بس ایک ہی فیصلہ کر دیجئے۔

پرائم منسٹر ہاؤس میں یونیورسٹی بنانے کے اعلان پر باقاعدہ پیش رفت شروع ہو گئی ہے ۔ یہ فیصلہ کہاں تک ٹھیک ہے یہ ایک علیحدہ بحث ہے مگر اتنا کہتا چلوں کہ یہ بھی ایک سیاسی چال ہے اور دکھاوے کے فیصلے ہیں ورنہ اگر واقعی انقلابی سوچ اور فیصلہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں تو ، خود اور پوری پارلیمنٹ بمعہ سیکریٹیریٹ ملازمین ، کیوں اس دو تین کلو میٹر پر محیط پورے علاقے سے کہیں دور دراز کسی تھل کے علاقے چولستان میں تشریف لے جا کر عملی سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیمپ نہیں لگا لیتے ۔ اس کے کئی فائدے ہونگے :

سادگی کی مدینہ جیسی فلاحی ریاست کی طرز والی شاندار مثال قائم ہوگی اور اگر مزید خرچے کم کرنے ہیں تو جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارلیمنٹیرئینز ، وزراء ، اور سیکرٹریز بمعہ سٹاف لیپ ٹاپس لے دیں اور اپنے اپنے گھروں میں رہ کر بھی اجلاس اور دوسرے دفتری کام آن لائن سسٹم کے زریعے کئے جاسکتے ہیں۔ ایک تو دھینگا مشتی اور براہ راست طعنہ زنی سے بھی جان چھوٹے گی اور اخراجات میں بھی بے انتہاء کمی آجائے گی۔

اس دو تین کلو میٹر کے علاقے کو کروڑوں اربوں روپے فی کس فٹ کے حساب سے فروخت کرکے بیرونی قرضے اتار دئیے جائیں اور جو پیسا بچے اس سے کسی بے کار زمین کا انتخاب کرکے وہاں ایک اور دارالخلافہ قائم کیا جائے اور وہاں بھی تمام سہولتیں بہم پہنچائی جائیں اسے آباد کرکے ، یونیورسٹیاں ، ہسپتال ، تعمیر کرنے کے بعد کسی نئے علاقے کا رخ کیا جائے۔ اس طرح ہر پانچ سال کے بعد کسی نئے علاقے کا انتخاب کرلیا جائے۔

اس سے نہ صرف نئے نئے علاقے آباد ہونگے بلکہ لوگوں کو بے بہا آمدنی بڑھانے کے مواقع بھی ملیں گے اور قومی زخائیر میں بھی اضافہ ہوگا۔

پسماندہ سے پسماندہ علاقوں کا انتخاب کیا جائے تاکہ انکا احساس محرومی بھی ختم ہوجائے۔

ایک نیا ترقی کا ماڈل دنیا میں متعارف ہوگا

سب سے بڑھ کر یہ کہ آہستہ آہستہ نیے پاکستان کا خواب بھی پورا ہوتا جائے گا ۔

رہی بات یونیورسٹیاں بنانے کی تو بنائیے جتنی ہو سکتا ہے بنائیے ۔ مگر اتنی مہنگی ترین جگہ پر ہی کیوں اس پراپرٹی کو بیچ کر اس پیسے سے ہر صوبے میں ایک بڑی یونیورسٹی بنوا دیجئے ، ورچوئل یونیورسٹیاں بنوا دیجئے ۔

تعلیم کو بانٹئے ، تعلیم دینے والوں کو بھی عزت ملنی چاہیے ۔ جس قومی خادم نے پڑھنے کا شوق رکھنے والوں کو لیپ ٹاپ دے کر ان کا علم کے خزانوں سے رابطہ جوڑ دیا اس کو بھی عزت ملنی چاہیے۔

تعلیم سے بھی زیادہ کردار سازی کی ضرورت ہے کیونکہ اس ملک کے سب سے بڑے مسئلے بد عنوانی کے مرتکب تو نام نہاد پڑھے لکھے ہی ہیں ۔ ان پڑھے لکھوں کو بھی پڑھانے کی ضرورت ہے جو سب سے مشکل کام ہے ، ان کے لئے بھی کوئی انتظام کروا دیجئے۔

کچھ سیاستدانوں کی تربیت و تعلیم کے لئے بھی پراجیکٹ شروع کروا دیجئے ۔ جو حکومت میں آنے سے پہلے کچھ کہتے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد کچھ اور ، یکسر بدل جاتے ہیں ، بھول جاتے ہیں وعدے ، دعوے اور انقلابی ارادے۔ منافقت کی ایک اعلیٰ مثال بن جاتے ہیں۔

اگر واقعی انقلابی قدم اٹھانا ہے تو پھر نکال لائیے باہر سب حکمرانوں ، جرنیلوں ، ججوں کو ان محل نما دفتروں اور رہائشوں سے وقف کر دیجئے یہ سب محل اور جائدادیں اور ان کو بتا دیں کہ سب انسان برابر ہیں ، سب کی جان اور مال کی قدروقیمت برابر ہے ، سب نے کام کرنا ہے ، کام اپنا اپنا ہوگا اورماحول ایک جیسا ہوگا ۔

درسگاہیں اور عدالتیں چبوتروں اور درختوں کی چھاؤ ں تلے بھی لگ سکتی ہیں ۔ اور لگتی رہی ہیں ۔ ان کی تعلیم اور فیصلوں کا معیار کہیں بہتر تھا ۔ شرم وحیاء تھی ، بڑوں کا ادب تھا ، چھوٹوں سے شفقت تھی ، انصاف اور عدالتوں کا احترام بھی تھا ، سب سے بڑھ کر یہ کہ خوف خدا تھا۔

صحیح معنوں میں ان کو مجاھد بنا دیجئے ، مجاہد کا کیا کام کہ محلوں میں بیٹھ کر سازشیں کرتے رہیں ۔ پہلے بھی مجاہد ہوتے تھے جن کا جینا اور مرنا مظلوموں کی مدد ہوتا تھا ، ظالم کی گردن زنی ہوتا تھا۔

ختم کر دیجئے یہ بڑی بڑی عمارتوں اور محلوں کا تصور ، جان چھڑوا لیجئے انسانوں کی ان فسادوں سے جن کی خاطر یہ ایک دوسرے پر ؓظلم کرتے ہیں ، ایک دوسرے کا خون پیتے ہیں ، جن کی خاطر ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں ۔ جن کی وجہ سے دھشتگردی کے خطرات ہوتے ہیں۔ جن کے لئے قدرت کے شاہکار قدرتی حسن کو خراب کرکے رکھ دیا ہے انسانوں نے۔ کتنی حسین تھی یہ دنیا ، صاف فضاء ، خوبصورت پہاڑ ، چمکتے دمکتے ریگستان ، دریا ، سمندر ، لہلاتے جنگلات اور باغ و بہاریں ۔

کیا کمی تھی کارخانہ قدرت میں۔

کہہ دیں قوم کو کہ اب یہ مدینہ کی طرز کی فلاحی ریاست ہے اور یہاں جینا اور مرنا انسان ، دین اور خدا کے قانوں کی سرفرازی ہوگا۔

وہ ریاست جس کا سپہ سالار ، سیاستدان ، قاضی ، حکمران ، چوہدری سب مصلے کے امام ہوتے تھے اپنے اپنے علاقوں کی مساجد کے مصلوں اور منبروں پر کھڑے ہونے کے اصل حقدار سمجھے جاتے تھے۔

مدینہ ریاست کے والی کی وراثت یہ محل اور عمارتیں نہیں علم تھا علم
ختم کردیجئے یہ صحافی برادری کی روز روز کی پریشانیاں ، ان کو بھی تعمیری سوچ کی طرف آنے دیں ، مٹ جائیں یہ حسد ، نفرت ، بغض ، فساد اور غیبت کی معاشرتی برائیاں
لوٹ آئیے اپنی اصلیت کی طرف چھوڑ دیجئے یہ سب دھوکے کی سودے بازی ، مٹا دیجئے یہ سب فرق

کیا روز روز کے فیصلے ایک دفعہ ہی فیصلہ کر دیجئے اور بنا دیجئے عمل نمونہ

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
 
Top