بشرطہا و شروطہا (مہدی نقوی حجاز)

بشرطہا و شروطہا

دراڑ سے دیوار لٹکتے لٹکتے گر گئی، کب تک آخر وہیں ٹنگی رہتی، دراڑ کی بھی کوئی حدِ استقامت ہے۔ سامنے والے گھر کی شب رخ لڑکی نے، سڑک پر سرخ پھول برسانا چھوڑ دیے ہیں اور اب وہ اپنے پھول پڑوسن کی نوجوان "عورت" کے ساتھ مل بانٹ کر چھپانے میں مصروف ہو گئی ہے۔ دیوار گر گئی ہے اور اب برآمدے سے سامنے مکان کی ادھ کھلی کھڑکی کا منظر صاف اور واضح ہے۔ دھوپ عمارتوں سے پگھل کر سڑکوں تک آن پہنچی ہے، اور سورج پیپ رس رہا ہے۔ پیلی روشنی باہر کو ٹنگی ہوئی کالی شلوار کو چھوتی ہوئی کمرے میں تانک جھانک کر رہی ہے۔ وہاں ایک سفید اندھیرا سیاہ روشنی پر سوار ہے۔ مومبتی دن دیہاڑے تخت کے ساتھ والے ڈریسنگ پر پانی پانی ہو رہی ہے۔ دن اگتا جا رہا ہے۔
دراڑ کمزور ہو گئی تھی۔ اس کی ٹانگیں لرزاں اور ستون عدم سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔
شگافیں تلملا رہی ہیں۔ رنگ پردوں کا فق ہو چلا ہے، اور میں بےقرار ہوں۔ میں تمہارے سرخ پھولوں کی عزت کرتا ہوں، لیکن مجھے تمہاری سفید پوشی کا علم نہیں تھا۔ میری دیوار میں کاش چونا بھر دیتی۔
اب تو شام ڈھلے عورت اپنی نوجوانی کھو چکی ہے۔ وہ ایک چڑچڑی سٹھیائی ہوئی بڈھی کا روپ دھار کر زینے اتر رہی ہے۔ سرخ پھولوں کا کوئی نشان نہیں۔ ہاں، اس کے دامن سے کالے گلاب کی خوشبو آ رہی ہے۔ وہ پیلی پڑ گئی ہے۔
میں نے اپنا دامن بچا لیا ہے، اور شب رخ لڑکی سورج ڈھونڈنے چھت پر جا کھڑی ہوئی ہے۔ وہاں اس کا پالا چاند سے پڑ گیا ہے اور اب اس کو میری دیوار کی ضرورت نہیں رہی، اور نہ ہی میری گری ہوئی نظروں کی جو گرے پھول چنا کرتی تھیں۔

مہدی نقوی حجازؔ
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
اس استعاراتی تحریر کو سمجھنے کے لیئے کسی "پیر فرتوت " سا مشاہدہ چاہیئے ۔
کوئی دس بار پڑھی تو بس یہی جانا کہ یہ تو گلرنگ وجود زن کی شام کا فسانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
واہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
اس استعاراتی تحریر کو سمجھنے کے لیئے کسی "پیر فرتوت " سا مشاہدہ چاہیئے ۔
کوئی دس بار پڑھی تو بس یہی جانا کہ یہ تو گلرنگ وجود زن کی شام کا فسانہ ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بہت دعائیں
جی جناب بالکل ایسا ہے۔ عورتوں کے فکری و جنسی زوال پر لکھا گیا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کو تھوڑا سا طول دے دینا تھا، زیادہ اچھی شکل نکل آتی۔ ابھی پڑھنے سے زیادہ وقت سمجھنے پر لگتا ہے :)
 
Top