بوڑھے کی لاٹھی (باپ کے بڑھاپے کی جب جوان بیٹا لاٹھی بنا۔ایک سچی کہانی)

بزم خیال

محفلین
بوڑھے کی لاٹھی ( حصہ اول)
باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی
باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔۔۔
حصہ اول!
ہرروز کی طرح آج بھی وہ اپنے باپ کے ساتھ ایسے بات کر رہا تھا جیسے خود ہی سے مخاطب ہو ۔
ابا جی ماں اپنے بچے کو دو چار سال تک سنبھالتی ہے۔ پھر اللہ کی ذات ماں کو وہ مقام دے دیتا ہے کہ جنت قدموں کے نیچے رکھ دیتا ہے۔
ابا جی میں تو دس سال سے آپ کی دیکھ بھال کر رہا ہوں ۔
کھلاتا ہوں، نہلاتا ہوں ،صفائی کرتا ہوں، زخموں پر مرہم رکھتا ہوں پھر تو میرا درجہ بھی ماں کا ہوا۔
"تیری مہربانی ہے "کے الفاظ جو اس کے کانوں میں پڑے تو بھونچکا رہ گیا۔ جلد ی میں اس نے صفائی کا کام مکمل کیا۔ ابا جی کو دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور پلنگ پر لٹا کر ڈریسنگ کی کٹ نکال کر پہلے کمر پھر پاؤں میں گہرے زخموں کو صاف کیا اور مرہم لگانے کے بعد بند کر دیا ۔
سامان سمیٹنے میں ایسے جلدی کر رہا تھا جیسے بہت ارجنٹ میٹنگ کا بلاوہ آیا ہو۔
وہ جلد سے جلد وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا اباجی کے کمرے سے نکل کر سگریٹ ہاتھ میں لئے باہر صحن میں چلا گیا ۔
بیوی آوازیں دیتی رہ گئی۔
جی سنئے !
کھانا لگا دوں کیا ۔
مگر آج اسے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ صرف ایک آواز کے سوا " تیری مہربانی ہے "
وہ سگریٹ کو سلگا کے گہرے گہرے کش ایسے لے رہا تھا جیسے کوئی دو دن کا بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
وہ بار بار اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ تجھے روز ایسے ہی ابا جی سے باتیں کرنے کی عادت ہے۔ یہ سوچ کر کہ وہ کب سمجھتے ہیں ان باتوں کو۔ الزائیمر کی بیماری نے ان کا سارا اعصابی نظام ہی مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔
آنکھوں میں روشنی باقی تھی یا صرف کھانے پینے کا نظام انہضام کام کر رہا تھا ۔اس کے علاوہ تو پورا وجود ایک گوشت پوست کے لوتھڑے سے زیادہ دکھائی نہیں دیتا تھا ۔
وہ سوچ رہا تھا کہ مجھ سے گناہ ہوا ۔ اباجی تو ایک سال سے ایک لفظ نہیں بولے۔ اتنی بڑی بات" تیری مہربانی ہے" کے الفاظ اس پر اتنے بھاری ہو چکے تھے کہ وہ اپنے قدموں کواٹھانا چاہتا مگر وہ ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔
باپ کا بیٹے کو کہہ دینا کہ" تیری مہربانی ہے " بیٹے کی خدا کے حکم سے سراسر روگردانی کے مترادف ہے۔
وہ سوچتا ابھی تک تو میں اپنے اباجی کا حق ہی نہیں ادا کر پایا ۔ پھر میری مہربانی کیسی !
گہرے خیالوں میں کتاب ماضی سے ورق الٹ الٹ کر اس کی نظروں کے سامنے آرہے تھے۔
کہ اباجی نے اسے کیسےمحبت سے پال پوس کر بڑا کیا ۔
جب کبھی دوستوں کی محفل رات گئے جاری رہتی۔ تو باون سال عمر میں بڑا اس کا باپ رات بھر ٹہلتا رہتا۔ ماں سے کہتا تیری ہی دی گئی ڈھیل ہے جو وہ دیر تک گھر سے بھی باہر رہنے لگا ہے۔
جب وہ گھر کے دروازے پر دبے پاؤں پہنچتا ۔ تو ابا جی کی آواز آتی بیٹا خیریت تھی اتنی دیر لگا دی۔
پہلے سے تیار ایک نیا بہانہ سنا کر جلد کچن تک جاتا۔ ماں بھی پیچھے پیچھے وہیں آجاتی۔ سالن گرم کرتی اور ساتھ ہی کلاس شروع ہو جاتی۔ تیرے اباجی بہت غصے میں تھے ۔
مگر ماں مجھے تو کچھ نہیں کہا!
یہی تو ان کا مسئلہ ہے۔ مجھ ہی کو سناتے رہتے ہیں کہ میرے لاڈ پیار نے بگاڑ رکھا ہےخود بھی تو کبھی کچھ نہیں کہا ۔
لیکن ماں گھر میں اکیلا کیا کروں !
قصور اس کا بھی نہیں تھا۔اس کا بڑا بھائی جو اس کا دوست بھی تھا ۔ اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا ۔
تب سے اس کے بوڑھے ماں باپ تنہائی میں یاس کے چراغ جلاکر زندگی گزار رہے تھے ۔
محلے میں بھی اس کا ہم عمر دوست کوئی نہیں تھا۔ 8،6 سال عمر میں بڑے بھائیوں کے دوستوں سے گپ شپ کرتا ۔ اب تو ان میں سے بھی زیادہ تراپنے اپنے کام کاج میں مصروف ہو چکے تھے اور چند ایک محلے سے ہی جا چکے تھے ۔
جب ہمارا دم نکل جائے گا لوگ ہی اطلاع کریں گے تمہیں !
تنہائی کی ماری ماں کھانا اگے رکھتے ہوئے غصے سے بولی!
وہ بھی بیچاری سچی تھی۔ ایک بار تو باتھ روم گئی اور کمزوری سے چکر کھا کر وہی گر کر بیہوش ہو چکی تھی۔ کافی دیر کے بعد اسے ہوش آیا تو اپنی بیٹی کو فون کیا اور رو پڑی ۔
وہ گھرانہ اتنی اولاد اور شہر کی گہما گہمی کے باوجود بھی ایک ایسی منزل کے مسافر تھے ۔جہاں دو بوڑھے اپنی آنکھوں کی کم ہوتی روشنی کو ایک نو عمر چراغ سے وابستہ کئے ہوئے تھے۔
کھانے سے فارغ ہو کر اس نے اپنے کمرے کی راہ لی۔ گولڈلیف کے پیکٹ سے ایک سگریٹ نکال کرسلگایا اور گہرے کش لیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ کل سے دیر سے گھر آنے کی عادت کو ترک کرنا ہو گا۔
اس نے اس کا حل بھی تلاش کر لیا دوستوں کو اپنے گھر ہی بلایا جائے۔ کیونکہ اس کا کمرہ گھر سے الگ تھلگ باہر کی طرف تھا۔ وہاں سے قہقہوں اور شور کی آوازیں بھی باہر نہیں جا سکتی تھی۔
دس کمرے،تین باتھ روم، ڈرائنگ روم، دو اطراف میں برامدے اور سو سو فٹ لمبائی کے دونوں اطراف صحن پر مشتمل گھر دو کنال پر پھیلا ہوا تھا۔
جتنا بڑا گھر تھا تنہائیاں اس گھر میں اس سے بھی زیادہ پھیلی ہو ئی تھی۔
دن ہفتوں میں مہینے سالوں میں بیتے جارہے تھے ۔
اس گھر کی یہی معمولات زندگی رہی!
کبھی کبھار وہ سوچتا! میرے ابا جی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔
مگر یہ خیال ذہن سے جھٹک دیتا کہ وہ کبھی اباجی کے قریب نہیں رہا ہمیشہ کسی انجانے خوف کی وجہ سے دور دور رہتا۔
عمر میں باون سال کا فرق بھی دوری کا سبب تھا کیونکہ دوسری شادی سے آخری نمبر تھا اس کا ۔
سب سے زیادہ پیار تو انہیں اس سے بڑے سے تھا ۔ سولہ سال کی عمر میں وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا ۔ پینسٹھ سال کے باپ کے کندھوں پر سولہ سال کے جوان بیٹے کا جنازہ ہو تو اسے جینا کب یاد رہ جاتا ہے ۔
خوف اور جدائی کا آسیب ہر دم اسے تنہائی میں ڈراتا ہو گا ۔
سب سے عزیز بیٹا دنیا سے چلا گیا۔ ان سے بڑے بیٹےاچھے مستقبل کی تلاش میں گھر سے دور اور چند ملک سے ہی دور جا چکے تھے ۔
اب صرف یہی ایک رہ گیا تھا ۔ شائد یہی ایک خوف ہمیشہ اس کے باپ کو رہتا ہوگا کہ کہیں یہ بھی اچھے مستقبل کا خواب آنکھوں میں نہ بسا لے۔ نہ ڈانٹنے کی وجہ تو یہی معلوم ہوتی تھی۔
جیسے ہی ماضی کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹا توکچھ دیر ٹہلنے کےبعد وہ واپس لوٹ آیا ۔اب وہ کافی حد تک مطمئن تھا اور تہیہ کر چکا تھا آئندہ کوئی بھی ایسی بات زبان پر نہیں لائے گا۔
مگر اس کی زندگی کا سفر یونہی گزر تا تھا ۔ صبح 6 بجے، دوپہر 2 اور رات 10 بجے وہ جہاں بھی ہوتا اپنے گھر واپس لوٹ جاتا۔
پہلے تو مشکل زیادہ تھی جب سے اس نے اپنے ابا جی کوپیمپر لگانا شروع کیا بستر بھیگنے سے بچ جاتے تھے۔
جاب، بزنس، بیوی بچے اور مہمان داری سبھی کام اکٹھے چل رہے تھے ۔ایسی زندگی گزارنے کی اسے عادت ہو گئی تھی ۔ مہمان آتے مہمان بن کر رہتے اور چلے جاتے ۔چار دن ہنسی مذاق کے بعد پھر وہی روز کے معمولات واپس آجاتے۔
جب بھی اس کےموبائل کی گھنٹی بجتی وہ چونک جاتا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل فون آسائش تھی، سہولت نہیں ۔ اس کے کسی بھی دوست کے پاس موبائل فون نہیں تھا ۔ اباجی کی وجہ سے اس نے کنکشن لیا تھا تاکہ ہر وقت گھر رابطہ رہ سکے۔
ایک روز دوستوں کی محفل میں خوش گبیوں میں مشغول تھا کہ فون کی گھنٹی بجی ۔فون کان سے لگاتے ہی وہ گھر کی طرف دوڑ پڑا ۔
اس کے ابا جی کو اکثر دماغ کی شریانوں میں خون صحیح نہ پہنچنے پر ایسا دورہ پڑتا کہ منہ سے جھاگ بہتی ،جسم جھٹکے لیتا۔ پھر تو دو دن تک اس کے ابا جی بالکل ڈھیلے ہو جاتے۔ کھانا پینا بہت کم ہو جاتا۔ پھر آہستہ آہستہ جسم صرف خوراک لینے کی حد تک نارمل ہو جاتا۔ لیکن آج کا دورہ بہت شدید تھا مسلسل سر اور گردن کے پٹھوں کی مالش سے فرق نہیں پڑ رہا تھا جھاگ منہ سے بہے جا رہی تھی۔
ڈاکٹر بھی ایسے مریض پر زیادہ توجہ نہیں دیتے جو زندگی کی نو دہائیوں سے اوپر جی چکا ہو اور بستر پر لیٹے لیٹے اس مریض کو چھ برس گزر چکے ہوں ۔
تیمارداری کے لئے گھر آنے والے سبھی سنیاسی نسخہ چھوڑ کر جاتے ۔مفت مشورہ دینے کے چکر میں ایک بار اس کے ابا جی نے فزیکل تھراپسٹ کے ہاتھوں بہت تکلیف اٹھائی تھی۔ بازو فزیکل تھیراپی سے ایسے پھولے کہ پھر وہ فزیکل تھراپسٹ گھر کا راستہ بھول گیا ۔
ا ب تو مشورہ دینے والے بھی خاموشی اختیار کر چکے تھے ۔عزیز رشتہ دار ہمدردی کا اظہار کرتے اور حوصلہ بندھاتے اور گھروں کو لوٹ جاتے۔
اکثروہ صحن میں تنہا سگریٹ سے دھواں چھوڑتے ہوئے ماضی میں کھو جاتا۔
بیس سال پہلے کی دوستوں کی آوازیں اس کے کانوں میں گونجتی۔
یار! تو تو خوش نصیب ہے۔ جب چاہے ملک سے باہر بھائیوں کے پاس جا سکتا ہے۔ ہمیں تو ویزہ دلانے والا کوئی نہیں۔ ہر بار سٹوڈنٹ ویزہ سے ان کو انکار ہو جاتا ۔ وہ تمام دوست اس کی قسمت پر رشک کرتے مگر وہ سوچتا کہ مجھے ایسی خواہش کیوں نہیں ------ جاری ہے

تحریر ! محمودالحق
 
آخری تدوین:

بزم خیال

محفلین
بوڑھے کی لاٹھی (حصہ دوم)

باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی
باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔
حصہ دوم
اسے تو اپنے اباجی کے الفاظ یاد تھے کہ بیٹا میں ہائیکورٹ کا وکیل ہوں۔ چاہے آمدن کم ہے مگر عزت والا پیشہ ہے۔ وہ ہر پیشے کو پیسے سے نہیں عزت کی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
باپ بیٹے میں ایک ایسا رشتہ مضبوطی کے بندھن میں بندھ رہا تھا جو بڑھ کر عقیدت و محبت میں بدل گیا ۔
اس روز تو ابا جی کی خوشی دیکھنے والی تھی۔ جب اس نےکہاکہ میرا ایم اے کا آخری سال ہے۔ ایک نیا پرائیویٹ لاء کالج کھلا ہے مجھے اس میں داخلہ لینا ہے۔ خوشی خوشی انہوں نے روپوں کا بندوبست کیا اور اس کا لا ء کالج میں داخلہ ہو گیا ۔
اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ گھر میں ماں باپ اس کی زندگی کے بارے میں اہم فیصلے کرنے جارہے ہیں۔ ایم اے کی ڈگری اسکے ہاتھ میں تھی۔ ایف ای ایل کا امتحان دے چکا تھا۔ اس کے کانوں میں خبر پہنچی اب اس کی شادی کر دی جائے۔
لیکن ماں جی ! میرے پاس ہے کیا۔
وہ پریشانی کے عالم میں بولا ! بےروز گار ہوں ۔ ابا جی کی زرعی زمین کے ٹھیکے سے تو گھر کا خرچہ بمشکل چلتا ہے۔کیسے چلے گا ۔
بس! ماں حکم دینے کے انداز میں بولی۔ میں تھک چکی ہوں بیمار رہتی ہوں ۔ اب اس گھر کو ضرورت ہےایک بہو کی جو اسے سنبھالے۔
مگر ماں جی !
بات ادھوری کی ادھوری رہ گئی اس کی ایک بھی نہ چلی ۔
دور نزدیک کے رشتہ داروں میں اسکا رشتہ طے کر دیا گیا۔ اکتوبر میں منگنی کی رسم ادا ہوئی اور اگلے سال دسمبر میں شادی کا فیصلہ ہوا ۔
اسے تسلی تھی اس وقت تو لاء مکمل ہو چکا ہو گا۔ مگر حالات نے پھر ایک نیا رخ لیا اور شادی کو چار ماہ بعد ہی جنوری میں کرنے کا فیصلہ ہوا۔ کیونکہ اسی گھر میں بیٹے کی بھی شادی طے تھی جب اس کی تاریخ مقرر کی جانے لگی تو اصرار ہوا کہ بیٹی کی شادی بھی ساتھ ہی ہو اور وہ طے کر دی گئی۔ جلدی میں سارے انتظامات مکمل کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔
اس نے لیکچرار شپ کی آسامی کے لئے اپلائی کر دیا اور انٹرویو کی تیاری میں مشغول ہو گیا۔
دوسری طرف ان کی زرعی زمین جن کے پاس تھی ۔ ٹھیکہ کی بقایا رقم کی ادائیگی کئے بغیر چھوڑ گئے اور صرف یہی نہیں واپڈا کے بقایا جات بھی ان کے سر ڈال گئے۔
ٹیوب ویل کا پانی کم ہو نے کی وجہ سے اب کوئی نیا ٹھیکیدار بھی رسک لینے کے لئے تیار نہیں تھا مجبوری میں نئے ٹیوب ویل کے لئے نئے ٹھیکیدار ہی سے رقم ادھار اٹھائی گئی۔
اب شادی کے دن قریب آتے جارہے تھے اور اس کے ابا جی کی پریشانیاں بڑھتی جارہی تھی ۔
ان کے علاوہ اس صورتحال کا کسی کوعلم نہیں تھا۔ تمام لوگ انہیں خوشحال تصور کرتے۔ کئی مربع زمین، دو کنال کا گھر، بڑے بیٹے باہر کے ملکوں میں برسر روزگار ۔مگر اندر کبھی کسی نے جھانکا ہی نہیں۔ اسی پریشانی میں ہائیکورٹ سے واپس آ تے ہوئے کے پائیدان سے چوٹ لگی تو سر سے خون بہنے لگا۔ پوچھنے پر کہنے لگے مجھے نہیں علم کیا ہوا۔ بس چگرا گیا تھا تانگہ سے ٹکرا کر گر گئے۔ بعد میں اس بات کا انکشاف ہو ا ۔انہیں فالج کا معمولی حملہ ہوا تھا ۔
انہوں نے ہمیشہ خودداری سے جینے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ۔ بیٹوں سے بھی کبھی تقاضا نہیں کیا تھا ۔
خودداری کا تو یہ عالم تھا ۔حسین شہید سہروردی جب پاکستان کا وزیراعظم تھا اسی پارٹی عوامی لیگ کے وہ فنانس سیکرٹیری کے عہدے پر فائز تھے ۔
ان کے چھوٹے بھائی نے ایم اے اکنامکس کیا۔ تو بھائی سے کہا کہ وزیراعظم سے کہہ کر کوئی نوکری دلوا دیں ۔وزیراعظم کی قیادت میں پارٹی اجلاس گورنر ہاؤس لاہور میں ہوتے شرکت کرنے جاتے تو چھوٹے بھائی کی درخواست کوٹ میں رکھ لیتے۔ واپسی پر بھائی کے استفسار پر کہہ دیتے مناسب وقت نہیں ملا بات کرنے کا اور بات ٹل جاتی۔
اس کی حکومت ختم ہو گئی ۔مگر انہوں نے درخواست اپنے کوٹ کی جیب ہی میں رکھی۔
انہوں نے ہمیشہ اپنے بیٹے کو یہی تلقین کی ۔کہ اپنے بل بوتے پہ زندگی جیو ۔ سفارش کی سیڑھی سے زندگی کی بلندیوں کو چھونے کی کوشش کرنے والے ہمیشہ سیڑھی کے محتاج رہتے ہیں اور وہ خود اس کی زندہ مثال تھے ۔ایک سپاہی سے صوبیدار میجر تک ترقی پانے والے کا بڑا بیٹا اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ملک کی حکومتی پارٹی کے اہم عہدوں پر فائز رہا اوریہ قیام پاکستان کے بعد کا وہ ابتدائی دور تھا جب صرف جاگیر دار اور وڈیرے ہی سیاست کے ستون تھے اور انہوں نے ان میں رہتے ہوئے اپنا مقام بنایا ۔
اپنی اولاد میں بھی ایسا ہی دیکھنے کی ان کی ایک خواہش تھی ۔جو ان کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہو ئی۔
شادی کی تیاری اپنے عروج پر تھی۔ سبھی بہت خوش تھے ایک نئی خوشی کا اضافہ یہ ہوا کہ اسے لیکچرار شپ مل گئی اور اپنی مہندی کے دن اس نےدوسرے شہر کے کالج میں جوائننگ رپورٹ کی۔
اب تو وہ بہت خوش تھا۔ زندگی کے اہم دو موڑ خوشیوں کے ساتھ ایک ساتھ اس کی زندگی میں وارد ہوئے۔
دوست احباب اس کی شادی کو خوش نصیبی سے تعبیر کر رہے تھے۔
مگر!
زندگی انسان کے ساتھ کیا کھیل کھیلتی ہے۔ وہ کوئی نہیں جانتا ۔ظاہری خوشی اور کامیابی دیکھ کر ہی مستقبل کے سنہرے خواب آنکھوں میں بسا لئے جاتے ہیں۔ ایک ایسا ان دیکھا خواب جو فیصلہ اپنے ساتھ لئے انسان کے ساتھ ساتھ اس کی خوشی ،غم، کامیابی، ناکامی کی شکل میں کبھی سامنے آتا۔ تو کبھی چھپ جاتا اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آدمی کو اپنے لئے راستہ کا تعین کرنا ہوتا ہے ۔
انسان وہی کاٹتا ہے جو وہ بوتا ہے۔ اچھائی کو اچھائی ہی سے رغبت ہوتی ہے۔
اسکے ابا جی کا کردار بےمثال تھا۔ گھر میں جتنی بھی شادیاں ہوئی ۔لڑکی والوں نے ان کی شخصیت ہی کو سامنے رکھا ۔برادری میں انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
وہ دن بھی آن پہنچا جب بادلوں کی گڑگڑاہٹ اور پھوار سے لاپرواہ بارات ایک سو میل کا سفر طے کر کے لڑکی والوں کے گھر پہنچی۔ بڑی دھوم دھام سے بارات کا استقبال کیا گیا۔
اس شہر کے لوگوں نے ایک نرالا ڈھنگ دیکھا۔ اس کے دوستوں کا حلقہ بہت بڑا تھا اور ان میں اسی پہلے دوست نےسہرا باندھنے کا اعزاز حاصل کیا۔خوشی میں بھنگڑا ڈالاگیا سارا شہر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ تو یہ ہیں زندہ دلان لاہور ۔
ساری رسومات احسن طریقے سے انجام پائی خوشی میں ہر فرد مسکرا رہا تھا ۔
مگر !

وہ انسان جو نہ جانے کب سے ذہنی کشمکش کی جنگ لڑ رہا تھا۔ کوئی بھی اس کی کیفیت کو محسوس نہیں کر پایا ۔ اسے بھی حوصلہ چاہیے ہو گا۔ شائدمدد کا طلب گار ہو۔
خوشیوں میں دکھ، پریشانی ایک ہارے ہوئے فوج کی مانندہوتی ہیں ۔جو موقع ملتے ہی دوبارہ حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف سارا گھرانہ اس بات سے لاعلم اپنی بڑھتی خوشیوں کا جشن منا رہا تھا اور دوسری طرف ایک انسان اپنی ہمت اور حوصلہ کی جنگ ہار رہا تھا ۔
اگلے دن ولیمہ میں سب مہمان آ رہے تھے وہ ان کے استقبال میں سب کو خوش دلی سے خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ اس کے ابا جی بار بار اس کے پاس آتے اور پوچھتے بیٹا کیا مہمانوں کے لئے کھانا پورا ہو جائے گا ۔
ابا جی !آپ فکر نہ کریں انتظام مکمل ہے۔ انشااللہ احسن طریقے سے ہر کام ہو گا۔
مگر وہ پھر وہی سوال دہراتے ۔بیٹا کہیں کمی نہ رہ جائےاور وہ پریشانی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔
سب مہمان واپس جا چکے تھے۔ شامیانے اتر گئے،برتن سمیٹ لئے گئے، گھر کے سبھی افراد خوش گبیوں میں مصروف تھے۔ کہ اس کے ابا جی اپنے کمرے میں جاتے ہی بستر پر گر گئے اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے لاتعلق بے ہوش ہو گئے۔ شادی میں شرکت کے لئے ڈاکٹر بیٹا جو خاص طور سے بیرون ملک سے آیا تھا ۔اس نے چیک اپ کیا تو انکشاف ہوا۔کہ انہیں فالج کا حملہ ہوا ہے۔
یہ الفاظ سنتے ہی جیسے اس کے پاؤں کے نیچے سے کسی نے زمین کھینچ لی ہو۔
یہ کیسے ہوگیا !
اباجی! اباجی !کی آوازیں دیتا بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔ چند گھنٹے پہلے تک جہاں خوشیوں کے شادیانے تھے۔ وہیں غم کے بھاری بادل چھا گئے۔ نئی نویلی دلہن جائے نماز پہ ان کی زندگی کے لئے دعائیں مانگ رہی تھی ۔کہ کہیں میرے اس گھر میں داخل ہوئے قدموں کو نحوست سے نہ تعبیر کر لیا جائے۔ مگر اٹیک معمولی تھا چند دنوں میں صحت یاب ہو گئے۔
مگر یہ خوشی زیادہ دیر نہ رہ سکی اور تین ماہ بعد پھر دائیں طرف ایک شدید فالج کا حملہ ہوا۔ بیماری سے ابھی پوری طرح سے چھٹکارہ نہیں ملا تھا ۔کہ چار ماہ بعد اس کے چچا کا جوان بیٹا ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوا اور ایک ہفتہ کے بعد خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس کےابا جی کو اپنے چھوٹے بھائی اور اس کی اولاد سے بہت محبت تھی ۔یہ اچانک صدمہ وہ برداشت نہ کر پائے۔ اور اپنے حواس کھو بیٹھے اور زندگی کے وہ واقعات جو پچاس سال پیشتر پیش آئے تھے۔ ابھر کر دماغ کی سکرین پر نمودار ہو گئے۔
حال ختم ہو گیا اور ماضی زندہ ہو گیا ۔
ایک طرف جوان موت جنازہ کی صورت میں چارپائی پر پڑی تھی اور دوسری طرف ایک بوڑھا اپنی جوانی کے واقعات کو اپنے بیٹے کو ایسے سنا رہا تھا۔ جیسے کل ہی کا واقعہ ہو۔ چار گھنٹے کی روئداد سنانے کے بعد ۔پھر وہیں سے شروع کر دیتے جیسے ابھی سنائی نہ ہو ۔
نیند سے بوجھل اس کی آنکھوں میں اب جاگنے کی تاب نہیں تھی۔ پچھلے چالیس گھنٹوں سے جاگ جاگ کر اب اس کی ہمت نہیں تھی جاگنے کی۔
ابا جی مجھے نیند آئی ہے میں سو جاؤں ؟
ابھی میری بات کہاں ختم ہوئی ہے !
ایک ہی کہانی پچھلے کئی گھنٹوں میں وہ کئی بار سن چکا تھا۔ ذہنی امراض کے ڈاکٹر کا کہنا تھا۔ دوائی آہستہ اثر کرے گی ۔دماغ کی رفتار تیز ہو چکی ہے۔ ماضی واپس لوٹ آیا اور حال چند پل سے زیادہ کا نہیں رہ گیا۔
وہ سوچ رہا تھا ۔کہ انسان کا دماغ اپنے اندر ہر واقعہ کو جزئیات سمیت کسی کیسٹ کی طرح ایسے ریکارڈ کر لیتا ہے۔کہ جب حال رک جائے تو ماضی کی فلم نکل کر چل جاتی ہے۔
چند مہینوں میں اس کے ابا جی کافی حد تک سنبھل چکے تھے ۔خاموش زیادہ رہتے اور یہ سب دوائی کے اثرات تھے۔ان کی خاموشی ایک خاموش طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ جس سے وہ لا علم تھا کہ اب اس کی زندگی میں کیا کیا ہونے والا ہے۔یہ کونسی بیماری ہے۔ جسے ڈاکٹر کوئی بھی نام نہیں دے رہے۔ ماسوائے اس کے کہ دماغ کی شریانیں سکڑ گئی ہیں۔ خون کی گردش صحیح طرح سےنہیں ہو پا رہی۔
اسی دوران اسے اللہ تعالی نے پہلی اولاد نرینہ سے نوازا ۔جس پر گھر کا ہر فرد پھر بہت خوش تھا ۔دادی پوتے کی محبت میں سرشار تھی ۔ باپ کے بعد اب اس کا بیٹا اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا ۔جسے پا کر وہ بہت مسرور تھی ۔ بہو لانے کے بعد انہوں نے گھر کے کاموں خاص طور پر کچن سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی ۔ زیادہ وقت اپنی عبادت یا پوتے کو سنبھالنے میں صرف کرتیں ۔
اسی دوران انہیں شدید درد نے آ گھیرا تو انکشاف ہوا ۔کہ ان کے پتے میں پتھری ہے ڈاکٹروں نے تین دن ہاسپٹل رکھنے کے بعد یہ کہہ کر اپریشن سے انکار کر دیا کہ دل بڑھا ہوا ہے۔ ایسے مریض کا رسک نہیں لیا جا سکتا ۔
ایک طرف بوڑھا باپ جو اپنی زندگی بھولتا جا رہا تھا۔ دوسری طرف بوڑھی ماں جو پتھری کے درد سے نڈھال ہو جاتی مگر اپریشن ممکن نہیں تھا۔ ایک بیٹا اپنے والدین کے لئے ہر ڈاکٹر سے منت کرتا کہ وہ اپنے والدین کی تکلیف نہیں چاہتا ہر ممکن مدد کا طلب گار رہتا ۔
اس کی سگریٹ کی عادت بہت بڑھ چکی تھی جب بھی وہ تنہائی میں ہوتا ۔سگریٹ کے دھواں میں اپنے سوالوں کے خود ہی جواب تلاش کرتا۔جو وہ کئی سال پہلے اپنی ماں کی گردن اور کندھوں پرآئیوڈیکس تو کبھی وکس ملتے ہوئے اکثر مذاق میں کیا کرتا تھا ۔
ماں جی آپ کی اتنی اولاد تھی پھر میری دنیا میں کیا ضرورت تھی؟
ماں اسےڈانٹتے ہوئے کہتی !
تمہیں شرم نہیں آتی ایسی بات کرتے ہوئے۔
آتی ہے۔ جب دو سال بڑا بھتیجا مجھے چچا کہتا ہے۔ اس کے جواب پر ماں خاموش ہو جاتی۔
اس کے سب سے بڑے بھائی اور اس میں تیس سال کا فرق تھا۔ دو شادیوں میں بچوں کی عمروں میں اتنا فرق ۔کبھی کبھار ایسا بھی ہو جا تا ہے۔
آج اسے اپنے وہ سوال جو ماں سے مذاق مذاق میں کئے تھے۔ جواب مل گیا تھا کہ
دنیا کا بنانے والا انصاف کرنے والا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ صرف رزق اور موت نہیں مقصد بھی لےکر آتا ہے۔ جو کبھی کبھار سوال بن کر اس کے ذہن میں ابھرتے رہتے تھے۔ ان کا جواب اسے مل چکا تھا اور اپنا مقصد بھی !
کیوں اس کے ذہن میں کبھی بھی ملک سے باہر اچھے مستقبل کی خواہش پیدا نہیں ہوئی۔ دوستوں پر حیران ہوتا تھا کہ انہیں کیا بے چینی ہے۔ جو ہر ملک کی ایمبیسی سے نامراد لوٹتے ہیں۔ ایک بار تو ایک دوست نے امریکہ کی خاتون اول کو بھی خط لکھ دیا۔ ویزہ آفیسر کے خلاف ویزہ نہ دینے کی پاداش میں !
آج ان میں سے کافی ملک سے باہر رہائش اختیار کر چکے تھے۔ اور وہ وہیں اپنے والدین کے ساتھ رہ رہا تھا ۔جو اسے خوش نصیب قرار دیتے کہ تمھارے راستے کھلے ہیں۔
اس کے راستے کھلے بھی منزل کی نشاندہی نہیں کر رہے تھے۔ اور جن کے بند تھے وہ اپنی منزل کی تلاش میں ایک ملک سے دوسرے ملک بھاگ رہے تھے۔ نہ جانے انسان اپنوں سے جدا ہو کر۔ غیروں کےکن احسانوں کو چکانے کے لئے رشتوں کو پاؤں کی بیڑی سمجھ کر توڑ دیتا ہے ۔اور باپ کی حیثیت سے اولاد کے ساتھ جس رشتے کو وہ نبھانے جارہاہوتا ہے۔ وہ خود ہی اس رشتے کی پامالی کاباعث ہو چکا ہوتا ہے۔ اور رشتوں کی مجبوری کو خودغرضی کا جواز بنا دیتے ہیں ۔
جو بویا ہے وہی کاٹنا ہے ۔پھر شکوہ کا تو کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ مگر ایسے انسان ملنے والی ہر کامیابی اپنے دم اور بل بوتے کے نام کر دیتے ہیں۔ اور ناکامی کا سہرا کبھی دوسرے تو کبھی قسمت پر ڈال دیتے ہیں۔
اس کی سوچ میں یہ تبدیلی ۱۷ سال کی عمر آئی جب -------------- جاری ہے


تحریر ! محمودالحق
 

بزم خیال

محفلین
بوڑھے کی لاٹھی (حصہ سوم)
باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی
باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔
حصہ سوم
اس کی سوچ میں یہ تبدیلی ۱۷ سال کی عمر آئی جب جمعہ کی نماز میں اس نے یہ حدیث سنی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ‏"‏ ‏.‏ قِيلَ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ‏"‏ مَنْ أَدْرَكَ والديه عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا ثم لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ ‏"‏ ‏.‏
( صحيح مسلم : 2551 ، البر و الصلة – الأدب المفرد : 646 )

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : اس کی ناک خاک آلود ہو ،پھر اس کی ناک خاک آلود ہو : آپ سے سوال کیا گیا یا رسول اللہﷺ وہ کون شخص ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کو پایا ، ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو پا لیا پھر بھی "ان کے ساتھ حسن سلوک کر کے" جنت میں داخل نہیں ہوا۔
شائد اس حدیث کے الفاظ سے وہ اپنے آپ کو کبھی بھی الگ نہیں کرپایا ۔اسے یہی خوف رہا کہیں اس کا ناک خاک آلود نہ ہو جائے۔
قران پاک کے اندر سورۃ بنی اسرائیل میں ان آیات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم جب اس نے پڑھا کہ
"اور تمھارے رب نے حکم فرمایا ہے کہ اس کےسوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کوپہنچ جائیں تو ان سے ہوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنااور ان سے تعظیم کی بات کہنااور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کرکہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کرجیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن میں پالا"
تو اب اس کے لئے اللہ تعالی کے حکم سے روگردانی کا سوال پیدا ہونے کا امکان نہیں تھا ۔مقصد اس کے سامنےتھا۔ بوڑھے والدین کو چھوڑنا نہیں۔
کئی سال اپنے ابا جی کو اٹھانے سے وہ خود بھی کمر کی شدید تکلیف کا شکار ہو گیا۔ اور درد دن بدن بڑھتا ہی رہتا۔ خود بھی اسی ڈاکٹر کا مریض بن گیا جو کبھی اس کے ابا جی کا ڈاکٹر تھا ۔عزیز رشتہ دار تو اب آپس میں باتیں کرتے کہ اتنی پر آسائش زندگی اور بے بہا دولت ہونے کے باوجود ملازم کیوں نہیں رکھ لیتا، ان کے لئے۔ خود اٹھاتا، بیٹھاتا، نہلاتا، دھلاتااور نجاست کی صفائی خود ہی کرتا ہے ۔بیمار ہو گیا ہے یہ دولت کس کام کی ہے۔
مگر وہ کیا بتاتا کسی کوکہ انہیں سنبھالنے کا حکم صرف اس کے لئے ہے۔ کیسے سمجھ پائیں گے اللہ تعالی سےاپنی معافی کا راستہ ماں باپ کی خدمت میں نظر آیا اسے۔
اور جس دولت کی وہ بات کرتے ہیں وہ تو آزمائش ہے۔ اللہ تعالی نے اسے اسی خدمت کے صلے میں اسے انعام کیاہے۔ ورنہ وہ اس وقت کو آج تک نہیں بھول پایا ۔جب اس کے ابا جی ولیمے کے دن ایک سوال پر ٹھہر گئے تھے "بیٹا مہمانوں کے لئے کھانا پورا ہو جائے گا"اور یہی سوال ہر دس پندرہ منٹ بعد دہراتے۔
بات ماہ دو ماہ کی ہوتی۔ تو الگ بھی تھی ۔اب تو اس کا پورا وجود اپنے ابا جی کی روح میں ڈھل چکا تھا۔ اسے وہ دن بھی ابھی یاد تھے جب اس بیماری کی اگلی سٹیج میں گھر سے سیر کرنے کے لئے اچانک خاموشی سے نکلتے اور بھول جاتے کہ وہ کون ہیں ،کیا نام ہے ان کا، کہاں رہتے ہیں۔ سڑکوں پر اپنے ہی گھر کے سامنے سے بار بار گزر جاتے اور اپنے گھر کی پہچان بھول جاتے۔ کئی بار تو ایسا ہو چکا تھا !
دنیا میں نیک انسانوں کی کمی نہیں۔ ایک بار تو ایک رکشہ والے کو انہوں نے روکا اور کہا میں اپنا گھر بھول گیا ہوں ۔اس نے ساتھ بٹھایا ۔تو ایک گھنٹہ ان کو لئے پھرتا رہا اور وہ خود ابا جی کو موٹر سائیکل پر گلیوں محلوں میں تلاش کر رہا تھا۔ ابا جی کی اپنے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے پہچان واپس آ گئی تو رکشے والا اتار کر چلا گیا ماں جی نےکچھ پیسے دینے چاہے۔ تو اس نے لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ چار بار ہو چکا تھا دو بار تو وہ خود دوتین گھنٹے گلیوں بازاروں میں گھوم گھوم کر ڈھونڈ لایا تھا اور دو بار جنہوں نے ابا جی کی مدد کی وہ انتہائی غریب لوگ تھے۔ وہ ہمیشہ ابا جی کو لانے والوں کو دعائیں دیتا ۔
دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں بدلتے جا رہے تھے ۔ اس کی شادی کوچار سال گزر چکے تھے۔ اسی دوران اس کے ہاں دوسرا بیٹا پیدا ہوا ۔گھر میں سبھی خوش تھے ۔
اب تو اس کے ابا جی کا پیشاب پاخانے پر کنٹرول مکمل ختم ہو چکا تھا۔ باتھ روم لے کر جاتے تو کچھ نہ کرتے واپسی پر چلتے جاتے اور جہاں جہاں سے گزرتے کپڑوں سے لے کر فرش تک نجاست بہہ جاتی ۔
بیٹا میں جان بوجھ کرنہیں کرتا ۔مجھے پتہ ہی نہیں چلتا۔اپنی صفائی وہ خود ہی دینے کی کوشش کرتے ۔
مجھے علم ہے ابا جی !
آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ میں صفائی کردیتا ہوں۔ وہ فوری ابا جی کو تسلی دیتا ۔
یہ تو اب معمول بن چکا تھا ۔کبھی بستر تو کبھی قالین صحن میں دھو کر رکھا جاتا تھا ۔ماں جی کے ساتھ ان کا وقت گزر جاتا تھا ۔
اس کی ماں کی پتے کی پتھری اپریشن نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف بہت بڑھ چکی تھی ۔کئی بار ہاسپٹل میں داخل رہ چکے تھے۔ ڈاکٹر وں کا کہنا تھا کہ اپریشن سے جان کا رسک ہے۔ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اسے نکلوا دیا جائے۔ ڈیفنس میں ایک ڈاکٹر کا اسے علم ہوا کہ وہ جدیدٹیکنالوجی لیپراسکوپی سرجری کے ذریعے اپریشن کرتا ہے۔ ڈاکٹر سے اس نےبات چیت کی۔ ڈاکٹر نے تسلی دی کہ خطرے والی بات نہیں ہے۔ ہائی بلڈ پریشر، ہیموگلوبن کی کمی اور ہارٹ ان لارج کے باجود اس میں رسک بہت کم ہے۔ کیونکہ اس وقت شہر میں وہ اکیلا ہی اس شعبہ میں تھا ۔سو ایک بڑی رقم کا اس نے تخمینہ بتایا۔ مگر یہاں اسے رقم سے زیادہ اپنی ماں جی کی صحت کی فکر تھی۔ کیونکہ جب سے اس نے اباجی کی زرعی زمین پر خودکاشت کا کام شروع کیا۔ دولت کی ریل پیل تھی ۔
تکلیف اتنی بڑھ چکی تھی۔ کہ اب لمبا انتظار ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے تیاری کے بعد انہیں بلایا۔ اپریشن کیا اور باہر آکر خوش خبری سنائی کہ اپریشن کامیاب رہا اور ساتھ ہی ایک ایسی خبر جو وہ سننے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔کہ پتھری اتنی بڑی ہو چکی تھی، جگر اس سے متاثر ہوا ہے اور اس نے جگر کے متاثرہ حصے کی بھی سرجری کر دی ہے اور اسے بائیوپسی کے لئے بھجوا دیا گیا ۔ دو دن بعد وہ ماں جی کو لے کر گھرچلے گئے چند روز بعد وہ بائیوپسی کی رپورٹ لے کر ڈاکٹرکے پاس گیا ۔تو وہ خبر اس پر بجلی بن کر گری ۔جگر کا کینسر تشخیص ہوا تھا ۔تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹرنے کہا ایسے مریض چھ ماہ یا آٹھ ماہ سے زیادہ زندگی نہیں پاتے۔
ڈاکٹر کے یہاں سے نکل کر وہ جناح باغ چلا گیا درختوں کی پناہ میں کھلی فضا میں۔
سگریٹ پہ سگریٹ سلگائے جارہا تھا اور صرف ایک خیال اس کے ذہن میں پیوست ہو کر رہ گیا کیا میری ماں اب مہینوں کی مہمان ہے ۔یہ دن دیکھنا باقی تھا ۔کہ اپنی نظروں کے سامنے ہر پل موت کی طرف جاتا دیکھوں اور دوسری طرف ابا جی کی بگڑتی ذہنی اور جسمانی حالت اور اب یہ روح فرسا خبر ۔
دیر تک اپنے آپ سے جنگ کرتا رہا اور خدا سے اپنے لئے ہمت اور حوصلہ کی دعا مانگتا رہا۔ اس نے پھر ایک نئی طاقت کو اپنے اندر محسوس کیا کہ جس میرے مالک نے مجھے ان مشکلات سے لڑنے کی طاقت پہلے دی۔ اب بھی وہی دے گا اور گھر کی طرف روانہ ہوا ۔
کیا رپورٹ آئی ہے ماں کے سامنےبڑی بہن نے سوال کیا !
بالکل ٹھیک ہے۔ وہ جھوٹ بول گیا اور اسی طرح مسکراتے ہوئے ماں جی سے ہنسی مذاق کرنے لگا ۔
زندگی میں پہلی بار وہ اداکاری کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا ۔مگر بدلا رویہ اس کی چغلی کر رہا تھا۔ نہ جانے اس کی بڑی بہن نے اس ہنسی کے پیچھےدرد کو کیسے دیکھ لیا اور چند روز کے بعد ہی ایک الگ کمرے میں اسی لے گئی اور پوچھنے لگی سچ بتا رپورٹ میں کیا ہے۔ تیرا چہرہ مجھے کچھ اور کہتا ہے۔ وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔دونوں بہن بھائی کافی دیر تک روتے رہے ۔انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ماں جی کو پتہ نہیں چلنا چاہیئے۔ کہیں ان کی ہمت نہ ٹوٹ جائے ۔
ابا جی تو بیماری کے ہاتھوں پہلے ہی ان باتوں سے لاتعلق ہو چکے تھے ۔
اس کی ماں کی دن بدن حالت بگڑتی جارہی تھی۔ اپریشن سے پہلے انہوں نے بیٹے سے کہا تھاکہ اس بار جب فصل آئے گی ۔گھر کے تمام اینٹوں کے بنے ہوئے فرش اکھاڑ کر سیمنٹ کا فرش لگوانا ہےاور سٹور بنانے ہیں۔ صفائی میں بہت مشکل ہوتی ہے اور ایک مجھے اپنے لئے نیا پلنگ بنوانا ہے ۔جس کے پیچھے دراز زیادہ ہوں ۔
جی ماں جی ضرور ! کہہ کر ماں سے وعدہ کیا تھا۔
ڈاکٹر نے زندگی جینے کا وقت مقرر کر رکھا تھا۔ مگراسے ماں سے کئے گئے وعدہ کا پاس تھا ۔فصل کی رقم ملتے ہی اس نے پلنگ کا آرڈر دے دیا ۔جیسا ماں چاہتی تھیں اور گھر کے تمام فرش اکھیڑ دئیے اور مستری سے ایک ماہ میں اسے مکمل کرنے کا کہا ۔ خاندان کے بعض افراد اس بات سے ناراض دکھائی دیئے کہ ایسی بیماری اور گھر میں مرمت کا کام ۔
مگر اسے صرف ایک بات کی خواہش تھی۔ ماں جی نے جو خواہش کی ہے وہ ان کی زندگی میں پوری ہو۔ جسم ان کا سوکھ کر کانٹا بنتا جا رہا تھا۔ کینسر اندر ہی اندر پوری طرح پھیل چکا تھا ۔جب فرش تیار ہو گئے ۔تو اپنی ماں کو اٹھوا کر صحن میں لایا اور اس نے کہا ! ماں جی ! جیسا آپ نے کہا ویسا ہو چکا ہے۔ انہوں نےغور سے صحن کو دیکھا اور بہت دھیمی آواز میں کہنے لگیں میں ٹھیک ہوتی تو اس سے بہتر کام کرواتی لیکن پھر بھی ٹھیک ہے ۔
کینسر نے چھ ماہ میں پورے وجود کو پہلےمکمل زیر کیا۔ پھر اذیت پر اتر آیا۔ درد کی شدت اب بڑھ رہی تھی۔ ڈاکٹر خوش مزاج نہیں تھا بس چیک کرتا اور نسخہ ہاتھ میں دے کر چلتا کر دیتا۔ ماں جی نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔تو نئے ڈاکٹر کا انتخاب کیا گیا۔جو اپنے شعبہ کا ماہر اور نہایت خوش اخلاق خوش گفتار بھی تھا۔ پل پل موت اپنا گھیرا تنگ کر رہی تھی اور ڈاکٹروں کی دی گئی معیاد پوری ہوئی اور آٹھویں ماہ وہ زندگی کی جنگ ہار گئیں۔
انہیں دفنانے کے بعد جب وہ واپس لوٹا۔ تو ابا جی کسی بھی طرح کے رد عمل سے بے نیاز اپنے کمرے میں سستا رہے تھے۔ اور وہ سوچ رہا تھا کہ اب اسے زندگی کی یہ جنگ اکیلے لڑنی ہے۔ ماں کا سہارا ختم ہو چکا تھا۔ ایک دعا دینے والے ہاتھ اب اس کے پیچھے نہیں تھے۔
انسانی دماغ کے خلیات کیسے کام کرتے ہیں۔ میڈیکل میں اسے مختلف نام دئیے گئے ہیں۔ مگر اباجی کے ساتھ جو ہو رہا تھا وہ اسے کیا نام دیتا ۔ کینسر ،دل کی بیماری اور فالج کی معلومات تو اسے کافی تھی مگر اس بیماری کا انجام کیا ہو گا۔ اس بات سے لا علم تھا ۔
روز بروز بڑھتی بیماری اس کے لئے نئی سوچ کے دروازے کھول دیتی۔ ہاتھوں کی انگلیاں مٹھی کی مستقل شکل اختیار کر چکی تھیں۔ جیسے انگلیاں انگوٹھوں کو آزادی نہ دینے کی ضد پر اوپر ایسے جم چکی تھیں ۔کہ ان کا ہلنا بھی ممکن نہ تھا۔ ٹانگیں بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہی تھیں۔
وہ سوچتا کہ کیسے ممکن ہے ۔انسان اچانک ہی کسی بات کو بھول جائے اور پھر یہ بھی بھول جائے کہ ہاتھوں سے گلاس یا چمچ کو کیسے پکڑا جاتا ہے ۔اور انتہا تو یہ کہ دست لگنے کی وجہ سے دو دن پلنگ پر رہنے سے یہ بھول جائے کہ اسے چلنا کیسے ہے۔ اس کے اباجی کے ساتھ یہ سب یکےبعد دیگرے ہو رہا تھا ماں جی کو فوت ہوئے تین سال ہوئے تھے ۔کہ دستوں نے ایسا کمزور کیا پھر انہیں اٹھنے کے لئے کہا تو پوچھنے لگے کیسے چلوں۔ ٹانگیں ان کے دماغ سے آزاد ہو چکی تھی۔ اب وہ کسی حکم کی محتاج نہیں تھیں ۔بلکہ اپنی مرضی کی مالک خود مختار اس جسم کو اپنے اوپر بوجھ محسوس کر رہی تھیں اور پھر اس کی تقلید میں بازو، ہاتھ بھی ساتھ شامل ہو گئے اور خود مختا ری کا باری باری اعلان کرنے لگے۔--------- جاری ہے

تحریر ! محمودالحق
 

بزم خیال

محفلین
بوڑھے کی لاٹھی (آخری حصہ)
باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی
باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا۔

آخری حصہ
نہ جانے اس قلب میں ایسی کیا خوبی ہے۔ کہ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اپنی ہی ریاست کا خود بادشاہ ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دماغ کے خلئے کام کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ اس کے حکم کا محتاج نہیں ہے۔صبح شام اپنی ایک ہی رفتار سے اپنے آقا روح کی موجودگی کا بگل بجاتا رہتا ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ہی کی طرح کے دوسروں کے سینوں میں بگل بجانے والے کس حال میں ہیں۔ اسے صرف اپنے حال ہی کا فکر ہے۔ جو دوسروں کے متعلق جاننے والا تھا ۔وہ خود اپنے آپ سے چھوٹ رہا تھا ۔کمانڈ اور اتھارٹی کا نرالا امتزاج ہے ۔ایک جسم تو دوسرا روح کی کمانڈ کرتا ہے ۔دونوں میں سے جس کی کمانڈ ختم ہو جائے۔ تو مکمل سکوت طاری ہو جاتا ۔لیکن یہاں ایک بات تو طے ہے۔قلب کو دماغ پر فوقیت ہے۔ کیونکہ اباجی کا ایک نظام تو بالکل مفلوج ہو چکا تھا ۔مگر قلب کی کمانڈ اور اتھارٹی مکمل موجود تھی ۔اگر قلب کا کنٹرول ختم ہو جائے تو دماغ اپنی کسی طاقت کے بل بوتے پر بھی نہیں بچ سکتا ۔
اسے اب اندازہ ہو چکا تھا کہ ذہن کے بل بوتے پر زندگی جینے والے دراصل کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ زندہ وہی رہتے ہیں جو اپنے قلب کی کمانڈ اور اتھارٹی کو سمجھ لیتے ہیں اوراب اس کے اندر یقین کامل پیدا ہو چکا تھا کہ یہ جسم و دماغ اسی مٹی سے جو بنے ہیں مٹی کی ہی ترغیب رکھتے ہیں ۔
قلب کی طاقت ہی دراصل روح کی طاقت ہے۔ جس کے سامنے دماغ اپنی پوری طاقت کے ساتھ بھی کمزور ہے ۔
اس لئے وہ اباجی کی بیماری کو دماغ سے نہیں قلب سے قبول کرچکا تھا اور اسی قوت کو بروئے کار لا کر اس منزل کا مسافر بننا چاہتا تھا ۔جہاں سفر کرنے والے بدنی مسافر ایک دو ہی پڑاؤ کے بعد لوٹ جاتے ہیں۔ اپنے ماں باپ کی بیماریوں سے اس کے علم میں صرف میڈیسن کے متعلق ہی اضافہ نہیں ہوا ۔بلکہ جسم اور روح کے باہمی تعلق کی گتھیاں بھی کافی سلجھنے لگیں۔ ہر بار وہ کیوں کے سوال پر اٹک جاتا۔ جب تک اسے وہ جواب ملتا ایک نیا کیوں، پھر اس کے سامنے آکر کھڑا ہو جاتا اور پھر کیوں کیوں کی تکرار نے اسے بہت سے سوالوں کے جوابات سے آگاہ کر دیا ۔جو شائد کتابوں سے حاصل کبھی بھی نہ ہو پاتے۔ اس کے ذہن میں یہ تاثر ابھر جاتا کہ کیسے ممکن ہے کہ اس مختصر زندگی میں قرآن پاک کو سمجھ کراللہ تعالی کو پڑھنے سے ہی پالیا جائے ۔کیونکہ خود اس کی اپنی جوانی کے ایام صرف اللہ تعالی کے ایک حکم پر مبنی آیات پر عمل کرنے سے ہی گزر گئی اور مکمل قرآن پاک سمجھنے اور عمل کرنے میں شائد اسے ایک ہزار برس سے بھی زیادہ کاعرصہ درکار ہو گا ۔لیکن پھر بھی وہ مطمعن نہیں تھا ۔تنہائی میں اباجی کے پاؤں پکڑتا اور معافی مانگتا ۔کہ جو کوتاہی اس سے رہ گئی ہو۔ وہ معاف ہو جائے کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح والدین کی خدمت کا حکم دیا ہے۔ شائد وہ اسے پورا نہیں کر پا رہا ہے۔
اپنے ارد گرد دیکھنے پر اس جیسی زندگی کا حامل کوئی بھی انسان نظر نہیں آ رہا تھا ۔بہکنے کے امکانات زیادہ تھے ۔یہی وجہ تھی کہ اس کی جوانی جدید دنیا سے الگ نہیں ہو پا رہی تھی۔ تین بیٹوں کا وہ باپ بن چکا تھا بڑا بیٹا اب سات برس کا ہو چکا تھا ۔اسے ایک بار ایسا کیلنڈر نظر آیا۔ جس پر سورۃ بنی اسرائیل کی وہی آیات تھیں جو والدین کی خدمت کے متعلق تھیں ۔اسے لا کر اس نے انہیں اباجی کے پلنگ کے اوپر لگا دیا ۔تاکہ وہ کہیں بہک نہ جائے۔ کیونکہ اب وہ اس بیماری کے متعلق جان چکا تھا ۔کہ شائد اسے ان حالات کا سامنا اگلے دس پندرہ سال تک بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور اللہ تعالی کی مدد کے بغیر یہ سب ناممکن تھا ۔
ابا جی جیسا انسان زندگی کی جنگ ایسے لڑے گا۔ کبھی اس نے سوچا نہ تھا ایک رخ ایسا بھی اس کے سامنے تھا۔ جو ابا جی کے بارے میں احترام کی ایسی بلند عمارت کھڑی کر گیا ۔کہ اسے سوچنے پر مجبور کر دیا جو لوگ زندگی میں نیکی کم کرتے ہیں۔ دنیا کی محبت میں مرتے ہیں۔ وہ شکوہ کیوں زیادہ کرتے ہیں ۔
ایک بار گھر کی بیل بجی تو ایک بوڑھا شخص پوچھنے لگا وکیل صاحب کا گھر یہی ہے۔
جی ہاں ! یہی ہے فرمائیے آنے والے سے اس نے پوچھا ۔
کیا وہ اب ہیں ؟
وہ چونک گیا کہ کیسا سوال ہے ! اس کے استفسار پر آنے والے نے کہا کہ میرا بیس سال پرانا کیس کی تاریخ نکلی ہے اور یہ میرے وکیل تھے اس وقت ان کی عمر ساٹھ سے اوپر تھی اس لئے مجھے خیال ہوا کہ شائد وہ اس دنیا میں نہ ہوں دیہاتی آدمی بہت سادہ ہوتے ہیں جو بات دل میں ہو کہہ دیتے ہیں۔ شائد اس لئے ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر زندہ رہنے کا مصنوعی ڈھنگ نہیں اپنا پاتے۔
آپ مجھے ایک دو روز دیں۔ آپ کی فائل ڈھونڈ دیتا ہوں ۔نیا وکیل کر لیں اور ان کے بارے صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ اس نے ہمدردی اظہار کیا اور چلا گیا ۔
اس نے اباجی کی تمام پرانی فائلوں میں تلاش کاکام شروع کیا۔ تو فائل مل گئی۔ مگر اس کے ساتھ ہی اسے ایسے لیٹر ملے جو ایوب خاں کے مارشل لاء کے ابتدائی دور کے تھے ۔ عوامی لیگ پارٹی کے سربراہ کے دستخطوں سے جاری پارٹی کے لیٹر پیڈ پر بعض لوگوں کوپارٹی فنڈ سے رقم کے اجرا کا کہا گیا تھا ۔جو اس زمانے کے مطابق ایک بڑی رقم تھی۔
جوں جوں وہ ابا جی کے بارے میں سوچتا اس کے دل میں ان کے بارے میں عزت و احترام کا مجسمہ اور بڑا ہو جاتا ۔
اس کی نظروں کے سامنے وہ منظر گھوم جاتا ۔جس کا ذکر ماں جی اکثر کیا کرتی یہ وہی سال ہے ۔جس کے متعلق ماں جی کہتی کہ سیاست کی وجہ سے وکالت متاثر ہوئی تمھارے اباجی کے معاشی حالات بہت برے ہو گئے۔ گھر کا ایک حصہ کرایہ پر دیا گیا ۔تاکہ کچن چلایا جا سکے ۔مگر یہ پارٹی کے سربراہ کے دستخطوں سے جاری لیٹر کوئی اور کہانی بیان کر رہے تھے۔ کہ ایک ایسا انسان جو پارٹی کا فنانس سیکرٹری ہو سینکڑوں اور ہزاروں روپے اس کے دستخط سے جاری ہوتے ہوں اس کےگھر کا کچن چلانے کے لئے گھر کا ایک حصہ60 روپے ماہانہ کرایہ پر دیا گیا ہو۔ آج امانت میں خیانت نہ کرنے والے لوگ اب کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ لوٹ مار، اقربا پروری، رشوت ،سفارش نے پورا معاشرہ ہی کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اور غلط کو غلط کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ جب دنوں میں امیر ہونے والے معاشرے میں تقویت پاتے ہیں۔ تو پھر بھیڑیں ہی بھیڑیوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔
اس کےابا جی نے کبھی بھی سفارش کی سیڑھی کا سہارا نہیں لیا ۔یہی وجہ تھی کہ بعض بیٹے باپ سے نالاں تھے کہ 1973 کے آئین کے تحت حلف اٹھانے والے صدر( جو ان کا بہت گہرا دوست تھا ۔سیاست کےابتدائی دور میں دونوں ایک ساتھ پارٹی میں تھے۔جب وہ ملک کا صدر بنا ۔اس کے ابا جی سیاست چھوڑ چکے تھے ۔مگر دوستی کا تعلق ابھی تک جاری تھا)سے کوئی ذاتی فائدہ نہ اٹھا سکے ۔ مگر انہوں نے مفاد پرستی کے لئے اصول کی زندگی قربان کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ۔وہ ہمیشہ یہی سمجھاتے کہ لوگ ترقی کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں ۔مگر عزت و احترام کھو دیتے ہیں۔ اپنے فائدے کے لئے کسی جائز کا حق مت غصب کرو۔
اپنی ساری زندگی کی کمائی سے صرف ایک پونجی بنائی ۹۹ سالہ لیز کا مکان !فیصلہ تو یہ کرنا ہے ۔کہ کیا وہ انسان ہونے کے ناطے اپنا حق ادا کرتا رہا ہے۔ اگر وہ سچ پہ تھا تو کیا اسے اپنی نیکیوں کا صلہ مل گیا۔ بڑھاپے میں ملی وہ اولاد ۔جس نے انہیں ہاتھوں پہ لیا ۔کیا وہ اس کی صاف ستھری زندگی گزارنے کا انعام تھا ۔
اس بیٹے میں باپ کی محبت بڑھ کر عشق بن چکی تھی۔ چھ سال تک وہ ایک ایسے باپ کے ساتھ رہا۔ جو صرف دیکھنے میں ہڈیوں کا ڈھانچہ اورگوشت پوست کا لوتھڑا تھا ۔جو صرف سانس لینے تک محدود تھی اور چند نوالے کھانے اور چند گھونٹ پانی کے لینے تک۔
اس کے ابا جی ۱۴ سال کی بیماری سے بھرپور زندگی بھی جی گئے اور آخر کار ۹۴ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اور وہ بالوں میں مکمل پھیلی چمکتی سفیدی کے ساتھ چالیس سال کی حد عبور کر گیا ۔ اور تیرہ سالہ اس کا بڑا بیٹا پہلی بار اپنے سخت مزاج باپ کو ایک بچے کی طرح روتا دیکھ رہا تھا ۔
جس رات وہ ابا جی کو دفنا کر واپس آیا ۔اگلی صبح کئی سالوں کے بعد اجنبی تھی ۔آج سورج کے طلوع کا منظر وہ نہ دیکھ پایا ۔کیونکہ دیر تک وہ سویا رہا ۔اس کے ابا جی نے آخری سانس اس کے سامنے پورے کئے اور جب روح جسم کو چھوڑ کر گئی۔ تو جسم کسی بھی تکلیف کے اس احساس سے خالی تھا ۔کیونکہ جسم تو بہت پہلے مر چکا تھا ۔صرف روح کو اپنا کام کرنا تھا اور اتنی خاموشی سے جدا ہوئی جیسے ہوا کا ایک لطیف جھونکا آکر گزر جاتا ہے۔
وہ اپنے ابا جی کا اتنا عادی ہو چکا تھا ۔کہ جدائی سے آنسو بار بار آنکھوں سے ٹپک جاتے ۔
اس کےجیسے ہی ابا جی دنیا سے گزرے۔ چند روز میں غرض و مفاد کی ایک نئی دنیا جو اس سے پہلےغفلت فرائض میں آنکھیں موندھے سو رہی تھی۔ اب اس کے سامنے اپنے پر کھول کر کھڑی ہو گئی۔ اور اپنے مقابلے میں اڑان کی نوید سنائی۔ مگر وہ تو ایک ایسے پرندے کی زندگی گزارنے کا عادی تھا ۔جس کے پر کٹے ہوں۔ وہ انہیں اڑتا دیکھتا مگر خود پرواز کی خواہش نہیں رکھتا تھا ۔مگر اس نئے چیلنج نےاس کے آنسو خشک کر دئیے ۔اور وہ اپنے آپ کو یہ سوچ کر آمادہ کرنے لگا ۔کہ اسے دنیا کا یہ روپ بھی برداشت کرنا ہو گا ۔
ایک سوال ابھر کر اس کے سامنے آ گیا ۔کہ میں جو شروع کرنے اب جا رہا ہوں اگر زندگی یہ ہے۔ تو جو گزاری ہے وہ کیا تھی۔ ایک خیال کےآتے ہی وہ زیر لب مسکرایا !
ایک نئی ہمت کو اپنے اندر پا کروہ اٹھ کھڑا ہوا اور خود کلامی کے انداز میں بولا !
وہ تو ایک بوڑھے کی لاٹھی تھی ۔

تحریر ! محمودالحق
 
Top