بطور تبرک زیارت کو آیا کرو ۔ ۔

بطور تبرک زیارت کو آیا کرو ۔ ۔
اب سراسر ہتک ہو رہی ہے مرے ان چراغوں کی جو بھیگی راتوں میں روشن رہے
یہ مرا خون کتنا جلا اور جلتا رہا
اور مرے جسم پر کتنی آنکھوں نے تعویذ ٹانکے
مری کج مزاجی پہ حسرت کی چادر چڑھی
ہاں میں زندہ مزار اب بنا ہوں
مجھے پھول وخوشبو کی حاجت نہیں
بس بطور تبرک زیارت کو آیا کرو
یہ تشفی تمہاری نگاہوں کی مرہون منّت رہی ہے
مرے دل میں جتنی دمالیں پڑی ہیں
انہیں بس تمہاری ہی آواز سے خاص نسبت رہی ہے
کسی بھی وطن میں کسی بھی شجر سے
کسی سبز پتےّ کسی ننّھے بچے سے تم پوچھ لینا
خدا کی قسم تم کو چاہا گیا ہے
اسامہ جمشید
25 جولائی 2019
اسلام آباد​
 
آخری تدوین:
Top