بغضِ عمران میں سب اصول بے نقاب

جاسم محمد

محفلین
بغضِ عمران میں سب اصول بے نقاب
مہر بخاری
سیاست بظاہر دستور کے تابع ہے مگر سیاست کے' قاعدے‘ کا اصول رہا ہے کہ کوئی اصول نہ ہو۔ کسی ضابطے کی تابعداری سے مبرا بے مہار مفاد پرستی سیاست کا بنیادی اصول ہے‘ اور ستر سالوں سے رائج ہے۔ سیاست کی یہ صورت ایک پودے سے اب تناور درخت بن چکی ہے۔ یہ وہ شجر ممنوعہ ہے جس کا پھل ایوان اور بیرکوں میں برابر چکھا گیا۔
موجودہ تناظر میں سیاست کی روح پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کو دستور کی تابع داری سے بڑے آرام سے بے دخل کیا گیا ہے۔ حکومت نے بذریعہ آرڈیننس سی پیک اتھارٹی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کمیٹی کی خبر اپوزیشن کو میڈیا سے موصول ہوئی۔ اصولی طور پر اس کمیٹی کی تشکیل سے لے کر باقی سارے لوازمات تک کا معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث آنا چاہیے تھا۔ مناسب ہوتا کہ کمیٹی کے ممبران پر اپوزیشن کی رائے لی جاتی، کچھ اعتراضات ہوتے اور کسی نکتے پر اتفاق ہوتا، اور معاملہ کمیٹی کی تشکیل کی صورت طے پا جاتا، مگر سیاست کے اصولوں میں اصول ہی مائنس ہوتے ہیں۔ صدارتی آرڈیننس سے کمیٹی کا اعلان ہوا، اور ایک نجی محفل میں یہ خبر ہم تک پہنچی کہ اس کمیٹی کی سربراہی کے لیے تین نام زیر غور ہیں‘ ان میں دو سویلین ہیں اور ایک ریٹائرڈ فوجی۔ چلیے ملک کے وسیع تر مفاد میں اینٹی نارکوٹکس‘ فیڈرل پبلک سروس‘ واپڈا‘ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز‘ وزارت داخلہ، وزارت دفاع‘ اقتصادی کمیٹی اور سی پیک اتھارٹی پر سیاسی اور غیر سیاسی نمائندگی ضروری ہو گی مگر پارلیمنٹ کا اعتماد بھی لے لیجئے۔ کس مائی کے لعل میں اتنی جرأت ہے کہ ایوان کا کوئی فرد اختلافی نوٹ بھی تحریر کرے۔
اس موجودہ تناظر کی دوسری بڑی مثال مولانا صاحب ہیں‘ جن سے دونوں بے بس جماعتیں ایک ہی سوال پوچھ رہی ہیں ''تیری مٹھی میں بند‘ ہے کیا؟ بتا دو ناں‘‘ لیکن وہ کسی کو بتانے کے لیے تیار نہیں‘ مگر منتخب حکومت کو گرانے کی ان کی منصوبہ بندی مکمل ہے۔ زرداری صاحب اور مولانا صاحب کی سیاست میں معمولی فرق کے ساتھ ایک سیاسی صفت مشترک ہے۔ زرداری صاحب بیک وقت کئی گیندوں یعنی سیاسی اور غیر سیاسی سبھی مہروں کو ہوا میں اچھالنے کا فن رکھتے ہیں... اور مولانا صاحب بیک وقت سیاسی مفاد اور اپنے عزائم کو ہوا میں معلق رکھ کر... سیاسی جماعتوں کو الجھائے رکھنے کا بخوبی فن رکھتے ہیں۔ اس فنکاری میں اصول بدل بھی سکتے ہیں۔ مولانا صاحب وزیر اعظم بننے کا شوق رکھتے ہیں۔ یہ بات وہ امریکی سفارت کار این پیٹرسن کے کان میں کر بھی چکے ہیں۔ اس وقت مولانا صاحب کو یہ یقین تھا کہ خدا کی ذات، امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ وہ ذریعہ ہے‘ جو انہیں وزیر اعظم بنا سکتا ہے۔ مگر ان کی خواہش کو تینوں ذرائع نے اس وقت سنجیدہ نہیں لیا تھا؛ تاہم مولانا صاحب اپنے بل بوتے پر سیاست کے افق پر ہمیشہ جگمگاتے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مولانا صاحب پارلیمنٹ اور عملی سیاست سے مکمل باہر ہیں۔ مولانا صاحب اپنی آبائی سیٹ سے بھی دستبردار ہوئے‘ اور کشمیر کمیٹی سے بھی۔ مولانا صاحب کا فرمان ہے کہ مدرسے کا جو بالغ طالب علم ووٹ دے سکتا ہے وہ دھرنے کا حصہ کیوں نہیں بن سکتا؟۔ مولانا صاحب کے گزشتہ جلسوں کا بیشتر ایجنڈا مذہب‘ ممتاز قادری کی پھانسی پر لاکھوں کا اجتماع، ناموس رسالت، خادم رضوی کا دھرنا، کشمیر اور امریکہ دشمنی رہا ہے۔ یہ مولانا صاحب کی فنکاری ہے کہ وہ حکومت کا اور حکومت مخالف دھرنوں کا ساتھ بھی دیتے رہے، اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہوتے ہوئے‘ کشمیر کے آزاد نہ ہونے کی ذمہ داری حکومتوں پر بھی ڈالتے رہے۔ مشرف کے ساتھ بھی رہے اور جمہوریت کے داعی بھی رہے... مگر آج دھرنا ہے کس کے خلاف؟
یہاں سے سیاست کی تعریف کا معاملہ شروع ہوتا ہے۔ کیا ملک کے وزیر اعظم مذہب کے دائرے سے نکلنے جیسے سنگین جرم کے مرتکب ہوئے ہیں؟ ملک سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں؟ چلیے مان لیا کہ خان صاحب ملک چلانے کے اہل نہیں‘ مگر صرف ایک سال کی مدت میں حکومت گرانے کی سیاسی بے اصولی کے مرتکب تو غیر سیاسی پنڈت بھی نہیں ہوئے۔ انہوں نے بھی ٹھوس جواز بنانے کے لیے کم سے کم مدت دو سال اور زیادہ سے زیادہ اڑھائی سال رکھی۔ بی بی کی اٹھاسی تا نوے‘ میاں صاحب کی نوے تا ترانوے‘ بی بی کی ترانوے تا چھیانوے اور میاں صاحب ستانوے سے ننانوے تک‘ دونوں دو دو دفعہ دو تا اڑھائی سال رہے۔ خیر سوال تھا مولانا صاحب کا دھرنا ہے کس کے خلاف؟ مولانا صاحب اپنے کارڈز دکھانے کے لیے راضی نہیں ہیں اور اپوزیشن آنکھوں پر پٹی باندھ کر مولانا صاحب کے ساتھ بند گلی میں جانے کے لیے راضی نہیں۔ مگر شہباز شریف ایک نجی محفل میں اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ مولانا صاحب کی دال کالی ہے۔ مولانا صاحب کا اعتماد اور ڈٹے رہنے کا عزم بتا رہا ہے کہ جو پتے شو نہیں ہوئے وہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ نمبر ون اور نمبر ٹو ساتھ نہ بھی ہوں تو سینئر پوزیشنز کا باقی عملہ بے چین ضرور ہے۔
تاریخ سے سبق سیکھنے کا دعویٰ کرنے والے ایک اور زیرک سیاستدان‘ جنہوں نے ہر بار روایتی سیاست کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں اور بڑے شوق سے سیاست کی اول الذکر جہت کا حصہ بنے ہیں‘ میاں محمد نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی تفریق قبول ہے‘ شہباز شریف کی قربانی بھی قبول ہے‘ مگر اصول یہ ہی ہے کہ ''ناں کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘۔ میاں صاحب کا پہلے موقف تھا کہ میمو گیٹ سکینڈل میں کالا کوٹ پہن کر پاک فوج کا مقدمہ لڑا جائے‘ دو ہزار چودہ میں ایک غیر جمہوری دھرنے سے نجات کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے ثالثی کی درخواست کی جائے‘ کراچی آپریشن میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی ماورائے عدالت گرفتاریوں پر خاموش رہا جائے‘ مشرف صاحب کو میڈیکل سرٹیفکیٹ دے کر باہر بھیجا جائے اور دھرنوں کی سیاست سے گریز کیا جائے کہ دھرنے معاشی عدم استحکام کا سبب بنتے ہیں۔ اب سیاست کہتی ہے کہ اٹھارہ وزرائے اعظم کو بے دخل کیے جانے کا رونا رونے والے میاں صاحب انیسویں وزیر اعظم کو گھر بھیجنے والے دھرنے کا حصہ بنیں۔ پاکستان سے محبت کے لبادے میں ڈی چوک کی سیاست کریں۔ ووٹ کو عزت دو کی گردان کرنے والے میاں صاحب اس دھرنے کو عزت دیں۔ مذہب کارڈ کی ممانعت کرنے والے میاں صاحب اس کھیل کا حصہ بنیں۔ ان تمام عوامل کے لیے کیپٹن صفدر ترجمان ہیں جو کچھ عرصہ قبل ممتاز قادری کے حق میں نعرے لگا کر ہلکان ہو رہے تھے۔ پھر خادم رضوی کے حق میں بھی آگے بڑھے۔ آج کل 'جئے مولانا‘ کا ورد کر رہے ہیں۔
اب زرداری صاحب کی بھی خواہش تو ہے کہ مولانا صاحب کے دھرنے کا حصہ بنا جائے مگر کس قیمت پر... ہر دو صورتوں میں پیپلز پارٹی کے لیے سیاسی فائدہ تو کہیں نہیں ہے... الٹا اینٹ سے اینٹ بجانے والے زرداری صاحب ایک بار پھر رسوا ہو جائیں گے۔ بلاول بھٹو فی الحال دو کشتیوں کے مسافر ہیں۔ ایک بیانیہ وہ ہے جس پر جماعت کی بنیاد ہے: اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ‘ بی بی کا بیانیہ‘ جس میں دھرنوں کی گنجائش ہے نہ مذہبی کارڈ کی... اور دوسری طرف زرداری صاحب کی سیاست ہے جہاں سب ممکن ہے۔
باقی رہا معاملہ حکومت کا تو قاعدے اور ضابطے یہاں بھی انحطاط کا شکار ہیں۔ ڈی چوک کو سیاسی پناہ گاہ بنانے والوں نے دھرنوں کی بنیاد بڑے جوش سے ڈالی ہے‘ مگر ان سے نمٹنے کے گر نہیں سیکھے۔ وزرا کی دوڑ تو تا حال جگتوں اور طعنوں تک ہے۔ ہاں البتہ ماضی میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والوں نے نہ تو مولانا کی گرفتاری کو، نہ وزیر اعظم کے منجھے ہوئے مشیر نے جنوری میں اپوزیشن کے استعفوں کو خارج الامکان قرار دیا ہے۔ یہ پاکستان ہے پیارے۔ یہاں سیاست کسی اصول کے تابع نہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی مجموعی طور پر انتہا درجے کے بے شرم واقع ہوئے ہیں۔ ٹیکس چوری کرتے ہیں، لائن مین کے ساتھ ملکر بجلی چوری کرتے ہیں، اگر کاروباری ہیں تو گاہک کو لوٹتے ہیں، اگر ملازم ہیں تو کام کم اور گپوں میں وقت زیادہ ضائع کرتے ہیں، ڈاکٹر ہڑتالوں پر اور مریض قبرستانوں میں جا پہنچتے ہیں، میڈیا کا کام سوائے مایوسی پھیلانے اور بدعنوان سیاستدانوں کی پشت پناہی کے اور کچھ نہیں۔ اور اس تمام بے شرمی اور بے حسی کے باوجود حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
خدا کی قسم یہ وہ قوم ہے کہ جہاں چارلس ڈیگال اور ابراہام لنکن جیسے عظیم رہنما بھی ناکام ہو جاتے۔ اس قوم کو سیدھا کرنے کا واحد طریقہ ڈنڈا ہے، حجاج بن یوسف سا حکمران ہی ان پر حکمرانی کر سکتا ہے۔ عمران محض اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ اسے اس ملک اور اس کے بے حس عوام لو ان کے حاکوں پر چھوڑ کر بیرون ملک چلے جانا چاہئے۔ یہ عوام جانیں، اور ان کے شریف، زرداری، فضل، اور اچکزئی جیسے لیڈر جانیں۔
(منقول)
 
Top