بس آنکھ لایا ھُوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا ------------------- رفیع رضا

مغزل

محفلین
غزل

بس آنکھ لایا ھُوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا
حوالہ دھیان کا مَیں مُعتبر نہیں لایا

سوائے اسکے تعارف کوئی نہیں میرا
میں وُہ پرندہ ھُوں جو اپنے پر نہیں لایا

نجانے کس کو ضرورت پڑے اندھیرے میں
چراغ راہ میں دیکھا تھاگھر نہیں لایا

مُجھے اکیلا حدِ وقت سے گُزرنا ھے
میں اپنے ساتھ کوئی ھم سفر نہیں لایا

گُلِ سیاہ کِھلا ھے تو رو پڑا ھُوں میں
کہ روشنی کا شجر بھی ثمر نہیں لایا

شُمار کر ابھی چنگاریاں مرے ناقد
کہ مَیں الاؤ اُٹھا کے اِدھر نہیں لایا

مری روانی کی اب خیر ھو مرے مالک
ستارہ ٹُوٹ کے اچھی خبر نہیں لایا!

بھنور نکال کے لایا ھُوں میں کنارے پر
مُجھے نکال کے کوئی بھنور نہیں لایا

رفیع رضا ( ٹورانٹو )
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! عمدہ انتخاب ارسال کرنے پر بہت شکریہ مغل صاحب۔
بس آنکھ لایا ھُوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا
حوالہ دھیان کا مَیں مُعتبر نہیں لایا

اور

نجانے کس کو ضرورت پڑے اندھیرے میں
چراغ راہ میں دیکھا تھاگھر نہیں لایا​
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ! عمدہ انتخاب ارسال کرنے پر بہت شکریہ مغل صاحب۔
بس آنکھ لایا ھُوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا
حوالہ دھیان کا مَیں مُعتبر نہیں لایا

اور

نجانے کس کو ضرورت پڑے اندھیرے میں
چراغ راہ میں دیکھا تھاگھر نہیں لایا​


بہت شکریہ فاتح صاحب
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، کیا خوبصورت غزل ہے اور کیا لاجواب اشعار ہیں، سبحان اللہ!

بس آنکھ لایا ھُوں اور وُہ بھی تَر نہیں لایا
حوالہ دھیان کا مَیں مُعتبر نہیں لایا

نجانے کس کو ضرورت پڑے اندھیرے میں
چراغ راہ میں دیکھا تھا گھر نہیں لایا

گُلِ سیاہ کِھلا ھے تو رو پڑا ھُوں میں
کہ روشنی کا شجر بھی ثمر نہیں لایا

لا جواب!
 
Top