بلوچستان کا مستقبل۔۔۔۔۔۔۔ ظہیر اختر بیدری

بلوچستان میں عرصے بعد ایک مثبت تبدیلی آئی ہے کہ وہاں کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، اس فیصلے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کے سیاستدان پاکستان میں رہتے ہوئے بلوچستان کے مسائل حل کرنے پر متفق ہیں یہ بات ہم بلوچستان کی آزادی کی تحریکوں اور بی ایل او جیسی تنظیموں کی سرگرمیوں کے پس منظر میں کہہ رہے ہیں۔
بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کے پیچھے بلاشبہ پاکستان کی ان طاقتوں کا رویہ ہے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کو علیحدگی کی طرف جانے پر مجبور کیا لیکن جغرافیائی طور پر بھی مشرقی پاکستان کا پاکستان کے ساتھ رہنا غیرمنطقی ہی تھا جس کا احساس غالباً تحریک پاکستان کے دور میں نہیں کیا گیا اور ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کے رنگین خواب میں کھوئے رہے۔
کسی سیاسی مدبر کو یہ احساس نہیں رہا کہ دنیا میں کبھی مذہب کے نام پر دو ملکوں پر مشتمل کوئی حکومت نہیں قائم ہوسکی اگر کہیں ہوئی بھی تو وہ طاقت کے زور پر قائم ہوئی اور انتشار کا شکار ہوکر ختم ہوگئی، دنیا میں قومی ریاستوں کا کلچر ہی مستحکم رہا اور اب بھی ہے۔ حتیٰ کہ 1917 کے انقلاب کے بعد جو دنیا کے غریبو ایک ہوجاؤ کی بنیاد پر برپا ہوا تھا سوشلسٹ ملکوں کی کوئی ایک ریاست وجود میں نہیں آئی۔
لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں بندھے اور ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے بے شمار ملک ایک ریاست نہ بن سکے بلکہ ہر قوم کی اپنی الگ ریاست ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر مغربی اور مشرقی پاکستان کا ساتھ رہنا جن کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا حتیٰ کہ کوئی زمینی راستہ بھی نہ تھا کیسے ممکن ہوسکتا تھا۔
بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت مشرقی پاکستان سے مختلف ہے اور خود بلوچستان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد سیاسی بنیادوں پر کرے اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں حصہ لینے سے یہ امکان نظر آرہا ہے کہ بلوچ سیاستدان اپنے حقوق کی لڑائی سیاسی محاذ پر لڑنا چاہتے ہیں۔
بلوچستان کے سیاستدانوں کے اس فیصلے کے بعد ہمارا خیال ہے کہ اب اس صوبے میں آزادی کی مسلح تحریکوں کو ختم ہونا چاہیے اور جو وسائل جو طاقت آزادی کی تحریکوں میں ضایع ہورہی ہے اب اسے سیاسی محاذ پر لگانا چاہیے لیکن کیا یہ ممکن ہے؟
یہ سوال ذہن میں اس لیے پیدا ہورہا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے سیاستدان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم پہاڑوں پر جانے والوں کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ نیچے آکر انتخابات میں حصہ لیں‘‘ اسی طرح طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آکر انتخابات میں حصہ لینے والے سردار عطاء اللہ مینگل کے فرزند اختر مینگل نے فرمایا ہے کہ ’’ہمیں حق خودارادیت ملنا چاہیے‘‘ان بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کی سیاسی قیادت ابھی تک یکسوئی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے۔
اس حوالے سے یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ کیا بلوچستان کے عوام کا مفاد اور مستقبل پاکستان کے ساتھ رہنے سے وابستہ ہے یا علیحدہ رہنے سے؟ اس بات کا فیصلہ پوری دیانت اور پوری سیاسی بصیرت کے ساتھ ہونا چاہیے اور ہم عموماً ایسا مظاہرہ ماضی میں تحریک پاکستان کے دوران بھی نہیں کر پائے۔ کیا ہم اس قسم کے سیاسی بصیرت سے عاری فیصلے کا اعادہ کرنے جارہے ہیں؟ جس کا انجام خود ہم بلوچستان کی صورت حال سے کرسکتے ہیں ۔
بلاشبہ اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ 1971 سے پہلے اور اس کے بعد پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے ساتھ نو آبادیوں جیساسلوک کیا جاتا رہا لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اب تک وڈیرہ شاہی سیاست، وڈیرہ شاہی طرز حکمرانی، وڈیرہ شاہی جمہوریت سے باہر نہ نکل سکا۔ اگر یہاں کی سیاست عوام کے ہاتھوں میں ہوتی تو بلوچستان سمیت کسی چھوٹے صوبے کو وہ شکایتیں نہ ہوتیں جو 65 سال سے چھوٹے صوبوں کا مقدر بنی ہوئی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان شکایتوں کو وڈیرہ شاہی سیاست، وڈیرہ شاہی جمہوریت، وڈیرہ شاہی طرز حکمرانی اور موروثی سیاست کو ختم کرکے دور کیا جاسکتا ہے یا علیحدگی کی تحریکیں ہی ان شکایتوں کا واحد ازالہ ہیں؟
2013 کے ممکنہ انتخابات میں حصہ لینے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان کے سیاستدان پاکستان کے فریم ورک میں رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں اگر یہ اندازہ درست ہے تو پھر بلوچ سیاستدانوں کی اجتماعی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے ناراض ساتھیوں کو پہاڑوں سے نیچے لاکر اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اس پہاڑ کو ریزہ ریزہ کرنے پر اپنی پوری طاقت لگائیں گے جو بلوچستان سمیت پاکستان کے چھوٹے صوبوں کو اب تک اپنی نو آبادیاں بنائے رکھا تھا اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر پاکستان کی عوامی سیاست کرنے والی جماعتیں اکٹھی ہوکر اس سمت میں جدوجہد کریں تو وہ یقینی طور پر پاکستان سے نوآبادیاتی نظام ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور پاکستان میں عوامی حکمرانی کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔
آج کی دنیا تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آرہی ہے، میڈیائی انقلاب نے دنیا کو ایک گاؤں میں بدل کر رکھ دیا ہے، زبان، رنگ، نسل، ذات پات، ملک و ملت کی تقسیم اب بوجھ بنتی جارہی ہے خود انسانوں کے قومی مفادات اب اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہزاروں سالوں پر محیط علیحدگی اور دوری کے کلچر سے نکل کر قربت اور یکجتہی کی طرف آئیں اور یہ قربت، یہ یکجہتی، یہ انسانی رشتے بتدریج دنیا کے انسانوں کو مجبور کردیں گے کہ وہ ایک ایسی بین الاقوامی کنفیڈریشن کا حصہ بن جائیں جو قوموں کی حدود سے نکل کر انسانیت کی بنیاد پر انسانوں کو جینا سکھائے اور انھیں یہ احساس دلائے کہ ایسی عالمی کنفیڈریشن میں انسانوں کے مسائل کس آسانی سے حل ہوسکتے ہیں اور قدرتی وسائل اور افرادی طاقت انسانوں کو غربت سے نکال کر کس طرح خوشحالی کی طرف لے جاسکتی ہے۔
اس تناظر میں اگر بلوچستان کے اہل سیاست بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی طرف آئیں تو پھر انھیں احساس ہوگا کہ ان کا مستقبل علیحدگی میں نہیں بلکہ ساتھ رہنے اور ساتھ مل کر ان طاقتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہے جو 65 سال سے بلوچستان ہی نہیں بلکہ اٹھارہ کروڑ عوام کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔
اس وقت بلوچستان کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں پہلا مسئلہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے علیحدگی کا راستہ چھوڑ کر اس طاقتور مافیا کو ختم کرنے کے لیے اٹھارہ کروڑ عوام کو متحرک کرنا ہے جو سارے مسائل کی جڑ بنی ہوئی ہے۔ بلوچستان کا دوسرا مسئلہ اس سرداری نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے جو انگریزوں نے اپنے مفادات کے لیے بلوچستان میں پروان چڑھایا تھا۔ یہ نظام آج کی دنیا کا متروک کردہ نظام ہے جو آج کے حالات سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا۔
بلوچستان کا تیسرا اور اہم ترین مسئلہ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی ہے یہ آسیب بلوچستان میں اس تیزی سے پھیل رہا ہے کہ صوبے کا کوئی علاقہ اس سے محفوظ نہیں، یہاں معصوم انسانوں کو بسوں سے اتار کر گولیوں سے بھونا جارہا ہے، قدم قدم پر ٹارگٹ کلنگ کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں عملدار روڈ اور کیرانی روڈ پر سیکڑوں جنازے سجے ہوئے ہیں، مسجدیں، امام بارگاہیں قتل گاہوں میں بدل گئی ہیں کوئی شہری گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر اور بدقسمتی یہ ہے کہ یہ دہشت گردی ’’تحریک آزادی‘‘ سے اس طرح جڑگئی ہے کہ انھیں علیحدہ کرکے دیکھنا مشکل ہورہا ہے۔لاپتا لوگوں اور مسخ شدہ لاشوں کا شور برپا ہے۔
بلوچستان کے عوام سمیت پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو آج جن مسائل کا سامنا ہے ان کا تعلق زبان اور قومیت سے نہیں بلکہ اس سیٹ اپ سے، اس نظام سے ہے جو 65 سال سے عوام کے سروں پر مسلط ہے اس اشرافیائی مافیا کے خلاف تیزی سے رائے عامہ بیدار ہورہی ہے میڈیا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے لیکن یہ عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ میڈیا اور سیاست دان دونوں ہی اس حوالے سے دہرا کردا رادا کر رہے ہیں ایک طرف وہ استحصالی طاقتوں کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کر رہے ہیں تو دوسری طرف انھیں بالواسطہ مضبوط بھی کر رہے ہیں۔
میڈیا ان کے سیاہ کارناموں سے عوام کو آگاہ کرکے انھیں عوام میں معتوب بھی کر رہا ہے اور انھیں حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں بانٹ کر عوام میں یہ تاثر پیدا کررہا ہے کہ یہ دو الگ الگ طاقتیں ہیں اور ہمارے عوامی سیاست کرنے والے اپنے حقوق کا رونا رونے والے ایک طرف علیحدگی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف ان طاقتوں کے در پر حاضری دینے ان کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے میں لگی ہوئی ہیں جو ان کے حقوق کے غاصب ہیں اور اٹھارہ کروڑ عوام کے دشمن ہیں اہل سیاست خاص طور پر صوبائی حقوق کے مارے ہوئے سیاستدانوں کا فرض ہے کہ وہ اس دوغلی سیاست سے نکل کر ایسی سیاسی طاقتوں کو متحد اور متحرک کریں جو 65 سال سے عوام کے سروں پر مسلط اشرافیائی Status Quo کو توڑنے پر یقین رکھتی ہیں۔ اسی اتحاد، اسی تحریک سے ہی بلوچستان کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا دیرینہ اور سنگین مسئلہ بھی اسی Status Quo کے خاتمے سے منسلک ہے اور بلوچستان کا مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے۔

بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
 
Top