بند آنکھوں میں سارا تماشہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اقبال خسرو قادری

سین خے

محفلین
بند آنکھوں میں سارا تماشہ دیکھ رہا تھا

بند آنکھوں میں سارا تماشہ دیکھ رہا تھا
رستہ رستہ میرا رستہ دیکھ رہا تھا

کالی رات اور کالے تارے کالا چندا
دھرتی کا نا بینا لڑکا دیکھ رہا تھا

ٹوٹی پھوٹی قبریں دھندلے دھندلے کتبے
ہر کتبے میں اپنا چہرہ دیکھ رہا تھا

مٹی دینے والے ہاتھوں کو یہ خبر کیا
کس حسرت سے ذرہ ذرہ دیکھ رہا تھا

رگ رگ فرط دہشت سے سوکھی جاتی تھی
پرچھائیں سے خون ابلتا دیکھ رہا تھا

سوکھے پتوں پر جلتی شبنم کے قطرے
ٹھنڈا سورج سہما سہما دیکھ رہا تھا

چپکے سے ہیجان اٹھا کر پیاسا قطرہ
طغیانی پر آئی ندیا دیکھ رہا تھا

احساسات کی ٹوٹتی سرحد پر میں خسروؔ
خواب سے آگے بھی جو کچھ تھا دیکھ رہا تھا​

اقبال خسرو قادری
 
Top