برائے تنقید: شیشے میں تو جو گردن کے تل کو دیکھتا ہے

شیشے میں تو جو گردن کے تل کو دیکھتا ہے
ہے یوں کہ میرے دل کے قاتل کو دیکھتا ہے
تاروں کی جھرمٹیں ہیں چندا کے گرد لیکن
حسرت سے وہ بھی تیری محفل کو دیکھتا ہے
محدود ہو کے رہنا کس کو قبول ہے یاں
نفرت سے ہر سمندر ساحل کو دیکھتا ہے
وہ آنکھ میرے دل کو یوں دیکھتی ہے جیسے
تلوار لے کے قاتل بسمل کو دیکھتا ہے
ہم دیکھتے ہیں انکی وہ سایہ دار زلفیں
جیسے کہ اک مسافر منزل کو دیکھتا ہے
 
Top