برملا - نصرت جاوید
نجم سیٹھی جیسے مشہور اور بااثر صحافی کے ساتھ دوستی کا دعویٰ میں دوٹکے کا رپورٹر کر ہی نہیں سکتا۔ مراسم ان کے ساتھ البتہ بہت پرانے ہیں۔ ان کی ایک مشہور زمانہ ’’چڑیا‘‘ بھی ہے۔ وہ اقتدار کے مراکز میں اکثرگھس جاتی ہے اور کسی کونے میں چھپی بیٹھی سب کچھ سن لیتی ہے۔
نجم صاحب کی چڑیا جو خبریں لاتی ہے وہ میرے لئے ذاتی طورپر نئی اور حیران کن ہرگز نہیں ہوتیں۔ اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں ان کا ذکر کئی دنوں سے ہورہا ہوتا ہے۔ موصوف کا اصل ہنر مگر ان کچی پکی خبروں کی بنیاد پر داستانیں گھڑلینا ہے۔ داستان گھڑلینا اپنی جگہ کوئی مہارت نہیں۔ اصل ہنر داستان کو بیان کرنے کی صلاحیت ہے جو موصوف میں حیران کن حد تک موجود ہے۔
قصہ گوئی ہمارے خطے کی ایک قدیم روایت ہے۔ درباروں تک دسترس سے محروم انسان ان کے ذریعے شاہوں اور سلطانوں سے قربت کے گمان میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ ایک تخلیقی داستان گو مگر درباروں سے قربت کا جھانسہ دیتے ہوئے کمال مہارت سے شاہوں اور سلطانوں کے دلوں اور دماغوں پر چھائی اقتدار اور ہوس پرستی کو بے نقاب کردیا کرتا تھا۔ اصل مقصد داستان گو کا عام انسانوں کو یہ پیغام دینا ہوتا تھا کہ درباروں کی دنیا سے دوری ہی میں بھلائی ہے۔ نجم سیٹھی کا فنِ داستان گوئی ایسا کوئی پیغام نہیں دیتا۔ موصوف بلکہ اکثر خود بھی درباروں میں بیٹھ کر قربت سلطانی سے لطف اٹھاتے نظر آیا کرتے ہیں۔
اتوار کی شب تو حد ہی ہوگئی۔ قصور کے ایک گائوں میں بچوں کے ساتھ کئی برسوں سے ہوتی درندگی کے بارے میں’’آپس کی بات‘‘ کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے اہم اطلاع یہ دی کہ بچوں کے ساتھ وحشت اور درندگی، پاکستان کے سارے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں ’’معمول‘‘ کی بات ہے۔ اس ’’معمول‘‘ کو یقینا انہوں نے غیر اہم قرار نہیں دیا مگر اپنی توجہ مبذول کردی پھر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی جانب کہ قصور میں کئی برسوں سے جاری واقعات The Nationکی ایک خبر کے ذریعے ’’اب‘‘ منظر عام پر کیوں آئے؟
’’اب کیوں؟‘‘ کا جواب ڈھونڈتے ہوئے موصوف پہنچ گئے بالآخر اراضی پر قبضے سے جڑے ایک قضیے پر جس کے فریق مقامی حوالوں سے بہت طاقتور لوگ ہیں۔ ایک فریق اراضی پر قبضہ کرنے میں ناکام ہوتا نظر آیا تو پہنچ گیا میڈیا والوں کے پاس جنہوں نے نجم سیٹھی کی نظر میں زیاد ہ سوچے سمجھے بغیر ایک ’’سنسنی خیز‘‘ داستان بناکر واویلا مچانا شروع کردیا۔
میں ہرگزسمجھ نہیں پایا کہ نجم سیٹھی کا اصل مقصد کیا تھا۔ قصور کے واقعے کو یقینا انہوں نے Underplayکیا اور ’’بے چاری‘‘ مقامی پولیس کا تھوڑا بہت دفاع بھی جو بظاہر کسی باقاعدہ شکایت کے رجسٹر ہونے کے بعد ہی مجرم کے خلاف متحرک ہوا کرتی ہے۔ سات کے قریب FIRبقول ان کے رجسٹر ہوچکی ہیں۔ مقامی پولیس ان کی روشنی میں آگے بڑھ رہی ہے۔ مساجد کے ذریعے مسلسل اعلانات کروائے جارہے ہیں کہ زیادتی کا شکار ہوئے بچوں کے ورثاء بے خوف وخطر آگے بڑھیں اور اپنی شکایات کا اندراج کروائیں۔ اس کے علاوہ اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے؟!
سچی بات ہے یہاں تک پہنچنے کے بعد میری برداشت نے جواب دے دیا۔ ریموٹ کا بٹن دبا کر ٹیلی وژن کو بند کردیا اور بغیر بتی جلائے اپنے بستر پر لیٹ کر غصے اور بے چینی سے کروٹیں لینے میں کئی گھنٹے گزاردئیے۔
یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو سب سے پہلے کھلے دل کے ساتھ یہ اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ صحافت محض کوئی ’’مشن‘‘ نہیں ہوتا۔ یہ ایک دھندا بھی ہے۔ ہر صحافتی ادارے کو معاشی طورپر زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ Eye Ballsکی ضرورت ہوتی ہے۔ قارئین اور ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھار تھوڑی بہت ’’سنسنی خیزی‘‘ بھی ضروری ہوتی ہے۔
اس اعتراف کے بعد میرا اصرار ہے کہ قصور میں ہوئی درندگی کو بے نقاب کرنے کے بعد اس کو مسلسل فالو اپ کیا جارہا ہے تو صرف اس خاطر کہ جن واقعات کو نجم سیٹھی جیسے جید حضرات پاکستان کے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں کا ’’معمول‘‘ قرار دے رہے ہیں، ان واقعات سے متعلقہ وحشت اور درندگی کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا جائے۔ ’’معمول‘‘ کا گھنائونا پن پوری طرح عیاں ہوگا تو ایسی فضاء بنے گی جہاں ریاست ہی نہیں پاکستان کے عام لوگ بھی اپنے دلوں میں بچوں کے لئے تھوڑا بہت درد محسوس کریں گے اور انہیں شفقت اور نگہبانی کے ماحول میں امید اور مسرت بھری زندگی گزارنے کے قابل بنانے کی خواہش پالیں گے۔
مغرب میں انسانی حقوق کا احساس واحترام ہمارے جیسے معاشروں سے کہیں زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ کئی ماہ سے امریکی میڈیا ٹیلی وژن کے ایک مشہور اداکار اور اینکر کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑا ہوا ہے جس کی جنسی وحشتوں کی بہت ساری کہانیاں دنیا کے سامنے نہیں آئی تھیں۔ برطانیہ میں بچوں کے لئے خصوصی اور مقبول پروگرام کرنے والا ایک اینکر اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اس کی موت کے کئی مہینے گزر جانے کے باوجود آج بھی پوری تندہی سے سراغ لگایا جارہا ہے ایسے لوگوں کا جو اپنے بچپن میں اس کی ہوس کاریوں کا نشانہ بنے تھے۔
مشہور لوگوں سے وابستہ ’’سکینڈل‘‘ ایک حوالے سے ’’سنسنی خیز‘‘ ہی ہوتے ہیں مگر برطانیہ کے اینکر سے وابستہ کہانیوں نے بالآخر فضاء ایسی بنادی کہ برطانیہ کی پارلیمان میں بیٹھے کئی افراداس جیسی حرکات کرتے بے نقاب ہوئے۔ پادریوں سے وابستہ ایسے کئی واقعات تو تقریباََ ہر روز کسی نہ کسی یورپی اخبار کے صفحہ اوّل پر اچھالے جاتے ہیں
بظاہر ’’سنسنی خیز‘‘ کہانیوں کی بدولت ہی یورپ کی تمام ریاستیں مجبور ہورہی ہیں کہ وہ تمام وسائل جو انہوں نے دہشت گردی کی پیش بینی اور سدباب کے مقصد سے یکجا کئے تھے، اب ان درندوں کا سراغ لگانے کے لئے بھی استعمال کریں جو انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو بچوں کے ساتھ ہوس پرستی کی ترغیب دیتے ہیں۔ کم سن بچوں کی ہر جماعت میں چند لمحات مختص ہوتے ہیں۔ ان خاص کلاسوں کے لئے جہاں مختلف ماہرین، رضاکارانہ طورپر ان بچوں کو جنسی درندوں کی موجودگی کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں اور ان سے تحفظ کی تراکیب سمجھاتے ہیں۔
قصور میں ہوئی درندگی کا اصل مقصد بھی محض مقامی پولیس اور اکابرین یا پنجاب حکومت کی مسلسل مذمت نہیں۔ کوشش ہے تو بس اتنی کہ ان واقعات کو جنہیں نجم سیٹھی جیسے جید حضرات بھی شہری اشرافیہ کی مخصوص رعونت کے ساتھ پاکستان کے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں کا ’’معمول‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ برداشت کرنے کا رویہ ترک کردیا جائے۔ وحشت اور درندگی سے نفرت وکراہت ہی انسان کو جانور سے مختلف بناتی ہے۔ مصیبت مگر یہ بھی ہے کہ انسان کو انسان کی صورت قائم رکھنے کے لئے دوٹکے کے میرے جیسے رپورٹروں کو کبھی کبھار ’’سنسنی خیزی‘‘ بھی کرنا پڑجاتی ہے۔
نجم سیٹھی جیسے مشہور اور بااثر صحافی کے ساتھ دوستی کا دعویٰ میں دوٹکے کا رپورٹر کر ہی نہیں سکتا۔ مراسم ان کے ساتھ البتہ بہت پرانے ہیں۔ ان کی ایک مشہور زمانہ ’’چڑیا‘‘ بھی ہے۔ وہ اقتدار کے مراکز میں اکثرگھس جاتی ہے اور کسی کونے میں چھپی بیٹھی سب کچھ سن لیتی ہے۔
نجم صاحب کی چڑیا جو خبریں لاتی ہے وہ میرے لئے ذاتی طورپر نئی اور حیران کن ہرگز نہیں ہوتیں۔ اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں ان کا ذکر کئی دنوں سے ہورہا ہوتا ہے۔ موصوف کا اصل ہنر مگر ان کچی پکی خبروں کی بنیاد پر داستانیں گھڑلینا ہے۔ داستان گھڑلینا اپنی جگہ کوئی مہارت نہیں۔ اصل ہنر داستان کو بیان کرنے کی صلاحیت ہے جو موصوف میں حیران کن حد تک موجود ہے۔
قصہ گوئی ہمارے خطے کی ایک قدیم روایت ہے۔ درباروں تک دسترس سے محروم انسان ان کے ذریعے شاہوں اور سلطانوں سے قربت کے گمان میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ ایک تخلیقی داستان گو مگر درباروں سے قربت کا جھانسہ دیتے ہوئے کمال مہارت سے شاہوں اور سلطانوں کے دلوں اور دماغوں پر چھائی اقتدار اور ہوس پرستی کو بے نقاب کردیا کرتا تھا۔ اصل مقصد داستان گو کا عام انسانوں کو یہ پیغام دینا ہوتا تھا کہ درباروں کی دنیا سے دوری ہی میں بھلائی ہے۔ نجم سیٹھی کا فنِ داستان گوئی ایسا کوئی پیغام نہیں دیتا۔ موصوف بلکہ اکثر خود بھی درباروں میں بیٹھ کر قربت سلطانی سے لطف اٹھاتے نظر آیا کرتے ہیں۔
اتوار کی شب تو حد ہی ہوگئی۔ قصور کے ایک گائوں میں بچوں کے ساتھ کئی برسوں سے ہوتی درندگی کے بارے میں’’آپس کی بات‘‘ کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے اہم اطلاع یہ دی کہ بچوں کے ساتھ وحشت اور درندگی، پاکستان کے سارے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں ’’معمول‘‘ کی بات ہے۔ اس ’’معمول‘‘ کو یقینا انہوں نے غیر اہم قرار نہیں دیا مگر اپنی توجہ مبذول کردی پھر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی جانب کہ قصور میں کئی برسوں سے جاری واقعات The Nationکی ایک خبر کے ذریعے ’’اب‘‘ منظر عام پر کیوں آئے؟
’’اب کیوں؟‘‘ کا جواب ڈھونڈتے ہوئے موصوف پہنچ گئے بالآخر اراضی پر قبضے سے جڑے ایک قضیے پر جس کے فریق مقامی حوالوں سے بہت طاقتور لوگ ہیں۔ ایک فریق اراضی پر قبضہ کرنے میں ناکام ہوتا نظر آیا تو پہنچ گیا میڈیا والوں کے پاس جنہوں نے نجم سیٹھی کی نظر میں زیاد ہ سوچے سمجھے بغیر ایک ’’سنسنی خیز‘‘ داستان بناکر واویلا مچانا شروع کردیا۔
میں ہرگزسمجھ نہیں پایا کہ نجم سیٹھی کا اصل مقصد کیا تھا۔ قصور کے واقعے کو یقینا انہوں نے Underplayکیا اور ’’بے چاری‘‘ مقامی پولیس کا تھوڑا بہت دفاع بھی جو بظاہر کسی باقاعدہ شکایت کے رجسٹر ہونے کے بعد ہی مجرم کے خلاف متحرک ہوا کرتی ہے۔ سات کے قریب FIRبقول ان کے رجسٹر ہوچکی ہیں۔ مقامی پولیس ان کی روشنی میں آگے بڑھ رہی ہے۔ مساجد کے ذریعے مسلسل اعلانات کروائے جارہے ہیں کہ زیادتی کا شکار ہوئے بچوں کے ورثاء بے خوف وخطر آگے بڑھیں اور اپنی شکایات کا اندراج کروائیں۔ اس کے علاوہ اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے؟!
سچی بات ہے یہاں تک پہنچنے کے بعد میری برداشت نے جواب دے دیا۔ ریموٹ کا بٹن دبا کر ٹیلی وژن کو بند کردیا اور بغیر بتی جلائے اپنے بستر پر لیٹ کر غصے اور بے چینی سے کروٹیں لینے میں کئی گھنٹے گزاردئیے۔
یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو سب سے پہلے کھلے دل کے ساتھ یہ اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ صحافت محض کوئی ’’مشن‘‘ نہیں ہوتا۔ یہ ایک دھندا بھی ہے۔ ہر صحافتی ادارے کو معاشی طورپر زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ Eye Ballsکی ضرورت ہوتی ہے۔ قارئین اور ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھار تھوڑی بہت ’’سنسنی خیزی‘‘ بھی ضروری ہوتی ہے۔
اس اعتراف کے بعد میرا اصرار ہے کہ قصور میں ہوئی درندگی کو بے نقاب کرنے کے بعد اس کو مسلسل فالو اپ کیا جارہا ہے تو صرف اس خاطر کہ جن واقعات کو نجم سیٹھی جیسے جید حضرات پاکستان کے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں کا ’’معمول‘‘ قرار دے رہے ہیں، ان واقعات سے متعلقہ وحشت اور درندگی کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا جائے۔ ’’معمول‘‘ کا گھنائونا پن پوری طرح عیاں ہوگا تو ایسی فضاء بنے گی جہاں ریاست ہی نہیں پاکستان کے عام لوگ بھی اپنے دلوں میں بچوں کے لئے تھوڑا بہت درد محسوس کریں گے اور انہیں شفقت اور نگہبانی کے ماحول میں امید اور مسرت بھری زندگی گزارنے کے قابل بنانے کی خواہش پالیں گے۔
مغرب میں انسانی حقوق کا احساس واحترام ہمارے جیسے معاشروں سے کہیں زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ کئی ماہ سے امریکی میڈیا ٹیلی وژن کے ایک مشہور اداکار اور اینکر کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑا ہوا ہے جس کی جنسی وحشتوں کی بہت ساری کہانیاں دنیا کے سامنے نہیں آئی تھیں۔ برطانیہ میں بچوں کے لئے خصوصی اور مقبول پروگرام کرنے والا ایک اینکر اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اس کی موت کے کئی مہینے گزر جانے کے باوجود آج بھی پوری تندہی سے سراغ لگایا جارہا ہے ایسے لوگوں کا جو اپنے بچپن میں اس کی ہوس کاریوں کا نشانہ بنے تھے۔
مشہور لوگوں سے وابستہ ’’سکینڈل‘‘ ایک حوالے سے ’’سنسنی خیز‘‘ ہی ہوتے ہیں مگر برطانیہ کے اینکر سے وابستہ کہانیوں نے بالآخر فضاء ایسی بنادی کہ برطانیہ کی پارلیمان میں بیٹھے کئی افراداس جیسی حرکات کرتے بے نقاب ہوئے۔ پادریوں سے وابستہ ایسے کئی واقعات تو تقریباََ ہر روز کسی نہ کسی یورپی اخبار کے صفحہ اوّل پر اچھالے جاتے ہیں
بظاہر ’’سنسنی خیز‘‘ کہانیوں کی بدولت ہی یورپ کی تمام ریاستیں مجبور ہورہی ہیں کہ وہ تمام وسائل جو انہوں نے دہشت گردی کی پیش بینی اور سدباب کے مقصد سے یکجا کئے تھے، اب ان درندوں کا سراغ لگانے کے لئے بھی استعمال کریں جو انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو بچوں کے ساتھ ہوس پرستی کی ترغیب دیتے ہیں۔ کم سن بچوں کی ہر جماعت میں چند لمحات مختص ہوتے ہیں۔ ان خاص کلاسوں کے لئے جہاں مختلف ماہرین، رضاکارانہ طورپر ان بچوں کو جنسی درندوں کی موجودگی کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں اور ان سے تحفظ کی تراکیب سمجھاتے ہیں۔
قصور میں ہوئی درندگی کا اصل مقصد بھی محض مقامی پولیس اور اکابرین یا پنجاب حکومت کی مسلسل مذمت نہیں۔ کوشش ہے تو بس اتنی کہ ان واقعات کو جنہیں نجم سیٹھی جیسے جید حضرات بھی شہری اشرافیہ کی مخصوص رعونت کے ساتھ پاکستان کے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں کا ’’معمول‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ برداشت کرنے کا رویہ ترک کردیا جائے۔ وحشت اور درندگی سے نفرت وکراہت ہی انسان کو جانور سے مختلف بناتی ہے۔ مصیبت مگر یہ بھی ہے کہ انسان کو انسان کی صورت قائم رکھنے کے لئے دوٹکے کے میرے جیسے رپورٹروں کو کبھی کبھار ’’سنسنی خیزی‘‘ بھی کرنا پڑجاتی ہے۔