بناکا گیت مالا - امین سیانی - ماضی کے ریڈیو کا مقبول ترین پروگرام

آپ میں سے کس نے یہ بناکا گیت مالا سناُ ہمارا تو پسندیدہ ترین پروگرام تھا ۔

  • عجب سحر تھا اس پروگرام میں۔۔۔

  • اپنے زمانے کا مقبول ترین پروگرام۔۔۔۔


نتائج کی نمائش رائے دہی کے بعد ہی ممکن ہے۔

سیما علی

لائبریرین

بناکا گیت مالا - امین سیانی - ماضی کے ریڈیو کا مقبول ترین پروگرام​

مضمون رشید انجم
Ameen Sayani Binaca Geet Mala
"بھائیو اور بہنو! آپ کی خدمت میں امین سایانی کا آداب"
3/دسمبر 1952 بروز بدھ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے شب ریڈیو سیلون سے سارے ہندوستان میں جو آواز سنی گئی وہ امین سایانی (پیدائش: 21/دسمبر 1932، بمبئی) کی ایسی انوکھی اور دل میں اتر جانے والی آواز تھی جسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ریڈیو سیلون سے جو شاندار، دلچسپ اور انتہائی پرلطف تفریحی موسیقی بدوش پروگرام کا آغاز ہوا وہ تھا:
بناکا گیت مالا
جس کی دوسری مثال ریڈیو کی نشریاتی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد میوزیکل پروگرام تھا، جس نے ایک عرصۂ دراز تک ریڈیو سننے والوں کو مسحور کیے رکھا۔ اس پروگرام کی نشریات کا لوگ بےچینی سے انتظار کرتے تھے اور جب وقت مقررہ پر یہ پروگرام نشر کیا جاتا تھا تو آغاز تا انجام کوئی بھی سننے والا ریڈیو سے خود کو الگ نہیں رکھ پاتا تھا۔ اس پروگرام کو جو چیز پرکشش بناتی تھی وہ تھی امین سایانی کی دلکش اور مسحورکن آواز۔ دراصل اس ہردلعزیز پروگرام کی کامیابی اور انتہائی کامیابی کا ضامن امین سایانی کا presentation تھا۔ امین سایانی نے لگاتار اکتالیس برسوں تک اس پروگرام کو کامیابی سے پیش کیا اور کہیں بھی غیردلچسپ مرحلہ اس پروگرام میں رکاوٹ نہ بن سکا۔

ابتداء سے تقریباً ڈیڑھ سال تک بناکا گیت مالا آدھے گھنٹے کا ہوا کرتا تھا جس میں اس پورے ہفتے کے مقبول گیتوں کو منتخب کیا جا کر نشر کیا جاتا تھا۔ اسے مزید مقبول بنانے کے لیے امین سایانی نے ایک اور موثر اقدام کیا۔ وہ یہ کہ سننے والوں سے تجرباتی طور پر ایک مقابلہ جاتی سوال بھی کیا جانے لگا۔ جس کا صحیح جواب ملنے پر سو روپے کا انعام دیا جاتا تھا۔ انعام پانے کی لالچ میں ملک کے کونے کونے سے ہر ہفتے ہزاروں خطوط پہنچنے لگے۔ ان خطوں کی تعداد نو ہزار سے بڑھ پچاس ہزار فی ہفتہ جا پہنچی تھی۔
سوال فلم سے ہی متعلق ہوتے تھے۔ مثلاً کس اداکار پر کسی فلم میں یہ گانا فلمایا گیا تھا؟ یا اس موسیقار کا اصلی نام کیا ہے؟ یا اس کی پہلی فلم کون سی تھی وغیرہ۔ اس طرح لوگوں کو ایک جانب تو صحیح معلومات حاصل ہو جاتی تھیں اور سننے والوں کو انعام بھی مل جایا کرتا تھا۔ بناکا گیت مالا کی روز افزوں مقبولیت کو دیکھتے ہوئے امین سایانی نے ایک تجویز پیش کی اور ریڈیو سیلون اتھارٹی نے اس تجویز کے مطابق 6/جنوری 1954 کو آدھے گھنٹے سے بڑھا کر بناکا گیت مالا کو ایک گھنٹے کا کر دیا۔ ہر بدھ کی رات کو آٹھ بجے سے نو بجے تک کا وقت اس پروگرام کی نشریات کے لیے وقف کر دیا گیا۔ اسی سال سے اس پروگرام کو گیتوں کی Hit parade کی شکل بھی دے دی گئی۔ اب سات گانوں میں اضافہ کیا جا کر 16 گانے نشر ہونے لگے۔ ان متخب گیتوں کو 16 سے ایک تک کا سلسلہ نمبر دیا گیا جنہیں امین سایانی نے "پائدان" کا عنوان دیا اور یہ عنوان بھی نہ صرف عام بلکہ خاص سنے والوں میں بھی زبان زد عام ہو گیا۔ ان 16 گیتوں کو ان کے ریکارڈ کی فروختگی اور عوام میں مقبولیت کے مطابق بجایا جاتا تھا۔ یعنی معمول کے مطابق کم مقبول گیت کو 16 ویں پائدان پر رکھا جاتا تھا اور اسی مقبولیت کی بنیاد پر باقی گیتوں کو نمبر کے حساب سے پائدان دی جایا کرتی تھی اور اس ہفتے جو سب سے مقبول گیت ہوتا تھا اسے پہلی پاندان پر بجایا جاتا تھا۔ یہ اس بات کی تصدیق ہوتی تھی کہ پہلی پائدان پر بجنے والا گیت ملک بھر میں فروختگی کے لحاظ سے سب سے مقبول گیت ہے۔

بناکا گیت مالا کو جب شروع کیا گیا تو اس میوزیکل پروگرام کے لیے بہت غور و فکر کے ساتھ علامتی دھن کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا یعنی جب پروگرام شروع ہو تو اس دن کو سب سے پہلے بجایا جائے۔ یہ اسی طرح تھا کہ جیسے کسی بادشاہ کی آمد پر باوقار الفاظ میں اعلان کیا جاتا تھا۔ یا آج کے دور میں مارچ پاسٹ کے وقت یا پرچم کشائی کے موقع پر علامتی دھن بجائی جاتی ہے۔ یہ علامتی دهن یعنی Signature Tune ، سن 1952 کی ایک فلم "آسمان" کے گیت "پوں پوں پوں پوں باجا بولے، ڈھولک بولے دھن دھن دهن" سے لی گئی تھی۔ پنچولی پروڈکشن بمبئی کی اس فلم کے ہدایت کار دل سکھ ایم پنچولی تھے۔ اور موسیقار تھے او پی نیر جن کی یہ پہلی فلم تھی۔ اس بول کے گیت کار تھے پریم دھون اور پلے بیک دیا تھا گیتا دت اور ساتھیوں نے۔ مرکزی کردار تھے ، ناصر خان ، شیاما اور ویرا۔ یہ علامتی دھن بھی مقبول ہوئی۔
یہ علامتی دھن جہاں ختم ہوتی تھی وہاں سے فوراً سیدھی دل میں اتر جانے والی دوستانہ آواز ابھرتی:
"آواز کی دنیا کے دوستو! آپ کی خدمت میں امین سایانی کا آداب"
یہ چند ابتدائی کلمات سننے کے لیے اس دور میں لوگ اس طرح خاموش گوش بر آواز ہو جایا کرتے تھے کہ جیسے وہ آواز مجسم ان کے روبرو ہے۔ لوگ اس آواز کو سن بھی رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں۔ یہ آواز تو تھی اس پروگرام کی روح لیکن علامتی دھن بھی اس کی بالکل الگ پہچان قائم کر گئی۔ تقریباً بیس سال تک یہی علامتی دھن بجائی جاتی رہی اور پھر1970ء میں اسے بدل دیا گیا۔

اس میوزیکل پروگرام نے ریڈیو سننے والوں میں جو مقبولیت اور شہرت حاصل کی، آج تو اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے ایشیا اور دیگر ممالک میں بھی اس پروگرام کے سننے والوں کی تعداد کا اندازہ لگا پانا مشکل تھا۔ بناکا گیت مالا اس قدر ہر دلعزیز تھا کہ لوگ بے صبری سے اس کے نشر ہونے کا انتظار کرتے تھے۔ اور ان کے لیے چھ دن گذارنا دوبھر ہو جاتا تھا۔ لاکھوں لوگ اس پروگرام کو بلا ناغہ سنتے تھے۔ زیادہ تر گھرانوں میں یہ بحث ہوا کرتی تھی ، شرائظ بدی جاتی تھیں کہ اس ہفتے کونسا گا نا پائدان کی چوٹی پر پہنچے گا؟ ان دنوں ہر بدھ کی رات بازاروں میں، پان کی دوکانوں پر بناکا گیت مالا کو سننے کے لیے بھیڑ اس وقت تک جمع رہتی تھی جب تک آخری پائدان کا گیت نہیں سنایا جا تا تھا۔ چونکہ یہ وہ دور تھا جب آٹھویں دہائی تک ٹیپ ریکارڈس اور نویں دہائی کے آخر تک ٹیلی ویژن کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ صرف ریڈیو ہی تفریح کا عام ذریعہ تھا۔
غور کیا جائے تو ساتویں دہائی تک ریڈیو بھی ہر گھر تک نہیں پہنچا تھا۔ اسی وجہ سے لوگ ایسی دوکانیں تلاش کرتے تھے اور دوکاندار سے دوستی گانٹھتے تھے، جس دوکان پر ریڈیو ہوتا تھا۔ ایک جانب تو دوکاندارخود بھی بناکا گیت مالا سنے کا شوقین ہوتا تھا ، دوسرے پان بیڑی سگریٹ کی بکری عام دنوں کی بنسبت اس دن زیادہ ہی ہو جایا کرتی تھی۔

بناکا گیت مالا نے ایک پیمانہ بھی مقرر کیا تھا اور اسے سننے والے نہ صرف عام لوگ بلکہ فلم نگری کے ماہرین بھی فلمی گانے کی مقبولیت کو اسی پیمانے سے پرکھتے تھے جو گیت ہٹ لسٹ میں شمولیت پاتا تھا، اس سے گلوکار موسیقار، نغمہ نگار کو شہرت تو ملتی ہی تھی، فلم ساز کے ساتھ جس ہیرو ہیروئن پر اس گانے کو فلمایا گیا ہو انہیں بھی عوام میں شہرت حاصل ہوتی تھی۔
بناکا گیت مالا کے امین سایانی نے گانوں کی مقبولیت کا جو پیمانہ وضع کیا تھا، سب سے تعجب خیز عمل یہ ہے کہ نہ صرف عام لوگ بلکہ ماہرین بھی اسی پیمانے کو صحیح اور آخری مانتے تھے، کبھی کسی نے معمولی اعتراض بھی نہیں کیا۔ اسی کے ساتھ اور یہی تسلیم شدہ اعتراف بناکا گیت مالا کی ہر دلعزیز مقبولیت کا سب سے بڑا راز تھا۔

ایک گھنٹے کے اس پروگرام میں دو یا تین بار ہی چند سیکنڈ کا پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا اور امین سایانی کا کمال تھا کہ وہ اس خشک اشتہاری موضوع کو بھی بہت دلچسپ بنا کر پیش کرتے تھے کہ سننے والا بے اختیار غیرمحسوس طور پر متاثر ہو جاتا تھا۔
امین سایانی بلاشبہ اس دور کے سب سے اہم ، سب سے بڑے اور سب سے زیاده ہر دلعزیز میزبان ثابت ہوئے تھے۔ یہ ایسی شخصیتوں میں شمار ہوئے جن میں علم و دانائی بھی پائی جاتی تھی اور فہم و عقل بھی، جو تجارتی اصولوں سے واقف رہ کر بھی اپنے وضع کردہ اصول سے منحرف نہیں ہوتے، جن کی ذات میں ایک تہذیبی نظام قائم رہتا ہے۔ جن کی بصیرت پر بیرونی ہوائیں دستک نہیں دیتیں۔ جن کے مزاج میں انکسار بھی ہوتا ہے اور نیاز مندی بھی، جو اپنے کردار کے خالق خود ہوتے ہیں مگر اپنے حقیقی خالق کے آگے سربسجود بھی رہتے ہیں۔
بناکا گیت مالا امین سایانی کی مرہون منت رہی۔ بناکا گیت مالا کو امین سایانی کی شخصیت سے الگ رکھ کر سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ چند پروگراموں میں، جن لوگوں نے امین سایانی کی غیر موجودگی میں پروگرام پیش کیے تھے، ان میں ان کی کمی کو صاف محسوس کرلیا گیا تھا۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ کامل 48 سال (1952ء سے 2001ء) ایک ہی شخص، ایک ہی پروگرام کو تنہا اپنے کاندھوں پر لے کر چلتا رہے اور اس کے اعصاب نہ تو مضمحل ہوں نہ اس پر تکان اترے اور نہ اس کے لہجے میں اکتاہٹ کا شائبہ جھلکے اور سننے والوں میں بھی کوئی کمی واقع نہ ہو بلکہ اضافہ ہی ہوتا رہے۔ یہ ایک حیرت ناک ہی نہیں تعجب خیز حقیقت ہے۔

امین سایانی آج بھی اپنے اسی مخصوص انداز میں ہمارے آپ کے دلوں میں گھر کے بیٹھے ہیں۔ سوچیے تو امین سیانی نے پروگرام کا آغاز اس طرح کیا:
"بھائیو اور بہنو آپ کی خدمت میں امین سایانی کا آداب"
اور جب اختتام ہو تو امین سایانی کے الوداعی الفاظ اس طرح ہوا کرتے تھے:
"آواز کی دنیا کے دوستو، یہ آواز امین سایانی کی ہے۔ اگلے ہفتے پھر ملیں گے، تب تک اپنے دوست امین سایانی کو اجازت دیجیے۔۔ نمشکار، شبھ راتری، شب بخیر"
یہ ایسے کلمات تھے جو نادیدہ شخص کو بھی دوست بنانے کے پرخلوص ہنر سے آراستہ رہے تھے۔

بناکا گیت مالا کے زیادہ تر پروگرام امین سایانی نے ہی پیش کیے لیکن اکثر ایسا بھی ہوا کہ امین سایانی ملک سے باہر چلے گئے یا کسی اہم مصروفیت کی وجہ سے پروگرام ان کی آواز سے محروم رہ گیا تو ان کی جگہ ریڈیو سیلون کے منوہر مہاجن یا شیوکمار سروج نے اپنی آوازوں میں پروگرام پیش کیا۔ پروگرام کو دلچسپ بنا کر پیش کرنے میں یہ دونوں اپنی جانب سے بھرپور کوشش کرتے تھے کہ امین سایانی کی کمی محسوس نہ ہو۔ ان دونوں کے علاوہ وجے کشور دوبے اور برج بھوشن کے بھی امین سایانی کی غیرموجودگی میں اپنی آوازوں کا استعمال کیا تھا۔ لیکن امین سایانی کی آواز کا سحر ہر ذہن میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ ان کی کمی سے پروگرام نشر تو ہو جایا کرتا مگر اس دلچسپی میں کمی بھی واقع ہو جایا کرتی تھی۔ 41 سال میں صرف 30 بار ایسے مواقع آئے جب امین سایانی نے بناکا گیت مالا کو اپنی آواز کی طلسماتی صدا سے محروم رکھا۔
آٹھویں دہائی تک ٹیپ ریکارڈس اور آڈیو کیسٹس کا چلن عام ہو چکا تھا۔ آڈیو کیسٹس کے توسط سے فلمی گیتوں کے ساتھ ساتھ غیر فلمی گیتوں نے بھی عوام میں اپنی جگہ بنا لی تھی اور ان کی مقبولیت بڑھتی جا رہی تھی، کچھ غیر فلمی گانے تو فلمی گانوں سے بھی زیادہ شہرت حاصل کرنے لگے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ 1981 سے ان غیرفلمی گیتوں کو بھی بناکا گیت مالا میں شامل کیا جانے لگا تھا جن کی مقبولیت فلمی گیتوں کی طرح ہو رہی تھی۔ غیرفلمی گیتوں کی شمولیت کا یہ سلسلہ 12/اگست 1981 کو نشر ہونے والے گیت مالا سے شروع ہوا۔ پہلی بار جس غیر فلمی گیت نے بناکا گیت مالا میں شمولیت حاصل کی وہ ودو کی بنائی گئی طرز پر نازیہ حسن کا گایا گیت "ڈسکو دیوانے آہا آہا" تھا اور اسی البم میں شامل نازیہ حسن کا دوسرا گیت "آؤ ناں ڈانس کریں" بناکا گیت مالا میں کئی ہفتوں تک پیش ہوا اور 1981 کے سالانہ جشن میں بھی ان دونوں گیتوں نے جگہ حاصل کی تھی۔
نازیہ حسن پاکستانی نیشنل تھیں اور یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی گلوکارہ کا پہلا غیرفلمی گیت بناکا گیت مالا میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ نازیہ حسن کے بعد جو دوسرا پاکستانی گلوکار اس میوزیکل گیت مالا میں اپنی گلوکارانہ خصوصیت، کیسٹس کی فروختگی اور عوام میں مقبولیت کی وجہ سے شامل ہوا وہ تھا: حسن جہانگیر۔
حسن جہانگیر کا گایا ہوا غیر فلمی گیت "ہوا ہوا اے ہوا خوشبو لٹا دے" تھا۔ یہ گیت 1989 کے بناکا گیت مالا میں بجایا گیا تھا اور 24 و 31/اگست 1986 کے گیت مالا میں اس گیت کو پہلی پائدان پر پہنچنے کا فخر بھی حاصل رہا تھا۔ اس کے علاوہ یہ پہلا غیرفلمی گیت تھا جو لگاتار پچیس ہفتوں تک پیش ہونے کے بعد "سرتاج گیت" کا خطاب پانے میں کامیاب رہا تھا۔ سالانہ پروگرام میں اس گیت کو نویں پائدان پر قدم جمانے کا موقع بھی ملا تھا۔

30/اکتوبر 1968 کے پروگرام میں پہلی بار "بناکا گیت مالا" کے نمبر شمار کا اعلان کیا گیا تھام جس میں بتایا گیا تھا کہ اس روز نشر کیا جانے والا پروگرام بناکا گیت مالا کا 800 واں ہفتہ وار پروگرام ہے۔ پھر اس کے بعد یہ سلسلہ قائم ہو گیا اور امین سایانی ہر ہفتے پروگرام میں اس کا نمبر شمار بتا دیا کرتے تھے۔ 25/اکتوبر 1972 کو ایک ہزار، 20/اکتوبر 1982 کو 1500 اور 14/ستمبر 1992 کو دو ہزار۔ 14/اپریل 1994 کو آخری ہفتہ وار پروگرام نشر کیا گیا جس کا نمبر 2081 تھا۔
تقریباً اڑتالیس برسوں تک بناکا گیت مالا اپنے مقررہ دن (بدھ) اور مقررہ وقت رات آٹھ بجے سے 9 بجے تک نشر ہوتا رہا۔ 27/اکتوبر 1988 سے اسے بدھ کے بجائے ہر جمعرات کی شب 9 بجے سے 10 بجے تک نشر کیا جانے لگا۔ دن اور وقت کی تبدیلی کی وجہ "دور درشن" بنا جس نے ٹھیک اسی دن یعنی بدھ کی شب فلمی گیتوں پر مشتمل اپنا پروگرام "چترہار" شروع کر دیا تھا جس کا وقت بھی آٹھ بجے رات ہی رکھا گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ٹیلی ویژن اپنی ٹیلی کاسٹ سروس کی وجہ سے گھر گھر جگہ بنا چکا تھا۔ اس لیے نئی نسل کو ریڈیو میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ نظروں کے سامنے چلتی پھرتی تھرکتی گاتی تصاویر تھیں جنہیں دیکھنے اور سننے کے لیے شائق کو دو ڈھائی گھنٹے سینما گھر میں گزارنا نہیں پڑتے تھے۔ وہی چترہار جو وودھ بھارتی کی ریڈیو سروس پر سنا جا سکتا تھا، اب ٹیلی ویژن سیٹ پر دیکھا جانے لگا اس لیے لامحالہ ٹیلی ویژن کا اسکرین زیادہ پرکشش اور پرلطف ثابت ہوا۔
بناکا یا بعد کے دور کا کولگیٹ سباکا گیت مالا نے بالآخر ٹیلی ویژن کے بڑھتے رجحان کو بحالت مجبوری قبول کر لیا اور اکتالیس سال کا ہوشربا کن اختتام ہو گیا۔
12/مارچ 1994 کو کولگیٹ سباکا گیت مالا کا آخری پروگرام امین سایانی نے ہی پیش کیا۔ اس آخری پروگرام میں جو آخری گیت پیش ہوا وہ گانا تھا:
جادو تیری نظر خوشبو تیرا بدن (فلم: ڈر)۔
28/مارچ اور 14/اپریل 1994 کو بھی جو پروگرام پیش ہوئے وہ دراصل الوداعی پروگرام تھے جن میں امین سایانی نے گذشتہ برسوں کے ہٹ گانوں کو یپش کیا تھا۔
اور پھر وہ آواز ۔۔۔۔ وہ طلسماتی و کرشماتی آواز ۔۔۔
جس نے مکمل 41 برسوں تک گیت اور سنگیت کا ایک عہد فتح کیا تھا، جس نے ہر شائق کو اپنی آواز کا دیوانہ بنائے رکھا تھا، جس کے اندازِ بیان اور طرزِ تخاطب سے ہر شخص مرعوب رہا، جس کی پوشیدہ شخصیت سے ہر دل نے ہر نظر نے محبت کی تھی، وہ آواز وقت کے بدلتے ماحول اور شور بھرے سنگیت کے اژدہام میں گم تو نہیں ہوئی، ہاں شوریدگی کی نذر ضرور ہو گئی۔

بناکا گیت مالا (1951 تا 1993 کے مقبول ترین بالی ووڈ نغمے) :: فہرست
سالنغمہفلم
1951آوارہ ہوں یا گردش میں ہوںآوارہ
1952تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارابیجو باؤرا
1953یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہو گیاانار کلی
1954جائیں تو جائیں کہاںٹیکسی ڈرائیور
1955میرا جوتا ہے جاپانی یہ پتلون انگلستانیشری 420
1956اے دل ہے مشکل جینا یہاںسی آئی ڈی
1957ذرا سامنے تو آؤ چھلیےجنم جنم کے پھیرے
1958ہے اپنا دل تو آوارہسولہواں سال
1959حال کیسا ہے جناب کاچلتی کا نام گاڑی
1960زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات برسات کی رات
1961تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے سسرال
1962احسان تیرا ہوگا مجھ پر جنگلی
1963جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا تاج محل
1964میرے من کی گنگا اور تیرے من کی جمنا کاسنگم
1965جس دل میں بسا تھا پیار تیراسہیلی
1966بہارو پھول برساؤسورج
1967ساون کا مہینہ پون کرے شور ملن
1968دل ول پیار ویار میں کیا جانوں رے شاگرد
1969کیسے رہوں چپ کہ میں نے انتقام
1970بندیا چمکے گی دو راستے
1971زندگی ایک سفر ہے سہاناانداز
1972دم مارو دم مٹ جائے غمہرے راما ہرے کرشنا
1973یاری ہے ایمان میرا یار میری زندگیزنجیر
1974میرا جیون کورا کاغذ کورا ہی رہ گیاکورا کاغذ
1975باقی جو بچا تو مہنگائی مار گئی روٹی کپڑا اور مکان
1976کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کبھی کبھی
1977کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو لیلیٰ مجنوں
1978انکھیوں کے جھروکے سے انکھیوں کے جھروکے سے
1979او کھائی کے پان بنارس والاڈان
1980ڈفلی والے ڈفلی بجاسرگم
1981میرے انگنے میں تمھارا کیا کام ہے لاوارث
1982انگریزی میں کہتے ہیں آئی لو یو خوددار
1983شاید میری شادی کا خیال سوتن
1984تو میرا جانو ہے ہیرو
1985سن صائبہ سن پیار کی دھنرام تیری گنگا میلی
1986یشودھا کا نند لالہسنجوگ
1987چٹھی آئی ہے آئی ہے وطن سے چٹھی آئی ہےنام
1988پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گاقیامت سے قیامت تک
1989ون ٹو کا فور فور ٹو کا ون رام لکھن
1990گوری ہیں کلائیاں آج کا ارجن
1991دیکھا ہے پہلی بار ساجن کی آنکھوں میں پیار ساجن
1992میں نے پیار تم ہی سے کیا ہے پھول اور کانٹے
1993چولی کے پیچھے کیا ہےکھلنائیک
 

زوجہ اظہر

محفلین
اسی(80) کی دہائی میں اسکول آتےجاتے پبلک ویگن والے بناکا گیت مالا کیسٹ لگایا کرتے اور ہم تیس چالیس منٹ نہ صرف اس تفریح سے محظوظ ہوتے بلکہ گھر میں ان صاحب کے لہجے کی نقل بھی اتارتے
خوب یاد دلایا ۔۔۔ سلامت رہیں
سیما علی
 
Top