ناصر علی مرزا
معطل
بچوں کے لئے لکھنے والا
مسعود اشعر
ہمیں نہیں معلوم وہ ہماری کون تھیں۔ کوئی رشتے دار بھی تھیں یا نہیں؟ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم ۔ہم انہیں حجیانی نانی کہتے تھے۔ سال میں ایک آدھ بار وہ ہمارے گھر آتی تھیں۔ ہمارے گھر یا ہمارے چچا کے گھر ۔ وہ جب بھی آتیں ہم بچوں کی عید ہو جا تی ۔ابھی رات ہو ئی نہیں کہ ہم ان کے پیچھے پڑ گئے ۔ ’’ حجیانی نانی، کہانی سنائو‘‘۔ اور وہ کہانی سناتیں ۔ وہ بالکل پڑھی لکھی نہیں تھیں ۔ مگر انہیں دنیا بھر کی کہانیاں یاد تھیں۔ اب وہ داستان امیر حمزہ ہو یا الف لیلہ اور پنچ تنتر،تمام کہانیاں انہیں از بر تھیں ۔ اور پھر ان کے سنانے کا انداز ایساکہ نیند سے آنکھیں بند ہو تی جا رہی ہیں مگر ’’ہنکارہ ‘‘ دیئے جا رہے ہیں کہ کہیں وہ ہمیں سوتا سمجھ کر کہانی سنانا بند نہ کردیں ۔ ان کہانیوں میں ہی ہم نے آنکھ کھولی ۔ اور ان کہانیوں سے ہی ہم نے اتنا سیکھا کہ اب تک وہ ہمارے کام آ رہا ہے ۔ اخلاق، آداب، میل جول اور رہن سہن کا سلیقہ ہمیں انہی کہانیوں سے آیا ۔یہ نانیاں اور دادیاں ہی تھیں جنہوں نے کہانیاں سنا سنا کر ہماری تر بیت کی۔
اس کے بعد ہم پڑھنے کے قابل ہوئے تو بچوں کے رسالوں کا دور آگیا ۔ کئی رسالے تھے بچوں کے ۔رسالہ’’ پھول‘‘ سے لے کر ’’ ہو نہار ‘‘ اور ’’ نو نہال ‘‘ تک اور بھی بچوں کے کتنے ہی رسالے تھے ۔ مگر ’’ تعلیم و تر بیت ‘‘ کی بات ہی اور تھی ۔اس کے ایڈیٹر تھے سعید لخت۔ نام تو ان کا سعید احمد خاں تھا مگر سعید لخت کے قلمی نام سے ہی جانے جاتے تھے ۔بچوں کے وہی سعید لخت تین دن پہلے خاموشی کے ساتھ ہم سے بچھڑ گئے ۔کمزور تو وہ بہت تھے کہ عمر نوے سال سے بھی اوپر ہو چکی تھی،مگر بیماری کو ئی نہیں تھی ۔ ہفتے کی صبح ایک ہچکی آئی اور ختم ہو گئے ۔اتنے آرام سے وہ رخصت ہوئے کہ ان کے بچھڑ نے کا یقین ہی نہیں آتا۔ یوں توتعلیم و تر بیت کے اور بھی کئی ایڈیٹر ہوئے۔ مگر چونکہ شروع سے ہی سعید لخت اس کے ایڈیٹر تھے اور زیادہ عرصے وہی اسے ایڈٹ کرتے رہے اس لئے بچے انہی کا نام جانتے تھے ۔اور پھر بچے ان کا نام اس لئے بھی جانتے تھے کہ وہ صرف ایڈیٹر ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے بچوں کے لئے ایسی چٹ پٹی کہانیاں بھی لکھیں کہ بچے اس انتظار میں رہتے تھے کہ سعید لخت کی کوئی کہانی رسالے میں کب چھپے گی۔یا وہ کہانی کتابی شکل میں کب سامنے آئے گی ۔
سعید لخت کی کہانیاں صرف کہانیاں ہی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں زبان کا چٹخارہ بھی ہو تا ہے ۔ ان کی زبان میںوہ پرانی کہاوتیں اور محاورے بھی ہوتے ہیں جن سے بچے لطف بھی لیتے ہیں اور سبق بھی حا صل کرتے ہیں ۔ یہ سبق پندونصائح کی صورت میں نہیں ہو تا بلکہ ایسے ڈھکے چھپے انداز میں ہو تا ہے کہ کہانی کا چٹ پٹا پن بھی بر قرار رہتا ہے اور سبق بھی مل جا تا ہے۔ زبان کا یہ چٹ پٹا پن اور یہ چٹخارہ ان پرانی داستانوں میں بھی ملتا ہے جو سعید لخت نے بچوں کے لئے مختصر صورت میں لکھیں اور ایک پبلشنگ ادارہ نے جنہیں شائع کیا ۔ ان کتابوں کو چھپے کا فی عرصہ ہو چکا ہے ۔ مگر پہلے کی طرح وہ آج بھی اسی طرح مقبول ہیں ۔
آج بھی وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو صحیح زبان سکھانا چا ہتے ہیں وہ یہی کتابیں انہیں پڑھا تے ہیں ۔اور جوماں باپ اپنے بچوں کو یہ کہانیاں نہیں پڑھاتے اگر وہ صحیح اردو زبان سکھانا چاہتے ہیں تو انہیں سعید لخت کی کہانیاں یا ان کی مرتب کی ہو ئی قدیم داستانیں پڑھانا چا ہئیں۔سعید لخت پاکستان بننے سے کچھ عرصے پہلے ہی لاہور آ گئے تھے ۔اور شروع سے ہی ایک اشاعتی ادارہ کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے ۔ان کا یہ تعلق اس وقت تک برقرار رہا جب تک وہ صاحب فراش نہ ہو گئے ۔ انہوں نے صرف رسالہ ہی ایڈٹ نہیں کیا بلکہ وہ اس ادارے سے چھپنے والی کتابوں کی ایڈیٹنگ بھی کرتے رہے ۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کتابیں شائع کرنے والے اداروں میں وہ پہلا ادارہ ہے جس نے کتابوں کے ایڈیٹر کا شعبہ قائم کیا ۔ وہاں کوئی بھی کتاب ایڈیٹر کی نظر سے گزرے بغیر شائع نہیں ہو تی تھی ۔ لیکن کتابوں کے ایڈیٹر خواہ پاکستان میں ہوں یا مشرق اور مغرب کے دوسرے ملکوں میں، ان کی بد قسمتی یہ ہے کہ کتاب کے مصنف کو تو سب جانتے ہیں مگر کتاب کے ایڈیٹر کو کو ئی نہیں جانتا۔ وہ ایڈیٹر جس نے اس کتاب کواصل کتاب بنا نے میں اپنا سر کھپا یا ہے ۔ ایڈیٹر صرف کتاب کے اصل مضمون پر ہی غور نہیں کرتا، وہ صاحب کتاب کو مشورے بھی دیتا ہے کہ اگر یہ تبدیلی کردی جا ئے تو کتاب زیادہ بہتر ہو جا ئے گی ۔
ہمارے ہاں اول تو کتابوں کے ایڈیٹر ہوتے ہیں نہیں۔
اور اگر ہو تے بھی ہیں تو ان کی زیادہ اہمیت نہیں ہو تی ۔ مغرب میں کتابوں کے ایڈیٹر کی بھی اتنی ہی اہمیت ہو تی ہے جتنی کتابیں لکھنے والوں کی ۔ اسی لئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ بڑے بڑے ادیب اپنی کتاب میں جن لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں ان میں سب سے پہلے کتاب کے ایڈیٹر کا نام آ تا ہے ۔یعنی اگر ہم کسی کتاب کے ایڈیٹر کے نام سے واقف بھی ہوتے ہیں تو کتاب کے مصنف کے ذریعے کہ وہ اپنے ایڈیٹر کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولتا ۔ ہمارے ہاں ایسا کو ئی رواج نہیں ہے اور رواج ہو بھی تو کیسے کہ کتابیں چھاپنے والوں کی اکثریت تو کسی ایڈیٹر کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی ۔ انہیں جیسا بھی مسودہ ملتا ہے اٹھا کر چھاپ دیتے ہیں ۔ ان کی بلا سے اس میں زبان کی غلطیاں ہیں یاواقعاتی اور تاریخی سقم۔ اب کہنا تو نہیں چا ہئیے مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے کئی ناول نگاروں کو اچھے ایڈیٹر مل جا تے تو ان کا ڈھیلا ڈھالا پن ختم ہو جا تا ۔ اور متن زیادہ چست ہو جا تا ۔
ایڈیٹر اپنی جانب سے کچھ بھی تبدیل نہیں کرتابلکہ جیسا پہلے عرض کیا وہ صرف مشورے دیا کرتا ہے اور یہ مشورہ ہی اصل چیز ہو تا ہے ۔ سعید لخت یہی کام کرتے تھے ۔ لیکن ان کے ساتھ ایک اور ظلم بھی ہوا ۔ اور یہ ظلم کئی اور لکھنے والوں کے ساتھ بھی ہو ا ہے اور ہو تا ہی رہتا ہے ۔ کئی کتابیں اور کئی تحریریں ایسی بھی شائع ہو ئیں جو لکھی تو سعید لخت نے تھیں مگر نام کسی اور کا تھا ( کسی اور سے آپ خود ہی سمجھ جا ئیے کہ وہ نام کس کا ہو تا تھا ) پھر ایسا بھی ہوا کہ کتاب پر نام کسی کا بھی نہیں ہے صرف پبلشر کا نام ہے ، جیسے اردو لغت۔اس لغت پر کام تو بہت پہلے کسی اورنے شروع کیا تھا ۔مگر بعد میں اس میں جس شخص نے اس میں اضافے کئے اس کا نام ہی غائب ہے ۔اور وہ نام ہے سعید لخت کا ۔اسی طرح انسا ئیکلو پیڈیا میں بھی سید سبط حسن کے ساتھ جس نے کام کیا وہ سعید لخت تھے ۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سعید لخت کوقلق کسی بات کا بھی نہیں تھا ۔ وہ کسی سے یہ نہیں کہتے تھے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا اورنام کسی اورنے کمایا ۔ جب بھی اس کاذکر آتا وہ کہتے ’’ ارے چھوڑو، جانے دو ۔ کوئی خوش ہو تا ہے تو ہونے دو ۔‘‘اب کون تحقیق کرے گا ان باتوں کی ۔ تنہائی پسندی ایسی تھی کہ ہمار ے محمود الحسن کوشش کرتے رہے ان کا انٹر ویو کرنے کا ۔ مگر وہ نہ مانے ۔اب بچوں کی کہانیاں پڑھنے والوں کو البتہ یہ قلق رہے گا کہ سعید لخت نے بچوں کے لئے زیادہ نہیں لکھا ۔اصل میں انہیں دوسرے کاموں میں اتنا مصروف رکھا گیا کہ وہ بچوں کی کہانیوں کی طرف زیادہ تو جہ ہی نہ دے سکے ۔اگر وہ اپنے شوق سے بچوں کی کہانیاں ہی لکھتے رہتے تو کھاتے کہاں سے ۔ ان کی روزی روٹی تو دوسری کتابوں کی ایڈیٹنگ کے ساتھ لگی ہو ئی تھی۔کتابوں کی ایڈیٹنگ کا تو حال یہ تھا کہ جب وہ ریٹائر بھی ہو گئے تو ان کا ناشر ایڈیٹنگ کے لئے کتابیں ان کے گھر بھیج دیاجاتا تھا ۔آخر انہوں نے خود ہی انکار کیا تو ان کی جان چھوٹی۔
اب معلوم نہیں ہماری نئی نسل سعید لخت کو یاد رکھے بھی یا نہیں۔اب تو انگریزی کی نر سری رائمز اور انگریزی کی کہانیاں ہماری زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہیں ۔ بنتی ہی نہیں جا رہی ہیں بلکہ بن گئی ہیں ۔ جو بچے اردو میڈیم میں پڑھتے ہیں ان کی دلچسپیاں بھی کچھ اور ہی ہو گئی ہیں۔ اب اگر تھوڑا سا سہیارا بنتا ہے تو ان ماں باپ اور اساتذہ سے جو اپنیء بچوں اور شاگردوں کو صحیح زبان سکھاناچا ہتے ہیں ۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک ہم اپنے بچوں کو صحیح زبان سکھانے میں دلچسپی لیتے رہیں گے اس وقت تک سعیدلخت بھی زندہ رہیں گے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=254474
مسعود اشعر
ہمیں نہیں معلوم وہ ہماری کون تھیں۔ کوئی رشتے دار بھی تھیں یا نہیں؟ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم ۔ہم انہیں حجیانی نانی کہتے تھے۔ سال میں ایک آدھ بار وہ ہمارے گھر آتی تھیں۔ ہمارے گھر یا ہمارے چچا کے گھر ۔ وہ جب بھی آتیں ہم بچوں کی عید ہو جا تی ۔ابھی رات ہو ئی نہیں کہ ہم ان کے پیچھے پڑ گئے ۔ ’’ حجیانی نانی، کہانی سنائو‘‘۔ اور وہ کہانی سناتیں ۔ وہ بالکل پڑھی لکھی نہیں تھیں ۔ مگر انہیں دنیا بھر کی کہانیاں یاد تھیں۔ اب وہ داستان امیر حمزہ ہو یا الف لیلہ اور پنچ تنتر،تمام کہانیاں انہیں از بر تھیں ۔ اور پھر ان کے سنانے کا انداز ایساکہ نیند سے آنکھیں بند ہو تی جا رہی ہیں مگر ’’ہنکارہ ‘‘ دیئے جا رہے ہیں کہ کہیں وہ ہمیں سوتا سمجھ کر کہانی سنانا بند نہ کردیں ۔ ان کہانیوں میں ہی ہم نے آنکھ کھولی ۔ اور ان کہانیوں سے ہی ہم نے اتنا سیکھا کہ اب تک وہ ہمارے کام آ رہا ہے ۔ اخلاق، آداب، میل جول اور رہن سہن کا سلیقہ ہمیں انہی کہانیوں سے آیا ۔یہ نانیاں اور دادیاں ہی تھیں جنہوں نے کہانیاں سنا سنا کر ہماری تر بیت کی۔
اس کے بعد ہم پڑھنے کے قابل ہوئے تو بچوں کے رسالوں کا دور آگیا ۔ کئی رسالے تھے بچوں کے ۔رسالہ’’ پھول‘‘ سے لے کر ’’ ہو نہار ‘‘ اور ’’ نو نہال ‘‘ تک اور بھی بچوں کے کتنے ہی رسالے تھے ۔ مگر ’’ تعلیم و تر بیت ‘‘ کی بات ہی اور تھی ۔اس کے ایڈیٹر تھے سعید لخت۔ نام تو ان کا سعید احمد خاں تھا مگر سعید لخت کے قلمی نام سے ہی جانے جاتے تھے ۔بچوں کے وہی سعید لخت تین دن پہلے خاموشی کے ساتھ ہم سے بچھڑ گئے ۔کمزور تو وہ بہت تھے کہ عمر نوے سال سے بھی اوپر ہو چکی تھی،مگر بیماری کو ئی نہیں تھی ۔ ہفتے کی صبح ایک ہچکی آئی اور ختم ہو گئے ۔اتنے آرام سے وہ رخصت ہوئے کہ ان کے بچھڑ نے کا یقین ہی نہیں آتا۔ یوں توتعلیم و تر بیت کے اور بھی کئی ایڈیٹر ہوئے۔ مگر چونکہ شروع سے ہی سعید لخت اس کے ایڈیٹر تھے اور زیادہ عرصے وہی اسے ایڈٹ کرتے رہے اس لئے بچے انہی کا نام جانتے تھے ۔اور پھر بچے ان کا نام اس لئے بھی جانتے تھے کہ وہ صرف ایڈیٹر ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے بچوں کے لئے ایسی چٹ پٹی کہانیاں بھی لکھیں کہ بچے اس انتظار میں رہتے تھے کہ سعید لخت کی کوئی کہانی رسالے میں کب چھپے گی۔یا وہ کہانی کتابی شکل میں کب سامنے آئے گی ۔
سعید لخت کی کہانیاں صرف کہانیاں ہی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں زبان کا چٹخارہ بھی ہو تا ہے ۔ ان کی زبان میںوہ پرانی کہاوتیں اور محاورے بھی ہوتے ہیں جن سے بچے لطف بھی لیتے ہیں اور سبق بھی حا صل کرتے ہیں ۔ یہ سبق پندونصائح کی صورت میں نہیں ہو تا بلکہ ایسے ڈھکے چھپے انداز میں ہو تا ہے کہ کہانی کا چٹ پٹا پن بھی بر قرار رہتا ہے اور سبق بھی مل جا تا ہے۔ زبان کا یہ چٹ پٹا پن اور یہ چٹخارہ ان پرانی داستانوں میں بھی ملتا ہے جو سعید لخت نے بچوں کے لئے مختصر صورت میں لکھیں اور ایک پبلشنگ ادارہ نے جنہیں شائع کیا ۔ ان کتابوں کو چھپے کا فی عرصہ ہو چکا ہے ۔ مگر پہلے کی طرح وہ آج بھی اسی طرح مقبول ہیں ۔
آج بھی وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو صحیح زبان سکھانا چا ہتے ہیں وہ یہی کتابیں انہیں پڑھا تے ہیں ۔اور جوماں باپ اپنے بچوں کو یہ کہانیاں نہیں پڑھاتے اگر وہ صحیح اردو زبان سکھانا چاہتے ہیں تو انہیں سعید لخت کی کہانیاں یا ان کی مرتب کی ہو ئی قدیم داستانیں پڑھانا چا ہئیں۔سعید لخت پاکستان بننے سے کچھ عرصے پہلے ہی لاہور آ گئے تھے ۔اور شروع سے ہی ایک اشاعتی ادارہ کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے ۔ان کا یہ تعلق اس وقت تک برقرار رہا جب تک وہ صاحب فراش نہ ہو گئے ۔ انہوں نے صرف رسالہ ہی ایڈٹ نہیں کیا بلکہ وہ اس ادارے سے چھپنے والی کتابوں کی ایڈیٹنگ بھی کرتے رہے ۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کتابیں شائع کرنے والے اداروں میں وہ پہلا ادارہ ہے جس نے کتابوں کے ایڈیٹر کا شعبہ قائم کیا ۔ وہاں کوئی بھی کتاب ایڈیٹر کی نظر سے گزرے بغیر شائع نہیں ہو تی تھی ۔ لیکن کتابوں کے ایڈیٹر خواہ پاکستان میں ہوں یا مشرق اور مغرب کے دوسرے ملکوں میں، ان کی بد قسمتی یہ ہے کہ کتاب کے مصنف کو تو سب جانتے ہیں مگر کتاب کے ایڈیٹر کو کو ئی نہیں جانتا۔ وہ ایڈیٹر جس نے اس کتاب کواصل کتاب بنا نے میں اپنا سر کھپا یا ہے ۔ ایڈیٹر صرف کتاب کے اصل مضمون پر ہی غور نہیں کرتا، وہ صاحب کتاب کو مشورے بھی دیتا ہے کہ اگر یہ تبدیلی کردی جا ئے تو کتاب زیادہ بہتر ہو جا ئے گی ۔
ہمارے ہاں اول تو کتابوں کے ایڈیٹر ہوتے ہیں نہیں۔
اور اگر ہو تے بھی ہیں تو ان کی زیادہ اہمیت نہیں ہو تی ۔ مغرب میں کتابوں کے ایڈیٹر کی بھی اتنی ہی اہمیت ہو تی ہے جتنی کتابیں لکھنے والوں کی ۔ اسی لئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ بڑے بڑے ادیب اپنی کتاب میں جن لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں ان میں سب سے پہلے کتاب کے ایڈیٹر کا نام آ تا ہے ۔یعنی اگر ہم کسی کتاب کے ایڈیٹر کے نام سے واقف بھی ہوتے ہیں تو کتاب کے مصنف کے ذریعے کہ وہ اپنے ایڈیٹر کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولتا ۔ ہمارے ہاں ایسا کو ئی رواج نہیں ہے اور رواج ہو بھی تو کیسے کہ کتابیں چھاپنے والوں کی اکثریت تو کسی ایڈیٹر کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی ۔ انہیں جیسا بھی مسودہ ملتا ہے اٹھا کر چھاپ دیتے ہیں ۔ ان کی بلا سے اس میں زبان کی غلطیاں ہیں یاواقعاتی اور تاریخی سقم۔ اب کہنا تو نہیں چا ہئیے مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے کئی ناول نگاروں کو اچھے ایڈیٹر مل جا تے تو ان کا ڈھیلا ڈھالا پن ختم ہو جا تا ۔ اور متن زیادہ چست ہو جا تا ۔
ایڈیٹر اپنی جانب سے کچھ بھی تبدیل نہیں کرتابلکہ جیسا پہلے عرض کیا وہ صرف مشورے دیا کرتا ہے اور یہ مشورہ ہی اصل چیز ہو تا ہے ۔ سعید لخت یہی کام کرتے تھے ۔ لیکن ان کے ساتھ ایک اور ظلم بھی ہوا ۔ اور یہ ظلم کئی اور لکھنے والوں کے ساتھ بھی ہو ا ہے اور ہو تا ہی رہتا ہے ۔ کئی کتابیں اور کئی تحریریں ایسی بھی شائع ہو ئیں جو لکھی تو سعید لخت نے تھیں مگر نام کسی اور کا تھا ( کسی اور سے آپ خود ہی سمجھ جا ئیے کہ وہ نام کس کا ہو تا تھا ) پھر ایسا بھی ہوا کہ کتاب پر نام کسی کا بھی نہیں ہے صرف پبلشر کا نام ہے ، جیسے اردو لغت۔اس لغت پر کام تو بہت پہلے کسی اورنے شروع کیا تھا ۔مگر بعد میں اس میں جس شخص نے اس میں اضافے کئے اس کا نام ہی غائب ہے ۔اور وہ نام ہے سعید لخت کا ۔اسی طرح انسا ئیکلو پیڈیا میں بھی سید سبط حسن کے ساتھ جس نے کام کیا وہ سعید لخت تھے ۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سعید لخت کوقلق کسی بات کا بھی نہیں تھا ۔ وہ کسی سے یہ نہیں کہتے تھے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا اورنام کسی اورنے کمایا ۔ جب بھی اس کاذکر آتا وہ کہتے ’’ ارے چھوڑو، جانے دو ۔ کوئی خوش ہو تا ہے تو ہونے دو ۔‘‘اب کون تحقیق کرے گا ان باتوں کی ۔ تنہائی پسندی ایسی تھی کہ ہمار ے محمود الحسن کوشش کرتے رہے ان کا انٹر ویو کرنے کا ۔ مگر وہ نہ مانے ۔اب بچوں کی کہانیاں پڑھنے والوں کو البتہ یہ قلق رہے گا کہ سعید لخت نے بچوں کے لئے زیادہ نہیں لکھا ۔اصل میں انہیں دوسرے کاموں میں اتنا مصروف رکھا گیا کہ وہ بچوں کی کہانیوں کی طرف زیادہ تو جہ ہی نہ دے سکے ۔اگر وہ اپنے شوق سے بچوں کی کہانیاں ہی لکھتے رہتے تو کھاتے کہاں سے ۔ ان کی روزی روٹی تو دوسری کتابوں کی ایڈیٹنگ کے ساتھ لگی ہو ئی تھی۔کتابوں کی ایڈیٹنگ کا تو حال یہ تھا کہ جب وہ ریٹائر بھی ہو گئے تو ان کا ناشر ایڈیٹنگ کے لئے کتابیں ان کے گھر بھیج دیاجاتا تھا ۔آخر انہوں نے خود ہی انکار کیا تو ان کی جان چھوٹی۔
اب معلوم نہیں ہماری نئی نسل سعید لخت کو یاد رکھے بھی یا نہیں۔اب تو انگریزی کی نر سری رائمز اور انگریزی کی کہانیاں ہماری زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہیں ۔ بنتی ہی نہیں جا رہی ہیں بلکہ بن گئی ہیں ۔ جو بچے اردو میڈیم میں پڑھتے ہیں ان کی دلچسپیاں بھی کچھ اور ہی ہو گئی ہیں۔ اب اگر تھوڑا سا سہیارا بنتا ہے تو ان ماں باپ اور اساتذہ سے جو اپنیء بچوں اور شاگردوں کو صحیح زبان سکھاناچا ہتے ہیں ۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک ہم اپنے بچوں کو صحیح زبان سکھانے میں دلچسپی لیتے رہیں گے اس وقت تک سعیدلخت بھی زندہ رہیں گے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=254474
مدیر کی آخری تدوین: