھی اپنی کھڑکی سے ھی جھانک کر انکو دیکھ رھا تھا جیسے وہ میرے ماتحت ھوں، پھر چند لمحے بعد ھی انکی سیٹی کی آوار آئی اور میں نے دیکھا کہ وہ جھنڈی بھی ھلاتے ھلاتے اپنے ڈبے میں چڑھ گئے اور انجن نے تیسری سیٹی بجائی اور پھر تیزگام آہستہ آہستہ سے پلیٹ فارم کو چھوڑنے لگی!!!!!

اس کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والوں کی ایک الگ الگ آوازیں جس سے گاہک کو اپنی طرف متوجہ کرنا مقصود ھوتا ھے، اسٹیشن پر یا بوگی کے اندر اور خاص کر ڈاننگ کار کے ویٹروں کی آوازیں بھی مجھے بہت اچھی لگتی تھیں، اگر میں آپکو وہ مخصوص آوازیں سناؤں تو آپ لوگ مجھ پر شاید ھنسیں یا میرا مذاق اڑائیں، لیکن حقیقت میں اگر آپ لوگ ٹرین میں سفر کرتے وقت ایک خاص توجہ ان مختلف آوازوں پر کبھی تھوڑا سا بھی اگر دھیان دیں تو آپکو ایک اپنے ملک کی ایک الگ خوشبو کا ایک احساس ھوگا،

یہ ھمارے وطن کے ایک کلچر کا حصہ ھے، یہ ایک ھمارا قومی اثاثے کی طرح ھے، کیونکہ ھمیں جو اپنے ملک سے دور ھیں انہیں ان چیزوں کی قدر محسوس ھوتی ھے، ھمارے پیارے وطن کی مٹی کی خوشبو ھمیں اسی وقت آنے لگتی ھے جب ھمارا ھوائی جہاز اپنے پیارے وطن کی سرحدوں کے قریب ھوتا ھے تو ایک اناونسمنٹ کی آواز آتی ھے کہ!!!!!
اب ھم کچھ ھی دیر میں قائد اعظم انٹرنیشنل، یا علامہ اقبال انٹرنیشنل یا اسلام اباد انٹرنیشنل یا پشاور انٹرنیشنل ائر پورٹ پر اترنے والے ھیں، اپ سب اپنی اپنی بیلٹ باندھ لیں،!!!!

یہ سنتے ھی اکثر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ھیں، اور اپنے پیارے وطن کی سرزمین کو دیکھنے کے لئے تڑپ جاتے ھیں، وہاں پر رھتے ھوئے اتنا زیادہ لوگ محسوس نہیں کرسکتے، جتنا کہ ھم لوگوں کو جو کہ پردیس میں اپنے وطن سے دور ھیں، اپنے وطن کی ھر چیز یاد آتی ھے،!!!!!!

ھاں تو میں اپنی تیزگام اور اپنے ملک کے تمام ریلوے اسٹیشنوں کی مختلف آوازوں کے بارے میں بتا رھا تھا، جوکہ اگر آپ تھوڑا سا بھی دھیان دیں تو اس میں بھی آپکو اپنے وطن کی ایک خوشگوار مہک ملے گی، کبھی کھڑی میں سے اچانک آواز آئے گی، چائے گرم، ٹھنڈی بوتل ھے‌، وہ بوتلوں کے سائڈ پر بونل کھولنے والے اوپنر سے ایک شیشے ٹکرانے کی آواز نکالتا ھے، جس میں ایک الگ ھی سر سنائی پڑتے ھیں، دال چنے خستہ اور کرارے اسکے علاوہ ایک اور خاص اسٹیشن کی ایک مخصوص آواز حافظ جی کا ملتانی حلوہ اس کی آواز تو سن کر دل مچل جاتا ھے، کہیں چوڑیاں لے لو ونگاں لے لو اور کہیں وزیرآباد کے چاقو اور چھریاں چمچے کانٹے تے نال قینچی بھی اور جب کھانے کا وقت ھوتا ھے تو، ڈائننگ کار کا کھانا ھے بھئی، تازہ اور گرم کھانا یا پھر ناشتہ کے وقت صبح صبح ایک الگ ھی پہلی آواز سننے کو ملے گی ناشتہ بھئی ناشتہ گرم چائے بھئی اور بھی نہ جانے کئی آوازوں نے اپنا ایک الگ ھی ماحول بنایا ھوتا ھے!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-66- زندگی کا نیا سفر اور ھم بھول گئے ھر بات مگر تیرا پیار؟؟؟؟

ھاں تو میں اپنی تیزگام اور اپنے ملک کے تمام ریلوے اسٹیشنوں کی مختلف آوازوں کے بارے میں بتا رھا تھا، جوکہ اگر آپ تھوڑا سا بھی دھیان دیں تو اس میں بھی آپکو اپنے وطن کی ایک خوشگوار مہک ملے گی، کبھی کھڑی میں سے اچانک آواز آئے گی، چائے گرم، تھنڈی بوتل ھے‌، وہ بوتلوں کے سائڈ پر بونل کھولنے والے اوپنر سے ایک شیشے ٹکرانے کی آواز نکالتا ھے، جس میں ایک الگ ھی سر سنائی پڑتے ھیں، دال چنے خستہ اور کرارے اسکے علاوہ ایک اور خاص اسٹیشن کی ایک مخصوص آواز حافظ جی کا ملتانی حلوہ اس کی آواز تو سن کر دل مچل جاتا ھے، کہیں چوڑیاں لے لو ونگاں لے لو اور کہیں وزیرآباد کے چاقو اور چھریاں چمچے کانٹے تے نال قینچی بھی اور جب کھانے کا وقت ھوتا ھے تو، ڈائننگ کار کا کھانا ھے بھئی، تازہ اور گرم کھانا یا پھر ناشتہ کے وقت صبح صبح ایک الگ ھی پہلی آواز سننے کو ملے گی ناشتہ بھئی ناشتہ گرم چائے بھئی اور بھی نہ جانے کئی آوازوں نے اپنا ایک الگ ھی ماحول بنایا ھوتا ھے!!!!!!!

1972 سے لیکر 1975 تک میں راولپنڈی میں ھی رھا اور کبھی کبھی سالانہ چھٹی میں گھومتے پھرتے ھوئے کراچی بھی چلا جاتا تھا، اس کمپنی کا ایک فائدہ ضرور تھا کہ ھر سال راولپنڈی سے کراچی اور واپسی کا فرسٹ کلاس کا کرایہ اور ساتھ ایک مہینہ کی چھٹی اور اسکے پیسے بھی ملتے تھے جس کا میں فائدہ اُٹھا کر اکثر گھومتا پھرتا ھوا کراچی جاتا تھا کبھی سرحد کی طرف پشاور اور اسکے نواحی علاقوں کی طرف نکل جاتا، کبھے ٹیکسلہ، حسن ابدال اور واہ فیکٹری کا تو اکثر بیشتر دورہ ھوتا ھی رھتا تھا اور کبھی پراستہ جرنیلی سڑک کے آس پاس کے تمام پنجاب کے علاقوں سے ھوتا ھوا لاھور پہنچ کر دوستوں کے ھمراہ قیام بھی کرتا تھا، تاریخی شہر لاھور تو کئی مرتبہ گھومنے بھی گیا، جب میرے ساتھ دوست ھوتے تو اسی طرح گھومتا پھرتا جاتا اور اگر فیملی ساتھ ھوتی تو تیزگام کے ذریعے ھی سفر کرتا تھا،

راولپنڈی اور اسلام آباد سے، ھر آس پاس کے علاقوں میں گھومنے پھرنے میں کافی سہولت رھتی اور ھمارے یہاں اکثر کراچی سے دوست احباب گھومنے پھرنے کیلئے ھمارے گھر ضرور ٹہرتے تھے، اور اسی موقعہ سے فائدہ اٹھا کر میں بھی ان کے ساتھ نکل لیتا، اور ھم سب خوب انجوائے کرتے، لاھور جاتے ھوئےجہلم اور دینا اور وہاں کا منگلہ ڈیم ، وہاں سے نکلے تو سرائےعالمگیر اور وھاں کی ایک نہر کے پاس ایک ھمارے استاد کا بھی گھر تھا، وہاں سے چلے تو گجرات، کھاریاں، وزیرآباد، کی سیر کرتے ھوئے گجرانوالہ اور پھر شادرہ پہنچتے ھی دریائے راوی سے پہلے ھی تاریخی مقامات کو دیکھتے ھوئے لاھور میں کسی نہ کسی کے ھم مہماں ھوتے اور کم سے کم دوتین دن تک کا قیام لاھور میں ضرور ھوتا، شاھینوں کے شہر سرگودھا اور خوشاب کو ھم نے صرف باھر سے ھی دیکھا، خانیوال اور ساھیوال کا ایک ظویل مالٹے سنگترے اور کینوں کے باغات تو بس ٹرین سے ھی دیکھنے کو ملے اور لاھور سے کئی دفعہ فیصل آباد، ملتان اوکاڑہ اور سیالکوٹ جانے کا پروگرام بھی بنایا، لیکن اتفاق ھے کہ جانے کا اتفاق نہیں ھوا مگر ایک خواھش بہت ھے کہ ایک دفعہ ان علاقوں کی بھی سیر کروں،

لاھور سے زیادہ تر بذریعہ ٹریں سے ھی کراچی کا سفر کرتے تھے کیونکہ ان دنوں سڑکوں کی حالت اتنی اچھی بھی نہیں تھی لیکن بعد میں یعنی حال میں ھی موٹر وئے سے ڈائیو بس میں سفر کرنے کا اتفاق ھوا تھا لاھور سے راولپنڈی اور واپسی بھی اسی موٹر وے سے ھی ھوئی تھی کیا خوبصورت منظر تھا لگتا تھا کہ کہ کہیں ھم باھر کے ملکوں کےدورے پر ھیں، اور لاھور سے واپسی کراچی بھی ایک دفعہ بس کے ذریعہ بھی کیا لیکن ‌اس میں بہت تکلیف ھوئی پنجاب کے گزرنے تک تو کوئی مشکل پیش نہیں آئی بلکہ خوب انجوائے بھی کیا لیکن جیسے ھی بس سندھ میں داخل ھوئی تو حالت خراب ھوگئی، ایک تو سڑکیں خراب اور دوسرے پولیس والے بہت تنگ کرتے تھے، اس کے بعد سے توبہ کرلی کہ بس سے سفر نہیں کرنا، لاھور اور راولپنڈی کے درمیان کے بس کا سفر اچھا لگتا تھا،

میں اپنی اس سروس کے دوران کافی اور مزید علاقوں کے دیکھنے اور گھومنے پھرنے کا اتفاق ھوا تھا، کیونکہ مجھے گھومنے پھرنے کا بہت شوق ھے اور کہتے ھیں نا کہ شکرخورے کو شکر ضرور مل جاتی ھے تو اسی طرح مجھے بھی بچپن سے اب تک گھومنے پھرنے کے بہانے خوب ملے ھیں، پاکستان کے تقریباً ھر بڑے چھوٹے شہروں کی سیر ضرور کی ھے علاؤہ فیصل آباد، سیالکوٹ کوئٹہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے، جس کی خواھش دل مین بہت ھی زیادہ ھے اور آزاد کشمیر کے علاقے بھی، پاکستان کا مانچسٹر لائل پور جو اب فیصل آباد ھے کا تو میں بچپں سے تعریفیں سنتا تھا اور علامہ آقبال کے شہر سیالکوٹ۔ صوفیوں اور بزرگوں کے شہر ملتان اور بلوچستان کادل کوئٹہ جہاں کے قندھاری انار اور انگور اور پھلوں کے باغات اور ساتھ ھی چمن اور زیارت ایسے مقامات دیکھنے سے اب تک محروم رھا ھوں اور باقی تمام شہروں میں بھی بزریعہ سڑک گھومتے ھوئے گیا ھوں،

سرحد کے بڑے شہروں میں پشاور اور اسکے ساتھ درہ خیبر سے ھوتا ھوا لنڈی کوتل تک گیا ھوں جہاں کبھی باڑا بازار ھوا کرتا تھا،اور واپسی تربیلہ ڈیم سے ھوئی، اور کئی دفعہ میں دوستوں کے ساتھ اور فیملی کے ساتھ بھی مردان براستہ نوشہرہ، اٹک کے علاقوں سے گھومتے پھرتے صوابی کے علاقے کے بعد سوات کے علاقوں سیدوشریف، مرغزار میں تو والی سوات کے سفید محل، میں اکثر ھم ایک رات ضرور گزارتے تھے، پھر میاں دم ، مدیں بحرین، اور کالام، کے خوبصورت علاقے جہاں قدرت کے حسین نظارے اور واپسی میں دریائے سوات کے کنارے شاھراہ ریشم سے ھوتے ھوئے بیشام کو ایک نظر دیکھتے ھوئے ایبٹ آباد میں بھی قیام کرتے، وہاں سے نکلتے تو سیدھا پنجاب کے علاقوں میں میں داخل ھوئے ایوبیہ نتھیا گلی کے بلند وبالا سرسبز پہاڑی برف سے ڈھکے ھوئے سلسلے کو دیکھتے ھوئے وھاں سے سیدھا مری کے خوبصورت علاقوں بھور بن، گھوڑا گلی اور نتھیا گلی میں قیام جہاں ھمارے جاننے والے لوگ تھے، واپسی مری کے راستے چھتر کے سرسبز وادیوں سے ھوتے ھوئے اسلام آباد اور پھر واپس راولپنڈی اپنے گھر پہنچ جاتے،

اور سندھ کے علاقے ٹھٹھہ، حیدرآباد، میر پورخاص، روھڑی، سکھر، نواب شاہ، اورر جیکب آباد، لاڑکانہ اور سیوں شریف تک تو بس کے ذریعہ اور کبھی ٹرینوں کے زریعے کراچی ھی سے سفر کیا اور بلوچستان کے علاقوں میں ھم تمام دوست مل کر کبھی فیملی کے ساتھ گوادر، لسبیلہ، حب ڈیم ، گڈانی کا ساحل سمندر بھی کراچی سے ھی کنٹریکٹ کی بسوں میں پکنک منانے جاچکے ھیں،

یہ آللٌہ کا شکر تھا کہ میں راولپنڈی میں 1972 سے لیکر 1975 تک کا پیریڈ بہت اچھا گزارا، کیونکہ ایک تو گھومنے پھرنے کی خواھش یہاں خوب پوری ھوئی، اور کسی حد تک اپنے آپ کو مشغول رکھ کر اپنے آپ کو پرانے زخموں کو کریدنے کا موقعہ نہیں ملا، ایک تو پنجاب کا موسم اور ھر چیز خالص دودھ دھی لسی اور تازہ سبزیاں ملتی تھیں اور ساتھ والدین بھی اور بہن بھائی بھی تھے اور وہ سب یہاں اسکول بھی جاتے تھے، میرا دوسرا گھر راولپنڈی ھی تھا اور اب بھی جب وہاں جاتا ھوں تو اپنے محلے میں ضرور ٹھرتا ھوں اور وھاں کے پرانے دوست احباب ھماری اب بھی اتنی ھی عزت کرتے ھیں، کیونکہ والد صاحب بھی جب تک وھاں رھے سب سے ان کی دوستی اور گھر میں سب کی فیملیاں بھی آتی جاتی تھیں، اور اس کے بعد ایک اور پیریڈ تین سال تک شادی کے بعد بھی وہیں اسی محلے میں اسی دفتر کے ساتھ گزارا جسکا کہ ذکر بعد میں آئے گا،

شروع شروع تو والد صاحب کے ساتھ ھی اکیلا تھا اور بہں بھائی تو امتحانات ختم ھونے کے بعد ھی پہنچے تھے، اور بہت اچھے دن گزر رھے تھے، وھاں کے لوگ بھی بہت اچھے تھے، زیادہ تر تو آفس کے ھی لوگ اپنی اپنی فیملیوں کے ساتھ رہ رھے تھے، اور مقامی لوگ بھی اکثریت میں رھائش پزیر تھے، 1974 کے دوران ھی والد صاحب کا ٹرانسفر آزاد کشمیر کے ایک علاقے میں ھوگیا جہاں کمپنی ایک پل بنا رھی تھی، اور اسکے بعد انکا تبادلہ سندھا جیکب آباد (سندھ) میں ایک پروجیکٹ پر ھوگیا، اور میں وھیں ھیڈ آفس راولپنڈی میں ھی تھا ، اور والدہ اور بہن بھائی بھی مستقل طور پر کراچی ھی شفٹ ھوگئے کیونکہ والد صاحب کو جیکب آباد سے کراچی کمپنی کی گاڑی میں آنے جانے کی سہولت تھی، اور میں پھر وہاں اکیلا ھی رہ گیا،

اور پھر جب کوئی اکیلا ھو تو دماغ خراب ھونا شروع ھوجاتا ھے، بس اب دل کچھ آچاٹ ساھونے لگا تھا گھر والوں کو بھی کراچی گئے ھوئے کافی وقت ھوچکا تھا، اب اکیلے ھوٹل سے کھانا، کبھی پکانے کی کچھ عادت ھی نہیں تھی، بس ھوٹل کے کھانے کھا کھا کر حالت خراب ھوگئی پھر ایک دوست افضل جو فیصل آباد کاھی تھا، وہ مجھے اپنے ساتھ دوسرے علاقے میں لےگیا اس کے ساتھ کچھ وقت نکالا وھاں پر افضل کی خدمات کو میں نہیں بھول سکتا اس نے میرا بہت خیال رکھا اس کے بعد وہ بھی نوکری چھوڑکر چلا گیا تو میں ایک اور دوست شاکر کے ساتھ بھی کچھ مہینے گزارے، اور آخری دنوں میں اپنے ایک اور ساتھی نذر حسین شاہ جو خوشاب، میانوالی کے علاقے کے تھے اں کے ساتھ بھی بہت اچھا وقت نکالا، اکثر انکے پڑے بھائی شبیر شاہ صاحب جو اسی کمپنی میں انجنئیر تھے گھر پر آجاتے اور ھمارے ساتھ ھی کچھ وقت گزارتے اور شام ھوتے ھی اپنے پروجیکٹ پر واپس چلے جاتے،

اور پھر کچھ وقت نے ایک اور کروٹ لی 1975 میں ھمارے ایک نئے چیف اکاؤنٹنٹ صاحب آگئے اور میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے کراچی ٹرانسفر کرادیں، کیونکہ سب گھر والے وہیں پر ھیں، انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ جلد ھی ڈائریکٹر صاحب سے اس سلسلے میں ضرور بات کریں گے، میں نے وھاں پر بہت کچھ سیکھا اور جو بھی میرے استاد تھے وہ سب وہیں پر تھے اور وہ مجھے اپنے بچوں کی طرح ھی سمجھتے تھے، اور میں اپنے اں تمام استادوں کو کبھی نہیں بھول سکتا، ان کے لئے میرے دل سے دعائیں نکلتی ھیں، آج جس مقام پر ھوں یہ سب انہیں کی بدولت ھے اور انہیں کا سکھایا ھوا ھے !!!!!!!

ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ
میرے کیرئیر کو پائےتکمیل تک پہنچانے اور بنانے میں میر ے استادوں میں سے ایک منفرد محترم استاد جناب راجہ محمد گلزار صاحب جو کہ میری حالیہ کمپنی کے چیف اکاونٹنٹ تھے، جنہوں نے میری کنسٹرکشن کمپنی میں بھی 5 پایچ سال تک راہنمائی کی میں اں کا اسسٹنٹ تھا اور اب جس ایک معروف اور اس کے بعد یہاں مشہور اسپتال میں بھی انہوں نے 10 سال تک مجھے اس اسپتال کے فائینانس سسٹم کو بنانے میں مکمل ایک استاد کی حیثیت سے رھنمائی کی وھاں بھی میں ان کے پاس سینئیر اکاونٹنٹ تھا اور آج میں انہیں کی بدولت اسی اسپتال کے گروپ نے مجھے اپنے ایک نئے بڑے اسپتال الریاض میں چیف اکاؤنٹنٹ بنا کر بھیجا اور اب تک میں اپنے تمام اسٹاف کے ساتھ اسی اکاونٹس سیکشن کو کامیابی سے چلا رھا ھوں، اس کامیابی کا سہرا انہی کو جاتا ھے، اور اب میں خود بہت سے لڑکوں کا استاد ھوں!!!!!

وہ اب سرائے عالمگیر سے آگے ایک نہر کے ساتھ ایک جگہ جس کا نام “سمبلی“ ھے اسی نہر کے سامنے اُنکا گھر ھے،
اور وہ اب گھر پر ھی ریٹائیرمنٹ کی زندگی گزار رھے ھیں، یہاں پر انہوں نے مجھ جیسے کئی اور شاگرد چھوڑ کر گے ھیں، جو آج مجھ سے بھی اچھی پوسٹ پر اپنی ڈیوٹیاں انجام دے رھے ھیں، اور سب انہیں بہت ھی زیادہ یاد کرتے ھیں، میں اکثر انہیں ٹیلیفون بھی کرتا رھتا ھوں، میرے وہ رشتہ دار نہیں ھیں لیکن وہ ان سے بھی زیادہ میرے والد کی ظرح ھیں،!!!!!

ان سے پہلے بھی کنسٹرکشن کمپنی کے میرے استاد جن کا کراچی، راولپنڈی اور سعودیہ مین بھی ساتھ رھا، وہ بھی جہلم ، کھاریاں، اور اسی کے نزدیکی علاقوں سے ھی تعلق رکھتے تھے اور گلزار صاحب کے وہ ساتھیوں میں سے ھی تھے، کیونکہ ان سب نے شروع میں ایک ساتھ ھی اس کنسٹرکشن کمپنی کو جوائن کیا، اور میرے والد صاحب بھی ان کے ساتھ ھی اسی کمپنی میں تھے، ان کے نام محترم جناب عنائت علی بھٹی صاحب، جناب رشید احمد صاحب، اور جناب قاضی محمد نواز صاحب، اور اس وقت کے ھماری کمپنی کے فائنانس کنٹرولر محترم جناب اسلم بھٹی صاحب، اور جناب حبیب الرحمٰن صاحب اس کے علاوہ میرے سب سے پہلے استاد اسی کمپنی میں محترم جناب شفیع اللہ خان صاحب جن کا تعلق صوابی سے تھا، جو اب اس دنیا میں نہیں ھیں اللٌہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین !!!!!

میں اپنے ان تمام استادوں کا دل سے احترام کرتا ھوں، اور ان میں سے کوئی بھی میرے رشتہ داروں میں سے نہیں ھیں لیکن استادوں کا رشتہ تو ایک انسانیت کا ایک روحانی اور مقدس رشتہ ھوتا ھے جو تمام رشتوں سے بھی افضل ھے، ان سب سے میں نے اکاونٹس ڈپارٹمنٹ کے ھر سیکشن کا کام بہت ھی محنت سے سیکھا ھے اور انہوں نے بھی مجھے کام کے علاوہ اخلاقیات کا درس بھی اپنے خلوص دل سے دیا ھے، میں اللٌہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ھے، ان سب نے مجھے جینے کی بہتر راہ کی طرف گامزن کیا اور یہ اللٌہ تعالیٰ کا کرم ھے کہ آج جو عزت کا مجھے مقام ملا ھے وہ میرے والدین کی دعائیں اور ان تمام محترم استادوں کی انتھک محنت کی وجہ سے ھی حاصل ھوا ھے،!!!!!!

اس کے علاوہ میں اس موقع کو غنیمت سمجھتے ھوئے، اپنے ان تمام اپنی کنسٹرکشن کمپنی اور اسپتال کے ڈائرکٹران اور مالکان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاھتا ھوں اور ممنون ھوں کہ انہوں نے میرے استادوں کی توسط سے مجھے ھر سہولت کی اجازت دی اور مجھے آزادی سے کام کرنے کا موقع دیا اور میرے کام کی کو تعریفی اسناد اور انعامات سے بھی نوازا، جن میں قابل ذکر محترم جناب شیخ محمد اسلم صاحب، جناب انجینئیر خالد قریشی صاحب، جناب انجینئیر شوکت محمود صاحب،( پاکستاں) جناب انجینئیر انعام الحق بھٹی صاحب(مرحوم)، جناب انجینئیر غلام محمد ملک صاحب، جناب حامد حسین صاحب،(سعودی عرب) جن کا کنسٹرکشن کمپنی سے تعلق تھا اور اس وقت سعودیہ میں جس ھسپتال میں ھوں وہاں پر محترم جناب انجینئیر صبحی عبدالجلیل بترجی، جو اسپتال کے مالک اور صدر بھی ھیں اور سعودی نیشنل ھیں، جناب انجینئیر غلام شبیر شاہ صاحب، اس وقت کنسٹرکشن ڈائریکٹر ھیں، اس کے علاوہ جن کا مصر سے تعلق ھے وہ جناب ڈاکٹر فہیم محمد موسیٰ، ڈاکٹر محمد عبداللٌہ جو اب یہاں سے جا چکے ھیں،!!!!! جناب سمیر شاکر جو اس وقت مدینہ منورہ میں ھمارے اسپتال کے ڈائریکٹر ھیں، ذکی فوزی مرحوم جنکا ابھی پچھلے ھفتے ھی انتقال ھوا ھے، انہوں نے شروع میں میری بہت ھی آفس کے کام کے سلسلے میں بہت مدد کی تھی اللٌہ تعالیٰ انہیں جنت الفدوس میں جگہ دے، آمین،!!!!! اور جناب عبدالفتح حسنین جو اس وقت الریاض میں ھمارے اسپتال کے ڈایرئیکٹر بھی ھیں، ان سب نے میرے ساتھ ھمیشہ اپنوں سے بڑھ کر سلوک کیا، اور میں ان سب کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا،!!!!!!!

اور یہی گروپ پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی عنقریب ھر بڑے شہر میں اپنے کئی چیریٹی میڈیکل سنٹرز اور بڑے اسپتال قائم کرنے والے ھیں، اور ان کا یہ مشن ھے کہ تمام مسلم ممالک میں 2015 تک 30 بڑے اسپتال تعمیر کرسکیں اور 50 ھزار ملازمتوں کی گنجائیش نکال سکیں، اور اب تک 6 اسپتال مکمل طریقے سے کامیابی سے چل رھے ھیں اور 8 اسپتال اور ایک میڈیکل یونیورسٹی سعودی عرب اور مختلف اسلامی ممالک میں زیر تعمیر ھیں اور باقی زیرپلاننگ ھیں، ایک بات اور قابل ذکر ھے کہ یہ تمام اسپتال پاکستانی انجینئیروں، ٹیکنشنوں اور ماھر کاریگروں اور محنت کش لوگوں کی محنتوں سے محترم ڈائیریکٹر اور انجینئیر جناب سید غلام شبیر شاہ صاحب کے ھی زیر نگرانی اسی اسپتال کے کنسٹرکشن ڈویژن کے توسط سےتکمیل تک پہنچ رھے ھیں،!!!!!!

اور اسکولوں میں کالجوں میں اپنے تمام محترم اساتذہ کو بھی میں کبھی نہیں بھولا، انہیں بھی ھمیشہ اپنی دعاؤں میں شامل رکھتا ھوں، جن میں خصوصی طور پر محترم جناب محمد شفیع صاحب، جناب شیخ محمد سعید صاحب، جناب شاہ صاحب، جناب بہاؤالدین صاحب، اور خاص طور پر محترم جناب محمد اسلم صاحب، جن سے میں نے کالج کے دور میں کامرس اور اکاونٹس سے متعلق بہت کچھ سیکھا،

اپنے استادوں اور محسنوں کو کبھی بھی نہیں بھولنا چاھئے ان کی عزٌت ھمیشہ ھم سب کو اپنے والدین سے بھی بڑھ کر کرنا چاھئے !!!!!!

اسے بھی میری کہانی کا ایک حصہ سمجھ لیں جو میں اپنی اس کہانی کے آخر میں پیش کرنا چاھتا تھا، مجھے یہ موقع مل گیا کہ میرے محترم استادوں کے بارے میں ایک مختصراً تعارف پیش کردوں اور اسی توسط سے ان سب کا احتراماً ادب سے سلام پہنچا دوں ھوسکتا ھے کہ وہ سب شاید یہ پڑھ بھی رھے ھوں یا ان کے خاندان میں سے جس کے نطر سے بھی گزرے میرا پیغام ان تک پہنچادیں !!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-67- اب تک نہ بھولنے پائے تھے کہ بن گئے قربانی کا بکرا،

پھر میں دوبارہ اپنی کہانی کو وھیں سے شروع کرتا ھوں،!!!!!!!

اور پھر کچھ وقت نے ایک اور کروٹ لی 1975 میں ھمارے ایک نئے چیف اکاؤنٹنٹ صاحب آگئے اور میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے کراچی ٹرانسفر کرادیں، کیونکہ سب گھر والے وہیں پر ھیں، انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ جلد ھی ڈائریکٹر صاحب سے اس سلسلے میں ضرور بات کریں گے، میں نے وھاں پر بہت کچھ سیکھا اور جو بھی میرے استاد تھے وہ سب وہیں پر تھے اور وہ مجھے اپنے بچوں کی طرح ھی سمجھتے تھے، اور میں اپنے اں تمام استادوں کو کبھی نہیں بھول سکتا، ان کے لئے میرے دل سے دعائیں نکلتی ھیں، آج جس مقام پر ھوں یہ سب انہیں کی بدولت ھے اور انہیں کا سکھایا ھوا ھے !!!!!!!

جو بھی دن ان تین سالوں کے درمیان میں نے راولپنڈی میں گزارے، وہ مجھے زندگی بھر یاد رھیں گے، میری پریکٹکل زندگی کی اصل کیرئیر اور ٹریننگ کا آغاز وھیں سے ھوا تھا، وھاں پر جیساکہ میں نے پہلے ذکر بھی کیا تھا، زیادہ تر میرے استاد وہیں پر تھے اور ھر سیکشن میں ھر استاد کے ساتھ دل لگا کر کام کیا، ایک استاد جناب قاضی نواز صاحب جو بہت ھی زیادہ سخت تھے، مگر دل کے بالکل نرم تھے، میں ان سے بہت ڈرتا تھا، جب مجھے آن کے پاس بھیج دیا گیا تو مجھ سے تو بہت کام لیتے تھے اور بعض اوقات تو وہ بہت سخت لہجے میں بات کرتے تھے، میں اکثر ان سے دل کے اندر سے ناراض ھی رھتا تھا، لیکن یہ احساس مجھے بعد میں ھوا کہ ان کے ساتھ رہ کر میں نے اپنے اندر ایک مکمل قوت اعتمادی پائی، اور کام کرنے کے اصل گر انہیں سے سیکھے، !!!

جو میرے نئے چیف اکاونٹنٹ جنکا نام جاوید صاحب تھا، انہوں نے میری زبانی درخواست پر شاید ھماری کمپنی کے ڈائیریکٹر صاحب سے بات کی بھی ھوگی، کہ میرا کراچی ٹرانسفر کرادیں، لیکن یہ بات میں نے اپنے سینئیر جناب قاضی نواز صاحب کو نہیں بتایا، کیونکہ مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر انکو پتہ چل گیا تو وہ کہیں مسئلہ نہ کھڑا کردیں اور میرا تبادلہ نہ ھونے دیں گے اور اسی اثناء میں میری سالانہ چھٹی منظور ھوگئی اور میں کراچی چھٹی گزارنے چلاگیا اور میرا چارج کسی اور لڑکے نے سنبھال لیا، میں خوشی خوشی واپس اپنی اسی پسندیدہ ٹرین تیزگام سے کراچی چلا گیا اور ھر سال ھی میں کراچی اسی تیزگام سے ھی جاتا تھا، اور شاید عید بھی آنے والی تھی، میں بہت خوش تھا، ایک تو تیزگام سے سفر کرنے اور عید کا موقعہ بھی تھا،

اور اس سے پہلے ایک بات بتاتا چلوں جو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ زادیہ ان کی امی اور انکی باجی تینوں اسلام آباد بھی آئے تھے اور جن کے یہاں وہ لوگ ٹہرے تھے، وہ مجھے جانتے بھی تھے، اور یہ اتفاق ھی تھا کہ میں کافی دنوں سے ان کے گھر اسلام آباد نہیں گیا، اسی دوران کراچی سے زادیہ، ملکہ باجی اور انکی امی ان کے یہاں پہنچ گئے، ان تینوں نے میرا شاید ان سے پتہ معلوم کرنا چاھا بھی یا وہیں پر بلانا چاھا لیکن انہوں نے میرا پتہ انکو نہیں دیا، نہ ھی کوئی میرا ٹیلیفون نمبر وغیرہ، ھوسکتا ھے کہ والد صاحب کے مشورے سے ھی ان کو ہدایت ملی تھیں یا ھوسکتا ھے کہ وہ نہیں چاھتے تھے کہ میں ان سے مل سکوں کیونکہ انہیں بھی میری تمام کہانی کا بخوبی علم تھا، اور وہ ھمارے قریبی رشتہ دار بھی تھے اور بہت ھی اچھے لوگ تھے، میں اکثر ان کے گھر مہینے میں ایک دو دفعہ ضرور چکر لگاتا تھا، اور انکی دو بیٹیاں بھی تھیں اور 6 بھائی بھی، میں ان سب کے ساتھ گھومنے پھرنے بھی جاتا تھا، لیکن کبھی بھی کسی قسم کی کوئی ذہن میں بات نہیں آئی جس سے کوئی شادی وغیرہ یا کسی اور قسم کا کوئی چکر ھو، نہ ھمارے والدین کی طرفسے اور نہ ھی ان کی طرف سے کوئی ایسی بات ھوئی تھی، اور ویسے بھی وہ لوگ بہت ھی زیادہ ماڈرن تھے، میں اس طرف ویسے بھی سوچ نہیں سکتا تھا لیکن ایک بات تھی کہ وہ سب میری بہت عزت کرتے تھے اور خوب آؤ بھگت اور بہت خاطر داری بھی کرتے تھے، میرا ویک اینڈ ان سب کے ساتھ ھی گزرتا تھا اور ان کے والد بھی کوئی بہت بڑے آفیسر تھے، اور ان کا بھی وہاں کراچی سے ٹرانسفر ھوئے صرف ایک ھی سال ھوا تھا اور انکے لڑکے میرے کزن کے علاؤہ بہت اچھے دوست بھی تھے، جبتک میرے گھر والے شاید کراچی جاچکے تھے !!!!!!!!!

کراچی پہنچ کر پھر اپنے آپ کو ایک آزاد پنچھی سمجھ رھا تھا کیونکہ دفتر کے کام سے بالکل آزاد تھا، اور پھر خوب تمام دوستون کے ساتھ گھوما پھرا، مگر زادیہ کی طرف اپنے ذہن کو جانے نہیں دیا اور ھمت بھی نہیں پڑی، جب کہ کبھی کبھی دماغ خراب ھو جاتا تھا اور دل چاھتا تھا کہ فوراً اُڑ کر اس کے پاس پہنچوں اور اسے صرف ایک دفعہ تو دیکھ لوں !!!!!!!!!!

ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ

والد صاحب بھی جیکب آباد سے سالانہ چھٹی پر کراچی آگے تھے، اور یہاں پہنچ کر نہ جانے کیوں انہیں میری شادی کی زیادہ فکر لگی ھوئی تھی، میں ان سے ھمیشہ یہی کہتا رھا کہ پہلے بہنوں کی ذمہ داریوں سے فارغ ھوجائیں، پھر بعد میں میرے لئے سوچئیے گا، لیکن وہ بس کسی طرح بھی میری شادی کراھی دینا چاھتے تھے اور بس میری چھٹی کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے میرے لئے لڑکیاں ڈھونڈنی شروع کردی تھیں اور گھر پر ھر روز کوئی نہ کوئی مہمان آجاتا اور کبھی ھم کسی کے گھر جارھے ھوتے تھے، مگر مجھے یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس مقصد کےلئے لوگ ھمارے گھر آرھے ھیں اور ھم کسی کی دعوت پر کس وجہ سے جارھے ھیں،!!!!!!

انہی چھٹیوں کے دوران عید بھی آگئی، بہت رونق رھی لوگوں کا آنا جانا کچھ زیادہ ھی ھو گیا اور مجھے لڑکیوں کی تصویریں بھی دکھائی جاتیں سامنے بھی لایا جاتا، مگر میں نے بالکل ھی سختی سے منع کردیا تھا کہ اگر کسی نے خبردار میری شادی کی بات بھی کی تو میں ابھی یہاں سے فوراً راولپنڈی واپس چلا جاؤں گا اور پھر کبھی واپس نہیں آؤں گا اور عید کے دوسرے دن والد صاحب نے تو حد ھی کردی اور کہا کہ بیٹا اییسے ھی ایک دوست نے دعوت کی ھے آؤ ذرا چلتے ھیں، گھر میں سب لوگ تیار بھی ھورھے تھے جیسے کہ یہ لوگ بھی کسی شادی میں جارھے ھوں، میں نے پوچھا کہ آپلوگ کہاں جارھے ھو، امی نے کہا کہ ھم کسی اور جگہ دعوت میں جارھے ھیں، والد صاحب نے مجھے آواز دی آؤ بیٹا چلتے ھیں، میں نے منع بھی کیا کہ مجھے بھی کہیں دوست کے ساتھ جانا ھے، اور وہ بس آتا ھی ھوگا،!!! لیکن انہوں نے کہا کہ بس ایسے ھی ذرا ھم دونوں باپ بیٹا مل کر آجاتے ھیں، اور تمھارے دوست کو بھی ساتھ لئے چلتے ھیں کوئی بات نہیں !!!!

میں بھی بس ان کی باتوں میں آکر ان کے ساتھ ھی چل دیا، اتنے میں راستے میں ھی میرا دوست مل گیا، اسے بھی والد صاحب نے اپنے ساتھ کرلیا، اور کہا کہ وہاں سے تم دونوں اپنے پروگرام میں چلے جانا، عید کا ویسے بھی نیا شلوار قمیض پہنا ھوا تھا اور میں پہلے ھی سے تیار اپنے دوست کے ساتھ باھر دوسرے دوستوں کے یہاں ملنے جانا تھا، مجھ سے میرے دوست نے پوچھا کہ یہ کیا چکر ھے میں کس خوشی میں تمھارے ساتھ جارھا ھوں، !!!! میں نے بھی اسے کہا کہ پتہ نہیں آج ابا جی کے کسی دوست کے یہاں دعوت ھے، چلو اچھا ھے دونوں وہیں سے فارغ ھوکر اپنے پروگرام کے مطابق چلے جائیں گے، والد صاحب کے ایک اور دوست فیملی کے ساتھ مل گئے اور کہا کہ مبارک ھو!!!!! میں پھر بھی کچھ نہیں سمجھا کہ وہ کیوں ابٌاجی کو مبارکباد دے رھے ھیں، وہ بھی وہیں جارھے تھے!!!!

لو بھئی ھم بھی اپنے دوست اور والد صاحب کے دوست بمعہ ان کی فیملی کے اباجی کے دوست کے گھر پر پہنچ گئے، ھمارے گھر سے کوئی زیادہ فاصلہ بھی نہیں تھا، جیسے ھی دروازے پر ھم پہنچے تو ھم سب کا بڑا پرتپاک استقبال ھوا، اباجی کے دوست نے پوچھا کہ بھابھی بچے کہاں ھیں میں یہ کہنے ھی والا تھا کہ وہ تو کہیں اور دعوت میں جارھے ھیں، مگر فوراً اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا، اباجی نے فوراً جواب دیا کہ ھاں ھاں وہ بھی تیار ھورھے ھیں اور بس آتے ھی ھونگے، میں چونکہ آگے اپنے دوست کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم میں پہنچ چکا تھا، میں یہ حیران تھا کہ ھماری والدہ اور بہن بھائی تو کہیں اور جارھے تھے، والد صاحب نے اپنا یہ کیا سیاسی بیان دے دیا،!!!!

خیر میں اور میرا دوست دونوں اندر ڈرائنگ روم میں جاکر بیٹھ گئے اور اتفاق سے ھم دونوں نئے شلوار قمیض میں بہت اسمارٹ لگ رھے تھے، اور میں نے تو خاص قسم کی سی چمکدار سی کوٹی بھی اوپر پہن رکھی تھی، اور بھی کچھ زیادہ ھی چمک رھا تھا، اور اندرکچھ ڈھولک پر لڑکیاں شادی کے گانے گارھی تھیں، میں یہی سمجھا کہ شاید یہاں آج کسی کی شادی یا کوئی مہندی کی رسم ھے، اور میں ان سب گھر والوں کو جانتا بھی تھا لیکن مجھے اس تقریب کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، اور کس کی یہاں شادی ھونے والی ھے، یہی میں اپنے دوست سے پوچھ رھا تھا، اسے بھی اس بارے میں کوئی پتہ نہیں تھا، میں تو اپنے دوست سے باتوں میں ھی مشغول تھا کہ میں نے دیکھا کہ دوسرے کمرے کے دروازے کے پردے میں سے لڑکیاں جھانک جھانک کر ہنستی جارھی تھیں، میں پریشان تھا کہ یہ ماجرا کیا ھے، کہیں میں جوکر تو نہیں لگ رھا میں نے اپنے دوست سے پوچھا!!!، اس نے جواب دیا بیٹا واقعی آج تو جوکر ھی بننے جارھا ھے اپنی خیر منالے!!!!!!!

میں اب بھی سمجھ نہیں سکا تھا، کیونکہ یہاں آنے سے پہلے مجھے یہاں کی کسی تقریب کے بارے میں بتایا ھی نہیں گیا تھا، اور بھی کچھ انکے رشتہ دار وغیرہ بھی آنے لگے اور مرد حضرات اسی ڈرائینگ روم میں بیٹھے اور عورتیں اندر کی طرف جارھی تھی میں نے اچانک دیکھا کہ ھمارے باقی گھر والے بھی اسی گھر میں پہنچ گئے، مجھے بہت غصہ آرھا تھا کہ مجھے اس تقریب کے بارے میں تاریکی میں کیوں رکھا گیا، مجھ سے ھی پھر ھر کوئی مختلف قسم کے سوال کرتا جارھا تھا کہ کیا کام کرتے ھو، کتنی تنخواہ ملتی ھے اور اِدھر اُدھر کی باتیں سب مجھ سے ھی کئے جارھے تھے، یہ آخر ماجرا کیا ھے والد صاحب میرے ایک طرف بیٹھے تھے اور دوسری طرف میرا دوست اور وہ تو ھنس رھا تھا اور اس نے پھر مجھ سے میرے کان میں ھی کہا کہ یار بڑے شرم کی بات ھے، ھم دوستوں کو پتہ ھی نہیں اور تمھاری یہاں آج شادی کا بردکھوا ھورھا ھے اور بات بھی پکی ھونے والی ھے، میں نے اس سے پوچھا کہ کس سے، ان کے ھاں تو تین لڑکیاں ھیں اور تم پہلے یہ بتاؤ کہ تمھیں یہ کیسے معلوم ھوا، اسنے جواب دیا کہ میں ابھی باھر سے پتہ کرکے آرھا ھوں اور تمھیں کچھ پتہ ھی نہیں ھے، کمال ھے یار جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ھے، تمھارے سارے گھر والے آئے ھوئے ھیں اور تمھارے رشتہ دار بھی موجود ھیں، میں نے قسم کھائی کہ مجھے یہاں دھوکے سے لایا گیا ھے، مگر میرا دوست نہیں مانا،!!!!!

میں حیران پریشان بیٹھا تھا اور والد صاحب کو دیکھے جارھا تھا کہ انہوں نے مجھ سے پوچھے بغیر ھی اتنا بڑا قدم اُٹھا لیا، میں پھر بھی کنفیوز تھا، پھر سب کو اندر بلایا گیا، میں نے موقعہ جان کر باھر کی طرف جانا چاھا، لیکن والد صاحب نے فوراً ھی ھاتھ پکڑ لیا، میں تو اب تک ان سے ڈرتا تھا کچھ بھی نہ کرسکا، صرف اتنا آھستہ سے کہا کہ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا، انہوں نے بھی چپکے جوب دیا کہ ارے بیٹا بس ان لوگوں نے تمھیں دیکھنے کو بلایا تھا، کوئی شادی تھوڑی ھورھی ھے،!! میں نے غصہ سے ان کے کان میں ھی کہا کہ ھوگی بھی نہیں !!!! میں کیا کرتا اب انکی عزت تو رکھنی ھی تھی، !!!!

اندر مجھے ایک کرسی پر بٹھایا گیا اور گلے میں ایک پھولوں کا ھار بھی ڈال دیا گیا، لگا کہ جیسے اب بکرے کی قربانی ھونے والی ھو، پھر میرے ھاتھ میں کچھ پان کے پتے رکھ دئیے اور اس پر مٹھائی، اور سب لوگ ایک دوسرے کو مبارک ھو اور ماشااللٌہ کہہ رھے تھے، اس لڑکی کی دونوں چھوٹی بہنیں مجھ سے مذاق بھی کررھی تھیں، اب ظاھر ھے کہ پتہ چل چکا تھا کہ کس سے یہ میرا رشتہ ھونے جارھا تھا، میں نے تو مکمل خاموشی اختیار کی ھوئی تھی، لڑکی تو اچھی تھی اور گھر پر اکثر آنا جانا رھتا تھا، مگر اس ظرح میرے ساتھ ھوگا یہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، اب سب عورتیں میرے اُوپر سے ھاتھ گھما گھما کر نوٹ اتار رھی تھیں اور ساتھ ھی مٹھائی بھی کھلارھی تھیں، اور ساتھ ھی اباجی کو بھی، اور ھماری اماں اور بہنیں اور بھائی بھی آگے بیٹھے ھوئے تھے اور سب مجھ سے آنکھیں چُرا رھے تھے !!!!!!!

کھانے کیلئے سب کو ایک کمرے میں لے گئے اور بس میں کیا کھانا کھاتا، بس خاموش اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا، اپنی قسمت کو کوس رھا تھا کہ میرے ساتھ یہ کیا مذاق ھوگیا، مجھے پتہ بھی نہیں چلا، وھاں سے فارغ ھوکر واپس گھر آئے، تو ابا جی نے کہا کہ ان لوگوں نے صرف دیکھنے کو بلایا تھا، مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ اتنی رسم وغیرہ کریں گے اور یہ کوئی شادی پکی تھوڑی ھوئی ھے وہ تو بس دیکھنے کی رسم تھی اگر تجھے پسند نہیں ھے تو نہیں ھے بس، ضروری تو نہیں ھے کہ اسی کے ساتھ ھی شادی ھو، میں نے فوراً ھی گھر پر سب سے یہی کہہ دیا کہ میں نے آپ سب کو پہلے بھی یہی کہا تھا کہ میں فی الوقت کسی سے بھی شادی نہیں کرونگا، اور اب بھی یہی کہہ رھا ھوں کہ میں یہ شادی نہیں کرسکتا !!!!!!!

اس واقعہ سے مجھے بہت دکھ ھوا تھا، ایک تو مجھ سے پوچھے بغیر ھی والد صاحب نے یہ قدم اٹھایا تھا، اور دوسرے یہ کہ میرے اس فیملی سے بہت ھی اچھے تعلقات تھے، اور ان کے بھائی بھی میرے اچھے دوست تھے، انکے والدین بھی میرے لئے بہت ھی ایک عزت کا مقام رھتے تھے ساتھ ھی ان کی بیٹی بہت ھی اچھے کردار اور سیرت کی مالک تھی، اور میں نے کبھی بھی اسے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا، اور میری نظر میں وہ ایک میری بہن کی ظرح ھی تھی، نہ جانے والد صاحب کو کیا سوجی، !!!! انہوں نے والد صاحب سے کہا کہ ھمیں آپ کا لڑکا پسند ھے اپنی بڑی بیٹی کیلئے اور بس ھمارے کچھ رشتہ دار دیکھنا چاھتے ھیں، عید کے دوسرے دن اپنے بیٹے کو ان سے ملوانے کیلئے اگر کچھ آپ برا نہ مانے تو یہاں ھمارے گھر پر اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ آجائیے گا،!!!! اور والد صاحب نے اس بارے میں مجھ سے کچھ کہا بھی نہیں اور ایک دعوت کا کہہ کر مجھے ساتھ لے گئے تھے،!!!!!

والد صاحب ان دتوں ویسے بھی میری شادی کے پیچھے ھی پڑے ھوئے تھے اور جس سے بھی ذکر کرتے وہ فوراً ھی دو چار لڑکیوں کا تعارف کرانے کےلئے ان کے گھر والوں سے ملوانے والد صاحب کو لے کر پہنچ جاتے، یا کوئی نہ کوئی ھمارے گھر میں مجھے دیکھنے کے لئے پہنچ جاتے، اور ھر لڑکی ان کو پسند بھی آجاتی، اور گھر آتے ھی میرے سامنے اس لڑکی کا ذکر کرتے کہ بہت اچھی گھریلو لڑکی ھے اور امور خانہ داری میں ماھر ھے، اور مجھ سے پوچھتے تو میں فوراً انکار کردیتا، اور غصہ ھوکر باھر نکل جاتا، اور والد صاحب یہی سمجھ رھے تھے کہ میں نے ابھی تک زادیہ اور انکے گھر والوں سے تعلقات رکھے ھوئے ھیں، اس لئے وہ چاھتے تھے کہ کسی طرح بھی میری وہ شادی کرادیں تو پھر سب کچھ ٹھیک ھوجائے گا، اور میرا دھیان زادیہ کی طرف سے ھٹ جائے گا اور انہوں نے تھک ھار کر یہ رشتہ منتخب کیا تھا اور ان کی سمجھ کے مطابق انہیں یہ مکمل امید تھی کہ ان کے گھر جاکر میں ان کے سامنے ان کی عزت رکھتے ھوئے کبھی بھی انکار نہیں کرونگا، کیونکہ میرے انکے گھر سے بہت اچھے تعلقات تھے!!!!!

میں نے فوراً اپنی چھٹی منسوخ کردیں اور گھر میں یہی کہا کہ مجھے کام کی زیادتی کی وجہ سےجلد ھی ڈیوٹی پر پہنچنا ھے اس لئے اب مجھے ابھی فوراً جانا پڑے گا، والدہ تو سمجھ گئیں لیکن والد صاحب کے دماغ میں یہ بات نہیں آئی، انہوں نے کہا بیٹا کوئی بات نہیں، مجھے خوشی ھے کہ تم کام کی طرف زیادہ دھیان رکھتے ھو، میں نےفوراً ھی تیزگام کی سیٹ بک کروائی اور تیسرے دن ھی وہاں سے بغیر کسی کو اطلاع دئیے ھوئے نکل گیا اور گھر پر یہی کہہ گیا کہ ابھی کسی کو نہ بتانا، میں جب پنڈی پہنچ جاؤں تب میرا ذکر کرسکتے ھیں کہ اچانک ھی دفتر سے ٹیلیگرام آیا تھا، مجبوراً مجھے جانا پڑا، پانچویں دن ھی میں راولپنڈی میں موجود تھا، ابھی چھٹیاں باقی تھیں تو میں سیدھا اسلام آباد چلا گیا اپنے رشتہ داروں کے پاس،!!!!!!!

انہوں نے اس وقت مجھے بتایا کہ وہ زادیہ اور انکی باجی اور امی یہاں آئے تھے اور تمھارا پوچھ رھے، اور ھم نے تمھارے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا، اس لئے کہ ایک تو تم کافی عرصہ سے یہاں نہیں آرھے ھو، اور دوسرے تمھارے اباجی کی وجہ سے بھی کہ وہ کہیں ھمیں کچھ اور نہ الزام دے دیں، میں بھی انہیں کیا کہتا خاموش ھوگیا، کاش کراچی میں ھی ان سے رابطہ کرلیتا تو شاید بات واضع ھوجاتی کہ ان کے آنے کا کیا مقصد تھا، مجھے دکھ بھی ھوا کہ ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا کیوں نہیں، جبکہ ان کو میرے دفتر کا پتہ بھی تھا، خیر میں جب تک چھٹیاں تھیں، میں ان کے گھر پر ھی رھا!!!!

اور چھٹی ختم ھوتے ھی فوراً اسلام آباد سے راولپنڈی اپنے دوست افضل اور شفیق کے گھر پہنچا، جہاں میں انکے ساتھ ھی رھتا تھا، اور دونوں میرے بہت ھی اچھے دوست تھے اور ھم تینوں ایک ھی جگہ پر کام بھی کرتے تھے، وھاں کے ایک پڑوسی فیملی بھی بہت اچھی تھی، جو ھم تینوں کے لئے اکثر کھانا وغیرہ بھجوا دیا کرتے تھے، اور کبھی کبھی ھم بھی انہیں پکانے کا سامان دے دیا کرتے تھے، وھاں ھماری کافی رونق لگی رھتی تھی، ھمارا بہت خیال رکھتے تھے ان کے چھوٹے بچوں کو ھم تینوں پڑھا دیا کرتے تھے اور وہ لوگ ھم تینوں پر بہت مہربان تھے، اور ان کے گھر سے ایک اپنے رشتہ داروں سے بھی بڑھ کر ایک رشتہ بن گیا تھا انکی تین ھی لڑکیاں تھیں اور بھائی ابھی چھوٹے ھی تھے، جنہیں ھم پڑھاتے بھی تھے، اور افسوس کی بات یہ تھی کہ ان کے والد نہیں تھے، اور اماں جن کو ھم خالہ کہتے تھے اور انکی بڑی بیٹی دونوں ھی باھر نوکری کرتی تھیں اور بہت ھی مہربان اور اچھی سلجھی ھوئی فیملی تھی !!!!

دفتر میں اس دفعہ چھٹی ختم ھوتے ھی وقت پر ھی پہنچ گیا تھا، ورنہ میں تو اکثر چھٹی سے واپسی پر دس پندرہ دن تاخیر سے ھی پہنچتا تھا، وہاں پر سب حیران بھی تھے کہ آج یہ کیسا معجزہ ھوگیا، بہرحال نوکری شروع کردی تھی، اور فی الوقت میں نے کراچی ٹرانسفر کے احکامات کو وقتی طور پر رکوا دیا تھا جبکہ اسی دن میرے کراچی تبادلے کا لیٹر نکلنے ھی والا تھا، اپنے دوست شفیق جو پرسنل ڈپارٹمنٹ میں منیجر کا سیکریٹری تھا، اسے کہہ کر اس سے سفارش بھی کروالی تھی، اور اسی ظرح دن گزرتے رھے اور میں نے بھی گھر سے کوئی رابطہ قائم نہیں کیا، مگر ایک دن والد صاحب کا پیغام آیا کہ وہ لوگ اب شادی کے لئے ضد کررھے ھیں اور وہ چاھتے ھیں کہ بقرعید میں میری شادی ھوجائے،!!!!!

اب میں ایک اور کشمکش کا شکار ھوگیا کہ کس کی بات سنوں اپنے دل کی یا پھر ابا جی کی، میں نے ان کو جواب دیا کہ اس دفعہ کام کی بہت زیادتی ھے ابھی میں بقرعید پر نہیں آسکتا، پھر والد صاحب نے پھر مجھے لکھا کہ وہ لوگ بہت زد کررھے ھیں، اور بہت مشکل ھورھی ھے، میں نے کہا کہ مجبوری ھے اور ابھی کم از کم دو سال مزید انتظار کرنا پڑے گا، کافی خط و کتابت کے بعد آخر میں والد صاحب کا ایک خط آیا کہ انہوں نے آخری دفعہ کہا ھے کہ اگر آپ بقرعید پر شادی نہیں کرسکتے تو ھم یہ رشتہ ھی ختم کردیں گے، کیونکہ انکی لڑکی کیلئے بہت سے اچھے رشتہ آرھے ھیں، میری تو خوشی سے بانچھیں ھی کھل گئیں، میں نے بھی فوراً ھی وقت کی نزاکت سے فائدہ اٹھایا اور خط میں والد صاحب کو یہی لکھ کہ اباجی ان سے جاکر کہہ دیں کہ بھئی مجبوری ھے، ھم یہ رشتہ اس صورت میں نہیں کرسکتے، اگر آپ کے پاس اچھے رشتے آرھے ھیں تو ھماری طرف سے پوری اجازت ھے اور ھم اس رشتہ کو یہیں ختم کرتے ھیں،!!!!!

میں نے شکر ادا کیا چلو یہ اچھا ھی ھوا کہ ان کی طرف سے ھی یہ رشتہ ختم ھونے جا رھا ھے، ورنہ مجھے ان سے انکار کرتے ھوئے بہت افسوس ھوتا، کیونکہ وہ بہت اچھے لوگ تھے اور لڑکی بھی بہت اچھے کردار اور سیرت کی مالک تھی، اور ان کے گھر پر میری بہت ھی زیادہ عزت بھی تھی، اور بھی ان سب کو ایک عزت کا مقام دیتا تھا !!!!!!!

میری اب کچھ جان میں جان آئی، اور اب کچھ محنت سے ھی کام کرنے لگا کہیں ایسا نہ ھو کہ واقعی ابھی کراچی ٹرانسفر ھوجائے، اور میرے سینئیر وہ تو چاھتے بھی نہیں تھے کہ میں ان کے پاس سے کہیں اور چلاجاؤں، ادھر جہاں میں افضل کے پاس رھتا تھا وہ بھی اسی اثناء مین نوکری چھوڑ چکا تھا، پھر میں اور شفیق دونوں دفتر کے نددیک ھی ایک کمرے کے مکان میں شفٹ ھوگئے جہاں پہلے سے ھی میرا ایک دوست شاکر رہتا تھا، کچھ دنوں بعد شفیق بھی چلا گیا تو میں نے پھر ایک اور دوست نذر حسیں شاہ کے ساتھ ملکر ھی اک تین کمروں کے مکان کرایہ پر لے کر اس میں شفٹ ھوگئے، بس یہاں بھی کچھ دنوں تک ھی قیام رھا، اب روز بروز میرا دل کچھ زیادہ ھی بےچین ھوتا جارھا تھا، کبھی تو دل چاہ ھی نہیں رھا تھا اور اب پھر دل یہی چاہ رھا تھا کہ اب دوبارہ سفارش کرکے کراچی تبادلہ کرا ھی لوں،!!!!!!

اور کچھ قدرت نے ساتھ بھی دیا اور میرے ٹرانسفر کی درخواست منظور ھوگئی، جیسے ھی لیٹر مجھے ملا فوراً ھی میں نے جانے کی تیاری بھی کرلی، اس دوران میں نے ایک اور دوست عبدالسلام کے ذریعہ زادیہ اور اس کی باجی کو ایک مشترکہ خط لکھ کر میں نے ایک دفعہ پھر حالات کا جائزہ لینے کے بہانے کچھ اپنی بے چینی کا اس میں اظہار بھی کیا، اور صاف طور سے بھی لکھ دیا کہ میں زادیہ کو بہت چاھتا ھوں، اور اس سے شادی کرنا چاھتا ھوں، اگر زادیہ اور آپ لوگ اس بات سے راضی ھیں تو میں اپنے والدیں سے اس موضوع پر بات کرسکتا ھوں، مگر میں نے ان لوگوں کے یہاں اسلام آباد میں آنے کا ذکر نہیں کیا، میں نے یہی سوچا کہ اگر وہ خود مناسب سمجھیں گے تو خود ھی ذکر کردیں گے، ان کا جواب موصول ھوا لیکن پڑھ کر مایوسی ھوئی، باجی نے اپنے ھاتھ سے ھی لکھا کہ اب یہ ممکن نہیں ھے، اول تو تمھارے گھر والے اس بات کی اجازت بھی نہیں دیں گے اور ویسے بھی آپکے گھر والوں کے ساتھ دوبارہ تعلقات استوار ھونا بہت ھی مشکل ھے،اور زادیہ کا تمھارے بارے میں اس ظرح کی کوئی بھی رائے نہیں ھے اور نہ ھی اس نے کبھی تمھارے متعلق ایسا سوچا ھے،!!!!

میرا دماغ خراب ھوگیا میں نے فوراً پھر جواب لکھا کہ مجھے کم از کم زادیہ کے ھاتھ سے لکھا ھوا اگر جواب دے دیں یا مجھے ٹیلیفون پر اسکی ایک بار بات کرادیں، میں صرف اور صرف زادیہ کے منہ سے ھی سننا چاھتا ھوں، اس کے جواب میں مجھے وھاں سے انکار ھی ملا کہ نہ تو زادیہ نے تمھارے بارے میں کبھی ایسا سوچا تھا اور نہ ھی وہ ایسا سوچ سکتی ھے خدارا ھمیں اب پریشان نہ کرو، اور زادیہ تو تمام مردوں سے نفرت کرتی ھے، پھر میں نے وہ زادیہ کے اقرار نامہ جو اس نے مجھے پہلے لکھا تھا وہ باجی کو تفصیل سے لکھ کر پوچھا کہ پھر کیا زادیہ نے مجھ سے مذاق کیا تھا کیا اس نے ایک مجھ سے کھیل کھیلا تھا، اور نہ جانے کیا کچھ بُرا بھلا لکھ دیا، اور پھر اسکے بعد مجھے اس خط کا جواب موصول نہیں ھوا اور میں نے بھی اس کے بعد ان لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا،

اب میرا ٹرانسفر کراچی ھو چکا تھا، اور میں اب پھر نہیں چاہ رھا تھا کہ واپس کراچی جاؤں، لیکن بار بار اپنے ٹرانسفر کو رکوانا بھی اچھی بات نہیں تھی، شاید 1975 کے سال کا آخیر تھا، سردیوں کے دن قریب تھے اور اب مجھے نہ چاھتے ھوئے بھی کراچی جانا پڑ رھا تھا!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-68- پھر لوٹ کے پہنچے اپنے محبوب کی گلیوں میں!!!!!

اب میرا ٹرانسفر کراچی ھو چکا تھا، اور میں اب پھر نہیں چاہ رھا تھا کہ واپس کراچی جاؤں، لیکن بار بار اپنے ٹرانسفر کو رکوانا بھی اچھی بات نہیں تھی، شاید 1975 کے سال کا آخیر تھا، سردیوں کے دن قریب تھے اور اب مجھے نہ چاھتے ھوئے بھی کراچی جانا پڑ رھا تھا!!!!!!!!

پھر ایک بار میں کراچی بذریعہ تیزگام راولپنڈی سے واپس جارھا تھا، اور تمام راستے اپنی خوشگوار یادوں اور ان جگہوں کے بارے میں سوچتا بھی جا رھا تھا، جہاں میں نے اپنی سروس کے دوران گھومتا پھرتا رھا ھوں، یہاں بھی میرے تین سال اس طرح گزرے کہ پتہ ھی نہیں چلا، یہاں پر بھی وقت بہت اچھا گزرا، سب سے بڑی بات یہ کہ میں نے یہاں بہت کچھ سیکھا اور کافی نئے دوست بھی ملے جو بہت ھی ملنسار اور میرے لئے اچھے مدد گار ثابت بھی ھوئے، ایک طرف سے تو مجھے دکھ بھی تھا کہ میں اس شہر کو چھوڑ رھا تھا، جو میرے پیدائش کا شہر تھا اور پرائمری اسکول کی بنیادی تعلیم بھی یہیں حاصل کی تھی دوسرے مجھے اس بات کی خوشی بھی تھی کہ میں واپس اپنے بہن بھائیوں اور والدہ کے پاس جارھا تھا، اس شہر میں بھی کافی اپنی اچھی یادیں وابستہ رھیں، جو میں کبھی نہیں بھول سکتا ھوں،

مجھے پنڈی کے ایک ایوب پارک جو مورگاہ کی طرف تھا، بہت ھی زیادہ پسند تھا، اور ریس کورس گراونڈ جہاں اس کے سامنے جو اب قاسم مارکیٹ کہلاتا ھے، ھمارا معصوم بچپن ان ملٹری کے کوارٹر میں گزرا تھا، اس کے علاوہ مری جاتے وقت راستے فیض آباد کے پار ھوتے ھی راول ڈیم اور اس کے آس پاس کا ایریا بہت ھی خوبصورت تھا اکثر میں وہاں پر فیملی کے ساتھ جاتا بھی رھا ھوں اور وھاں کی جھیل میں کشتی رانی بھی کی ھے اور ایک دفعہ تو ڈوبتے ڈوبتے بچا بھی ھوں وہ انہی اپنے رشتہ دار فیملی کے ساتھ اور اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ کے پاس ایک پہاڑی پر شکرپڑیاں کا خوبصورت پارک جو وھاں سے آب پارہ تک یاسمین روز گارڈن تک جاتا تھا جہاں دنیا بھر کے مختلف گلاب کے پھولوں کے باغات تھے، اور اکثر وھیں پر بہار کے موسم میں پھولوں کی نمائش بھی ھوتی تھی، اسکے علاوہ ارجنٹائینا پارک بھی اپنی ایک اھمیت کا خوبصورت پکنک پوائنٹ تھا، آگے اسلام آباد سپر مارکیٹ اور جناح سپر مارکیٹ اور اسمبلی ھال کی خوبصورت بلڈنگ وھاں کی رونقوں میں سے ایک ھے، وھاں پر ایک چھوٹا سا چڑیاگھر بھی ھے اور اسکے ساتھ ھی پہاڑوں میں کوہ دامن میں کے نام سے ایک ریسٹورانٹ اور خوبصورت پکنک پوائنٹ بھی ھے،، اسکے علاوہ آب پارہ سے کچھ ھی فاصلے پر بری امام شاہ کا مزار بھی موجود ھے جہاں پورے ملک سے عقیدت مند حاضری دینے آتے ھیں، اور آخر میں پہاڑوں کے ساتھ ایک گاؤں جس کا نام سیدپور ھے، جس کو میں کبھی بھول نہیں سکتا وھاں پر تو کئی دفعہ میں اپنی اور رشتہ داروں کی فیملی کے ساتھ پکنک منانے جاتے تھے اور وہاں کے مقیم لوگ ھماری بہت عزت اور خوب آؤ بھگت بھی کرتے تھے، وھاں پر اکثر بندروں کی ٹولیاں پھرتی رھتی تھیں، جنہیں تمام بچے بڑے بہت تنگ کرتے تھے !!!!!

کیا کیا جگہیں مجھے یاد آرھی تھیں اور اب بس اداس سا چہرہ لئے ٹرین کی کھٹ کھٹا کھٹ سے بے خبر اپنے گزارے ھوئے وقت کو یاد کررھا تھا، کھڑکی میں بیٹھا سرسبز لہلہاتے ھوئے کھیت اور باغات کو مخالف سمت بھاگتے ھوئے بھی دیکھ رھا تھا یہ چیزیں کراچی میں دیکھنے کو کہاں ملتی ھیں، بس شاید قدرت دوبارہ آنے کا موقعہ دے یا نہ دے، سب کچھ اپنی آنکھوں میں سما دینا چاھتا تھا، اور رات ھوتے ھی اپنی پرانی یادوں کو دل میں بسائے اوپر کی برتھ پر سونے کی ناکام کوشش کرتا رھا، صبح ھوئی تو ٹرین کو سندھ کے صحراوں میں پایا جہاں مجھے اتنی زیادہ دلچسپی نہیں تھی سارے ریگستان اور سردیوں میں بھی ریت کے طوفان چلتے تھے جس کے لئے ھمیں کھڑکیاں بھی بند کرنی پڑتی تھیں !!!!!!!!

آخر کو تیزگام اپنی شان اور شوکت سے کھٹ کھٹا کھٹ ‌کے ساتھ سیٹیاں بجاتی ھوئی اور اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ کراچی میں داخل ھو رھی تھی، صبح کے آٹھ یا نو بجے کا وقت تھا اور کراچی کینٹ اسٹیشن کے پہنچنے سے پہلے تیز گام کی رفتار کچھ کم ھوئی اور میرے وہی خوبصورت بچپن سے جوانی تک کا وہ یادگار محلہ جس سے میری بہت خوبصورت یادیں جڑی ھوئی تھیں، وہ علاقہ میری نظروں کے سامنے سے گزر رھا تھا اور میں اسے اپنی حسرت بھری نگاھوں سے دیکھ بھی رھا تھا،!!!!!!!

آسٹیشن سے ایک دوست کے ساتھ گھر پہنچ گیا اور اس دن تو بہت ھی زیادہ تھکا ھوا تھا، اس لئے کراچی کے ھمارے ڈویژنل آفس میں جاکر حاضری نہ لگا سکا، مگر دوسرے دن ھی صبح صبح آفس چلا گیا اور وھاں پر ایک دو کے علاوہ باقی تمام نئے اسٹاف کو دیکھا، سب نے بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا، پھر وہاں کے ڈائریکٹر جناب خالد قریشی صاحب سے ملاقات کی، بہت ھی اچھی طرح انہوں نے مجھ سے بات کی اور میرے بارے تمام کوائف معلوم کئے اور پھر وہاں کے چیف اکاونٹنٹ عثمانی صاحب کے پاس بھیج دیا، وہ اتفاق سے والد صاحب کے دوست بھی تھے، انہوں نے میری رائے پوچھی کہ تم بتاؤ کہ تم یہاں کام کرنا پسند کرو گے یا کسی ھمارے پروجیکٹ پر جانا چاھو گے، میں نے کہا کہ جیسا بھی آپ میرے لئے بہتر سمجھ سکتے ھوں،

انہوں نے کہا کہ آفس میں تو ھمیشہ پابندی رھتی ھے اور ویسے بھی فی الحال یہاں جگہ بھی خالی نہیں ھے، بہتر ھوگا کہ ھمارے کسی پروجیکٹ پر چلے جاؤ، اس وقت انھوں نے کہا کہ انکے ایک پروجیکٹ پر کام ختم ھونے کو ھے اور ایک اور بہت بڑا پروجیکٹ وہیں پر کچھ دنوں میں ملنے والا ھے، تو میں سمجھتا ھوں کہ یہ تمھارے لئے بہتر ھوگا کہ ابھی سے جاکر وھاں کے پروجیکٹ اکاونٹنٹ کے پاس جاکر رپورٹ کرو، اور ان کے فی الحال اسسٹنٹ کے طور پر کام سنبھالو، اور اس طرح پروجیکٹ کے اکاونٹس کے کام کا بی تمھیں کچھ معلومات بھی ھوجائیں گی، میں نے ان کے اس مشورے کو مان لیا اور پھر انہوں نے اس پروجیکٹ پر ٹرانسفر کیلئے ٹرانسفر آرڈر کا حکم نامہ پرسنل سیکشن سے کہہ کر نکالوا دیا، اور جس پروجیکٹ پر مجھے بھیجا جارھا تھا وہ ایک تو سمندر کے ساتھ تھا اور وہاں پر شپ رپئیرنگ اور مینوفیکچرنگ کا کام ھوتا ھے، پہلے ھی کمپنی نے تین بڑے ڈرائی ڈاک بنا چکی تھی اور اس وقت ایک چھوٹی بلڈنگ کا کام اختتمام پر ھی تھا،

وھاں میں پہنچ تو گیا لیکن اندر جانے کیلئے اجازت نامے کی ضرورت تھی، میں نے انکو اپنا لیٹر دکھایا تو وہاں کی سیکوریٹی آفس نے مجھے ایک عارضی اجازت نامہ دے دیا، اس احکام کے ساتھ کہ سب سے پہلے آپ مستقل اجازت نامہ کا کارڈ بمعہ تصویر کے، اپنے آفس سے بنوائیں، اندر پہنچا دیکھا کہ بہت بڑا شپ یارڈ کا علاقہ ھے، کہیں بڑے بڑے بحری جہاز بن رھے ھیں اور تینوں بڑے ڈرائی ڈاک میں تین بڑے جہاز ٹھیک بھی ھو رھے ھیں، اور اتنا مشینوں اور کرینوں کا شور تھا کہ آپ ساتھ والے کی آواز سن بھی نہیں سکتے تھے، بڑی مشکل سے اپنی کنسٹرکشن کمپنی کے آفس پہنچا جو عارضی طور پو سیمنٹ کی چادروں اور نارمل سیمنٹ کی اینٹوں پر مشتمل تھا ایک پلاننگ ڈرائینگ اور ڈیزائیننگ کا آفس کچھ بہتر تھا جو عارضی کیبن جسے موبائیل آفس کہہ سکتے ھیں، اسکے علاؤہ ایک اسٹور اور پروجیکٹ منیجر کا آفس جو کچھ شاندار ظریقے سے بنایا گیا تھا،

میں نے مختصراً وھاں کا جائزہ لیا اور پہنچ گیا وھاں کے پروجیکٹ اکاؤنٹنٹ کے پاس، آفس باھر سے کوئی خاص تو نہیں تھا، لیکن انہوں نے اندر سے کچھ بہتر ھی خوبصورت سی سیٹنگ کی ھوئی تھی ساتھ دو میزیں تھیں، ایک ٹائپسٹ کے لئے اور دوسری ٹائم کیپر کیلئے بس ھمارا ایک یہی آفس تھا، وھاں شپ یارڈ کے شور کے علاوہ دھول مٹی سب کچھ اندر گھوم گھما کر تمام میزوں اور اندر کے ماحول کو اوٹ پٹانگ کردیتی تھی، میں ‌سیدھا اپنے پروجیکٹ اکاونٹنٹ جناب یامین صاحب سے ملا، یہ بھی والد صاحب کے ساتھیوں میں سے تھے اور ساتھ ھی آس پاس بیٹھے ھوئے لوگوں سے بھی علیک سلیک کی، ان کے ھاتھ میں اپنا لیٹر تھما دیا، انہوں نے فوراً بیٹھنے کے لئے کہا اور میں ان کی سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا اور وھی کرسی ھی میرے کام کی جگہ بھی بن گئی، کیونکہ کسی اور میز کی گنجائش بھی نہیں تھی،

یا اللٌہ میں کدھر پھنس گیا، خوامخواہ ھی میں نے پروجیکٹ کیلئے ھامی بھر لی تھی، بہر حال اب کیا کرسکتا تھا، مجبوراً ڈیوٹی جوائن کرلی تھی، اور ایک فوٹو دے کر وہاں کا مستقل گیٹ پاس بھی بنوا لیا تھا اندر آنے جانے کیلئے، پہلا دن تو بہت بور ھی گزرا لیکن آھستہ آہستہ دوسرے اسٹاف سے جان پہچان ھونے کی وجہ سے کچھ ھمت بندھ ھی گئی، سب اچھے ساتھی تھے اور وہاں کے انجئنیر بھی اخلاق کے بہت ھی اچھے تھے، اور جب کبھی تھک جاتا تو سامنے ھی سمندر کے ساتھ ھی پلیٹ فارم کے پاس بیٹھ جاتا اور بڑے بڑے بحری جہازوں کو دیکھتا رھتا، اور ساتھ ھی ڈرائی ڈاک میں جہازوں کی مرمت ھوتے ھوئے دیکھ کر بہت ھی انجوائے کرتا وہاں پر آپ جہاز کے کے نیچے آخر تک جو حصہ پانی میں ھوتا ھے وہ بھی صاف طور سے دیکھ سکتے ھیں، کیونکہ اس ڈرائی ڈاک میں بحری جہاز کے اندر آتے ھی، دروازے بند کرکے خودکار مشینوں اور پمپ سے سارا پانی لکال دیتے تھے اور وہاں خالی جہاز ھی رہ جاتا تھا اور اس کے علاوہ ایک منظر جب پانی خالی ھوجاتا تھا تو دنیا بھر کی مختلف چھوٹی بڑی مچھلیاں تڑپتی ھوئی نظر آتی تھیں اور لوگ اسٹیل کی پہلے ھی سے لگی ھوئی سیڑھیوں سے نیچے اتر کر مچھلیوں کو پکڑنے لگتے، کچھ تو انہیں باھر جاکر بیچتے کچھ دوستوں کو بانٹتے اور کچھ لوگ گھر پر اپنے ھی پکانے کے لئے لے جاتے، اور اس وقت جہاز کے نیچے لوگوں کو دیکھو تو چھوٹے چھوٹے بونوں کی طرح لگتے تھے،

اب میرا دل وھاں لگ چکا تھا کئی ھم عمر لڑکوں سے دوستی بھی ھوچکی تھی، ایک وہاں کے آفس میں میرا ایک پرانا اسکول کا کلاس فیلو بدرالمغیز بھی مل گیا اس کے علاوہ دلاور خان، لیاقت، محمود، شاھد عباس اور نہال زیدی تو میرے بہتریں دوست بن گئے تھے اور باقی جن کے نام یاد نہیں ھیں وہ بھی میرے بہت ھی اچھے دوستوں کی طرح ھی رھے،اور بڑی عمر کے لوگوں میں میرے پروجیکٹ اکاونٹنٹ یامین صاحب، غازی صاحب جو ٹائم کیپر تھے، نظام الدین پلاننگ انجینئر ، مولانا فضل الرحمن، سائٹ انجینئر اور شرافت صاحب انجینئر، اور رمضان خان صاحب جو میرے لئے پہلے بھی ایک محترم ھستی تھے اور آج بھی وہ میرے دل میں ھیں، آج وہ اس دنیا میں نہیں ھیں لیکن میں اب بھی انہیں اپنے دل میں بہت عزیز رکھتا ھوں، جن کا کہ میری زندگی میں ایک اھم کردار ھے، جنہوں نے مجھے ایک ایسا تحفہ دیا ھے جس کی وجہ سے میں آج تک ان کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا، جسے میں آگے چل کر تفصیل سے بتاؤں گا، اس کے علاوہ سب کے باس جناب انجئنیر شوکت عزیز صاحب، جو کہ ابھی ابھی اُنہوں نئے پروجیکٹ کے لئے کام سنبھالا تھا، اور یہ سندھ کے بڑے بڑے پروجیکٹ ختم کرکے اس نئے پروجیکٹ کیلئے آئے تھے، شوکت صاحب نے میرے کیرئر کو بلند کرنے اور میری حوصلہ افزائی کیلئے اپنی پوری کوشش کی اور مجھے میں ایک بہترین ایسا مجھ میں ایک اعتماد دیا کہ میں آج تک ان کو بھی اپنے استادوں کے ساتھ ایک اھم اور عزت کا مقام اپنے دل میں رکھتا ھوں، ایک بات ھے کہ مجھے اس کمپنی میں ھر جگہ اللٌہ کے فضل سے ھر جگہ اچھی راہ نمائی کرنے والے لوگ ملے اور ان سب نے مجھے اچھی نصیحتوں اور مفید مشوروں سے نوازا، اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جتنے بھی بڑی عمر کے لوگ تھے وہ سب زیادہ تر والد صاحب کے ساتھیوں میں سے تھے اور ان کے ساتھ کہیں نہ کہیں ساتھ اسی کمپنی میں کام بی کیا ھوا تھا،

کچھ دنوں بعد ھمرے پروجیکٹ اکاونٹنٹ جناب یامین خان صاحب کو چیف انٹرنل آڈیٹر پر ترقی دے کر انکا ٹرانسفر ڈویژنل آفس میں کردیا، ان کا بھی میں بہت بہت احسان مند ھوں کے انہوں نے بھی مجھے پروجیکٹ اکاونٹس کے بارے میں تمام کاموں سے متعلق اچھی طرح روشناس کرایا، اور وہ مجھے اپنی سیٹ پر بٹھا کر چلے گئے اور مجھے کمپنی نے وہاں کے پروجیکٹ منیجر جناب شوکت عزیز صاحب کی سفارش پر وہاں کے پروجیکٹ اکاونٹنٹ کے درجے پر ترقی دے کر کچھ تنخواہ میں بھی ساتھ اضافہ کردیا، جس سے تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رھا، اور میرا پہلا پروجیکٹ تھا جس کا کہ میں خود پہلی بار ھی ایک مکمل اکاونٹنٹ کا کام سنبھالے ھوا تھا اور مجھے ایک اسسٹنٹ بھی دے دیا گیا تھا جو کہ میرا پہلا شاگرد بھی تھا!!!

مجھے آس پروجیکٹ پر کافی سے زیادہ حوصلہ افزائی ملی اور میں نے یہاں پر خوب محنت سے کام کیا، جس کے لئے اللٌہ تعالی نے میرا ھر قدم پر ساتھ دیا، اور میں تمام کمپنی کے افسران جو ھیڈ آفس اور ڈویژنل آفس میں تھے مجھ سے سب بہت ھی زیادہ خوش تھے، اور جس کی وجہ سے مجھے کافی ترقی اور اچھے بونس بھی ملے، جس کا میں اللٌہ تعالیٰ سے جتنا بھی شکر کروں کم ھے، اب میں تو بہت ھی آرام سے وھاں بلاجھجک کام کے ساتھ خوب انجوائے بھی کررھا تھا دوست بھی بہت اچھے تھے اور ان کے ساتھ باھر خوب گھومنے پھرنے بھی جاتا رھا، میرے گھر سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور مجھے یہاں تک پہنچتے ھوئے کم سے کم دو گھنٹے لگ جاتے تھے کیونکہ مجھے دو بسیں بدل کر آنا پڑتا تھا، بعد میں مجھے کمپنی کی ظرف سے ٹرانسپورٹ کی سہولت تو ملی لیکن اس کے لئے بھی مجھے ایک بس مین جاکر تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر اتر کر کمپنی کی ٹرانسپورٹ پکڑنی پڑتی تھی، جو مجھ سے کبھی کبھی لیٹ ھونے کی صورت میں میرا پہنچنا مشکل ھوتا تھا،

آخرکار والد صاحب کا بھی کراچی ھی ٹرانسفر ھوگیا اور وہ ڈویژنل آفس میں کام کرنے لگے اور یہ بھی خوشی کی بات ھوگئی، مجھے بھی اس پروجیکٹ پر ایک سال ھونے کو تھا اور سال 1976 کے آخیر میں ھی سردیوں کے دن کچھ نزدیک ھی تھے، اور میں نے ایک نئی موٹر سائیکل ھونڈا 70 خرید ھی لی اس وقت جاپان اسمبل 7500 روپے کی خریدی تھی، بالکل نئی ایک ھونڈا کے شو روم سے خریدی تھی مگر اسکے لئے مجھے والد صاحب سے اجازت لینے کیلئے بہت ھی مشکل پیش آئی، کیونکہ وہ بہت ڈرتے تھے، اب مجھے اس موٹر سائیکل سے، بہت ھی کافی آسانی ھوگئی، تقریباً 40 منٹ میں دفتر پہنچ جاتا تھا، اور گھومنے پھرنے میں بھی آسانی ھوتی تھی،

ایک دن مجھے دفتر میں کسی نے اکر اطلاع دی کہ گیٹ پر میرا کوئی مہمان آیا ھوا ھے، میں خود حیران تھا کہ یہاں پر کون آسکتا تھا، میں فوراً مین گیٹ پر پہنچا تو دیکھا جو ھمارے رشتہ دار اسلام آباد میں تھے ان کا بیٹا عبدالعظیم تھا، میں نے گھبرا کر اس سے پوچھا کہ کیا بات ھے، اس نے فوراً مجھ سے کہا کہ ایک تمھارے لئے زادیہ کی باجی کا پیغام ھے، اور پیغام سنتے ھی میرے تو ھوش اڑ گئے، میں کچھ پاگل سا ھو گیا !!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-69- محبوب کے گھر تک رسائی ایک نئے انداز میں، !!!!!

ایک دن مجھے دفتر میں کسی نے اکر اطلاع دی کہ گیٹ پر میرا کوئی مہمان آیا ھوا ھے، میں خود حیران تھا کہ یہاں پر کون آسکتا تھا، میں فوراً مین گیٹ پر پہنچا تو دیکھا جو ھمارے رشتہ دار اسلام آباد میں تھے ان کا بیٹا عبدالعظیم تھا، میں نے گھبرا کر اس سے پوچھا کہ کیا بات ھے، اس نے فوراً مجھ سے کہا کہ ایک تمھارے لئے زادیہ کی باجی کا پیغام ھے، اور پیغام سنتے ھی میرے تو ھوش اڑ گئے، میں کچھ پاگل سا ھو گیا !!!!!!!!!!

مجھے افسوس ھے ناظرین کہ میں نے ایک دم آگے چھلانگ لگادی یہ واقعہ دراصل 1977 کے مڈل کے لگھ بھگ ھوگا، جس وقت میری عمر 27 سال کی ھوگی، اس سے پہلے کا ایک واقعہ تو مین بتانا ھی بھول گیا، جب میں راولپنڈی سے واپس آیا تو میرے لئے ایک مشکل یہ ھوگئی کہ جہاں میری بات پکی ھوئی تھی، وھاں پر والد صاحب نے ان کی خواھش کے مطابق یہ رشتہ ختم کردیا ھا اور واپس جیکب آباد واپس چلے گئے تھے، مجھے اس رشتہ کے ختم ھونے کا افسوس بھی تھا اور ایک طرح سے اطمنان بھی تھا کہ جس لڑکی کو میں نے اس نظر سے دیکھا نہیں اس سے میں شادی کیسے کر سکتا ھوں، وہ بہت اچھے لوگ تھے، مگر افسوس اس بات کا تھا کہ ان کے ساتھ پھر ویسے تعلقات نہیں رھے جیسے کہ پہلے تھے، مگر والد صاحب گھر پر ایک نصیحت ضرور کرگئے تھے کہ جب تک اس لڑکی کی شادی نہیں ھوگی، میری بھی شادی نہیں ھوسکتی، میں بھی اس سے خوش تھا،

خیر بات آئی گئی ھوگی اس لڑکی کی بعد میں شادی ھوگئی تو ھمارے گھر میں کچھ اطمنان سا ھوگیا، کیونکہ اس عرصہ تک ھمارے اور ان کے درمیان تعلقات کشیدہ رھے، جس کا کہ مجھے تو بہت ھی زیادہ افسوس رھا، پھر دوسرے سال 1977 کے شروع میں والدصاحب کا تبادلہ کراچی میں ھو ھی گیا، اور پھر آتے ھی انہوں نے میری شادی کیلئے بھاگ دوڑ شروع کردی اور میں تو ان کی وجہ سے پریشان ھوگیا اور جہاں بھی جاتے اور لڑکی کو پسند کرآتے اور سب سے لڑکی کی تعریف کرکے کوشش کرتے کہ میں کسی طرح بھی راضی ھو جاؤں، اور زیادہ تر لوگ بھی یہی چاھتے تھے کہ ان کی بیٹی کی شادی مجھ سے ھو، اب تو گھر میں میرا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا بہت مشکل ھو گیا، میں تو چاھتا تھا کہ بہنوں کی شادی پہلے ھوجائے اور پھر بعد میں اپنے لئے سوچوں گا!!!!!

اب تو میں نے گھر والوں کے ساتھ جانا ھی چھوڑ دیا تھا، بس اپنے دفتر سے آنے کے بعد کچھ کھا پی کر تازہ دم ھو جاتا اور پھر تیار ھوکر موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے باھر نکل جاتا، ان کو میں پکڑائی ھی نہیں دیتا تھا اور رات گئے تک گھر پر واپس آتا تھا، کیونکہ جس وقت بھی دیکھو میری شادی کا موضوع ھی چل رھا ھوتا تھا اور کوئی نہ کوئی گھر پر کوئی مہمان ھوتا تھا اور سب کے پاس ایک ھی موضوع ھوتا تھا، گھر پر ان دنوں بس ٹیلیفون کی کمی تھی، جو اس وقت بہت سفارش یا رشوت کھلا کر ھی حاصل کیا جاسکتا تھا، جو ھمارے بس میں نہیں تھا اور یہ ھمارے لئے اچھا بھی تھا، ورنہ اس پر بھی میرے ھی پیغامات ھی آتے رھتے، نہ جانے کیوں میرا دل اب شادی کے لفظ سے اکتا سا گیا تھا،

کبھی کبھی دفتر میں بھی ٹیلیفوں بھی آجاتا تھا، کسی نہ کسی خاتون کا اور وہ مجھ سے کوئی نہ کوئی الٹا ھی سوال کرتیں مثلاً آپ کو کس بات کا گھمنڈ ھے جو آپ شادی سے انکار کررھے ھیں، یا اگر کوئی پسند ھو تو کہہ دو مردوں کی ظرح ھمت کرکے دیکھو، یا پھر کہ کوئی لڑکی چاھتی ھے تم سے شادی کرنا اسکا دل تو مت توڑو، اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دوں لائن ھی بند ھوجاتی، اور کئی دفعہ تو گھر میں داخل ھوتے ھی کوئی نہ کوئی لڑکی سامنے آجاتی جنہیں میں جانتا تھا، اور اکثر فیملی تعلقات کی وجہ سے گھر میں آنا جانا رھتا تھا، اور ایسی نطروں سے دیکھتی کہ میں خود بھی حیران پریشاں کہ یہ میرے ساتھ ھی کیوں ھورھا ھے، اور اب تو میں نے کسی فیملی کے گھر بھی آنا جانا بند کردیا تھا،

اب تو والد صاحب بھی مجھ سے ھر دفعہ شادی کیلئے انکار سے تنگ آچکے تھے اور اب آہستہ آہستہ اس موضوع کا ذکر ختم ھوتا جا رھا تھا، چلو شکر ھے کچھ جان میں جان آئی، مگر مجھے اب تک اور کوئی لڑکی سمجھ میں ھی نہیں آئی اور مجھے ھمیشہ زادیہ کی ھی یاد آتی رھتی کہ نہ جانے وہ لوگ کیسے ھونگے، جانے کی ھمت نہیں کرسکتا تھا جبکہ مجھے راولپنڈی سے آئے ھوئے بھی ڈیڑھ سال ھونے والا تھا، اور اس عرصہ میں بس سروس پر زیادہ زور رھا کیونکہ مجھے تو زیرتعمیر کنسٹرکشن پروجیکٹ پر کام کرنا بہت زیادہ پے چیدہ اور مشکل نطر آیا بنسبت ھمارے ائرکنڈیشنڈ ھیڈ آفس یا ڈوژنل آفس کے اور اسی لئے میں مصروف بھی بہت زیادہ رھا،

آخر میں پھر اسی موضوع پر واپس آتا ھوں کہ ایک میرا کزن عبدالعظیم آفس میں زادیہ کی باجی کا پیغام لے کر آیا تھا، اسے میں اپنے دفتر کے کمرے میں عارضی گیٹ پاس بنا کر لے آیا تھا، چائے وغیرہ پینے کے بعد میں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ باھر چلتے ھیں، میں بہت شش و پنج میں تھا دوپہر کا وقت تھا ھم دونوں سمندر کے ساتھ ایک بڑے بحری جہاز کے سائے میں ٹہلتے ھوئے بات کرنے لگے، عظیم نے بتایا کہ بھائی وہ زادیہ کے والد کا تو ایک سال ھوگیا انتقال ھوگیا تھا، اور اسکے دو یا تین مہینے بعد زادیہ کی شادی بھی ھوگئی اور وہ دبئی اپنے شوھر کے ساتھ چلی گئی، اور باجی ھمارے گھر آئی تھیں اور انہوں نے مجھے آپ تک یہ پیغام پہنچانے کو کہا ھے!!!!!!!!!!

میں نے پھر اس سے کہا کہ جب زادیہ کی شادی ھوگئی ھے تو اب مجھے یہ پیغام پہنچانے کی کیا ضرورت تھی، اور مجھے خالو کے انتقال کا تو بہت ھی افسوس ھوا، اللٌہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین،!!!! مگر یہ بتاؤ تم لوگ کب اسلام آباد سے آئے، اور مجھے کیوں نہیں بتایا، میں نے سوال کیاَ!!!! جواباً اس نے کہا کہ بس یہاں ویسے ھی اپنی باجی سے ملنے آئے تھے، اور بس کچھ ھی دنوں میں واپس چلیے جائیں گے،!!!!میں نے اور تفصیل معلوم کرنا چاھی مگر اس نے کہا کہ مجھے کچھ زیادہ تو پتہ نہیں لیکن اتنا ضرور پتہ ھے زادیہ کے والد کو بلڈکینسر ھوگیا تھا اور بیماری کے پتہ چلنے کے چھ مہینے بعد بہت ھی تکلیف اٹھانے اٹھاتے چل بسے، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے بزنس کو انکے پارٹنر نے چال بازی سے اپنے نام کرلیا اور انکو صرف ایک پرانی گاڑی انکے حصے میں واپس دے دی جس کو انہوں نے بیچ کر کچھ اپنا خرچہ چلایا اور پھر دونوں بہنوں نے نوکری شروع کردی تھی،!!!!!

اور پھر اس نے مجھے کچھ تفصیل سے بھی بتایا کہ بعد میں اں کی والدہ کے پاس دبئی سے ان کے چچا نے ایک باجی کے لئے رشتہ بھیجا تھا، اور ان کے چچا نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ شادی کے بعد وہ سب کو وہیں دبئی میں بلوا لیں گے، لیکن جب لڑکا باجی کو دیکھنے دبئی سے آیا تو اس نے باجی کے بجائے زادیہ کو پسند کیا مگر انہوں نے یہی کہا کہ یہ نہیں ھوسکتا، پہلے بڑی کی شادی ھوگی پھر اس نے انہیں یہی کہا کہ جب آپ لوگ وہاں آجائیں گے تو بڑی کا بھی رشتہ وہیں پر کرسکتے ھیں، لیکن زادیہ نے تو بالکل ھی انکار کردیا تھا، وہ آدمی شاید کسی ھوٹل میں ٹہرا ھوا تھا، اس نے انکو اپنا روم نمبر اور وہاں کا ٹیلیفون نمبر دیا اور شاید دعوت بھی کی تھی اور کہا کہ میں ایک ھفتے تک یہاں ٹہرا ھوا ھوں، اگر آپ لوگ زادیہ کا رشتہ دینا چاھتے ھیں تو میں یہ وعدہ کرتا ھوں کہ شادی کے بعد وہاں دبئی جاکر سب کے ویزوں کا بندوبست کرکے وہیں دبئی بلوالوں گا، مگر زادیہ تھی کہ وہ کسی صورت میں راضی نہیں تھی !!!!!

عظیم نے مزید کہا کہ بھائی !!!! باجی نے بتایا کہ انہوں نے زادیہ پر زور دیا کہ اب یہاں پر ھمیں کوئی پوچھنے والا نہیں ھے، خدارا اس رشتہ پر راضی ھوجاؤ، اور پھر ھم تینوں ساتھ ھی ویزے آنے کے بعد دبئی شفٹ ھوجائیں گے، مگر زادیہ مان کر ھی نہیں دیتی تھی آخر ماں کے ضد اور رونے دھونے سے شاید زادیہ راضی ھوگئی تھی، پھر زادیہ کا اس آدمی کے ساتھ صرف نکاح کردیا اس شرط پر کہ جب وہ تینوں کے ویزے لے کر آئے گا تو ھی ھم اس کی رخصتی کریں گے، اور پھر وہ آدمی نکاح کرکے نکاح نامہ کی کاپی لے کر واپس دبئی چلا گیا، اور اس کے بعد انکے چچا نے دبئی سے ٹیلیفون کرکے تسلی بھی دی کہ وہ آپ سب کے ویزوں کا بندوبست کررھے ھیں اور جلد ھی زادیہ کا دولہا آپ سب کو لے آئے گا،!!!!!

میں تو یہ سب کچھ میرے کزن عظیم کی زبانی سن کر بہت ھی زیادہ پریشان ھوگیا، اور افسوس اس بات کا تھا کہ مجھے پنڈی سے آئے ھوئے بھی ڈیڑھ سال سے بھی زیادہ عرصہ ھوگیا تھا لیکن مجھے کہیں سے بھی پتہ نہیں چل سکا کہ اتنا سب کچھ ھوگیا، جس کی خبر مجھ تک نہ پہنچ سکی، میں انکے والد کے ڈر سے ھی نہیں جارھا تھا اور نہ ھی اس بارے میں مجھے ان لوگوں نے اطلاع دی تھی، نہ جانے ان لوگوں کے دماغ میں کیا چل رھا تھا، مجھے یہ سن کر بہت بڑا صدمہ پہنچا تھا کہ جس ظرح مجھے آج اطلاع بھیجی ھے اس طرح پہلے بھی یہ لوگ کر سکتے تھے، اور خالو کے انتقال کی خبر تو کم از کم مجھے دے ھی سکتے تھے کہ میں ان کے جنازے کو کاندھا اگر نہ دے سکتا تھا تو کم از کم ان کی تعزیت کیلئے تو پہنچ سکتا تھا، انکے لئے میں دعائیں تو کر ھی سکتا تھا، وہ چاھے میرے کتنے ھی کیوں نہ خلاف تھے، لیکں میں انہیں اپنے دل میں ایک عزت کا مقام دیتا تھا کیونکہ میں اپنے بچپن سے جوانی کی حدود تک ان کی خدمات اور میرے لئے پیار اور خلوص کو کبھی نہیں بھول سکتا تھا، اور انکی مجھ سے ناراضگی بھی اپنی جگہ بالکل صحیح تھی!!!!!

اور نہ جانے کتنے سوال میرے ذہن میں گھوم رھے تھے، صرف ایک مرد کا سہارا حاصل کرنے کیلئے زادیہ کی قربانی کیوں دی گئی اور اگر اس کی قربانی دینے سے پہلے اگر مجھے بتادیتے تو میں بھی شاید ان کے لئے ایک سہارا بن سکتا تھا، اگر میں اس وقت ان کے لئے کچھ نہ کرپاتا تو وہ پھر یہ قدم اٹھا سکتے تھے، اور ایک بات اور عظیم نے بتائی جو شاید پہلے بتانا نہیں چاھتا تھا، کہ میں کچھ زیادہ افسردہ نہ ھوجاؤں، لیکن اس نے مزید مجھ سے کہا کہ بھائی ایک بات اور ھے کہ میرے خیال میں زادیہ کے شوھر نے ان سب کو دھوکا دیا ھے،!!! وہ کیا، میں نے بے چینی کے عالم میں اس سے پوچھا، !!! اس نے کہا کہ وہ آدمی جب نکاح نامہ لے کر گیا تو شاید پندرہ بیس دنوں کے بعد صرف زادیہ کا ھی ویزہ لے کر آیا، اور باقی دونوں کا نہیں، جبکہ اس نے اور انکے وہاں چچا نے یہ مکمل یقین دلایا تھا کہ وہ تینوں کے ویزوں ‌کا بندوبست کررھے ھیں اور سب کے کوائف پاسپورٹ اور سارے ضروری دستاویرات بمعہ شناختی کارڈ کی کاپیاں عربی ترجمہ کے ساتھ اور زادیہ کا نکاح نامہ وغیرہ سب کچھ ساتھ لے گیا تھا!!!!!!

عظیم نے بات کو مزید بڑھاتے ھوئے کہا کہ جب وہ دولہا میاں دبئی سے واپس آئے تو صرف زادیہ کا ھی ویزا اس کے ھاتھ میں تھا، انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا چکر ھے باقی ویزے کہاں ھیں،!!!! تو اس نے جواب دیا کہ جب تک زادیہ دبئی میں نہیں پہنچے گی ویزے کی کاروائی نہیں ھوسکتی، کیونکہ وہاں سے زادیہ کے اقامہ کی تصدیق نامہ کے ساتھ ھی اسکی ماں اور بہن کا ویزا نکالا جاسکتا ھے، ورنہ بہت مشکل ھے،!!!! اور اس نے ان سے یہ بھی کہا کہ اسنے اپنی ھر ممکن کوشش کی ھے لیکن افسوس کامیابی نہیں ھوئی، یا پھر آپکو اس کی بڑی بہن کا رشتہ وہیں دبئی یا شارجہ یا پھر ابوظہبی میں چچا کو کہہ کر کرادیں تو یہ بھی وھاں جا سکتی ھیں، جب تک آپ کے یعنی انکی والدہ کا بندوبست ھو جائے گا، اب انکی والدہ دوسری بیٹی شادی کیلئے اور مزید انتظار نہیں کرسکتی تھیں، اسلئے ان دونوں نے زادیہ پر شاید زور دیا ھوگا یا زادیہ خود ھی مان گئی ھوگی اور دونوں نے یہی سوچا ھوگا کہ ٹھیک ھے زادیہ کو رخصت کردیتے ھیں اس کے بعد جیسے ھی ویزے کا بندوبست ھوجائے گا پھر ھم دونوں چلے جائیں گے، !!!!!

پھر کیا ھوا میں نے عظیم سے پوچھا،!!!! اس نے کہا کہ زادیہ کو یہاں سے رخصت ھوئے دو مہینے ھوگئے ھیں، اور اسکے بعد سے ویزا تو دور کی بات ھے، نہ تو کوئی زادیہ کی ان سے خط و کتابت ھے اور نہ ھی کوئی ٹیلیفون یا ٹیلیگرام آیا ھے، انہوں نے اس دولہا میاں کے بتائے ھوئے ایڈریس اور اسکے گھر کے نمبر پر ٹیلیفون پر رابطہ بھی کیا لیکن وہ نمبر ھی شاید غلط تھا یا وہ لوگ کہیں اور شفٹ ھوگئے تھے، ان کے چچا سے بھی ٹیلیفون پر رابطہ کیا انہوں نے بس یہی کہا !!!! کہ فکر نہیں کرو زادیہ بالکل خیریت سے ھے اور وہ آپ دونوں کے ویزوں کا بندوبست کررھی ھے، جیسے ھی ویزا مل جائے گا تو آپ دونوں کو بلوا لیں گے، اس طرح چچا نے تسلی بھی دے دی،!!!!!!! جب انہوں نے کہا کہ کم از کم ھماری زادیہ سے بات تو کرادو یا کوئی صحیح ٹیلیفون نمبر تو دے دو !!!!!!! تو انہوں جواب دیا کہ میں تو 300 کلومیٹر دور ابوظہبی میں رھتا ھوں اور زادیہ شارجہ میں شفٹ ھوگئی ھے، جس کی وجہ سے فی الحال یہ ممکن نہیں ھے، جیسے ھی میں وہاں جاؤں گا آپ لوگوں سے میں خود آپ دونوں کی زادیہ سے بات کرادوں گا وہ اب جس جگہ شفٹ ھوگئی ھیں، وھاں پر ابھی ٹیلیفوں کا کنکشن نہیں ھے، جیسے ھی ٹیلیفون لگ جائے گا میں فوراً ھی آپکو اطلاع کردونگا !!!!!!!

اس کے بعد عظیم خاموش ھوگیا تھا، اور یہی کہا کہ یہ اب تک کی آخری اطلاعات ھیں، اور اب شاید وہ بہت زیادہ پریشان اسلئے ھیں کہ ھوسکتا ھے کہ اب شاید ان حالات میں تمھاری یاد آرھی ھو، اور انہیں تمھاری مدد کی ضرورت ھو، اس نے طنزیہ انداز میں کہا،!!!!! مجھے اس کا یہ انداز پسند نہیں آیا، لیکن میں اسکا احسان مند تھا کہ اس نے مجھے یہ تمام معلومات اپنی ایمانداری سے مجھ تک پہنچائی، حالانکہ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ باجی نے اسے بالکل منع کیا تھا یہ ساری تفصیل بتانے کیلئے، !!!!!!! میں تو عظیم کی زبانی یہ تفصیل سن کر حیران اور پریشان رہ گیا، اور میں نے اس سے دوبارہ ھر بات کی تصدیق بھی کی اور اسی دن آفس کے فوراً بعد سیدھا ان کے گھر پہنچا اور موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کرکے ان کی انہیں سیڑھیوں پر پھر ایک بار آہستہ آہستہ چڑھ رھا تھا، جہاں سے دو بار ذلیل ھو کر واپس آیا تھا، !!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-70- انکی شادی بھی ھوگئی اور ھمیں پتہ ھی نہ چلا!!!!!

میں تو عظیم کی زبانی یہ تفصیل سن کر حیران اور پریشان رہ گیا، میں نے اس سے دوبارہ ھر بات کی تصدیق بھی کی، اسی دن آفس کے فوراً بعد سیدھا ان کے گھر پہنچا اور موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کرکے ان کی انہیں سیڑھیوں پر پھر ایک بار آہستہ آہستہ چڑھ رھا تھا، جہاں سے دو بار ذلیل ھو کر واپس آیا تھا، !!!!!!!!

دروازے پر آہستہ سے دستک دی تو فوراً ھی دروازہ کھلا اور سامنے وہاں کے مالک مکان کو پایا، جو مجھے جانتے بھی تھے اور بہت ھی اچھی اور بااخلاق فیملی تھی، سلام دعاء کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کہاں تھے اتنے عرصہ تک تم نے اپنی خالہ کی خبر تک نہ لی بہت افسوس ھے،!!! میں نے جواب دیا کہ مجھے کسی نے اطلاع ھی نہیں ‌دی، آج ھی مجھے سب کچھ معلوم ھوا ھے، تو میں فوراً ھی حاضر ھوگیا ھوں، مگر یہ لوگ کہاں گئے !!!! انہوں نے جوب دیا کہ برابر میں جو گیسٹ روم ھے وہاں پر شفٹ ھوگئے ھیں، !!! میں نے ان سے اجازت طلب کی اور برابر کے گیسٹ روم کا دروازہ کھٹکھٹایا، دروازہ کھلا اور سامنے باجی کو پایا، اور میں اندر پہنچا تو خالہ جان نے مجھے گلے لگایا اور اور خوب رونے لگیں، اور بس روتے روتے وہ بہت کچھ کہہ رھی تھیں، جو مجھے پہلے ھی سے معلوم تھا، اور باجی ایک طرف منہ کئے ھوئے خاموش بیٹھی تھیں، جیسے مجھ سے ناراض ھوں !!!!!!!

میں نے خالہ کو دلاسہ دیتے ھوئے کہا کہ اب میں آگیا ھوں اپکی ساری پریشانیاں دور ھوجائیں گی فکر نہ کریں، مگر مجھے صرف یہ بتادیں کہ یہ سب کچھ ھوگیا اور آپ لوگوں نے مجھے کچھ بتانا بھی گوارہ نہیں کیا، کم از کم مجھے کسی کے ذریعے بھی پیغام بھجوا سکتے تھے!!!! باجی نے ذرا غصے کے موڈ میں کہا کہ تم تو راولپنڈی میں تھے اور تمھیں ھم نے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا، اور کرکے بھی کیا فائدہ تھا!!!! میں نے بھی پوچھا، کیوں اس کی کیا وجہ تھی میں نے پنڈی سے خط بھی لکھا تھا اس میں میرے آفس کا فون نمبر بھی تھا، کم از کم خالو کی وفات پر تو مجھے فون کرسکتی تھیں !!!! باجی نے کہا کہ میں نے وھاں بھی تمھیں ٹیلیفون کیا تھا، پتہ چلا تھا کہ تمھارا کراچی ٹرانسفر ھوگیا ھے اور اس کے علاوہ تمھارے گھر بھی پیغام بھیجا تھا، اور تمھارے کراچی کے آفس میں بھی فون کیا تھا، انہوں نے کہا کہ اس نام کا کوئی بندہ یہاں کام نہیں کرتا ھے !!!! میں نے جوب دیا کہ مجھے کوئی بھی کسی قسم کی اطلاع تمھاری طرف سے نہیں ملی، نہ گھر پر نہ آفس میں، آج ھی عظیم نے آکر مجھے بتایا ھے تو میں چلا آیا ھوں!!!!

پھر ان دونوں نے ساری شروع سے لیکر اب تک کی داستان ھو بہو وھی سنادی، جو مجھے عظیم نے بیان کی تھی، اور کہا کہ جب سے زادیہ گئی ھے، اس کی کوئی اطلاع نہیں ھے، اور جو کچھ بھی جمع پونجی تھی بالکل ختم ھونےکو ھے، جو بھی تمھارے خالو کے انتقال کے بعد ھمارے حصے میں گاڑی بیچ کر جو بھی رقم آئی تھی، اس میں سے کچھ زادیہ کی شادی اور دوسرے گھر کے اخراجات میں خرچ ھوگئے، اور بس آگے کچھ نہیں بچا ھم سب لٹ گئے، برباد ھوگئے، اور ھماری بیٹی بھی چلی گئ اور پھر خالہ جان نے رونا شروع کردیا، !!!! میں نے باجی سے پھر یہ پوچھا کہ یہ سب کچھ کس کے مشورے پر کیا تھا!!!! باجی نے جوب دیا کہ ھمارے چچا جو ابوظہبی میں ھیں، ان سے کہا تھا کہ ابو کے انتقال کے بعد اب ھمارا یہاں کوئی نہیں ھے، ھمارے لئے کچھ کریں تو ھمیں انہوں نے کہا کہ میں آپ دونوں بہنوں کے لئے رشتہ یہاں پر کرواتا ھوں اور یہی ایک صورت ھے کہ آپ تینوں یہاں پر آسکتی ھیں، !!!!! میں نے بس اتنا کہا کہ پھر تم نے اپنے آپ کو بچا لیا اور زادیہ کو اس آگ میں جھونک دیا، !!!!باجی نے پھر قسم کھاتے ھوئے کہا کہ میرے لئے ھی اس خبیث کا رشتہ آیا تھا لیکن اس نے میرے بجائے زادیہ کو ھی پسند کیا تو ھم نے مجبور ھو کر کیونکہ اور کوئی راستہ ھمارے پاس نہیں تھا زادیہ کو ھی اس شادی کے لئے راضی کرھی لیا!!!!!!!

میں نے پوچھا کہ اب بتاؤ کیا کرنا ھے، اب جو ھو چکا اسے تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر اللٌہ سے یہی دعاء کرتی رھو کہ کوئی بہتر صورت نکل آئے، میرے آنے سے انہیں کچھ سکون ملا اور جو کچھ بھی ھوا مجھے اس کا علم نہیں تھا، ورنہ ھوسکتا تھا کہ میں ان کے لئے ایک سہارا بن سکتا تھا بس کیا کریں اللٌہ کو یہی منظور تھا، انکی اماں نے کہا کہ مجھے کسی طرح سے بھی میری بچی سے بات کرادو، میں نے کہا کہ کل شام کو چلتے ھیں ٹیلفون کے آفس پھر وہاں سے کوشش کرتے ھیں پھر انہوں نے کہا کہ چچا کے علاوہ اور کسی کا نمبر نہیں ھے، خیر سب سے پہلے تو گھر کی ضرورت کی چیزیں انہیں بازار سے لاکر دیں، اور پھر میں واپس اپنے گھر کے لئے موٹر سائیکل چلاتا ھوا روانہ ھوگیا، اور راستہ بھر زادیہ کی تقدیر اور اپنی قسمت پر افسوس کرتا رھا، کہ انسان سوچتا کچھ ھے اور ھوتا وھی ھے جو اللٌہ چاھتا ھے، اور اس بھی اسی کی کوئی مصلحت پوشیدہ ھوتی ھے!!!!!

کاش میں وقت پر پہنچ جاتا، حالانکہ میں نے کئی دفعہ کوشش بھی کی، لیکن ھر دفعہ خالو کے ڈر سے جانے سے گھبراتا تھا، کیونکہ انہوں نے آخری بار جس طرح میرے انکے گھر جانے پر باجی کو تھپڑ مارا تھا اور ان سے یہی کہا تھا کہ میں آئندہ اس لڑکے کو اس گھر میں کبھی بھی نہیں دیکھنا چاھتا، میں وہ واقعہ زندگی بھر بھول نہیں سکتا تھا، اور جسکی وجہ سے میری بالکل ھمت ھی نہیں پڑی کہ میں دوبارہ جاسکوں، لیکن اب مجھے بہت ھی دکھ ھو رھا تھا کہ کاش ایک دفعہ تو چکر لگالیتا، میں یہ چاھتا تھا کہ کسی طرح بھی ایک بار زادیہ سے مل کر اس کے منہ سے اپنے بارے میں سن لوں کہ وہ مجھے کس روپ میں دیکھنا پسند کرتی ھے، تو اسی وقت شاید فیصلہ ھو جاتا، خیر اب جو ھونا تھا وہ تو ھو چکا، اب آگے کی سوچنا ھے کہ زادیہ کے ساتھ کیا مشکل پیش آرھی ھے جس کی وجہ سے وہ گھر پر رابطہ کر نہیں پا رھی،!!!!!!!

رات بھر میں سو ھی نہیں سکا، اور زادیہ کے بارے میں ھی سوچتا رھا، کہ نہ جانے وہ کس حالت میں ھوگی، میں تو یہی چاھتا تھا کہ وہ جہاں بھی رھے خوش رھے، اس پر کوئی آنچ نہ آئے، اس کی شادی ھوگئی تھی، یہ سن کر مجھے ایک زبردست دھچکہ لگا ضرور تھا، لیکن اللٌہ تعالی کے فیصلے سے کون انکار کرسکتا ھے، اس کے لئے میں ھر وقت یہی دعاء کرتا ھوں کہ اللٌہ تعالی اسے ھمیشہ اپنے حفظ و امان میں اور خوش رکھے رکھے آمین !!!!!! ویسے بھی مجھ سے کسی کا بھی دکھ اور تکلیف نہیں دیکھی جاتی، چاھے وہ اپنے ھوں یا کوئی غیر ھی کیوں نہ ھوں اور میری کوشش یہی ھوتی ھے کہ جو کچھ بھی میرے بس میں ھے یا میں جس حد تک کسی کی کوئی مدد کرسکتا ھوں میں اس سے پیچھے نہیں ھٹتا، چاھے اس کے لئے مجھے کتنی ھی پریشانی کیوں نہ اٹھانی پڑی،!!!!!!

دوسرے دن میں کچھ دیر سے اٹھا، اور دفتر نہ جاسکا، کیونکہ صبح کے وقت ھی آنکھ لگی تھی اور ہلکی سی حرارت بھی تھی، اس لئے والد صاحب نے مجھے اٹھایا بھی نہیں، اور شاید انہوں نے جاکر میرے آفس میں ٹیلیفون کرکے بتا بھی دیا ھوگا، میں دوپہر کے کھانے کے وقت اٹھا اور نہا دھو کر تیار ھوا اور کھانا جلدی جلدی کھا کر باھر صحن میں موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کیا، اور زادیہ کے گھر چل دیا، گھر پہنچا تو پہلے میں نے باجی اور خالہ سے پوچھا کہ کچھ منگوانا تو نہیں، انہوں نے منع کردیا تو پھر میں نے ان سے پوچھا، کیا ارادہ ھے چلنا ھے ٹیلیفون اکسچینج میں تاکہ ابوظہبی میں اپنے چچا کو ٹیلیفون کرسکو، تو انہوں نے جواب دیا کہ ھاں چلتے ھیں، اور ان دونوں کے چہرے پر افسردی کے آثار ھی نظر آئے، میں نے پوچھا کہ کیا بات ھوگئی، تو خالہ رونے لگیں،!!!! باجی نے کہا کہ آج ھی زادیہ کا خط ملا ھے، اور وہاں بہت پریشان ھے، اسکا شوھر اسے بہت تنگ کرتا ھے، اسے کسی سے ملنے بھی نہیں دیتا اور ھمیشہ گھر کا دروازہ باھر سے تالا لگا کر جاتا ھے، اور یہ خط بہت مشکل سے لکھ کر اس نے نہ جانے کوئی موقعہ دیکھ کر کسی کے ذرئعے پوسٹ کرایا تھا اور نئے گھر کا بھی اس نے ٹیلیفون نمبر لکھ کر بھیجا ھے مگر وہ وہاں سے ٹیلیفون نہیں کرسکتی، مگر وقت کا دورانیہ لکھ دیا تھا کہ اس وقت آپ لوگ ٹیلیفون کرسکتے ھیں اور اس نے تسلی دی ھے کہ فکر نہ کریں میں کسی نہ کسی طرح کوشش کرکے واپس پاکستان آنے کی کوشش کروں گی،!!!!!!

میں یہ تو جانتا تھا کہ وہ بہت بہادر اور نڈر تھی اور ساتھ ھی بہت ھوشیار اور عقلمند بھی تھی، مجھے امید تھی کہ وہ اپنی ھر ممکن طریقے سے اپنے لئے کوئی نہ کوئی بہتر صورت ضرور نکالے گی، یہ شادی کا فیصلہ اس نے گھر کی بہتری کے لئے کیا تھا لیکن یہ اندازہ نہیں کرسکی تھی کہ اس کے ساتھ ایسا دھوکا بھی ھوسکتا تھا، وہاں پر انکے چچا کے بھروسے پر ھی یہ قدم اٹھایا تھا جبکہ انہوں نے اپنے کسی وعدہ کا لحاظ نہیں رکھا اور نہ ھی زادیہ کی انہوں کوئی خبر لی، جس کا سب کو افسوس تھا،!!!!!

مکان مالک کی فیملی بھی پہت اچھی تھی انہوں نے بھی یہ یقین دلایا تھا کہ کسی بھی صورت میں قانونی کاروائی بھی اگر کرنا پڑی تو وہ زادیہ کیلئے ھر ممکن کوشش کرکے اسے وہاں سے بلوانے کی کوشش کریں گے چاھے انکو وھاں پر جانا ھی کیوں نہ پڑے، ان کی اس بات سے بھی کافی حوصلہ ملا، جب سے انکے والد کا انتقال ھوا تھا وہ لوگ اب ان سے مکان کا کرایہ بھی نہیں لیتے تھے، جبکہ وہ اسی مکان میں شفٹ بھی ھوگئے تھے اور اپنا گیسٹ روم ان دونوں ماں بیٹی کو دے دیا تھا، جس کا دروازہ الگ ھی باھر کی ظرف کھلتا تھا، جس میں ایک چھوٹا سا بیڈروم اور ایک علیحدہ کمرہ جسے بیٹھک کے طور پر استعمال کرتے تھے، اسکے ساتھ ھی چھوٹا کچن اور اٹیچ باتھ روم تھا، جو ان دونوں کےلئے کافی تھا اور ھر ممکن وہ لوگ مدد بھی کرتے رھے، اور مجھ سے بھی جو کچھ بن پڑا میں نے کیا جو کہ میری ایک اخلاقی ذمہ داری بھی تھی،!!!!!

1977 کے سال کے آخیر کا دور چل رھا تھا اور سردیوں کی آمد آمد تھی، میں نے ان دونوں سے کہا کہ وہ آٹو رکشہ میں بیٹھ کر ٹیلیفون اکسچینج پہنچیں اور میں موٹر سائیکل پر آتا ھوں، میں سیدھا ان کے آٹو رکشے کے پیچھے پیچھے اکسچینج پہنچ گیا، اور وہاں پر شارجہ کیلئے زادیہ سے بات کرنے کیلئے 10 منٹ کی کال بک کرائی، اور ایڈوانس پیسے ھی جمع کروا دئیے، تقریباً 15 منٹ کے انتظار کے بعد شکر ھے کہ کال مل گئی، میں نے ان دونوں کو آپریٹر کے بتائے ھوئے بوتھ میں بھیج دیا جس میں ایک شیشے کا دروازہ لگا ھوا تھا، انہوں نے اس کو بند کرکے ٹیلفون کا رسیور اٹھا لیا، میں الگ سے انتظار گاہ میں بیٹھا ھوا تھا جہاں سامنے ھی بوتھ تھے، اور میں باقاعدہ انہیں دیکھ بھی رھا تھا اور لگتا تھا کہ ان کی زادیہ سے بات ھو رھی ھے باجی نے مجھے اشارے سے بلایا بھی مگر میں نے انکار کردیا، مجھے دل میں کچھ سکون محسوس ھوا کہ ان دونوں کی بات چیت ھورھی ھے !!!!!!!

جب وہ دونوں بوتھ سے فارغ ھو کر باھر نکلیں تو ان دونوں کے چہرے پر اطمنان کے تاثرات نظر آرھے تھے، مجھے بھی خوشی ھوئی، اور پھر وہاں سے سیدھے گھر واپس آئے اور پھر انہوں نے تسلی سے جو کچھ بات ھوئی مختصراً بتایا کہ وہ کوشش کررھی ھے کہ کسی نہ کسی طرح وہ پاکستان آجائے اور جب تک سب کے ویزوں کا بندوبست نہیں ھوجاتا وہ وھاں واپس نہیں جائے گی، میرا بھی انہوں نے زادیہ سے ذکر کردیا تھا، لیکن زادیہ کے میرے بارے میں کیا تاثرات کیا تھے مجھے انہوں نے نہیں بتایا اور نہ ھی میں نے کچھ پوچھا لیکن جب دوسری دفعہ زادیہ کا خط آیا تو باجی اس کو دل میں ھی پڑھ رھی تھی اور اتفاقاً میری نظر اس خط کے پچھلے صفحہ پر پڑی جس کی دو لائنیں میں نے پڑھ لیں جو کہ مجھے نہیں چاھئے تھا کہ کسی کہ خط کو پڑھوں، بہت ھی بری بات تھی، لیکن بس دل سے مجبور تھا، اور اتفاق سے نظر بھی پڑ گئی تھی، اس میں جو لکھا کچھ یوں تھا کہ “سید کو آپ لوگوں نے بلا تو لیا ھے لیکن ان کو اس کے بدلے میں اب کیا دیں گی“ !!!!!

اس کا مظلب اس وقت میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا، اور مجھے کچھ جاننے کی ضرورت بھی نہیں تھی، میں بھی اب یہی چاھتا تھا کہ کسی ظرح بھی یہ سب وہیں اپنے چچا کے پاس چلی جائیں، مگر جب ان کا کوئی فیصلہ نہیں ھو جاتا میں ان کی ھر ممکن مدد کرتا رھونگا، اور اسی طرح ان کی خط وکتابت بھی شروع ھوگئی، اور ساتھ ھی ان کے چچا سے بھی ٹیلیفون کا سلسلہ بحال ھوگیا اور ساتھ ھی زادیہ سے بھی اکثر میں وھاں اکسچینج میں اُن دونوں کو لے جا کر بات بھی کرا دیا کرتا تھا، اور ایک دن خوشخبری مل گئی کہ اس کے شوھر نے رضامندی ظاھر کردی ھے کہ کچھ دنوں کے لئے پاکستان جاسکتی ھو، مگر فوراً واپس آنا ھوگا، اور وہ اُدھر واپس آنے کی تیاری کرھی تھی اور اِدھر دونوں بہت ھی زیادہ خوش تھیں،!!!!!

1978 کا شروع اور شپ یارڈ کا کام ختم ھوچکا تھا پھر کمپنی نے مجھے پورٹ قاسم کے پروجیکٹ پر ٹرانسفر کردیا جہاں پر اس وقت ریگستان اور سمندر کے علاؤہ کچھ نہیں تھا، مجھے اور ایک انجینئیر کو ایک ٹینٹ لگا کر دے دیا تھا اور ساتھ ایک ٹینٹ میں ایک اسٹور تھا جسے میرے ایک پرانے دوست شاھد عباس کو اسٹور انچارج بنا کر بھیجا تھا، ھم دونوں کو اسٹارٹ میں بہت مشکل پیش آئی، اسکی وجہ یہ تھی کہ وہاں پر کئی بلڈوزر زمین کو برابر کرنے میں لگے ھوئے تھے، اور ھمیں کرسی پر پیر رکھ بیٹھ کر کام کرنا پڑتا تھا کیونکہ اکثر سانپ اور بچھو زمیں پر ٹہلتے رھتے تھے اور ٹینٹ میں ایک پانی پینے کیلئے ایک مٹکا تھا، وہ رینگتے ھوئے اس مٹکے کے نیچے جمع ھوجاتے تھے، ان سے بہت ڈر لگتا تھا اور اب تو سردیاں بھی ختم ھوچکی تھیں، اور گرمیاں شروع ھورھی تھیں!!!!!

لیکن جب آفس تیار ھوگئے تو کچھ ھماری جان میں جان آئی، اور پھر باقی تمام اسٹاف بھی آگئے، میں یہاں موٹر سائیکل نہیں لاتا تھا، کیونکہ کمپنی کی گاڑی مجھے گھر پر لینے آتی تھی، یہاں سے واپسی پر گھر جاکر میں اپنی حالت درست کرتا پھر موٹرسائیکل اسٹارٹ کرکے سیدھا باجی کے یہاں چلا جاتا اور انکی ضرورت کی چیزیں بازار سے لا کر دیتا اور باجی کو روزانہ اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھماتا بھی رھتا، تاکہ ان کا دل بھی بہلا رھے، آخر وہ دن بھی آگیا جس دن فلائیٹ سے زادیہ شارجہ سے کراچی پہنچنے والی تھی، میں نے تو معمول کے مطابق موٹر سائیکل پر باجی کو پیچھے بٹھایا، اور انکی والدہ تو مکان مالک کی فیملی کے ساتھ کار میں بیٹھ گئیں اور ھم سب ائرپورٹ کی طرف چل دئے اور ایک اور کار میں انکے پڑوس کی بھی تھی اور اس ظرح ایک چھوٹا سا قافلہ ائرپورٹ کی طرف روانہ ھوگیا !!!!!!!

آج کوئی آنے والا تھا، میں ایک عجیب سی کشمکش میں تھا کہ میں اسے کس رشتہ سے پکاروں گا ایک دوست کی حیثیت سے یا کچھ اور!!!! لیکن کسی اور طرح سے سوچنا تو کوئی اچھی بات نہیں تھی، اب وہ کسی اور کی ھو چکی تھی، اور اب اس پر شرعاً کسی اور کا حق تھا، بار بار میرے دماغ میں نہ جانے کیا کیا الجھنیں مچل رھی تھی، وہاں ائرپورٹ پر اسکی سہیلیاں جو آس پاس رھتی تھیں سب ھی آئی ھوئی تھیں اور انکے مکان مالک کی پوری فیملی بھی موجود تھی، اور ابھی تک مطلوبہ فلائٹ نے لینڈ نہیں کیا تھا، سب اپنی اپنی باتوں میں لگے ھوئے تھے، اور میں زادیہ کی ایک سہیلی کے بڑے بھائی کے ساتھ ھی الگ ایک طرف ھی کھڑا ھوا تھا، جو بعد میں میرا اچھا دوست بن گیا تھا اور نظریں فلائٹ انفارمیشن بورڈ پر ھی تھیں،

اچانک ایک اناؤنسمنٹ سنائی دی کہ دبئی سے آنے والا جہاز لینڈ کرچکا ھے، اور بورڈ پر بھی اطلاع آگئی تھی، زادیہ کو دیکھنے کیلئے آنکھیں کچھ بے چین سی تھیں، بس میں دور سے ھی کھڑا آنے والے مسافروں کو دیکھ رھا تھا، کہ کس طرح پردیس سے آنے والوں کے چہرے پر خوشی اور ملنے والے ان کے اپنے کس طرح بے چینی اور بے قراری سے اپنوں کا انتظار کررھے تھے، جیسے ھی کوئی ان کا اپنا باھر لکلتا تو کس بے چینی سے اسے گلے لگاتے اور کچھ تو مل کر رو رھے ھوتے تھے، کسی کے بچے باھر انتطار کررھے ھوتے اور کسی کے والدین بھی اپنے لخت جگر کے انتظار میں بےقرار آس لگائے کھڑے دیکھے، کئی تو صرف سامان کی ٹرالیوں پر نظر لگائے ھوئے دیکھے کہ بھائی جان کیا لائے ھیں، کئی تو نئی نئی دلہنیں بھی اپنے اُن کو دیکھنے کے لئے بےچین نظر آئیں اور میں نے بھی اسی وقت اللٌہ سے دعاء کی کہ مجھے بھی باھر بھیج دے میرا اب یہاں رھنے کو دل نہیں کرتا تھا، ایک سال پہلے ایک چانس ملا تھا لیکن جانے کو دل نہیں مانا تھا اور اب دل چاہ رھا تھا کہ میں یہاں سے کسی بھی جگہ باھر کے ملک چلا جاؤں،!!!!!!

چلو شکر ھے جہار کے زمین پر اترنے کے ایک گھنٹے کے مسلسل انتظار کے بعد کسی کی آواز سنائی دی کہ وہ دیکھو زادیہ باھر آگئی اور اس آوار کے ساتھ ھی میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، ایک دل تو کہہ رھا تھا کہ تمھارا یہاں پر اسکے سامنے اس طرح جانا مناسب نہیں ھے، واپس لوٹ جاؤ، لیکن دوسری طرف صرف اسکی ایک جھلک ھی دیکھنے کے لئے دل بہت بے چین تھا، اتنے میں دیکھا کہ وہی خوبصورت شہزادی اپنے خوشنما چمکتے ھوئے لباس میں خراماں خراماں مسکراتی ھوئی ٹرالی کو پکڑے چلی آرھی تھی، میں تو اسے دیکھتے ھی سکتے میں آگیا، پہلے سے کچھ کمزور تو نظر آرھی تھی لیکن اسکی خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا، اسی طرح شوخ اور چنچل دکھائی دے رھی تھی، جیسے ھی ھجوم کے درمیان سے باھر وہ نکلی تو سب سے پہلے ان کی امی زادیہ کو گلے لگا کر رونے لگیں اور پھر وہ دوسری سائڈ سے باجی کو گلے لگا لیا، پھر باری باری سب نے اسے گلے لگایا اور اس کے ارد گرد وہیں سب نے گھیرا ڈال دیا اور اب مجھے کچھ نظر نہیں آرھا تھا میں کچھ فاصلے پر کھڑا تھا،!!!!!

میں خاموش اپنے نظریں جھکائے، اپنے آس پاس کے ماحول سے بے خبر کسی گہری سوچ میں گم تھا کہ اچانک میرے سامنے وہی شہزادی میرے سامنے کھڑی تھی، میں ایک دم ایک سکتے کے عالم میں آگیا کچھ کہنے کے لئے کہ کس ظرح اسے خوش آمدید کہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آرھا تھا اور زبان بھی بالکل میرا ساتھ نہیں دے رھی تھی، میں اسکو صرف دیکھتا ھی رہ گیا بغیر پلکیں جھپکائے، اس نے اپنا ھاتھ بڑھایا اور میں نے بھی اسی طرح ھاتھ ملایا اس نے بہت دھیمی اور بھرائی ھوئی آواز میں صرف یہ پوچھا کہ “سید کیسے ھو، کیا حال ھیں تمھارے“ میری زبان سے بھی جواب میں اسی طرح کے ھی الفاظ نکلے “ کہ ھاں ٹھیک ھوں، تم کیسی ھو زادیہ“ اس نے صرف اپنا سر ھلادیا، اور پھر سب مل کر اپنی اپنی گاڑیوں کی پارکنگ کی طرف چلے، اور میں بھی اپنی موٹر سائیکل کی طرف خاموشی سے گردن جھکائے جارھا تھا،!!!!!!!!!

میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو کوئی بھی میرے پیچھے نہیں آرھا تھا، سب کے سب کاروں کی پارکنگ کی طرف زادیہ کو ساتھ لئے جارھے تھے، اور باجی کو دیکھا تو وہ بھی زادیہ کے ساتھ ھی باتیں کرتی ھوئی جارھی تھی، جبکہ وہ تو میری موٹر سائیکل کی دیوانی تھی، وہ اب تو ھمیشہ کہیں بھی جانا ھو میرے ساتھ ھی موٹر سائیکل پر سفر کرنے کو ترجیح دیتی تھی اور اسے میرے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کرنے میں بہت مزا آتا تھا، اور اکثر میں اسے اپنے ساتھ جب بھی وہ کہتی گھمانے لے جاتا تھا یا کسی بھی سہیلی یا کسی دعوت میں جانا ھو تو وہ صرف میرے ھی ساتھ ھی موٹرسائیکل پر سفر کرتی تھی، حالانکہ کچھ لوگ وہاں پر یہ غلط محسوس کرتے تھے ، لیکن میں ھمیشہ بچپن سے آج تک اسے اپنی بڑی بہں کا درجہ دیتا تھا، اور میری ھر ظرح سے اس نے ھمیشہ بہت ھی اچھی تربیت کی اور آج وہ اس مشکل دور سے گزر رھی تھی، یہ تو میرا فرض بنتا تھا کہ میں اسکی ھر خواھش کا احترام کروں،!!!!!!

میں نے موٹرسائیکل اسٹارٹ کی اور ان دونوں کاروں کے پیچھے پیچھے چل دیا، گھر پہنچ کر باجی سے میں نے اجازت مانگی کہ اب میں چلتا ھوں کیونکہ گھر میں کافی ملنے والوں کا رش ھے، میں کل آجاؤں گا، اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو مجھے بتادیں، تاکہ میں لے آؤں، باجی نے کہا کہ فی الحال تو ضرورت نہیں ھے کیونکہ ھم دونوں کل ھی ضرورت کی چیزیں بازار سے لے آئے تھے، اور میں اجازت لے کر واپس اپنے گھرکی طرف روانہ ھوگیا، دوسرے دن شام کو ڈیوٹی سے واپس آنے کے بعد پھر میں ان کے گھر پہنچ گیا، اور ایک دو محلے کی لڑکیاں زادیہ کے ساتھ باتیں کررھی تھیں جو مجھے بھی جانتی تھیں میں بھی سلام دعاء کرکے بیٹھ گیا، باجی کچن میں تھیں، وھیں کچن سے ھی باجی نے کچھ بازار سے لانے کو کہا، میں آرڈر ملتے ھی بازار سے ضرورت کی چیزیں لے آیا، اور اسی طرح روزانہ میں شام کو ان کے گھر جاتا، اور کچھ دیر بیٹھ کر معمول کے مطابق اگر کسی چیز کی ضرورت ھوتی تو لادیتا، یا اگر باجی کو کہیں باھر کسی کام سے جانا ھوتا، تو انہیں باہر ساتھ لے جاتا،

اور میری انکے گھر پر زادیہ کے بارے میں اتنی زیادہ تفصیل سے گفتگو نہیں ھو پاتی تھی بس زادیہ کی غیر حاضری میں ھی باجی مجھے اس کے بارے میں تھوڑا بہت بتاتی تھی، کہ اس آدمی نے زادیہ کو بہت پریشان کیا تھا اور ھمارے ویزے کا بندوبست بھی نہیں کیا تھا، دھوکا دیا تھا، چچا جان کی مداخلت کی وجہ سے ھی زادیہ یہاں پہنچ سکی تھی، اور انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ خود کوشش کریں گے کہ آپلوگوں کے ویزے حاصل کرنے کی، اور جلد ھی وہاں بلوا لیں گے، اور میں بھی یہی بہتر سمجھتا تھا کہ یہ لوگ اپنے چچا کے پاس ھی کچھ بہتر زندگی گزار سکیں گے، اور خوش رہ سکیں گے، کیونکہ ان کے والد کے بعد ھی وہ ایک نزدیکی رشتہ دار تھے اور وہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ ابوظہبی میں رھتے تھے، اور ان کی یہ خواھش بھی یہی تھی کہ یہ تینوں ان کے پاس آجائیں، اور نئے سرے سے اپنی زندگی کو سکون کے ساتھ گزار سکیں، انکی امیر سگی پھوپھی بھی پاکستان میں تھیں لیکن انکی آپس میں کوئی خاص بات چیت نہیں تھی، اور نہ ھی انہوں نے کوئی ان سب سے واسطہ رکھا جبکہ سب کچھ معلوم تھا!!!! کاش کہ ھم اپنے آس پاس، اڑوس پڑوس اور رشتہ داروں میں کم از کم یہ تو دیکھ سکتے ھیں کہ کون اور کس کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ھے، کیا ھمارے پڑوس میں کوئی بھوکا تو نہیں سو رھا، ؟؟؟ کیا ھم نے سب کچھ دیکھتے ھوئے بھی اپنی آنکھیں بند نہیں کی ھوئیں، یہی تو ھمارا اس دنیا میں اللٌہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ھے،!!!!!!!!

اس وقت اگر انکے والد زندہ ھوتے تو اس طرح یہ سب پریشاں نہ ھوتے، وہ اپنی بیٹیوں کو دل و جان سے چاھتے تھے اور انکی ھر خواھش کو پورا بھی کرتے تھے، اسکے باوجود کہ وہ مجھ سے میرے والدین کے رویٌہ کی وجہ سے ناراض تھے اور انکی ناراضگی اپنی جگہ بالکل بجا تھی اور میرے والدین بھی غلط نہیں تھے مگر انہوں نے لوگوں کی افواھوں پر یقین کیا، جس کی وجہ سے ھمارے دونوں خاندانوں کی آپس میں رنجشیں پیدا ھوگئیں، مگر میں انہیں پہلے بھی چاہتا تھا اور اب بھی کیونکہ وہ میرے ساتھ ھمیشہ مخلص رھے، مگر ان کے انتقال کی وجہ سے ایک فیملی بالکل بے سہارا ھوتی جارھی تھی، وہ یہ بھی چاھتے تھے کہ ان کی بیٹیوں کی شادی اچھے گھرانے میں ھوں اور ان کا بزنس بھی بہت اچھا چل رھا تھا اور اس وقت انکی دونوں بیٹیوں کے لئے بہت اچھے اچھے مال دار گھرانوں کے رشتہ بھی آرھے تھے، اور دونوں بہت خوبصورت بھی تھیں، ایک ھی جھلک دیکھتے ھی ھر کوئی انکے رشتے مانگنا شروع ھوجاتے تھے، لیکن انہوں نے بہتر سے بہتر کی تلاش میں اچھے اچھے رشتے گنوا بیٹھے، اسی کی وجہ سے اکثر خاندانوں میں لڑکیاں گھر پر بیٹھیں ھیں، اور کچھ تو خاندان کی امارات ذات پات کو لے کر، کچھ خاندانوں کی آپس کی رنجشیں اور کچھ لڑکیاں تو صرف ایک جہیز نہ ھونے کی وجہ سے گھر پر بیٹھی ھیں، اور کئی لوگ اپنے لڑکوں کی نمائش اس طرح کرتے ھیں کہ جو جہیز کی بولی زیادہ لگائے گا اسی کا رشتہ اس لڑکے سے ھوگا، کیا ایسے لوگ ھمارے اسلامی معاشرے میں زندہ رھنے کے قابل ھیں!!!!!

مگر افسوس کہ ان کے والد زیادہ عرصے زندہ نہیں رھے، ورنہ شاید ان ھی کی زندگی میں ان کے رشتے ھو بھی جاتے مگر وہ تڑپتے تڑپتے چلے گئے اور انہیں سرطان جیسے خطرناک مرض نے گھیر لیا اور چھ مہینے تک اس بیماری سے وہ لڑتے ھوئے اس دنیا سے رخصت بھی ھوگئے، اور یہ خطرناک مرض انہیں انکی سگریٹ پینے اور پان کثرت سے کھانے کی وجہ سے ھوا، وہ چینج اسموکر تھے، ھر وقت ان کے منہ میں سگریٹ لگی رھتی تھی اور ساتھ پانوں میں لپٹے ھوئے بنڈل بھی، جیسے ھی ایک پان ختم ھوتا دوسرا پاں منہ میں رکھ لیتے اور ساتھ ھی سگریٹ بھی پھونکتے رھتے، ان کی عمر بھی میرے خیال میں اس وقت کچھ زیادہ نہیں ھوگی، مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ اب بھی کئی خاندان صرف اسی سرطان جیسے موذی مرض کی وجہ سے ھی برباد ھوئے ھیں، مگر ابھی تک نہ جانے کیوں لوگوں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان بری عادتوں کی وجہ سے اگر وہ اس دنیا میں نہیں رھے تو ان کی فیملی کا کیا ھوگا، کون دیکھے گا، اللٌہ تو سب کا والی ھے لیکن کچھ ھماری بھی ذمہ داریاں بھی ھیں کہ ھماری زندگی بہت قیمتی ھے، اپنے لئے نہ سہی کم از کم اپنے بچوں کے لئے ھی کچھ ھم ان واقعات اور حادثات سے سبق لیں، میں بھی کبھی سگریٹ پیتا تھا لیکن اب مجھے اسکے دھؤیں سے بھی نفرت ھے، انسان چاھے تو کیا نہیں کرسکتا، سگریٹ کو چھوڑنا کوئی مشکل نہیں ھے صرف ایک قوت مدافعت کی ضرورت ھے،!!!

کاش میں اس وقت ان کے پاس ھوتا تو کم ازکم میں انہیں یہ تسلی تو دے سکتا تھا کہ میں آپکی پوری فیملی کو زندگی بھر ایک مکمل تحفظ دے سکوں گا، کاش ایسا ھوتا، اس صورت میں ھوسکتا تھا کہ میں اپنے گھر کی مخالفت بھی مول لے سکتا تھا، اس وجہ سے نہیں کہ میں زادیہ کو دل و جان سے چاھتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاھتا تھا، بلکہ ایک انسانیت کے ناتے، اگر مجھ سے شادی نہ بھی ھوتی تب بھی،،!!!! مگر حالات نے ایسا رخ پلٹا کہ سب کچھ ارمان اور خواھشیں تباہ ھوکر رہ گیئں، میں کوئی اتنا امیر زادہ تو نہیں تھا لیکں اتنا ضرور تھا کہ اس چھوٹی فیملی کو عزت کے ساتھ رکھ سکتا تھا، ویسے تو ھر ایک کی عزت کا رکھوالا صرف اللٌہ تعالیٰ ھی ھے، !!!!!!

حالات کچھ دنوں تک معموم کے مطابق ھی تھے، کہ ایک دن اچانک زادیہ کا شوھر دبئی سے آگیا اور ایک ھوٹل میں ٹھرا ھوا تھا، اور جیسے ھی میں ایک دن شام کو انکے گھر پہنچا تو دیکھا کہ وہ وہاں بیٹھا ھوا تھا اور میں نے مناسب ھی نہیں سمجھا کہ میں وھاں پر اسکے ساتھ بیٹھوں میں نے کچھ ضرورت کی چیزیں بازار سے لا کردیں اور میں اپنے دوست کے ساتھ کہیں اور چلا گیا، دوسرے اور تیسرے دن تک وہ آتا جاتا رھا اور جیسے ھی وہ گھر میں آتا مکان مالک فوراً ھی گھر میں آجاتے کہ وہ کوئی مزید ان کو تنگ نہ کرسکے، بقول باجی کہ وہ صرف زادیہ کو واپس لے جانے آیا تھا اور باجی اور خالہ کے ویزوں کا اس نے کہا کہ ابھی مشکل ھے کچھ دن لگ جائیں گے، مگر ان لوگوں نے یہی فیصلہ کیا کہ زادیہ اس وقت تک نہیں جائے گی، جبتک کہ سب کے ویزوں کا بندوبست نہیں ھو جاتا، اور اگر زادیہ جائے گی تو سب کے ساتھ ورنہ یہ کبھی نہیں جائے گی، ان کے اس فیصلہ پر اس نے اپنا فیصلہ سنادیا کہ میں اس وقت تو خالی واپس جارھا ھوں، اور ایک دفعہ اور آپلوگوں کو موقعہ دیتا ھوں کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلیں، میں مزید کچھ دن تک انتظار کروں گا اگر آپ لوگوں نے اسے بھیج دیا تو ٹھیک ھے ورنہ میں اسے طلاق دے دوں گا اور یہ کہہ کر وہ واپس دبئی چلاگیا،!!!!!!!

چوتھے یا پانچویں دن میں شام کو ان کے گھر پہنچا تو وہ وہاں پر موجود نہیں تھا، لیکن زادیہ دوسرے کمرے میں سورھی تھی اور میں اور باجی بیٹھک میں باتوں میں مصروف تھے اور کچن میں خالہ چائے بنانے میں مصروف تھیں، کیونکہ انہیں میرے آنے کا وقت معلوم تھا، اور میرے آنے سے پہلے وہ ھمیشہ چائے تیار رکھتی تھیں، انہوں نے ھمیشہ بچپن سے میرا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھا تھا اور آج بھی ان کی وہی چاھت تھی، جیسے ایک ماں کی ھوتی ھے اور وہ ان دنوں بہت ھی دکھ و غم اور کرب کے عالم میں گزر رھی تھیں، اور مجھے سب پوری داستان باجی نے سنائی اور مجھ سے پوچھا کہ تمھاری کیا رائے ھے، میں نے جواب دیا کہ زادیہ ھی اب بہتر بتا سکتی ھے کہ وہ کیا چاھتی ھے میں اس بارے میں آپکو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا، مگر میں اس بات کا وعدہ کرتا ھوں کہ جب تک آپ سب مکمل طریقے اور اپنی رضامندی سے دبئی شفٹ نہیں ھوجاتے میں آپ لوگوں کو نہیں چھوڑسکتا چاھے اس کے لئے مجھے اپنی گھر سے کیوں نہ کتنی ھی مخالفت اٹھانی پڑے، کیونکہ اب آپ لوگ میری ذمہ داری ھیں،!!!!!!!

1978 کا زمانہ اور مئی کے گرمیوں کا موسم، اور میں پورٹ قاسم کے پروجیکٹ پر اور وھاں کا کام اسٹارٹ ھوچکا تھا، ھماری کمپنی کو وہاں پر ایک اھم پروجیکٹ ملا ھوا تھا اور ساتھ ساتھ اسٹیل ملز کا کام بھی تقریباً 40٪ ھماری ھی کمپنی کے پاس تھا، مجھے اسی دوران سعودی عرب جانے کیلئے ٹرانسفر آرڈر ملا، وہاں پر بھی ھماری کمپنی کے ھر چھوٹے بڑے شہر میں کام چل رھے تھے، اور مجھے کہا گیا کہ میں اپنا پاسپورٹ اور کچھ تصویریں ذونل آفس میں جمع کرادوں اور اگلے ھفتے تک جانے کے لئے تیار رھیں، شاید میرے حق میں یہ بہتر بھی تھا کہ میں کچھ قرض دار بھی ھوگیا تھا، اور وھاں جاکر انکی میں کچھ اچھی طرح مدد بھی کرسکتا تھا،!!!!

میں نے ان سب کو یہ خوشخبری سنائی، اپنے سعودی عرب جانے کی اور میں نے یہ بھی باجی سے کہا کہ میں ان سے رابطے میں رھوں گا اور اگر کسی وجہ سے خدانخواستہ زادیہ کو وہ طلاق دے بھی دیتا ھے تو میں زادیہ سے شادی کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنی خدمات پیش کرونگا، اگر زادیہ کی مرضی ھو تو، اور مجھے ایک طرح سے خوشی بھی ھوگی کہ آپ لوگوں کے ساتھ زندگی بھر کیلئے ایک رشتہ میں بندھ جانے کیلئے !!!!!!!!
ٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔٔ
میں نے بھی باجی سے اپنی خواھش ظاھر کردی تھی، مگر اس دوران میں نے زادیہ سے کبھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کی اور نہ ھی میں نے اپنے دل کی کوئی خواھش کا اظہار کیا، باجی نے اگر زادیہ سے اس کی مرضی معلوم کی ھو یا نہیں اس کا مجھے باجی نے کوئی ذکر نہیں کیا، اور نہ ھی میں نے پوچھنے کی کوشش کی، بس اپنی رائے دے دی تھی کہ میں زادیہ کو اپنانے کیلئے تیار ھوں اگر خدانخواستہ اس کا شوھر طلاق دے یا زادیہ خود اپنی مرضی سے علیحدہ ھو کر اس سے خلع لے لے، میں نے آفس میں اپنا نیا پاسپورٹ داخل کردیا تھا، تاکہ سعودی عرب کا ویزا لگ جائے، جیساکہ مجھے کمپنی سے ھدایت ملی تھیں، پاسپورٹ کو بنانے میں کچھ دیر ھوگئی تھی ورنہ میں ‌اب تک سعودی عرب میں ھی ھوتا،!!!!!

یہاں گھر پر اسی دوران چار پانچ مہینے پہلے جس کا میں پہلے ذکر نہ کرسکا تھا ایک میرے دوست جو کہ ھمارے ڈویژنل آفس میں کام کرتے تھے، اور ان کے والد صاحب بھی الریاض سعودی عربیہ میں اسی کمپنی میں ملازم تھے، اور میرے ساتھ کراچی کے ایک پروجکیٹ پر بھی ساتھ ھی کچھ عرصہ رھے تھے، ان کے بیٹے کے ساتھ والد صاحب شام کو ان کے گھر چلے گئے اور ان کی خوب آؤ بھگت اور خوب خاطر مدارات ھوئی جس کی وجہ سے اباجی تو بہت متاثر ھوئے، اور ان کی لڑکی انہیں پسند آگئی، جو انکی خوب خاطر مدارات کررھی تھی، اور والد صاحب کی عادت تھی کہ جہاں انکی پسند کی لڑکی دیکھی، فوراً ھی اسے میرے لئے پسند کرلیتے تھے، اور مجھے بتائے بغیر ھی ان کے گھر والوں سے میرے لئے رشتہ کی بات بھی شروع کردیتے تھے، مجھے ان سے اس سلسلے میں شروع سے ھی شکایت رھی تھی!!!!!!

جب والد صاحب میرے دوست کے گھر سے آئے، میں اس وقت گھر پر نہیں تھا لیکن کچھ دیر بعد ھی میں گھر پہنچ چکا تھا، کافی رات ھوچکی تھی اور میں اکثر رات کو کھانا باھر ھی کھا کر آتا تھا، اور وہ اسی چیز کو لے کر پریشان تھے اور ان کو شک تھا کہ میں ابھی تک زادیہ کے گھر جاتا ھوں اور وہ دونوں لڑکیاں مجھے ان سے چھیننے کی کوشش کررھی ھیں، اسی وجہ سے وہ چاھتے تھے کہ میری جلد سے جلد کہیں بھی شادی ھوجائے، اور میں انکی ھر شادی کی خواھش کو غصہ سے ٹھکرادیتا تو وہ کسی دوسری طرف چل دیتے، اس دن رات کو وہ گھر پر ھی میرا انتظار کررھے تھے، جب میں نے انھیں بیٹھے ھوئے دیکھا اور کافی مجھے مکھن لگا رھے تھے تو میں سمجھ گیا کہ آج اور ابھی کسی لڑکی کا شجرہ نسب کھلنے والا ھے،!!!

میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا پھر انہوں نے میرے دوست کی بہن کی تعریفوں میں قصیدے پڑھنے شروع کردئے، وہ ایسی ھے ویسی ھے بہت خوبصورت ھے گھر کا سارا کام وہ کرتی ھے اور کیا ذائقہ دار کھانے پکاتی ھے اور یہ سن کر پھر پہلے کی ظرح میں گرم ھوگیا اور بالکل ھی انکار کردیا اور کہا کہ کیا گھر کیلئے آپ نوکرانی تلاش کرنے گئے تھے،؟؟؟ جب میں نے پہلے کہہ دیا تھا کہ میں ابھی کسی صورت میں شادی کرنا نہیں چاھتا تو آپ مجھے بغیر بتائے ھوئے میرے دوست کے گھر کیوں گئے وہ میرا دوست ھے اور مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میرے دوست کے گھر میں میرا رشتہ ھو اور میرا دوست میرے بارے میں کیا سوچے گا،!!! والد صاحب نے جواب دیا ارے بیٹا تمھارے دوست کی مرضی سے ھی گیا تھا اور ان کی ھی یہ خواھش تھی کہ ان کی بہن کی شادی تم سے ھو، اور اس لئے مجھے اپنی بہن کو دکھانے کیلئے گھر لے گئے تھے اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپکو پسند آجائے تو اپنے بیٹے سید سے بات کرکے دیکھئے گا، اگر وہ راضی ھے تو ھمارے لئے ایک اچھا رشتہ مل جائے گا اور ھماری دوستی رشتہ داری میں بدل جائے گی،!!! میں نے پھر غصہ میں کوئی جواب نہیں دیا اور سونے چلا گیا بعد میں انہوں نے والدہ سے کیا بات کی مجھے معلوم نہیں !!!!!!!!

وہ سمجھے کہ شاید مین نیم راضی ھوں، اس لئے وہ دوسرے دن والدہ کو بھی ساتھ لے گئے اور بات بھی پکی کر آئے، اور ان کو گھر پر دعوت بھی دے دی، کہ وہ سب مجھے دیکھ لیں، اب ان دنوں ڈویژنل آفس میں جب بھی میرا اپنے دوست کا سامنا کرتا تو میں بالکل شرمندہ ھوجاتا، اور وہ بھی مجھ سے ہنس کر پیش آتا، اور کوئی اس موضوع پر بات بھی نہیں کرتا تھا، اور میری خاموشی کو اس نے یہی سمجھا کہ شاید مجھے یہ رشتہ پسند ھے، اور دفتر میں بھی کئی لوگوں نے مجھے کہا کہ یہ بہت اچھے لوگ ھیں اور بہتر ھے کہ یہاں شادی کرلو اور وہ تمھارا دوست بھی ھے، میں انہیں کوئی بھی جواب نہیں دیتا، ان کے گھر والے آئے اور مجھے دیکھ کر خوشی خوشی پسند کرکے چلے گئے، میں نے پھر سب اپنے گھر والوں سے کہا کہ اب کوئی بھی ان کے گھر نہیں جائے گا، اس طرح وہ سمجھ جائیں گے کہ لڑکے کو یہ رشتہ پسند نہیں ھے!!!!!!!!

اسی طرح گھر پر کوئی کسی نے مجھ سے پھر کوئی شادی کی بات نہیں کی، میں بھی خاموش ھی رھا اور نہ ھی گھر سے کوئی میرے دوست کے گھر گیا، میرے دوست کے گھر والے پریشان تھے کہ نہ جانے کیا بات ھے کہ ھماری طرف سےخاموشی چھائی ھوئی ھے، جبکہ انہوں نے اپنے والد صاحب جو سعودی عربیہ میں تھے ان سے بھی رضامندی لے لی تھی وہ تو بلکہ بہت ھی خوش ھوئے کیونکہ وہ میرے ساتھ بھی کام کرچکے تھے، اور انہوں نے بھی وہاں اہنے تمام ساتھیوں کو اس رشتہ کے بارے میں بتا دیا تھا، اور وہاں پر تقریباً میرے سارے استاد جنہوں نے مجھے سارا اکاؤنٹس کام سکھایا تھا اور ھر ایک کے ساتھ میں نے اسی کمپنی کے ھیڈآفس راولپنڈی اور کراچی میں بیٹھ کر کام کو سیکھا تھا، جو اسی کمپنی کی ھی توسط سے ٹرانسفر ھوکر پہلے ھی سے سعودی عرب میں پہنچ چکے تھے، اور وہ بھی میرے اس رشتہ سے بہت خوش تھے!!!!!

جب چار پانچ مہینے ھوگئے اور میرا ٹرانسفر سعودی عرب ھونے والا تھا تو اِدھر دوست کی والدہ کو بہت فکرلاحق ھوئی کہ نہ جانے کیا بات ھے کہ ھمارے گھر سے کوئی جواب نہیں آیا، انہوں نے اپنے بیٹے جو میرا دوست تھا اس سے غصہ میں پوچھا کہ اب تک کیوں وہاں سے جواب نہیں آیا، ان سے پو چھو ورن ھماری بیٹی کیلئے رشتے آرھے ھیں جو مجھے پسند ھوگا میں وہاں ھاں کردوں گی، مگر میرے دوست نے اپنی امی سے کہا کہ میری بہن کی شادی صرف اور صرف وہیں ھوگی اور کہیں نہیں، ھاں اگر میرے دوست کی شادی ھوجاتی ھے تو پھر میں کچھ سوچوں گا، اور آخر وہ دن آھی گیا جس دن مجھے آفس سے پاسپورٹ اور ٹکٹ مل گیا اور مجھے دوسرے دن ھی سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض کیلئے روانہ ھونا تھا،!!!!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-71- تبادلہ ارض مقدسہ کی طرف، اور شادی کی تیاریاں،!!!!!!

جب چار پانچ مہینے ھوگئے اور میرا ٹرانسفر سعودی عرب ھونے والا تھا تو اِدھر دوست کی والدہ کو بہت فکرلاحق ھوئی کہ نہ جانے کیا بات ھے کہ ھمارے گھر سے کوئی جواب نہیں آیا، انہوں نے اپنے بیٹے جو میرا دوست تھا اس سے غصہ میں پوچھا کہ اب تک کیوں وہاں سے جواب نہیں آیا، ان سے پو چھو ورن ھماری بیٹی کیلئے رشتے آرھے ھیں جو مجھے پسند ھوگا میں وہاں ھاں کردوں گی، مگر میرے دوست نے اپنی امی سے کہا کہ میری بہن کی شادی صرف اور صرف وہیں ھوگی اور کہیں نہیں، ھاں اگر میرے دوست کی شادی ھوجاتی ھے تو پھر میں کچھ سوچوں گا، اور آخر وہ دن آھی گیا جس دن مجھے آفس سے پاسپورٹ اور ٹکٹ مل گیا اور مجھے دوسرے دن ھی سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض کیلئے روانہ ھونا تھا،!!!!!!!!!!!!

زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے ملک سے باھر جارھا تھا، اور خوشی اس بات کی زیادہ تھی کہ ارض مقدسہ میں حج، عمرہ اور زیارت بھی سرکارنبی (ص) کی ھوجائے گی، میں اتنا گنہگار بندہ اور کہاں سے آج میری سنی گئی اور بلاؤہ آگیا، بعض اوقات میں سوچتا ھوں کہ میں کتنا خوش قسمت تھا کہ مجھ سے کہیں زیادہ بہتر قابلیت رکھنے والے لوگ اس کمپنی میں موجود تھے، لیکن میرا نام جانے والوں کی لسٹ میں جانے کہاں سے آگیا، وہ بھی بغیر کسی سفارش کے، سبحان اللٌہ!!!!!

میں جانے کے ایک دن پہلے ھی باجی کے گھر پہنچا تاکہ ان سے بھی اجازت لے لوں، اور خالہ سے بھی دعائیں لےلئیں، اور زادیہ سے بس رسماً ھی سلام دعاء ھوئی، اور سب کو الوداع کہتا ھوا نیچے اترا اور موٹرسائیکل اسٹارٹ کرکے چند ایک اور دوستوں سے ملتا ھوا اپنے گھر پہنچا جہاں پہلے ھی سے مہمانوں کی بھرمار تھی، اور باری باری سب مجھے مبارکباد دے رھے تھے، اور میں بالکل ھونق بنا ھوا تھا، ایک سوٹ کیس گھر پر تیار ھوچکا تھا اور ایک اور ھینڈ بیگ تیار ھورھا تھا، ساری رات اسی طرح باتوں اور لوگوں سے ملنے ملانے میں ھی گزر گئی، اور کچھ دوست بھی رات گئے تک گھر پر ملنے آتے رھے، پھر اسی طرح فجر کا وقت ھوگیا نماز کے بعد کچھ دیر کےلئے لیٹا، لیکن نیند بالکل نہیں آئی، صبح ائرپورٹ کے لئے نکلنا تھا، !!!!!!!

کمپنی کی گاڑی گھر پر آچکی تھی مجھے ائرپورٹ لے جانے کیلئے بڑی وین تھی اس میں تقریباً گھر کے تمام افراد بیٹھ چکے تھے، اور باقی تمام محلے والوں اور دوستوں کو وھیں گھر پر ھی الوداع کیا کچھ نے کہا کہ ھم ائرپورٹ پر ھی ملیں گے، اور کچھ رشتہ دار بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں آئے ھوئے تھے، وہ بھی ائرپورٹ ھی جانا چاھتے تھے، اور ایک قافلہ جاتے جاتے بن گیا تھا ایسا لگتا تھا کہ کسی کی بارات جارھی ھے، میں نے جاتے جاتے امی سے کہہ دیا تھا کہ میری شادی کے بارے میں اب کوئی بات نہیں ھوگی اور نہ ھی کسی سے میری شادی کیلئے کوئی گفت شنید کرنے کی ضرورت ھے، جب مجھے شادی کرنی ھوگی میں آپکو بتا دونگا، بس اس کے باوجود بھی آپلوگوں نے میرے متعلق کسی سے بھی میری شادی کے بارے میں ھاں کی تو میرے لئے بہت مشکل ھوجائے گی، اور آپکو میری خاطر شرمندگی اٹھانی پڑے گی، والدہ نے کہا کہ اچھا ٹھیک ھے،!!!!!

والدہ کے وعدہ پہ میں بالکل مطمئین تھا اور میں نے ائرپورٹ پر سب سے ایک دفعہ اور الوداع کہا میں ویسے ھی ایک عجیب ھی طرح بوکھلایا ھوا تھا، مجھے کچھ پتہ نہیں چل رھا تھا کہ کس سے مل رھا ھوں کون مجھے کیا کہہ رھا ھے، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرھا تھا، اتنے لوگ ملنے آئے ھوئے تھے، کہ ایک دوسرے کو پہچاننے میں بھی دشواری ھورھی تھی بہرحال فلائیٹ کے تیار ھونے اعلان ھوچکا تھا، میں نے سب کو آخری بار ھاتھ کے اشارے سے الوداع کہتے ھوئے، اپنے ایک سوٹ کیس اور بیگ کو ایک ٹرالی پر ڈالے ھوئے اندر پہنچ گیا اور فلائیٹ کاؤنٹر پر بورڈنگ پاس لیا اور سوٹ کیس تو لگیج میں چلا گیا، اور میں بس بیگ اٹھائے امیگریشن کاونٹر پر گیا وھاں کچھ دیر بعد نمبر آگیا، اسے پاسپورٹ دیا اس نے پاسپورٹ پر ویزا وگیرہ چیک کرکے خروج کی مہر لگادی اور میں پاسپورٹ اور ٹکٹ کے ساتھ بورڈنگ پاس کو ھاتھ میں لے کر سیکوریٹی چیک کراتا ھوا ائرپورٹ لاؤنج میں بیٹھ گیا اور بس انتظار کرتا رھا کہ فلائیٹ کی روانگی کا اعلان سننے کیلئے !!!!!!!

جیسے ھی فلائیٹ کا اعلان ھوا تو میں بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ اٹھ گیا اور لائن سے ھوتا ھوا باھر نکلا تو ایک بس کھڑی تھی، اس میں سب لوگ بیٹھے تو میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا میں خود بھی لوگوں کے ساتھ ھی چل رھا تھا، کیونکہ میں پہلی مرتبہ ھی ھوائی جہاز میں سفر کررھا تھا،لیکن کسی پر یہ ظاھر نہیں کررھا تھا کہ میں پہلی مرتبہ سفر کررھا ھوں، وہ بس سیدھے ھی جہاز کے قریب پہنچی جہاں دو سیڑھیاں لگی ھوئی تھیں، میں بھی لوگوں کے ساتھ اس میں سے ایک سیڑھی پر چڑھ گیا، اور جہاز پر ایک ائرھوسٹس نے مجھے دیکھتے ھی خوش آمدید کہا اور میرے بورڈنگ پاس کو دیکھتے ھوئے مجھے راستہ دکھایا، وھاں سے میں سیٹوں کے نمبر دیکھتا ھوا اپنی سیٹ کے پاس پہنچ کر پہلے اپنا بیگ اوپر کے کھلے ھوئے کیبنٹ میں رکھا اور سیٹ پر جاکر بیٹھ گیا اتفاق سے کھڑکی کے پاس سیٹ ملی تھی، میں بس کھڑکی سے باھر کی ظرف بڑے شوق سے دیکھ رھا تھا!!!!!!!

کچھ ھی دیر میں جہاز کے روانہ ھونے کا اعلان ھوا اور کہا گیا کہ اپنی اپنی بیلٹ باندھ لیں، مجھے بیلٹ تو نظر آئی مگر کس ظرح سے باندھوں یہ سمجھ میں نہیں آیا، میں نے برابر والے کو دیکھا تو اس نے بھی ابھی تک بیلٹ کو چھوا تک نہیں تھا، پھر میں نے دیکھا کہ ائرھوسٹس جہاز میں سفر کے بارے میں ھدایت دے رھی تھی، اور اس نے جیسے ھی بیلٹ کو باندھنے کا طریقہ بتایا، میں نے بہت ھی غور سے دیکھا اور ذھن میں رکھتے ھوئے اپنی بیلٹ کو باندھ لیا، شکر ادا کیا کہ ایک مرحلہ تو پورا ھوا، فوراً ھی جہاز نے حرکت کی تو میں سنبھل گیا اور کھڑکی سے باھر دیکھنے لگا فوراً ھی ایک ائرھوسٹس میرے نزدیک آئی میں پہلے تو ڈر گیا کہ کہیں یہ باھر جھانکنے کے لئے منع تو نہیں ‌کررھی مگر وہ تو ایک ٹافیوں کی ایک چھوٹی سی ٹوکری لئے کھڑی تھی، میں نے ایک ٹافی شکریہ کہتے ھوئے اٹھائی، اس نے بھی بڑے مسکراتے ھوئے جواب دیا اور آگے چلی گئی، اب جہاز ایک رن وے پر آکے کھڑا ھو گیا اور ایک انگلش میں اعلان کیا کہ جہاز اڑنے کیلئے تیار ھے، اور ایک دم اس نے اسپیڈ پکڑی اور رن وے پر دوڑنے لگا!!!!!!!!

میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور چند سیکنڈ مین جہاز نے رن وے کو چھوڑدیا، میرے کان بند ھوگئے اور میں کھڑکی سے کراچی شہر کو دیکھ رھا تھا بس کچھ ھی دیر میں سمندر نطر آیا اور بالکل نیچے بڑے بحری جہاز چھوٹے چھوٹے نظر آرھے تھے پھر کچھ اور جہاز اوپر جاتے ھی بادلوں کے جھنڈ میں سے نکلتا ھوا بادلوں کے اوپر آگیا، نیچے اب سفید بادل بہت ھی خوبصورت نظر آرھے تھے، دن کا وقت تھا اس لئے سب کچھ صاف صاف نظر آرھا تھا، میں نے دیکھا کہ لوگ اپنی اپنی بیلٹ کو کھول رھے تھے، اور ساتھ ھی اناؤنسمنٹ بھی ھورھی تھی، فوراً کھانا بھی ائر ھوسٹس کھانے کی ٹرالی کھینچتے ھوئے لے آئی اور ایک ٹرے مجھے پکڑادیا، میں نے اپنے سامنے کی سیٹ کے بیک سے کھانے کی ٹرے کھولی اور اس میں کھانے کی ٹرے رکھی، اس میں ایک چکن کا فرائیڈ پیس تھا اور کچھ چاول اور کچھ مصالےدار گوشت بھی بھنا ھوا رکھا تھا، کھانا مزے کا تھا لیکں کچھ پھیکا پھیکا سا تھا، مجھے اچھا لگا !!!!!

کھانے سے فارغ ھوکر وہ چائے لے کر آئی، چائے بھی پی لی اس کے بعد خالی ٹرے لینے آئی، اس طرح ایک رونق بھی لگی رھی، میں بھی برابر والے سے باتیں کرتا رھا وہ بھی پہلی مرتبہ سفر کررھا تھا، پھر تقریباً ڈھائی گھنٹے بعد الریاض ائرپورٹ پر جہاز کے اترنے کا اعلان ھوا، اور پھر سب نے سیٹ بیلٹ باندھ لی، میں نے بھی اسی طرح کیا، اور پھر کھڑکی سے جہاز کو نیچے ھوتے ھوئے دیکھ رھا تھا، اور کچھ ھی دیر میں سارا شہر نظر آنے لگا اور ایک دھم سی آواز آئی میں ڈر گیا شاید جہاز کے پہئیے کھل گئے تھے پھر پندرہ منٹ میں جہاز کے پہئیے زمین کو چھو رھے تھے،!!!!!!!!

1978 کا سال مئی کا مہینہ، گرمیوں کا موسم، میری عمر تقریباً 28 سال اور آج میں اپنے وطن سے دور، مگر ارض مقدسہ کے ایک شہر الریاض میں میرا ھوائی جہاز لینڈ کررھا تھا، مجھے ایک طرف سے تو خوشی بھی تھی کہ ایک میری دیرینہ خواھش ارض مقدسہ کی زیارت پوری ھورھی تھی اور دوسری طرف تھوڑا بہت دکھ تو اپنوں سے دور ھونے کا بھی تھا، جیسے ھی جہاز ایک جگہ جاکر رکا تو میں ‌نے کھڑکی سے دیکھا کہ دو سیڑھیاں ھمارے جہاز کی طرف بڑھ رھی ھیں، کچھ ھی منٹ میں سیڑھیاں لگنے کے فوراً بعد جہاز کے دو دروازے کھل گئے، اور تمام مسافر آہستہ آہستہ ایک قطار میں دروازے کی طرف چلنے لگے، جہاں سیڑھی لگی ھوئی تھی، میں بھی اپنا چھوٹا بیگ کیبنٹ سے نکال کر ھاتھ میں اٹھائے ھوئے جیسے ھی میں دروازے کی طرف پہنچا تو ایک دم شدید تپش کا جھونکا لگا ایسا لگا کہ باھر آگ لگی ھوئی ھے، اور بمشکل سیڑھیوں سے اترتا ھوا، نیچے کھڑی ھوئی بس میں چڑھا تو کچھ سکون ملا،اتنی شدید گرمی تو میں نے پاکستان میں کہیں بھی نہیں دیکھی تھی،!!!!!!!

بہرحال یہ میرا اتفاق تھا باھر جانے کا، اس لئے بہت سنبھل سنبھل کر دوسروں کی تقلید کرتا ھوا چل رھا تھا، جیسے ھی بس رکی، جلدی جلدی اتر کر ائرپورٹ کی بلڈنگ کے اندر پہنچ کر میں سیدھا امیگریشن کی لائن میں لگ گیا اور ایمیگریشن کا انفارمیشن کارڈ جو جہاز میں ھی ملا تھا، پہلے ھی میں اسے بھر چکا تھا اور پاسپورٹ کے ساتھ ھی رکھ لیا تھا، جیسے ھی کاونٹر پر پہنچا تو میں نے اپنا پاسپورٹ اور ایمیگریشن کارڈ کاونٹر پر رکھا وپاں کی سیکوریٹی کے بندے نے پہلے تو مجھے غور سے دیکھا اور پاسپورٹ پر ویزے کو چیک کیا، پھر ایک دخول کی مہر لگا کر مجھے پاسپورٹ دے دیا، اور ایمیگریشن کارڈ اپنے پاس ھی رکھ لیا، میں نے پاسپورٹ کو سنبھال کے اپنی جیب میں رکھ لیا اور ھاتھ میں اپنے بیگ کو اٹھائے ھوئے اس بیلٹ پر پہنچا، جہاں پر ھمارے جہاز سے آیا ھوا ساماں چکر لگا رھا تھا، کچھ ھی دیر میں مجھے اپنا سوٹ کیس نظر آگیا، اسے فوراً ھی چلتی ھوئی بیلٹ پر سے اٹھایا، اور کسٹم حکام کے کاؤنٹر پر پہنچا اور سوٹ کیس اور بیگ کا اپنا سارا سامان انہوں نے چیک کیا اور چاک سے لکیر مار کر انہوں نے کلئیر کردیا، اور اپننے سوٹ کیس اور بیگ کو اچھی طرح بند کیا اور باھر نکلنے والے گیٹ کی طرف چل دیا،

مجھے کراچی سے یہاں تک پہنچنے ھی کوئی بھی مشکل پیش نہیں آئی، مجھے ویسے بھی دفتر میں یہ سب کچھ سفر کی تمام احتیاطی تدابیر پہلے سے ھی واضع کردی تھیں، اس کے علاؤہ میں لوگوں کے نقش قدم پر ھی اپنے قدم ملاتا ھوا چل رھا تھا، تاکہ کسی کو بھی یہ محسوس نہ ھو کہ میں پہلی بار سفر کررھا ھوں، کیونکہ سنا تھا کہ پہلی مرتبہ سفر کرنے والوں کے ساتھ کئی مشکلیں بھی پیش آئیں اور مذاق کا نشانہ بھی بنے، ایک واقعہ سنا تھا کہ ایک مسافر جو پہلی مرتبہ سفر کررھا تھا اس نے برابر والے سے کہا جو کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا، “کہ بھائی صاحب گرمی لگ رھی ھے ذرا یہ کھڑکی تو کھول دینا“، مگر آپ یقین کریں وہ آدمی میں نہیں تھا،!!!!!! جیسے ھی باھر نکلا تو میں نے ایک صاحب کو دیکھا جو مجھے ھی دیکھ کر ھاتھ ھلا رھے تھے جو میرے ساتھ کراچی میں ایک پروجیکٹ پر کام بھی کر چکے تھے، اور ان کا بیٹا بھی جوکہ میرا دوست بھی تھا، کراچی میں اسی کمپنی کے آفس میں والد صاحب کے ساتھ کام کررھا تھا اور آج کل ان کی بیٹی سے میرے رشتے کی بات بھی چل رھی تھی،!!!!!!

انہوں نے سلام دعاء کے بعد مجھ سے میرے منع کرنے کے باوجود سوٹ کیس لے لیا اور خیر خیریت پوچھتے ھوئے ساتھ ھی چل رھے تھے، اور ھم دونوں ڈرائیور کے ساتھ پارکنگ میں پہنچے وھاں کمپنی کی کار میں بیٹھ کر دفتر کی طرف روانہ ھوگئے، وہ میرے بہت ھی اچھے مہربان تھے، اور انہیں کی بیٹی کے رشتے کے لئے والد صاحب بہت بضد تھے کہ میرا رشتہ یہیں پر ھو لیکن میں پہلے ھی اپنی والدہ سے اس رشتے سے انکار کرکے یہاں آگیا تھا، جیسا کہ پہلے تفصیل سے میں نے تحریر بھی بیان کرچکا ھوں، اب مجھے ان کے ساتھ چلتے ھوئے بہت شرمندگی ھو رھی تھی، مگر انہوں نے اس موضوع پر مجھ سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی اور نہ ھی کوئی مجھے انکی طرف سے کوئی ایسا محسوس ھوا تھا کہ انکی بیٹی کے ساتھ میرا رشتہ ھونے والا ھے، دفتر کے ساتھ رھائش تھی جہاں پہنچنے پر انہوں نے میری کافی خاطر مدارات کی اور لوگوں سے میرا تعارف بھی کرایا جو مجھے نہیں جانتے تھے، کیونکہ اکثریت مین زیادہ تر لوگ مجھے پہلے سے ھی جانتے تھے اور وھاں پر میرے تمام سینئیر استاد صاحبان بھی موجود تھے،!!!!!!!

وہاں پر سب لوگوں نے میرا پرتپاک خیر مقدم کیا، شام ھوچکی تھی دفتر میں سب سے سلام دعاء کرنے کے بعد میرے دوست کے والد مجھے وہاں کے ڈائیریکٹر کے پاس لے گئے اور انہوں نے بھی خیر خیریت پوچھی اور پھر کچھ رسمی بات چیت کے بعد میں نے اجازت لی اور باھر لکل کر اپنے کمرے میں چلا آیا، پھر کچھ نہا دھو کر تازہ دم ھوگیا پھر وہی میرے کمرے میں اپنے ایک دوست کو لے آئے اور میرا تعارف وغیرہ کرایا، اور پھر انکے دوست نے میرا اچھا خاصہ انٹرویو لے ڈالا، اب ایسا لگ رھا تھا کہ شاید ان صاحب کو میرے اس رشتے کے بارے میں معلوم ھوچکا ھے، اور وہ مجھے کہہ رھے تھے کہ جہاں تمھارا رشتہ ھونے جارھا ھے وہ بہت اچھے لوگ ھیں، میں اس پوری فیملی کو اچھی طرح جانتا ھوں، وغیرہ وغیرہ، میں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا، پھر ھم تینوں ھی بازار چلے گئے اور مجھے کچھ ضرورت کی چیزیں خرید کر دیں اور پیسے بھی ادا کردئیے، میں نے کہا کہ میں یہ پیسے آپ کو بعد میں لوٹا دونگا، کیونکہ وہاں کی کرنسی اس وقت میرے پاس نہیں تھی،!!!!!!

ایک ہفتہ مجھے تو بالکل ہی نیند نہیں آئی، نیا نیا شہر اور ایک عجیب سی اجنبیت، مگر شکر ھے کہ کچھ دنوں بعد آہستہ آہستہ میرا دل لگ گیا تھا، کیونکہ ھمارے ساتھ سب پاکستانی ھی تھے، اور زیادہ تر سب مجھے جانتے تھے کیونکہ ھم ایک دوسرے سے 1971 سے لے کر اب تک کہیں نہ کہیں ساتھ کام کر چکے تھے اور سب سے اچھی بات یہ تھی کہ میرے تمام استاد یہیں پر موجود تھے جن کے ساتھ میں نے کام کیا اور بہت کچھ سیکھا بھی تھا، ایک دفعہ مجھے اور بھی موقعہ مل گیا ان کے ساتھ کام کرنے کا ، الریاض میں اس کمپنی کا سنٹرل آفس تھا، اور مختلف شہروں میں، ھر جگہ اس کمپنی کے ریرتعمیر پروجیکٹ چل رھے تھے، مجھے تقریباً یہاں چھ مہینے تک سنٹرل آفس میں ھی رھنا پڑا کی، کیونکہ جس الظھران کے پروجیکٹ کیلئے یہاں بھیجا گیا تھا، وہ ابھی شروع ھوا ھی نہیں تھا، اس لئے مجھے یہیں پر رکنا پڑا، اسی عرصہ میں جو بھی چھٹی جاتا اسکی جگہ مجھے بٹھا دیا جاتا، یہ بھی اچھا ھوا کہ ساری سیٹوں پر مجھے یہاں کا سسٹم اور کام کے طریقہء کار سے اچھی طرح واقف ھوگیا تھا،!!!!!

اسی دوران یہاں سے مجھے اپنے تمام آفس کے ساتھیوں کے ساتھ پہلی بار مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جانے کا اللٌہ تعالیٰ نے ایک موقعہ بھی دیا، جہاں مجھے عمرہ اور حج کرنے کی سعادت اور حضور اکرم (ص) کے دربار میں حاضری دینے کا شرف بھی نصیب ھوا تھا، الریاض سے ھم آفس کے ساتھیوں نے پہلے عمرے کا پروگرام بنایا جو کہ میری خوش قسمتی تھی کہ آتے ھی مجھے یہ سعادت نصیب ھورھی تھی اور الریاض سے مکہ مکرمہ تقریباً 1000 کلومیٹر کے فاصلہ کا سفر ھم نے اپنی کمپنی کی ھی بس سے تقریباً 20 گھنٹے میں طے کیا، پہلی مرتبہ باھر سے جب میں نے خانہ کعبہ کے میناروں کو دیکھا تو لبیک لبیک کہتے ھوئے میری آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے اور جسم بھی کپکپا رھا تھا اور جب اندر پہنچا تو خانہءکعبہ کو اپنے سامنے دیکھ کر تو ایک سکتہ سا طاری ھوگیا، !!!

راستے میں ھی طائف میں اپنی کمپنی کے گیسٹ ھاؤس کمپاونڈ میں ھی احرام باندھ لیا گیا تھا، عمرہ ادا کرنے کے بعد دل ھی نہیں نہیں چاھتا تھا کہ اس کعبہ اللٌہ کی دیواروں کو چھوڑدوں، خیر دوسرے دن ھی مدینہ شریف کیلئے روانگی ھوئی، اور جیسے ھی مدینہ منورہ کے شہر میں داخل ھوئے تو ایک پرسکون اور دلوں کو ٹھنڈک سی راحت ملی، یہاں بھی ایک ھوٹل میں سامان وغیرہ رکھ کر اور تروتازہ ھوکر وضو سے فارغ ھوئے اور جلدی جلدی مسجد نبوی (ص) کی طرف بڑھے وھاں نوافل سے فارغ ھوئے تو عشاء کا وقت تھا روضہ مبارک (ص)‌ کی جالیوں کے ساتھ ھی باجماعت نماز پڑھی، اور اسکے فوراً بعد روضہ مبارک (ص) کی جالیوں کی طرف بڑھے اور اسکے آس پاس تمام مقدس جگہوں پر دو دو نفل پڑھے خاص کر ریاض الجنہ کے دروازے کے پاس اور ممبر کے پاس جہاں حضورعالم نبی پاک (ص) نماز پڑھتے تھے، اور جو جو جگہ ملی بیٹھ کر دعائیں اور تسبیح پڑھی، آنکھوں کے سامنے دربار نبی (ص) کی جالیاں اور آنکھوں سے آنسوں کا ایک سیلاب سا امڈ رھا تھا، وھاں سے اٹھے تو سلام ادا کرنے کیلئے روضہ مبارک نبی پاک (ص) کے قریب پہنچے سلام و درود پڑھا اور ساتھ ھی حضرت ابو بکر صدیق اور ان کے ساتھ حضرت عمر ابن خطاب وہاں پر بھی ان پر سلام بھیجا اور پھر باھر نکل کر سامنے ھی بازار سے ھوتے ھوئے جنت البقیع کے مقبرات پر بھی زیارت کیلئے گئے،!!!!

اس سے پہلے مدینہ شریف آتے ھوئے راستے میں جنگ بدر کے مقام پر گئے اور بعد میں مختلف زیارتوں پر بھی گئے اور ھر جگہ نوافل بھی ادا کئے، جس میں خاص طور سے مسجد قباء، مسجد قبلتین، جنگ احد کا مقام، اور سات مساجد جنگ قندق کا مقام، میقات پر ابیارعلی اور کئی مساجد جو اھم مقدس یادگار ھیں، وہاں مدینہ شریف میں دوسرے دن واپسی کی تیاری ھوگئی، وہاں سے واپس جاتے ھوئے بہت دکھ ھو رھا تھا لیکن مجبوری تھی، سروس کا معاملہ تھا، یہ میرا پہلا عمرہ اور پہلی زیارت کو کبھی نہیں بھول سکتا تھا، اور اس کے بعد حج کرنے کی بھی سعادت نصیب ھوئی، اسی طرح اتنا لمبا سفر جو اس وقت الریاض سے بذریعہ بس 20 گھنٹے کے قریب لگتے تھے آور آج کل سڑکیں اچھی اور کشادہ ھونے کی وجہ سے تو 10 گھنٹے سے بھی پہلے مکہ مکرمہ پہنچ جاتے ھیں،!!!!!!

سبحان اللٌہ اب تک کئی حج اور بے شمار عمرے اور زیارت روضہ مبارک (ص) اللٌہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ھوچکے ھیں، اب بھی یہاں دل یہی چاھتا ھے کہ ساری زندگی بس یہیں گزرجائے، اور موت بھی آئے تو دیار نبی کے روضہ اقدس کے چوکھٹ پر آئے، جو سکون قلب اور راحت زندگی کا لطف یہاں ھے وہ کہیں پر بھی نہیں ھے، !!!!!

یہاں ریاض آئے ھوئے بھی مجھے چھ مہینے ھوگئے تھے، اور اسی دوران حج اور عمرہ بھی کی سعادت اور روضہ مبارک کی زیارت بھی نصیب ھوگئی، اور مجھے کیا چاھئے اللٌہ تعالیٰ نے مجھ گنہگار پر اتنا کرم کیا، کہ میری یہ خاص دلی خواھشات کو پورا کیا، جو میں کبھی خوابوں میں بھی سوچ نہیں سکتا تھا، !!!!!!

آفس کا کام بھی بہت اچھی طرح انجام پا رھا تھا، شروع شروع میں گھر کی یاد بہت آئی لیکن بعد میں وہاں کے لوگوں کے مخلصانہ سلوک کی وجہ سے دل لگ گیا، اور میرے لئے دو فیملیوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا تھا، اس کے علاوہ میرا کچھ قرضہ بھی ھوگیا تھا، اس کیلئے مجھے کچھ نہ کچھ تو قربانی دینی ھی تھی اور اللٌہ تعالیٰ نے یہ مجھے بہت اچھا موقعہ بھی دے دیا تھا، جس سے میری تمام مشکلات بھی حل ھورھی تھیں، اور میں زادیہ کے مسئلے کو لے کر بھی بہت فکر مند تھا، میں چاھتا تھا کہ وہ کسی طرح بھی اپنی زندگی کو سہل، سکون اور اپنی نیک خواھشات کے مطابق گزارسکے، ھر وقت میرا ان سب سے رابطہ رھتا، اور ضرورت کے مظابق انہیں اخراجات کیلئے بھیجتا بھی رھتا تھا، مجھے ایک طرف سے یہ بھی اطمنان بھی تھا جب سے ان کے چچا جو ابوظہبی میں تھے، ان سے بھی ان کا رابطہ قائم تھا ، اور وہ کوشش یہی کررھے تھے کہ کسی طرح بھی یہ تینوں وہاں پہنچ جائیں،!!!!

ادھر والد میری شادی کو لئے ھوئے بہت ھی زیادہ کچھ سنجیدہ بھی تھے اور مجھے ھمیشہ خط لکھ کر شادی پر ھی زور دے رھے تھے، ان کو بھی یہ یقین تھا کہ میں ابھی تک زادیہ لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھے ھوئے ھوں، اور وہ لوگ ان کے بیٹے کو یعنی مجھ کو ان سے چھین لیں گے اور وہ بھی اپنی جگہ پر صحیح تھے، کوئی بھی اگر انکی جگہ پر ھوتا تو وہ بھی یہی سوچتا، اور والد صاحب اور والدہ یہ بالکل نہیں چاھتے تھے کہ زادیہ سےشادی تو دور کی بات ھے، میں کوئی بھی ان لوگوں سے تعلقات رکھوں، مگر میں ان تینوں کو اس طرح بے یار و مددگار اس منجھدار میں چھوڑ کر تو نہیں جاسکتا تھا، اور نہ ھی میرا ضمیر گوارہ کرتا، بہرحال اب اس مشکل وقت کو کسی نہ کسی طرح لے کر تو چلنا تھا، !!!!!!

باجی کی طرفسے مجھے اب تک یہی پتہ چلا تھا کہ زادیہ کے شوھر نے کافی عرصہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا، اس کا یہی کہنا تھا کہ فی الحال زادیہ کو بھیج دو، اور باقی باجی اور خالہ کا ویزا بعد میں بھیجے گا شاید وہ زد پر اڑ گیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ کچھ دنوں بعد نہیں پہنچی تو اسے وہ طلاق دے دے گا، جس کے جواب میں میں نے باجی سے یہی کہا تھا کہ اگر خدا نخواستہ اگر ایسی بات ھوتی بھی ھے تو میں زادیہ سے شادی کرنے کیلئے تیار ھوں بشرطیکہ زادیہ اس کے لئے راضی ھو، ورنہ اسکی جو مرضی!!!! باجی اور ان کی امی بھی یہی چاھتی تھیں کہ اس سے زادیہ کا کسی نہ کسی طرح چھٹکارہ مل جائے اور مجھ سے اس کی شادی ھو جائے، !!!!!!

اور اسی دوران نیا سال 1979 بھی شروع ھوچکا تھا، اور میرا ٹرانسفر الظہران کے پروجیکٹ پر بھی ھوچکا تھا اور ادھر گھر سے میرے والد کا میری شادی کے لئے روزانہ دباؤ بڑھتا جارھا تھا اور وہ یہی چاھتے تھے کہ میرے دوست کی بہن سے میری شادی ھوجائے جن سے آخری بار اسی سلسلے میں ملنے ان کے گھر گئےتھے اور لڑکی کو بھی پسند کر آئے تھے، بعد میں اس دوست کے تمام گھر والے اور قریبی رشتہ دار بھی مجھے دیکھنے آئے، اور میرے بارے میں دوست کے والد جو یہاں میرے ساتھ تھے ان کی بھی رضامندی لے لی تھی، اور وہ یہاں میرا بہت خیال رکھتے تھے، میں تو دونوں طرفسے بری طرح پھنس گیا تھا کہ کیا کروں، میں نے آخری بار زادیہ کو خود ھی لکھا، کہ تمھیں اپنا بنانے کی ایک دل میں عرصے سے خواھش تھی اور اب بھی ھے اگر تم اسے پسند نہیں کرتی ھو اور اس سے علیحدہ ھونا چاھتی ھو، تو میں ھر وقت تمھارا دل سے منتظر رھونگا، میں تمھیں چاھتا تھا اور اب بھی میرے دل میں تمھارے لئے وہی جذبات ھیں، اور اگر تمھاری مرضی ھے تو مجھے لکھ دو، ھاں یا نہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ھوگا،!!!!!

ایک ھفتے کے بعد مجھے اس کا جواب ملا، جس کا کہ مضمون کچھ اس ظرح سے ملا جلا تھا،!!!! کہ ڈیر سید تمھاری اس قربانی کا بہت بہت شکریہ، میں نہیں چاھتی کہ کوئی مجھ پر ترس کھائے اور مجھ پر کسی طرح کا احسان کرے، میری جو بھی زندگی ھے جیسی بھی ھے میں اس میں بہت خوش ھوں اور میرے معاملات میں کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ مجھ پر احسان کرکے مزید مجھے پریشان کرے، میں ‌کسی کی بھی مہربانی کی قیمت میں اپنے آپ کو کسی کے احسان یا ھمدردی کے بھینٹ نہیں چڑھا سکتی، میرا یہی مشورہ ھے کہ تم اپنے والدین کی بات مان لو اور وہ جہاں کہتے ھیں شادی کرلو اور والدین کا جو بھی فیصلہ ھوتا ھے اپنی اولاد کیلئے بہتر ھی ھوتا ھے، اسی میں تمہاری اور ھماری بھلائی بھی ھے،!!!!! اور بھی بہت لمبا چوڑا خط لکھا تھا، جس کا مجموعی طور پر یہی مطلب تھا، میں تو زادیہ کا یہ خط پڑھ کر چکرا ساگیا، مجھے اس سے اس طرح کے جواب کی توقع نہیں تھی اور نہ اس سے اس طرح کے سخت گیر الفاظوں کی امید تھی، اس وقت ان حالات کے دوران میں نے یہ کبھی بھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ جو کچھ بھی میں ان کیلئے کررھا تھا کہ مجھے اس کے بدلے میں زادیہ کو پانے کی خواھش تھی، میں جو کچھ بھی کررھا تھا صرف ایک انسانیت کی رو سے اور ان سے جو بھی رشتہ تھا اس کے ناتے یہ تو میرا فرض بنتا تھا، اور میں کوئی اس پر ترس، رحم یا مہربانی نہیں کررھا تھا، نہ جانے اس کے دل میں یہ کیسے بات سما گئی،!!!!!!!!!

زادیہ کے اس طرح کے خط لکھنے سے مجھے بہت ھی زیادہ افسوس ھوا اور رات بھر میں سو نہیں سکا، دوسرے دن میں پریشان حال آفس میں ھی بیٹھا تھا کہ والد صاحب کا خط بھی موصول ھوگیا، انہوں نے تو بہت ھی جذبات میں ڈوب کر خط لکھا تھا جو میرے خیال میں ان کے الفاظ ھو ھی نہیں سکتے تھے، انہوں نے جو مجھے لکھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ بیٹا میں اب اپنے آپ کو بہت کمزور اور لاغر سمجھ رھا ھوں، نہ جانے کب اور کس وقت میری زندگی میرا ساتھ چھوڑ دے، بس میری اب آخری خواھش یہی ھے کہ میں تمھارا سہرا اپنی زندگی میں ھی دیکھ لوں، اگر تم یہاں اپنے دوست کی بہن سے شادی نہیں کرنا چاھتے تو مجھے تم اپنی پسند بتا دو یا جہاں تم چاھتے ھو میں تمھاری شادی جلد سے جلد کرنا چاھتا ھوں اور یہ میری بس تم سے التجا ھے اور یہ آخری میرے دل کی خواھش بھی ھے، مجھے فوراً اس کا جواب دو، ورنہ بیٹے تمھاری اپنی مرضی ھے جیسا چاھو،!!!!!!!

میں بھی کچھ زیادہ ھی جذبات میں آگیا تھا، دونوں خطوط کے الفاظوں کے جذباتی حدود، ایک دوسرے سے بالکل برعکس آپس میں اس طرح ٹکرائے کہ میں نے بھی مجبوراً اپنے فیصلہ کو والد صاحب کے حق میں کردیا، اور انہیں خط لکھ دیا کہ آپ اپنی مرضی سے جہاں آپ خوش ھیں وہیں میری شادی کر سکتے ھیں، بہتر یہی ھوگا کہ جہاں آپ اس وقت میرے دوست کی بہن سے میرے رشتے کیلئے بات چیت کررھے ھیں اور وہ لڑکی آپکو پسند بھی ھے، جن کے والد یہاں اسی کمپنی میں ملازم بھی ھیں، اور سب مجھ سے ھی امید باندھے ھوئے ھیں، تو میں یہی چاھوں گا کہ آپ وھاں جاکر ان کو اس شادی کیلئے ھاں کردیں،!!!!

اس سے پہلے کہ میں واقعات کو آگےبڑھاؤں، یہ بتاتا چلوں کہ جو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ والد صاحب زادیہ کا گھر ڈھونڈھتے ھوئے انکے گھر پہنچ گئے اور ان سے نہ جانے کس ظرح اور کیسے ملاقات ھوگئی، یہ تو مجھے معلوم نہیں ‌ھوسکا، بس اتنا ھی پتہ چلا کہ مجھے خط لکھنے سے پہلے والد صاحب ان سب سے ملے اور ان سے تمام گلے شکوئے دور کئے اور ان سب سے شاید یہی کہا کہ سید کیلئے ایک لڑکی دیکھی ھے، اور کافی عرصہ سے بات چیت چل رھی ھو اور میں نے انکو زبان بھی دے دی ھے اور وہ کچھ بتاتا بھی نہیں اور شادی سے بھی انکار کررھا ھے، صرف آپ لوگ ھی اسے اس بات پر راضی کرسکتے ھیں، اسے خط لکھ کر اس کو راضی کریں تاکہ میری عزت رہ جائے، کیونکہ مجھے معلوم ھے کہ وہ آپلوگوں کی بات کو کبھی نہیں ٹالے گا، اور اس کی شادی میں ساری تیاری بھی آپلوگوں نے ھی کرنی ھے،!!!!!

1979 کا سال چل رھا تھا، اور مارچ یا اپریل کا مہینہ تھا، والد صاحب میرا خط ملتے ھی میرے دوست کے ساتھ ھی جو ان کے ساتھ ھی ایک الگ سیکشن میں کام کرتا تھا، ان کے گھر پہنچ کر یہ خوشخبری سنادی کہ میرے بیٹے نے آپکی بیٹی سے اس شادی کیلئے رضامندی ظاھر کردی ھے، اور میرا دوست بھی بہت خوش تھا کیونکہ انکی والدہ بہت ھی زیادہ پریشان تھیں کیونکہ کافی دن ھوگئے تھے اور والد صاحب میری ھی وجہ سے انہیں اب تک کوئی جواب نہیں دے سکے تھے اور میرے دوست نے اپنی والدہ کو یہی کہا تھا کہ میری بہن کی شادی اگر ھوگی تو صرف سید سے ھی ھوگی، جبکہ ان کی والدہ کے پاس ان کی بیٹی کیلئے رشتے بھی آرھے تھے مگر وہ اپنے بیٹے کی وجہ سے مجبور بھی تھیں، لیکن والد صاحب کے پہنچنے سے پہلے وہ دل برداشتہ ھوچکی تھیں اور ایک اچھے رشتے کیلئے ھاں کہنے جا ھی رھی تھیں، کہ والد صاحب پہنچ گئے،!!!!!!!

یہ بھی بعد میں میرے علم میں یہ بات آئی کہ اسی دن وہاں سے وہ سیدھا زادیہ کے گھر پہنچے اور انہیں بھی مبارکباد دی اور شاید انکا شکریہ بھی ادا کیا ھوگا، کہ میرا بیٹا مان گیا ھے، اور انہیں تینوں کو وہ اپنے گھر پر بلا کر یہ کہتے ھوئے چلے گئے کہ اب جلدی سے ایک منگنی کی رسم ادا ھوجائے اور اس کیلئے آپلوگوں نے ھی تیاری کرنی ھے اور شادی کی بھی تاریخ وغیرہ بھی اسی دن رکھ لیں گے، کیونکہ سید بھی شاید مئی کے مہینے میں سالانہ چھٹی لیکر پہنچ جائے، وہاں سے وہ گھر پہنچے اور گھر پر امی اور بہن بھائیوں کو میرا خط دکھایا اور سب بہت ھی خوش ھوگئے، اور دوسرے دن باجی، زادیہ اور ان کی والدہ پہلی مرتبہ والد صاحب کی دعوت پر گھر پہنچ گئیں اور لازمی بات ھے کہ آپس میں گلے شکوئے بھی ھوئے ھونگے، چلو اسی بہانے ھی سہی دونوں فیملیوں میں تعلقات تو بحال ھوگئے،!!!!!!!

ھماری والدہ تو بالکل سیدھی سادھی تھیں، اس لئے زادیہ، باجی اور ان کی والدہ نے ھی اور میرے بہں بھائیوں نے ملکر تمام خریداری وغیرہ کی، ساتھ ھی منگنی کی تاریخ آپس میں ظے کرکے، اور تمام تیاری کرکے مقررہ تاریخ کو چند جان پہچان کے لوگوں کے ساتھ پہنچ گئیں، منگنی کی رسم بڑی دھوم دھام سے ادا ھوئی، اور یہ طے پایا کہ 9 جون 1979 کو نکاح اور رخصتی ھوگی، مجھے اس وقت پتہ چلا جب یہ ساری تفصیل بمعہ چار پانچ فوٹو گراف، کے ساتھ ایک رجسٹری پوسٹ کے ساتھ میرے چھوٹے بھائی نے بھیجی تھیں، ان تصویروں میں ھی باجی، زادیہ اور خالہ کو بھی میری ھونے والی دلہن کے ساتھ دیکھا، اور مجھے یہ حیرانگی ھوئی کہ والد صاحب نے کس طرح ان لوگوں سے دوستانہ ماحول پیدا کیا ھوگا جبکہ وہ ان سب سے سخت نفرت کرتے تھے،!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-72- شادی کی تیاریاں اور واپسی اپنے دیس کی طرف،!!!!!!

ھماری والدہ تو بالکل سیدھی سادھی تھیں، اس لئے زادیہ، باجی اور ان کی والدہ نے ھی اور میرے بہں بھائیوں نے ملکر تمام خریداری وغیرہ کی، ساتھ ھی منگنی کی تاریخ آپس میں ظے کرکے، اور تمام تیاری کرکے مقررہ تاریخ کو چند جان پہچان کے لوگوں کے ساتھ پہنچ گئیں، منگنی کی رسم بڑی دھوم دھام سے ادا ھوئی، اور یہ طے پایا کہ 9 جون 1979 کو نکاح اور رخصتی ھوگی، مجھے اس وقت پتہ چلا جب یہ ساری تفصیل بمعہ چار پانچ فوٹو گراف، کے ساتھ ایک رجسٹری پوسٹ کے ساتھ میرے چھوٹے بھائی نے بھیجی تھیں، ان تصویروں میں ھی باجی، زادیہ اور خالہ کو بھی میری ھونے والی دلہن کے ساتھ دیکھا، اور مجھے یہ حیرانگی ھوئی کہ والد صاحب نے کس طرح ان لوگوں سے دوستانہ ماحول پیدا کیا ھوگا جبکہ وہ ان سب سے سخت نفرت کرتے تھے،!!!!!!!

منگنی کی تصویروں میں زادیہ اور باجی کو دیکھ کر حیران تھا اور بار بار ان تصویروں کو دیکھ کر اپنی ھونے والی بیگم کے ساتھ ساتھ ان کو بھی دیکھ رھا تھا، ساتھ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رھا تھا کہ زادیہ کے چہرے پر کیسے تاثرات ھیں، تصویروں میں تو وہ بہت سنجیدہ سی نظر آئی، لیکن باجی کچھ مسکرا رھی تھیں مگر خالہ جان کچھ اداس اداس سی لگ رھی تھیں، بہرحال اب تو فیصلہ ھو چکا تھا مگر صرف مجھے زادیہ کے جواب سے بہت دکھ پہنچا تھا، اس سے مجھے اس بات کی توقع نہیں تھی، مگر کبھی یہ بھی دل میں خیال آیا کہ کہیں والد صاحب کے دباؤ میں آکر یا ان کی منت سماجت کی وجہ سے اس نے اس ظرح کا خط لکھا کہ میں والد صاحب کے فیصلے پر اپنا سر جھکا دوں، اوپر والا ھی بہتر جانتا ھے،

مجھے مئی کے مہینے میں ھی سال پورا ھونے والا تھا اور میں نے چھٹی کیلئے درخواست بھی دے دی تھی، اور میری سیٹ 31 مئی کی رات کی تھی، ایک اور واپسی کا سفر کراچی کیلئے تیار تھا، مگر مجھے اب کوئی اتنی زیادہ خوشی نہیں تھی، ادھر باجی کا ویزا ان کے چچا نے کسی نہ کسی طرح بھجوادیا تھا، اور میرے پہنچنے سے پہلے ھی وہ اپنے چچا کے پاس ابوظہبی پہنچ گئیں، اور یہ مجھے وہاں پہنچنے پر ھی پتہ چلا تھا، جس دن میں کراچی پہنچا اس دن شاید جمعہ کا دن تھا اور یکم جون کی تاریخ تھی، اور صبح صبح کا وقت تھا گرمی شدت کی تھی،!!!!!

جیسے ھی میں ائر پورٹ کے باھر نکلا تو سب گھر والے آئے ھوئے تھے سب بہں بھائی اور دوسرے عزیز اقارب بھی تھے، اور سب لوگ تقریباً پھولوں کے ھار لے کر آئے ھوئے تھے اور باری باری مجھے پہنا رھے تھے اور شادی کے ساتھ ساتھ حج اور عمرے کی مبارکباد دے رھے تھے، میں تو پھولوں کے ھار سے لد چکا تھا،سارے ھاروں کو گلے سے اتارا اور کسی کو پکڑا کر پھر سب گاڑی کی طرف چل دئے، جو کمپنی ھی کی طرف سے آئی تھی، ابھی میں گاڑی میں بیٹھنے والا ھی تھا کہ اچانک ایک رکشہ سامنے آکر رکا، میں نے دیکھا کہ اس میں سے پہلے زادیہ باھر نکلی اور اسکے بعد خالہ باھر آئیں اور انہوں نے مجھے گلے لگایا اور ماتھے پر پیار کیا، اور زادیہ نے ایک بہت ھی خوبصورت سا پھولوں کا ھار میرے گلے میں ڈالا اور ھاتھ ملاتے ھوئے مبارکباد دی، اور بس میں اسکے چہرے کو ھی دیکھ رھا تھا، اور اس نے اپنا چہرہ نیچے جھکایا ھوا تھا، !!!!!

زادیہ اور خالہ بھی ھمارے ساتھ ھی کمپنی کی گاڑی میں بیٹھ گئیں، اور سب گھر والے بھی اسی میں بیٹھ گئے جو ایک اچھی خاصی بڑی وین تھی، اس کے علاوہ اور بھی دوست اور احباب بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں اپنی فیملیوں کے ساتھ آئے تھے سب ایک قافلے کی صورت میں گھر پہنچے، اور کچھ تو ائرپورٹ سے ھی بعد میں گھر آنے کا وعدہ کرکے چلے گئے تھے باقی ساتھ ھی گھر تک آئے تھے اور کچھ دیر بعد وہ بھی شام کو آنے کا کہہ کر چلے گئے، زادیہ اور انکی امی گھر پر ھی تھے اور ایسا ھی لگ رھا تھا کہ جیسے وہ بھی اسی گھر کی خاص ممبر ھی ھوں، کتنے عرصے بعد میں ان کو اور ھمارے گھر والوں کو ایک ساتھ اس طرح ساتھ بیٹھے ھنستے بولتے دیکھ رھا تھا، اور سب مل جل کر اس طرح کام کررھے تھے کہ لگتا ھی نہیں تھا کوئی پرائے لوگ ھیں یہ معجزہ کیسے ھوگیا مجھے بہت ھی تعجب ھورھا تھا،

باجی کا پتہ چلا کہ وہ تو اپنے چچا کے پاس ابوظہبی گئی ھوئی ھیں، ھوسکتا ھے وہ زادیہ اور اس کے شوھر کے مسئلے کو اپنے چچا کے ساتھ مل کر سلجھانے گئی ھوں، انکی کمی مجھے بہت محسوس ھورھی تھی، کیونکہ ایک وھی تھیں جن سے میں ان سے اپنے دل کی بات کہہ سکتا تھا، زادیہ سے میں نے اپنے گھر پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مجھے دیکھ کر فوراً کترا جاتی تھی، اور کسی اور طرف متوجہ ھوجاتی، نہ جانے کیوں مجھ سے وہ کسی بھی موضوعّ پر بات کرنا ھی نہیں چاھتی تھی، خالہ سے میں ضرور بات کررھا تھا اور وہ مجھے اچھی طرح جواب بھی دے رھی تھیں، اور اگر زادیہ یا باجی کے بارے میں بات کرنا چاھتا تو وہ بھی اس موضوع پر کوئی بھی بات نہیں کرنا چاھتی تھیں اور مجھے بس اشارے سے ھی خاموش کرادیتیں، بس روزمرہ معمول کی ھی باتیں ھورھی تھیں اور میری ھونے والی دلہن کی تعریفیں اور میرے حج، عمرہ اور زیارتوں پر ھی وہاں کے بارے میں ھی باتیں ھوتی رھی،!!!!

آج شام کو ھی گھر پر دلہن کے گھر والے کچھ خاص ھی رسم کرنے آرھے تھے، آج ھی تو میں آیا تھا اور شادی میں ابھی 8 دن باقی تھے، ویسے بھی میں بہت تھکا ھوا تھا اور زادیہ کے بارے میں ھی بہت سے سوالات میرے ذھن میں پریشان کررھے تھے، اور زیادہ تر زادیہ ھی میری شادی اور تمام رسموں کی تیاری میں اھم کردار نبھا رھی تھی، سب کی سرغنہ لگ رھی تھی،!!!!!!

اور مجھے یہ بھی بعد میں پتہ چلا کہ وہاں میرے سسرال میں بھی زادیہ ہی ان کی تمام شادی کی تیاریوں میں ان کا ھاتھ بٹا رھی تھی، اور میری دلہن کی اچھی خاصی دوست بھی بن چکی تھی، اور ساتھ ساتھ میری ھونے والی دلہن کو خاص طور سے میرے بارے میں تفصیل سے بتا بھی رھی تھی، کہ تم بہت خوش قسمت ھو کہ تمھیں ایک بہت ھی اچھا ساتھی ملنے والا ھے، اور جو کچھ میں کہہ رھی ھوں اس پر عمل کروگی تو وہ ھمیشہ تمھارا ایک اچھا دوست بن کررھے گا اور میں چاھتی ھوں کہ تم اسکے ساتھ خوش رھو وغیرہ وغیرہ اس کے ساتھ ھی زادیہ نے میری تمام عادتیں، میری پسند اور نا پسند سب کچھ میری دلہن کو سمجھا دیا اور مجھے کھانے میں کیا کیا خاص طور سے پسند ھے، اور اسکا دیکھو اس طرح خیال رکھنا، اس ظرح نہ کرنا،!!! نہ جانے کیا کیا کہہ دیا،!!!! مگر اس وقت میری ھونے والی دلہن کچھ حیران بھی تھی کہ یہ سب کچھ اسکے ھونے والے دولہے کے بارے میں کیسے جانتی ھے اور مجھے کیوں ان کی تعریفیں اور عادات پسند نا پسند بتا رھی ھے، !!!!!!!

مجھے پریشانی اس بات کی تھی کہ وہ سب سے تو ھنس کر بات کررھی تھی اور مجھے جیسے ھی دیکھتی تو خاموش ھو جاتی، کئی دفعہ کوشش بھی کی لیکن کچھ بھی نہیں بس خاموشی ھی اس کا جواب ھوتا اور بس یہی کہتی بہت کام ھے راستہ چھوڑو، میں بھی چپ ھو جاتا، کبھی کبھی یہ میں نے اس کے منہ سے دوسری لڑکیوں سے یہ کہتے ھوئے ضرور سنا کہ آج کل کے لوگ تو بزدل اور ڈرپوک ھیں، یہ مجھے پر تنز کررھی تھی یا کوئی اور بات تھی میں کچھ سمجھ ھی نہیں سکا تھا!!!!!

گھر میں تو ھر طرف رونقیں لگی ھوئی تھیں، شام کو دلہن کے گھر والے کچھ رسموں کے بہانے محفل سجانے آنے والے تھے، میں یہ سب کچھ حیرانگی سے دیکھ رھا تھا، محلے کی لڑکیاں اور ھماری بہنیں بھی زادیہ کی ھی نگرانی میں ھر کام میں ھاتھ بٹارھی تھیں، کچھ بڑی بوڑھیاں بھی ایک طرف کونے میں بیٹھی اپنے گھر کا رونا رورھی تھیں کبھی کوئی اپنی بہؤ کی شکایت تو کوئی اپنی بیٹی کے سسرال میں ظلم کی داستان سنارھی تھیں، اور کوئی تو اپنے بیٹے پر جورو کے غلام ھونے کا الزام لگا رھی تھی، ان کے ساتھ ھماری والدہ اور زادیہ کی والدہ بھی بیٹھی ان کی ھاں میں ھاں ملا رھی تھیں خدارا ان عورتوں کو کب عقل آئے گی،!!!!!!

میں سونا بھی چاھتا تھا اور اس رونق میں بار بار زادیہ کی تمام حرکتوں پر نطر بھی رکھے ھوئے تھا، وہ بھی کنکھیوں سے مجھے دیکھتی بھی اور فوراً منہ دوسری طرف کرلیتی تھی، میں تو اس دن بہت ھی تھک گیا تھا ایک تو میں رات بھر کا جگا ھوا تھا اور ملنے والوں میں بھی کافی مصروف رھا، اور دوپہر کا کھانا کھا کر بس سب سے باتیں کرتے ھوئے، اسی ھنگامے میں وھیں فرش پر ھی ایک دری بچھی ھوئی تھی وہیں سو گیا تھا، کسی نے میرا سر آٹھایا اور میرے سر کے نیچے تکیہ رکھا، نیند کی غنودگی میں ھی ایک ھلکی سی اسکی جھلک دیکھی وہ زادیہ ھی تھی، !!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-73-اپنی ھی شادی میں اپنی محبت کا کردار!!!!!!

میں سونا بھی چاھتا تھا اور اس رونق میں بار بار زادیہ کی تمام حرکتوں پر نطر بھی رکھے ھوئے تھا، وہ بھی کنکھیوں سے مجھے دیکھتی بھی اور فوراً منہ دوسری طرف کرلیتی تھی، میں تو اس دن بہت ھی تھک گیا تھا ایک تو میں رات بھر کا جگا ھوا تھا اور ملنے والوں میں بھی کافی مصروف رھا، اور دوپہر کا کھانا کھا کر بس سب سے باتیں کرتے ھوئے، اسی ھنگامے میں وھیں فرش پر ھی ایک دری بچھی ھوئی تھی وہیں سو گیا تھا، کسی نے میرا سر آٹھایا اور میرے سر کے نیچے تکیہ رکھا، نیند کی غنودگی میں ھی ایک ھلکی سی اسکی جھلک دیکھی وہ زادیہ ھی تھی، !!!!!!!!

میری نیند اس شور میں بار بار ڈسٹرب ھور ھی تھی، اور کسی کمرے میں کوئی خالی جگہ بھی نہیں تھی، یہیں سب سے ھی بہتر تھا، آخر کو مجھے اٹھا ھی دیا کہ بس چلو اٹھو اور تیار ھوجاؤ، لڑکی والے آنے والے ھیں،شام ھو رھی تھی، میں نہا دھو کے تیار ھوگیا اور ایک نیا شلوار قمیض کا جوڑا پہنا جو شاید آج کی ھی تقریب کے لئے خریدا گیا تھا، بہت خوبصورت تھا اور پہننے کے بعد اور بھی اچھا لگ رھا تھا اور پتہ چلا کہ پسند بھی زادیہ کی ھی تھی، ھر چیز کے بارے میں پوچھو تو یہی جواب ملتا تھا کہ یہ بھی زادیہ نے ھی اپنی پسند سے خریدا ھے، میں بھی تیار ھوکر اپنے دوستوں کے ساتھ جو اسی تقریب کے لئے آئے ھوئے تھے اور کچھ کو تو اس تقریب کا پتہ ھی نہیں تھا، سب سے میں گپ شپ کرنے بیٹھ گیا، اور اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ھوگئی، ھر کوئی باھر کے ملک کے بارے میں ھی پوچھ رھا تھا، کیسی سروس ھے اور حج، عمرہ اور زیارت کی سعادت کی مبارکبادیں لوگ دیتے رھے،!!!!!

اسی اثناء میں پتہ چلا کہ لڑکی والے آگئے ھیں، ان کے ساتھ جو مرد حضرات آئے تھے وہ یہاں ھمارے پاس آگئے اور ھمارے سسر صاحب جو اسی کمپنی میں ریاض میں کام کررھے تھے، انہوں نے اپنے ساتھ آنے والوں سے میرا تعارف کرایا، اور باری باری سب سے گلے ملایا اور دعائیں لیں، جو مجھے جانتے نہیں تھے، اور ان کے بیٹے جو میرے دوست بھی تھے وہ یہیں اسی کمپنی میں میرے والد صاحب کے ساتھ ھی کام کرتے تھے وہ میرے پاس آئے اور گلے لگا کر انہوں خیر خیریت دریافت کی، اور وہاں کےحال احوال میں مصروف گفتگو ھوگئے، میں بھی رسماً سب سے ھر ایک کے مختصراً جواب دے رھا تھا، اور ان کے ساتھ آئے ھوئے بچے بھی میرے آگے پیچھے پھر رھے تھے، اور ایک دوسرے کو میری طرف ھی اشارہ کرکے بتا رھے تھے کہ یہی ھیں وہ جو باجی کے دولہا ھیں،!!!!

میرے دوست نے بتایا کہ یہ سب تمھارے سالے ھیں، مجھ سمیت ملاکر چھ بھائی ھیں، اور دو سالیاں بھی ھیں لیکن وہ تو بہت چھوٹی ھیں، میں نے کہا کہ یار ان سے بھی ملا دو، ایک تو اشارہ کرکے انہوں نے کہا دیکھو ایک تو تمھارے سسر کی گود میں ھے اور دوسری میرے ساتھ کھڑی ھے شاید تین سال کی ھوگی، میں نے حساب لگایا کہ یہ تو کل 9 بہن بھائی ھیں، سب سے بڑے تو میرے دوست ھی تھے، اور ان سے جو چھوٹی تھیں ان سے ھی میری شادی ھونے والی تھی، بس پہلی بار ھی منگنی کی تصویروں میں دیکھا تھا، ان کی عمر اس وقت شاید 18برس کی رھی ھوگی اور میری 29 سال، تقریباً 10 سال کا فرق تھا اور باقی 5 بھائی سب پڑھ ھی رھے تھے، اور 2 بہنیں تو ابھی چھوٹی ھی تھیں، خیر ھم بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے، ھم بھی تعداد میں آٹھ بہن بھائی، چار بہنیں اور چار بھائی ھیں، میں نے بھی سب کا تعارف اسی وقت کرادیا، میرا دوست تو پہلے ھی سے جانتا تھا، لیکن ایک دوسرے کے گھر آنا جانا نہیں تھا یہ پہلی بار ھی دونوں فیملیوں کا اس شادی کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات ھوگئی تھی،!!!!

کچھ ھی دیر میں رسم کے لئے عورتوں کے کمرے میں مجھے جانا پڑا، وہاں ایک کرسی میں بٹھا دیا گیا اور چاروں ظرف ایک ھنگامہ کمرہ تو خیر بڑا ھی تھا لیکن مہمانوں کی تعداد کچھ زیادہ تھی اور میری نطر سب سے پہلے زادیہ پر پڑی جو اپنی والدہ کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھی یہ سب تماشہ دیکھ رھی تھی، اور چپکے چپکے اپنی والدہ کے کان میں کچھ تبصرہ کرتی جارھی تھی، اور پھر ایک بڑا سا پھولوں کا ھار ھماری ساس نے میرے گلے میں ڈالا اور ھتیلی میں شاید کچھ پان کے پتے یا پتہ نہیں کچھ مٹھائی وغیرہ رکھی اور کچھ نوٹ وغیرہ میرے اوپر سے چکر لگا کر شاید نطر اتاری اور پھر بلائیں لیں، پھر انہوں نے ایک چمچ مٹھائی کا ایک ٹکڑا میرے منہ میں ڈال دیا، یعنی اس طرح رسم کا باقائدہ سے افتتاح ھو گیا، پھر باری باری سب کا تانتا لگ گیا اور سب نے وھی کیا جو ھماری ساس نے کیا تھا، میری تو حالت غیر ھوگئی، اس وقت میں زیادہ میٹھا نہیں کھاتا تھا، لیکن ھر کوئی بضد ھی تھا کہ وہ مٹھائی کھلاکر ھی چھوڑے گا، ایسا لگ رھا تھا کہ جیسے میرا مٹھائی کھانے کا کوئی مقابلہ ھو رھا تھا مجھے تو ایسا بھی محسوس ھوا کہ جیسے کہ قربانی کے بکرے کو قربانی سے پہلے رنگ و روغن کرکے ھار پھول وغیرہ پہنا کر چارہ کھلاتے ھیں اور اس کے آگے پیچھے خوب ھنگامہ ھوتا ھے، یہ سب کچھ ویسا ھی لگ رھا تھا، میں نے پھر زادیہ کی طرف دیکھا وہ بھی اپنی ھنسی ضبط نہ کرسکی تھی اور منہ چھپا کر اپنی اماں کی ساڑی کے پلو میں اپنا منہ چھپا رھی تھی،!!!!!!

میں نے بھی بڑی مشکل سے ضبط کرکے مٹھائی کھاتا رھا اور جب یہ مقابلہ ختم ھوگیا تو میں بھی تمام سامنے یٹھی ھوئی لڑکیاں جو سسرال سے ھی آئی تھیں، کرسی سے اتر اور ان کے سامنے جاکر بیٹھ گیا اور سب سے الٹا میں نے بھی مذاق شروع کردیا، کچھ تو دلہن کی سہیلیاں تھیں کچھ رشتے کی بہنیں تھیں، اور ایک دلہن کی سہیلی اور ایک کزن دونوں کچھ زیادہ تیز لگتی تھیں ان سے ھی مذاقاً اِدھر اُدھر کی گفتگو شروع کردی، اور دلہن کے بارے میں پوچھنا شروع کردیا کہ وہ کیسی ھے، کیا کررھی تھی، اور میرے بارے میں کیا رائے رکھتی ھے، وغیرہ وغیرہ، ایک بولی آپ تو بہت بے شرم ھیں ابھی شادی ھوئی نہیں اور ابھی سے حال احوال پوچھ رھے ھیں آپ تو بہت تیز لگتے ھیں اور ھماری سہیلی تو بہت معصوم اور بھولی بھالی ھے، !!! میں نے کہا کہ ھم بھی کچھ زیادہ ھی پہلے معصوم تھے، آپلوگوں کو دیکھ کر مجبوراً معصومیت چھوڑ دی ھم نے، اور میں نے بھی اسی طرح خوب مذاق کیا اور وہ لڑکیاں بھی خوب فری ھوگئیں،!!!!!

اور میں نے اچانک دیکھا کہ زادیہ اٹھ کر جاچکی تھی، شاید وہ یہ میرا اس طرح لڑکیوں سے مذاق کرنے سے وہ دلبرداشتہ ھوگئی ھو یا شاید پھر اور کسی کام سے چلی گئی ھو، کیونکہ مجھے میرا وہ لڑکپن کا زمانہ یاد آگیا جب زادیہ یہ دیکھتی کہ میں کسی لڑکی سے مذاق کررھا ھوں یا کوئی لڑکی مجھ نے فری ھونے کی کوشش کرتی تو وہ فوراً ھی مجھ سے ناراض ھوجاتی تھی، اور غصہ سے پیر پٹختی ھوئی چلی جاتی تھی، اور پھر اسے مجھے منانا بہت مشکل ھوتا تھا اور پھر میں باجی کا سہارا لیتا تھا، اب تو باجی بھی یہاں نہیں تھی!!!!!!!

مجھے فکر ھوگئی کہ زادیہ اٹھ کر کہاں چلی گئی، چھوٹا بھائی کیمرہ لئے اِدھر اُدھر تصویریں کھینچنے میں مگن تھا اور دلہن والوں کی طرف سے بھی فوٹو گرافی جاری تھی، شکر ھے کہ اس وقت یہ مووی بنانے کا چکر نہیں تھا، میرا ان لڑکیوں کے ساتھ شائستہ قسم کا مذاق چلتا رھا، میں نے دیکھا کہ زادیہ کچن میں میری بہنوں کے ساتھ کھانے وغیرہ کے انتطامات مین مشغول تھی، ایک کمرے میں عورتوں کیلئے اور دوسرے کمرے میں مردوں کیلئے کھانا لگایا گیا، بازار سے ھی شاید بریانی اور قورمہ بنوایا گیا تھا اور تافتان روغنی نان بھی کسی خاص نانبائی کے تندور سے خریدی گئی تھیں، مردوں کی بنسبت عورتوں کی تعداد کچھ زیادہ تھی اسی لئے ان کیلئے بڑے کمرے میں انتظام کیا گیا تھا، اور مین بھی دونوں ھی طرف کے انتظامات دیکھ رھا تھا، اور باری باری ھر ایک سے اخلاقاً اور رسماً پوچھتا بھی جارھا تھا، کہ ارے بھائی صاحب کھائیے نا، آپ نے تو ہاتھ ھی روک لیا، تکلف نہ کیجئے گا، کچھ تو ھمارے یہاں کے لوگ بہت واقعی بے تکلف تھے اور مذاق کا ذوق رکھتے تھے، اور جیسے ھی تھال سامنے جاتا تو ساری بوٹیاں کھینچ کر اپنی پلیٹ میں ڈال کر کہتے کہ ارے دولہے میاں یار کچھ بوٹیاں وغیرہ کچھ نطر نہیں آرھی ھیں، اپنے دوست یعنی دلہن کے بھائی سے بھی کہتا جاتا کہ دیکھو اپنے لوگوں کو کہیں تکلف نہ کریں، میں بھی سب سے ھر ممکن پوچھتا رھا، اور میرے ساتھ ساتھ زادیہ بھی عورتوں میں سب کی بہت اچھی طرح مہمان نوازی کررھی تھی، سب سے تو مسکرا مسکرا کر پوچھ رھی تھی اور جیسے ھی میری طرف نطر پڑتی بالکل سنجیدہ ھوجاتی، میں نے کیا قصور کیا تھا پتہ نہیں؟؟؟؟؟

کھانے کا دور ختم ھوا تو میٹھے کا دور چلا جس میں شاید زردے کے میٹھے چاول ھی تھے، آخر کو یہ رسم ختم ھوئی تو جان میں جان آئی، بس میں تو سب کو رخصت کرنے کےلئے باھر گیا، دلہن کی والدہ بار بار مجھے اپنے برقے کے نقاب میں سے جھانک جھانک کر دیکھ رھی تھیں، مگر پتہ نہیں انھوں نے گھر پر صحیح طرح سے دیکھا بھی تھا یا نہیں کیونکہ وہ بےچاری بھی بہت ھی سیدھی سادھی تھیں، مجھے دیکھ کر شاید اپنی بیٹی کے قسمت کا اندازہ لگانا چاھتی ھونگی، اور میں وھیں سے اپنے دوستوں کے ساتھ باھر ٹہلنے چلا گیا، میں نے تو کھانا کھایا ھی نہیں تھا اور سب اپنے اپنے چکر میں تھے اور مجھے کسی نے نہیں پوچھا، وہاں گھر پر مجھے ڈھونڈ رھے تھے، جس جس نے کھانا نہیں کھایا تھا ان کیلئے آخیر میں گھر پر ھی دستر خوان بچھا دیا گیا تھا، میں بھی کسی کے بلانے پر گھر پہنچا، تو سب کھانے میں مشغول تھے بہرحال میں بھی جگہ بنا کر بیٹھ ھی گیا، اور کھانے وغیرہ سے فارغ ھوئے تو کافی رات ھوچکی تھی، اور سب لوگ تو باتوں میں لگ گئے ، میں پھر باھر نکل آیا، باھر گیٹ کے پاس ھی آس پاس کے ھی دوست باھر کھڑے تھے، ان سے ھی کافی دیر تک گپ شپ لگاتا رھا، کیونکہ ایک سال کے بعد ھی ان سب سے ملاقات ھوئی تھی، اور آج سارا دن میں ھی اس رسم کی وجہ سے ھی باھر نکلنے کا موقع نہیں ملا تھا،!!!!

کافی دیر کے بعد ابا جی کے اندر سے ھی چیخنے چلانے کی آواز آئی کہ بلاؤ اسکو اتنی رات ھوگئی ھے اور کہو کہ سو جائے اسے صبح میرے ساتھ آفس جانا ھے اور بہت کچھ کام بھی ھے، میں نے دل میں سوچا کہ یہاں پر بھی اس کمپنی میں چھٹیوں میں کیا کام کرنے کا رواج ھے کیا، میں اندر آگیا اور والد صاحب نے اپنی حساب کتاب کی ڈائری کھول دی، اور تمام شادی کے انتطامات کے بارے میں مجھے بتانے لگے، میں نے کہا کہ جو کچھ بھی آپنے انتطام کیا ھوگا بہتر ھی ھو گا، زادیہ اور میری بہنیں تو اُوپر کے کمروں میں سونے جاچکی تھیں اور نیچے خالہ ھماری امی سے بات چیت میں مصروف تھیں اور باقی فیملیز جو دور سے آئے ھوئے تھے، وہ بھی تقریباً اوپر کے کمروں میں ھی ان کا سونے کا انتظام کیا گیا تھا، اور مرد حضران نیچےبرابر کے کمرے میں سب کیلئے نیچے فرش پر ھی بستر لگا دیا گیا تھا، اور ایک دو تو صحن میں ھی چارپای لگا کر چادر اوڑھے خرانٹے بھر رھے تھے!!!!!

میں بھی اسی کمرے میں ایک بڑے صوفے پر ھی چادر تان کے سو گیا اور صبح سورج چڑھنے کے بعد ھی آنکھ کھی، والد صاحب تو دفتر جاچکے تھے، لیکن ہدایت دے گئے تھے کہ جب بھی نواب صاحب اٹھیں تو دفتر بھیج دینا، میں نے بھی ھاتھ منہ دھو کر ناشتہ وغیرہ کیا، ناشتہ بھی زادیہ نے ھی لا کر میرے سامنے رکھا، اور ناشتے سے فارغ ھوتے ھی چائے بھی زادیہ ھی لے کر آئی اور میرے ہاتھ میں تھما دی، اور ناشتے کے برتن اٹھا کر چلی گئی، نہ جانے کیوں میرا اتنا خیال کررھی تھی، مگر مجھ سے صحیح طرح بات نہیں کرتی تھی، پھر تیار ھوکر بیٹھا ھی تھا کہ ایک دوست اپنی موٹر سائیکل پر آگیا، میری اتنی اچھی خوبصورت موٹرسائیکل کو والد صاحب نے موقعہ پا کر میرے سعودی عرب جاتے ھی بیچ دی تھی، کیونکہ اسے روزانہ چھوٹے بھائی صاحب گھماتے پھرتے تھے، خیر میں پھر اپنے دوست کے ساتھ آفس چلاگیا!!!!!!

دنوں کا پتہ ھہی نہیں چلا اور مہندیوں اور مائیوں کی رسمیں بھی ھمارے والد صاحب کے حکم سے اپنے اپنے گھروں میں منا لیں، کیونکہ آنے جانے کیلئے کیلئے کافی فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا، کراچی کے ایک کونے میں ھمارا گھر تھا اور لڑکی والوں کا گھر سمندر کے کنارے تھا، اور ایک طرف کا فاصلہ اس وقت تقریباً 50 کلو میٹر تو ھوگا ھی، لیکن ایک بات تھی کہ ان کے گھر کے نذدیک ھی سمندر تھا جسکی لہروں کے شور کی آوازیں ان کے گھر تک سنائی دیتی تھیں، مگر تمام لڑکیوں نے مجھ سے اس بات کی شکایت تو کی تھی کہ یہ کیا بات ھوئی، کہ مھندی کی رسم اپنے اپنے گھروں میں ھوگی، مگر زادیہ نے کوئی شکایت نہیں کی اور نہ ھی وہاں رھتے ھوئے اپنے لئے کوئی فرمائیش کی، !!!!!

ایک تو وقت کم تھا اور ابھی تک بہت ساری تیاری باقی تھی، والد صاحب اپنے دفتر کے دوستوں کے ساتھ باھر کے تمام شادی کے انتظامات میں لگے ھوئے تھے اور اندر کے تمام کاموں کی زادیہ ھی نگرانی کررھی تھی اور ساتھ محلے کی لڑکیاں اور بہنیں بھی مدد کررھی تھیں، میں تو بس ھاتھ پر ھاتھ دھرے مہمان نوازی میں ھی مصروف رھتا تھا، گھر پر مھندی اور مائیوں کی رسمیں بھی ھوگئیں اور لڑکیوں نے ڈھولک پیٹ پیٹ کر پوری گلی میں شور ڈالا ھوا تھا اور باھر سے میرے چھوٹے بھائی نے پورے گھر کو ایک الیکٹرک ڈیکوریشن والے کے ساتھ مل کر بہت ھی خوبصورت طریقے سے جھل مل کرتی ھوئی رنگ برنگی لائیٹوں سے سجایا ھوا تھا اور روزانہ اس میں کسی نئی روشنی کا اضافہ بھی ھوجاتا تھا، !!!

آخر کو وہ دن آھی گیا، یعنی 9 جون 1979 بروز ھفتہ جس دن میں ایک شادی کے خوبصورت بندھن میں بندھنے جارھا تھا، ایک عجیب سی ھی کیفیت تھی، شادی کارڈ بھی بھائی نے بہت ھی خوبصورت چھپوائے ھوئے تھے، اس وقت شادی کے ھال کا اتنا رواج نہیں تھا، گھر کے سامنے کسی بڑی گلی میں یا کوئی میدان ھو تو وہیں گنجائیش کے مطابق شامیانہ لگادیا جاتا تھا اور اسٹیج وغیرہ کا انتظام بھی ھو جاتا تھا مگر اس زمانے میں یہ بات ضرور تھی کے دلہن کو شامیانے میں دولہا کے ساتھ کبھی نہیں بٹھایا جاتا تھا، جیسا کہ آج کل ھوتا ھے، ھمیں شام کو سات بجے بارات لے کر دلہن کے گھر پہنچنا تھا جس کے لئے کم از کم دو گھنٹے سفر میں ضرور لگ سکتے تھے، اور شام کے چھ بج چکے تھے لیکن ابھی دور دور تک کوئی سواریوں کا اتا پتہ نہیں تھا، کنٹریکٹ کی دو بسیں اور ایک سجی ھوی کار کا بے چینی سے انتظار تھا، جن صاحب کے ذمہ یہ کام تھا وہ ابھی تک بسوں اور کار کو لےکر نہیں پہنچے تھے، اور اس کے علاؤہ ایک ملٹری بینڈ بھی تھا لیکن وہ اپنی گاڑی میں پہنچ چکے تھے، اور شام پانچ بجے سے بینڈ پر نغمے سنارھے تھے اور میں سوٹ بوٹ میں تیار اوپر سے ایک من کا سہرا اس گرمی میں لادے ھوئے تھا اور میں پسینے میں شرابو ایک کرسی پر بیٹھا ھوا شام 5 بجے سے خوار ھو رھا تھا، اور میرا یہاں اپنا ھی بینڈ بج رھا تھا!!!!!

آج میں ابنے عملی زندگی کے بہت ھی حساس اور نازک دور میں داخل ھونے جارھا تھا، جس کا مرکز پوری زندگی کے بہت ھی نازک سے محیط دائرہ میں مقید ھوتا ھے، جو ایک ذرا سی غلط جنبش سے اس زندگی کے محیط دائرہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرسکتا ھے، یہ ایک زندگی کا بہت ھی ایک اھم فیصلہ ھوتا ھے لیکن بعض لوگ اسے محض وقت گزاری کا ایک مشغلہ بھی سمجھتے ھیں، اور کچھ تو بس ایک فریضہ سمجھ کر پوری زندگی اپنے ازدواجی زندگی کے حقوق کو نطر انداز کر کے گزار دیتے ھیں اور اس کے تقدس بندھن کے رشتے کی جذباتی اور حساس قدروں کو پامال کردیتے ھیں، جس کی وجہ سے پوری ازدواجی زندگی پریشانیوں اور دکھوں کے ساتھ ایک کرب کے عالم میں گزرتی ھے،!!!

کیا ھم نے اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے سوچا ھے یا اسے افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی ھے، یا کبھی یہ سوچا ھے کہ اس طرح کی نوعیت میں آپکی اپنی اولاد پر کیا اثر پڑتا ھے، ؟؟؟؟؟

میں نے اپنی اس کہانی سے اپنی زندگی کے ھر اچھے اور برے پہلو پر روشنی ڈالنے کی ھر ممکن کوشش کی ھے جسے اگر غور سے پڑھا جائے تو ھم بہت کچھ اپنی زندگی میں اچھی او خوشگوار تبدیلیاں لا سکتے ھیں، اگر ھم کچھ کسی سے سبق سیکھنا چاھیں تو کوئی مشکل نہیں ھے، اگر ھم اپنے دل سے اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانے اور دوسروں سے اسکا موازنہ کریں، جو اچھائیاں ھیں اسے اپنا لیں اور جو برائیاں نطر آتی ھیں اسے چھوڑ دیں، اس میں صرف آپکے اپنے مصمٌم ارادے کا عمل دخل ھے اور کچھ بھی نہیں، جب تک آپ اپنی سوچ کو مثبت پہلؤں کی طرف مائل نہیں کریں‌ گے، آپ اپنے اندر کوئی بھی بہتر اور خوب تر انقلاب نہیں لاسکتے،

اسی طرح میری کہانی میں آپ خود ایمانداری سے اچھے اور بُرے پہلؤں کو تلاش کیجئے اور ساتھ ھی اپنی زندگی کو ایک مثالی مشعل راہ پر گامزن کرنے کی کوشش بھی کیجئے، !!!!!!


جون کی گرمی میں دولہا بنا ھوا، اُوپر سے سوٹ چڑھایا ھوا، اور سونے پر سہاگہ سر سے پیر تک بھاری بھر کم تازہ پھولوں کا بنا ھوا سہرا، اور اسی حالت میں مجھے عصر کی نماز پڑھانے گھر کے سامنے کی مسجد میں لے گئے، پسینے میں نہایا ھوا واپس ھوا، گھر کے اندر جانے لگا تو اندر جانے سے منع کردیا کیونکہ دولہا ایک دفعہ گھر سے باھر نکلے تو واپس بغیر دلہن کے گھر میں داخل نہیں ھوسکتا، وجہ یہ تھی کہ اس وقت یہ ایک بُرا شگون مانا جاتا تھا، یہ ایک اور مشکل آگئی، گھر کے باھر ھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا، ایک چھوٹا سا شامیانہ لگا ھوا تھا، اس میں بٹھا دیا گیا، بس چارے کی کمی تھی، ورنہ یہی لگتا کہ قربانی کے دنوں میں کوئی سجا سجایا قربانی کا بکرا شامیانے میں قربانی کیلئے تیار بیٹھا ھے، !!!!

صرف ایک ھی دری اس شامیانے میں تھی اور کرسی گھر کے اندر سے منگوائی اور میں اکیلا اس پر سہرا باندھے بیٹھا ھوا تھا، میرے چاروں طرف بچے چکر لگا رھے تھے اور جیسے ھی موقعہ ملتا سہرے کے پھول توڑ کر بھاگ جاتے، مجھے کچھ بھی نظر نہیں آرھا تھا، بڑی مشکل سے ھاتھ سے سہرے کو ھٹاتا، باھر کا نظارا دیکھتا اور ساتھ ھی کچھ ھوا بھی کھانے کو مل جاتی، اور پسینہ تھا کہ خشک ھونے کا نام ھی نہیں لیتا تھا، جبکہ اس وقت سہرے کو ھٹانا بھی بدشگونی تھی، یہ بھی ممنوع تھا کہ نکاح سے پہلے دولہا اپنا منہ نہیں دکھا سکتا تھا کیا کیا توھمات اور بدعتیں اس وقت لوگوں نے پال رکھی تھیں، !!!!!

دو لڑکے میری چوکیداری کررھے تھے، اس کے باوجود شرارتی بچے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے تھے، ایک کسی دوست نے نوٹوں کا ھار بھی ڈال دیا تھا اور مجھے کان میں سنا بھی دیا تھا کہ 100 روپے کا ھار ھے خیال رکھنا، اس میں سے بھی بچوں کو موقعہ مل گیا تھا کہ ایک ایک نوٹ اس طرح توڑ رھے تھے جیسے درختوں سے پتٌے اور دوسری طرف بینڈ باجے والے شروع تھے اور وہ بھی میرے نذدیک آکر چکر لگاتے ھوئے بینڈ بجاتے ھوئے مارچ پاسٹ بھی کررھے تھے، ان کے ڈرم بجانے والے کو تو شاید مجھ سے کوئی دشمنی ھی تھی جو کہ عیں میرے کانوں کے پاس آکر ھی ڈرم پر اپنا ڈنڈا زور سے چلاتا کہ میرے کاں کے پردے تھر تھرانے لگتے اور کچھ شوقیہ نوجوان میرے اوپر سے نوٹوں کو گھما پھرا کر بینڈ والے کو دے رھے تھے یا شاید اپنی جیب مین واپس ڈال رھے تھے، اور کچھ تو نہ جانے شاید سکے میری طرف اچھالتے تو سارے بچے سکے چننے کیلئے میرے اوپر ھی کود جاتے کئی دفعہ تو میں کرسی سے گرتے گرتے بچا، کیا عجب تماشہ تھا، مجھے تو لگتا کہ شاید ھی میں بالکل صحیح سلامت نکاح کیلئے پہنچ سکوں!!!!

شام کے پانچ بجے یہاں ھمارے گھر سے برات کو روانہ ھونا تھا، سات بجے نکاح کا ٹائم تھا اور اس وقت سات تو یہیں بجنے والے تھے، باراتی بھی جمع ھوچکے تھے اور مرد اور بچے میرے چھوٹے سے شامیانے کے گرد چکر لگا رھے تھے، ایسا بھی لگ رھا تھا کہ شاید الیکشن کا زمانہ ھے اور ووٹ مانگنے کیلئے میں کوئی امیدوار ھاتھ پھیلائے ھار پھول پہنے بیٹھا ھوں، بسیں اب تک نہیں پہنچی تھی اور سجی ھوئی کار جو میرے لئے آنی تھی اس کا بھی دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا، ادھر والد صاحب کا پارہ گرم، انکی چیخ پکار میرے کانوں تک پہنچ رھی تھی، !!! اگر کام نہیں آتا ھے تو ذمہ داری کیوں لیتے ھیں ان لڑکوں کا تو دماغ ھی خراب ھے، کام کے نہ کاج کے، الو کے پٹھے، گدھے، کام چور،!!!! اور نہ جانے کیا کیا شور کرھے تھے، تقریباً سارے مہمان آچکے تھے، گھر میں سجی سجائی زرق برق لباسوں میں ملبوس عورتوں اور لڑکیوں سے بھرا ھوا تھا، پریشان حال ایک دوسرے سے کوئی اپنے بچوں کا پتہ پوچھ رھی تھیں، اور کچھ تو حسب عادت ایک دوسرے کے کپڑوں اور زیورات کی معلومات میں ھی الجھی ھوئی تھیں، اور باھر مرد حضرات انتظامات کی بدنظمی کے بارے میں بحث کررھے تھے،!!!!!!

وہاں دلہن والوں کا کیا حال ھورھا ھوگا، وہ بھی ھمیں گالیاں ھی دے رھے ھونگے، شکر ھے کہ سوا سات بجے بسیں تو پہنچ گئیں، پتہ چلا کہ وہ بسیں کسی غلط علاقے میں پہنچ گئی تھیں، اور سجی ھوئی کار ان بسوں کے آگے ھی تھی لیکن یہاں آتے آتے مین روڈ ایک سگنل سے اندر ھمارے علاقے کی طرف مڑگئی لیکن پیچھے بس والے نے نہیں دیکھا وہ سیدھا ھے نکل گیا اس کے پیچھے دوسری بس بھی چلاچل، اور سجی ھوئی کار میں دفتر کے دو تین دوست موجود تھے، جن کی ذمہ داری مٹھائی کا ٹوکرے، نکاح کے چھوارے اور دلہن کا سہرا، ساتھ گاڑیوں کا انتظام وغیرہ تھا ایک تو ویسے ھی لیٹ ھوچکے تھے، پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ بسیں ھی غائب تھیں انہوں نے کچھ آگے جاکر پھر واپس کار کو موڑ لیا تھا اور بسوں کو ڈھونڈنے چلے گئے، اور یہاں بسیں تو پہنچ گئیں لیکن دولہے کی کار غائب، لے بھیا ایک اور مشکل آن پڑی،!!!!

خیر والد صاحب نے اعلان کردیا کہ پہلے ساری خواتین بس میں چڑھ جائیں، یہ سنتے ھی ساری خواتیں کا ایک ریلا گھر سے تیزی سے گرتا پڑتا نکلا کچھ بچے ادھر گرے کچھ ادھر اور سیدھے بس میں خواتیں گھس گئیں، بچوں کی کسی کو فکر نہیں تھی بے چارے انکے شوھر حضرات ھی اپنے اپنے بچوں کو ڈھونڈتے پھر رھے تھے، بسوں میں ایک شور برپا تھا، بچوں اور خواتین کی چیخ و پکار اور کھڑکی میں ھی سے ساری عورتیں اپنے اپنے لوگوں کو اپنے بچوں کو ڈھونڈنے کی ہدائت دے رھی تھیں، کئی عورتوں نے بسوں میں ساتھ کی سیٹوں پر بھی قبضہ کیا ھوا تھا، کسی کو بیٹھنے نہیں دے رھی تھیں، بڑی ھی مشکل تھی، ایک اور بس کا انتطام کرنا پڑا تو کہیں جاکر سب باقی جن کو جگہ نہیں ملی تھی اس میں بیٹھ گئے،!!!!!

اور خاص خاص گھر کی عورتیں گھر پر ھی تھیں ان کے لئے کمپنی کی دو وین ٹائپ بھی گاڑیاں الگ سے کھڑی تھیں، اور آخیر میں یہ بھی کمپنی کی دونوں وین میں جاکر بیٹھ گئیں، اور مغرب کا وقت بھی گزر چکا تھا، اور میں بےچارہ اکیلا دو بھائیوں کے ساتھ ٹینٹ میں اب تک کرسی ڈالے سوٹ بوٹ پہنے بھاری بھرکم سہرا سر پر چڑھائے دولہے کی کار کے انتطار میں بیٹھا اپنی قسمت کو کوس رھا تھا کہ یہ کیا مصیبت ھے شادی ھے یا کوئی طوفان بدتمیزی ھے، یہ کیسا انتطام تھا ھر کوئی اپنی ھی مرضی کررھا تھا اور مجھے شام کے پانچ بجے سے باھر شدید گرمی میں سوٹ بوٹ اوپر سے ایک من کا سہرا باندھ کر بٹھا دیا تھا اور ایک نوٹوں کا ہار بھی تھا شاید سارے نوٹ بچے ھی توڑ کر لے گئے تھے، اور اب شاید ساڑے سات بج رھے تھے ، آپ خود سوچئے کہ میرا کیا حال ھوا ھوگا، پسینہ تو کئی دفعہ نکلا اور کئی دفعہ خشک بھی ھوگیا، میرے اندر کی حالت میں ھی جانتا تھا، دس پندرہ منٹ کی بےھوشی کی نیند بھی وھیں کرسی پر بیٹھے بیٹھے لے لی تھی،!!!!

میرا کوئی خاص ھی امتحان اوپر والا لے رھا تھا، سب گاڑیاں ساتھ بینڈ باجے والوں کی پک اپ بھی چلنے کو تیار، بس دولہے کی کار کا انتظار، اخر وہ انتطار کی گھڑی ختم ھوئی اور شامیانے کے عیں سامنے کار کو لایا گیا اور مجھے اٹھانے کی کوشش کی گئی، لیکن ایسا لگتا تھا کہ میرا سارا جسم ھی سن یعنی ساکت ھوگیا ھو بڑی مشکل سے اٹھا، اور بھائیوں نے سہارا دیتے ھوئے اٹھایا اور کار کی پچھلی سیٹ میں بٹھا دیا گیا، سامنے ڈرائیور کے ساتھ شاید مجھ سے چھوٹا بھائی بیٹھ گیا، اور میرے ساتھ بیٹھنے کیلئے باھر جھگڑا ھو رھا تھا کہ دولہے کے ساتھ کس کو بٹھایا جائے، نہ جانے کیا فیصلہ ھوا کہ ایک دروازے سے اسلام آباد سے آئی ھوئی میری کزن بیٹھی اور دوسرا دروازہ کھلتے ھی مجھے ایک جانی پہچانی سی خوشبو آئی، میں نے اپنے سہرے کے جھروکوں سے جھانکا تو کیا دیکھتا ھوں کہ زادیہ ھی میرے ایک سائڈ پر بیٹھنے کی کوشش کر رھی تھی،!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں-74- شادی کی دھوم دھام اس وقت کے دور میں، !!!!!!

میرا کوئی خاص ھی امتحان اوپر والا لے رھا تھا، سب گاڑیاں ساتھ بینڈ باجے والوں کی پک اپ بھی چلنے کو تیار، بس دولہے کی کار کا انتظار، اخر وہ انتطار کی گھڑی ختم ھوئی اور شامیانے کے عیں سامنے کار کو لایا گیا اور مجھے اٹھانے کی کوشش کی گئی، لیکن ایسا لگتا تھا کہ میرا سارا جسم ھی سن یعنی ساکت ھوگیا ھو بڑی مشکل سے اٹھا، اور بھائیوں نے سہارا دیتے ھوئے اٹھایا اور کار کی پچھلی سیٹ میں بٹھا دیا گیا، سامنے ڈرائیور کے ساتھ شاید مجھ سے چھوٹا بھائی بیٹھ گیا، اور میرے ساتھ بیٹھنے کیلئے باھر جھگڑا ھو رھا تھا کہ دولہے کے ساتھ کس کو بٹھایا جائے، نہ جانے کیا فیصلہ ھوا کہ ایک دروازے سے اسلام آباد سے آئی ھوئی میری کزن بیٹھی اور دوسرا دروازہ کھلتے ھی مجھے ایک جانی پہچانی سی خوشبو آئی، میں نے اپنے سہرے کے جھروکوں سے جھانکا تو کیا دیکھتا ھوں کہ زادیہ ھی میرے ایک سائڈ پر بیٹھنے کی کوشش کر رھی تھی،!!!!!!!!!

مجھے تو بہت ھی تعجب ھوا کہ یہ اچانک میرے برابر میں زادیہ کیوں آکر بیٹھ گئی اور دوسری طرف میری کزن، جس کا نام نور تھا اور اسلام آباد سے ھی خاص طور سے میری شادی میں شرکت کرنے کیلئے ھی آئی تھی، یہ تو شاید کچھ گھر والوں کی شرارت ھوگی ورنہ کم از کم ان حالات میں زادیہ تو کبھی بھی بیٹھنے کی جرٌت نہیں کرسکتی تھی، میں سچ بتاؤں تو کچھ کچھ دل میں اسے دیکھ کر خوشی بھی محسوس ھو رھی تھی کہ زادیہ کے ساتھ شادی تو نہ ھو سکی لیکن کم سے کم آج وہ کافی عرصہ بعد میرے ساتھ بیٹھی تو ھے، وہ بھی ایک دولہے میاں کے ساتھ، وہ بیٹھ تو گئی مگر راستے بھر اس نے کوئی ایک بات تک نہیں کی، جبکہ میں نے راستہ میں ایک مرتبہ اسکا ھاتھ پکڑا تو اس نے بری طرح جھٹک کر اپنا ھاتھ مجھ سے چھڑا لیا، اب بھی اس میں بہت طاقت تھی،!!!!!

جب میں نے دیکھا کہ وہ کچھ بات کرنا ھی نہیں چاھتی تو میں اپنی کزن نور کے ساتھ ھی اپنی گفتگو جاری رکھی، اور اپنے اسلام آباد کے ان سنہرے دور کے بارے میں ھی باتیں کررھا تھا، جب میں اپنی راولپنڈی میں ان کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتا تھا، وہ بھی خوب مزے مزے سے ان یادوں کو دھرا رھی تھی، اور میں بھی زادیہ کو تنگ کرنے کیلئے کچھ زیادہ ھی نور کو یاد دلا رھا تھا، میں نور کو بھی اپنے بچپن سے جانتا تھا، اور زادیہ سے پہلے ھی ھمارے پرانے محلے میں اسی زادیہ کے گھر میں ھی نور اور اسکے گھر والے رھتے تھے، مگر ان کے والد کو ان کی کمپنی کی طرفسے مکان مل گیا تھا، اس لئے اپنا مکان زادیہ کے گھر والوں کے حوالے کرگئے تھے، کاش کہ نور وھاں سے نہ جاتی، لیکن نہ جانے قسمت کوکیا منظور تھا، نور تو چلی گئی لیکن زادیہ کو میرے سپرد کرگئی، اس وقت میں شاید پانچویں جماعت میں تھا، مگر اکثر بیشتر نور اپنے والدین کے ساتھ ھمارے گھر آتی جاتی تھیں، اور زادیہ اور ان کے گھر والے بھی ایک ساتھ ھمارے گھر ایک اچھا وقت گزارتے تھے، نور اور انکے گھر والے بھی بہت اچھے تھے،بعد میں ان کے والد کے تبادلے کی وجہ سے وہ لوگ اسلام آباد ھی شفٹ ھوگئے، جب تک میں راولپنڈی میں رھا ان سب نے میرا بہت خیال بھی رکھا تھا، !!!!!!

ھاں بات ھو رھی تھی اپنی بارات کی جس میں دولہا بنے اپنے گھر سے ایک پوری بارات کے ساتھ ایک سجی سجائی کار میں جارھے تھے، ایک طرف میری کزن نور اور دوسری طرف زادیہ تھی، زادیہ ویسے بھی اس بدانتظامی سے بہت پریشان تھی اور پروگرام کے مطابق اسے تو شام کو چار بجے ھی دلہن کے گھر پہنچنا تھا، اور وہاں پر اس نے دلہن کو تیار کرنا تھا، میک اپ اور دوسرے انتظامات بھی کرنے تھے، زادیہ ھی دونوں طرف کے گھر کے اندر کے انتظامات دیکھ رھی تھی، کیونکہ یہ ایک شادی کی اتنی بڑی تقریب پہلی ھی مرتبہ ھی ھو رھی تھی اور دونوں گھر والوں کے لوگ بہت ھی سیدھے سادہ پر خلوص لوگ تھے اور انہیں شادیوں کا کوئی خاص تجربہ بھی نہیں تھا اس لئے زادیہ دونوں ھی طرف کے اندر کے تمام معاملات کو اچھی طرح سنبھال بھی رھی تھی، !!!!

زادیہ کی ان خدمات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ھے اس نے ایسے وقت میں دونوں فیملیوں کا بہت ساتھ دیا، جبکہ شادی کی تیاریوں کے بارے میں کوئی کسی کو خاص تجربہ نہیں تھا، بارات کی ترتیب ایسے تھی کہ میری کار کے آگے کچھ اور دوستوں اور عزیز و اقارب کی اپنی اپنی سواریوں میں تھے، میرے پیچھے ھماری خاص فیملیز دو وین میں تھی، اس کے پیچھے بینڈ باجے والوں کی وین تھی اور اسکے پیچھے تین بسیں کھچاکھچ بھری ھوئی تھیں پتہ نہیں اتنے باراتی کہاں سے آگئے تھے، لگتا تھا کہ سارے علاقے کا بلاؤہ تھا، بڑی مشکل سے اس علاقے میں تقریباً رات کے 9 بجے پہنچے اور پتہ چلا کہ ایک بس اور بینڈ باجے والے کسی اور طرف نکل گئے، تو سب کو کچھ دور پہلے ھی رکنا پڑا،!!!!!

دور سے ھی ایک بہت بڑا شامینہ رنگ برنگی قمقموں سے روشن جھل مل کرتا نطر ارھا تھا، اور سڑک کی دوسری طرف دور سے سمندر کی شور مچاتی ھوئی موجیں دھندلا سا ایک عجیب سا ھی تاثر دے رھی تھیں، شکر ھے کہ چند لڑکے موٹر سائیکلوں پر جاکر اسی بس اور بینڈ باجوں کو پکڑ لائے، شاید بینڈ باجے والے بھی سوئے ھوئے تھے، فوراً ھی انکھیں ملتے ھوئے اپنی وین میں سے نکلے اور میری کار کے آگے ھی تیں لائنوں میں کھڑے ھوکر نغمے ااپنے لگے، اور پھر آہستہ آہستہ چلنے لگے سب سے آگے اب کا لیڈر ایک ڈنڈا ھاتھ میں گھماتا ھوا چل رھا تھا، اور پھر دور سے وہیں دلہں کے علاقے کے لوگ بھی بھاگ کر آگئے اور بینڈ باجے والوں کے ساتھ ھی رقص کرتے ھوئے، ھم سب کو اپنی منزل کی طرف لے کر چلے!!!!!

شکر ھے کے ساڑے نو بجے تک ھم سب وہاں پہنچ ھی گئے، میری کار کے رکتے ھی چاروں طرف سے دنیا پہنچ گی اور اندر ایسے جھانک رھے تھے، جیسے کوئی کار میں عجوبہ بیٹھا ھو، ادھر دونوں زادیہ اور نور مجھے اکیلا چھوڑ کے کار سے ایسے بھاگے کہ جیسے کسی جیل سے چھٹکارا ملا ھو، اور ساتھ ھی اچانک دونوں طرف سے میرے ساتھ میری دلہں کے بھائی گھس کر بیٹھ گئے اور مجھ سے نیک شگون مانگنے لگے، میں نے کہا بھائی اب تک یہاں پہنچتے پہنچتے جیب خالی ھوگئی ھے آج معاف کردو کل دیکھ لیں گے، لیکن دونوں بلکل ٹس سے مس نہیں ھوئے، پھر آگے بیٹھے ھوئے بھائی نے سو سو کے دو نوٹ نکال کر دئے تو جان خلاصی ھوئی،!!!!!

کار کے چاروں طرف ایک تو بچوں نے اور دوسری طرف بینڈ والوں نے دماغ خراب کیا ھوا تھا، کچھ ھمارے لوگ کچھ اس طرف کے لوگوں نے ایک اور تماشہ بنایا ھوا تھا کچھ تو ھوا میں گورنمنٹ کے سکے لٹا رھے تھے اور کچھ تو باری باری میرے سر پر نوٹ رکھ رھے تھے اور بینڈ کا سرغنہ باجے کی دھن کے ساتھ لکڑی گھماتا ھوا آتا اور نوٹ کو میرے سر کے سہرے پر سے اُٹھاتا رھا، اس نے اور دیر کردی مجھے ھلنے ھی نہ دیا، اور کہا کہ دولہا میاں ھماری روزی روٹی کاسوال ھے کچھ دیر رک جاؤ، کیونکہ اس کی کمائی جو ھورھی تھی، میں بڑی مشکل سے اپنے بھائیوں اور دوستوں کے سہارے آہستہ آہستہ پنڈال کی طرف بڑھتا رھا سہرا اتنا گھنا تھا کہ ھاتھ سے کھولنا بھی مشکل تھا، مجھے تو کچھ نظر نہیں آرھا تھا، بڑی مشکل سے مجھے انہوں نے اسٹیج کی ظرف چڑھایا، اسٹیج کو تو بہت ھی خوبصورت طریقے سے سجایا ھوا تھا لیکن اسٹیج پر فرشی انتظام تھا ایک دری کے اوپر قالین بچھا ھوا تھا، وہیں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا، اور پھر سہرے کو ھاتھوں سے بڑی مشکل سے تھوڑا سا ھٹا کر دیکھا، تو ایک بہت ھی بڑا مہمانوں کا مجمع کرسیوں پر برجمان تھا اور اسکے آگے سامنے صوفوں پر ھماری کمپنی کے ڈائریکٹر اور اعلیٰ افسران بیٹھے ھوئے تھے اور دونوں پارٹی کی طرفسے دعوت پر آئے ھوئے تھے، کیونکہ ھم باپ بیٹا اور دلہن کے بھائی اور والد بھی اسی کمپنی میں سروس کرتے تھے، اور سب نے شکر ادا کیا کہ تین گھنٹے کی تاخیر سے ھی لیکن پہنچ تو گئے، !!!!!

میرے ساتھ میرے دوست بیٹھے ھوئے تھے، مولوی صاحب کو فوراً بلایا گیا، دونوں کے والدین کی ڈھنڈائی مچ گئی، دونوں پتہ نہیں کہاں غائب تھے، میں نے سوچا کہ میں نے بھی کافی وقت ھوگیا ان کی آواز نہیں سنی تھی، پتہ لگا کہ وہ دونوں اس شادی سے بےخبر دور ھی بیٹھے گپ شپ مار رھے تھے، کیونکہ دونوں بھی کافی عرصہ کے بعد ایک دوسرے سے ملے تھے، مولوی صاحب نے اپنے رنکاح کے رجسٹر اور فارم نکالے اور دونوں کے والدین سے پوچھ پوچھ کر تمام کوائف، گواہ اور دلہن کے وکیل کے نام اور شرائط، وغیرہ لکھنے لگے، جوں جوں وقت گزرتا جارھا تھا میری حالت غیر ھوتی جارھی تھی، پھر کچھ دیر خاموشی رھی، مین پریشان میں نے برابر بیٹھے ھوئے دوست سے پوچھا، کہ یہ مولانا نکاح کیوں نہیں پڑھا رھے، اس نے جواب دیا کہ چندا ابھی لڑکی سے اقرار کرانے دلہن کے وکیل گھر پر گئے ھیں، پہلے لڑکی اقرار کرے گی پھر بیٹا تم سے پوچھا جائے گا، اور میں نے اس سے یونہی مذاقاً پوچھا کہ اگر لڑکی نے انکار کردیا تو،؟؟؟ اس نے جواب دیا پھر تو بیٹا بغیر کھانا کھائے ھی یہاں سے بھاگنا پڑے گا،!!! دلہن کو تو میں نے صرف تصویروں میں ھی دیکھا تھا، شکل سے تو اچھی خوبصورت لگتی تھی، لیکن سیرت اور عادت کی کیسی تھی یہ تو بعد میں ھی پتہ چل سکے گا!!!!

شکر ھے وہ لوگ جلدی سے ھی دلہن کی رضامندی لے آئے اور شاید دستخط بھی لے لئے تھے، اور پھر مولانا صاحب نے کچھ تلاوت کی اور بعد میں ساری تفصیل فلاں صاحب کی فلاں لڑکی بمعہ دو فلاں فلاں گواھان اور وکیل کے، مہر مبلغ 163 روپے کے آپکی زوجیت میں دیا جاتا ھے کیا آپ کو قبول ھے، جواب دیجئے کہ کیا آپ کو قبول ھے، مجھے ایک دوست سے کہا کہ ابے بولتا کیوں نہیں!!! میں نے کہا کیا مجھ سے کچھ کہہ رھے ھیں،!!!!اس نے جواب دیا کہ اور کس سے دولہا تو ھے یا اور کوئی ھے،!!!!، میں نے بھی اس سے مذاقاً ھی کہا کہ کیا کہنا ھے،!!!!
پھر مولوی صاحب نے ذرا تنک کے کہا دولہے میاں جواب دیجئے، قبول ھے ، اس سے پہلے کہ دوست کا تھپڑ پڑتا میں کہہ دیا “جی ھاں قبول ھے“ پھر انہوں نے دو دفعہ اور دھرایا میں نے بھی اسی طرح “قبول ھے، قبول ھے“ دو مرتبہ کہہ دیا، ذرا زور سے کہئے پھر میں نے کچھ بلند آواز میں کہا تو پھر مولانا دعاء مانگنے لگے،!!!!

اور اس ظرح میں بھی کنواروں کی فہرست سے نکل کر شادی شدہ لوگوں میں شامل ھوگیا تھا اور شکر ھے کہ سہرے کو اُٹھانے کی اجازت مل گئی تھی، پھر کچھ جان میں جان آئی، اس وقت جتنے بھی میرے دوست ساتھ تھے کسی کی بھی شادی نہیں ھوئی تھی، چھوارے بٹنے شروع ھوگئے اور ساتھ ھی لوگ مجھ سے گلے مل کر باری باری مبارکباد بھی دینے لگے، دوست سارے چھواروں میں ھی مگن تھے، میں نے کہا کہ کیا کررھے ھو ابھی کھانا بھی کھانا ھے، چھوارے بعد میں کھا لینا!!!! ایک دوست نے کہا کہ تم نہیں جانتے دوست کی شادی کے نکاح کے فوراً اگر چھوارے کھائے جائیں تو شادی کے امکانات بہت قریب ھوجاتے ھیں، !!!!
 
بھولی بسری یادیں-75- رخصتی کی آخری رسومات، اور دلہن کی اپنے سسرال میں آمد،!!!!!!

اور اس ظرح میں بھی کنواروں کی فہرست سے نکل کر شادی شدہ لوگوں میں شامل ھوگیا تھا اور شکر ھے کہ سہرے کو اُٹھانے کی اجازت مل گئی تھی، پھر کچھ جان میں جان آئی، اس وقت جتنے بھی میرے دوست ساتھ تھے کسی کی بھی شادی نہیں ھوئی تھی، چھوارے بٹنے شروع ھوگئے اور ساتھ ھی لوگ مجھ سے گلے مل کر باری باری مبارکباد بھی دینے لگے، دوست سارے چھواروں میں ھی مگن تھے، میں نے کہا کہ کیا کررھے ھو ابھی کھانا بھی کھانا ھے، چھوارے بعد میں کھا لینا!!!! ایک دوست نے کہا کہ تم نہیں جانتے دوست کی شادی کے نکاح کے فوراً اگر چھوارے کھائے جائیں تو شادی کے امکانات بہت قریب ھوجاتے ھیں، !!!!

نکاح تو ھوگیا تھا اور کھانے کی ظرف لوگوں کا رجحان ھوگیا تھا رات کے بارہ بجنے والے تھے، کافی دیر ھوچکی تھی، ھماری کمپنی کے افسران اور تمام اسٹاف کیلئے ایک علیحدہ ھی کھانے کا مخصوص انتظام کیا گیا تھا، اور ان کی بیگمات کا بھی عورتوں کی طرف الگ ھی انتظام تھا اور خاص رشتہ داروں اور باراتیوں کیلئے بھی عورتوں اور مردوں کا الگ الگ خاص جگہ پر ھی بندوبست تھا، اور ان کے عام لوگ جو محلے کے اور دور کے رشتہ دار تھے سب کیلئے ایک علیحدہ انتظام کیا گیا تھا، بہت ھی اچھا اور منظم طریقے سے انتظام کیا ھوا تھا اور اس میں تمام محلے دار اور ان کے تمام بھائیوں کے علاوہ دفتر کے تمام دوستوں کی محنت اور لگن ھی نے اس ایک بہت بڑی تقریب کے نظام کو بہتر سے بہتر بنایا، جس کی وجہ سے کسی کو بھی کوئی پریشانی نہیں ھوئی، اور انہوں نے خاص کر کھانے کا انتظام ایک فائیو اسٹار ھوٹل کو دیا تھا، جس کی وجہ سے کھانے کے دوران ایک بہترین نطم ضبط بھی تھا، کھانا وہیں تیار بھی ھوا تھا اور شاھی طریقے سے پیش کیا گیا تھا، اس ھوٹل کے بیرے بھی اپنے مخصوص لباس میں بہت ھی اچھے لگ رھے تھے، اور کھانا بھی بہت ھی ذائقہ دار تھا، مجھے اور میرے دوستوں کو تو اسٹیج پر ھی کھانا پیش کیا گیا تھا، کھانے میں شاھی بادامی قورمہ، روغنی نان اور مغلئی تافتان اور اس کے ساتھ اسپیشل چکن پریانی جس کا ذائقہ میں تو آج تک نہیں بھولا، اسکے علاؤہ اسپشل سلاد، دھی کا رائتہ اور میٹھے میں کوئی پہت ھی مزیدار کچھ کھیر ٹائپ کی چیز بھی تھی، اور تمام دوست بھی آج تک وہ شادی کےکھانے کو یاد کرتے ھیں، اس کی وجہ یہ بھی تھی کے ان کے تعلقات وھاں کے کیٹرنگ منیجر سے ایک خاص فیملی کی طرح تھے، اور وہ بھی بمعہ فیملی کے یہاں مدعو بھی تھے اور انہوں نے خاص طور سے یہ سارا انتظام اپنی ھی نگرانی میں کرایا بھی تھا، اور خاص رعایت بھی ان کی وجہ سے ھوئی تھی، !!!!!

کھانے سے فارغ ھونے کے بعد مجھے زنان خانے میں بلوایا گیا تاکہ کچھ رسومات کے بعد دلہن کو رخصت کیا جائے، مگر جانے سے پہلے دوستوں نے سمجھا دیا تھا کہ اس وقت کچھ مذاق بھی ھوتا ھے ذرا سنبھل کر جانا، مگر شکر ھے کہ ایسی کوئی بات نہیں ھوئی، بہت ھی زیادہ رش تھا، دلہن کے بھائی ھی اس رش میں سے مجھے ساتھ لیکر اوپر کی منزل پر پہنچے جہاں دو کرسیاں تھیں مجھے وہاں ایک کرسی پر بٹھا دیا، اور دوسری کرسی شاید دلہن کیلئے ھی تھی، میں بھی بہت احتیاط سے بیٹھا کہ کہیں مذاق کا نشانہ نہ بن جاؤں، بہرحال بعد میں میری بہنیں اور دوسرے دلہن کی خالہ اور ماموں زاد بہنیں اور سہیلیاں بھی میرے آس پاس جمع ھوگئیں، ھماری دلہن کی بہنیں تو ابھی بہت ھی چھوٹی تھیں، ان کو تو ھماری شادی کی کوئی بات یاد بھی نہیں ھے اور اب تو کئی بچوں کی امٌائیں ھیں، بس وہ اُس وقت کی تصویریں دیکھ کر حیران ھوتی ھیں کہ کیا جوڑی تھی،!!!!!

سب لڑکیاں مجھ سے ویسے ھی باتوں باتوں میں ھی مذاق کررھی تھیں، اور میں بھی سب سے اپنے اسی انداز میں باتیں کررھا تھا، مگر میری نظریں تو کسی اور کو بھی ڈھونڈھ رھی تھیں، مگر وہ نظر آکر نہیں دے رھی تھی کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا، رخصتی کا وقت ھو چلا تھا کہ اچانک تھوڑے سے وقفے کے بعد کیا دیکھتا ھوں کہ زادیہ ھی دلہن کو پکڑے ھوئے، اور سنبھالتی ھوئی میری ظرف آرھی تھی،!!!!!!!

دلہن کو میرے ساتھ والی کرسی پر بٹھا دیا گیا جو کہ مکمل سہرے میں ڈوبی ھوئی تھی، کچھ رسومات کے بعد رخصتی کی تیاری شروع ھوئی، رونا دھونا مچ گیا، دلہن کے بھائی اور والدین اور تمام سہیلیاں، اور ماموں خالہ زاد بہنیں باری باری گلے مل کر رورھی تھیں اور ایک دلہن قران شریف کے سائے میں اپنے بابل کا گھر چھوڑ رھی تھی، اسی کار کو ان کے گھر کے مین دروازے کے نزدیک لایا گیا، سب سے ملتی ملاتی ھوئی دلہن کو سہارا دیتے ھوئے کار تک لایا گیا تو ان کے والد نے اپنی لاڈلی بیٹی کو گلے لگایا، جو ان سے آج رخصت ھو رھی تھی اور خوب رو رھے تھے، جیسے ھی ان کی بیٹی کار میں بیٹھی وہ ایک دم بے ھوش سے ھوکر گر پڑے، میں نے فوراً انہیں سہارا دیا اور اپنے گلے لگایا، میں نے کہا کہ خالو آپ کیوں پریشان ھورھے ھیں آپکی بیٹی ھمارے گھر جارھی ھے کسی غیر کے ھاں نہیں، !!! پھر انہوں نے مجھے اپنی بیٹی کے بارے میں کہا کہ بیٹے،!! وہ اس گھر کی بڑی ھی لاڈلی تھی، اس سے کوئی بھول چوک ھوجائے تو معاف کردینا اور نہ جانے بے چارے اپنی بیٹی کی جدائی میں صدمہ سے نڈھال کیا کچھ کہتے رھے، اور میں ان کی ھر ممکن دل جوئی اور یقین دلاتا رھا، اور پھر میرے والد صاحب نے بھی گلے لگا کر ان کی کافی ھمت بندھائی،!!!!!

پھر باری باری میں نے دلہن کے بھائیوں کو گلے لگایا، اور ان کے باقی رشتہ داروں سے بھی ملا اور آخر میں ان کی والدہ کے پاس گیا انہوں نے میرے سر پر ھاتھ پھیرا، وہ کچھ کہہ تو نہیں سکتی تھیں کیونکہ ان کی بھی ھچکی بندھی ھوئی تھی، ایسا لگ رھا تھا کہ وہ کہہ رھی ھوں کہ بڑے لاڈ پیار سے پلی ھوئی بیٹی کو تمھارے حوالے کررھی ھوں، اس کا خیال رکھنا، ان کی ھچکیوں میں ھی اپنی بیٹی کے لئے بہت سی التجائیں چھپی ھوئی تھیں، جس کا وہ اظہار نہیں کر پا رھی تھیں، سارا ماحول غمزدہ تھا ھر طرف ھچکیاں ھی بندھی ھوئی تھیں، لگتا تھا کہ سارے محلے کی لاڈلی بیٹی کو میں لئے جارھا تھا، پھر مجھے بھی دوسری طرف سے کار میں بٹھا دیا اور دلہن کے ساتھ میری والدہ بیٹھ گئیں، سامنے ایک دوست جو گاڑی چلا رھا تھا اور اس کے ساتھ مجھے کچھ یاد نہیں کون بیٹھا تھا، اور سارے ساتھ آئے ھوئے بھی بسوں اور دوسری گاڑیوں میں بیٹھ چکے تھے والد صاحب اور میرے بھائی تمام اپنے لوگوں کو اکھٹا کرتے ھوئے بسوں میں سوار کرا رھے تھے!!!!!!

وھاں سے پھر یہ سارا قافلہ اس محلے کی لڑکی کو دلہن بنا کر لے کر نکلا اور وھاں کی گلی کو سونا کرتا ھوا چلا گیا، بیچ میں سمٹی ھوئی دلہن کے ایک طرف میں تھا، دوسری طرف والدہ بیٹھی ھوئی تھیں اور دلہں شاید گرمی سے بے چیں تھی، والدہ نے اسے اپنی طرف کندھے میں ھاتھ ڈال کر سہارا دیا ھوا تھا، اور شاید کسی چیز یا گتے سے دلہن کو ھوا جھل رھی تھیں، مجھے خوشی ھوئی کہ ھماری اماں کے دل میں اپنی بہؤ کے لئے بہت پیار امڈ رھا تھا، دعاء یہی کر رھا تھا کہ ھمیشہ ان کے دل میں اسی طرح اپنی بیٹی کی طرح پیار اور محبت قائم رھے، رات کے تقریباً ڈھائی بجے ھم اپنے گھر پر پہنچے، تو کچھ سکون ملا لڑکیاں تو دلہن کو لے کر دلہن کے سجے سجائے کمرے میں لے گئیں، اور میں اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ محو گفتگو رھا، اور اب تک میں نے اپنی دلہن کی شکل تک نہیں دیکھی تھی، !!!!

زادیہ بھی دلہن کے کمرے میں دلہن کے ساتھ مصروف گفتگو تھی، مجھے یہ بعد میں ھی پتہ چلا کہ زادیہ منگنی سے لے کر رخصتی تک زیادہ تر دلہن کے ساتھ ھی رھی تھی اور اس نے میری عادتوں کے بارے میں تفصیل سے میری دلہن کے گوش گزار کردی، ساتھ یہ بھی کہا کہ “تم بہت ھی خوش قسمت ھو کہ تمھیں ایک بہت ھی پیار اور محبت کرنے والے شوھر کے ساتھ ساتھ ایک بہتریں دوست مل رھا ھے،“ میرے کیا کیا شوق ھیں، مجھے کھانے میں کیا کیا پسند ھے، اور مجھے کس طرح وہ اپنے دل میں بٹھا سکتی ھے، زادیہ نے اپنی ھر ممکن کوشش کی کہ میری دلہن کو میرے مزاج کے بارے میں ھر چیز واضع کردی تاکہ مجھے سمجھنے میں اور میرے دل میں جگہ پانے کیلئے اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے، میری بیگم نے یہ ساری تفصیل مجھے بعد میں بتائی کہ “ھم دونوں میں جو ایک اعتماد اور ایک دوسرے پر بھروسہ، پیار اور محبت ھے، اسکا سہرا زادیہ کے سر ھی جاتا ھے“، انہوں نے اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ، “پہلے یہ شک بھی ھوا تھا، کہ کیا وجہ ھے کہ جو خوبیاں آپکی مجھے یہ بتا رھی ھے، اور مجھ پر ھی اتنا اس نے یہ کرم کیوں کررھی ھے، مجھے تو زادیہ نے آپ کے متعلق اتنا کچھ بتا دیا تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ میں اور آپ ایک دوسرے کو برسوں سے بہت اچھی طرح جانتے ھیں، مگر مجھے یہ بھی تعجب ھوا کہ پھر کیا وجہ تھی کہ زادیہ نے آپ کو حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی، ایسا لگتا تھا کہ وہ آپ کو بہت چاھتی تھی، اور آپ کو پانے میں ناکام رھی، اور اب صرف وہ چاھتی تھی کہ آپ کی زندگی میں کوئی بھی غم نہ آئے، اور ھمیشہ خوش رھیں“،!!!!!!

شادی کے دوسرے دن دلہن کے گھر والے صبح پہنچ گئے، اور ان کیےیہن بھائی اور خالہ زاد ماموں زاد بہنیں بھی ساتھ تھیں نے، سب نے مجھے اس دن بہت اچھی طرح سے دیکھا، گپ شپ کی اور بہت ھی خوش ھوئیں، انکے چھوٹے بہن بھائی بھی بہت خوش تھے، اور میں بھی سب کے ساتھ خوب گھل مل گیا تھا اس لئے کوئی بھی اجنبیت محسوس نہیں ھو رھی تھی، دلہن کی خاص سہیلی بھی ان کے ساتھ ھی آئی تھیں، وہ بھی اپی سہیلی سے مل کر بہت خوش ھوئی، کیونکہ دلہن بہت خوش اور سب سے خوب ھنس ھنس کر باتیں بھی کررھی تھیں، ان سب کے آنے سے پہلے ھی زادیہ نے دلہن کو اچھی طرح تیار کیا تھا، اور مجھے بھی محترمہ نے ہدایت کی کہ فوراً تیار ھوجاؤ، کیونکہ دلہن کے گھر والے آتے ھی ھونگے،!!!!!!!

زادیہ بھی گھر میں سب کی دادی اماں بنی ھوئی تھی، اور ھر بات میں روک ٹوک کر رھی تھی، کافی ھدایتیں بھی دے رھی تھی، سارے گھر پر ھی اس کا رعب چل رھا تھا، اور ساتھ سب اس کی تابعداری بھی کر رھے تھے، کیونکہ اس شادی کے ھر کام کی ذمہ داری ھمارے اباجان نے زادیہ ھی کے سپرد کی ھوئی تھی اور والد صاحب کی طرف سے خاص حکم بھی تھا کہ سارے انتظامات زادیہ ھی کے ھدایت پر ھونے چاھئے، اور اگر میں بھی کوئی کسی کام کیلئے اپنے گھر میں کسی سے کہتا تو یہی جواب ملتا کہ زادیہ سے پوچھ لو، اور پھر کیا مجھے خود ھی وہ کام کرنا پڑتا، میں نہیں چاھتا تھا کہ میں کسی کام کیلئے زادیہ کو کہوں، اور اگر اسے یہ پتہ چل جاتا کہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام ھوا ھے تو وہ شور مچادیتی !!!!!!

آج شام کو ولیمہ کی دعوت تھی، میرے چھوٹے بھائیوں اور دوستوں نے تمام باھر کا انتطام سنبھالا ھوا تھا، اور گھر کے اندر کا کام زادیہ کی ھی نگرانی میں ھورھا تھا، اور اس نے ھی شام کے ولیمہ کیلئے دلہن کو تیار کیا تھا اور دن بھر وہ بار بار دلہن کے پاس آتی جاتی رھی، مجھے تو اس نے سارے دن دلہن سے کچھ بات چیت بھی کرنے نہیں دیا اور مجھے جب بھی موقع ملتا میں اپنی دلہن کے سامنے بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگ جاتا لیکن زادیہ مجھے اپنی دلہن کے پاس بیٹھنے ھی نہیں دیتی تھی، پتہ نہیں اسے کیسے پتہ چل جاتا تھا فوراً ھی مجھے بھگا دیتی اور کہتی کہ “ابھی پوری زندگی پڑی ھے باتیں کرنے کیلئے، جاؤ نیچے بہت کام ھیں، آج پتہ نہیں تمھیں کیا کیا انتظامات کرنے ھیں،“ مجھے غصہ تو آتا تھا لیکن کسی مصلحت کی وجہ سے خاموش ھو جاتا، زادیہ کی والدہ میرا ساتھ دیتی تھیں، ملکہ باجی تو اپنے چچا کے پاس ابوظہبی میں ھی تھیں،!!!!!!!

مجھے آج باجی کی بھی یاد آرھی تھی، کاش آج وہ ساتھ ھوتیں تو میری اس شادی کی تقریب میں شریک ھوکر کتنی خوش ھوتیں، کیونکہ میں نے ایک دن ان سے وعدہ بھی کیا تھا کہ میں تمھارے بغیر کبھی سہرا نہیں باندھوں گا، لیکن افسوس کہ میں ان سے کیا ھوا اس وعدہ کا مان نہ رکھ سکا تھا، آج کے ولیمہ کے لئے بقول میرے بھائی اور دوستوں کے سب تیاریاں مکمل تھیں، اور مجھے کہا گیا کہ کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ھے، ادھر والد صاحب بھی ساری تیاریوں کی دیکھ بھال کررھے تھے، گھر کے سامنے دو حصوں میں شامیانہ لگ رھا تھا ایک میں کھانے کا بندوبست تھا اور دوسرے میں مہمانوں کے بیٹھنے کا انتطام تھا، اور ایک شامیانہ گلی میں لگایا گیا تھا، جس میں عورتوں کے بیٹھنے کے لئے اھتمام تھا، اور ایک چھوٹا سا اسٹیج بھی تھا شاید دلہن کے رونمائی کے لئے ھو،!!!!!

مجھے بھی حکم مل گیا کہ شام ھونے سے پہلے تیار ھوجاؤں، اور آج کیلئے ایک سفاری سوٹ کا انتظام تھا، میرے وقفے وقفے سے دوست ملنے آتے رھے اور انتظامات کی تیاری میں مدد بھی کرتے رھے گھر تو روشنیوں سے ایک ھفتے پہلے ھی سے روشنیوں سے جگمگا رھا تھا، آج شامیانے نے ایک اور رونق کا اضافہ کردیا تھا، شامینے میں بھی کرسیاں ایک قرینے اور ترتیب سے لگ چکی تھیں اور روشنی کا بھی خاص انتظام تھا، ایک ظرف کھانا بھی پک رھا تھا، والد صاحب کے ایک دوست نے خاص طور سے اسپیشل حیدرآبادی پکوان بنوانے والوں کو بلوایا ھوا تھا، بقول انکے کہ ھر کھانے کا ذائقہ بھول جاؤ گے، اگر یہ پکوان کھا لیا تو، میں نے احتیاطاً پوچھ ھی لیا کہ بھئی آج کے کھانے مین کیا کیا ھے تو انہوں نے فرمایا کہ میاں آج حیدرآبادی مغلئی پکوان پک رھا ھے، جس میں کچے گوشت کی دم کی بریانی، بادامی قورمہ، بگھارے بیگن، لوکی کی کھیر، خوبانی کا میٹھا، اور اسپیشل حیدرآبادی رائتہ ساتھ رنگ برنگی سلاد کے علاؤہ بھی بہت کچھ ھے، !!!!!!!

شام ھونے والی تھی میں تمام انتظامات سے مظمئین ھو کر اپنی تیاری میں لگ گیا، نہا دھوکر سفاری سوٹ پہنا، اچھا لگ رھا تھا، میں نے سوچا کہ اپنی دلہن کو ذرا اپنا چہرہ تو دکھا دوں، بڑی مشکل تھی، نہ جانے زادیہ کون کوں سے جنم کے بدلے رھی تھی، اُوپر مجھے جانے ھی نہیں دیتی تھی، ساری دنیا اوپر نیچے جارھی تھی مگر میرے لئے تو اس نے کرفیو لگایا ھو تھا، لگتا تھا کہ اس نے میرے پیچھے اپنے جاسوس چھوڑے ھوئے تھے، جیسے ھی میں اوپر دلہن کے کمرے میں جانے کی کوئی کوشش کرتا تو فوراً زادیہ نہ جانے کہاں سے آ ٹپکتی اور مجھے اشارے سے واپس جانے کے لئے کہتی، مجھے مجبوراً واپس ھونا پڑتا، اس بار میں نے کہا کہ اب تو جانے دو شام ھوگئی ھے،!!!اس نے جواب دیا کہ، نا، نا، نا، دلہن اب تیار ھونے جارھی ھے، اس لئے اب تو سب کا داخلہ بند، آپ جا سکتے ھیں اور آج ماشااللٌہ آپ کچھ زیادہ ھی اسمارٹ لگ رھے ھیں،!!!! اور یہ کہہ کر دروازہ اندر سے بند کردیا اور جتنے بھی دلہن کے کمرے میں موجود تھے سب کو وہ پہلے کمرے سے باھر بھیج چکی تھی،!!!!

بہت ھی سخت دل ھے، میں یہ کہتا ھوا نیچے سیڑھیوں سے اترنے لگا، سامنے انکی امی نے مجھے گھیرلیا اور پھر ماشااللٌہ کہتے ھوئے بلائیں لینے لگیں اور ماتھے پر پیار کیا اور ڈھیروں دعائیں دیں، وہ زیادہ تر میری والدہ کے ساتھ ھی بیٹھی رھتیں اور دونوں نیچے فرش پر دری بچھائے چھوٹے موٹے ھاتھ سے کام کرتی ھوئیں آپس میں گپ شپ کرتی رھتیں، مجھے خوشی بھی ھوتی کہ کتنے عرصے بعد یہ دونوں آج پھر اسی طرح سے ھنسی خوشی بات کررھی ھیں، وہ ویسے بھی بھی بہت دکھی تھیں، ایک بڑی بیٹی ابوظہبی میں اور شوھر کا ساتھ نہیں رھا، چھوٹی بیٹی کے غم کو سینے سے لگائی ھوئی تھیں، ان کا ایک بہت بڑا ارمان تھا کہ کاش انکی زادیہ کی شادی میرے ساتھ ھوجاتی، اس کا انہیں بہت ھی ایک دلی صدمہ تھا کہ حالات کچھ ایسے ھوگئے تھے کہ اپنی اس خواھش کو پائےتکمیل تک نہ پہنچا سکی تھیں،!!!!!!!

زادیہ کی والدہ مجھے بچپن سے ھی بہت چاھتی تھیں اور زادیہ کی نانی جان جب تک وہ حیات تھیں، مجھ پر تو وہ جان چھڑکتی رھیں، اور اکثر وہ تو زادیہ کو میری مناسبت سے چھیڑتی بھی تھیں، وہ بچپن کی یادیں اب کہیں بہت دور تنہائیوں کے ساتھ ھی گم ھوچکی تھیں، اب مجھے اس بچپن کی یاد اسی وقت آتی ھے جب میں پاکستان جاتا ھوں اور اس اپنے پرانے محلے کی طرف اپنے کسی پرانے دوستوں سے ملنے جاتا ھوں، اب تو میری شادی ھوچکی تھی اور میری بیگم نے میرا اتنا خیال رکھا، کہ میری ھر ضرورت میرے خیالات، مجھے کیا پسند ھے، ان سب کا شروع دن سے ھی اپنے خلوص اور محبت سے میرا دل جیت لیا، تمام تر ان کی خدمات میرے عین مزاج کے مطابق ھی ھوتی تھیں، مجھے تعجب بھی تھا کہ یہ دلہن تو میرے بالکل عیں توقعات سے بھی زیادہ خوب تر نکلی، کبھی اس نے مجھے کسی شکایت کا موقع نہیں دیا،!!!!!!

بعد میں مجھے میری بیگم نے ساری تفصیل بتائی تھی کہ جب تک زادیہ ان کے پاس رھی، اس نے میرے متعلق تمام حالات، عادات و اطوار سے مکمل آگاھی کردی تھی کہ وہ میرے مزاج کو سمجھتے ھوئے میرا کس ظرح خیال رکھے گی، میری ھر اچھی بری عادت کی شناخت کرادی تھی، اس نے ایک قسم کی ٹریننگ دے دی تھی اور واقعی وہ اس میں کامیاب بھی رھی اور میں اسکا بہت ھی ممنون ھوں اور یہ احسان بھی میں اسکا میں زندگی بھر بھی نہیں اتار سکتا، جس طرح اس نے میری خوشیوں کو میری جھولی میں ڈال دیا ھے کہ آج تک میرے دل سے اس کیلئے دعائیں ھی نکلتی ھیں، میری بیگم کو میری اس تمام کہانی کے بارے میں پوری طرح علم ھے اور انہوں نے آج تک کبھی بھی کسی بات کو دل پر نہیں لیا، اور برا نہیں مانا،!!!!!!

ولیمہ کی تیاری بڑے زور شور سے جاری تھی، ھماری گلی کے ھر فرد نے اس تیاری میں خوب مدد کی اس کے علاوہ والد صاحب کے تمام مسجد اور دفتر کے ساتھی بھی ساتھ ساتھ ھر ممکن پوری اور صحیح طرح کی دیکھ بھال میں لگے رھے، اور ساتھ ھی چھوٹے بھائی کے دوست بھی بالکل آگے آگے ھر کام میں پیش پیش تھے، گھر کے اندر تو زادیہ نے اپنی ھر ممکن کوشش کی اور کوئی بھی کسی قسم کی پریشانی نہیں آنے دی اور تمام گھر کی اور محلے کی لڑکیوں نے زادیہ کے ھر حکم پر خوب محنت سے کام کیا، جتنے بھی لوگ تھے سب ایسا لگتا تھا کہ سب اپنے قریبی رشتہ دار ھیں، ساری تیاریاں ھوچکی تھیں بس اب دلہن والوں کا انتظار تھا، ھماری طرف کے تقریباً سارے مہمان تو آچکے تھے، !!!!!

عشاء کے کچھ دیر بعد ھی پنڈال کے سامنے ھی ایک بس آ کر رکی اور اس میں سے سب چھوٹے بڑے مرد حضرات، زرق برق لباس میں ملبوس بچے بچیاں اور لڑکیاں ساتھ بڑی بوڑھی عورتیں بھی لکڑی ٹیکتی ھوئی بس سے اتریں اور سب کا میرے بھائی، میں خود اور والد صاحب ھی استقبال کررھے تھے اور ساتھ ساتھ سلام دعاء بھی کہہ رھے تھے، اور سارے آنے والے زیادہ تر مجھے ھی دیکھ رھے تھے، ایک بڑی بی میرے نزدیک یہ کہتی ھوئی آئیں ارے بھئی ھٹو،!!! مجھے بھی تو دیکھنے دو ھماری بٹیا کس لڑکے سے بیاھئی گئی ھے، اپنے موٹے موٹے چشموں میں سے مجھے دیکھا اور کہا کہ ماشااللٌہ شکل سے تو ٹھیک ٹھاک ھی لگتا ھے، اللٌہ ھماری بٹیا کو خوشیاں دکھائے اور دعائیں دیتی ھوئی آگے بڑھ گئیں، میں اس وقت ان کے رشتہ داروں کو صحیح طرح پہچانتا نہیں تھا، کوئی کہتا ارے مجھے پہچانا، میں بس ھاں میں ھاں ھی ملا دیتا تھاَ!!!!!!

دفتر کے مہمان زیادہ تر کچھ اپنی ھی گاڑیوں میں اور کچھ بسوں اور رکشہ ٹیکسیوں میں ھی پہلے ھی پہنچ چکے تھے، اور سب دفتر کے دوست احباب تو دونوں ھی کی طرف سے مدعو تھے، یہ ھم کہہ سکتے ھیں کہ یہ شادی دفترمیڈ تھی یعنی اس شادی کی کوششوں میں تمام دفتر والوں ‌کا ھاتھ تھا، کیونکہ ھم دونوں کے والد اور مجھ سمیت دلہن کے بھائی بھی اسی کمپنی میں سروس کرتے تھے، اور یہ ایک اتفاق تھا کہ میرے سسر میرے ساتھ اسی کمپنی میں سعودیہ میں تھے، اور میرے والد اور دلہن کے بڑے بھائی کراچی میں ایک ھی ساتھ اسی کمپنی کے ڈویژنل آفس میں کام کرتے تھے، جس کا کہ ایک بہت اچھا ماحول تھا اور مجھے اس بات پر فخر بھی تھا کہ سعودیہ میں یہ پاکستانی کنسٹرکشن کمپنی خود ھی کفیل تھی اور ویزے بھی اسی کمپنی کے نام سے جاری ھوتے تھے، اور اس کمپنی کے پاس خود ھی لوگوں کو سعودیہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ لائسنس کا اختیارنامہ بھی تھا،!!!!

ارے پھر کدھر میں آفس کی باتیں لے کر بیٹھ گیا، سارے مہماں تقریباً آچکے تھے ساتھ کافی تحفے تحائف بھی تھے کچھ تو سلامی کے نوٹ لفافے میں رکھ کر بھی دے رھے کچھ لوگ مجھے بھی پکڑا رھے تھے، لفافے تو میں خود ‌اپنی جیب میں رکھ رھا تھا اور عورتین دلہن کے ساتھ بیٹھی ھوئی میری بہنوں‌کو دے رھی تھی، یہاں بھی کافی مہمان آئے تھے ڈر بھی لگ رھا تھا کہ کھانا کم نہ پڑ جائے، مگر جنہوں نے انتظام کیا ھوا تھا انہوں نے یہ یقین دلادیا تھا کہ فکر نہ کریں اوٌل تو کھانا کم نہیں پڑے گا اور اگر خدانخواستہ کم پڑجائے تو ایمرجنسی کھانے کا بھی انتظام ھے، ایک نئے اسٹائیل اور حیدرآبادی ذائقہ کے ساتھ یہ کھانا لوگوں کو بہت پسند ایا، مگر چند ایک قورمے او بگھارے بیگن میں تمیز نہ کرسکے، انہوں نے بگھارے بیگن کو چن چن کر بوٹیاں سمجھ کر ڈال لیں اور جب دیکھا کہ یہ تو بیگن ھیں ‌تو بہت شرمندگی ھوئی، بہرحال خیرخیریت سے ولیمے کی یہ دعوت اختتام کو پہنچی، اور پھر آھستہ آھستہ لوگ اپنے اپنے گھروں کے لئے رخصت ھونے لگے، !!!!!

آخر میں میرے کچھ خاص دوست ھی باقی رہ گئے تھے، اور ھم سب خالی پنڈال میں ھی کرسیوں پر بیٹھے گپ شپ لگا رھے تھے، اور کچھ بچے بھی وہیں روشنی کی وجہ سے کھیلتے ھوئے دھما چوکڑی مچائے ھوئے تھے، اور بھائی اور ان کے دوست سب ڈیکوریشن کا سامان کراکری سنبھال رھے تھے، ساتھ ھی ڈیکوریشن کے بندے بھی اپنی کرسیاں اور شامینے میں لگی ھوئی تمام چیزیں اکھٹا کررھے تھے، آدھی رات ھونے کو تھی، دوستوں نے بھی اجازت لی اور میں گھر میں گھسا، وھاں ابھی بھی عورتوں کی محفل لگی ھوئی تھی، کچھ تو خاص کر باتیں سننے کیلئے ھی بیٹھی تھیں کہ دلہن کے گھر والوں نے کیا جہیز دیا، کتنا سونا لڑکی کو چڑھایا، اور آج دولہا دلہن کو سلامی میں کتنا مال ملا اور جب تک سارے تحفے کھل کر دیکھے نہ گئے ان ھمدرد عورتوں نے جان نہیں چھوڑی، اور ساری کہانی سمیٹتی ھوئی بڑی مشکل سے گھر سے نکلیں، دلہن اُوپر ھی میری بہنوں اور ان کی سہیلیوں کے ساتھ ان عورتوں کے جھنجھٹ سے الگ تھلگ گپ شپ مین مصروف تھیں، لگتا تھا کہ بہت خوش ھے، مجھے دیکھتے ھی دلہن کچھ خاموش سی ھوگئی، میں بھی ان سب کے ساتھ گپ شپ میں لگ گیا اور خوب ھنساتا رھا،اور زادیہ تو اتنی تھک چکی تھی کہ وہ دلہن کے برابر والے کمرے میں ھی سو گئی تھی، اسکے ساتھ اور بھی لڑکیاں جو پورے دن کی تھکان کی وجہ سے بے خبر سورھی تھیں،!!!!!

اتنے میں والدہ آئیں اور مجھے سلامی کے پیسے ایک پوٹلی میں باندھ کر تھما گئیں، جب میں نے دیکھا کہ یہ کیا اس میں تو نوٹ شاید سلامی کے اکھٹا کئے ھوئے تھے، میں کیا کرتا واپس ھی ان کو دینے نیچے گیا تو ایک دو عورتوں کی باتیں سننے کو مل گئیں، ایک کہہ رہی تھی کہ ارے سیٌد کی اماں!!! تمھارا دماغ خراب ھے جو ساری سلامی دلہن کو دے آئیں، یہ تو تمھارا حق ھے، دیکھو ابھی سے اگر تم کنٹرول کروگی تو اچھا ھوگا ورنہ تو تمھاری بہو سب کچھ سمیٹ کر تمھارے بیٹے سمیت یہ جا اور وہ جا،!!!!!!! میں نے دل میں یہ سوچا دیکھو آج دلہن کو آئے ھوئے دوسرا دن ھے اور باھر کی عورتوں نے والدہ کے کان بھرنا شروع کردیئے، جیسے ھی میں کمرے میں داخل ھوا اور میں نے ان خاتون کو گھور کر دیکھا تو فوراً ھی وھی بڑی بی نے اپنا برقعہ سنبھالا اور والدہ سے اجازت لیتی ھوئی اپنا راستہ لیا،!!!!!!

نیچے کمرے میں سارے تحفے تحائف بکھرے ھوئے تھے، اور جو عورتیں باقی بچ گئی تھیں، انہوں نے بھی مجھے دیکھ کر وہاں سے کھسکنے میں ھی اپنی عافیت سمجھی، میں نے سارے پیسوں کی سلامی والی پوٹلی اور جو میری جیب میں بھی تھے وہ سب نکال کر والدہ کو دے دئے، اتنے میں والد صاحب بھی باھر کے تمام کاموں سے سے فارغ ھوکر گھر کے اندر آگئے وہ بھی بہت تھکے ھوئے تھے، مگر خوش بہت تھے کہ سارے کام ان کی خواھش کے مطابق ھوگئے تھے، مجھے بھی خوش دیکھ کر میری پیٹھ تھپ تھپائی اور دعائیں دیں، انکے پیچھے میرے چھوٹے بھائی بھی داخل ھوگئے اس نے بہت ھی کام کیا تھا سارے باھر کا انتظام اسی کے ھاتھ میں تھا اور بخوبی سارے کام کامیابی سے نبٹ چکے تھے، اس میرے بھائی نے میرا بہت ساتھ دیا، یہ میری دو چھوٹی بہنوں کے بعد تھا اور ھر وقت میرا اور اپنی بھابھی کا بہت خیال رکھتا رھا، !!!!

سب تھکے ھوئے تھے، سب باری باری جہاں جس کو جگہ ملی سو گیا، میں بھی اپنی دلہن کی طرف اپنے کمرے میں چل دیا، اور وھاں پر اب بھی میری سب سے چھوٹی بہنیں اپنے بھانجے سمیت اپنی بھابھی کے ساتھ محو گفتگو تھیں، اور انکی بھابھی بھی انہیں کوئی شہزادی کی کہانی بہت پیار سے سنا رھی تھی، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی بھی ھوئی کہ اس گھر میں دلہن کی شروعات بچوں کے ساتھ ایک پیار محبت کی کہانی سے ھی شروع ھونے جارھی تھی، اور ایک بھولی بسری یادوں کی ایک کبھی نہ بھولنے والی کہانی اختتام کو پہنچ چکی تھی !!!!!!!

زادیہ ایک بہت ھی بہادر اور صبر اور تہمل کے کردار کی مالک تھی، اور انہوں نے ھمیشہ اپنوں اور دوسروں کے لئے بھی اپنی خوشیاں قربان کی ھیں، اور کسی کو یہ احساس بھی نہیں دلاتی تھیں، کہ وہ کسی کی کوئی مدد کررھی ھیں یا کوئی احسان کرنے والی ھیں، بعد میں حالات ھی اس قسم کے ھوگئے تھے، اور انہوں اپنی چھوٹی فیملی ساتھ بہت سے مشکل وقت دیکھے تھے لیکن کسی پر اپنی پریشانی کا اظہار بھی نہیں کیا، والد کا انتقال ھوا اور 6 مہینے سرطان کے موذی مرض سے وہ لڑنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ھوگئے، انکی خدمت اس بیماری میں لازمی بات ھے ان تینوں ماں بیٹیوں نے ھی کی ھوگی، بعد میں زادیہ نے مجبوراً اپنے گھر کی بہتری کے لئے شادی بھی کی، اور اس میں دھوکہ کھایا، اور بات طلاق تک پہنچ گئی تھی،!!!!

گھر کو چلانے کیلئے دونوں بہنوں نے سروس کرلی، بعد میں زادیہ کی دوسری شادی ھوئی، اور پھر بڑی بہن کی بھی شادی ھوگئی، اور دونوں کو اچھے محبت کرنے والے شوھر اور سسرال ملے، مگر اولاد سے دونوں محروم رھیں، بڑی بیٹی نے اپنی نند کی بیٹی کو گود لیا، ان دونوں کی شادی کے بعد میرا صرف باجی سے ھی کچھ ھی عرصہ رابطہ رھا، میں اور میری شریک حیات، ملکہ باجی کے گھر جاتے رھے اور اس وقت انکی والدہ باجی کے ساتھ ھی رھتی رھیں، انکے دونوں داماد بہت اچھے نفیس انسان اور خلوص و محبت والے ھیں اور سسرال بھی اچھی ملی تھی، لیکن ان کی والدہ نے باجی یعنی انکی بڑی بیٹی کے پاس ھی رھنا پسند کیا، جب میں نے دیکھا کہ اب دونوں زادیہ اور انکی باجی اپنے اپنے گھر میں خوش ھیں، تو میں نے بار بار باجی کے گھر میں جانا مناسب نہیں سمجھا اور آہستہ آہستہ باجی کے یہاں جانا بہت کم کردیا، سال دو سال میں کبھی چلاجایا کرتا تھا، ھمارے تین بچوں کے بعد ھم میاں بیوی بھی کچھ مشکلات کا شکار رھے، کئی ناگہانی پریشانیوں نے آگھیرا، تو باجی کے یہاں جانا بھی ختم ھوگیا، آخری خبر ایک دوست نے مجھے دی کہ انکی والدہ اپنا ذھنی توازن کھو بیٹھی ھیں، میں یہ خبر سنتے ھی باجی کے گھر پہنچا، واقعی وہ بہت بہکی بہکی باتیں کررھی تھیں، ان سے مل کر مجھے بہت دکھ ھوا، مگر انکے داماد نے انکو اپنے ساتھ رکھا اور انکی بہت خدمت کی، میں باھر ھی رھنے کی وجہ سے اور کچھ ایسی مصروفیات زیادہ بڑھ گئی، وقفہ وقفہ سے بھائی بہنوں کی شادیوں کی تیاری اور دوسرے معاملات میں اتنا مصروف رھا کہ ان سے بعد میں رابطہ نہ ھوسکا، آخری خبر مجھے اپنے ایک رشتہ دار سے یہ ملی کہ انکی والدہ کی حالت کچھ زیادہ اتنی بگڑی کہ مجبوراً والدہ کو ایدھی سینٹر میں داخل کرنا پڑا، وہ کافی عرصہ تک بڑی بیٹی کے پاس رھی تھیں مگر نہ جانے ایسی کیا وجوھات تھیں کہ انہیں یہ قدم اُٹھانا پڑا تھا،!!!


اللٌہ تعالیٰ انکی والدہ محترمہ کو صحت اور تندرستی دے اور ان کی دونوں بیٹیوں کو اپنے اپنے گھروں میں خوشیاں دکھائے، آمین!!!!

؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏
 
"بھولی بسری یادیں" پہلے حصے کا آخری باب،!!!!!!!!

یہ مہینہ بھی جون کا ھی ھے اور اسی مہینے کی 9 جون کو شادی کی 29ویں سالگرہ بھی ھے، کیا اتفاق ھے کہ اس شادی کے بعد اس کہانی کے پہلے حصے کا اختتام بھی اپنے انجام کو پہنچ رھا ھے،!!!!!

واقعی یہ کل کی ھی بات لگتی ھے، اسی ریاض شہر میں مئی 1978 کے شروع میں آیا تھا جب میری شادی بھی نہیں ھوئی تھی، آج اسی شہر میں ھوں اور اس وقت میرے پانچ جوان بچے ھیں، جن میں سے بڑے دو بچوں کی شادی بھی ھوچکی ھے،

مجھے تو اب ایسا محسوس ھوتا ھے کہ جیسے ایک پل کی طرح میری زندگی گزرگئی، اور مجھے پتہ ھی نہیں چلا، اس بات سے ھم یہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ھیں کہ ھماری زندگی ایک پانی کے بلبلہ کی طرح ھے اور ھمیں یہاں پر اس دنیا میں ایک امتحان سے گزرنا ھے، اصلی مقام تو ھمارا اُوپر ھے، اور اوپر ایک اچھا مقام حاصل کرنے کیلئے تیاری ھمیں اس دنیا میں ھی کرنی ھے، جیسے اعمال ھونگے ویسا ھی مقام ملے گا، اور تیاری ھمیں اسی زندگی کے بلبلہ کے ختم ھونے سے پہلے ھی کرنی ھے،!!!!

آج میں یہ سوچتا ھوں کہ میری زندگی تو لگتا ھے کہ ایک پلک جھپکتے میں ھی گزر گئی اور میں اپنے ماضی کی طرف دیکھتا ھوں، کہ میں نے کیا کھویا اور کیا پایا، کاش مجھے کچھ اور محلت مل جاتی، مگر اب کیا ھوسکتا ھے، وقت تو گزر گیا، بس امتحان کا وقت اب ختم ھوا چاھتا ھے،؟؟؟؟؟؟

اور ھمیں جو اُوپر اصلی مقام حاصل کرنے کیلئے اس دنیا میں جس امتحان کی تیاری کرنی ھے وہ ھم سب بہت بہتر طریقے سے جانتے ھیں کہ ھمیں کیا کرنا ھے اور کیا نہیں کرنا ھے،!!!!!

انسان سوچتا کچھ ھےاور ھوتا کچھ ھے، اور جو کچھ بھی ھوتا ھے، اس میں اُوپر والے کی مرضی ھی شامل ھوتی ھے، !!!!!
جیساکہ لوگ کہتے ھیں کہ جوڑے اسمانوں پر بنتے ھیں، اور اُوپر والا جو بھی کرتا ھے، اس میں کچھ بہتری ھی ھوتی ھے، اس کے علاؤہ میں سمجھتا ھوں کہ والدین کی رضامندی اور ان کی خواھش کے آگے سر جھکا دینا ھی عقلمندی ھے، انہیں ناراض کرکے کوئی قدم اٹھانا سراسر بےوقوفی ھے، ان کی دعائیں ھی آپ کی زندگی میں خوشیاں لاسکتی ھیں،!!!!

میری زادیہ کی شادی اسی صورت میں ممکن تھی کہ میں اپنے گھر سے علیحدہ ھوجاتا، کیونکہ ان کا اللٌہ کے سوا اور کوئی سہارا بھی نہیں تھا، اور میرے والدیں کو اسی بات سے ھی ڈر تھا کہ میں ان سے جدا نہ ھوجاؤں، ھوسکتا تھا کہ میں اپنی مرضی ھی کرتا، اور آخر تک میں یہی چاھتا بھی تھا کہ کسی بھی طریقے سے مجھے زادیہ کا قرب حاصل ھوجائے، لیکن ھر دفعہ مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور حالات نے بھی ھر دفعہ کچھ ایسے موڑ لئے کہ آخرکار مجھے مجبوراً والدین کے فیصلے کو ھی قبول کرنا پڑا، اور اب اللٌہ کا شکر ھے کہ میری ایک چھوٹی سی خوشحال فیملی میری جنٌت میرے ساتھ ھے اور ھم بیوی بچے سب ماشااللٌہ بہت ھی زیادہ خوش و خرم زندگی بسر کررھے ھیں،!!!!!

ایک وقت وہ تھا کہ دلہن کو آخر تک کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا اور نہ ھی آج کی طرح دلہن کو نکاح کے بعد پنڈال میں دولہا کے ساتھ منہ کھول کر بٹھایا جاتا تھا، اور نہ ھی ولیمہ کے دن اور نہ کوئی موؤی وغیرہ کا زمانہ تھا بس کیمرہ سے تصویریں ضرور کھینچی جاتی تھیں، اور ایک یادگار کے طور پر ایک البم تیار کی جاتی تھی، اور اب تو وہ رسم و رواج بھی ختم ھوتے جارھے تھے جو کہ ھمارے کلچر سے جڑی تھیں، دولہے دلہن کا سہرا، بینڈ باجا اور وہ شادی بیاہ کے گیت جو لڑکیاں گھر کے اندر بیٹھ کر گاتی تھیں اور علاقائی رقص کرتی تھیں، جہاں مرد حضرات پر مکمل طور پر پابندی ھوتی تھی، اور دلہن کے مائیوں کی رسم کے بعد سے لے کر رخصتی ھونے تک کوئی غیر مرد یا دولہا تک دلہن کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا، اس کے علاؤہ میک اپ صرف گھر کے اندر ھی کیا جاتا اور اُس وقت مائیوں کی رسم کے بعد دلہن کو باھر نکالنا بہت ھی معیوب سمجھا جاتا تھا، !!!!!!

اب تو دلہن پہلے ھی ھر رسم میں مائیوں، مہندی ھو اور شادی ھو یا ولیمہ ھو سب میں بیوٹی پارلر سے میک اپ کرا کے، سج سجا کر گھر کے بجائے سیدھا شادی حال میں پہنچتی ھے، باراتیوں کے بیچ ھی سے میک اپ سے تھپی ھوئی زرق برق لباس میں، چہرہ کھولے ھوئے، سب کو ھاتھ ھلاتی ھوئی سیدھے ڈائس پر جا بیٹھتی ھے، سہرے کا تو ذکر ھی نہیں ھوتا، صرف ایک چھوٹا سا ھار کبھی کبھی گلے میں کافی ھوتا مگر وہ بھی نکال دیا جاتا ھے کہ اس سے جوڑا خراب ھوجاتا ھے، بس اب تو ھاتھوں میں ھی گلدستے لے کر بیٹھنے کا رواج ھے، کبھی کبھی تو ایسا بھی ھوتا ھے کہ بیوٹی پارلر کے میک اپ سے دلہن کا اپنا چہرہ اتنا بدل جاتا ھے، کہ دلہن کی اپنی اصل شناخت بھی ختم ھو جاتی ھے، اور جب دولہا دوسرے دن اپنی دلہن کا منہ دھلا ھوا دیکھتا ھے تو حیران ھوتا ھے کہ کیا اسی سے میری شادی ھوئی تھی، یہ تو وہ نہیں لگتی، کبھی کبھی تو مغالطے میں اپنی ھی دلہن سے ھی پوچھ بیٹھتا ھے، کہ بہن کیا آپ نے میری دلہن کو دیکھا ھے، ابھی کچھ دیر پہلے تو یہیں تھی !!!!!

میری آپ بیتی لکھنے کا مقصد صرف یہ نہیں ھے کہ میں اپنی کوئی پبلسٹی چاھتا ھوں، بلکہ میرا اصل مقصد یہ ھے کہ میں اپنی ان اچھائیوں اور برائیوں اور ان کے اچھے برے نتائج کو سامنے لاسکوں تاکہ کوئی بھی شخص اگر بہتر سمجھتا ھے تو اس سے کوئی سبق یا نصیحت حاصل کرسکے، اس کے علاوہ میں اپنے وقت کی قدروں اور اصولوں کی یادھانی کرانا چاھتا ھوں، جنہیں شاید ھم بھولتے جا رھے، جن میں بذات خود میں بھی شامل ھوں اور جو اس ترقی کے دور میں ھم بہت ھی ایڈوانس اور ماڈرن ظریقوں کو اختیار کرتے جارھے ھیں، یہ بہت اچھی بات ھے کہ ھمیں ان نئی ٹیکنیک اور ایجادات سے فائدہ اٹھانا چاھئے مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے، تمدن کے بنیادی اصولوں کو نہیں چھوڑنا چاھئے، اور اتنا بھی آگے نہیں نکل جانا چاھئے کہ ھم اپنی شرم اور حیا کو بازاروں کی رونق بنا دیں،!!

اور یہ حقیقت ھے کہ کچھ ماڈرن بیوٹی پارلر ایسے بھی ھیں، کہ آپکی اصلی صورت کی شناخت بالکل ھی بدل دیتے ھیں، جب پنڈال میں دلہن سب کے سامنے بیٹھتی ھے تو سب لوگ اپنے ھوں یا پرائے واہ واہ کررھے ھوتے ھیں، اور دلہن ھر ایک کی اچھی بری نظروں کا نشانہ بنتی ھے، بعض اوقات اسی شادی کی مووی مختلف گھروں میں نمائیشی طور پر دیکھ کر ھر کوئی خوش ھورھا ھوتا ھے، اور لڑکے ایک دوسرے کے دوستوں کو خاص طور پر لڑکیوں کو دکھانے کیلئے دعوت بھی دیتے ھیں ، ساتھ ھی صرف لڑکیوں اور دلہن پر اچھے اور برے ریمارکس دیئے جارھے ھوتے ھیں، جیسے کسی فیشن شو کا مقابلہ ھورھا ھو،!!!

میں میک اپ کے خلاف نہیں ھوں، مگر میک اپ اتنا ھو کہ آپ کی شکل بدل نہ جائے، میں تو یہ سمجھتا ھوں کہ جو سادگی میں حسن ھے وہ اس میک اپ میں نہیں ھے جو ایک مختصر سے وقت تک محدود رھتا ھے، مگر سادگی کا حسن ھمیشہ ایک ھی جیسا قائم و دائم رھتا ھے، !!!!

اس وقت میری اپنی فیملی کی خوشیاں ان دنوں کے صبر ھی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے بعد اور بھی بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جو بہت صبر اور تہمل سے وہ دور گزارا، جس کا پھل ھمیں کافی برداشت اور تکلیف کے بعد ملا، ھم دونوں میاں بیوی نے مل جل کر ھر دور میں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی، اور ایک دوسرے کا ھر دکھ اور سکھ میں ساتھ دیا، اور ھر پریشانی کا بہت اچھی طرح مقابلہ کیا، ورنہ ھمیں تو دنیا والوں نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ھمیں الگ کرنے کی، یہ سب اللٌہ تعالیٰ کا کرم اور اسکے پیارے حبیب کا صدقہ ھی ھے کہ ھر مشکل وقت اور صبرتہمل کے بعد ھی ھمیں بہت سکون ملا اور دلی راحت نصیب ھوئی، یہ جب آپ ھماری کہانی کو آگے پڑھیں گی تو ھر تفصیل سے آگاھی بھی ھو جائے گی،!!!!!!

میں صرف یہ اپنے پڑھنے والے سے درخواست کروں گا کہ کبھی بھی کسی کے کہنے اور سننے میں نہ آئیں، صرف اپنی بہتری کیلئے اپنے آپ کو ایک دوسرے کا بھروسہ اور اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں، یہ بات ذھن میں رکھیں کہ بہت کم لوگ ھوتے ھیں جو آپ کو خوش دیکھ کر خوش ھوتے ھیں، اکثریت اں لوگوں کی ھے جن کا کام صرف یہی ھوتا ھے، کہ دوسروں کی ھنستی بستی زندگی میں نفرتوں کا زھر بھر کر آپس میں اختلافات پیدا کردیں، اور یہ لوگ آپ کے اپنے ھی نزدیکی رشتہ داروں یا اڑوس پڑوس کے ھی مہربانوں میں سے ھوتے ھیں، جو آپکے گھروں میں جھوٹی ھمدردی اور محبت جتا کر آپ سب کا بھروسہ قائم کرتے ھیں اور پھر آھستہ آھستہ اپنا کام ایسا کر جاتے ھیں کہ آپ کو پتہ ھی نہیں چلتا اور آپ کا ھنستا بستا گھر بربادیوں کے کنارے پر پہنچ جاتا ھے، اور یہی آپکے ھمدرد لوگ آپکی بربادی کے بعد ایسے غائب ھوتے ھیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ،!!!!!

یہ وہ لوگ ھیں کہ جو نہ تو خود خوش رھتے ھیں اور نہ ھی دوسروں کو خوش دیکھ سکتے ھیں، آپ ان لوگوں کو بہت اچھی طرح پہچان سکتے ھیں، مثال کے طور پر جب آپ دیکھیں کہ کوئی آپ کے سامنے آپکے ساتھ رھنے والے دوسرے گھر والوں کی برائی کرتا ھے، تو سمجھ لیجئے کہ یہ شخص آپ کا ھمدرد نہیں ھے، اور ھماری ماؤں اور بہنوں کو بھی ان لوگوں سے بچ کر رھنا چاھئے، ان کی سنیں ضرور، لیکن ان کی باتوں پر کان نہ دھریں، ان سے دشمنی بھی اور خطرناک ثابت ھوتی ھے، اس لئے خاموشی سے ھاں میں ھاں ملائیں، اور ان کی کسی بھی برائی کی ظرف توجہ نہ دیں، وہ جب دیکھیں گے کہ ان کے لاکھ کوشش کے باوجود اس گھر میں کوئی جھگڑا نہیں ھوتا تو وہ خود بخود آپ سے کنارہ کشی اختیار کرلیں گے، !!!

صرف ایک بات جو حقیقت ھے کہ یہ انسان کی فطرت ھے کہ ھر نئے آنے والے کو بہت مشکل سے خوش آمدید کہتا ھے، اور ھر نیا آنے والا یہ امید رکھ کر آتا ھے کہ اس کی خوب آؤ بھگت ھو، اور اسی طرح ایک دوسرے کی امید پر ھی ایک دوسرے کے قریب جانے سے گریز کرتے ھیں، جس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ تیسرا شخص دونوں کے بیچ میں آکر مزید ایک دوسرے کے درمیان طویل فاصلہ پیدا کرنے میں کامیاب ھوجاتا ھے، جس کا کہ کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا، پھر زندگی بھر اپنی غلطیوں پر پچھتاتے رھتے ھیں،!!! اب پچھتاوئے کیا ھوت، جب چڑیا چُگ گئی کھیت،!!!!!!

ھر ماں اپنی مامتا کی وجہ سے مجبور ھے، وہ یہ سمجھتی ھے کہ اس کا بیٹا اب اپنی ماں کے بجائے اپنی بیوی کی طرف زیادہ دھیان دے رھا ھے، اور اس کے یقین کو باھر کے لوگ اور بھی پختگی میں بدل دیتے ھیں، اور بے چاری بہنیں تو معصوم ھوتیں ھیں وہ یہ سوچتی ھیں کہ پہلے بھائی تو ھمیں خوب گھمانے پھرانے لے جاتے تھے، اور جب سے بھابھی آئی ھیں، وہ بھابھی کو اکیلے ھی لے جاتے ھیں اور ھمیں نہیں پوچھتے، جبکہ ایسا نہیں ھے، وہ اپنے گھر والوں کو بھی وقت دیتے ھیں لیکن کبھی کبھی شادی کے بعد تو میاں بیوی کو ایک دوسرے کو سمجھنے کیلئے کچھ تنہائی کی ضرورت بھی ھوتی ھے، اس لئے گھر ھو یا باھر انہیں ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کیلئے کچھ وقت تو درکار ھوتا ھی ھے لیکن جب بہن کی شادی ھوجاتی ھے تو اسے اس بات کا احساس کچھ کچھ ھوجاتا ھے، مگر کئی کو تو پھر بھی نہیں ھوتا کیونکہ اس کے ساتھ اس کے شوھر کا سلوک ویسا تہیں ھوتا جیسا کہ وہ خیال کرتی ھے کہ اسکے بھائی کا اسکی بھابھی کے ساتھ رھتا ھے،، !!!

اور پھر جب بیٹی میکہ میں واپس آتی ھے تو وھی دوسرے لوگ اسے گھیرا ڈال کر کہتے ھیں کہ ارے تم کیا گئی تمھاری بھابھی نے اس گھر پر تو جیسے قبضہ ھی کرلیا، تمھاری اماں کو تو چائے تک نہیں پوچھتی اور دیکھو تمھاری اماں کی کیا حالت ھوگئی ھے، سارا گھر کا کام کرتی ھے، وہ تو نواب زادی عیش کررھی ھے،!!! پھر کیا وہ بہن اپنی بھابھی کے ساتھ جو سلوک کرتی ھے کہ کوئی بھی بیچ میں صلح صفائی کرنے نہیں آتا اور جب اس گھر کے سپوت گھر پر نوکری کرکے تھکے ھارے گھر آتے ھیں تو وھی بہن اپنی اماں کے سامنے بھابھی کا دکھڑا روتی ھے، اور جب وہ اپنی بیوی کے سامنے جاتا ھے تو وہاں دوسری کہانی شروع ھوجاتی ھے، اب بتائیں کہ بے چارہ شوھر جائے تو جائے کہاں کس کی سنے اور کس کی ان سنی کردے، اباجی بھی اس وقت خاموشی اختیار کرلیتے ھیں،!!!!!!!

اور میں نے کئی خوش قسمت گھرانے ایسے بھی دیکھے ھیں، جو اپنی تمام بہووں اور بیٹیوں کو ایک ساتھ لے کر چلتے ھیں، اس کے علاؤہ سب ایک ھی دستر خوان پر کھانا بھی کھاتے ھیں، ساتھ ھی سب مل جل کر گھر کے تمام کام ھنسی خوشی کرتے ھیں، اور اں کے بڑوں کے ساتھ ھمیشہ بہت ھی عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے ھیں،اللٌہ تعالیٰ ھم سب کو مل جل کر رھنے اور ھر ایک کے ساتھ خلوص اور محبت کا سلوک رکھنے کا سلیقہ دے، آمین،،، !!!!

یہ عورت یہ کیوں نہیں سمجھتی، کہ وہ ایک بہن ھے، بیٹی ھے،اور بیوی بھی ھے، ساتھ بعد میں اسے ھی ماں کا اعلیٰ عظمت کا درجہ بھی ملتا ھے، اور ھر ایک رشتہ اپنی جگہ ایک مقدس حیثیت رکھتا بھی ھے، اور اگر ھر کوئی ان رشتوں کے تقدس کو پہچان لے تو کوئی بھی یہ حوا کی بیٹی گھر سے بے گھر نہیں ھوسکتی،!!!!!!!!!

سبحان اللٌہ، یہی تو میں چاھتا ھوں، کہ آپ کی بات ھر گھر تک پہنچے، کاش کہ لوگ سمجھ جائیں، اور اللٌہ تعالیٰ پر یقین، سنت نبوی کی پیروی اور اپنے ایمان کو پختہ رکھیں، تو کوئی بھی کسی کی بھکائے میں نہیں آسکتا، اور یہی ھماری دنیا میں ھمارا امتحان بھی ھے، مگر لوگ دینی تعلیم کی کمی کی وجہ سے ذہنی انتشار کا شکار ھیں،!!!!

میری یہ شادی بھی بالکل ارینج میریج ھی تھی اور والدین کی مرضی سے ھی ھوئی تھی، اور میں نے کبھی بھی اپنی بیگم کو دیکھا بھی نہیں تھا، اور نہ ھی ھمارے کوئی فیملی تعلقات ان کے ساتھ تھے، بس ایک آفس میں کام کرتے ھوئے ایک دوسرے سے تعلقات پیدا ھوئے، ان کے خاندان اور محلے کے عزیز و عقارب کے رشتے بھی تھے لیکن ان کے والدین نہیں چاھتے تھے، اور اسی ظرح ھمارے ساتھ بھی ایسا ھی تھا، ھر کوئی میرے ساتھ ھی اپنی بیٹی سے رشتہ کرنا چاھتا تھا، اور اسی طرح میری بیگم کی عادت اور صورت سیرت کی وجہ سے سب ان کے خاندان اور عزیز اقارب بھی یہی چاھتے تھے کہ یہ لڑکی ان کی بہو بنے، اور اللٌہ تعالیٰ کو کچھ اور ھی منظور تھا،!!!!

میرے ساس سسر بھی بہت محبت کرنے والے تھے اور میرے والدین بھی، اور اس پاک پروردگار کا احسان ھے کہ انھوں نے اپنی لڑکیوں کو ھمیشہ ھی اچھی تربیت دی، یہی وجہ ھے کہ کہ اب ان میں صرف میری والدہ ھی حیات ھیں اور وہ میری بیگم اور بچوں کو بہت چاھتی ھیں اور ان کی مثالیں دوسروں کو دیتیں ھیں، ھمارے ساس سسر اللٌہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے بہت ھی مخلص تھے، اور ان کی باقی تمام اولاد بھی اسی طرح محبت کرنے والے ھیں، اور ھر مشکل وقت میں ان سب نے ھمارا بہت ساتھ دیا، اور اب تک ھر وقت ھر خدمت کیلئے پیش پیش ھوتے ھیں، جن کا میں بہت ھی احسان مند ھوں، اور اسی طرح میرے بہن بھائیوں کی قربانیاں بھی بہت ھیں انہوں نے بھی ھمارا بہت ساتھ دیا ھے، سب لوگ ھمارے گھر والے ھوں یا میری سسرال ھو، ھمارے پاکستان آنے کا بہت بے چینی سے انتظار کرتے ھیں، اور بہت سی تقریبوں کو ھمارے ھی آنے کے شیڈول کے مطابق ھی منعقد کرتے ھیں، یہ سب ان لوگوں کا پیار ھے جسے میں کسی قیمت پر بھول نہیں سکتا، !!!!!!!!

میرے والدین اور میرے ساس اور سسر بہت ھی شریف النفس اور پرخلوص انسان تھے مگر ھر ایک کی چکنی اور چپڑی باتوں میں بھی آجاتے تھے، لیکن انہیں بہت جلد یہ احساس بھی ھوجاتا تھا کہ یہ سب بھکاوئے کی ھی باتیں ھیں، وہ جب ھمیں خوش وخرم دیکھتے تو بہت ھی زیادہ خوش ھوتے تھے، اور پھر کسی کی طرف کان نہیں دھرتے تھے، ان کی طرف سے تو ھمیں بہت پیار اور محبت ملا لیکن دشمن زمانہ جو جو اس شادی سے خوش نہیں تھے انہوں نے ھم سب کو بہت تنگ کیا، یہ اللٌہ کا شکر رھا کہ ھم دونوں میں کبھی کوئی اختلاف کسی دوسرے کی وجہ سے نہیں آیا اور ھم نے اپنے اس شادی کے مقدس بندھن کو پیار اور محبت سے ایک مضبوط حصار کے دائرے میں مقید رکھا، چھوٹی موٹی آپس کی نوک جھوک کبھی کبھی چل جاتی تھی، لیکن وہ فوراً ھی ختم بھی ھو جاتی تھی، وہ بھی ایک ھماری ازدواجی زندگی کا حصہ ھے، لیکن لوگوں کے تیر اور نشتر کے شکار ھونے سے ھمیں ھمارے پیار اور محبت کی ڈھال نے ھر قدم پر بچایا، !!!!!

کبھی کبھی ھم دونوں میں کوئی گھریلو بات کی وجہ سے کچھ خفگی ھو بھی جاتی ھے تو ھمارے بچے مل کر ھم دونوں کو خوب ھنسا کر اپنے معصوم حرکتوں سے ھمیں منا بھی لیتے ھیں، اور میں تو کبھی کبھی جب کچھ زیادہ دن تک کوئی ناراضگی نہیں ھوتی تو میں کبھی کبھی بیگم کے ساتھ مذاق کرکے یہ شوق بھی پورا کرلیتا ھوں، اور وہ بھی سمجھ ھی جاتیں ھیں، اور وہ بھی ناراض ھو کر تفریح لیتیں ھیں، مگر میرے بچے واقعی ھر مشکل گھڑی کو بہت ھی پیار اور محبت کے ساتھ سنبھال لیتے ھیں،!!!!

میرا مقصد یہ کہنے کا نہیں ھے کہ بچے اپنی پسند سے شادی نہیں کر سکتے مگر انہیں اپنے والدین کو یہ بھروسہ اور اعتماد دلانا ضروری ھے کہ ان کی پسند کا معیار ھر لحاظ سے زندگی کی ھر کسوٹی پر پورا اترتا ھے، کیونکہ بچوں کو شادی کرکے اپنی ازدواجی زندگی میں خوشیاں سمیٹنی ھوتیں ھیں، والدین کا ساتھ کب تک رھے گا، اور تقریباً ھر والدین یہی چاھتے ھیں کہ ان کے بچوں کی زندگی بہتر سے بہتر ھو،!!!!!!

دنیا میں ایسے بھی ماں باپ ھیں، جو اپنے بچوں کی زندگی کا سودا بھی کرتے ھیں، کہیں جہیز کی لالچ میں اور کہیں تو بزنس میں حصہ کی غرض، تو کہیں بیٹے کو گرین کارڈ حاصل کرنے کا خواب، اور کہیں اسٹیٹس، برابری یا برادری کا سوال، ان سب کو لے کر بھی کئی بچے اپنی والدین کی خواھش کے بھینٹ چڑھ جاتے ھیں،!!! جوکہ ھمارا اسلام اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتا،!!!!!

میری کہانی میں بھی میں نے بہت چاھا کہ زادیہ کو کسی طرح بھی اپنا لوں لیکن جیساکہ آپ نے پڑھا کہ حالات اور واقعات نے مجھے موقعہ ھی نہیں دیا اور کہیں کہیں میری بھی کمزوری رھی ھے کہ میں اپنے والدین کے دل میں جو لوگوں نے غلط فہمیاں ڈال دی تھیں، میں ان کو دور کرنے میں بھی ناکام رھا، اور کہیں انکے والد صاحب مرحوم کی طرف سے بھی اتنی پابندیاں ھوگئی تھیں، جس کی وجہ سے ایک اچھا خاصہ وقت ضائع ھو چکا تھا، اور اس وقت جب میں ان سے ملا تو حالات بالکل ھی بدل چکے تھے، اور اب آخری وقت تک میں بھی اسی کوشش میں تھا کہ اگر زادیہ کے شوھر نے طلاق کی جو دھمکی دی تھی، اگر وہ واقعی دے دیتا ھے تو میں اس وقت بھی اس سے شادی کیلئے تیار تھا، لیکن زادیہ اتنی خود دار قسم کی لڑکی تھی کہ اس نے میری اس پیشکش کو ھمدردی اور ایک احسان کا روپ دیے کر انکار کردیا تھا، جسکی وجہ سے میں نے والدین کو اپنے دوست کی بہن کی طرف شادی کیلئے ھاں کہہ دیا کیونکہ میرے پاس اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں تھا،!!!!!!!

آپ کو سن کر یہ شاید تعجب بھی ھو کہ میں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کا نکاح ان دونوں کی پسند سے ھی کیا ھے اور مجھے یہ بھی یقین کہ ان کی پسند ایک معیاری حیثیت رکھتی ھے، انہوں نے یہ فیصلہ اپنی پوری زندگی کو سامنے رکھتے ھوئے کیا ھے اور اس میں ان پر کوئی بھی زبردستی نہیں کی گئی، ساتھ ھی ھم دونوں میاں بیوی کو بھی ان کی پسند پر فخر ھے کہ انہوں نے ھماری توقعات سے بھی زیادہ بڑھ کر یہ فیصلہ کیا ھے،!!!!!

ھماری تو ماشااللٌہ بہت ھی کمال کی زندگی گزر رھی ھے، دیکھیں اب 29 سال ھوچکے ھیں اور ھم دونوں میاں بیوی کی زندگی خوب مزے سے گزرھی ھے، اور ماشااللہ پانچ بچوں کے ساتھ، اور ھم سب بالکل ایک دوستوں کی طرح ھی یہاں رھتے ھیں، اب تو ایسا لگتا ھے کہ آپ کی بھابھی ان بچوں کی بڑی بہن ھیں، کیا بات ھے اللٌہ نظر بد سے بچائے، دونوں فیملیوں میں ماشااللہ اب تک تو بہت اچھے تعلقات ھیں، بس بزرگوں میں میری والدہ ھی حیات ھیں، اور میرے والد، ھماری ساس اور سسر کا تو انتقال ھو چکا ھے،( اللٌہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے) جو مجھے اور میرے بچوں کو دل و جان سے چاھتے تھے اور بہت سی خوبیوں کے مالک بھی تھے، میرے ساتھ تو میرے سسر نے ایک ساتھ ایک ھی آفس میں کام بھی کیا اور جتنا پیار انہوں نے مجھے دیا میں کبھی بھول نہیں سکتا، وہ ایک عظیم انسان تھے، مجھے اس بات کا بھی فخر ھے کہ میری ساس صاحبہ اور سسر جی اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ، میرے ساتھ میری بیگم اور میرے بچوں کے ساتھ عمرہ اور حج اور روضہ مبارک کی زیارت کی سعادت بھی حاصل کی، اور میں ان کی کچھ خدمت کرنے کا شرف بھی حاصل کر سکا، والد صاحب اپنی زندگی میں ھی، اسی کمپنی کے توسط سے ھی جب سعودیہ میں تھے غالباً 1967 یا 1968 کے دور میں عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کرچکے تھے اور والدہ صاحبہ نے اب تک میرے ساتھ عمرہ ادا کیا ھے اور روضہ مبارک کی زیارت کر سکی ھیں انہوں نے حج کیلئے یہی کہا تھا کہ جب تک انکی آخری بیٹی یعنی میری بہن کی شادی نہیں ھو جاتی وہ حج نہیں کرسکتیں اب اللٌہ کا شکر ھے کہ پچھلے سال ھی بہن کی شادی کی ذمہ داری کے فرائض سے اللٌہ تعالیٰ نے فارغ کردیا ھے، اور انشااللٌہ ان کے ویزے کے لئے کوشش جاری ھے، اللہ تعالیٰ جلد ھی ان کے حج کی سعادت کی دعاء قبول فرمائے، !!!!!!

یہ اللٌہ کا شکر ھے کہ میری سسرال کے تمام لوگ بمعہ تمام رشتہ داروں کے سب بہت عزت کرتے ھیں ، اور میری فیملی کے ساتھ سب لوگ بہت انجوائے بھی کرتے ھیں، اور وھاں پاکستان میں ھم سب کا آنے کا سب لوگ بہت بے چینی سے انتطار بھی کرتے ھیں، اور میں ان سب کا شکر گزار ھوں کہ میری غیر حاضری میں سب میری والدہ کی دیکھ بھال اور میرے بہن بھائیوں کی بھی ھمیشہ خیریت معلوم بھی کرتے رھتے ھیں اور ھمارے گھر کی ھر تقریب شادی بیاہ یا اور کسی بھی تقریب میں خوشی سے حصہ بھی لیتے ھیں اور ھر ممکن مدد بھی کرتے ھیں، ان سب کے لئے میرے دل سے دعائیں نکلتی ھیں، اور میرا ھر مشکل وقت میں ان سب نے ھر وقت ساتھ بھی دیا ھے،!!!!!!!!!!!!
 
سب تھکے ھوئے تھے، سب باری باری جہاں جس کو جگہ ملی سو گیا، میں بھی اپنی دلہن کی طرف اپنے کمرے میں چل دیا، اور وھاں پر اب بھی میری سب سے چھوٹی بہنیں اپنے بھانجے سمیت اپنی بھابھی کے ساتھ محو گفتگو تھیں، اور انکی بھابھی بھی انہیں کوئی شہزادی کی کہانی بہت پیار سے سنا رھی تھی، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی بھی ھوئی کہ اس گھر میں دلہن کی شروعات بچوں کے ساتھ ایک پیار محبت کی کہانی سے ھی شروع ھونے جارھی تھی،!!!!!!!

ھر دن کوئی نہ کوئی رسم ھوتی ھی رھتی تھی، اور اسی سلسلے میں تیسرے یا چوتھے روز میرا بھی سسرال آنا جانا رھا، اور وہ بھی اسی طرح گھر آتے جاتے رھے، دوستوں کے یہاں‌، رشتہ داروں میں بھی دعوتوں اکثر اھتمام رھتا تھا، میری چھٹیاں بھی ڈیڑھ مہینے تک ھی تھیں، اور دن بہت جلدی جلدی گزر رھے تھے، زادیہ اور اسکی امی نے بھی چار یا پانچ دن تک رھیں اسکے بعد ان دونوں نے ھم سب کی اپنے گھر پر دعوت کا کہہ کر گھر والوں سے اجازت لی، ان دنوں میں انہوں نے اپنی کافی خدمات انجام دیں، خاص کر زادیہ نے کچھ زیادہ ھی کیا، وہ تو زیادہ تر دلہن کو ھر رسم کیلئے تیار ھونے اور میک اپ وغیرہ میں مدد کرتی رھی، اور زیادہ تر اپنا وقت دلہن کے ساتھ ھی گزارا اور تمام ھمارے گھر کے طور طریقوں سے روشناس بھی کرایا اور ھر ایک رشتہ دار کا بھی ساتھ ساتھ تعارف کراتی رھی،!!!!!!!

دن بھی بہت جلدی جلدی گزرتے جارھے تھے اور اب ھم دونوں میاں بیوی اپنے اوقات میں بھی آگئے تھے، اور جو بھی جمع پونجی تھی وہ بھی ختم ھونے جارھی تھی، وقت بھی اتنا نہیں تھا کہ مری یا سوات وغیرہ گھومنے جاسکتے، اور کچھ فلوس کی بھی اتنی گنجائیش نہیں تھی، جبکہ زادیہ نے جاتے جاتے مجھے خاص طور سے مری یا سوات اپنی دلہن کو لے جانے کیلئے بہت زور دے کر گئی تھی، لیکن اسکی یہ خواھش میں پوری نہ کر سکا، جسکا مجھے آج تک افسوس ھے، خیر کراچی میں اپنی بیگم کو جہاں جہاں لے کر جاسکا لے گیا، اور خوب گھومایا پھرایا بھی، اور اسی طرح ھم دونوں میں ایک اچھی طرح سے بھروسہ اعتماد کے علاوہ پیار اور محبت کا جذبہ بھی جاگ اٹھا، اور اتنا پیار بڑھ گیا کہ آخری دنوں میں ایک دوسرے کو ایک پل کے لئے بھی انکھوں سے اوجھل نہیں کر سکتے تھے،!!!!!

جہاں بھی جانا دونوں نے مل کر ساتھ ھی نکل پڑنا، گھر کاسودا لانے اگر وہ میری امی جان کے ساتھ جارھی ھیں تو میں بھی خاموشی سے ان کے پیچھے پیچھے مارکیٹ پہنچ جاتا اور سودا وغیرہ سنبھالنے میں مدد کرتا تھا، میری بیگم بھی ھنس پڑتی، اور اگر جس دن بیگم کو ان کی والدہ یا بہن بھائی اپنے گھر لجاتے تو میرا تو گھر پر وقت گزارنا بہت ھی مشکل ھو جاتا، اور میرے اپنے بہن بھائی کبھی کبھی میری اس بے چینی کو دیکھتے ھوئے میرا مذاق بھی اُڑاتے، اور مجھے بہت تنگ کرتے کہ بھائی آپکے سسرال والے تو بھابھی کو ایک ھفتے کیلئے لے گئے ھیں، اب کیا ھوگا پھر جب مجھ سے رھا نہیں جاتا تو مین ایک دو کو اپنے ساتھ لے کر یا کبھی اکیلا بھی اسی دن شام کو اپنے سسرال بن ٹھن کر پہنچ جاتا تھا، اور وھاں پر تو میں کچھ زیادہ ھی رونق لگاتا، کیونکہ بیگم کی سہیلیاں اور خالہ ماموں زاد بہنیں بھی وہیں پہنچ جاتیں، اور مجھ سے تو ساری ھی خوب مذاق وغیرہ کرتی رھتی، یہ سب کچھ اتنا فری ھو کر اپنے گھر میں مذاق وغیرہ نہیں کرسکتا تھا،!!!!!

واپسی میں اپنی دلہن کو ساتھ ھی لے کر آتا تھا، اسلئے کہ چھٹیاں اب ختم ھوتی جارھی تھیں، اور اگر رات زیادہ ھوجاتی تو مجھے وہیں رکنا پڑتا، جس کا کہ والدین کچھ محسوس بھی کرتے تھے، کیونکہ میری غیر حاضری میں وہ خواتیں گھر پر آجاتیں اور ساتھ ھی اپنی عادت کے مطابق والدہ کو خبردار بھی کرتیں کہ دلہن کو بیٹے کے ساتھ زیادہ دیر باھر رھنے سے منع کرو ورنہ تمھیں ایک دن اپنے بیٹے سے ھاتھ دھونا پڑے گا، وہ جورو کا غلام ھوجائے گا اور نہ جانے کیا کیا میری والدہ کا دماغ خراب کرتی رھتیں لیکن شکر ھے کہ والدین نے ان لوگوں کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دیا،!!!!!!

ڈیڑھ مہینہ کا پتہ ھی نہیں چلا، سب کچھ دعوتوں اور مہمان نوازی کے ھی نذر ھوگئے، دن اور رات انہیں مصروفیت میں گزرتے چلے گئے، وقت کے گزرنے کا احساس ھی نہیں ھوا، ڈیوٹی بھی ضروری تھی جولائی 1979 کے درمیان اب وہ وقت آگیا تھا، کہ سب سے وداع لینا تھا، اب تو زندگی کے ساتھ ایک اور میری ھمسفر میری شریک حیات بھی تھی، شادی کے بعد چھٹیوں کے مختصر سے دں اور یہ چند دنوں کی ملاقات میں ھم ایک دوسرے کے اتنے نزدیک آگئے تھے، کہ یہ جدائی بہت مشکل نظر آرھی تھی، اور مجھے یہ امید نہیں تھی کہ میں اس شادی کے بعد اپنی دلہن کے ساتھ اتنا خوش رہ سکوں گا لیکن یہ اللٌہ تعالیٰ کا کرم ھی ھوا کہ ھم دونوں کو ایک دوسرے سے اتنی محبت ھوگئی کہ ایک پل بھی ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اور اب واپس جانا بھی تھا،!!!!

جی بھر کر دیکھ بھی نہ پائے تھے ان کو
کہ جانے کب سحر ھوگئی جاگتے جاگتے

ھماری ساس صاحبہ، بہت ھی اللٌہ والی تھیں اور ھر وقت ذکر الٰہی، میں مصروف رھتی تھیں، اللٌہ تعالیٰ انہیں جنت الفروس میں جگہ دے، اکثر کہا کرتی تھیں کہ نکاح کے دو بول ھی دلوں میں خودبخود ایک محبت کا چراغ روشن کردیتے ھیں، پھر میاں بیوی دونوں کا فرض بن جاتا ھے کہ اس روشنی کو ھمیشہ قائم و دائم رکھیں اور اسی ظرح زندگی بھر محبت کے اس روشن چراغ کو جلائے رکھیں، ساتھ ھی اپنے ھاتھوں کے گھیرے سے اسکی حفاظت بھی کرنی ھے کہ یہ چراغ بجھ نہ پائے چاھے کتنے ھی طوفان اور بادوباراں کیوں نہ آئیں،!!!!!!!

آخر وہ دن آھی گیا جس دن سب سے رخصت ھونا تھا، زادیہ کے گھر بھی آخری دنوں میں ھم دونوں مل کر آگئے تھے، اور ان دونوں کا خدمت اور خلوص کا شکریہ بھی بہت ادا کیا جو کہ ھماری شادی کے دوران انہوں نے ھم دونوں کا ساتھ اپنوں سے بڑھ کر دیا، یہ میں آج تک بھول نہیں سکتا، آج سب گھر والے بمعہ میری بیگم کے مجھے ائرپورٹ چھوڑنے جارھے تھے، اور میں سوچ رھا تھا کہ کیا میں اب ان سب کے بغیر پھر مزید ایک سال تک رہ پاؤں گا،؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
بھولی بسری یادیں،!!!!! دوسرا حصہ-2- شادی کے بعد کی مصروفیات،!!!!!!

آخر وہ دن آھی گیا جس دن سب سے رخصت ھونا تھا، زادیہ کے گھر بھی آخری دنوں میں ھم دونوں مل کر آگئے تھے، اور ان دونوں کا خدمت اور خلوص کا شکریہ بھی بہت ادا کیا جو کہ ھماری شادی کے دوران انہوں نے ھم دونوں کا ساتھ اپنوں سے بڑھ کر دیا، یہ میں آج تک بھول نہیں سکتا، آج سب گھر والے بمعہ میری بیگم کے مجھے ائرپورٹ چھوڑنے جارھے تھے، اور میں سوچ رھا تھا کہ کیا میں اب ان سب کے بغیر پھر مزید ایک سال تک رہ پاؤں گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

ائرپورٹ پر تین گھنٹے پہلے ھی پہنچ گئے تھے، کیونکہ سب لوگوں سے ملنے ملانے میں کافی وقت لگ جاتا اور اندر امیگریشن اور سامان کی کاونٹر پر بھی ایک اچھا خاصہ وقت لگ جاتا ھے، وھاں ائرپورٹ پر کافی رش تھا اور مجھے الوداع کہنے کافی لوگ آئے ھوئے تھے، اور سب سے مختصراً مختصراً ملاقات بھی کررھا تھا، زادیہ بھی اپنی والدہ کے ساتھ مجھے الوداع کہنے آئی ھوئی تھی اور وہ شاید میری بیگم کو سمجھانے کی کوشش کررھی تھی، کیونکہ وہ ایک کونے میں کھڑی آنسوں سے ھچکیاں لے کر رو رھی تھی، اور دوسرے اسکی سہیلیاں اور رشتہ دار بھی اسے دلاسہ دے رھے تھے، انکے والد کی چھٹیاں ابھی باقی تھی، اس لئے انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ شاید مزید ایک ماہ اور رھیں گے، انہوں نے تو ریاض جانا تھا اور میں اب دھران جارھا تھا، !!!!!!

اور ھماری والدہ، والد اور بہن بھائی بھی کافی اداس تھے، ان سب سے مل ملا کر آخیر میں اپنی بیگم سے ملنے گیا، اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے، اسے میں نے سمجھایا کہ فکر نہ کرو، میں جلد ھی چھ مہینےکے اندر ھی دوبارہ چھٹی لے کر آجاؤنگا، بہرحال مجبوراً سب کو ھاتھ ھلاتا ھوا ائرپورٹ کی عمارت کے اندر داخل ھوگیا، بورڈنگ پاس لیتا ھوا ایمیگریشن کاونٹر سے پاسپورٹ پر خروج کی مہر لگواتا ھوا جلدی جلدی لاؤنج میں پہنچ گیا کیونکہ میری فلائٹ کی روانگی کا اعلان ھوچکا تھا، اور آھستہ آھستہ لوگ اپنا بورڈنگ پاس چیک کراتے ھوئے بس میں بیٹھ رھے تھے، جو ھمیں جہاز کے پاس لے گئی، وہاں سیڑھی پر چڑھتے ھوئے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا، آج مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رھا تھا، بس کھڑکی سے باھر اپنے ملک کی پاک سر زمین کو ایک بار پھر سے جدا ھوتے ھوے دیکھ رھا تھا، اور جہاز کراچی شہر کو چھوڑنے کیلئے رن وے پر دوڑ لگا رھا تھا!!!!!!!!

اسی ظرح اپنی یادوں میں گم تھا، ائرھوسٹس کھانا لے کر آئی مگر دل نہیں چاھا، اسے منع کردیا، پچھلی دفعہ جب آیا تھا تو میں بہت خوش تھا، جہاز میں ھر چیز کو بڑی حسرتوں سے دیکھ رھا تھا، کیونکہ وہ میرا پہلا سفر تھا، اور آج تو کسی چیز کو بھی دل نہیں چاہ رھا تھا، تقریباً ڈھائی گھنٹے کا سفر تھا، سیٹ کو پیچھے کرکے سونے کی کوشش بھی کی لیکن نیند نہیں آئی، دھران ائرپورٹ پر اترتے ھی جب تمام ائرپورٹ کی کاروائی کے بعد سامان لے کر باھر نکلا تو میرے آفس کے دوست مجھے لینے آئے ھوئے تھے انہوں نے شادی کی مبارکباد دی اور مجھے کمپنی کی کار میں لیتے ھوئے کمپنی کے رھائشی کمپاونڈ میں مجھے اپنے کمرے تک چھوڑ کر یہ کہتے ھوئے واپس چلے گئے کہ آرام کرو اور پھر شام کو ملاقات ھوگی، میرا کمرہ تو بالکل کاٹنے کو دوڑ رھا تھا، باھر نکلا تو ھر طرف سناٹا تھا کیونکہ سارے لوگ ڈیوٹی پر گئے ھوئے تھے، میں بھی ریکریشن ھال میں گیا اور وھاں ٹی وی کھول کر پروگرام دیکھنے لگا، اور وھاں کچن میں جاکر چائے اپنے لئے ایک چائے بنوائی، اور چائے پیتے ھوئے سب کو باری باری یاد کررھا تھا، وہ تمام شادی کے ھنگامے، ملنا جلنا، گھومنا پھرنا اب بالکل ایک خواب سا لگ رھا تھا،!!!!!!

شام کو تمام ساتھیوں نے ڈیوٹی سے واپس آکر مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا، میں اب تک اسی لباس میں ویسے ھی ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا، سب لوگ مجھے مبارکباد دے رھے تھے، اور پھر اس ھال میں کافی رونق ھوگئی، کچھ لوگ کیرم کھیلنے میں مصروف ھوگئے اور کچھ ٹیبل ٹینس کی طرف کھیل میں لگے ھوئے تھے، مگر میرا ذہن ابھی تک پاکستان میں ھی تھا کہیں بھی دل نہیں لگ رھا تھا، کچھ دوستوں نے کہا بھی کہ چلو ذرا الخبر شہر گھوم کر ھی آتے ھیں، لیکن میں نے منع کردیا، اتنے میں رات کا کھانا ٹیبل پر لگ چکا تھا، بھوک اب بھی نہیں لگ رھی تھی، پھر بھی بڑی مشکل سے دو چار نوالے کھائے اور اپنے کمرے میں سونے چلا گیا، کچھ دوست آئے بھی لیکن بس کمرے میں ھی ان سے کچھ گپ شپ کی اور ان کے جانے کے بعد سونے کی بہت کوشش کی، لیکن آنکھوں میں نیند کا دور دور تک کوئی اتا پتہ نہیں تھا،!!!!!!!

میرا یہاں ایک ایک دن بہت مشکل سے گزر رھا تھا، اب وہاں زادیہ کے گھر کی بھی اتنی فکر نہیں تھی، کیونکہ باجی کے چچا جو ابوظہبی میں تھے انہوں نے بھی انکے ماہانہ اخراجات کا بندوبست کردیا تھا، باجی بھی وھیں پر تھیں، اور وہ اپنے والد کےحق کیلئے اپنے چچا سے وہاں لڑرھی تھی، شاید ھوسکتا ھے کہ ان کے دادا نے کوئی وصیت یا جائداد ان کے لئے چھوڑی ھو اور اس کا حصہ انہیں نہ ملا ھو، اس لئے چچا نے بھی مجبوراً ان سب کی کفالت کی ذمہ داری بھی لے لی تھی، بقول انکی والدہ کے، میں نے پھر بھی یہی کہا کہ اگر کسی بھی مدد کی ضرورت ھو تو میں ھمیشہ حاضر ھوں لیکن زادیہ نے کسی قسم کی کوئی بھی مدد لینے سے انکار کردیا تھا،!!!!!!!

میرا ذھن بھی آہستہ آہستہ زادیہ کے رویہ کی وجہ سے ان کی طرف سے ھٹتا ھی چلا گیا، اور پھر شادی کے بعد اللٌہ ھی بہتر جانتا ھے کہ کیونکر میری ساری دل میں چھپی ھوئی ایک محبت جو کبھی زادیہ کےلئے تھی وہ رفتہ رفتہ اپنی شریک حیات کی طرف منتقل ھوتی جارھی تھی، اور میرے لاکھ چاھنے کے باوجود بھی میرا ذہن زادیہ کی طرف بالکل بھی مائل نہیں ھو رھا تھا، اور میرے لئے بھی یہی بہتر تھا کہ جس طرف کا اب راستہ ھی بند ھوگیا ھو تو اس گلی سے اب گزرنے کا کیا فائدہ، میں نے بھی اب اپنی تقدیر کے فیصلے کو قبول کرلیا تھا، اور یہ میری تقدیر میرے حق میں ھی نکلی، کیونکہ شادی کے بعد میری بیگم کے مراسم کچھ ایسے دوستانہ ھوگئے کہ میں سب کچھ بھول گیا، اس نے میرے یہ مختصر قیام کے دوران میرا اتنا خیال رکھا کہ مجھے خود تعجب ھورھا تھا، مجھے تو لگتا تھا کہ بیگم سے برسوں سے ھی بہت ھی خوبصورت مراسم ھیں، ان چند دنوں میں اس نے میرے دل میں جگہ بنا لی تھی،!!!!!!!

اسی طرح بہت ھی مشکل سے میں چھ مہینے ھی گزار پایا تھا کہ مزید اور مجھے یہاں رھنا مشکل ھو رھا تھا، یہاں دھران میں ان چھ مہینوں میں تقریباً ھر ھفتے میری بیگم ھر کسی کے ھاتھ جو پاکستان سے آرھا ھوتا تھا اسکے ھاتھ کچھ مزادار پکوان بنا کر ضرور بھیجتی تھیں، اور کراچی میں انکےبھائی جو تھے، وہ سارے بھیجنے کے انتظام کردیتے تھے، کیونکہ جو بھی یہاں آرھا ھوتا تھا، وہ انکے بھائی کے پاس ضرور آتا تھا کیونکہ کراچی کے آفس میں یہ آنے جانے کا محکمہ بھی انکے پاس ھی تھا، اور ساتھ ھی مجھے تازہ ترین اپنی بیگم کے خطوط بھی مل جاتے تھے، اور ان کا ھر خظ خوشبوں سے تر اور اتنے منتخب اشعار وہ لکھ کر بھیجتیں کہ دل تڑپ اٹھتا تھا، اور خط کا مضمون ایسا رومانی انداز میں ھوتا تھا کہ دل بار بار پڑھ کر بھی مچل جاتا تھا، اور اسی طرح میں بھی خطوظ کے جوابات بھی دیتا تھا!!!!!!

فروری یا مارچ 1980 کے بہار کے موسم کا دور تھا، میں نے فوراً ھی دلبرداشتہ ھوکر ایمرجنسی کی چھٹی کے لئے درخواست دے دی اور وہ اتفاقاً منظور بھی ھوگئی، بس ٹکٹ اپنا ھی لینا تھا، مجھے تو اپنی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رھی تھی، بہت ھی میں بے چینی سے ایک ھفتہ گزارا کیونکہ ایک ھفتہ بعد ھی مجھے اپنے پیارے وطن میں اپنے گھر کے لئے روانہ ھونا تھا، جہاں کوئی میرا انتظار کر رھا تھا،!!!!!!!!

پھر چھ ماہ بعد ھی ھم گھر پہنچ گئے، ائرپورٹ پر کافی لوگ مجھے لینے آئے تھے، اس دفعہ کچھ زیادہ ھی سامان ساتھ تھا، دو ٹرالی فل بھری ھوئی، تین بیگ اور چند بڑے بڑے ڈبوں میں پیکینگ، سب میں زیادہ تر تحفے تحائف ھی تھے اور اس کے وزن کا کرایہ بھی ایک اچھی خاصی رقم دے کر آیا تھا، شادی کے بعد پہلی بار گھر جارھا تھا، اس لئے خوب دل کھول کر خریداری کی اور اس کے لئے ایک کمیٹی بھی ڈال دی تھی، پہلی کمیٹی لے کر سال بھر کا قرضہ چڑھا کر پھر پہنچے سرکار اپنے گھر کے دربار میں، جہاں بڑی واہ واہ ھوئی، سب چیزیں سب کے سامنے کھول کر رکھ دیں، سب بہنوں اور ھماری بیگم نے تمام نزدیکی رشتہ داروں کے لئے حصہ باٹی کردی، اور کچھ بہن کی شادی کےلئے بھی رکھ لیا تھا جو اسی ھفتے میں طے ھورھی تھی، اس طرح سارے بیگ بھی اور دوسرے پیکنگ کے ڈبے بھی خالی ھوگئے، اور گھر والوں کے ھر ایک حصہ میں ایک دو چیزیں ھی آئیں، جہاں جہاں ملنے گئے ساتھ کچھ لے کر بھی گئے، کیونکہ یہ شادی کے بعد پہلا ھی موقعہ تھا کہ چھٹی پر آیا تھا، اس لئے ھر ایک کے نصیب میں جو تھا وہ دے دیا،!!!!!!

اسی چھٹی کے دوران دوسری بہن کی شادی بھی طے ھوگئی تھی، اور کچھ دن شادی کی مصروفیت میں ھی نکل گئے، اور ایک ھفتہ بچا تھا وہ میں نے زیادہ تر وقت اپنی بیگم کے ساتھ گزارنے کی کوشش کی، اس مختصر سے دنوں میں میری بیگم نے پہلے کی طرح بہت ھی خدمت کی اور بہن کی شادی میں بھی کافی مصروف رھیں، اور ساری تیاری بھی انہوں نے ھی کی، سب گھر والے بھی میری بیگم سے بہت خوش تھے کیونکہ اس بہن کی شادی کے موقعہ پر بہت ھی تمام کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انہوں نے اس گھر کی بڑی بہو کا حق بھی ادا کر دیا، میں بھی خوش تھا اور سارے بہن بھائی اور ھمارے اماں اباجی بھی بہت ھی خوش تھے میں بھی یہی چاھتا تھا کہ ھمارا یہ گھرانا والدین کی نگرانی میں خوش و خرم رھے،!!!!

آخر پھر وھی دن واپس جانے کا آ گیا، پھر وھی غم زدہ دلوں میں آنکھوں میں آنسو دے کر واپس ھو لئے، پھر شادی کا ایک سال بھی اسی رنج غم میں بیت گیا، شادی کی سالگرہ میں نے اپنے کمرے مین خاموشی سے بیگم کے رومانوی خطوط اور شادی کے سالگرہ کے خوبصورت کارڈ دیکھ دیکھ کر ھی منائی، پاکستان سے ھر ھفتے کوئی نہ کوئی سے آتا رھتا تھا اور ساتھ اپنے دفتر سے میرے گھر کا پارسل بھی لے آتا تھا اور گھر کے بنے ھوئے تازہ اور لذیذکھانوں کے ساتھ ساتھ خطوط بھی مل جاتے تھے، اور میں اپنے ان خطوط میں سے سب سے پہلے اپنی بیگم کا ھی خط پڑھتا تھا، دوسروں کے خطوط کے ساتھ تو واقعی کچھ زیادہ ھی نا انصافی ھوتی تھی، وہ سب سے آخیر میں ھی پڑھتا تھا، میں جب تک اپنی بیگم کا خط پڑھتا میرے دوست میرے کھانوں کے پارسل کچن میں گرم کرنے کیلئے لے جاتے، جب تک میں بیگم کا تازہ ترین خط پڑھ کر فارغ بھی ھوجاتا، اور پھر میں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی بیگم کے تازہ ذائقے دار کھانوں میں مصروف ھوجاتا، مگر میرا خیال تو وہیں اپنی بیگم کے خیالوں میں ھی رھتا، !!!!!!!

میرے دوست بھی اس دن کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے جب کوئی پاکستان سے آرھا ھوتا تھا، میرے تین چار ھی خاص دوست تھے، جنہیں میری بیگم کے ھاتھ کے کھانے بہت پسند تھے اور یہ تو طے تھا کہ ھر ھفتے میں دو تیں بار کسی نہ کسی کی آمد ضرور ھوتی تھی، اور شاید کوئی ایسا بندہ ھوگا جسے میرے گھر سے پارسل نہ ملتا ھو اور آُدھر بھی میرے سالے صاحب جیسے ھی کسی دں کوئی جانے والا ھوتا فوراً ھی گھر میں خبر دے دیتے اور پھر ھماری بیگم اسی دن ھی کھانے تیار کردیتیں اور ان کے بھائی صاحب شام کو یا صبح کے وقت جو بھی فلائٹ کا ٹائم ھوتا سب سے چیزیں کھانے اور خطوظ اکھٹا کرتے اور اس آدمی تک پہنچا دیتے یا وہ خود وہ دفتر آجاتا، جس نے اس دن دھران جانا ھوتا تھا اور ساتھ ھی ٹکٹ اور پاسپورٹ بھی حوالے کرتے تھے، کیونکہ انہی کی پاسپورٹ اور ٹکٹ کی ذمہ داری بھی تھی، میرا ھی نہیں اور بھی دوسرے لوگوں کا یہ ھمارے سالے صاحب گھر گھر جاکر پیغام بھی دیتے کہ فلاں آدمی ریاض یا دھران جارھا ھے اگر کچھ ساماں یا خط بھجوانا ھو تو دفتر پہنچانا دیں، ورنہ اگر کوئی پہچانے والا نہ ھو تو یہ ھمارے سالے صاحب خود ھی گھر سے لے آتے تھے، انہوں نے بھی لوگوں کی بہت خدمت کی ھے، اور کافی دعائیں لی ھیں، میں تو آخر انکا بہنوئی تھا وہ بھی اکلوتا، اور دوست بھی تھا، میرے ساتھ تو انہوں نے بہت کچھ مہربانیاں کی، میں ان کا کس کس بات کا شکریہ ادا کروں !!!!!

اسی سال 1980 میں میری سالانہ چھٹی بھی نزدیک ھی تھی،پھر میں نے اس موقعہ کو بھی غنیمت جانا اور جولائی یا اگست کا مہینہ تھا اور رمضان مبارک کے آخری روزے چل رھے تھے، میری چھٹی منظور بھی ھوگئی، اور میں نے اپنا پھر ایک اور سفر کی تیاری کی، کچھ اور قرض پھر بڑھ گیا اور عید الفطر سے دو دن پہلے کراچی پہنچ گیا، یہ میری خوش قسمتی بھی تھی کہ مجھے شادی کے بعد سال میں دو دفعہ گھر جانے کا موقعہ ملا تھا، میں بھی خوش اور میری بیگم بھی خوش،!!!!!

اس دفعہ میں نے کچھ زیادہ ساماں نہیں خریدا تھا، بس ایک ھی سوٹ کیس لے کر گیا تھا، جس میں صرف بچوں کی چاکلیٹ اور سویٹ وغیرہ اور کچھ اپنی بیگم اور بہن بھائیوں کے لئے چھوٹی موٹی چیزیں تھیں، اس دفعہ بھی تقریباً دیڑھ مہینے تک چھٹیاں گزاری ایک فائدہ یہ ضرور ھوا کہ عید الفطر گھر پر سب کے ساتھ منائی، پچھلی دفعہ جب چھٹی آیا تھا تو تقریباً تمام رشتہ داروں اور خاص خاص جان پہچان کے لوگوں کے لئے کافی سامان لے کر گیا تھا، اور کوشش کی تھی کہ سب کو کچھ نہ کچھ مل ھی چائے، مگر بعد میں مجھے یہ سن کر بہت ھی افسوس ھوا کہ زیادہ تر لوگوں کو ان تحفوں سے کوئی خوشی نہیں ھوئی، بس ھر ایک کے طعنے ھی سننے کو ملے کہ اس کو یہ دیا تو ھمیں یہ دیا، فلانی چیز تو یہاں بھی ملتی ھے، اس کی کیا ضرورت تھی، کسی نے کہا کہ ھمارے ایک بچے کو دیا تو دوسرے کو نہیں ‌دیا، اتنی ساری شکایتیں سن کر مجھے بہت ھی افسوس ھوا، میں نے جو چیزیں خریدیں وہ تو ایک طرف لیکن اس سامان کا زائد کرایہ بھی ادا کیا تھا، اسی لئے اس دفعہ میں کسی کیلئے کچھ نہیں لے گیا، علاؤہ صرف اپنے گھر والوں کےلئے،!!!!!!!

تقریباً سارے لوگ ائرپورٹ پر آئے تھے، کچھ تو حیران ھی رہ گئے کہ میں اس دفعہ تو بس ایک ھی چھوٹا سا سوٹ کیس لے کر آیا ھوں، کچھ تو شاید انتظار میں تھے کہ شاید پیچھے اور کوئی ٹرالیاں آرھی ھونگی، اور جب میں ایک سوٹ کیس لے کر سب کے ساتھ پارکنگ کی طرف چلا تو کچھ لوگوں کو بہت مایوسی ھوئی تھی، مگر پھر بھی میری بیگم نے اپنی تمام چیزیں جو میں بڑے شوق سے ان کے لئے لایا تھا، وہ بھی بانٹ دیں، اور میرے اعتراض کرنے پر مجھ سے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاھئے آپ آگئے میرے لئے بہت ھے، اور ساتھ ھی میرے سسرال والوں نے کبھی بھی کسی قسم کی شکایت کا موقعہ نہیں دیا، بلکہ انہوں نے ھمیں بہت کچھ دیا اور اب تک ان کے سارے بہن بھائی ھمارا بہت خیال رکھتے ھیں، اس کے علاوہ وہ سب میری والدہ اور میرے بہن بھائیوں کا بھی ھر طرح سے خیال رکھنے کے ساتھ ان کی ھر ضرورت کو بھی مد نظر رکھتے ھیں، کیونکہ میں یہاں پردیس میں ھوں،!!!!

میری بیگم کے چھ بھائی اور دو چھوٹی بہنیں ھیں اور ماشااللٌہ سب ھی شادی شدہ ھیں، میرے ساس سسر کا تو انتقال ھوچکا ھے وہ دونوں بھی میرے ساتھ بہت ھی اچھا سلوک روا رکھتے تھے، ان دونوں نے بھی خاص طور سے مجھے اپنے بچوں سے بھی زیادہ پیار اور خلوص سے نوازا، اللٌہ تعالیٰ ان دونوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین اور مجھے اس بات کا بھی فخر حاصل ھے کہ انہوں نے بمعہ انکی چھوٹی بیٹی کے ھم سب بیوی اور بچوں کے ساتھ مل کر حج عمرہ اور زیارت نبوی:saw: کی سعادت بھی حاصل کی، وہ دونوں میرے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے آخر کو وہ میرے بچوں کے نانا نانی تھے اور میرے بچے بھی ان پر جان چھڑکتے تھے، اور بچوں کے چھ ماموں بھی ھیں، اس وقت دو دبئی میں ھیں اور چار پاکستان میں ھیں اور سب شادی شدہ اور بچوں والے ھیں اور اپنے اپنے گھروں میں ماشااللہ بہت خوش ھیں!!!!

مین نے ان تمام بہن بھائیوں میں ایک خاص بات دیکھی کہ وہ سب الگ الگ لیکن ھمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت پیار سے رھتے ھیں، ھر تقریب میں ‌سب ساتھ اکھٹا ھوتے ھیں اور سب مل جل کر کبھی کبھی گھومنے یا پکنک منانے بھی جاتے ھیں، کبھی کسی نہ کسی کے گھر میں اکھٹا ھوکر اپنے اپنے گھروں سے کچھ نہ کچھ پکا کر لاتے ھیں اور اکھٹے بیٹھ کر انجؤائے بھی کرتے ھیں، کوئی اگر کسی بات سے ناراض بھی ھو جاتا ھے تو سب ملکر اسے منانے بھی چلے جاتے ھیں، اور سب بہن بھائی ایک دوستوں کی طرح مذاق بھی کرتے رھتے ھیں اور جب اکھٹا ھوتے ھیں تو کافی لظف آتا ھے، اور جب ھم لوگ یہاں سے پاکستان جاتے ھیں تو یہ سب ملکر ھمارے اعزاز میں خوب ھلہ گلہ اور خوب رونقیں لگاتے ھیں اور سب خاص خاص پکوان سے ھماری خوب خاطر تواضع بھی کرتے ھیں، اور اسی ظرح ھمارے گھر میں بھی سب بہنیں اور بھائی اکھٹا ھوتے ھیں اور کافی رونق رھتی ھے والدہ اور بہنیں بھی خوب خاطر تواضع کرتی ھیں، اور بھائی اور انکی فیملیاں بھی شرکت کرتی ھیں، ویسے بھی ھمارے جانے کے شیڈول کے مطابق ھی سب ملکر ھی کوئی نہ کوئی شادی بیاہ کی تقریب،کہیں سالگرہ تو کہیں بچوں کی رسم بسم اللٌہ یا پھر کوئی عقیقہ کی ھی تقریب منعقد کر لیتے ھیں، تاکہ ھم بھی ان خوشیوں میں شریک ھوسکیں اور باقی جگہوں سے بھی سب رشتہ دار پہنچ جاتے ھیں، جس سے رونقوں میں چار چاند لگ جاتے ھیں، اور سب سے ملاقات کا ایک بہانہ بھی ھو جاتا ھے،!!!!!!

مگر ان تمام تقریبات سے ھم دونوں میاں بیوی بعض اوقات بہت تھک بھی جاتے ھیں، لیکن سب لوگ اپنی محبتوں سے ھمارے آنے کے وقت ھی تمام تیاریاں کرتے ھیں، تو ان کی خلوص کی خاطر ھمیں ھر تقریب میں شرکت کرنا لازم ھو جاتا ھے، اپنی چھٹیوں میں ھم دونوں گھر پر کم اور دوسرے گھروں میں زیادہ ھی مدعو رھتے ھیں، اور رات اگر زیادہ ھو جاتی تو وہیں پر ٹھرنا بھی پڑ جاتا ھے، اور اسی طرح میری چھٹیاں بھی بہت جلد ھی ختم ھو جاتیں اور ھماری بیگم کو مجھ سے شکوہ ھی رھتا لیکن اس دفعہ یہ وعدہ کیا تھا کہ انشااللٌہ آپ سعودی عرب ضرور آئیں گی، اور پھر چھٹیاں بھی ختم ھوگئیں اور میں یہاں دھران واپس آگیا، اس دفعہ بھی واپس آنے کا کافی دکھ ھوا، اور سب کی بہت یاد آئی اور بیگم کی تو خاص طور سے کہ بس چھٹی گئے تو مہمانوں کی طرح ھی خاطریں ھوئیں اور پھر چھٹیاں ختم،!!! اور پھر میں نے یہاں آکر اپنی بیگم کو بلانے کے لئے ویزے کے انتظامات شروع کردئیے، کیونکہ اس طرح آنا جانا اپنی بیگم کے ساتھ زیادتی ھی تھی،!!!!!!

گھر پر تو ھمیشہ ھر مہینے باقائدگی سے اپنی والدہ کے نام پر ھی بنک ڈرافٹ بنا کر بھیجتا رھا تھا، مگر سال میں دو دفعہ چھٹی جانے کی وجہ سے دوکمیٹیاں ڈالنی پڑیں، اور آدھی تنخواہ تو اب کمیٹیوں میں ھی چلی جاتی تھی، اور اب اُوپر سے یگم کو بلانے کا بھی مسئلہ تھا، مکان کا تو کوئی پرابلم نہیں تھا، کمپنی کی فیملی رھائش موجود تھی، اور نہ ھی کوئی ویزے کی قیمت دینی پڑتی، لیکن ٹکٹ تو خریدنا ھی پڑتا، اس طرح تو اور مزید قرضہ پر قرضہ چڑھتا جائے گا، اور بیگم کے آنے کے بعد تو اور مزید اخراجات بڑھ جائیں گے، کیونکہ خرچہ بھی تو دو جگہ تقسیم ھوجائے گا، مگر مجھے اسکی اس وقت کوئی پروا نہیں تھی، کیونکہ دل و دماغ پر تو بیگم ھی چھائی ھوئی تھیں !!!!!

میں نے بیگم کے لئے وزٹ ویزے کے لئے کمپنی کو درخواست دے دی تھی، اور اس کی منظوری بھی ھوگئی، اور ویسے بھی مشکل نہیں تھی، کیونکہ ھمارے آفس کے مرکزی دفتر ریاض میں ھمارے سسر صاحب جو موجود تھے، ویزے کے اجراء میں کچھ دو تین مہینے لگ گئے تھے، کچھ دستاویزات کی تصدیق مکمل نہیں تھی اور پھر نکاح نامہ کا عربی میں ترجمہ اور اس کی تصدیق میں کچھ وقت اور لگ گیا اور مجھے اتنی معلومات بھی نہیں تھیں، آخر کار نئے سال 1981 کے شروع ھوتے ھی موسم بہار کے شروع ھونے سے پہلے ھی سردیوں کے اختتام سے پہلے ھی ویزا مل گیا، اور میں تو خوشی سے دیوانہ ھی ھوا جارھا تھا،!!!!!!!

فوراً ھی یہ خوشخبری پاکستان بمعہ ویزے کی رسید کے پہنچا دی، شادی کو ڈیڑھ سال بھی ھوچکا تھا، اور لوگوں کو ایک اور پریشانی لاحق ھوچکی تھی کہ اب تک کوئی ننھا مہمان کیوں نہیں آیا، جس کو دیکھو وہی پوچھتا چلا آتا تھا کہ بھائی سید کیا ھوا، ابھی تک کوئی خوشخبری نہیں آئی، کوئی یہ کہتا ھوا آتا کہ یار کوئی مٹھائی وغیرہ کب کھلاؤ گے، میں تو یہاں تنگ تھا اور اُدھر ھماری بیگم کے ساتھ بھی کچھ ایسی ھی صورت حال تھی، وہ ھی سب کو جوابات دے دے کر تنگ آچکی تھیں، جب تک اللٌہ کا حکم نہ ھو تو کیا کرسکتے ھیں، لوگوں کو تو بہانہ ملنا چاھئے، تنگ کرنے کیلئے،!!!!!

بہرحال ادھر ھمارے بڑے سالے صاحب کو ویزے کی رسید پہنچ چکی تھی، انہوں نے سارے انتظامات کئے، ایک تو ان کی بہن کا معاملہ تھا، اور ویسے بھی دفتر میں ھماری ھی کمپنی کے تمام لوگوں کے لئے سعودی عرب آنے جانے والوں کے پاسپورٹ ویزے اور ٹکٹ کی ذمہ داری بھی انہی کے سر تھی، ادھر سعودی عرب کے سنٹرل آفس ریاض میں ھمارے سسر صاحب تھے اور کراچی کے آفس میں ھمارے سالار آعظم تھے، فکر کس بات کی تھی، فوراً ھی بیگم کے بھیا نے ویزے اور ٹکٹ کا بندوبست کیا، اور ھماری بیگم کو الرٹ کردیا، کہ تیار رھیں کبھی بھی سعودی عرب جانا ھوسکتا ھے، ھماری بیگم بھی خوش اور ھماری بھی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رھا، اب تو ایک ایک دن گزارنا مشکل ھورھا تھا،!!!!!

آخر وہ دن بھی آھی گیا، غالباً مارچ 1981 کے شروع کے دن تھے، اور مجھے کراچی کے دفتر سے ایک ٹیلکس بذریعہ ریاض آفس کے ملا کہ آپکی زوجہ محترمہ آج رات کو دھران ائرپورٹ پہنچ رھی ھیں، ھماری کمپنی کے فیملی کمپاونڈ میں ایک مکان کا پہلے ھی بندوبست کر چکا تھا، اور صفائی وغیرہ بھی کرالی تھی، وھاں پہلے ھی سے کمپنی کی طرف سے تمام ضرورت کے استعمال کی سہولتیں موجود تھیں، گیس کا چولہا، ریفریجریٹر، ائرکنڈیشنڈ اور تمام فرنیچر بھی موجود تھا، بس کچھ ضروری برتن، کراکری وغیرہ اور کھانے پکانے کا سامان، روزمرہ کی استعمال کی چیزیں، ساتھ کچھ سودا وغیرہ جو بھی سمجھ میں آیا، پہلے ھی سے لے کر رکھ لیا تھا، لیکن آج کا دن تو ایسا لگتا تھا کہ وقت رک گیا تھا، سب لوگ مبارکبادیں بھی دے رھے تھے اور میرے دوست چھیڑ بھی رھے تھے، کہ بھئی اب کہاں نظر آؤ گے،!!!!!!

آج کے دن میں دفتر میں بیٹھا بس بار بار وقت کو ھی دیکھ رھا تھا، کام میں بالکل دل ھی نہیں لگ رھا تھا، ادھر ڈرائیور کو بھی کہہ دیا تھا، اور اسے بار بار یاد بھی دلارھا تھا وہ بھی میرا بہت خیال رکھتے تھے، انہوں نے کہا بھی کوئی فکر نہ کرو، میں رات کو آپکو وقت سے پہلے ھی لے جاونگا، خیر بڑی مشکل سے شام ھوگئی، اور اپنے آفس کام وغیرہ سمیٹا، سیدھا نئے گھر میں گیا اور اسکی حالت کا تسلٌی بخش جائزہ لیا اور ھر ایک جگہ کی سیٹنگ وغیرہ دیکھی، جب اظمنان ھوگیا تو باھر نکلا، فلائٹ کے آنے کا ٹائم بھی نزدیک ھی تھا اور وہ ڈرائیور صاحب بھی کار کو چمکا کر لے آئے، اس وقت دھران ائرپورٹ، یہاں کے ائر فورس بیس میں ھی تھا اور ھماری کمپنی ائر فورس کے بیس کا ھی کام بھی کررھی تھی، اور ھمارے پاس وہاں کے اجازت نامہ کے شناختی کارڈ بھی تھے جو ھم دونوں نے خاص ظور پر اپنی سامنے کی جیبوں پر لگائے ھوئے تھے جس سے ائرپورٹ کے اندر جا سکتے تھے، رھائشی کمپاؤنڈ بھی ائرپورٹ کے نزدیک ھی تھا!!!!!!

دھران ائرپورٹ پہنچے تو ابھی فلائٹ آنے میں ابھی بھی کچھ وقت باقی تھا آج کا دن ایسا لگتا تھا کہ ایک سال کا دن ھے جو گزرتا ھی نہیں تھا، بہرحال فلائٹ کے زمین پر لینڈ کرنے کا وقت ھو گیا تھا، جیسے ھی جہاز نے رن وے کو چھوا اِدھر میرے دل نے دھڑکنا شروع کردیا، میری بیگم انکے بھائی کے دوست کی فیملی کے ساتھ ھی آرھی تھیں، اس لئے مجھے کوئی اتنی زیادہ فکر نہیں تھی، مگر پھر بھی انکے لئے تو جہاز کا یہ پہلا پہلا سفر تھا، فلائٹ کے آنے کے ایک گھنٹہ بعد ھی اپنی بیگم کو دیکھا تو وہ انہی فیملی کے ساتھ خراماں خراماں باھر آرھی تھیں، اور مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرھا تھا لگتا تھا کہ کہ کوئی ایک خوبصورت خواب دیکھ رھا ھوں،!!!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،!!!!! دوسرا حصہ،- 3- شادی کے بعد پہلی مرتبہ بیگم کی پردیس میں آمد،!!

دھران ائرپورٹ پہنچے تو ابھی فلائٹ آنے میں ابھی بھی کچھ وقت باقی تھا آج کا دن ایسا لگتا تھا کہ ایک سال کا دن ھے جو گزرتا ھی نہیں تھا، بہرحال فلائٹ کے زمین پر لینڈ کرنے کا وقت ھو گیا تھا، جیسے ھی جہاز نے رن وے کو چھوا اِدھر میرے دل نے دھڑکنا شروع کردیا، میری بیگم انکے بھائی کے دوست کی فیملی کے ساتھ ھی آرھی تھیں، اس لئے مجھے کوئی اتنی زیادہ فکر نہیں تھی، مگر پھر بھی انکے لئے تو جہاز کا یہ پہلا پہلا سفر تھا، فلائٹ کے آنے کے ایک گھنٹہ بعد ھی اپنی بیگم کو دیکھا تو وہ انہی فیملی کے ساتھ خراماں خراماں باھر آرھی تھیں، اور مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرھا تھا لگتا تھا کہ کہ کوئی ایک خوبصورت خواب دیکھ رھا ھوں،!!!!!!!!!

وہ ھماری دلہن، اپنے بڑے بھائی کے دوست کی فیملی کے ساتھ ھی چلی آرھی تھیں، ماشااللٌہ ساڑی پہنے اُوپر سے سنہرے جال سے بنی ھوئی شال اوڑھے واقعی ایک نئی دلہن کی طرح سجی سجائی چلی آرھی تھیں، انہیں دیکھ کر تو مجھے یہ یقین ھی نہیں ھورھا تھا کہ آج اس ظرح میری دلہن اس عرض مقدسہ پر قدم رکھ رھی تھیں، ساتھ ھی دور سے ھی وہ مسکراتی ھوئیں اپنی ھمسفر کو اشارے سے شاید میرا تعارف بھی کرارھی تھیں، جیسے ھی وہ نزدیک پہنچی، تو سلام دعاء کے بعد انکے ساتھ آنے والی فیملی کا میں نے بہت شکریہ ادا کیا، اور ساتھ آنے والی محترمہ نے جواباً یہ کہا کہ ماشااللٌہ آپ کی بیگم تو لاکھوں میں ایک ھیں، آپ لوگ ھمارے گھر ضرور تشریف لائے گا ھم دمام میں رھتے ھیں، اور میں نے بھی ھاں میں ھاں ملادی کہ ضرور آئیں گے پھر ان سے اجازت لے کر اپنی کار کی طرف بڑھ گئے آگے آگے میرے دوست جو ڈرائیور بھی تھے، سوٹ کیس پکڑے ھوئے آگے آگے چل رھے تھے، اور میں بیگم کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ھوئے انکے پیچھے پیچھے پارکنگ کی طرف چل رھا تھا،!!!!!!

کار میں بس باتیں کرتے ھوئے پتہ ھہی نہیں چلا کہ کب گھر آگیا فوراً ھی چونکتے ھوئے کار کا دروازہ کھولا اور پھر سوٹ کیس اٹھاتے ھوئے اپنے دوست کا شکریہ ادا کیا، کاش میرے پاس بھی ایک کار ھوتی اور ساتھ لائسنس بھی ھوتا، مگر میں نے آج تک موٹر سائیکل کے سوا اور کوئی گاڑی نہیں چلائی، اور نہ ھی اس کے بارے میں کبھی سوچا، بہرحال بیگم نے گھر کا پہلے باھر جو ایک چھوٹا سا خوبصورت لآن تھا اس کابخوبی جائزہ لیا اور پھر گھر میں داخل ھوکر ھر چیز کو قرینے اور سجاوٹ کے ساتھ دیکھ کر بہت ھی زیادہ خوش ھوئیں، اور میں بھی کچھ ذرا فخر اور رعب سے اپنی گردن کو اکڑا کر انہیں سب کچھ دیکھا رھا تھا جبکہ یہ مکاں ھمارے استاد محترم کے نام پر کمپنی نے دیا ھوا تھا، اور اس کا ایک حصہ انہوں نے مجھے دے دیا تھا، وہ اس وقت وہاں کے چیف اکاونٹنٹ تھے اور میں اکاونٹس ڈپارٹمنٹ میں سینئیر اکاونٹنٹ کی حیثیت سے ان کا اسسٹنٹ تھا، اور سارے اکاونٹس سیکشن کی ذمہ داری میرے ھی سپرد کی گئی تھی، اور اتفاق سے وہ میرے والد اور میرے سسر صاحب کے دوستوں میں سے بھی تھے اور والد صاحب اور ھمارے سسر جی نے ان کے ساتھ پہلے ایک ساتھ مختلف اوقات میں کام بھی کیا تھا، اور اسی لئے بھی میرا بہت خیال رکھتے تھے، اور اپنے بچوں سے زیادہ مجھے چاھتے تھے، !!!!!!

اور اس کے علاؤہ بھی پہلے اسی کمپنی میں جو میرے سینئر استاد تھے وہ سب بھی میرے والد صاحب اور میرے سسر جی کے ساتھیوں میں سے تھے، اور یہی وجہ تھی کہ ھر جگہ مجھے اپنے والد کی وجہ ھی سے کافی لوگوں نے عزت دی اور سب ان کے ساتھی مجھے اپنے بچوں کی طرح ھی پیش آتے تھے، ان ھی تعلقات کی وجہ سے مجھے کافی فائدہ ھوا، جہاں بھی میرا تبادلہ ھوا مجھے میرے والد صاحب اور سسر صاحب کی وجہ سے ھی بہت زیادہ عزت ملی کیونکہ دونوں نے شروع سے ھی ان سب کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا تھا اورسب لوگ ان دونوں کی بہت عزت کرتے تھے!!!!!!!

ھماری بیگم بھی زندگی میں پہلی بار پاکستان سے باھر نکلی تھیں، اور وہ بھی بہت ھی زیادہ خوش تھیں، انکی والدہ تو ان سے بھی زیادہ خوش اور مجھے ھمیشہ بہت ھی دعائیں دیتی رھتی تھیں، اور گھر بھی ماشااللٌہ بہت اچھا تھا ھر کمرے میں ائرکنڈیشنڈ لگے ھوئے تھے، جوکہ پاکستان میں ھم سوچ بھی نہیں سکتے تھے، لیکن یہاں شدید گرمی کے باعث اسکے بغیر گزارا بھی نہیں تھا، اور ُپٹرول سستا ھونے کی وجہ سے بجلی کے نرخ بھی بہت کم تھے، کیونکہ زیادہ تر یہاں بجلی کے جنریٹر وغیرہ بھی ڈیزل سے چلتے تھے اور ڈیزل تو پٹرول کے مقابلے میں اور بھی بہت سستا تھا،!!!!!!

گھر تو پہلے ھی سے مکمل طرح سے فرنشڈ تھا، بس کچھ ذرا اُوپر اُوپر سے تھوڑا بہت اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ٹپ ٹاپ کرلیا تھا، کچھ دو چار گلدستے ڈائیننگ ٹیبل اور ڈرائینگ روم میں سجا دیئے تھے، اور ایک دو اچھی پینٹنگ بھی بازار سے لاکر دیواروں پر ٹانگ دی تھیں، اور برتنوں کو کیبنٹ میں قرینے سے صاف کرکے رکھ دیئے تھے ساتھ ھی ریفریجریٹر میں تازہ پھل، سبزیاں، چکن اور مٹن قیمہ وغیرہ دھو دھا کر بھر دیئے، اس کے علاؤہ جو جو سمجھ میں آیا مصالے جات اور گھر میں استعمال ھونے والی چیزیں بھی لے آیا تھا، اور یہ سب کچن میں اپنی اپنی جگہ پر رکھ دی تھیں ، یہ تو ایک ہفتہ پہلے سے ھی تیاری کررھا تھا، کچھ نہ کچھ روزانہ ھی لے آتا تھا بس سبزی، پھل، گوشت اور تازہ پکانے کی چیزیں تو آج ھی لے آیا تھا، یہی چیزیں ھماری بیگم دیکھ دیکھ کر خوش ھو رھی تھیں، کہ مجھ میں یہ گھر گرھستی کا قرینہ کب سے پیدا ھو گیا، !!!!!!

بیگم کے آنے کے بعد پہلا ھفتہ تو بہت ھی مصروف ترین گزرا اور اڑوس پڑوس میں جو ھماری کمپنی میں کام کرنے والے افسران کی فیملیز رھتی تھیں، ان کے یہاں بھی تقریبآً ھر روز کسی نہ کسی کے گھر دعوتوں میں ھی رھے، اس کے علاؤہ ھر شام کو انہیں دھران کے آس پاس نزدیکی شہر الخبر اور دمام کی سیر کرائی اور جان پہچاں کی جو ان شہروں میں رھتی تھیں ان فیملیز نے بھی ھم دونوں کی دعوتیں کیں، اور اس ظرح سے پہلا ھفتہ تو بہت ھی ملنے ملانے اور گھومنے پھرنے میں لگ گیا، دوسرے ھفتے کیلئے عمرہ اور روضہ مبارک کی زیارت کیلئے میں نے پہلے سے ھوئی جہاز کی سیٹیں بک کرادی تھیں، دھران سے طائف، ظائف سے مدینہ، مدینہ سے واپسی ریاض جہاں ھمارے سسر صاحب اور ھمارے ماموں سسر بھی تھے، ریاض سے پھر واپسی کیلئے دھران کی سیٹیں اسی ترتیب سے ھی بک کرائیں تھی، اور ایک ھفتہ کی چھٹی بھی لے لی تھی اور سفر کا شیڈول بھی اسی کے مطابق تھا، !!!!!!!

جمعہ کادن تھا، ھم دھران سے بذریعہ فلائٹ طائف پہنچے وھاں باھر نکلے تو ھماری کمپنی کا ڈرائیور موجود تھا، وھاں پر ھمارے پہنچنے کی اطلاع جانے سے پہلے ھی میں دے چکا تھا، اس بات کی ھمیں بہت ھی سہولت تھی کہ طائف میں بھی ھماری کمپنی کا ایک پروجیکٹ چل رھا تھا اور وھاں کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے خاص طور سے تمام کمپنی کے ملازمین کے لئے عمرہ اور حج کی سہولت کی خاطر کئی گیسٹ ھاؤس اپنے ھاوسنگ کمپاونڈ میں بنائے ھوئے تھے اور ھر آنے جانے والوں کی وہاں پر کافی خاطر مدارات بھی ایک ھوٹل کی طرح بغیر کسی اجرت کے فراھم کیا کرتے تھے، کتنی بڑی سعادت اور ثواب حاصل کرتے تھے، سبحان اللٌہ، !!!! ھمارے لئے بھی ایک گیسٹ ہاؤس کھول دیا گیا تھا، ڈرائیور نے ھمیں چابی دی، اور کہا کہ آپ لوگ کھانا وغیرہ سے فارغ ھو کر عمرہ کیلئے احرام کی تیاری یہیں سے کرلیں، پھر مجھے بلالیں تاکہ آپ دونوں کو میں مکہ مکرمہ لے جاؤں گا، کیونکہ مجھے ھی آپ دونوں کو عمرہ کرانے کی ذمہ داری پر معمور کیا گیا ھے، اور مجھے خوشی بھی ھوگی کہ میں آپ دونوں کو عمرہ کراؤں کیونکہ آپ دونوں کے والد صاحبان میرے اچھے دوست بھی ھیں !!!! سبحان اللٌہ یہ اللٌہ کی شان اور کرم ھی رھا اور اسکے حبیب کے صدقہ ھر جگہ اللٌہ تعالیٰ نے ھمیں ھر سہولت عطا فرمائی، جس کا کہ ھم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے،!!!!!!

میں تو پہلے بھی اسی طرح حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کر چکا تھا اور یہ میرا اپنی بیگم کے ساتھ یہ پہلا اتفاق تھا، احرام کی تیاری کے بعد وہاں کی مسجد میں اس وقت شاید عصر کی نماز پڑھی اور دو رکعت نفل پڑھ کر عمرہ کی نیٌت کی، اور فوراً ھی عمرہ کیلئے تیار ھوکر گاڑی میں بیٹھ گئے جو گاڑی چلارھے تھے وہ بھی احرام کی حالت میں تھے، بیگم پیچھے بیٹھی ھوئی ذکر الٰہی میں مصروف تھیں اور میں آگے بیٹھا ھوا تھا، وھاں سے کچھ ھی دیر میں ھم مکٌہ مکرمہ پہنچ گئے اور راستہ بھر تلبیح پڑھتے رھے، جیسے ھی کعبۃ اللٌہ کے میناروں کو بیگم نے دیکھا تو برداشت نہ کر سکیں اور خوب رونے لگیں، میں نے بھی جب پہلی مرتبہ ان میناروں کو دیکھا تھا، تو خود بخود آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے تھے، ایک اللٌہ تعالیٰ کے جاہ و جلال کا منظر دکھائی دیتا تھا اور ایک الگ سی ھی بدن میں ایک اللہ تعالیٰ کا ایک ڈر خوف سے رقعت کی کیفیت طاری ھوجاتی تھی،!!! سبحان اللۃ،!!!!!

اور پھر جیسے ھی ھم دونوں کعبۃاللٌہ کے اندر پہنچے تو کعبہ کو غلاف کعبہ میں دیکھ کر روح تڑپ سی گئی، آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام ھی نہیں لیتے تھے، دو نفل ادا کئے اور پھر ان صاحب کے پیچھے پیچھے وہ جو دعائیں پڑھ رھے تھے، ھم بھی ساتھ ساتھ دھراتے ھوئے خانہءکعبہ کا طواف کررھے تھے اور طواف کے بعد مقام ابراھیم کے نزدیک ھی دو دو نفل ادا کئے اور پھر وہ صاحب ھمیں آب زم زم کے پاس لے گئے وھاں آب زم زم پیا اور پھے سعی کرنے کیلئے صفا مروہ کی طرف گئے اور سعی سے فارغ ھوکر ھم نے بال ترشوائے اور پھر نفل ادا کئے اس سے پہلے عمرہ کے دوران ھی مغرب کی نماز ادا کی عمرے کے مکمل ھونے کے بعد ھی عشاء کا وقت ھو چلا تھا، عشاء کی نماز پڑھ کر ھمیں ان صاحب نے کہا جو ھمیں لے کر آئے تھے کہا کہ کیا آپ لوگ کچھ ٹھنڈے مشروبات نوش فرمائیں گے،؟؟؟، کھانا دیر سے ھی کھایا تھا اس لئے کچھ زیادہ بھوک نہیں تھی اور پھر ھماری رات کے کھانے کی دعوت بھی طائف میں ھی تھی، تو اس لئے ان کی بات سے انکار کرنا ھم نے مناسب نہیں سمجھا،!!!!!!!

مکہ سے عمرہ کی سعادت کے بعد ھم واپس طائف کے لئے روانہ ھوئے، دل تو چاھتا تھا کہ بس خانہءکعبہ سامنے بیٹھے رھیں اپنے رب کی حمد و ثنا کرتے رھیں، سبحان اللٌہ، کیا شان ھے،!!!!

وہان سے سیدھا ظائف میں اپنی ھی کمپنی کے پروجیکٹ کے اسٹاف ھاوسنگ کمپاونڈ پہنچ کر اپنے گیسٹ ھاؤس میں احرام بدلا اور کچھ تازہ دم ھوئے، رات کے کھانے کا اچھا انتظام تھا، اس سے فارغ ھوکر رات بھر آرام کیا، اور پھر صبح ھی ھماری فلائٹ مدینہ منورہ کے لئے تھی، سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ھوئے وھاں سے فوراً ناشتے سے فارغ ھو کر مقامی ائرپورٹ پہنچے، اور جو صاحب ھمیں رخصت کرنے آئے تھے ان کا شکریہ ادا کیا اور ائرپورٹ کی بلڈنگ میں داخل ھوگئے، فلائٹ بالکل تیار تھی، سیدھے وھیں سے ساماں کاونٹر پر حوالے کیا، وھاں سے دو بورڈنگ پاس حاصل کئیے لاونج میں سے ھوتے ھوئے بس میں جا بیٹھے، وہ ھمیں جہاز کے نذدیک لے گئی، سیڑھی پر چڑھتے ھوئے جہاز کے اندر داخل ھوگئے، جیسے ھی اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے تو دیکھا کہ میری بیگم کے آنکھوں میں آنسو تھے، میں نے وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ“ میں اپنی خوش قسمتی پر جتنا ناز کروں کم ھے، کہ آللہ نے مجھے یہ دن دکھایا کہ میں آپ کے ساتھ عمراہ کبھی کیا اور اب مدینہ شریف کی زیارت کیلئے جا رھی ھوں“، !!!!!!!

مجھ گنہگار پر تو اللٌہ نے خاص طور سے کرم کیا ھوا تھا، ھر جگہ جہاں کی خواھش دل میں جاگی وہ پورا کرتا چلا گیا، اور پھر بیگم بھی بہت ھی زیادہ خوش تھیں کہ شادی کے فوراً ڈیڑھ سال بعد ھی انہیں یہ سعادت نصیب ھوگئی تھی، اور اب بھی جب ھم مکہ مدینہ کیلئے روانا ھوتے ھیں تو راستے بھر ھماری بیگم کی آنکھوں میں آنسو ھی تیرتے رھتے ھیں، یہاں پر ھماری سب سے بڑی خواھش یہی رھتی ھے کہ جیسے ھی موقع ملتا ھے ھم فوراً ھی مکہ مدینہ جانے کی ٹھان لیتے ھیں، جب بھی ھم نے جانے کی نیت کی اللٌہ تعالیٰ نے فوراً ھی اس کی منظوری دلوادی،، جدہ میں جب تک تھے تو تقریباً ھر مہینے ھی اللٌہ تعالیٰ ھماری سن لیتا تھا، ریاض میں چھ مہینے یا سال میں ایک دفعہ ضرور جاتے ھیں،!!!!!!!
 
بھولی بسری یادیں،!!!!! دوسرا حصہ،- 4- شادی کے بعد بیگم کی ارض مقدس کی زیارتیں،!!!!!!!

مجھ گنہگار پر تو اللٌہ نے خاص طور سے کرم کیا ھوا تھا، ھر جگہ جہاں کی خواھش دل میں جاگی وہ پورا کرتا چلا گیا، اور پھر بیگم بھی بہت ھی زیادہ خوش تھیں کہ شادی کے فوراً ڈیڑھ سال بعد ھی انہیں یہ سعادت نصیب ھوگئی تھی، اور اب بھی جب ھم مکہ مدینہ کیلئے روانا ھوتے ھیں تو راستے بھر ھماری بیگم کی آنکھوں میں آنسو ھی تیرتے رھتے ھیں، یہاں پر ھماری سب سے بڑی خواھش یہی رھتی ھے کہ جیسے ھی موقعہ ملتا ھے ھم فوراً ھی مکہ مدینہ جانے کی ٹھان لیتے ھیں، جب بھی ھم نے جانے کی نیت کی اللٌہ تعالیٰ نے فوراً ھی اس کی منظوری دلوادی،، جدہ میں جب تک تھے تو تقریباً ھر مہینے ھی اللٌہ تعالیٰ ھماری سن لیتا تھا، مگر ریاض سے چھ مہینے یا سال میں ایک دفعہ ضرور جاتے ھیں،!!!!!!!

1978 سے پہلے مجھ گنہگار کی دل میں سب سے بڑی خواھش یہ یھی تھی کہ میں ایک دفعہ یہاں ارض مقدسہ کی زیارت کرلوں، لیکن اس نے تو لگتا ھے کہ مجھے یہاں مستقل ھی بلالیا ھے، سبحان اللٌہ، یہ اللٌہ تبارک و تعالیٰ کا احسان ھے کہ میں نے یہاں سے تین مرتبہ نوکری چھوڑی بھی لیکن اس کی قدرت مجھے واپس یہاں لے آئی،!!!!!!

ایک واقعہ جو میں شاید پہلے بھی تحریر کرچکا ھوں کہ جب میں کسی وقت پینٹنگ کا شوق رکھتا تھا تو ایک بڑے بزرگ سے صاحب میری پینٹنگ کی دکان پر تشریف لائے تھے، اور مجھے اپنے گھر پر لے گئے اور کہا کہ یہاں دیوار پر کعبہ شریف اور گنبد خضرا کی تصویریں بنادو اور انہوں نے مجھے ایک اخبار پکڑا دیا جس میں دونوں مقدس جگہوں کی تصویریں بنی ھوئی تھیں، میں نے پہلے کبھی ایسی مقدس مقامات کی تصویریں بنائی نہیں تھیں، میں نے پھر بھی ھامی بھر لی، اور واپس دکان جاکر ضرورت کا سامان مختلف رنگ اور برش وغیرہ لئے اور واپس سیدھا ان کے گھر آیا اور اخبار کو سامنے رکھ کر شروع ھوگیا، دیوار کو صاف کرکے پہلے چاک سے اسکیچ بنایا اور اس میں برش سے رنگ بھرنا شروع ھوگیا، میں کوئی اتنا مشاق یا ماھر پینٹر یا آرٹسٹ تو نہیں تھا، لیکن جب تصویر مکمل ھوئی، تو مجھے خود حیرانگی ھوئی کہ اخبار میں چھپی ھوئی تصویر سے زیادہ خوبصورت دونوں لگ رھی تھیں، اور وھیں اسی جگہ شاید 1970 یا 1971 کا دور ھوگا، پھر سے ایک دلی خواھش بھی جاگ اٹھی تھی، کہ کاش اللٌہ تعالیٰ مجھے اس ارض مقدصہ پر پہنچادے،اس وقت وہ بزرگ بھی بہت ھی زیادہ خوش ھوئے تھے، وہ اس کمرے میں عبادت کیا کرتے تھے،!!!!!

شاید ان کی دعاء ھی تھی کہ اللٌہ تعالیٰ نے مجھے 1971 میں ھی ایسی کمپنی میں نوکری دلادی جس کے توسط سے 7سال بعد مئی 1978 میں میرا تبادلہ سعودیہ کردیا گیا، جبکہ والد صاحب اور میرے ھونے والے سسر بھی اسی کمپنی میں تھے، لیکن انہوں نے کبھی بھی میرے ٹرانسفر کی بات ھی نہیں کی تھی، اور وہ ابھی مجھے اپنے سے الگ بھی نہیں کرنا چاھتے تھے، اور مجھے قدرتی ایک دن سعودی عرب سے آئے ھوئے ڈائریکٹر صاحب نے زونل آفس میں بلوایا، جو یہاں‌ کے ڈائریکٹر صاحب کے کمرے میں بیٹھے ھوئے تھے، انہوں نے میرا تعارف کرایا، کہ میرے پاس یہ لڑکا سید ھے جو آپ کے معیار پر پورا اترے گا گو کہ میں اسکو خود نہیں چھوڑنا چاھتا ھوں لیکن تم نے مجھ سے سعودی عرب کے ایک نئے پروجیکٹ کیلئے ایک اکاونٹنٹ مانگا ھے، اس نے یہاں دو پروجیکٹ پر کام کیا ھے، اور ابھی اس وقت اس نے پورٹ قاسم کے پروجیکٹ کو شروع کیا ھے، پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم سعودی عرب جاؤ گے میں نے جواباً خوشی سے ھاں کردیا، اور انہوں نے فوراً کہا کہ جاؤ تیاری کرو، میں تو حیران پریشان رہ گیا، کیونکہ ایک اکاونٹنٹ کی جگہ تھی اور پورے پاکستان میں اسی کمپنی میں مجھ سے بہت بہتر اور قابل لڑکے بھی موجود تھے، اور ھر ایک کی لازمی خواھش بھی تھی،!!!!!!

میں واقعی اپنی قسمت پر رشک کرتا ھوں، کہ اس سعودی عرب میں آنے کے بعد میری شادی ھوئی، اور اب اپنے بچوں کی شادیاں ھورھی ھیں، اور اب تک میں یہیں ھوں، جبکہ تین دفعہ چھوڑ کر بھی گیا لیکن ھر بار واپس یہیں پہنچ گیا اور بس اب تو یہی ایک آخری ارزو ھے کہ موت بھی آئے تو حضورپاک(ص):saw: کے روضہ مبارک کی چوکھٹ پر آئے،،، آمین،!!!!!

بہار کا موسم، گرمیوں کی آمد آمد تھی اور سال 1981 کا تھا، اور ھم دونوں میاں بیوی ارض مقدسہ پر عمرہ اور زیارتوں کی سعادت حاصل کررھے تھے، اور اللٌہ تعالیٰ ھمیں تمام تر سہولتیں دئیے چلا جارھا تھا، جہاز میں یہی سوچتے سوچتے وقت گزر گیا، اور کچھ دیر بعد ھی ھمارا جہاز مدینہ منورہ کے ائرپورٹ پر اتر رھا تھا، وہاں سے ٹیکسی کے ذریئے ھم مسجد نبوی (ص) کے لئے روانہ ھوئے، دور سے جیسے ھی مسجد نبوی(ص) کے مینار نظر آئے، آنکھوں سے پھر ایک بار آنسوؤں کی جھڑ لگ گئی، راستے بھر درود شریف پڑھتے ھوئے حرم نبوی شریف (ص) پہنچے اور نذدیک ھی ایک ھوٹل جس کا نام “فندق الحرم“ تھا ابھی تک مجھے یاد ھے، وھاں ایک کمرہ کرایہ پر لیا، ھوٹل بہت اچھا تھا، سامان وغیرہ رکھ کر وضو کیا اور فوراً ھی نیچے اتر گئے، اور ھمارے قدم سامنے ھی مسجد نبوی (ص) کی طرف تیز تیز چلنے لگے، بیگم تو عورتوں کی جانب چلی گئیں اور میں دوسری ظرف سے اندر داخل ھوگیا اور سیدھا چلتا ھوا روضہ مبارک (ص) کے سامنے بیٹھ گیا، جہاں ایک کھلا صحن تھا اور وہاں سے گنبد خضریٰ بھی نظر آرھا تھا، اور نفل نمازؤن کے ساتھ ساتھ درود شریف کا ورد بھی زبان پر جاری تھا،!!!!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
الصلوۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم

اللٰھمَ صلِّ علیٰ سیدنا ومولانا محمدوعلیٰ آلہ و صحبہ و بارک وسلم

اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید ہ
اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجید ہ


اور ابھی بھی کوشش یہی کرتا ھوں کہ وھاں ھی جاکر بیٹھوں کیونکہ سامنے روضہ مبارک (ص) کی جالیاں اور نگاہ اوپر دوڑاؤ تو گنبد خضریٰ نظروں کے سامنے ھوتا ھے، سبحان اللٌہ،!!! وھاں ھم نے مغرب اور عشا کی نماز پہلے دن اور دوسرے دن فجر کی نماز کے بعد بیگم نے روضہ مبارک(ص) پر عورتوں کے اوقات میں سلام پڑھا اور درود شریف کا ورد کرتی رھیں، اور نوافل ادا کئے، میں نے تو مغرب اور عشاء کی نمازوں کے وقفہ میں ھی زیارت کرلی تھی، جب بیگم روضہ مبارک کی زیارت کی سعادت سے واپس آئیں تو پہلے سیدھا جنت البقیع کے مقام پر گئے، وہاں درود اور سلام ادا کرتے ھوئے تمام قبروں کی زیارت کی پھر ناشتے سے فارغ ھوکر وہاں سے شہر مدینہ کی اطراف کی باقی مقدس مساجد اور غزوات کے مقامات کی زیارتوں کے لئے ایک ٹیکسی کرایہ پر لی تاکہ ایک ھی وقت میں تمام زیارتوں کی سعادت بھی حاصل ھوجائے، مسجد قبا، مسجد قبلتین، سات مساجد غزوہ قندق کا مقام، غزوہ احد کا مقام کی زیارتوں کے وقت بھی ھمیں ایک عجیب سی روحانی تسکین اور سکون قلب حاصل ھورھا تھا، سبحان اللٌۃ،!!!!!

واپس آئے تو سیدھا ھوٹل گئے اور تازہ دم ھوکے دوپہر کے کھانے کے لئے پاکستانی ریسٹورنٹ میں گئے، کھانا کھا کر فارغ ھوئے تو ظہر کی اذان ھورھی تھی، اسلئے فوراً مسجد نبوی (ص) میں داخل ھوگئے، نماز پڑھ کر بازار سے کچھ تسبح اور جاءنمازیں خریدیں ساتھ ھی کھجور بھی وہاں کی تبرکات کے ظور پر لیں، کیونکہ پاکستان میں اکثر لوگ وہاں کی تبرکات کے لئے خواھشات رکھتے ھیں،، اسی اثناء میں عصر کا وقت ھوگیا تھا فوراً ھی جلدی جلدی سارا سامان ھوٹل کے کمرے میں رکھا اور مسجد نبوی (ص) میں ‌عصر کی نماز پڑھی اور ساتھ ھی روضہ مبارک (ص) کی جالیوں کے ساتھ الوداعی سلام پڑھا اور درود شریف کاورد کیا ساتھ ھی تمام مقدس جگہوں پر نوافل ادا کئے، اور کیونکہ اسی روز شام کی ھماری وھاں سے ریاض کیلئے واپسی کی فلائٹ تھی، اس لئے ھوٹل میں جاکر سامان پیک کیا اور ھوٹل کا بل ادا کرکے ائرپورٹ بذریعہ ٹیکسی روانہ ھو گئے،!!!

راستے میں ھمیں افسوس ھورھا تھا، کہ مسجد نبوی (ص) میں ھم صرف پانچ وقت کی ھی نمازیں ھی ادا کرسکے، یہ اللٌہ تعالیٰ کا کرم ھی رھا کہ کہ عمرہ اور زیارت بہت ھی سکون اور آرام سے ھوگیا جبکہ ھماری بیگم امید سے تھیں، اور انہیں اس بات کی یہ بھی خوشی تھی کہ پہلی اولاد کی امید کو اپنے بطن میں لئے عمرے اور زیارت کی سعادت حاصل کی، اور ھم دونوں نے بہت دعائیں کیں اس پہلی اولاد کی سلامتی کیلئے، کیونکہ اس سے پہلے تین دفعہ مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا تھا، لیکن اس دفعہ اپنے حبیب کے صدقے ھمیں کامل یقین تھا کہ اس دفعہ ھمیں اللٌہ تعالی اولاد کی نعمت سے محروم نہیں کرے گا، اور اللٌہ کی رحمت اور برکت سے ھی ھمارے گھر میں 21 دسمبر 1981 کو پہلے مہمان یعنی لڑکے کی ولادت ھوئی اور جس کا نام ھمارے والد صاحب نے “سید حبیب الرحمن“ رکھا،!!!!!!!
 
Top