بھارتی میڈیا کا منفی کردار

جاسم محمد

محفلین
بھارتی میڈیا کا منفی کردار
197143_9510341_updates.JPG

چودہ فروری کو جہاں دنیا بھر میں محبت کا عالمی دن منایا جارہا تھا وہیں مقبوضہ کشمیر میں ایک خودکش حملے کے نتیجے میں چالیس بھارتی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں۔ نہ ہی مسئلہ کشمیر دنیا کیلئے کوئی نئی بات ہے۔ کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی سے سب خوب واقف ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں کشمیری نوجوانوں میں حصولِ آزادی کی ایک نئی لہر اٹھی ہے جس نے بھارت کے ترقی پسند اور سیکیولر ہونے کی جھوٹے دعووں کو پھر سے بے نقاب کردیا ہے اور بھارت کا اصل شدت پسند چہرہ دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ بھارتی شہریوں میں بڑھتی مذہبی جنونیت کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم خواہ ٹوئٹر ہو یا فیس بک دیکھی جاسکتی ہے۔

اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک وہاں کی سرکار اور دوسرا زہر اُگلتا میڈیا۔ جب حکومتی سطح پر ہی کسی بھی دہشتگردی کے واقعے کا الزام منٹوں میں بغیر کسی ثبوت، تحقیق یا تصدیق کے پاکستان پرڈال دینے کا رواج عام ہو تو وہاں کے عوام کا مزاج کیسے مختلف ہوگا۔ ایک طرف واقعہ ہوتا ہے تو دوسری طرف چٹکی بجتے ہی بھارتی میڈٰیا کی جانب سے پاکستان پربےبنیاد الزامات کی بوچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ایک کے بعد ایک بیان۔ ہر اٹھتی انگلی پاکستان کی جانب اشارہ کرنے لگتی ہے۔ نت نئے طریقوں سے اپنی جہالت ظاہر کی جاتی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اسی لئے حیرت بھی نہیں ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کو پاکستان سے منسوب کرکے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر بھارتی شہری پاکستان اور اسلام مخالف پروپیگنڈہ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ نفرت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بات گالیوں سے شروع ہوکر گالیوں پر ختم ہورہی ہوتی ہے۔ طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ بھارتی عوام کا منفی ردعمل اس قدر شدید ہوتا ہے کہ لگتا ہے یہ انسانیت ہی بھول بیٹھے ہیں۔ بحرحال عوامی ردعمل میں شدت پسندی تو شاید بھارت کی پہچان بن چکی ہے۔ لیکن اصل مدعا بھارتی میڈیا اور صحافیوں کا منفی کردار ہیں۔ منفی لفظ بھی بھارتی اینکرز کے زہر بھرے لہجوں کے سامنے بہت شائستہ معلوم ہوتا ہے۔

صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور صحافیوں کا قلم جتنا آزاد ہو معاشرے کے لئے اتنا ہی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ لیکن آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اخلاق سے گری ہوئی باتیں شروع کردی جائیں۔ مجھے نہیں معلوم بھارتی صحافی کہاں سے تربیت لے کرآتے ہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ انہیں میڈیا قوانین اور اخلاقیات کی الف ب بھی معلوم نہیں ہوتی۔ پچھلے چند دنوں میں بھارتی میڈیا کا کردار صحافت کے اصولوں پر ایک سوالیہ نشان بنا گیا ہے۔ بھارت کے مقبول چینل ذی نیوز کے پروگرام ڈی این اے کے اینکر سُدھیر چوہدری اپنے پروگرام میں کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کرتے رہے کہ بنگلادیش توڑنے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا۔ اور بلوچستان میں پاکستان مخالف دہشتگردی کے فروغ میں بھارت ملوث ہے اور بھارتی حکومت اور افواج کو پاکستان میں اپنی کاروائیاں مزید تیز کردینی چاہئیں تاکہ پاکستان کے پھر سے ٹکڑے ہوجائیں۔ صرف یہ ہی نہیں وہ اپنے پرائم ٹائم پروگرام میں اس بات پر زور دیتے رہے کہ پاکستان پر حملہ کردیا جائے اور جنگ ہی ایک واحد راستہ ہے۔

دوسری جانب بھارتی نیوز چینل آج تک کے میزبان راہول کنول سابقہ بھارتی جرنیلوں اور دفاعی تجزیہ کاروں کو پروگرام میں بطور مہمان بلا کر پاکستان پر حملہ کرنے کی حکمتِ عملی بناتے رہے۔ یہ سب براہ راست دکھایا جاتا رہا۔ ایک اور بھارتی نیوز چینل کے میزبان تو جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور اپنے ہی رپورٹر پر برس پڑے۔ مستقل چیخنے چلانے کی وجہ سے ان کی آواز بھی بیٹھنے لگی۔ وہ بار بار دہراتے رہے ہم غصے میں ہیں ملک غصے میں ہے بدلہ لینا ہے پاکستان پر حملہ کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے درجنوں پروگرام روزانہ کی بنیاد پر نشر کئے جارہے ہیں اور صحافت کا مذاق بنایا جارہا ہے۔

میڈیا کے ساتھ ہونے والا یہ مذاق بند ہونا چاہئے۔ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا (ابلاغ عامہ) میں یہی فرق ہے کہ پیشہ ور صحافی میڈیا کے اصولوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ خبر چاہے کچھ بھی ہو اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تمیز تہذیب کو تھام کے رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بےلگام اندازِ اظہار کو ٹی وی اور اخبار کی حد تک لے آنا بھارتی معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میری پاکستانی صحافیوں سے گزارش ہے کہ بھارتی میڈیا سے متاثر نہ ہوں۔ ان کے جاہلانہ انداز سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔ ہمارے میڈیا پر عوام لاکھ تنقید کرے لیکن ساتھ ساتھ خوشی بھی منائے کہ ہمارے پاس بھارت جیسے گِرے ہوئے بد زبان صحافی نہیں۔ پاکستان میں آج بھی کانٹینٹ (مواد) کو سوچ سمجھ کر نشر کیا جاتا ہے۔ خامیاں ضرور ہونگی لیکن کسی دوسرے ملک کے سامنے شرمندہ کرانے والی نہیں۔

میں گزارش کروں گا پریس کلبز کے عہدیداروں اور دیگر صحافی تنظیموں سے کہ بھارتی صحافیوں کا نفرت انگیز رویہ اور پاگل پن بین الاقوامی سطح پرصحافتی تنظمیوں سے شیئر کیا جائے۔ یوٹیوب سے کلپس نکال کر دنیا بھر کے صحافیوں کو بھارتی میڈیا کا اصل چہرہ دکھایا جائے۔ کیونکہ بطور صحافی ہماری ذمہ داری ہے کہ درست حکمتِ عملی کے ساتھ اس محاذ پربھی بھارت کو شکست دیے جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ جھوٹ پر مبنی منفی پروپیگنڈہ برداشت نہیں کیا جائے گا اور میڈیا کے امیج کو یوں نقصان پہنچانے نہیں دیا جائے گا۔ بقول جون ایلیا کہ

مانا نہیں ہے ہم نے غلط بندوبست کو
ہم نے شکست دی ہے ہمیشہ شکست کو
 
Top