عاطف ملک
محفلین
جناب ادریس بابر کی زمین میں طبع آزمائی کی اپنی سی کوشش کی ہے
اساتذہ کرام کی خدمت میں پوسٹ مارٹم کے لیے پیش ہے
زیست اپنی کا ہے اتنا سا خلاصہ مِرے دوست
چاہتیں بانٹ کے بھی چین نہ پایا مِرے دوست
سوکھے تنکوں کی طرح دل کو جلا ڈالے جو
کیا کبھی تم نے بھی وہ روگ ہے پالا مِرے دوست
لُٹ گئی چشمِ زدن میں مِرے دل کی دنیا
اور بدلے میں ملا بھی تو دلاسا مِرے دوست
پھول چہرہ شَربَتِی ہونٹ غزل سی آنکھیں
نقش ہے دل پہ ابھی تک وہی چہرہ مِرے دوست
آسماں شب میں بہت دیر تلک رویا جب
تذکرہ اس سے کیا میں نے تمہارا مِرے دوست
میں ہوں خوابوں کے بیاباں میں کہیں تشنہ لب
تِرے قبضے میں ہے تعبیر کا دریا مِرے دوست
غیر کو دل میں بساؤں مجھے ہے نامنظور
اور تِرا ہونے نہیں دیتی یہ دنیا مِرے دوست
دل یہ کم بخت تِری یاد سے ہٹتا ہی نہیں
روز کرتا ہے نیا ایک تماشا مِرے دوست
قلبِ عاطف سے نکلتی ہے تو بس اک ہی دعا
تیرا دامن رہے خوشیوں سے بھرا..... جا مِرے دوست
اساتذہ کرام کی خدمت میں پوسٹ مارٹم کے لیے پیش ہے
زیست اپنی کا ہے اتنا سا خلاصہ مِرے دوست
چاہتیں بانٹ کے بھی چین نہ پایا مِرے دوست
سوکھے تنکوں کی طرح دل کو جلا ڈالے جو
کیا کبھی تم نے بھی وہ روگ ہے پالا مِرے دوست
لُٹ گئی چشمِ زدن میں مِرے دل کی دنیا
اور بدلے میں ملا بھی تو دلاسا مِرے دوست
پھول چہرہ شَربَتِی ہونٹ غزل سی آنکھیں
نقش ہے دل پہ ابھی تک وہی چہرہ مِرے دوست
آسماں شب میں بہت دیر تلک رویا جب
تذکرہ اس سے کیا میں نے تمہارا مِرے دوست
میں ہوں خوابوں کے بیاباں میں کہیں تشنہ لب
تِرے قبضے میں ہے تعبیر کا دریا مِرے دوست
غیر کو دل میں بساؤں مجھے ہے نامنظور
اور تِرا ہونے نہیں دیتی یہ دنیا مِرے دوست
دل یہ کم بخت تِری یاد سے ہٹتا ہی نہیں
روز کرتا ہے نیا ایک تماشا مِرے دوست
قلبِ عاطف سے نکلتی ہے تو بس اک ہی دعا
تیرا دامن رہے خوشیوں سے بھرا..... جا مِرے دوست