"بس......اور نہیں "

سحرش سحر

محفلین
اس زورآوروں کی بستی میں کسی مظلوم اور کمزور انسان کے لیے جینا ایک دردناک تجربہ ہے ۔ مظلومیت، کمزوری اور بے بسی کا احساس ایک نہایت ہی دردناک احساس ہے ۔
کسی ظالم کی زبان سے نکلی ہوئی زہریلی سخت بات یا گالی کمزور انسان کو عرصہ دراز تک ڈستی رہتی ہے اگر تو مد مقابل اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر قادر ہے تو اس زہر کا مزہ وہ مخالف کو بھی چھکا سکتا ہے اور اگر صورتحال اس کے برعکس ہے تو وہ اس زہرکو
اپنے اندر اس خاموشی سے جذب کر لیتا ہے کہ بلا شبہ اس کی گلے کی رگیں تن جاتی ہیں اور اس کے وجود میں سرایت کر جانے والےزہر کی ابال کی شدت انکھوں کے راستہ انسو بن کر زائل ہو جاتی ہے ۔
اس گھڑی اس انسان سے بڑا مظلوم کوئی نہیں ہوتا کہ جس کی مجبوری کے ہاتھوں قیمتی موتی جیسے آنسو ضائع ہو جاتے ہیں ۔ مگر کہا جاتا ہے کہ یہ آنسو ضائع نہیں
جاتے ...بلکہ اس کا قدر دان موجود ہے ...وہ ان موتیوں کی قدرو قیمت جانتا ہے اس لیے تو وہ انہیں نیچے گرنے سے پہلے ہی اس ظالم کے لیے شکنجہ تیار کر لیتا ہے ۔ لیکن خیر اس کی رسی بھی تو بہت دراز ہے ......
""آہ! کون جیتا ہے ظالم کی پکڑ ہونے تک ۔ "
بے بسی کی چکی میں پس کرریزہ ریزہ زندگی کو مٹھی میں سنبھالے لیے جو جینے پر مجبور ہوتے ہیں وہی اصل مظلوم ہیں ۔ اس احساس کی سعادت شاید کم ہی خوش نصیبوں کو اس دنیا میں حاصل ہوتی ہے ۔
اگر غور کیا جائے تو گھر، گلی، محلہ، سماج، ملک اور دنیا کی سطح پر ظالم و مظلوم ایک دوسری سے برسر پیکار ہیں ۔
کیا ظالم اور کیا مظلوم....... کیا احساس برتری اور کیا احساس کمتری ....
سارا مسئلہ حوصلہ کا ہے، ہمت کا ہے ۔
"ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا"
ایک شخص اس وقت تک ظالم ہے جب تک مظلوم اسے موقع دیتارہے گا ۔ مظلوم یہی سوچ کر ظلم کی چکی میں پستا جاتا ہے کہ کہیں اس کی ایک" اہ "اسکی ازمائشوں میں مزید اضافہ نہ کر لے ۔
یہی ڈر اور خوف اسے بزدل بنا کر ظالم کو تقویت پہنچاتا جاتا ہے ۔ سب سے بڑا خوف جان جانے کا ہوتا ہے
مگرظلم سہہ سہہ کر مرنے سے ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے بہادری سے جان دینا ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔
"جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں"
یہ بھی ضروری نہیں کہ ظلم کے خلاف لڑتے لڑتے مظلوم ہی جان کا نذرانہ دے اور سرخرو ہو جائے ......یہ بھی تو ممکن ہے کہ ظالم کی گردن.................... اور مظلوم زندہ رہ کر بھی سرخرو ہو جائے ۔ اگر ظالم انتہا کر سکتا ہے تو مظلوم کیوں نہیں ۔
" دنیا میں کوئی اس سا منافق نہیں قتیل
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا "
۔ جادوگر کی جان جس طرح طوطے میں ہوا کرتی تھی ویسے ہی ظالم کی ساری قوت مظلوم کی کمزوری میں ہوا کرتی ہے جس دن اس نے ظالم کے سامنے سینہ تان کریہ منتر پڑھ کراپنی کمزوری و مظلومیت کا گلا گھونٹ دیا کہ
"بس...........اور نہیں ۔ "
سمجھو کہ ظالم کا اسیب نکل گیا ۔ اب
وہ خود کو بھی بہت ہلکا پھلکا محسوس کرےگا ۔ اب اس کے پاس کرنے کہنے کو کچھ نہیں بچا ۔ اب اپ کا وہ احسان مند ہے اپ نے اسے ظلم سے جو روکا ہے ۔
مظلوم کی مدد کرنے کی بجائے ہمیشہ ظالم کی مدد کرو...............اس کا ہاتھ روک کر....... اسے ظلم کرنے سے بچاو .........مظلوم کی خودہی مدد ہو جائے گی ۔
سحرش سحر
 
آخری تدوین:

احمد محمد

محفلین
اس زورآوروں کی بستی میں کسی مظلوم اور کمزور انسان کے لیے جینا ایک دردناک تجربہ ہے ۔ مظلومیت، کمزوری اور بے بسی کا احساس ایک نہایت ہی دردناک احساس ہے ۔
کسی ظالم کی زبان سے نکلی ہوئی زہریلی سخت بات یا گالی کمزور انسان کو عرصہ دراز تک ڈستی رہتی ہے اگر تو مد مقابل اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر قادر ہے تو اس زہر کا مزہ وہ مخالف کو بھی چھکا سکتا ہے اور اگر صورتحال اس کے برعکس ہے تو وہ اس زہرکو
اپنے اندر اس خاموشی سے جذب کر لیتا ہے کہ بلا شبہ اس کی گلے کی رگیں تن جاتی ہیں اور اس کے وجود میں سرایت کر جانے والےزہر کی ابال کی شدت انکھوں کے راستہ انسو بن کر زائل ہو جاتی ہے ۔
اس گھڑی اس انسان سے بڑا مظلوم کوئی نہیں ہوتا کہ جس کی مجبوری کے ہاتھوں قیمتی موتی جیسے آنسو ضائع ہو جاتے ہیں ۔ مگر کہا جاتا ہے کہ یہ آنسو ضائع نہیں
جاتے ...بلکہ اس کا قدر دان موجود ہے ...وہ ان موتیوں کی قدرو قیمت جانتا ہے اس لیے تو وہ انہیں نیچے گرنے سے پہلے ہی اس ظالم کے لیے شکنجہ تیار کر لیتا ہے ۔ لیکن خیر اس کی رسی بھی تو بہت دراز ہے ......
""آہ! کون جیتا ہے ظالم کی پکڑ ہونے تک ۔ "
بے بسی کی چکی میں پس کرریزہ ریزہ زندگی کو مٹھی میں سنبھالے لیے جو جینے پر مجبور ہوتے ہیں وہی اصل مظلوم ہیں ۔ اس احساس کی سعادت شاید کم ہی خوش نصیبوں کو اس دنیا میں حاصل ہوتی ہے ۔
اگر غور کیا جائے تو گھر، گلی، محلہ، سماج، ملک اور دنیا کی سطح پر ظالم و مظلوم ایک دوسری سے برسر پیکار ہیں ۔
کیا ظالم اور کیا مظلوم....... کیا احساس برتری اور کیا احساس کمتری ....
سارا مسئلہ حوصلہ کا ہے، ہمت کا ہے ۔
"ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا"
ایک شخص اس وقت تک ظالم ہے جب تک مظلوم اسے موقع دیتارہے گا ۔ مظلوم یہی سوچ کر ظلم کی چکی میں پستا جاتا ہے کہ کہیں اس کی ایک" اہ "اسکی ازمائشوں میں مزید اضافہ نہ کر لے ۔
یہی ڈر اور خوف اسے بزدل بنا کر ظالم کو تقویت پہنچاتا جاتا ہے ۔ سب سے بڑا خوف جان جانے کا ہوتا ہے
مگرظلم سہہ سہہ کر مرنے سے ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے بہادری سے جان دینا ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔
"جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تا آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں"
یہ بھی ضروری نہیں کہ ظلم کے خلاف لڑتے لڑتے مظلوم ہی جان کا نذرانہ دے اور سرخرو ہو جائے ......یہ بھی تو ممکن ہے کہ ظالم کی گردن.................... اور مظلوم زندہ رہ کر بھی سرخرو ہو جائے ۔ اگر ظالم انتہا کر سکتا ہے تو مظلوم کیوں نہیں ۔
۔ جادوگر کی جان جس طرح طوطے میں ہوا کرتی تھی ویسے ہی ظالم کی ساری قوت مظلوم کی کمزوری میں ہوا کرتی ہے جس دن اس نے ظالم کے سامنے سینہ تان کریہ منتر پڑھ کراپنی کمزوری و مظلومیت کا گلا گھونٹ دیا کہ
"بس...........اور نہیں ۔ "
سمجھو کہ ظالم کا اسیب نکل گیا ۔ اب
وہ خود کو بھی بہت ہلکا پھلکا محسوس کرےگا ۔ اب اس کے پاس کرنے کہنے کو کچھ نہیں بچا ۔ اب اپ کا وہ احسان مند ہے اپ نے اسے ظلم سے جو روکا ہے ۔
مظلوم کی مدد کرنے کی بجائے ہمیشہ ظالم کی مدد کرو...............اس کا ہاتھ روک کر....... اسے ظلم کرنے سے بچاو .........مظلوم کی خودہی مدد ہو جائے گی ۔
سحرش سحر

بہت خوب۔۔
 
آخری تدوین:

احمد محمد

محفلین
اس بات کی تائید میں چند الفاظ میرے بھی شامل کرلیجئے:-

اول تو یہ کہ ہمارہ معاشرہ زندگی / موت، رزق / افلاس، عزت / ذلت جیسے عناصر کے ڈر اور خوف سے ظلم برداشت کرتا ہے اور ظالم بھی انہی عناصر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ظلم کی انتہا کو پہنچتا ہے حالانکہ یہ سب صرف اللّٰہ کے اختیار میں ہے اور جو کہ صرف آپ کے اپنے اعمال پر منحصر ہے۔

دوئم یہ کہ ہم لوگ غیر جانبداری کا بالکل مظاہرہ نہیں کرتے۔ رشتہ یا تعلق میں ہمارا اپنا ہو یا ہمارا پسندیدہ رہبر (سیاسی، سماجی، معاشرتی وغیرہ کوئی بھی) غلط ہوتو ہم برملا اسکی ہمایت میں کھڑے رہتے ہیں۔ اور ہم میں سے کچھ نام نہاد حقیقت پسند اس وقت اسکے ظلم کی بھرپور ہمایت اسکی تمام ترخوبیاں بیان کرکے کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ بھی بیان کرتے ہیں جو اس کی ذات میں عدم دستیاب ہوتی ہیں۔ اور ہم میں سے کچھ جو اپنے آپ کو باظمیر سمجھتے ہیں، اگر ان میں اضطراب پیدا ہو ہی جائے تو وہ اس وقت ظالم کی اگرچہ خوبیاں بیان نہیں کرتے مگر اسکے برعکس اس کے مخالف یا اس سے پہلے ظالم کی برائیاں ضرور دہراتے ہیں جس سے اس وقت کا موجودہ ظالم درست معلوم ہوتا ہے۔ اس سے دوسروں کی ذہن سازی ہوتی ہے اور وہ بھی خاموشی اختیار کرنے میں قدرے بہتری محسوس کرتے ہیں۔ اور جو ہو رہا ہو اسے ہونے دیا جاتا ہے۔

معذرت کے ساتھ، شدتِ جذبات میں باقی نکات بھول گئے ہیں۔ جب دماغ ٹھنڈا ہوگا تو یاد آئیں گے پھر تدوین کردوں گا۔

مختصر یہ کہ مندرجہ بالا اقدامات سب ظلم کرنے یا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہیں۔ ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار فیض صاحب نے فرمایا تھا کہ

چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
(ظلم سہہ کر روتے رہنا اور اپنے آپ کو لاچار سمجھنا کافی نہیں ہوتا)

تہمتِ عشق، پوشیدہ کافی نہیں
(اپنے آپ کو ظلم کے خلاف سمجھنا اور پھر بھی چپ رہنا کافی نہیں ہوتا)

آج بازار میں، پابجولاں چلو۔۔!
(اب اٹھو اور اعلانیہ ظلم کے خلاف کھڑے ہو جاؤ چاہے آپ کو ظلم کے خلاف آوازاٹھانے کی پاداش میں سرِ بازار بیڑیاں پہن کر ذلیل ہی کیوں نہ ہونا پڑے)۔
 
آخری تدوین:
Top