بغاوت

آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے
میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے​

آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف
میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے​

جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میں
نشئہ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں​

جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون
ظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون​

تشنگی نفس کے جذبوں کی بجھانے کے لئے
نوع انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون​

ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے
ان سے ہر سانس میں تحریک بغاوت ہے مجھے​

تم ہنسو گے کہ یہ کمزور سی آواز ہے کیا
جھنجھنایا ہوا، تھرّایا ہوا ساز ہے کیا​

جن اسیروں کے لیے وقف ہیں سونے کے قفس
ان میں موجود ابھی خواہشِ پرواز ہے کیا​

آہ! تم فطرتِ انسان کے ہمراز نہیں
میری آواز، یہ تنہا میری آواز نہیں​

ان گنت روحوں کی فریاد ہے شامل اس میں
سسکیاں بن کے دھڑکتے ہیں کئی دل اس میں​

تہ نشیں موج یہ طوفان بنے گی اک دن
نہ ملے گا کسی تحریک کو ساحل اس میں​

اس کی یلغار مری ذات پہ موقوف نہیں
اسکی گردش میرے دن رات پہ موقوف نہیں​

ہنس تو سکتے ہو، گرفتار تو کر سکتے ہو
خوار و رسوا سرِ بازار تو کر سکتے ہو​

اپنی قہار خدائی کی نمائش کے لئے
مجھے نذرِ رسن و دار تو کر سکتے ہو​

تم ہی تم قادرِ مطلق ہو، خدا کچھ بھی نہیں؟
جسمِ انساں میں دماغوں کے سوا کچھ بھی نہیں​

آہ یہ سچ ہے کہ ہتھیار کے بل بوتے پر
آدمی نادر و چنگیز تو بن سکتا ہے​

ظاہری قوت و سطوت کی فراوانی سے
لینن و ہٹلر و انگریز تو بن سکتا ہے​

سخت دشوار ہے انسان کا مکمّل ہونا
حق و انصاف کی بنیاد پہ افضل ہونا​


( عامرؔ عثمانی)​

 
Top