برائے تنقید و اصلاح

Wajih Bukhari

محفلین
محرم

13 ستمبر 2018


تلاطم اشک کا آنکھوں میں پھر برپا ہوا ہے

وہی صدیوں پرانا رنج پھر تازہ ہوا ہے


لگے تھے قفل جو دل پر وہ اب کھلنے لگے ہیں

گھٹن کا دور اب جا کر کہیں پورا ہوا ہے


رواں ہے آنسوؤں کا سیل آنکھوں سے مسلسل

یہ کیسا غم ہے جس سے دردِ دل اچھا ہوا ہے


اے ماہِ اشک استقبال کو حاضر ہوا ہوں

شجر سیراب کردے دل کا جو سوکھا ہوا ہے


یہ وہ غم ہے کہ جس پر ہر خوشی قربان کر دوں

یہی دامن ہے بس جو ہاتھ میں تھاما ہوا ہے
 
Top