بلا عنوان

ام اویس

محفلین
حالت خواب تھی یا بیداری ۔ اس نے دیکھا ایک پہاڑ کی چوٹی پر آسمانی بجلی لپکی اور قربانی کو قبولیت کی سند دیتی راکھ میں بدل گئی ۔ پیٹ میں کھانے کی طلب آگ بن کر دہک رہی تھی اسے بجھانے باہر نکلی ۔ بادل کی گرج نے دل دہلا دیا ۔ آسمان پر چاروں طرف بے موسمی بجلی یوں کوند رہی تھی جیسے کوئی جنگجو سالار اپنے آتشیں کوڑے سے سفید مشکی گھوڑوں کے سرکش جھنڈ کو میدان جنگ کی طرف ہانکتا ہو ۔ اس کا وجدان کہتا تھا کہ آج یہ بجلی اس کا نشیمن جلا کر راکھ کر دے گی ۔
اچانک اس کی نگاہ پورچ میں پلاسٹک کی کرسی پرساکت بیٹھی ملازمہ پر پڑی جس کا خشک ، بے رنگ ، سیاہ چہرہ زمانہ کی تلخی سے تڑخ چکا تھا اور ہونٹوں پر پپڑیاں جمی تھیں ۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھی ۔ رضیہ تم گھر نہیں گئی ؟
جی ! وہ بیگم صاحبہ سے کہا تھا “ کچھ پیسے دے دیں” ۔ راشن لینا ہے ۔ میری بیٹی کے ہاں لڑکا ہوا ہے اس سے بھی ملنے جانا ہے ۔
پچھلے سال ہی تو تم بتا رہی تھیں “اس کے ہاں بیٹی ہوئی ہے” ۔ “جی وہ بچی تو گزری سردیوں میں نمونیے سے فوت ہو گئی ۔ اس کی ساس اسے کوٹھی کا کام چھوڑنے نہیں دیتی ۔ شوہر بھی نشئی پیسے کے لیے مارتا پیٹتا ہے” ۔ رضیہ نے مشینی انداز میں جواب دیا
اتنے میں اس کی بہو قیمتی برینڈڈ لباس میں نفیس جیولری پہنے ہائی ہیل ٹک ٹک کرتی مین گیٹ سے اندر آتی دکھائی دی ۔ “رضیہ تم ابھی تک یہیں ہو ؟ “
“جی بی بی جی” عاجزی سے منمناتے ہوئے بولی “کچھ پیسے چاہیے “
“ایک تو تم ہر وقت پیسے مانگتی رہتی ہو۔ کبھی بچے بیمار، کبھی راشن ختم ، کبھی بجلی کا بل دینا ہے تو کبھی مکان کا کرایہ ، شوہر تو ہے نہیں ، اس کے سدا کے روگی بہن بھائیوں کی دوا کا خرچہ”
بادل زور سے چنگھاڑا
یہ لو بہو نے لال ہوتے چہرے کے ساتھ پرس سے پانچ سو کا نوٹ نکالا اس کے ساتھ ہی کچھ دیر پہلے ادا کیا گیا افطار پارٹی کا بل نیچے آ گرا ۔
اس کی نگاہ نے پچپن کے ساتھ لکھے تین صفر غور سے دیکھے ۔ آسمان پر آگ کے کوڑے کی طرح بجلی لپکی ۔ کیا یہ رضیہ کو بھاگ جانے کا اشارہ دے رہی ہے ۔ ایک خیال نے بچھو کی طرح ذہن میں ڈنگ مارا ۔ اس نے خوف سے جھر جھری لی۔
رضیہ مایوسی سے پیسے پکڑے ، تھکے تھکے قدموں سے باہر کی طرف چل پڑی اس کی نظریں اُسی پر جمی تھیں ۔ اچانک آسمان سے بجلی نے لپک کر اسے اپنی آغوش میں بھر لیا ۔ دہشت کے عالم میں دیکھا تو وہاں مٹھی بھر راکھ کے سوا کچھ نہ تھا ۔
 
Top