بنانے والا از قلم راحیل فاروق

جاننے والے جانتے ہیں کہ علم کی جستجو میں صرف جواب ہی غلط نہیں ہوا کرتے۔ سوال بھی غلط ہو سکتے ہیں۔ جواب کی غلطی یہ ہے کہ وہ حقیقتِ حال کے موافق نہ ہو۔ سوال کی غلطی بھی یہی ہے۔ یعنی یہ کہ وہ بھی حقیقتِ حال کے موافق نہ ہو۔ عقلِ انسانی کا مسئلہ یہ ہے کہ جواب کی لغزش تو آسانی سےبھانپ لیتی ہے مگر سوال کا نقص اکثر اس سے نہیں پکڑا جاتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم ہر سوال کو حق سمجھتے ہیں۔

وجودِ باری تعالیً کی ایک دلیل ہے جس فلسفے کی اصطلاح میں حجتِ تکوینی کہا جاتا ہے۔ یہ خدا کے وجود کی عام فہم اور مشہور ترین دلیل ہے جو شاید ہم میں سے ہر ایک شخص نے اپنی زندگی میں بارہا سن رکھی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ہر شے کا کوئی بنانے والا ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی شے بغیر بنانے والے کے بن سکے۔ لہٰذا لازم ہے کہ اس کائنات کا بھی کوئی بنانے والا ہو۔ وہ خدا ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ جتنی سادہ اور سیدھی یہ دلیل ہے اتنا ہی سیدھا سادہ اس پر اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور کیا جاتا ہے۔ اور کیا جانا چاہیے۔

سمجھ گئے نا؟

ہر چیز کا خالق ہوتا ہے۔

اچھا۔

کائنات کا خالق خدا ہے۔

اچھا۔

خدا کا خالق کون ہے؟

ہائیں؟

میں اپنی زندگی میں کسی ایسے شخص سے نہیں ملا جو معمولی سی بھی سمجھ اور جستجو رکھتا ہو، مجھ پر اعتماد کرتا ہو، خدا کے بارے میں اس قسم کی گفتگو ہم میں ہوئی ہو اور وہ اس سوال میں الجھا ہوا نظر نہ آیا ہو۔ یہی وہ نازک مقام ہے جہاں عزم والے خدا کا انکار کر دیتے ہیں اور کم حوصلہ بےچارے اینڈی بینڈی دلیلیں تراش کر اپنی اور دوسروں کی عقل اور ایمان کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگتے ہیں۔

وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے

میں خدا کا منکر نہیں مگر آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ اس سوال کے بعد بھی خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ ایک انتہائی بےایمان اور ڈھیٹ انسان ہیں۔ کسی کی سوچ اور زبان پکڑی تو نہیں جا سکتی مگر یہ طے ہے کہ آپ کی گھڑی ہوئی تمام دلیلیں اور خدا کے حق میں بولے ہوئے تمام مقدس کلمات غلط ہیں۔ بالکل غلط!

کچھ بھی حقیقتِ حال کے موافق نہیں۔ ہو ہی نہیں سکتا!

یعنی یہ سوال ایسا ہے کہ اس کے جواب میں آپ کوئی ٹھیک بات کر ہی نہیں سکتے۔ جو بھی فرمائیں گے وہ واہیات ہی ہو گا۔ اگر آپ کی عقل اسے بڑی شاندار دلیل بھی سمجھے تو حقیقت محض یہی ہے کہ آپ کی عقل موٹی ہے۔ اتنی موٹی کہ چارہ دیکھ کر یہ بھی نہیں سمجھ سکتی کہ یہ اس کے کھانے کے لیے نہیں بلکہ اسے کھانے کے لیے لگایا گیا ہے۔

میری کافی عمر خوش قسمتی یا بدقسمتی سے گندی صحبت میں گزری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں خیر کو اتنا نہیں پہچانتا جتنا شر کے رگ پٹھے سے واقف ہوں۔ ایک خاص طبقے کے لوگوں میں ایک دلچسپ سوال مجھے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی شکل میں سننے کو ملا کرتا تھا۔اچھی بات یہ ہے کہ وہ سوال تہذیب کے کپڑے پہن کر اچھے لوگوں میں بھی گھومتا پھرتا رہتا ہے۔ آپ نے بھی کبھی نہ کبھی سنا ہو گا۔ مگر شاید مذاق سمجھا ہو۔

عقل بڑی کہ بھینس؟

ہاہاہاہاہا۔

عقل۔

کیسے؟

آئیں بائیں شائیں۔

شاید بھینس۔

کیسے؟

آئیں بائیں شائیں۔

مذاق ہی تو ہے۔

مگر اس مذاق میں ایک بڑا بلیغ اشارہ ہے۔ ہم ہمیشہ جواب کو احمقانہ کیوں سمجھنا چاہتے ہیں؟ سوال ضروری تو نہیں کہ ہمیشہ ٹھیک ہو۔ احمقانہ بھی تو ہو سکتا ہے؟ اور اگر سوال احمقانہ ہوا تو پھر ممکن ہی نہیں کہ جواب عاقلانہ ہو۔ غلط سوال کے جواب میں آپ جتنا زور مار لیں کوئی نہ کوئی حماقت ہی فرمائیں گے۔ ایک نہیں تو دوسری۔ دوسری نہیں تو تیسری۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہی حماقت دراصل وہ لوگ کرتے ہیں جن سے پوچھا جاتا ہے کہ خدا کا خالق کون ہے۔ اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ سوال کا نقص البتہ دور کیا جا سکتا ہے۔ جواب کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔

اس سوال کا نقص یہ ہے کہ اس میں یونہی فرض کر لیا گیا ہے کہ ہر چیز کا کوئی بنانے والا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بالکل بھی نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں میں نے چائے بنائی۔ میں اس کا بنانے والا یا بنانے والی ہوں۔ یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ آپ نے کچھ بھی نہیں بنایا۔ آپ نے دودھ ادھر سے پکڑا، چینی ادھر سے لی، پتی ادھر سے اٹھائی، خیال کہیں اور سے آیا تھا، سیکھا کہیں اور سے تھا، آپ نے کیا بنایا؟

بنانا یہ ہوتا ہے؟

انسان اس دنیا میں جو بھی کچھ اپنے تئیں “تخلیق” کرتا ہے وہ محض دائیں بائیں، ادھر ادھر کرنے سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ یہ غلط فہمی ہے اور بڑی شدید غلط فہمی ہے کہ کائنات کا کوئی بھی ذی نفس کچھ بنا سکتا ہے۔ ہم محض ان چیزوں کو جو پہلے سے وجود رکھتی ہیں ایک نئی ترتیب دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ خواہ وہ خیالات ہوں خواہ مادی دنیا کے چھوٹے بڑے مظاہر۔ سب کچھ پہلے سے موجود ہے۔ بنا بنایا۔ ایک ذرہ بھی عدم سے وجود میں لانے کی اہلیت نہیں ہم میں۔ خالق نہیں ہیں ہم۔ سمجھے؟

میں اس نکتے پر زیادہ زور نہیں دینا چاہتا کیونکہ حق پرست طبیعتوں کے لیے اس سے آگے بڑھنا کچھ دشوار نہیں۔ مگر محض سہولت کے لیے ایک بات اور کہتا ہوں تاکہ خالق یا بنانے والے کی تعریف اور حیثیت اور ہمارے مغالطے کھل کر سامنے آ جائیں۔

ممکن ہے کسی کے ذہن میں خیال آئے کہ چلو ٹھیک ہے۔ باہر کی دنیا میں تو واقعی ہم کچھ نہیں بنا سکتے اور ہر چیز ہی کا کوئی نہ کوئی خام مال لے کر آگے بڑھنے پر مجبور ہیں۔ مگر اپنے خیالات یا احساسات وغیرہ کے تو ہم مختار ہیں۔ اپنے اندر کی دنیا میں تو ہمیں خالق ہیں۔ جس خیال کو چاہیں جنم دیں جس کا چاہیں گلا گھونٹ ڈالیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ وہم جیسا باطل اور فاسد ہے معمولی سے تدبر سے معلوم ہو سکتا ہے۔ یعنی ہمارا دماغ جس میں یہ زریں خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ تو ہمیں بنا بنایا مل گیا۔ ہم نے تخلیق نہیں فرمایا۔ اب یہ دعویٰ کرتے کیا اچھے لگیں گے کہ خیالات کے خالق ہم ہیں؟ پھر دلچسپ بات یہ ہے ہمارے خیالات و احساسات کی اونچ نیچ اور رنگ ڈھنگ میں ماحول اور تربیت کا جو دخل ہے اس کے بعض اہلِ علم اتنی شدت سے قائل ہیں کہ ہر خیال کو کسی نہ کسی معاشرتی حادثہ کا بلاواسطہ یا بالواسطہ نتیجہ خیال کرتے ہیں۔ گویا خیالات و احساسات تک کا مواد آپ نے کہیں سے حاصل کیا ہے۔ تخلیق کہاں رہی آپ کی؟

کائنات کے باسی تخلیق نہیں کر سکتے۔ تبدیل کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ اور اسی پر زعم ہے کہ یہ بنانے والے ہیں۔ اور اسی زعم پر وہ فاسد دلیل کھڑی ہے جس کے تحت ہر شے کا کوئی بنانے والا ہے۔

نہیں، میاں۔

ہر شے کا ایک ہی بنانے والا ہے۔

وجود کے ہر رنگ کا ایک اور صرف ایک ہی خالق ہے۔

ہم تم تو محض تخلیق کے تالاب میں چھوڑ دیے گئے ہیں کہ گنتی کی چار گھڑیاں چھینٹے اڑا لیں۔ چھینٹوں کو اپنی تخلیق سمجھ کر خوش ہوتے ہیں تو ہو لیں، بھئی۔ مگر یہ ہے حماقت۔

عقل اگر پیدل نہیں تو جلد اس نتیجے پر پہنچے گی کہ ہر شے کا “کوئی” بنانے والا نہیں بلکہ “ایک ہی بنانے والا” ہونا چاہیے۔ شاید آپ پھر بھی یہ سوال کریں کہ اس ایک کو بنانے والا کون ہے۔ مگر میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ ذرا چھری تلے دم لیں، ایک گلاس ٹھنڈا پانی پئیں اور سوچیں۔ بنانے والے کئی نہیں ہیں۔ ایک ہی ہے اور ایک ہی ہونا چاہیے۔

پھر شاید کبھی آپ سوچیں کہ بنانے کو بنانے والا بھی تو وہی ہے۔

ہِک ہے ہِک ہے ہِک ہے
ہِک دی دَم دَم سِک ہے

ربط
 
Top