بچارہ شہزور صفحہ 286 تا 313

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فہیم

لائبریرین
سناؤ۔
میں ڈورا کرسٹی کے مکان کی نگرانی کررہا تھا کہ اچانک ایک گاڑی رکی اور اس پر سے وہی ہپی اترا اور مکان کے اندر چلاگیا۔۔۔ اُسے دیکھ کر میں ڈوڈونیا کی باڑھ کے پیچھے چھپ گیا۔ اور اُس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر نکلا۔۔۔ اور ڈورا کرسٹی ساتھ تھی۔ دونوں گاڑی کے قریب آکھڑے ہوئے تھے۔ ہپی اُسے کہیں لے جانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ برابر کہے جارہی تھی جہاں بھی بتاؤ تین گھنٹے بعد پہنچ جاؤں گی۔ تین گھنٹے تک بے حد مصروف ہوں۔۔۔ تب ہپی نے کہا تھا کہ وہ رات بھر گرین ہٹس کے ہٹ نمبر تین سو گیارہ میں رہے گا۔۔۔ جب بھی اسے فرصت ملے وہاں پہنچ جائے۔
خوب۔۔۔! ڈھمپ سر ہلا کر بولا۔ یہ کام کتنے معاوضے پر کرتے۔؟
اگر تم اس کے ہاتھ آجاتے تو پورے پانچ ہزار۔۔۔۔ ایک ہزار پیشگی دیا ہے۔
بہت مہنگے ہوتے جارہے ہو۔
ساجد کچھ نہ بولا۔ پھر زور زور سے پیٹ پیٹنے لگاتھا۔
کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔
ساجد اٹھ بیٹھا اور بولا۔ اب مجھے جانے دو۔
جب تک وہ ہاتھ نہ آجائے یہ ناممکن ہے۔
ارے تو کیا اب میری نوکری بھی جائے گی۔
چھ ماہ بعد بھی جاؤ گے تو نوکری برقرار رہے ملے گی۔
یہ کیسے ممکن ہے؟
میرا ذمہ۔۔۔ سلمانی تمہیں برخواست نہیں کرسکتا۔! اچھا بس اب چپ چاپ پڑے رہو۔۔۔ یہاں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔
اُس کمرے سے نکل کر عمران نے ریڈی میڈ میک اپ اتارا تھا اور بلیک زیرو کے کمرے کی طرف چل پڑا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں موجود تھا۔
کیا رہا۔۔۔ عمران نے پوچھا۔
ہمارا تعاقب نہیں کیا گیا۔ دور دور تک کسی کا پتا نہیں تھا۔
ٹھیک ہے۔
عمران نے گھڑٰ دیکھی۔ ساڑھے بارہ بجے تھے۔ فون کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ پتا نہیں یہ دونوں نالائق گھر پر موجود بھی ہیں یا نہیں۔
اس نے ظفرالملک کے نمبر ڈائل کیے تھے۔
ہیلو۔۔۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔
جاگ رہے ہو۔
جی ہاں فرمائیے۔
جیمسن کہاں ہے۔
غالباً سوگیا۔
جگا کر فون پر بھیجو۔
بہت بہتر۔
تھوڑی دیر بعد جیمسن کی بھرائی ہوئی سی آواز آئی تھی۔ یس یور میجسٹی۔
پہلے پوری طرح بیدار ہوجاؤ۔
جاگ ہی رہا تھا۔۔۔ آجکل رات کی نیند دوپہر کو آتی ہے۔
گرین ہٹس کے ہٹ نمبر تین سو گیارہ کے بارے میں ایک بار تم نے مجھے کوئی خاص بات بتائی تھی جو اب یاد نہیں آرہی۔
ہٹ نمبر تین سو گیارہ۔۔۔۔ جی ہاں وہ ہپیوں کا کلب ہے۔
تمہیں اور ظفر کو وہاں پہنچنا ہے! جتنی جلدی ممکن ہو اور اب ریسیور ظفر کو دے دو۔
جناب۔۔۔! ظفر کی آواز آئی تھی۔ اور عمران اُسے ہٹ نمبر تین سو گیارہ سے متعلق ہدایات دیتا رہا تھا۔ ریسیور رکھ بلیک زیرو کی طرف مڑا۔
تم میرے ساتھ آؤ۔۔۔! اُس نے کہا تھا۔








کیپٹن فیاض نے سر شام ہی ماما کی لاش دریافت کرلی تھی۔۔۔ اور مسٹر تصدق نے اُس کی شاخت بھی کی تھی۔
قریباً دس بجے شب کو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ مل گئی تھی جس کے مطابق موت واقع ہونے کے وقت کا تعین اُسی دن دو بجے سہ پہر کو کیا گیا تھا۔ اور موت کی وجہ زہر خوانی تھی۔
فیاض رپورٹ لے کر رحمان صاحب کے پاس پہنچا۔ وہ گھر ہی پر موجود تھے! رپورٹ پیش کرکے خاموش بیٹھا رہا۔
کم از کم اس موت کا تعلق بیگم تصدق سے ہرگز نہیں ہوسکتا۔ رحمان صاحب رپورٹ دیکھ چکنے کے بعد بولے تھے۔ کیونکہ انہیں کل ہی حراست میں لیا گیا تھا۔
تھوڑی دیر خاموش رہ کر انھوں نے کہا تھا۔ معدے میں غذا پائی گئی ہے وہ کسی بڑے ہی دستر خوان کی معلوم ہوتی ہے۔۔۔ لیکن لاش ملی ویرانے میں ہے۔۔۔ خود زپر کھا کر ویرانے کی راہ لینا سمجھ میں نہیں آتا۔
نہیں صاحب! صاف ظاہر ہے کہ لاش ویرانے میں پھینکوائی گئی تھی۔ فیاض بولا۔
شہزور کے بارے میں کیا معلومات حاصل کیں۔
وجود ہے اس کا۔۔۔۔۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔
کیا اُس کا کوئی آدمی ہاتھ لگا ہے۔
چار آدمی۔۔۔۔۔ اور وہ چاروں منشیات کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں۔
اوہ۔
اور جناب۔۔۔۔۔ یہ مجھے خاصا طاقتور اور سائنٹی فک طور پر منظم کیا ہوا گروہ لگتا ہے۔
یہ کس بناء پر کہہ رہے ہو۔؟
ان میں سے تین پہلے بھی کئی بار گرفتار ہوکر سزا پاچکے ہیں لیکن کسی شہزور کا نام ان کی زبانوں پر نہیں آیا تھا۔ اس بار خاصی کدوکاوش کے بعد ان سے اگلوایا جاسکا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ ہم کسی شہزور کے وجود سے آگاہ ہوچکے تھے۔
رحمان صاحب نے پرتفکر انداز میں سر کو جنبش دی ۔
اور اس دریافت کا سہرا عمران کے سر ہے۔ فیاض بولا۔
لیکن یہ دھماکے جو شہر کے مختلف حصوں میں ہوئے ہیں اگر انہیں شہزور سے منسوب کیا جائے تو کیا وہ اول درجے کا احمق ثابت نہیں ہوتا۔
ابتدا آپ کی کوٹھی کے دھماکے سے ہوئی تھی۔
ہوں تو پھر۔
عمران کے خیال کے مطابق اس کا مقصد یہی تھاکہ۔
عمران کا نام مت لو۔۔۔ رحمان صاحب ہاتھ اٹھا کر بولے۔ اپنے نقطہ نظر سے حالات کا جائزہ لو۔
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دھماکے اس لئے ہوتے رہے ہیں کہ ہماری توجہ کسی خاص معاملے سے اُن دھماکوں کی طرف مبذول ہوجائے۔
ناولوں کی کہانیاں مت دہراؤ۔! رحمان صاحب برا سا منہ بنا کر بولے۔
تب پھر مجھے ازسر نو غور کرنا پڑے گا۔ فیاض نے جان چھڑانے کے لئے کہا۔
ویسے تہہ دل سے عمران کے نظریئے پر ایمان لے آیا تھا۔
یہی بہتر ہوگا۔! رحمان صاحب نے کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
اب اجازت دیجئے۔! فیاض اٹھتا ہوا بولا۔
شب بخیر۔
وہاں سے نکل کر گھر کی راہ لی تھی۔ عمران سے رابطہ قائم کرنے کے لئے بے چین تھا۔ لیکن کوئی صورت ایسی نہیں تھی جس کی بنا پر یہ ممکن ہوتا۔
گھر پہنچ کر دیر تک ڈرائینگ روم میں بیٹھا رہا تھا۔۔۔۔۔ پھر خواب گاہ میں چلا آیا تھا۔ ان دنوں بیوی اپنے والدین کے گھر گئی ہوئی تھی اس لئے ہر طرح کی بے قاعدگیاں جاری رہتی تھیں۔
کوٹ اتار کر کرسی پر ڈالا تھا اور جوتوں سمیت بستر پر گرگیا تھا۔۔۔۔ اور پھر ذرا سی ہی دیر میں خراٹے بھی شروع ہوگئے تھے۔۔۔۔ پھر شائد ایک گھنٹہ بھی نہیں گذرا تھا کہ فون کی گھنٹی کا شور خواب گاہ کی محدود فضا میں گونجنے لگا تھا۔
بوکھلا کر اٹھ بیٹھا! پہلے تو سمجھ میں نہ آیا کہ آنکھ کیونکر کھلی ہے۔ پھر کسی قسم کے شور کا احساس ہوا تھا! پھر نیند کا غبار چھٹ گیا اور گھنٹی کی آواز واضح ہوتی گئی۔ جھپٹ کر ریسیور اٹھایا اور ماؤتھ پیس میں دھاڑا تھا۔ ہیلوووو۔
کیا آسمان گر پڑا ہے سر پر۔! دوسری طرف سے آواز آئی۔
کک۔۔۔۔۔ کون ہے۔۔۔۔۔ ہالو۔۔۔۔۔ عمران، عمران۔
پہلے پوری طرح ہوش میں آجاؤ۔
اوہ۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ کیا بات ہے۔
یاسمین اور اس کی بہن کی اموات کا معمہ حل کرنا چاہتے ہو۔
کیوں نہیں۔ کیوں نہیں۔! ماما کی لاش بھی مل گئی ہے۔
کہاں اور کب۔؟
آج شام چھ بجے۔۔۔ ہائی وے کے دسویں میل پر جھاڑیوں میں۔۔۔ ایک ٹرک ڈرائیور نے اطلاع دی تھی اور وہ بھی زیر ہی سے مری ہے۔
موت کے وقت کا تعین ہوسکا یا ابھی نہیں۔؟
ہوگیا ہے۔۔۔ آج دوبجے سہ پہر۔
اور بیگم تصدق کل حراست میں لی گئی تھیں۔
خوامخواہ ۔۔۔ میں تو اس حق میں نہیں تھا۔۔۔ لیکن ڈی جی صاحب۔
کوئی بات نہیں۔۔۔ ہاں تو اگر تم کریڈٹ لینا چاہتے ہو تو بستر چھوڑدو۔
کوئی خاص بات۔
خاص الخاص۔ کچھ سادہ پوش بھی ساتھ لے لینا۔ گرین ہٹس کی طرف آؤ۔۔۔ تین سو گیارہ نمبر کے ہٹ پر نظر رکھنا۔ لیکن وہاں بھیڑ سے الگ رہ کر۔
وہاں کیا ہے۔؟
بھینس کے پائے پک رہے ہیں۔۔۔۔ تنوری روٹیاں اپنی لانا۔
یار سنجیدگی اختیار کرو۔
اتنی سنجیدگی تو نہیں اختیار کرسکتا کہ بیوی کی کمی پوری ہوجائے۔
اف۔۔۔۔۔ فوہ۔
وقت ضائع نہ کرو۔۔۔۔۔ جو کچھ کہا گیا ہے اُس پر عمل کرو۔
پوری بات معلوم کئے بغیر ہلوں گا بھی نہیں۔
جہنم میں جاؤ۔۔۔ کہہ کر سلسلہ منقطع کردیا گیا۔
فیاض نے برا سا منہ بناکر ریسیور کریڈل پر رکھ دیا تھا۔









ساحل کا یہ حصہ ریتلا نہیں تھا۔ سنگلاخ چٹانوں کا سیاہی مائل سلسلہ دور تک پانی میں اترتا چلا گیا تھا۔ اور انہی چٹانوں کے درمیان وہ عمارت واقع تھی۔۔۔ اور ہر چند کہ گرین ہٹس والی آبادی یہاں سے خاصے فاصلے پر تھی لیکن اس کا شمار اسی آبادی میں ہوتا تھا اور ہٹس کے سلسلے میں آخری عمارت سمجھی جاتی تھی۔۔۔ یعنی ہٹ نمبر تین سو گیارہ۔۔۔ خاصی بڑی عمارت تھی۔۔۔ بہت سے کمروں والی لیکن کہلاتی تھی "ہٹ" ہی۔
اس کے گرد خاردار تاروں سے بہت بڑے رقبے کو اس طرح گھیرلیا گیا تھا کہ عمارت وسط میں آگئی تھی اور اس گھیرے میں سرشام ہی بڑی بڑی مشعلیں روشن کردی جاتی تھیں۔۔۔ اور ہپیوں کے گروہ کھلے آسمان کے نیچے مشعلوں کی سرخ روشنی میں نشے پانی کے ساتھ غل غپاڑا مچایا کرےت تھے۔
عمارت کے اندر ایک بڑا ہال تھا جہاں رقص و موسیقی کی محفلیں جمتی تھیں اور یہ ڈائینگ ہال کی حیثیت بھی رکھتا تھا۔ اوپری منزل پر رہائشی کمرے تھے! جہاں کم حیثیت والے غیر ملکی سیاح قیام کرتے تھے۔ اور کم مایہ ہپی عورتیں انہیں کمروں میں مقامی آدمیوں سے اپنے دوسرے دن کے اخراجات وصول کرتی تھیں۔
بہرحال کاغذات پر یہ عمارت ایک اقامتی ہوٹل کی حیثیت رکھتی تھی۔
بظاہر دلاور خان نامی ایک آدمی اس کا مالک تھا لیکن حقیقتاً یہ بھی شہزور ہی کی تجارتی تنظیم کی ایک شاخ تھی۔
گرین بیچ ہوٹل اور اور ہٹ نمبر تین سو گیارہ کے درمیان چھ فرلانگ کا فاصلہ تھا۔ لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ دونوں کا تعلق کسی ایک ہی تنظیم سے ہوگا۔
سورج غروب ہوتے ہی ہٹ نمبر تین سو گیارہ کے خاردار تاروں والے احاطے میں یپیوں کی بھیڑ نظر آنے لگتی تھی۔ اور عمارت کی روشن کھڑکیاں دور سے ایسی لگتیں جیسے اُن شکستہ حال دو پایوں کو بڑی حقارت سے دیکھ رہی ہوں۔۔۔ کیونکہ وہ عمارت کے اندر اُسی صورت میں قدم رکھ سکتے تھے جب اُن کی عورتیں مقامی گاہکوں کے لئے تیار ہوں۔
ضرورت مند غیر ملکی ہپی عورتیں احاطے ہی میں ایسے مقامیوں کی تلاش شروع کردتی تھیں جو انہیں ڈائینگ ہال میں چلنے کی دعوت دے سکیں۔
ظفر اور جیمسن قریباً ڈیڑھ بجے وہاں پہنچ سکے تھے ان صاف ستھرے ہپیوں کو دیکھ کر کئی عورتیں ان کی طرف جھپٹی تھیں۔
میں یہاں کبھی نہیں آیا۔ ظفرالملک بولا۔
میں ایسی جگہوں پر تنہا آتا ہوں یور ہائی نس۔
اب انہیں سنبھالو۔
ایک آدھ کو تو ساتھ لینا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔ ورنہ ڈائینگ ہال میں احمق لگیں گے۔
ذرا صاف ستھری۔! ظفر بولا۔
صاف ستھری یہاں کیوں آنے لگی۔۔۔ اوہو۔۔۔ مگر ٹھہریئے۔۔۔! تین چار عورتوں نے انہیں گھیر لیا تھا۔
نہیں ہم یہاں سروے کرنے آئے ہیں۔ جیمسن نے انہیں سامنے سے ہٹا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
کس قسم کا سروے ڈارلنگ۔! ان میں سے ایک نے جیمسن کے چہرے کے قریب انگلی نجا کر پوچھا۔
ہر کھوپڑی میں کتنی جوئیں پائیں جاتی ہیں۔
وہ اُسے گندی سی گالی دیے کر پیچھے ہٹ گئی تھی۔
یہاں کے لارڈ کا بھتیجا معلوم ہوتا ہے۔ دوسری نے کہا۔
نہیں! براہِ راست آسمان سے یہاں اترا ہے۔ تیسری بولی۔
جہنم میں جائے۔۔۔۔۔ چھوتھی نے کہا۔۔۔۔۔ اور راستہ صاف ہوگیا۔
وہ آگے بڑھے اور پھر اچانک جیمسن رک گیا تھا۔ اس کی نظر ایک دیسی یپی لڑکی پر جم گئی تھی۔
کیا بات ہے؟ ظفر بولا۔
ذرا اسے دیکھئے۔
دیکھ رہا ہوں۔
کوئی خاص بات مارک کی آپ نے۔
ہاں! دو ناکوں والی ہے۔! ظفر جھنجھلا کر بولا۔
مذاق نہیں! غور سے دیکھئے۔۔۔ آپ نے اخبارات میں اُس لڑکی کی تصویر دیکھی ہوگی۔ کیا نام تھا اس کا۔۔۔ یاسمین۔۔۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ جس کی دوا کی شیشی میں زہریلی ٹکیاں شامل کردی تھیں کسی نے۔
ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ ہوبہو۔۔۔ وہی لگتی ہے۔
اور تنہا بھی ہے۔۔۔ اوہ۔۔۔ اب ہمیں دیکھ رہی ہے۔! ارے وہ تو ادھر ہی آرہی ہے۔
کیا اندر چلنے کا ارادہ ہے۔ اُس نے قریب پہنچ کر انہیں اردو میں مخاطب کیا تھا۔
ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔جیمسن تھوگ نکل کر بولا۔
تو پھر آؤ۔۔۔ اس نے جیمسن کے بازر میں ہاتھ ڈال دیا تھا! ظفر نے شانوں کو جنبش دی اور ان کے پیچھے چلنے لگا۔
ہال میں زیادہ تر میزیں گھری ہوئی تھیں اور ایک نیم عریاں غیر ملکی عورت ان کے درمیان تھرکتی پھر رہی تھی۔ مائیکرو فون سے طربیہ موسیقی نشر ہورہی تھی۔
انہوں نے ایک میز سنبھالی۔ لڑکی بیٹھتے ہی بولی۔ میرے لئے تو شیری منگوادو۔۔۔۔ اور اگر تم لوگ بکری کے دودھ سے بھی شغل کرو تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
کوئی دخانی نشہ نہیں کرو گی۔! جیمسن نے پوچھا۔
دخانی کیا ہوتا ہے۔؟
 

فہیم

لائبریرین
مطلب یہ کہ دھوئیں والا۔۔۔ یعنی چرس ورس۔
میں چرس نہیں پیتی۔
تو پھر یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔ گھر ہی پر بیٹھی رہتیں۔
تم سے مشورہ نہیں مانگا تھا کیا یہاں سچ مچ شراب نہیں ملتی۔
ملتی ہے۔۔۔ لیکن شاید شیری نہ مل سکے۔
تم پوچھ کر تو دیکھو۔
پوچھ لوں گا۔ میرا نام جیمسن ہے اور یہ میرے باس، ہز لولی پرنس ظفر الملک بہادر۔
بہادر ہوں یا نہیں ہوں لیکن لولی ضرور ہیں۔ لڑکی نے کہا۔
تم نے اپنا نام نہیں بتایا۔
یاسمین۔
جیمسن نے طویل سانس لی تھی اور ظفر پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوگیا تھا۔
کک۔۔۔۔۔ کیا نام۔۔۔۔۔ جیمسن ہکلایا۔
یاسمین۔۔۔۔۔ کیا ہجے کرکے بتادوں۔
نہیں یونہی کافی ہے۔
میں نے کہا تھا شیری منگواؤ۔
یہاں ویٹر کو آواز دینے کا رواج نہیں ہے۔ خود ہی آئے گا۔
کیا یہ تمہارا پرنس چارمنگ گونگا ہے۔؟
ایسی کوئی بات نہیں ظفر بولا۔
ایک ویٹر تیزی سے ان کی طرف آیا تھا۔
یہ میز مخصوص ہے جناب۔ اُس نے بڑے ادب سے کہا۔
یہاں کوئی ریزرویشن کارڈ موجود نہیں ہے۔ جیمسن غصلی آواز میں بولا۔
کہں گر پڑ گیا ہوگا جناب۔
تو پھر ہم کہاں بیٹھیں۔
میرے ساتھ تشریف لائیے۔
وہ اٹھ گئے تھے اور ویٹر انہیں کاؤنٹر کے قریب والی ایک میز تک لایا تھا۔
یہاں تشریف رکھئے۔! اس نے بڑے ادب سے کہا۔
شیری ملے گی۔؟
ضرور جناب۔
ایک بوتل۔۔۔۔۔ ایک گلاس۔
پوی بوتل کی قیمت آپ کو کاؤنٹر پر ادا کرنی پڑے گی۔
یار! کیا مصیبت ہے۔! جیمسن بھنا کر بولا۔ ہر بات نرالی ہے۔
کھانے کو کیا لاؤں جناب۔
جھینگے اور روسی سلاد۔
ویٹر چلا گیا تھا۔ جیمسن نے کاؤنٹر سے شیری کی بوتل خریدی اور میز پر واپس آگیا۔
شیری تم شہر میں کہیں خرید پر پی سکتی تھیں۔ اس ویرانے میں کیوں دوڑی آئیں۔
اس نے لڑکی سے کہا۔
ظفرالملک اس میں ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ اگر عمران کی طرف سے حکم نہ ملا ہوتا تو شاید ادھر آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارہ نہ کرتا۔
میں ویرانوں میں ہی رہتی ہوں۔ لڑکی کہہ رہی تھی۔ کیونکہ میں ایک روح ہوں۔
جیمسن کا منہ حیرت سے کھل گیا اور ظفر نے پھر لڑکی کو بہت غور سے دیکھا تھا۔
اسی وقت ویٹر واپس آگیا۔ لیکن خالی ہاتھ۔
سی فوڈ کھلی چھت پر سرو کی جاتا ہے۔ اس کے لئے آپ کو اوپر چلنا پڑے گا۔ اس نے نئی اطلاع دی۔
اور سر کے بل کھڑے ہوکر کھایا جاتا ہے۔ ظفر بھنا کر بولا۔
چلو ایک گلاس لاؤ جلدی سے۔۔۔۔۔ اور ہم دونوں کے لیے گافی لاؤ۔
بہت بہتر جناب۔
تو کھلی چھت پر کون سی قیامت آجائے گی۔! چلونا۔ لڑکی بولی۔
تم ٹھہریں روح۔۔۔۔ اوپر ہی اوپر پرواز کرجاؤ گی۔ لیکن ہمیں نیچے آنے کے لئے زینے ہی طے کرنے پڑیں گے۔! ظفر نے خشک لہجے میں کہا۔
یا تو بولو گے نہیں یا پھر پھاڑ کھاؤ گے۔ لڑکی شکایت آمیز لہجے میں بولی۔
تم یاسمین کی ہم شکل ضرور ہو۔ لیکن روح والا اسٹنٹ ہمارے ساتھ نہیں چل سکے گا۔
ظفر نے کہا۔
وہ تو میں دیکھ رہی ہوں کہ تم لوگوں پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوا۔
میں تکبیر عاشقاں کا عامل وں۔ جیمسن بائیں آنکھ دبا کر مسکرایا۔ ظفرالملک کی مضبوطی کی بنا پر خود بھی شیر ہونے میں لگا ہوا تھا۔
جناب عالی۔! ویٹر پھر خالی ہاتھ واپس آکر بولا۔ اوپر ہی تشریف لے چلئے۔ مجھے معلوم نہیں تھا۔ یہ میز بھی مخصوص ہے۔
اس کا ریزرویشن کارڈ کہاں گیا۔
میں معافی چاہتا ہوں جناب! دراصل آج ہی یہاں آیا ہوں! ریزرویشن کا معاملہ زبانی چلتا ہے! کوئی کارڈ وارڈ نہیں ہوتا۔
گویا یہ ایک جدید ترین کباڑ خانہ ہے۔ ظفر نے کہا۔
خدا ہی جانے جناب۔ میں خود بھی حیران ہوں۔
ہم اوپر ہی چلیں گے۔ دفعتاً لڑکی اٹھ کھڑی ہوئی۔
کیا مضائقہ ہے۔ جیمسن بھ اٹھ گیا۔
تم دونوں شوق سے جاؤ۔۔۔۔۔ میں یہیں بیٹھوں گا۔
چلو۔۔۔ لڑکی جیمسن کا بازو تھپک کر بولی۔ تمہارا پرنس بدھو لگتا ہے۔ تم اس سے زیادہ خوبصورت ہو۔
جیمسن نے ظفر کی طرف دیکھ کر دانت نکال دیئے تھے اور لڑکی کے ساتھ زینوں کی طرف بڑھ گیا تھا۔
گلاس تو لے لو کاؤنٹر سے۔ جیمسن نے ویٹر سے کہا۔
اوپر سب کچھ موجود ہے جناب۔
چلو بھئی۔! وہ طویل سانس لے کر بولا۔
زینے طے کرکے وہ کھلی چھت پر پہنچے تھے۔ یہاں صرف ایک پیٹرو میکس روشن تھا اور صرف ایک بڑی سی میز پڑی ہوئی تھی جس کے گرد دس بارہ کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔
تشریف رکھئے۔۔۔۔۔ میں گلاس اور مطلوبہ چیزیں ابھی حاضر کرتا ہوں۔! ویٹر نے کہا اور زینوں کی طرف پلٹ گیا۔
ہمارے علاوہ اور کوئی بھی نہیں ہے یہاں۔! جیمسن چاروں طرف نظر دوڑاتا ہوا آہستہ سے بولا تھا۔
اور پھر لڑکی کے کچھ کہنے سے قبل ہی تین آدمی وہاں پہنچ گئے تھے جن میں سے ایک قوی ہیکل یپی تھا۔! خود جیمسن اس کے آگے سچ مچ جھینگا ہی لگ رہا تھا۔
وہ ان کے مقابل ہی بیٹھ گئے۔ ہپی اس لڑکی کو خونخوار آنکھوں سے گھورے جارہا تھا۔
کیا تم دونوں یہ سمجھتے ہو کہ یہاں سے زندہ واپس جاسکو گے۔ دفعتاً وہ غرایا تھا۔
اس سے پہلے ہم جھینگے اور روسی سلاد کھائیں گے۔ جیمسن جی کڑا کرکے بولا۔ بات اب پوری طرح اس کی سمجھ میں آئی تھی۔
تم کون ہو۔ ہپی لڑکی کی طرف انگلی اٹھاکر بولا۔
میرا نام شیلا ہے۔ اور میں آج کل ایک جن کے قبضے میں ہوں۔
آہا۔۔۔ تم شیلا ہو۔۔۔ ہاں آواز شیلا ہی کی ہے۔
شیلا نے بوتل کھولی تھی اور دو گھونٹ لئے تھے۔ شہزور نے جیمسن کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ یہ کون ہے۔
میں نہیں جانتی! یہ دونوں یہیں ملے تھے اور میرے لئے شیری خریدی تھی۔
دوسرا کون ہے۔
وہ نیچے بیٹھا ہوا ہے۔! نک چڑھا ہے اوپر نہیں آیا۔
وہ کہاں ہے جس کے قبضے میں ہو آجکل۔؟
میں نہیں جانتی۔۔۔ مجھے یہاں پہنچنے کو کہا تھا۔
اس میک اپ میں۔
ہاں اس نے مجھے میری ایک مرحومہ دوست کی شکل میں تبدیل کردیا ہے۔ مجبور کرتا ہے کہ میں اس کے بھوت کا رول ادا کروں۔
اس کے ہاتھ کیسے لگیں۔
میری گاڑی کا ٹائر فلیٹ ہوگیا تھا۔۔۔ نیشنل ہائی وے پر۔۔۔ شاہ دارا جارہی تھی۔۔۔ ور اور اس کے آدمی زبردستی مجھے اٹھا لے گئے۔
پیٹر کہاں ہے۔
میں نہیں جانتی۔۔۔ لیکن تم کون ہو۔؟
تم صرف میری باتوں کا جواب دو۔ اس آدمی کا حلیہ بتاؤ۔
کیا بتاؤں۔۔۔ دور ہی سے بیوقوف لگتا ہے۔۔۔ لیکن ہے خطرناک آدمی۔
جیمسن کے کان کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن وہ خاموش بیٹھا رہا۔ معاملہ پوری طرح سمجھ میں آگیا تھا۔
پیٹر کو تم نے کب سے نہیں دیکھا۔
اپنے پکڑے جانے سے پہلے ہی دیکھا تھا۔! لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ تمہیں ان معاملات سے کیا سروکار۔
وہ اس کی بات کا جواب دیئے بغیر جیمسن کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔۔۔ تم کون ہو؟
تم کون ہو۔۔۔؟ جیمسن اس سے سوال کر بیٹھا۔
جواب دو۔
بیوقوفی کی باتیں مت کرو۔۔۔ ویٹر کو بلاؤ اگر اس ہوٹل کی انتظامیہ سے تمہارا کوئی تعلق ہے۔
جو کچھ پوچھا جائے اس کا جواب دو۔! شہزور کے ساتھیوں میں سے ایک غرایا۔
ارے تم کوئی تھانےدار ہو۔ زیادہ بکواس کرو گے تو مزہ چکھادوں گا۔
ارے نہیں پہلوان ایسا غضب بھی نہ کرنا۔! شہزور ہنس کر بولا۔
ار اس کے مقابلے میں جثے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جیمسن کو خاصی شرمندگی محسوس ہوئی لیکن وہ بڑی ڈھٹائی سے بولا۔ مزہ چکھادینے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم میں سے کسی کو کشتی کے لئے للکاروں گا۔
دفعتاً شہزور ہاتھ اٹھا کر دھاڑاِ چلے جاؤ۔ تم یہاں کسی دیسی کے ساتھ رات نہیں گذار سکو گے۔ کوئی غیر ملکی تلاش کرو۔
لیکن اس لڑکی کا کیا ہوگا۔
میں کہتا ہوں دفع ہوجاؤ۔
یہ میرے ساتھ اوپر آئی تھی اور میرے ساتھ ہی واپس جائے گی۔
شیلا ان کی گفتگو سے بے برواہ ہوکر بوتل سے گھونٹ لئے جارہی تھی۔ ذرہ برابر بھی متاثر یا مرعوب نہیں لگتی تھی۔
شہزور نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا۔ اسے اٹھا کر نیچے پھینک آؤ۔
نہیں حضرات آپ تشریف رکھیں۔۔۔ میں اتنا بد اخلاق نہیں ہوں کہ آپ حضرات کو تکلیف دوں گا۔۔۔ لیجئے۔۔۔ رخصت ہوجاتا ہوں۔
ہاں ہاں۔۔۔ تم جاؤ۔۔۔! شیلا ہاتھ ہلا کر بولی خوامخواہ کوئی غیر تعلق آدمی ان معاملات میں کیوں الجھے۔
باس کہیں یہ بھی اس کے ساتھیوں میں سے نہ ہو۔ شہزور کا ایک ساتھی بولا۔
ہونے دو۔۔۔ جاؤ تم کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو۔
آپ کا منہ نے حد دلفریب ہے جناب۔
جاتا ہے یا جماؤں ایک ہاتھ۔۔۔ شہزور اٹھتا ہوا بولا۔
لینگویج پلیز۔
شیلا اس طرح ہنس رہی تھی جیسے نشے نے ذہن پر قبضہ جمانا شروع کریا ہو۔
جیمسن پر تشویش نظروں سے اُس کی طرف دیکھتا ہوا پیچھے ہٹ رہا تھا۔
شہزور کے دونوں ساتھی اٹھے اور جیمسن کو باہر نکال کر دروازہ بند کردیا۔ لیکن ابھی دروازے کے قریب ہی تھے کہ شہزور نے انہیں بھی چلے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جاؤ اور اُس پر نظر رکھو۔
ان کے چلے جانے کے بعد وہ شیلا کو گھورتا ہوا بولا تھا۔ کیا اس کے آدمی تمہاری نگرانی نہ کررہے ہوں گے۔
میں نہیں جانتی۔
تم جانتی ہو کہ وہ اس وقت کہاں ہوتا۔
جہنم میں جائے۔۔۔۔۔ اتنے دنوں بعد شراب ملی ہے مجھے چین سے پی لینے دو۔۔ میں نہیں جانتی کہ تم کون ہو۔
اچھی بات ہے پی لو۔۔۔ میں انتظار کرو گا۔
وہ بوتل سے ایک گھونٹ لے کر بولی! میں تنگ آگئی ہوں اپنی زندگی سے وہ کہتا ہے کہ میں تمہیں پولیس سے بچائے رکھنے کے لئے یہ سب کچھ کررہا ہوں اور اس وقت تک کرتا رہوں گا جب تک یاسمین کا اصل قاتل نہ ہاتھ آجائے۔
وہ تمہیں اس میک اپ میں فرحانہ جاوید کے بنگلے میں بھی لے گیا تھا۔
ہاں۔۔۔ یہ درست ہے۔
وجہ بھی بتائی ہوگی۔
نہیں۔۔۔ میں اتنی بور ہوگئی ہوں کہ اب اس سے کچھ نہیں پوچھتی۔
یہاں پہلے بھی کبھی لایا ہے۔
نہیں۔۔۔۔ آج ہی آئی ہوں۔۔۔ بور ہورہی تھی کہ یہ دونوں مل گئے۔ دوسروں سے زیادہ صاف ستھرے نظر آئے تھے اس لئے ان کے ساتھ ہوں۔
اس نے تمہیں موت کے منہ میں بھیجا ہے۔ آج اس کا کوئی ساتھی زندہ نہیں بچے گا۔
کک۔۔۔۔۔ کیا مطلب۔! دفعتاً شیلا بہت خوفزدہ نظر آنے لگی۔
میں غلط نہیں کہہ رہا۔ وہ اس کی نظروں میں دیکھتا ہوا بولا۔ میرے آدمی پوری طرح تیار ہیں۔ ملٹری تک سے نپٹ لیں گے۔
اوہ۔۔۔۔۔ تو کیا خون خرابہ ہوگا۔
بہت زیادہ۔
خدا کے لئے مجھے کسی محفوظ مقام پر پہنچادو۔۔۔۔۔ اب میں تمہیں بالکل سچی بات بتائے دیتی ہوں۔
جلدی کرو۔۔۔۔۔ وقت کم ہے۔ وہ گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔ اگر تم نے سچی بات بتادی تو وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری حفاظت کی جائے گی۔
وہ یہاں کہیں آس پاس ہی موجود ہے۔ اس نے مجھے تمہارا حلیہ بتاکر کہا تھا کہ اگر تم یہاں موجود ہو تو میں تم سے مل بیٹھنے کی کوشش کروں اور پھر تمہیں تنہا اس مقام پر لے جاؤں جہاں چٹانوں کے دوشاخے کے درمیان لہریں جھاگ اڑاتی ہیں۔
تم نے دیکھا۔! شہزور چہک کر بولا یہا وہ قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکتا۔
لیکن آج تو کچھ نہ کچھ ہوکر رہے گا۔ شیلا کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔
کس کو پرواہ ہے۔! اس نے شانوں کی جنبش دے کر کہا۔ ابھی دیکھے لیتا ہوں۔
مم۔۔۔۔۔ میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔ میں نے اسی لئے تمہیں بتادیا ہے کہ اس کے مشورے پر عمل نہ کرنا پڑے۔
وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ تین چار آدمی دھڑ دھڑاتے ہوئے چھت پر آپہنچے اپنے آدمیوں کے چلے جانے پر شہزور نے دروازہ بولٹ نہیں کیا تھا۔
خبردار۔۔۔۔۔ کوئی اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کرے۔
پولیس۔۔۔۔۔! کیپٹن فیاض نے ریوالور کا رخ اس کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
لیکن کس خوشی میں۔
تم شہزور ہو۔؟
یہ کیا چیز ہے۔
تہمارا نام شہزور ہے۔
چہ خوب۔۔۔۔۔ اب کیا پولیس لوگوں کے نام بھی بدلنے لگی ہے۔
ٹھیک اسی وقت فیاض کی نظر شیلا پر پڑی تھی اور وہ چونک پڑا تھا۔ اسکا منہ حیرت سے کھلا اور بند ہوگیا۔
یہ کون ہے۔؟ اس نے غیر اراد طور پر سوال کیا۔
میری بیٹی ہے۔! اوہ۔۔۔۔۔ بدمعاش معلوم ہوتے ہو تم۔۔۔۔۔ ابھی مزہ چکھاتا ہوں۔۔۔۔۔ شائد تم نے کرنل درانی کا نام نہیں سنا جو زندگی کسے بیزار ہو کر ہپی بن گیا ہے۔۔۔۔۔ لاؤ نکالو اپنا شناخت نامہ۔۔۔۔ اگر پولیس سے تمہارا کوئی تعلق ہے۔
اتنے میں کچھ اور لوگ بھی وہاں پہنچ گئے۔۔۔۔۔ ان میں ظفر اور جیمسن بھی شامل تھے۔
ذرا دیکھنا تم لوگ۔۔۔۔۔! شہزور بہ آوازِ بلند بولا۔ یہ بدمعاش خود کو پولیس والا ظاہر کرکے مجھے لوٹنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن ریوالور نقلی معلوم ہوتا ہے۔
نہیں جنابِ عالی۔ اچانک جیمسن نے کہا۔ یہ محکمہ سراغ رسانی کے سپرنٹنڈنٹ کیپٹن فیاض ہیں اور ریوالور نقلی نہیں ہے۔
اوہ خبیث۔۔۔۔۔ تم پھر آگئے۔
شیلا میز کے پاس سے ہٹ کر دیوار سے جالگی تھی۔۔۔۔۔ اور اب آہستہ آہستہ کھسکتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی۔
تو تم شہزور نہیں ہو۔۔۔۔۔! فیاض نے سخت لہجے میں پوچھا۔
معنوی اعتبار سے کہہ سکتے ہیں۔ لیکن میرا نام نہیں ہے۔! ہوٹل کا مالک لاور خان میرے بیان کی تائید کرے گا کہ میں کرنل درانی ہوں۔
آپ درست فرمارہے ہیں کرنل صاحب۔ دروازے کے قریب سے آواز آئی۔
آگے جاکر بات کرو۔۔۔۔۔۔! فیاض کے ساتھیوں میں سے ایک نے اس کا بازو پکڑ کر دھکیلتے ہوئے کہا تھا۔ اور وہ فیاض کے قریب پہنچ کر بولا۔ میں دلاور ہوں اس ہوٹل کا مالک اگر آپ کا تعلق پولیس سے ہے تو آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہ کرنل درانی ہیں۔
اور اب میں ازالہ حیثیت عرنی کا دعوٰی کروں گا۔
وہ لڑکی کہاں گئی۔ فیاض چونک کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اور شائد شہزور کو بھی پہلی بار احساس ہوا تھا کہ وہ کھسک گئی ہے۔
ہٹ جاؤ بد بختو۔! وہ دھاڑتا ہوا آگے بڑھا۔ تم نے میری بچی کو خوفزدہ کردیا۔
مجمع کائی کی طرح پھٹا تھا۔ اور جیمسن ارے ارے ہی کرتا رہ گیا تھا اور شائد فیاض نے دل ہی دل میں عمران کو کوئی گندی سی گالی دی تھی۔
ارے جناب کپتان صاحب وہ نکل گیا۔! ظفرالملک بولا تھا۔
فیاض ان دونوں کو جانتا تھا بار بار عمران کے ساتھ دیکھ چکا تھا۔
پتا نہیں کیا چکر ہے۔ فیاض بولا میں نیچے تم دونوں کی گفتگو ہی سن کر اوپر آیا تھا۔ تم نے ذکر کیا تھا کسی لحیم شحیم ہپی کا۔
آپ کہاں تھے۔ ظفر نے پوچھا۔
تمہارے قریب ہی۔۔۔۔۔ وہ اس کی بیٹی تھی۔
کمال کردیا وہ تو اسے دھونستا رہا تھا۔ جیمسن بولا۔ بیٹی ویٹی نہیں تھی۔ ہمارے ساتھ تھی۔
خدا غارت کرے۔ فیاض دروازے کی طرف جھپٹا۔
وہ نیچے پہنچے لیکن شہزور اور اس کے دونوں ساتھیوں کا کہیں پتہ نہ تھا۔
جناب کپتان صاحب اس لڑکی نے اسے اپنا نام شیلا بتایا تھا اور ہم سے کہہ رہی تھی کہ میں یاسمین کی روح ہوں۔
اوہ۔۔۔۔۔ وہ عمران کا بچہ۔۔۔۔۔! فیاض مٹھیاں بھینچ کر بولا
انہوں نے کیا کیا ہے جناب۔ جیمسن نے پوچھا۔
تم لوگ یہاں کیوں آئے تھے۔
ہم روز ہی آتے ہیں۔ ہمارے ہی قبیلے کے لوگ یہاں پائے جاتے ہیں۔
عمران نے نہیں بھیجا تھا۔
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ظفرالملک نے کہا۔
چلئے باہر دیکھیں۔ جیمسن نے کہا اور فیاض کچھ کہے بغیر اپنے آدمیوں کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
ٹھہرا۔! ظفر جیمسن کا بازا پکڑ کر آہستہ سے بولا تھا۔ آپ کون ہوتے ہیں تلاش کرنے والے۔ ہم سے صرف یہاں پہنچنے کو کہا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے اہم رول ادا کرچکے ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ جو کچھ بھی ہونے والا تھا۔۔۔۔۔ کیپٹن فیاض کی مداخلت کی وجہ سے نہیں ہوسکا۔ جیمسن نے پرتفکر لہجے میں کہا۔ یعنی کھیل بگڑ گیا۔
میرا بھی یہی خیال ہے۔
دفعتاً ایک آدمی ان کے قریب آکھڑا ہوا تھا۔ جیمسن نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا یہ وہی تھا جس نے شہزور کے کرنل درانی ہونے کی تصدیق کی تھی یعنی ہوٹل کا مالک دلاور خان۔
تم لوگوں نے کرنل کی بیٹی کو چھیڑ کر اچھا نہیں کیا۔ اس نے کہا۔
ارے بھائی وہ خود ہی ہمارے پاس آئی تھی۔ شراب کی فرمائش کی تھی اور تمہارے آدمی نے ہمیں اوپر پہنچادیا تھا۔
اوپر۔۔۔۔۔ کیوں؟ دلاور کے لہجے میں حیرت تھی۔
اس نے کہا تھا کہ کھانے اور شراب کی سروس کھلی چھت پر ہوتی ہے۔
کیا تم نشے میں ہو۔۔۔۔۔ یہاں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ ساری سروسز ڈائینگ ہال ہی میں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ ذرا بتاؤ تو۔۔۔۔۔ وہ آدمی کون تھا۔؟
تم بارٹنڈر سے تصدیق کرسکتے ہو کہ ویٹر ہی کے کہنے پر میں نے شیری کی بوتل کی قیمت کاؤنٹر پر ادا کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ پوری بوتل کی اسی طرح مل سکتی ہے۔
ایسا بھی کوئی طریقہ یہاں رائج نہیں نہیں۔
تو پھر اب وہ ویٹر بھی یہاں نہیں مل کسے گا۔! ظفرالملک نے مایوسی سے کہا۔
اور یہی ہوا بھی۔۔۔۔۔ دلاور نے اپنے آفس میں ملازموں کی شناختی پریڈ کرائی تھی۔ لیکن وہ ویٹر ان میں نہیں تھا۔








شیلا بے بڑی پھرتی سے زینے طے کئے تھے اور ڈائینگ ہال میں داخل ہونے سے پہلے ہی اس طرح اسکارف سر پر دال کر گردن سے لپیٹا تھا کہ جہرے کا نچلا حصہ چھپ گیا تھا۔ ڈائینگ ہال سے گذر کر باہر نکلی چلی آئی۔
خاردار تاروں کے احاطے سے بھی نکل آئی تھی۔ اور اب اس طرف بڑھ رہی تھی کہاں چٹانوں کے درمیان گاڑی کھڑی کی تھی۔
سب کچھ عمران کی اسکیم کے مطابق ہوا تھا۔ لیکن وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ عین وقت پر اس قسم کا کوئی ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوگا۔
وہ تو شہزور کو باور ہی کراچکی تھی کہ آخر میں اس نے جو کچھ بھی کہا تھا سچائی پر مبنی تھا۔ اس کے بعد وہ یقینی طور پر باہر نکل کر ساحل کے اس حصے کی طرف جاتا جہاں کا حوالہ اس نے دیا تھا۔
اسے یاد آیا کہ پولیس والا اسے دیکھ کر چونکا بھی تھا۔ لیکن عمران نے تو قطعی نہیں کہا تھا کہ وہاں پولیس بھی ہوگی۔
گاڑی کے قریب پہنچی ہی تھی کہ کسی نے اس کا بازو پکڑلیا۔ اندھیرا ہونے کے باوجود بھی اس نے اپنے قریب کھڑے ہوئے لمبے چوڑے آدمی کو پہچان لیا۔ شہزور کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔
مم۔۔۔۔۔ میں شیلا منمنائی۔
ڈرو نہیں۔۔۔ میں دشمن نہیں ہوں۔ تمہیں بیٹی کہہ چکا ہوں۔ شہزور نرم لہجے میں بولا۔
جی۔۔۔۔۔ کہیے۔۔۔۔۔ کیا بات ہے۔
کیا اس نے پولیس کی مدد لی ہے۔
یقین کیجئے کہ اس سے زیادہ مجھے اور کچھ نہیں معلوم جتنا آپ کو بتاچکی ہوں۔
تو اس وقت تم اس کے قبضے میں نہیں ہو جدھر جاہو نکل جاؤ۔
لیکن میں پولیس کے ڈر سے ایسا نہیں کرسکتی۔
پولیس والا تمہیں یاسمین کی شکل میں دیکھ کر چونک پڑا تھا۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پولیس یاسمین کی موت کی ذمہ داری مجھ پر کیوں ڈال رہی ہے۔
اب تم میرے ساتھ چلو۔
آپ کہاں لے جائیں گے۔
کسی محفوظ جگہ پر۔
اچانک قریب ہی کہیں کسی کتے کی خوفناک غراہٹ سنائی دی۔ اور شہزور اچھل کر گاڑی کی اوٹ میں ہوگیا۔
کوئی کتا جھپٹ پڑا تھا۔ اور اب وہ سچ مچ تھرتھر کانپنے لگی تھی۔
دفعتاً اس نے شہزور کی آواز سنی۔۔۔۔۔ ٹریچی۔۔۔۔۔ ٹیک ہم۔۔۔۔۔ کِل۔
لیکن وہ کسی عورت کی چیخ تھی۔ شیلا نے بوکھلا کر گاڑی میں گھسنے کی کوشش کی اور ٹھیک اسی وقت وہ کتا نہ جانے کدھر سے اچھل کر اس کے پیروں کے پاس آپڑا۔ اتنا اندھیرا بھی نہیں تھا کہ قریب کی چیزیں نہ دکھائی دیتیں۔۔۔۔۔ کتے کے حلق سے عجیب سی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اور وہ دم توڑ رہا تھا۔
ٹریچی۔۔۔۔۔ ٹریچی۔۔۔۔۔! دوسری طرف سے شہزور کی آواز آئی۔
اگر ٹریچی آپ کا کتا ہے۔۔۔۔۔ تو یہ مرچکا ہے۔
نہیں۔۔۔۔۔۔! اس کے حلق سے دھاڑ سی نکلی تھی اور وہ گاڑی کے اوپر سے چھلانگ لگا کر ادھر آیا تھا۔ جدھر شیلا تھی۔
کک۔۔۔۔۔ کیسے مرگیا۔۔۔۔۔! وہ کتے کے قریب گھٹنے ٹیک کر اس پر جھکتا ہوا بولا۔
اوہ۔۔۔۔۔ ٹریچی۔۔۔۔۔ ٹریچی۔
اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ وہ پھر سیدھا کھڑا ہوکر بولا! مگر وہ کسی عورت کی چیخ تھی۔
وہ بھوت ہے۔ کوئی مافوق الفطرت ہستی۔! شیلا کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔
کس کی بات کررہی ہو۔
اسی کی جس کے قبضے میں ہوں۔
میں کہتا ہوں وہ کسی عورت کی چیخ تھی۔
ہوسکتا ہے کہ آپ کا کتا عورت کی طرح چیخا ہو۔۔۔۔۔ اور کتے کی طرح وہ خود بھونکتا رہا ہو۔
کیا بک رہی ہو۔
یقین کیجئے وہ ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔ اگر مجھ سے شادی پر آمادہ ہوجائے تو میں دنیا کو ترین نسل دے سکتی ہوں۔
خبردار جو بے شرمی کی باتیں کیں۔! کسی طرف سے آواز آئی تھی۔
اچانک اس نے چیخ کر کہا۔ سامنے آؤ۔۔۔۔۔ ذلیل بلیک میلر تم نے میرے کتے کو مار ڈالال ہے۔
میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔
لیکن بدستور سناٹا چھایا رہا۔ پھر شیلا زور سے ہنس پڑی تھی۔
خاموش رہو۔۔۔ شہزور غرایا۔ کیا اس گاڑی کی چابی تمہارے پاس ہے۔
ہے تو۔
لاؤ۔۔۔ مجھے دو۔
اور اگر میں انکار کردوں تو۔! شیلا نے کہا۔ عمران کی آواز سن لینے کے بعد وہ شیر ہوگئی تھی۔
چابی لاؤ۔
 

فہیم

لائبریرین
وہ گاڑی کی چھت پر ہاتھ مار کر بولا۔
ہایئں۔۔۔ ہائیں۔۔۔ ڈنٹ پڑ جائے۔۔۔ آواز پھر آئی۔۔۔ دفعتاً شہزور مڑا تھا اور آواز کی جانب دوڑ لگادی تھی۔








عمران نے کھیل بگڑتے دیکھا تھا اور وہاں سے کھسک گیا تھا۔! لیکن رکنے کے لئے ایسی جگہ منتخب کی تھی جہاں سے چاروں طرف نظر رکھ سکتا۔ اس کے باوجود بھی اسے علم نہ ہوسکا کہ شہزور کس وقت ہوٹل کی حدود سے نکل گیا تھا۔ وہ تو شیلا دکھائی دی تھی اور وہ اس کے پیچھے چل پڑا تھا۔
اسے علم تھا کہ شیلا نے کہاں گاڑی کھڑی کی تھی۔ وہ گاڑی ہی کی طرف جاتی دکھائی دی۔ اور پھر گاڑی کے قریب پہنچ کر وہ کسی سے گفتگو کرنے لگی۔
عمران سینے کے بل رینگتا ہوا گاڑی کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ گاڑی کی دوسری طرف پہنچ جائے کہ اچانک کسی جانب سے ایک کتا غرا کر جھپٹ پڑا پھر جتنی دیر میں عمران چاقو نکالتا۔ کسی نے کتے کو ہدایات بھی دینی شروع کردیں۔ اور پھر اس نے کسی عورت کی سی چیخ حلق سے نکالی تھی۔ اور ہدایات کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔ اور اتنی دیر میں وہ اس قابل ہوگیا تھا کہ کتے کی آنتیں نکال باہر کرتا۔
فائر نہیں کرنا چاہتا تھا! شہزور پر یہی تاثر قائم رکھنا چاہتا تھا کہ وہ تنہا ہے۔ فائر کردینے کی صورت میں فیاض اور اس کے ماتحت یقینی طور پر دوڑ پڑتے اور شائد پھر کھیل بگڑ جاتا۔ کیونکہ شہزور تو چھلاوہ تھا۔
شیلا اور اس کی گفتگو سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ شہزور کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
پھر اس نے دونوں کی گفتگو میں دخل اندازی شروع کرکے اسے اس قدر تاؤ دلایا کہ وہ آواز کی سمت دوڑ پڑا تھا۔
اور اپ سے جو کچھ بھی کرنا تھا اس کے لئے پوری طرح تیار تھا۔ جیسے ہی شہزور قریب پہنچا اس نے لیٹے لیٹے ٹانگ چلائی اور وہ اس پر سے قلابازی کھاتا ہوا دوسری طرف جاگرا۔
پھر عمران نے اسے دوبارہ اٹھنے کا موقع نہ دیا۔ پڑی پھرتی سے اس پر چھلانگ لگائی تھی اور دبوچ بیٹھنے کی کوشش کرہی رہا تھا کہ کسی بچے کی طرح پرے جھٹک دیا گیا۔
سر کے بل گرا ہوتا اگر حواس قائم نہ رکھتا۔
خطرناک۔! اس نے دل میں کہا اور باقاعدہ زور آزمائی کا ارادہ ترک کرکے بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکال لیا۔ وہ تو کسی ارنے بھینسے کی طرح طاقتور بھی ثابت ہوا تھا۔
خبردار۔۔۔۔۔ ریوالور کا رخ تمہاری ہی طرف ہے۔
اس نے ڈپٹ کر کہا اور شہزور کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔
لیکن دوسرے ہی لمحے اس کا حقارت آمیز قہقہ سنائی دیا تھا۔
چوٹٹے۔۔۔۔۔ تو صرف چھ فائر کرسکے گا لیکن اس کے بعد کیا ہوگا۔
اس کے بعد تم چھلنی کہلاؤ گے۔ عمران بولا۔
اس کلے بعد بھی میں تیری ہڈیاں توڑ رہا ہوں گا۔۔۔۔۔ فائر کرکے دیکھ لے۔
اچھا تو پھر دوسری صورت کیا ہوسکتی ہے۔
تو مجھے بلیک میل نہیں کرسکتا۔ میں تجھے مار ڈالوں گا۔
بیوقوفی کی باتیں نہ کرو۔۔۔۔۔ کیوں نہ ہم دوستوں کی مل بیٹھیں۔ دراصل اب میں بھی بزنس کرنا چاہتا ہوں۔
بزنس کرنا چاہتا ہے تو یہاں پولیس کی موجودگی کا کیا مطلب ہے۔
پولیس میری تلاش میں آئی تھی۔
بکواس ہے۔ میرا نام پولیس تک تیرے ہی توسط سے پہنچا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ بھی محص اس لئے کہ میرے کئی خاص آدمی تیرے قبصے میں ہیں۔۔۔۔۔۔ ورنہ چند افراد کے علاوہ اور کوئی بھی میرے نام سے واقف نہیں ہے۔ کیپٹن فیاض نے میرا نام لیا تھا۔
عمران نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر رہ گیا۔! فیاض کو تو اس نے محض اس لئے بلایا تھا کہ یہ معاملہ سیکرٹ سروس سے متعلق نہیں تھا۔
ان لوگوں کے اپنے ذرائع ہوں گے۔ اس نے کہا۔
میں تسلیم نہیں کرسکتا۔
چلو۔۔۔۔۔ تیسری صورت کیا ہوسکتی ہے۔
صرف تیری موت۔
دراصل تمہاری سمجھ میں نہیں آرہا کہ حقیقتاً کیا کرنا چاہیے۔ اس لئے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس وقت گھر جاؤ اور صبح تک سوچ کر مجھے مطلع کردینا۔
شہزور ہنس کر بولا۔! مجھے چرانے چلا ہے لونڈے۔
اتنے پڑھے لکھے ہو کر ایسی گھٹیا زبان استعمال کرتے ہو۔
تیرا دماغ تو نہیں چل گیا۔۔۔۔۔ اس سچویشن میں اخلاقیات کا درس دینے چلا ہے۔
کیا مطلب۔؟
علامہ صاحب! میں صرف آپ کے چہرے کا خول اتار دینا چاہتا ہوں۔ عمران نے کہا۔ لیکن پھر اپنی اس حماقت پر اسے سچ مچ پچھتانا پڑا تھا۔
شہزور نے کچھ اتنے غیر متوقع طور پر چھلانگ لگائی تھی کہ اسے فائر کنے کا بھی موقع نہ مل سکا۔ ریوالور بھی ہاتھ سے نکل گیا اور پہاڑ تو آہی گرا تھا۔
ٹھیک اسی وقت کسی گاڑی کی ہیڈ ہیڈ لیمپس کی روشنی ان پر پڑی تھی۔
شہزور کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔۔۔۔۔! پھر کئی فائر ہوئے تھے اور شہزور اچھا کر ساحل کی طرف بھاگا تھا۔
غالباً فیاض ہی کی گاڑی تھی۔ اور اس سے پھر حماقت سرزد ہوئی تھی۔
عمران اٹھ کر بے تحاشہ شہزور کے پیچھے دوڑا۔۔۔ لیکن قبل اس کے کہ اس تک پہنچ سکتا اس نے پانی میں چھلانگ لگادی! پھر عمران نے بھی قطعی غیر ارادی طور پر اس کی تقلید کی تھی۔ پانی ٹھہرا ہوا تھا! کیونکہ چاروں طرف چٹانیں بکھری ہوئی تھیں۔
اور وہ قسمت کا سکندر ہی تھا کہ سیدھا پانی ہی میں گرا تھا۔ اگر دو ڈھائی گز کا بھی فرق پڑتا تو کھوپڑی کے درجنوں ٹکڑے ہوگئے ہوتے۔
شہزور کا آس پاس پتا نہیں تھا۔۔۔ وہ بہ آہستی تیرتا ہوا قریبی چٹان تک پہنچ گیا۔
ٹھیک اسی وقت ایک فائر ہوا اور شعلہ سا اڑتا ہوا اس کے قریب سے گذرگیا۔
اس نے بڑی پھرتی سے غوطہ لگایا تھا۔
سطح پر ابھرے بغیر اسی طرف تیرنے لگا جدھر سے فائر ہوا تھا! ایک چٹان راہ میں حائل ہوئی اور اس نے سطح پر تھوڑا سا سر ابھارا۔
شہزور پھر ہاتھ سے نکلا جارہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ خشکی پر پہنچ چکا ہے۔ اس گھماؤ پر ساحل ڈھلوان تھا۔ عمران نے بے آواز تیرتا ہوا اس جانب بڑھا۔ اتنی دیر میں شہزور اوپر پہنچ کر نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا۔
وہ بھی بد وقت اوپر پہنچا کیونکہ بھیگے ہوئے جوتے ڈھلان پر پھسل رہے تھے۔ اوپر پہنچ کر چاروں طرف نظر دوڑائی تھی اور ایک جگہ بیٹھ کر ہانپنے لگا تھا۔
فیاض کا بھی کیا قصور ہے۔ اس نے سوچا غلطی خود اسی سے ہوئی تھی۔ بلایا تھا تو اسے پوری بات بتادیتا۔ فیاض جیسے لوگوں سے محض اتنا ہی کہہ دینا کافی نہیں تھا کہ ہوٹل میں قدم نہ رکھے۔
بھلا کیوں نہ رکھے؟
جہنم میں جائے۔ وہ سر ہلاکر بڑبڑایا۔ پہچانا جاچکا ہے بچ کر کہاں جائے گا۔
بائیں بازو میں ایک جگہ ایسی تکلیف ہورہی تھی جیسے جلتی ہوئی سلاخ کھال سے ہڈی تک اتر گئی ہو۔ شائد کتے کے دانت لگ گئے تھے۔ اور سمندر کے کھارے پانی نے زخموں پر مزید ستم ڈھایا تھا۔ اس نے جیبیں ٹٹولیں۔ چاقو محفوظ تھا۔ ریوالور تو کھو ہی چکا تھا۔ چاقو کھول کر مٹھی میں دبایا۔
اور اٹھ کر تاروں کی چھاؤں میں پہنچا ہی تھا کہ عقب سے کسی کے چھنکنے کی آواز آئی۔ جہاں تھا وہیں دھڑ دے زمین پر گر گیا اور تیزی سے آواز کی جانب کروٹ لی۔ شیب کی ایک دراڑ سے کسی کا سر ابھرا تھا۔ پھر شانے دکھائی دیئے تھے۔
چاقو کے دستے پر عمران گرفت مضبوط ہوگئی تاریک اور قد آور ہیولٰی ڈراڑ سے بر آمد ہو کر خود بھی عمران ہی کی طرح زمیں پر گرگیا تھا۔ لیکن عمران کی طرف آنے کی بجائے مغرب کی جانب رینگنے لگا تھا۔
فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ عمران کسی سانپ کی طرح پلٹا تھا اور اس پر جاپڑا تھا۔
چاقو کا پھل اس کے بازو میں اترتا چلا گیا۔
شاید اسی ہاتھ میں ریوالور بھی تھا۔ اضطراب ہی میں ٹریگر دب گیا تھا۔ فائر کی آواز سناٹے میں گونجی تھی۔
ساتھ ہی پولیس والوں کی سیٹیاں بھی فضا میں چکرانے لگیں تھیں۔ غالباً فیاض نے مزید آدمی طلب کرلئے تھے۔
شہزور غراتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اور ایک بار پھر عمران نہتا ہوگیا تھا۔ پتا نہیں چاقو شہزور کے بازو ہی میں پیوست رہ گیا تھا۔ یا وہیں کہیں گرگیا تھا۔
ویسے عمران نے محسوس کیا کہ شہزور بھی اب خالی ہاتھ ہے۔
دونوں آپس میں گتھے ہوئے وحشیانہ انداز میں ایک دوسرے کو نوچتے کھسوٹتے رہے۔ اسی دوران میں اس کے بال عمران کے ہاتھوں میں آگئے اور اس نے جو زور لگایا تو ایسا معلوم ہو جیسے چہرے کی کھال سمیت اکھڑتے چلے آئے ہوں۔
اچانک پھر کسی گاڑی کی روشنی ان پر پڑی اور شہزور عمران کو اچھال پھینکنے کی کوشش میں خود چاروں خانے چت گرا۔
گاڑی کی روشنی پوری طرح انہی دونوں پر پڑرہی تھی۔ شہزور نے اٹھ بیٹھنا چاہا تھا کہ اچانک اس جا کھویا ہوا ریوالور ہاتھ آگیا۔
عمران پہلے ہی دیکھ چکا تھا اس لئے شہزور کو فائر کرنے کا موقع نہ مل سکا۔! اس نے بایاں پیر اس کے ریوالور والے ہاتھ پر رکھ دیا تھا اور داہنے سے ٹھوڑی پر ٹھوکر رسید کی تھی۔
ایک کریہہ سے آواز اس کے حلق سے برآمد ہوئی۔ اور دانت نکل پڑے۔
خدا کی پناہ۔۔۔۔۔ یہ تو علامہ ہے۔! عقب سے فیاض کی آواز آئی۔
اب متعدد ٹارچوں کی روشنیاں ان پر پڑرہی تھیں۔۔۔ علامہ کی آنکھیں بند ہوگئی تھیں۔ پتا نہیں بن رہا تھا یا سچ مچ بیہوش ہوگیا تھا۔
اور شہزور وہ رہا۔۔۔۔۔ عمران نے بالوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا تھا۔
شیلا بھی ان کے ساتھ تھی۔۔۔ دوڑ کر عمران سے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
علامہ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئی تھیں۔
رونے دھونے سے کیا فائدہ۔۔۔؟ عمران اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ اب چل کر کوئی ایسا ڈاکٹر تلاش کرو جو کتے کے کاٹے کا ٹیکہ لگاتا ہو ورنہ میں تھوڑٰ دیر بعد تمہارے ہی قول کے مطابق بھونکنا شروع کردوں گا۔
افق میں صبح کی سپیدی نمودار ہونے لگی تھی۔








دوپہر کو رحمان صاحب کے طلب کرنے پر وہ ان کے آفس پہنچا تھا۔ انہوں نے اطلاع دی کہ علامہ یا تو بن رہا ہے یا سچ مچ پاگل ہوگیا ہے! محکمے ہی کی حوالات میں اسے رکھا گیا تھا۔
فیاض کے ساتھ وہ حوالات کی طرف روانہ ہوا تھا۔ اور فیاض کا یہ عالم تھا جیسے اس نے اور عمران نے ایک ہی کوکھ سے جنم لیا ہو۔
عجیب چیز ہے یہ علامہ بھی۔۔۔! اس نے کہا۔ بالکل کسی پانچ یا چھ سال کے بچے کی سی آواز میں چیختا رہتا ہے۔
عمران چلتے چلتے رک گیا۔ دفعتاً اس کے چہزے کی رنگت بدل گئی تھی۔
یقین کرو۔۔۔ وہ علامہ کی پاٹ دار آواز نہیں ہے۔ کسی بچے کی آواز ہے۔ فیاض نے کہا۔ عمران نے تیزی سے حوالات کی طرف قدم بڑھائے تھے۔ ذہن میں آندھیاں اٹھ رہی تھیں اور پہلی بار اسے احساس ہوا تھا کہ وہ کیا کربیٹھا ہے۔ اس دوران میں وہ صرف فیاض کی آوازیں سنتا رہا تھا۔ اس کا دھیان نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔
حوالات کے کٹہرے کے قریب پہنچ کر اس نے علامہ کو زمین پر اندھے پڑے دیکھا۔ اس کے اسے آواز دی تھی۔
علامہ نے اسے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔ لیکن اس کی آنکھوں میں شناسائی کی ہلکی سی جھلک بھی نہ دکھائی دی۔ ان میں ایسی ہی لاتعلقی پائی جاتی تھی جیسے کسی چوپائے نے آنکھ اٹھاکر انہیں دیکھ لیا ہو۔
پھر اچانک وہ چیخنے لگا تھا۔ ماں۔۔۔۔۔ ماں۔۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔۔ میرے بابا۔
آواز سچ مچ کسی پانچ یا چھ سال کے بچے کی سی تھی۔
کمال کی آواز بدلتا ہے۔! فیاض ہنس کر بولا۔ شہزور اور اس کی اصل آواز میں کتنا فرق تھا۔ عمران کچھ نہ بولا۔ اس کا تالو خشک ہوا جارہا تھا۔ حلق میں کانٹے سے پڑنے لگے تھے۔
علامہ پھر اسی انداز میں ماں اور بابا کو پکارنے لگا۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔
چلو۔۔۔۔۔! عمران مڑتا ہوا بولا۔
فیاض اسے حیرت سے دیکھتا ہوا اس کے پیچھے چلنے لگا باہر نکل کر عمران بولا تھا۔ یہ بن نہیں رہا۔۔۔۔۔ ذہنی طور پر ماضی میں لوٹ گیا ہے۔ بعض صدمے ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ شائد اسی لئے زندہ تھا کہ ان میں آخری آدمی کا بھی خاتمہ کردے۔۔۔ لیکن نہ کرسکا۔
کہاں کی ہانک رہے ہو۔
تم کچھ بھی نہیں جانتے۔
کیا نہیں جانتا۔
علامہ کی پھچلی زندگی کے بارے میں۔
بہت زیادہ سنجیدہ ہورہے ہو۔
ہم سب درندے ہیں مائی ڈیئر فیاض۔۔۔۔۔! سب کچھ سامنے آجائے گا۔ باقاعدہ پوری رپورٹ تیار کرکے تمہارے حوالے کردوں گا۔ جسے عدالت میں پیش کرسکو گے۔ لیکن اش شخص کے لیے میرا دل رو رہا ہے۔۔۔۔۔ کاش اس انتقامی جذبے نے انفرادی رنگ اختیار کرنےکے بجائے ایسی تحریکوں کا ساتھ دیا ہوتا جو ظلم اور جبر کے نظام کو مٹادینے کے لئے کام کررہی ہیں۔
کہیں میں بیہوش نہ ہوجاؤں۔ تمہیں سنجیدہ دیکھ کر۔۔۔۔۔! فیاض کھوکھلی سی ہنسی کے ساتھ بولا تھا۔
عمران کے ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھے۔ اور وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھا جارہا تھا۔
فیاض وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سے تاثرات تھے۔





تمام شد​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top