عدم بنائے دشمنی معلوم، فیضِ تنگدستی ہے - عدم

کاشفی

محفلین
غزل
(عدم)
بنائے دشمنی معلوم، فیضِ تنگدستی ہے
زبردستوں کے غصّے کی گھٹا، ہم پر برستی ہے
بساطِ قطرہء خون ِشہیداں پوچھنے والے
ہے لرزاں موت جس سے وہ آتش زارِ ہستی ہے
محبّت کی شرر انگیزیاں جینے کا ساماں ہیں
ہے دل زندہ وہی جو آتشیں جذبوں کی بستی ہے
بہارِ حسن سے لبریز ہے ہر گوشہء عالم
حریمِ محفلِ آفاقِ جنّت زارِ ہستی ہے
تبسّم آفریں ہیں شوخیاں اُن کی نگاہوں میں
مری بزمِ تمنّا میں عدم جنّت برستی ہے
 
Top